مادہ پرستی(Materialism) آج کے دور کا سب سے بڑا شرک ہے۔ اس فلسفہ کے مطابق اس کائنات کا کوئی خالق موجودنہیں ہے یعنی فرعون ونمرود کی طرح اس فلفسہ کے قائلین نے بھی اس کائنات کے رب وخالق ومالک و رازق ومدبرکا انکار کیا ہے اور مادہ (Matter)ہی کو اصل یا کل حقیقت قرار دیا ہے۔ اس فلسفہ کے مطابق مادہ قدیم اور ہمیشہ سے ہے اور ہر دور میں اپنی شکلیں بدلتا رہا ہے ۔ پس اس کائنات یا انسان کا وجود ایک حادثہ ہے جس کے پیچھے کوئی محرک، مسبب الاسباب یا علۃ العلل موجود نہیں ہے۔مادہ پرستوں یا منکرین خدا کی ایک الجھن ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ اگر ہم خدا کے وجود کا انکار کر دیں تو اہل مذہب کے بالمقابل اس کائنات اور انسان کے بارے کیا توجیہ پیش کریں کہ یہ انسان کہاں سے آیا ہے؟ کیسے پیدا ہوا ہے؟ یہ کائنات کیسے وجود میں آ گئی ہے؟واقعہ یہ ہے کہ ان سوالات کا کوئی جواب مادہ پرستوں کے پاس نہیں تھا یہاں تک کہ ڈاروان نے اپنا نظریہ ارتقا پیش کیا تو مادہ پرستوں کی تو گویا عید اور چاندی ہو گئی اور انہیں اس کائنات اور انسان کے وجود کے بارے ایک عقلی ومنطقی توجیہ ہاتھ آ گئی۔ ڈارون نے ارتقا کا جو نظریہ پیش کیا تھا وہ اس کے ذاتی مشاہدات پر مبنی تھا جبکہ آج کی سائنس اور سائنسی حقائق اس ڈارونی نظریہ ارتقا کی بنیادیں ہلا چکے ہیںاور اس نظریہ ارتقا کومستقل طور پر ردی کی ٹوکری میں پھینک چکے ہیں لیکن مادہ پرستوں کے لیے ڈاروان کے نظریہ ارتقا کی سائنسی تردید ، موت سے کم نہیں ہے کیونکہ نظریہ ارتقا کے غلط ثابت ہو جانے سے ان کی فلسفہ مادہ پرستی کی واحد عقلی ومنطقی توجیہ ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو خلا میں محسوس کرتے ہیں جہاں ان کے پاس کے اس کائنات اور انسان کے وجود کے بارے اہل مذہب کے بالمقابل کوئی توجیہ باقی نہیں رہتی اور اہل مذہب ان پر ہنس رہے ہوتے ہیں کہ عقل کے یہ پجاری اپنے وجودوماحول کی موجودگی کی بھی کوئی توجیہ کرنے سے قاصر ہیں۔
ہارون یحی ترکی کے معروف قلم کار ہیں جو فری میسنری یہودی تحریک اور مادہ پرستی کی عالمی الحادی تحریک کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ ہارون یحی نے اپنی اس کتاب میں ان تمام سائنسی حقائق اورمعروف سائنسدانوں کے اقوال کو جمع کیا ہے جو ڈارون کے نظریہ ارتقا کی سائنسی موت ثابت ہوئے ہیں۔ہارون یحی نے فوسل ریکارڈ سے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ اس کائنات پر تخلیق کی ابتدا اچانک ہوئی ہے نہ کہ ارتقاء اً۔اشتراکیت کے بانی کارل مارکس کو بھی اپنی الحادی فکر کے لیے جائے پناہ ڈارون کے نظریہ ارتقا میں ملی اور اس نے ’داس کیپیٹل‘ کے جرمن ایڈیشن کا انتساب ڈارون کے نام کیا ہے۔ آج یہ نظریہ بیالوجی اور حیاتیات کے نام سے لاشعوری پر انسانوںکے ذہنوں میں راسخ کرتے ہوئے انہیں انکار خدا کی طرف مائل کیا جا رہاہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ہارون یحی نے ڈارون کے نظریہ ارتقا کے فروغ میں مادہ پرستوں اور منکرین خدا کے مکر وفریب کی دھجیاں بکھیردی ہیں۔ بہر حال ڈارونی نظریہ ارتقا کے حاملین ملحدین، منکرین خدا اور مادہ پرستوں کی رات کی نیندیں اڑانے کے لیے عقلی، منطقی اور سائنسی دلائل پر مبنی ایک بہترین کتاب ہے۔ کتا ب کی طباعت اور کاغذ کا معیار نہایت ہی عمدہ اور معیاری ہے۔
دین اسلام نے زبان کی حفاظت کا خصوصیت سے حکم جاری فرمایا ہے بلکہ ایک روایت کے مفہوم کے مطابق آپ نے اس شخص کو جنت کی ضمانت دی ہے جو اپنی شرم گاہ اور زبان کی حفاظت فرمائے۔گالی دینے والے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو بات بات پر گالی دیتے ہیں گویا کہ گالی ان کا تکیہ کلام بن چکی ہوتی ہے اور دوسرے وہ لوگ جو کبھی کبھار گالی دیتے ہیں۔ گالی کی یہ دونوں صورتیں شرعا ممنوع ہیں اگرچہ پہلی صورت زیادہ قبیح ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں گالی کی متفرق صورتوں اور ان کے بارے کتاب وسنت کی وعیدوں کو جمع کیا گیا ہے۔ مصنف نے اپنی اس کتاب میں اللہ تعالیٰ، اللہ کے رسول ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین، والدین،بیوی،غلام وخادم،اہل ایمان،گناہ گار مسلمان،شیطان، معبودان باطلہ، فوت شدگان، مرض،جانوروں، زمانے اور ہوا وغیرہ کو گالی دینے کے بارے قرآن وسنت کی وعیدیں جمع کی ہیں۔ اپنے موضوع پر ایک جامع اصلاحی کتاب ہے اور جو لوگ گالی دینے کی عادت بد میں مبتلا ہوںانہیں خاص طور پر اس کتاب کے مطالعہ کی تلقین کرنی چاہیے۔اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:
المسلم من سلم المسلون من لسانہ ویدہ۔
مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
یہ کتاب اس حدیث پرعمل کرنے کے لیے ایک رہنما کتاب ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور آپ کی اطاعت کے بغیر ہمارے ایمان ناقص ہے۔ پس آپ کی ذات سے محبت اورآپ کی اطاعت دین میں مطلوب ومقصود ہے۔محبت میںغلو آ ہی جاتا ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سابقہ اقوام نے بھی اپنے انبیاءکی محبت میںغلو کرتے ہوئے انہیں معاذ اللہ ، اللہ کا بیٹا بنا لیا ہے جیسا کہ عیسائیوں کا حضرت عیسی ؑ کے بارے عقیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی امت کو اپنی تعریف میں غلوکرنے سے منع فرمایا ہے۔ایک روایت کا مفہوم ہے کہ آپ نے تلقین کی کہ میری تعریف میں ایسا مبالغہ نہ کرنا جیسا کہ نصاری نے حضرت عیسی ؑ کی تعریف میں مبالغہ کیا ہے۔آپ کے مقام ومرتبہ کے بیان یامدح وثنا میںاہل حدیث کا کوئی اختلاف نہیںہے بلکہ وہ اسے جزو ایمان قرار دیتے ہیں، اختلاف اس صورت میں ہے جب آپ کے مقام ومرتبہ کے بیان یا نعت گوئی میں آپ کو اللہ کی ذات یااسماء و صفات کا شریک قرار دیا جائے کہ جس کی تردید کے لیے آپ نے اپنی ساری زندگی کھپا دی۔
بریلوی مسلک کے فضلا اللہ کے رسول ﷺ کی مدح وثنا میں غلو کرتے ہوئے آپ کو ہر جگہ حاضر ناظر ثابت کرتے ہیں یا آپ کو ابتدائے کائنات سے قیام قیامت تک کی جزئیات و کلیات کا عالم الغیب ثابت کرتے ہیں۔ بریلوی حضرات کے اس غلو کے جواب میں مولانا عبد الرؤوف رحمانی صاحب نے ایک رسالہ ’تردید حاضر وناظر‘ کے نا م سے لکھا ہے۔جس کا جواب ایک بریلوی فاضل نے ’الشاہد‘ کے نام سے دیا۔ اس ’الشاہد‘ کے جواب میں مولانا محمد رئیس ندوی صاحب نے ’تصحیح العقائد بابطال شواھد الشاھد‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ بریلوی فاضل کی طرف سے اس کتاب کا جواب ’الشاہد‘ کے جدید ایڈیشن کی صورت میں دیا گیا۔ مولانا رئیس ندوی ؒ نے بھی اس جدید ایڈیشن کا جواب ’تصحیح العقائد‘ کے جدید ایڈیشن کے ذریعے دیا اور اب یہ کتاب اللہ کے رسول ﷺ کے عالم الغیب ہونے، حاضر ناظر ہونے، اللہ کے نبی ﷺ کے سایہ کے ہونے اور آپ کے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے بارے ایک بنیادی مصدر کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔کتاب کا اسلوب مجادلانہ اور مناظرانہ ہے کیونکہ درحقیقت یہ ایک تحریری مناظرہ ہی ہے اور یہ اسلوب کی سختی دونوں طرف سے ہی پائی جا رہی ہے بلکہ یہ کہنا بھی مناسب ہو گا کہ اس سختی کی ابتدا مولانا احمد رضاخان کے مزاج سے ہوئی ہے اور وہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے ان مسائل میں اپنے مخالفین کو گمراہ، ضال، بدعتی، کافر،مشرک اور جو گالی ممکن ہو سکتی تھی، دی ہے اور یہ نازیبا کلمات آج بھی ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔ایک طرف مزاج اور اسلوب میں تشدد اور سختی ہو تو دوسری طرف بھی آ ہی جاتی ہے۔ بہرحال پھر بھی اس مجادلانہ و مناظرانہ اسلوب سے صرف نظر کرتے ہوئے کتاب اپنے موضوع پر ایک علمی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما یا اور آزمائش کے لیے اس دنیا میں بھیج دیا ہے۔ اور اس سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس دنیا میں بن دیکھے اس پر ایمان لائے جسے اصطلاح میں ایمان بالغیب کہا جاتا ہے۔ انسانوں کے ایمان بالغیب اور معرفت الہٰی کی تکمیل کے لیے قرآن مجید میں باربار تذکیر اور یاد ہانی کا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے اپنی کتاب ’الفوز الکبیر‘ میں لکھا ہے کہ قرآن مجید میں یاددہانی کے دو طریقے اختیار کیے گئے ہیں ایک تذکیر بآلاء اللہ اور دوسرا تذکیر بایام اللہ۔ تذکر بآلاء اللہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نعمتوں اور فضل کے ذریعے انسانوں کواپنا شکر ادا کرنے کی یاد دہانی کرواتے اور اللہ کا شکر ادا کرنے میں سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے۔ تذکیر بایام اللہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سابقہ اقوام پر بھیجے ہوئے عذابوں کے قصص بیان کر کے انسانوں کو ایمان بالغیب کی دعوت دیتے ہیں اور نہ ماننے والوں کوپچھلی اقوام کے حشر سے سبق حاصل کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ معروف ترکی مصنف ہارون یحی کی اس کتاب کا موضوع بھی تذکیر بایام اللہ ہے اور انہوںنے دنیا پر آنے والے زلزلوں، سیلابوں اور طوفانوں کے ذریعے انسانی تہذیبوں کے مٹنے کی ایک داستان عبرت رقم کی ہے اور عصرحاضر کے مادہ پرست انسان کو اس دنیا کی حقیقت سے روشناس کروایا ہے اور وہ حقیقت اس کا زوال ہے، چاہے انسان کی ذات کا زوال ہو یا قوم و ملککا، تہذیب وتمدن کا ہو یا سلطنت وجاہ کا۔ یہی زوال اس دنیا کی حقیقت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وإنا لجاعلون ما علیھا صعیدا جرزا۔(الکھف : ۸)
اور جو کچھ اس زمین پر ہے بلاشبہ ہم اسے چٹیل میدان بنا کر چھوڑنے والے ہیں۔
ہارون یحی جمہوریہ ترکی کے ایک معروف مصنف ہیں جنہوں نے مادیت اور فری میسزی یہودی تحریکوں کی تردید میں متعددکتابیں لکھی ہیں۔ ہارون یحی اس وقت دنیا میں مادیت پرستی(Materialism) اور ڈاونزم(Darwanism) کا سب سے بڑا ناقد ہے۔ عموماًہارون یحی کی تحریروں میں اللہ کی قدرتوں، نشانیوں اورتخلیق کے نمونوں کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔مصنف کی یہ کتاب بھی اس کائنات میں بکھرے ہوئے عجائبات کے ذریعے اپنے خالق و رب کی معرفت حاصل کرنے کی ایک سعی وجہد ہے۔اللہ کی معرفت کے حصول کے دو طریقے ہیں ایک تو خبرجو انبیا ورسل اورکتب سماویہ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور دوسرا اللہ کی پیدا کی ہوئی اس کائنات پر غوروفکر جسے قرآن مجید تفکرکا نام دیتا ہے۔ قرآن مجید میں انسانوں کو بار بار اس کائنات، اپنے ماحول، زمین وآسمان اور اپنی ذات میں تفکر اور غور وفکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ انسان اس غوروفکر کے نتیجے میں اپنے خالق اور محسن حقیقی کی معرفت حاصل کر ے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إن فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھار لآیات لأولی الألباب۔الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموات والأرض ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار۔(آل عمران : ۱۹۰۔۱۹۱)
بلاشبہ زمین وآسمان کی پیدائش میں اور دن ورات کے آنے جانے میں اہل عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔جو لوگ کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے ہوئے اللہ کا ذکرکرتے ہیں اور زمین وآسمان کی پیدائش میں غورو فکر کرتے ہیں[یہ کہتے ہوئے] اے ہمارے رب! آپ نے اس کو باطل پیدا نہیں فرمایا۔ ہم آپ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
سيرت دينی موضوعات ميں سے ايک اہم تر موضوع ہے جس ميں اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم کي ذاتی اور شرعی زندگی کامطالعہ کيا جاتا ہے۔ايک مسلمان ہونے کے ناطے ہماری يہ بنيادی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہميں اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم کي ذات، حالات، شمائل اور سيرت سے واقفيت ہونی چاہيے۔ ہر دور ميں اہل علم نے سيرت پر کتابيں لکھی ہيں۔امام محمد بن اسحاق (متوفی152ھ) کی کتاب سيرت ابن اسحاق اس موضوع پر پہلی جامع ترين کتاب شمار ہوتی ہے اگرچہ امام محمد بن اسحاق سے پہلے صحابہ وتابعين ميں سے 40 افراد کے نام ملتے ہيں جنہوں نے سيرت کے متفرق ومتنوع پہلوؤں پر جزوی بحثيں کي ہيں۔اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم کي سيرت پر مختلف اعتبارات سے کام ہوا ہے جن ميں ايک اہم پہلو سيرت کا فقہی اور حکيمانہ پہلو بھی ہے يعنی فقہی اعتبار سے سيرت کو مرتب کرنا اور اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم کے اعمال و افعال کی حکمتيں بيان کرنا۔ امام ابن القيم (متوفی 751ھ)کی کتاب ’زاد المعاد‘ سيرت کے انہی دو پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کي گئی ہے۔بعض اہل علم نے ’زاد المعاد‘ کو فلسفہ سيرت کی کتاب بھی کہا ہے جبکہ بعض اہل علم کا کہنا يہ ہے کہ امام صاحب کي يہ کتاب ’عملی سيرت‘ کی ايک کتاب ہے۔ امام ابن القيم کی اس کتاب کا ايک خوبصورت اختصار شيخ محمد بن عبدا لوہاب ؒ نے ’مختصر زاد المعاد‘ کے نام سے کيا ہے جسے سعيد احمد قمر الزمان ندوی نے اردو ترجمہ کی صورت دی ہے۔ امام ابن القيم ؒ کی اس کتاب ميں بعض بہت ہی نادر اور قيمتی و علمی نکات بھی منقول ہو ئے ہيں جو ان کے روحانی مقام ومرتبہ پر شاہد ہيں خاص طور پر ص 350 پر نظر بد کے علاج کي بحث ارواح کی خصوصيات کے بارے عمدہ بحث کی گئی ہے۔ بلاشبہ امام صاحب کی يہ کتاب سيرت کے فقہی،علمی، حکيمانہ اور فلسفيانہ پہلوؤں کو محيط ہونے کے ساتھ ساتھ سيرت کا ايک مستند مصدر وماخذ بھی ہے جس کا اختصار افادہ عام کے ليے شيخ محمد بن عبد الوہاب ؒ نے کياہے۔
کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ دین اسلامی کے بنیادی مصادر ہیں۔ اہل علم نے ہر زمانہ میں تفسیر اور حدیث کے علم کے نام سے ان مصادر دینیہ کی خدمت کی ہے۔ احادیث رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اس پر علمی وتحقیقی کام ہوا ہے۔ بعض محدثین نے صحیح احادیث کو جمع کرنے کا التزام کیا تو بعض دوسروں نے فقہی موضوعات کے تحت روایات کو اکٹھا کیا۔ بعض اہل علم نے صحابہ کی روایات کو جمع کرتے ہوئے مسانید کو مرتب کیا تو بعض احکام سے متعلقہ ضعیف اور موضوع روایات پر متنبہ کرنے کے لیے مستقل تصانیف لکھیں۔ حدیث پر مختلف گوشوں میں سے ایک اہم گوشہ احکام الحدیث کا بھی ہے۔ مختلف ادوار میں فقہائے محدثین نے احکام سے متعلقہ روایات کو چھوٹے بڑے حدیث کے مجموعوں کی شکل میں مرتب کیا ہے۔ ان مجموعوں میں سے ایک اہم مجموعہ ’عمدۃ الأحکام فی کلام خیر الأنام‘ ہے جسے امام عبد الغنی المقدسی متوفی ۴۰۰ھ نے مرتب کیا ہے۔ اس مجموعہ حدیث کی خصوصیت اور امتیاز یہ ہے کہ یہ صحیحین میں منقول احکام سے متعلقہ روایات پر مشتمل ہے۔ پس اس پہلو یہ ایک انتہائی مستند کتاب ہے۔ مختلف زمانوں میں اہل علم نے اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اس کی عربی شروحات لکھی ہے۔ افادہ عام کے لیے مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے اس کا اردوترجمہ اور شرح لکھی ہے ۔ کتاب کا اسلوب نہایت ہی آسان فہم ہے۔ سب سے پہلے حدیث بیان کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ’معنی الحدیث‘ کے عنوان سے اس کا ترجمہ بیان کیا گیاہے۔ اس کے بعد ’مفردات الحدیث‘ کے نام سے حدیث کے مشکل الفاظ کی ضاحت کی گئی ہے۔ اس کے بعد ’مفہوم الحدیث‘حدیث کا ایک عمومی مفہوم بیان گیا ہے اور سب سے آخر میں ’احکام الحدیث‘ کے عنوان سے حدیث سے مستنبط شدہ مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ہر زمانہ میں اہل علم نے کتاب وسنت کی ترویج اور نشر واشاعت کے ساتھ ساتھ ان کے دفاع کا بھی کام کیا ہے۔ بد قسمتی سے مسلمانوں میں بھی ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کی احادیث اور سنن مبارکہ کی حجیت کا قائل نہیں ہے یا اگر قائل ہے تو اس کے استخفاف کے فتنہ میں مبتلا ہے۔ ۱۹۵۶ء میں مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کی ادارت میں ہفت روزہ ’الاعتصام‘کا حجیت حدیث پر ایک خاص نمبر شائع ہوا جس میں برصغیر پاک وہند کے منکرین حدیث کے اعتراضات کا مدلل علمی انداز میں جواب دیا گیا ہے۔ہفت روزہ ’الاعتصام‘ جماعت اہل حدیث کا ایک قدیم اور مستند علمی ترجمان شمار ہوتا ہے۔ اس رسالہ کا اجرا ۱۹۴۹ء میں مولاناعطاء اللہ حنیف کی سرپرستی میں ہوا۔ اس رسالہ نے ’حجیت حدیث‘ کے علاوہ ’تحریک آزادی‘ اور ’اسلامی آئین‘ اور ’حافظ محمد گوندلوی‘ اور ’مولانا محمد حنیف‘ اور ’مولانا عطاء اللہ حنیف‘ وغیرہ پر بھی خاص نمبرز شائع کیے ہیں۔’الاعتصام‘ کے حجیت حدیث نمبر میں مختلف مسالک کے نمائندہ علماء کے مقالہ جات شائع کیے گئے ہیں۔ اس رسالہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے ۲۰۱۰ء میں دوبارہ شائع کیا گیاہے۔ اس رسالہ میں مولانا داؤد غزنوی، مولانا اسحاق بھٹی، مولانا محی الدین قصوری، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانامحمد حنیف ندوی، علامہ محمد اسد، پروفیسر یوسف سلیم چشتی، ڈاکٹر حمید اللہ ، مولانا عطاء اللہ حنیف، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا ہدایت اللہ ندوی، قاضی عبد الرحیم، پروفیسر عبد القیوم، مولانا رئیس احمد جعفری اور مولانا ہدایت اللہ سوہدروی وغیرہ کی تحریریں شامل ہیں۔ ان جلیل القدر علماء کے ناموں ہی سے اس رسالہ کی اہمیت اور علمی مقام کا ایک ہلکا سا اندازہ ہو سکتا ہے۔ افادہ عام کے لیے اس رسالہ کو پی۔ ڈی۔ ایف فارمیٹ میں اپ لوڈ کیا جا رہا ہے تا کہ منکرین حدیث کے جواب میں ایک مصدر کا کام دے۔
ہر دور میں علمائے اسلام نے کتاب وسنت کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ عصر حاضر میں دنیا کے ایک گلوبل ولیج بن جانے کی وجہ سے اہل علم اور خواص کے طبقہ میں یہ ضرورت اور احساس بڑھ گیا ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں کتاب اللہ اور احادیث مبارکہ کے تراجم ہونے چاہییں۔ برصغیر پاک وہند میں قرآن کا سب سے پہلا ترجمہ فارسی میں ہوا جس کے مؤلف شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ تھے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے شاہ عبد القادر ؒ نے قرآن کریم کا اردو زبان میں پہلا ترجمہ کیا۔ اس کے بعد تو گویا تراجم ، حواشی اور تفاسیر کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ سلف صالحین کے سلفی منہج پر لکھے جانے والے قرآنی حواشی میں سے دوکوبہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی، ان میں سے ایک مفتی عبدہ الفلاح صاحب کا ’اشرف الحواشی‘ اور دوسرا مولانا صلاح الدین یوسف صاحب کا ’احسن البیان‘ ہے۔ سلفی منہج پر لکھے جانے والے ا ن حواشی میں ’تیسیر الرحمن لبیان القرآن‘ ایک اہم اضافہ ہے۔ اس حاشیہ کے مولف ڈاکٹر محمد لقمان سلفی ہیں جنہوں نے سعودی عرب سے حدیث میں پی۔ ایچ ۔ڈی مکمل کی ہے۔ڈاکٹر صاحب نے قرآن مجید کے متن کا نہایت ہی سلیس اور آسان فہم ترجمہ بیان کیا ہے۔ اس کے بعد حاشیہ میں شروع میں وہ سورۃ مبارکہ کے نام، زمانہ نزول،شان نزول اور فضائل سورۃ، اگر موجود ہوں،پر بحث کرتے ہیں۔ حواشی میں احادیث کے بیان میں صحیح اور مستند روایات کا التزام کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں سلف صالحین کی تفاسیر میں سے تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، فتح القدیر، فتح البیان، محاسن التنزیل، تفسیر سعدی اور حافظ ابن القیم کی تفسیر سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔عوام الناس کے لیے بہت ہی مفید حواشی قرآن ہیں۔
اصطلاح فقہاء میں‘احکام شرعیہ میں سے کسی چیز کے بارے میں ظن غالب کو حاصل کرنے کے لئے اس طرح پوری پوری کوشش کرنا کہ اس پر اس سے زیادہ غور وخوض ممکن نہ ہو اجتہاد کہلاتا ہے‘گویا کہ ہر ایسی کوشش جوکہ غیرمنصوص مسائل کا شرعی حل معلوم کرنے کے لئے کی جاتی ہے، اجتہاد ہے۔اور اگر ایسی کوشش اجتماعی ہو یعنی وہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کے تحت ہوتو اجتماعی اجتہاد کہلاتی ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہر علم کا دائرہ اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ ایک مجتہد اور فقیہ کے لئے ہرایک شعبہ علم میں مہارت پیدا کرنا تو دور کی بات ، اس کے مبتدیات کا احاطہ کرنا بھی ناممکن ہو گیا ہے‘مزید برآں فقہ الاحکام( دین) سے متعلق مختلف علوم و فنون پر دسترس رکھنے والے علماء تو بہت مل جائیں گے لیکن فقہ الواقعہ(دنیا) سے تعلق رکھنے والے اجتماعی اور انسانی علوم ومسائل کی واقفیت علماء میں تقریبا ناپید ہے۔آج ایک عالم کو جن مسائل کاسامنا ہے وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ان متنوع مسائل کا صحیح معنوں میں ادراک اور شریعت کی روشنی میں ان کا حل پیش کرنا اکیلے ایک عالم کے لئے تقریباً ناممکن ہے۔اس لیے آج اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ علماء کی انفرادی اجتہادی کاوشوں کے بجائے اجتماعی سطح پر اجتہاد کے کام کو فروغ دیا جائے‘ ایسے ادارے اور فقہی اکیڈمیاں قائم کی جائیں جو اجتماعی اجتہاد کے اس کام کو آگے بڑھا سکیں‘ان اداروں میں عالم اسلام کے ممتاز اور جید علماء کو نمائندگی حاصل ہو۔علماء کے علاوہ مختلف عصری علوم کے ماہرین بھی اس مشاورتی عمل میں شریک ہوںتا کہ زیر بحث مسئلہ کوفنی نقطہ نظر سے سمجھنے میں علماء کی مدد کریں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس قسم کی ملی جلی فکری اوراجتہادی کوششوں سے مسئلہ اور زیادہ نکھر جائے گا، اور تعیین و اطلاق کی ایک لائق عمل شکل اختیار کر لے گا۔اسی طرح کا ایک اجتماعی اور شورائی اجتہاد ہی فقہ اسلامی کی معاصر ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے اورڈاکٹر محمود احمد غازی کے بقول اس اجتماعی اجتہاد کے نتیجے میںایک کوسمو پولیٹن یا اجتماعی فقہ امت مسلمہ کوحاصل ہو سکتی ہے جسے فقہ شافعی ‘فقہ حنبلی ‘فقہ مالکی یا فقہ حنفی کی بجائے ’فقہ اسلامی‘ کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے اور جو سب مذاہب اسلامیہ کے نزدیک قابل قبول ہو گی۔لیکن اس اجتماعی اجتہاد کے ضمن میں علماء کو دو باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا ایک یہ کہ اجتماعی اجتہاد کی صورت علماء کی کسی بھی مجلس یا ’لجنۃ‘ کا اصل مقصود حکم الہی کی تلاش ہو اور باہمی مفاہمت اس مقصد پر کسی طور بھی غالب نہ آنے پائے اور دوسری بات یہ کہ اس اجتماعی جتہاد کو اجماع کا درجہ دے کر اس کی بنیاد پر کوئی تقنین سازی کرتے ہوئے اس کے مخالف رائے رکھنے والے مجتہدین پر جبرااس کا نفاذ نہ کیا جائے۔
اجتماعی اجتہاد کے موضوع پر ابھی تک ایک ہی کتاب سامنے آئی ہے جس کا نام ’ الاجتہاد الجماعی فی التشریع الاسلامی‘ہے۔یہ کتاب ڈاکٹر عبد المجید السوسوہ کی ہے۔ڈاکٹر السوسوہ کی اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد علماء میں اجتماعی اجتہاد کی شرعی حیثیت اور دلائل کے بار ے میں ایک علمی بحث کاآغاز ہوگیا۔بعض علماء نے اجتماعی اجتہاد کے حق میں اور بعض نے اجتماعی اجتہاد کی مخالفت میں مضامین لکھے ہیںاور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ علامہ البانی نے ’السلسلۃ الضعیفۃ ‘ میںالسوسوہ کی کتاب میں موجود بعض اصولی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے ۔ بعض دوسرے علماء مثلا مصطفی الزرقا،مصطفی الشلبی ،محمد یوسف موسی ،محمود شلتوت ،احمد شاکر، ڈاکٹر زکریا البری ،ڈاکٹر محمد عمارۃ، ڈاکٹر محمد الدسوقی ،شیخ عبد الامیرقبلان لبنانی ،محمد عبدہ،بدیع الزمان النورسی اور مفتی شام علامہ شیخ احمد کفتارونے بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ اجتماعی اجتہاد کی تائید میں لکھاہے۔ اس سلسے میں قابل ذکر کام پروفیسر ڈاکٹر طاہر منصوری صاحب کی کاوشوں کے نتیجے میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے زیر اہتمام اجتماعی اجتہا د کے تصور و ارتقاء پر ایک علمی سیمینار کا انعقادہے۔ جس میں ملک بھر سے مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے ممتاز اور جید علماء نے شرکت کی اور اجتماعی اجتہاد سے متعلق اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کیا۔سیمینار کے مقالہ جات انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے تحت کتابی شکل میں شائع بھی ہو چکے ہیں۔زیر نظر مقالہ بھی اجتماعی اجتہاد کے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالہ سے ایک مستند دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اور پنجاب یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ میں پی۔ ایچ۔ڈی (۲۰۰۳۔۲۰۱۰ئ)کے مرحلہ میں مکمل ہوکر جمع ہو چکا ہے ۔
خاندان اسلامی معاشرے کی ایک بنیادی اکائی شمار ہوتا ہے۔ اگر خاندان کا ادارہ مضبوط ہو گا تو اس پر قائم اسلامی معاشرہ بھی قوی اور مستحکم ہو گا اور اگر خاندان کا ادارہ ہی کمزور ہو تو اس پر قائم معاشرہ بھی کمزور ہو گا۔نکاح وطلاق خاندان کے قیام و انتشار کے دو پہلو ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں نکاح وطلاق کے مسائل کو تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔ پاکستان میں ا س فقہ حنفی اور اہل الحدیث کے نام سے دو مکاتب فکر پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ فقہ حنفی میں نکاح وطلاق کے اکثر مسائل شریعت اسلامیہ کی صریح نصوص کے خلاف تو ہیں ہی، علاوہ ازیں عقل ومنطق سے بھی بالاتر ہیں جیسا کہ بغیر ولی کے نکاح کو جائز قرار دینا، پہلے سے طے شدہ حلالہ کو جائز قرار دینا، مفقود الخبر کی بیوی کا تقریبا ایک صدی تک اپنے شوہر کا انتظار کرنا، عورت کا خاوند کے طلاق دیے بغیر خلع حاصل نہ کر سکنا اورایک مجلس کی تین طلاقوں کوتین شمار کرنا وغیرہ۔اہل الحدیث کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں جبکہ حنفی مفتیان کرام ایک مجلس کی تین طلاقوں کا حل حلالہ بتلاتے ہیں جس کے لیے کئی ایک حنفی جامعات اور دارالعلوم اپنی خدمات اس معاشرے میں پیش کر رہے ہیں ۔ بعض حنفی علماء نے حلالہ کی اس قبیح رسم کی بجائے حنفی علماء اور عوام کو اس مسئلے میں اہل الحدیث کے مسلک پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ وہ کتاب وسنت کے دلائل پر مبنی ہے ۔ حنفی علماء میں سے مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا عبد الحلیم قاسمی، مولانا پیر کرم شاہ ازہری اور مولانا حسین علی واں وغیرہ کاموقف یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں عالم عرب کے جید علماء میں سے سید رشید رضا، شیخ جمال الدین قاسمی، ڈاکٹر وہبہ الزحیلی، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، شیخ الأزہر محمود شلتوت اور سید سابق مصری وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے۔بلکہ کئی ایک مسلمان ممالک میں تو تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے کے بارے قوانین بھی نافذ ہوئے ہیں مثلاًمصر میں ۱۹۲۹ء ، سوڈان میں ۱۹۳۵ء، اردن میں ۱۹۵۱ء، شام میں ۱۹۵۳ء، مراکش میں ۱۹۵۸ء، پاکستان میں ۱۹۶۱ء اور عراق میں ۱۹۰۹ء اس بارے کچھ قوانین نافذ ہوئے ہیں۔بعض حنفی علماء یہ دعوی کرتے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے پر اجماع ہے۔ اس اعتراض کا جواب بھی تفصیل سے اس کتاب میں دیاگیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ جمہور علماء کا موقف یہی رہا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی لیکن صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ سلف کے دور میں ہر صدی میں ایسے جید علماء اور فقہاء موجود رہے ہیں جو ایک مجلس کی تین طلاقوں کوایک ہی شمار کرتے رہے ہیں۔ اس کتاب میں مولانا صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تعالیٰ نے نہایت خوبصورتی سے اس مسئلے کا شرعی حل اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ اب حنفی عوام اپنے مفتیان کرام پر چیخ رہے ہیں اور ببانگ دہل یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ حلالے کا حل بتلانے سے بہتر ہے ہمارا سر پھوڑ دو لیکن خدا راہ ہمیں حلالے کی طرف نہ ڈالو۔ ایسے میں اس طرح کے پریشان حنفی عوام کے سامنے کتاب وسنت کی روشنی پر مبنی یہ تحقیقات رکھنی چاہییں تاکہ وہ اپنی زندگی کتاب وسنت کے مطابق کر تے ہوئے فقہی جمود پر مبنی بوجھوں سے اپنی گردنیں آزاد کروا سکیں۔
شاتم رسول کی سزا کے بارے سب سے پہلے مفصل اور مدلل کلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اپنی کتاب ’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘ میں کیا ہے۔ امام صاحب کے اس کتاب کے لکھنے کا سبب ایک نصرانی تھا جس نے آپ کی شان میں گستاخی کی تھی۔ یوں تو عربی زبان میں اس موضوع پر اور بھی کئی کتب موجود ہیں لیکن اردو میں اس پر مواد کافی کم تھا۔ مولانا محمد علی جانباز صاحب نے اس موضوع پراپنی کتاب میں عوام الناس کی معلومات کے لیے بہت سا مواد آسان فہم انداز میں جمع دیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں مغرب میں اللہ کے رسول ﷺ اور قرآن کی اہانت کے واقعات بہت بڑھ گئے ہیں۔ مغرب کی نقالی میں اب مسلمان ممالکمیں موجود سیکولر عناصر اور غیر مسلموں نے بھی اس بارے اپنی زبان دراز کرنا شروع کر دی ہے جیسا کہ سلمان رشدی ، عاصمہ ملعونہ اور راجپال جیسوں کی مثالیں واضح ہیں۔حال ہی میں گورنر پنجاب کے قتل اور حکومت پاکستان کی طرف سے توہین رسالت کی سزا کے ملکی قانون میں تبدیلی کے اقدامات نے اس بات کی ضرورت اور اہمیت کئی گنا بڑھ گئی تھی کہ اس مسئلہ کو اجاگر کیا جائے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی شان میں گستاخی یا آپ کو گالی دینے یا آپ پر کیچڑ اچھالنے کی سزا اور حد شریعت اسلامیہ میں قتل مقرر کی گئی ہے اور اس سے کوئی بھی گستاخ بری الذمہ نہیں ہے۔شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز کا شمار معاصر کبار علمائے اہل الحدیث میں ہوتا ہے۔ ۱۹۵۸ء میں آپ نے جامعہ سلفیہ ، فیصل آباد سے اپنی تدریس کا آغا ز کیا۔اس کتاب کے علاوہ آپ کی معروف کتابوں میں ’سنن ابن ماجہ‘ کی عربی شرح ’انجاز الحاجۃ‘ کے نام سے ہے۔
فضائل اعمال دین کا ایک اہم گوشہ ہے اور اسلامی احکام کی ترغیب وتشویق دین اسلام میں بذاتہ مطلوب ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کو بھی قرآن مجید میں بشیر اور نذیر کے لقب عطا کیے گئے ہیں۔مختلف زمانوں میں علماء اورفقہاء نے اس موضوع پر متفرق کتابیں لکھی ہیں تا کہ لوگوں کو فرائض دینیہ اور مستحبات کی طرف راغب کیا جائے۔ برصغیر پاک وہند میں تبلیغی جماعت کی نصابی کتاب ’فضائل اعمال‘ اسی مقصد سے لکھی گئی تھی لیکن اس کتاب میں بعض موضوع وضعیف روایات اور غیر عقلی ومنطقی واقعات کی موجودگی نے ایک بڑے طبقے کو اس کتاب سے استفادہ کرنے سے روکے رکھا۔ اگرچہ امام نووی ؒ کی کتاب ’ریاض الصالحین‘ فضائل اعمال کی کتاب کی کسی درجے میں ضرورت پورا کرتی ہے لیکن پھر بھی یہ احساس عام تھا کہ فضائل اعمال کے موضوع پر صحیح اور مستند احادیث پر مشتمل ایک مستقل کتاب ہونی چاہیے۔ عربی کے ایک عالم دین شیخ ابو عبد اللہ علی بن محمد المغربی نے اس احساس کا ادراک کرتے ہوئے فضائل کی صحیح اور مستند احادیث پر مشتمل ایک کتاب تالیف کی جس کا ترجمہ اور تشریح جناب عبد الغفار مدنی صاحب نے کیا ہے۔ کتاب میں شروع میں کسی عمل کی فضیلت کے بارے حدیث نقل کی جاتی ہے۔ بعد ازاں اس حدیث کی تخریج دی گئی ہے اور اس کے بعد اس کی شرح بیان کی گئی ہے۔ صحیحین کی روایت پر تو کوئی حکم نہیں لگایا گیا ہے کیونکہ ان دونوں کتابوں کو تلقی بالقبول حاصل ہے لیکن بقیہ کتب کی روایات کے بارے وضاحت کی گئی کہ وہ صحیح ہیں ۔ البتہ بعض مقامات پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مصنف نے غیر صحیحین کی روایت نقل کرنے کے بعد وضاحت نہیں کی ہے کہ یہ روایت صحیح ہے یا نہیں؟ بہر حال مجموعی طور پر ایک مفید کتاب ہے اور عوام الناس کو اس کتاب کے مطالعہ کی ترغیب دینی چاہیے۔
الحاد، لادینیت اور انکار خدا اس دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے جس کی بنیاد اہل سائنس نے مغرب میں رکھ دی ہے۔ ہارون یحی جمہوریہ ترکی کے ایک نامور قلم کار ہیں اور وہ اپنی تحریروں میں جدید مادہ پرستانہ افکار اور نظریات کا شدت سے رد کرتے ہیں۔ ہارون یحی کے خیال میں سائنس اور یہودیوں کی فری میسنز تحریکوں نے انکار خدا کے نکتہ نظر کو عام کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہارون یحی کے بقول مادہ پرستوں کے پاس اس کائنات کی تخلیق کی واحد بھونڈی دلیل ڈارون کا نظریہ ارتقاء ہے جس کے حق میں وہ بغیر سوچے سمجھے دلائل دیتے چلے جاتے ہیں اور اس نظریہ کے دفاع کے لیے کٹ مرنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ سائنس کی دنیا میں دو نظریات کو بہت پذیرائی ملی ایک ڈارون کا نظریہ اور دوسرا بگ بینگ تھیوی۔ یہ دونوں نظریات اس دوسرے کے مخالف ہیں۔ ڈارون کی تھیوری کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے بلکہ مادہ ہمیشہ سے ہے اور اپنی شکلیں تبدیل کرتا رہا ہے یعنی مادہ نے ارتقاء کے مختلف مراحل طے کر کے اس کائنات کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ا س تھیوری کے مطابق مادہ دائمی ہے، ازل سے ہے اور مستقل حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے برعکس سائنس دنیا میں ایک جدید تھیوری بگ بینگ کے نام سے پیش کی گئی ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کائنات اور مادہ ازلی نہیں ہے بلکہ اس کی ایک ابتدا ہے اور ایک وقت میں یہ کائنات اور مخلوقات یک دم بغیر کسی ارتقاء سے گزرے ہوئے وجود میں آ ئے ہیں۔ بگ بینگ کی تھیوری کو ماننے کا لازمی نتیجہ ایک خالق کو ماننا نکلتا ہے۔ اپنی اس کتاب میں ہارون یحی نے بگ بینگ کی تھیوی کی وکالت کی ہے اوراسے سائنس اور قرآن سے صحیح ثابت کیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ہارون یحی، اہل سائنس کی طرح محض بگ بینگ ہی کو نہیں مانتے بلکہ وہ اسے ایک منظم اور بامقصد دھماکہ قرار دیتے ہیں جس سے ایک منظم اوربامقصد کائنات پیدا کی گئی ہے جس کا نظم اور مقصدیت اس کے خالق کے وجود اور وحدہ لاشریک ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی خوش نصیبی کی علامات میں نیک عورت، کشادہ مکان، اچھا پڑوسی اور بہترین سواری ہے۔ایک اور حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے نیک بیوی کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا ہے ۔یہ کتاب بھی نیک اور جنتی عورت کی نشانیوں اور علامات کے بارے ایک مفصل کتاب ہے۔انصار زبیر محمدی صاحب کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں اور عموماً اصلاحی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ مصنف نے اس کتاب میں ایک عورت کو جنتی عورت بننے کے لیے کتاب وسنت میں جن کاموں سے منع کیا گیا ہے اورجن امور کی ترغیب وتشویق دلائی گئی ہے انہیں انتہائی خوبصورتی سے دلائل کے ساتھ مزین کرتے ہوئے حسن ترتیب سے پیش کیا ہے۔اگرچہ بعض مقامات پر مصنف سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ کچھ ایسے واقعات بھی نقل ہوگئے ہیں کہ جن میں شوہرکی اطاعت میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی زور محسوس ہوتا ہے لیکن مجموعی طور پر یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک عمدہ کتاب ہے۔اسی طرح کی ایک کتاب اگر جنتی شوہر کے بارے بھی مصنف کی طرف سے آ جائے تو کم از کم عورتوں کی طرف سے اس شکوہ کا بھی ازالہ ہو جائے گا کہ مرد جب بھی کوئی کتاب لکھتے ہیں تو اس میں اپنے حقوق کے بارے میںہی لکھتے ہیں جبکہ اسلام میں بیوی اور عورتوں کے حقوق کے بھی ایک طویل فہرست ہے جس پر مردوں کو توجہ دینی چاہیے۔
حضرت العلام، محدث العصر جناب محمد گوندلوی ؒ تعالیٰ اپنے وقت کے امام تھے۔ ان کی تدریس اور تالیف کے میدان میں نمایاں خدمات ہیں۔ حضرت العلام کا مطالعہ بہت وسیع اور فکر میں انتہائی گہرائی تھی ۔ ان کے حافظے کی پختگی کی وجہ سے لوگ انہیں چلتی پھرتی لائببریری کہا کرتے تھے ۔ان کی یہ کتاب ایک گوہر نایاب ہے جو ایک بریلوی عالم دین کی تصنیف’جواز الفاتحہ علی الطعام‘ کے جواب میں تحریر کی گئی ہے لیکن اس میں اس خاص مسئلہ کے علاوہ دیگر بدعات، اجتہاد وتقلید، قیاس، شرکیہ عقائد اور رسومات سے متعلق بھی انتہائی وقیع اور علمی تحقیقات پیش کی گئی ہیں۔اس کتاب میں تقلید، ندائے یا رسول اللہ، بشریت رسول، قبروں پر قبے بنانا، چالیسواں اور فاتحہ علی الطعام جیسے مسائل پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ کتاب میں ان فروعی مسائل کے ساتھ ساتھ کچھ اصولی مباحث بھی زیر بحث آئے ہیں جن میں ایک اہم مسئلہ قیاس اور بدعت میں فرق کا ہے۔ کتاب اس قدر علمی مواد پر مشتمل ہے کہ عوام الناس تو کجا، علماء اور متخصصین بھی اس کے مطالعے سے اپنے علم میں گہرائی، وسعت اور رسوخ محسوس کریں گے۔ہم یہ بھی یہاں واضح کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت العلام کی ابحاث میں انتہائی گہرائی ہوتی ہے جس کی وجہ سے عوام الناس کو انہیں سمجھنے میں دقت ہوتی ہے لیکن ایسی مشکل کتابوں کا مطالعہ کرنے سے انسان کی فکر کی پرواز میں بلندی اور علم میں گہرائی و رسوخ پیدا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ’مرکز التربیۃ الإسلامیۃ‘ کو اس کی جزا دے کہ انہوں نے واقعتاً علم کے ایک خزانے کو عوام الناس کے سامنے لانے کے لیے اپنی کوششیں صرف کیں ہیں۔اللہ تعالیٰ حضرات العلام کی اس مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔
اس وقت آپ کے سامنے ’مشکوٰۃ المصابیح‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ ’مشکوٰۃ المصابیح‘ احادیث کا وہ مجموعہ ہےجسے امام بغوی نے ’مصابیح السنۃ‘ کے نام سے حدیث کی مشہور کتابوں صحاح ستہ، مؤطا امام مالک، مسند امام احمد ، سنن بیہقی اور دیگر کتب احادیث سے منتخب کیا ہے۔ پھر خطیب تبریزی نے ’مصابیح السنۃ‘ کی تکمیل کرتے ہوئے اس میں کچھ اضافہ کیا۔ اور راوی حدیث صحابی کا نام اور حدیث کی تخریج کی۔مزید برآں ہر فصل میں ایک باب کا اضافہ کیا۔’مشکوۃ المصابیح‘ کو تین فصول میں تقسیم کیا گیا ہےپہلی فصل میں صحیح بخاری و مسلم کی احادیث بیان کی گئی ہیں۔ دوسری فصل میں وہ احادیث ہیں جن کو دیگر ائمہ نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ تیسری فصل میں شروط کے تحت ایسی چیزیں شامل ہیں جن میں باب کا مضمون پایا جاتا ہے۔ ’مشکوۃ المصابیح‘ کی افادیت کے پیش نظر اس کے متعدداردو تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ اس کا پیش نظر اردو قالب مولانا صادق خلیل مرحوم کی انتھک محنت کا ثمرہ ہے۔ خدا ان کو غریق رحمت کرے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ کتاب کے اردو ترجمے میں ان کی محنت کی جھلک واضح نظر آتی ہے لیکن ترجمے میں بعض جگہ سرسری نقائص کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ مثلاً بعض مقامات پر مشکل الفاظ کا ترجمہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور ٹائٹل پر مولانا کے نام کے ساتھ مترجم و شارح بھی لکھا گیا ہے حالانکہ انہوں نے صرف ترجمہ کیا ہے احادیث کی تشریح نہیں کی۔ بہت نادر مقامات پر بعض حدیثوں کی صرف مختصر وضاحت کی ہے۔ اس کے علاوہ تحقیق و نظر ثانی کے ذیل میں ناصر محمود داؤد کا نام ذکر کرتے ہوئے پیش لفظ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ضعیف رواۃ کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اسماء و رجال کی کتب کے حوالہ جات دئیے گئے ہیں۔ حالانکہ امر واقع اس سے بالکل مختلف ہے۔ اور بہت کم مقامات پر یہ اہتمام نظر آتا ہے۔ اور تحقیق تو کجا مشکوۃ میں بیان کردہ احادیث کی تخریج بھی نہیں کی گئی۔
اس وقت آپ کے سامنے"Reminders for people of understanding" کا اردو ترجمہ’اہل فکر کے لیے یاد دہانی‘ کے نام سے ہے۔ جو محترم امتیاز احمد کی تصنیف ہے۔ فاضل موصوف کے اس سے قبل بھی دو کتابوں کے اردو تراجم اشاعت کے مراحل طے کر چکے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں انہوں نے انسانی زندگی کے مختلف مراحل پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے قرآن کو بنیاد بناتے ہوئے احادیث و اقوال سلف سے مدد لی ہے۔ انہوں نے متعدد عناوین کے تحت جہاں حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت خضر ؑ سے متعلق متعدد واقعات پر روشنی ڈالی ہے وہیں اسلامی اخلاقیات کے باب میں بھی اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ کتاب کا اردو ترجمہ حافظ سلمان الفارس نے کیا ہے۔ ترجمے کے حوالے سے یہ بات قابل غور ہےکہ انہوں قرآنی آیات ذکر کرتے ہوئے صرف اردو تراجم نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔ اگر ان کے ساتھ قرآنی عربی نصوص کا تذکرہ بھی ہوتا تو بہت بہتر ہوتا۔ اس کے علاوہ قرآنی آیات کے ذیل میں بیان کردہ احادیث اور اقوال سلف کی تخریج بھی نہیں کی گئی۔ اس کا اہتمام بھی ہوتا تو کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ بہرحال دین کے چیدہ چیدہ اصولوں سے آگاہی کے لیے یہ کتاب قدرے اہم ہے۔
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے فرستادہ پر نازل کی جانے والی وہ کتاب ہدایت ہے جسے دین اسلام کا منبع اور اولین ماخذ و مصدر قرار دیا دیا گیا ہے۔ یہ قرآن ہی تھا جو ایک ایسے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا جس کی گزشتہ ہزاروں سالوں میں مثال نہیں ملتی۔ ایک بندہ مسلم پر لازم ہے کہ وہ کلام خدا کی تلاوت کرے، اس کے بیان کردہ احکامات کو سمجھے اور ان پر عمل کو یقینی بنائے۔ زیر نظر کتاب ’قرآنی معلومات‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، کتاب حکمت قرآن مجید کے متعلق نہ صرف بیشتر معلومات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہےبلکہ اس میں قرآن کے احکام، اس کے فضائل اور سابقہ امتوں کے احوال کو بھی قرطاس کی زینت بنایا گیا ہے۔کتاب کا انداز بیاں اس قدر سادہ اور عام فہم ہے کہ ہر مسلمان چاہے وہ کسی بھی عمر کا ہواس کو پڑھ کر قرآن جیسے چشمہ صافی سے مستفید ہو سکتا ہے۔ کتاب کو سوال و جواب کے اندا زمیں ترتیب دیا گیاہے۔ اور متعدد عناوین کے تحت 276 سوالات کے جوابات فراہم کیے گئے ہیں۔ کتاب کی جمع و ترتیب کا کام محترم محمد طیب بھواری نے احسن انداز میں کیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر ان نابغہ روز گار ہستیوں میں سے ایک ہیں جو تشریعی اور عصری دونوں علوم میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ آپ نے گلاسکو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری امتیازی حیثیت میں حاصل کی۔ اور بہاولپور یونیوسٹی میں حدیث کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ مسند سیرت کے ڈائریکٹر ہیں۔ ’علوم الحدیث فنی، فکری اور تاریخی مطالعہ‘ اسی مرد مجاہد کے شب و روز کی محنت کا نتیجہ ہے۔ جس کا لفظ لفظ تحقیق و جستجو سے بھرپور ہے۔ ایک شارع کی حیثیت سے رسول اکرم ﷺ کا یہ فرض منصبی تھا کہ آپ ﷺ قرآنی احکامات اور اس کی جملہ جزئیات کی تشریح و توضیح کریں۔ اور یہ تمام تر تفصیلات صرف اور صرف احادیث میں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان نسل در نسل احادیث نبوی کی حزم و احتیاط کے ساتھ حفاظت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ حدیث کی حفاظت کا سب سے پہلے سہرا ان علمائے اصول حدیث کے سر ہے جنہوں نے حدیث کی حفاظت کے لیے بیسیوں علوم متعارف کروائے۔ زیر مطالعہ کتاب میں انہی علوم پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک استاذ حدیث ہونے کے ناطے مصنف موصوف کا احادیث رسول ﷺ کے ساتھ ایک خاص ربط و تعلق ہے اس لیے انہوں علوم الحدیث سے متعلق تمام فنی و فکری مباحث کو قلمبندکرنے میں کسی قسم کی دقیقہ فروگزاشت سے کام نہیں لیا۔ اردو میں اس موضوع پر اس سے پہلے بھی بہت کام ہو چکا ہے لیکن یہ کتاب اس حوالے سے انفرادی حیثیت کی حامل ہے کہ اس میں علوم الحدیث کے ہر موضوع کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر موصوف نے حدیث کی ضرورت و حجیت، اسماء الرجال، جرح و تعدیل، فن تخریج، شروح الحدیث، علم الانساب، علم معرفۃ الاسماء والکنی، لغات الحدیث الغرض حدیث کے کسی بھی موضوع کو تشنہ نہیں چھوڑا۔ مصنف کی جستجو اور لگن کا اندازہ اس سے لگائیے کہ انہوں نے اس کتاب کی تیاری کے لیے جن کتب سے استفادہ کیا ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے جس کی فہرست انہوں نے کتاب کے آخر میں درج کی ہے۔ یقیناً یہ کتاب علوم حدیث کا انسائیکلو پیڈیا اور معلومات کا بحر ذخار ہے۔
شریعت اسلامیہ میں جہاں متعدد احکامات کی تعمیل ضروری قرار دی گئی ہے وہیں بہت سے کاموں سے رکنے کا بھی سختی سے حکم دیا گیا ہے۔ تاکہ نہ صرف دنیوی زندگی کو گل و گلزار بنایا جائے بلکہ اخروی فلاح و کامرانی بھی انسان کے مقدر ٹھہرے۔ زیر نظر مختصر سے کتابچہ میں انہی تشریعی ممانعات کو قدرے اختصار سے قلم بند کیا گیا ہے۔ شیخ صالح المنجد نے تقریباً ان تمام منہایت الہٰیہ کو جمع کر دیا ہے جو قرآن یا احادیث صحیحہ میں موجود ہیں۔ انہوں نے اس کی ترتیب فقہی ابواب پر رکھی ہے۔ مکمل نص ذکر کرنے سے احتراز کرتے ہوئے صرف جزء شاہد پر اکتفاء کیا ہے۔ کتاب میں بیان کردہ منہیات کے حوالہ جات مذکور نہیں ہیں اگر یہ اہتمام ہو جاتا تو کتاب کی افادیت مزید بڑھ جاتی۔
پیش نظر مختصر سے رسالہ میں سعودی عرب کے معتبر مفتیان کے فتاوٰی کی روشنی میں شیعی عقائد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ فتاوی جات میں جہاں شیعہ کے متعدد فرقوں کے بارے میں قیمتی آراء کا اظہار کیا گیا ہے وہیں شیعہ کے سب سے بڑے گمراہ فرقے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ فتاوی جات میں ثابت کیا گیا ہے کہ اہل سنت اور شیعہ میں اختلافات اصولی ہیں اور شیعہ ایک نو ایجاد مذہب ہے۔ ایک سوال کے جواب میں خمینی کے نظریات کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے۔
دین اسلام میں رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے کی شدید مذمت کی گئی ہے لیکن بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ امت مسلمہ خصوصاً بر صغیر پاک و ہند میں اس قدر ضعیف، موضوع اور من گھڑت احادیث مروج ہیں کہ ان کو شمار کرنے کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ ’ضعیف اور موضوع روایات‘ کے نام سے آپ کے سامنے ایسی روایات موجود ہیں جن کو ائمہ جرح و تعدیل نے ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے اور جو ناقابل عمل ہونے کے ساتھ ناقابل بیان بھی ہیں۔ کتاب میں حافظ محمد یحییٰ گوندلوی نے نہایت جانفشانی کے ساتھ ہر حدیث کے عموماً مجروح راوی پر مفسر جرح کی ہے، ضعیف وغیرہ کا حکم ائمہ نقاد کی روشنی میں لگایا ہے، جو روایات حکم کے لحاظ سے مختلف فیہ ہیں ان روایات میں قوی قرائن کو مد نظر رکھا ہے، راویوں پر جرح بحوالہ نقل کی ہے اور جس محدث نے راوی پر جرح کی ہے اس کا نام بھی ذکر کیا ہے۔ کتاب کا تمام تر تنقیدی مواد ائمہ محدثین کی کتابوں سے اخذ کیا گیا ہے اس میں سوائے ترتیب اسلوب اور ترجمہ کے باقی سب محدثین کرام کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔ اس کتاب کو اردو زبان میں پہلی مستقل اور منفرد کتاب کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
شریعت اسلامیہ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں عدل و انصاف کو حددرجہ اہمیت دی گئی ہے۔ عدل و انصاف کا ایک تقاضا یہ ہے کہ ہر صاحب حق کو اس کا حق دیا جائے۔ زیر نظر کتاب میں شیخ صالح العثیمین نے شریعت کے مقرر کردہ تمام فطری حقوق کو یکجا صورت میں پیش کیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق، نبی کریم ﷺ کے حقوق، اولاد و والدین اور پڑوسیوں و رشتہ داروں کے حقوق وغیرہم شامل ہیں۔ ان حقوق کا تفصیلی تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک بندہ مسلم کو تمام تر حقوق سے مکمل معرفت حاصل ہو اور احسن انداز میں ان ادائیگی عمل میں لائی جا سکے۔
دین اسلام میں حلال ذرائع سے کمائی جانے والی دولت کو معیوب قرار نہیں دیا گیا چاہے اس کی مقدار کتنی ہی ہو۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہےکہ دولت انسان کوبارگاہ ایزد سے دورنہ کرے۔ فی زمانہ جہاں امت مسلمہ کو دیگر لا تعداد مسائل کا سامنا ہے وہیں امت کےسواد اعظم کو فکر معاش بری طرح لاحق ہے۔ پیش نظر کتاب ’رزق کی کنجیاں‘ میں معاشی مسائل کا آزمودہ اور کار آمد حل نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر فضل الہٰی ایک علمی و معتدل تعارف رکھنے کے ساتھ ساتھ دین کی صحیح تعبیر کا بھی علم رکھتے ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں قرآن و حدیث کی واضح براہین کی روشنی میں رزق کے حصول کے اسباب کو عام فہم انداز میں بیان کیا ہے۔