الحاد، لادینیت اور انکار خدا اس دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے جس کی بنیاد اہل سائنس نے مغرب میں رکھ دی ہے۔ ہارون یحی جمہوریہ ترکی کے ایک نامور قلم کار ہیں اور وہ اپنی تحریروں میں جدید مادہ پرستانہ افکار اور نظریات کا شدت سے رد کرتے ہیں۔ ہارون یحی کے خیال میں سائنس اور یہودیوں کی فری میسنز تحریکوں نے انکار خدا کے نکتہ نظر کو عام کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہارون یحی کے بقول مادہ پرستوں کے پاس اس کائنات کی تخلیق کی واحد بھونڈی دلیل ڈارون کا نظریہ ارتقاء ہے جس کے حق میں وہ بغیر سوچے سمجھے دلائل دیتے چلے جاتے ہیں اور اس نظریہ کے دفاع کے لیے کٹ مرنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ سائنس کی دنیا میں دو نظریات کو بہت پذیرائی ملی ایک ڈارون کا نظریہ اور دوسرا بگ بینگ تھیوی۔ یہ دونوں نظریات اس دوسرے کے مخالف ہیں۔ ڈارون کی تھیوری کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے بلکہ مادہ ہمیشہ سے ہے اور اپنی شکلیں تبدیل کرتا رہا ہے یعنی مادہ نے ارتقاء کے مختلف مراحل طے کر کے اس کائنات کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ا س تھیوری کے مطابق مادہ دائمی ہے، ازل سے ہے اور مستقل حیثی...
ہارون یحی جمہوریہ ترکی کے ایک معروف مصنف ہیں جنہوں نے مادیت اور فری میسزی یہودی تحریکوں کی تردید میں متعددکتابیں لکھی ہیں۔ ہارون یحی اس وقت دنیا میں مادیت پرستی(Materialism) اور ڈاونزم(Darwanism) کا سب سے بڑا ناقد ہے۔ عموماًہارون یحی کی تحریروں میں اللہ کی قدرتوں، نشانیوں اورتخلیق کے نمونوں کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔مصنف کی یہ کتاب بھی اس کائنات میں بکھرے ہوئے عجائبات کے ذریعے اپنے خالق و رب کی معرفت حاصل کرنے کی ایک سعی وجہد ہے۔اللہ کی معرفت کے حصول کے دو طریقے ہیں ایک تو خبرجو انبیا ورسل اورکتب سماویہ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور دوسرا اللہ کی پیدا کی ہوئی اس کائنات پر غوروفکر جسے قرآن مجید تفکرکا نام دیتا ہے۔ قرآن مجید میں انسانوں کو بار بار اس کائنات، اپنے ماحول، زمین وآسمان اور اپنی ذات میں تفکر اور غور وفکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ انسان اس غوروفکر کے نتیجے میں اپنے خالق اور محسن حقیقی کی معرفت حاصل کر ے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إن فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھار لآیات لأولی الألباب۔الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموات والا...
مادہ پرستی(Materialism) آج کے دور کا سب سے بڑا شرک ہے۔ اس فلسفہ کے مطابق اس کائنات کا کوئی خالق موجودنہیں ہے یعنی فرعون ونمرود کی طرح اس فلفسہ کے قائلین نے بھی اس کائنات کے رب وخالق ومالک و رازق ومدبرکا انکار کیا ہے اور مادہ (Matter)ہی کو اصل یا کل حقیقت قرار دیا ہے۔ اس فلسفہ کے مطابق مادہ قدیم اور ہمیشہ سے ہے اور ہر دور میں اپنی شکلیں بدلتا رہا ہے ۔ پس اس کائنات یا انسان کا وجود ایک حادثہ ہے جس کے پیچھے کوئی محرک، مسبب الاسباب یا علۃ العلل موجود نہیں ہے۔مادہ پرستوں یا منکرین خدا کی ایک الجھن ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ اگر ہم خدا کے وجود کا انکار کر دیں تو اہل مذہب کے بالمقابل اس کائنات اور انسان کے بارے کیا توجیہ پیش کریں کہ یہ انسان کہاں سے آیا ہے؟ کیسے پیدا ہوا ہے؟ یہ کائنات کیسے وجود میں آ گئی ہے؟واقعہ یہ ہے کہ ان سوالات کا کوئی جواب مادہ پرستوں کے پاس نہیں تھا یہاں تک کہ ڈاروان نے اپنا نظریہ ارتقا پیش کیا تو مادہ پرستوں کی تو گویا عید اور چاندی ہو گئی اور انہیں اس کائنات اور انسان کے وجود کے بارے ایک عقلی ومنطقی توجیہ ہاتھ آ گئی۔ ڈارون نے ارتقا کا جو نظریہ پیش کیا تھا وہ ا...
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما یا اور آزمائش کے لیے اس دنیا میں بھیج دیا ہے۔ اور اس سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس دنیا میں بن دیکھے اس پر ایمان لائے جسے اصطلاح میں ایمان بالغیب کہا جاتا ہے۔ انسانوں کے ایمان بالغیب اور معرفت الہٰی کی تکمیل کے لیے قرآن مجید میں باربار تذکیر اور یاد ہانی کا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے اپنی کتاب ’الفوز الکبیر‘ میں لکھا ہے کہ قرآن مجید میں یاددہانی کے دو طریقے اختیار کیے گئے ہیں ایک تذکیر بآلاء اللہ اور دوسرا تذکیر بایام اللہ۔ تذکر بآلاء اللہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نعمتوں اور فضل کے ذریعے انسانوں کواپنا شکر ادا کرنے کی یاد دہانی کرواتے اور اللہ کا شکر ادا کرنے میں سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے۔ تذکیر بایام اللہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سابقہ اقوام پر بھیجے ہوئے عذابوں کے قصص بیان کر کے انسانوں کو ایمان بالغیب کی دعوت دیتے ہیں اور نہ ماننے والوں کوپچھلی اقوام کے حشر سے سبق حاصل کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ معروف ترکی مصنف ہارون یحی کی اس کتاب کا موضوع بھی تذکیر بایام اللہ ہے اور انہو...
قرآنِ حکیم کابڑا حصہ اممِ سابقہ کے احوال وبیان پرمشتمل ہے جو یقیناً غور وفکر کامتقاضی ہے ۔ان قوموں میں سےاکثر نے اللہ کےبھیجے ہوئے پیغمبروں کی دعوت کو مسترد کردیا اور ان کے ساتھ بغض وعناد اختیارکیا۔ ان کی اسی سرکشی کے باعث ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور وہ صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹادی گئیں۔آج کے دور میں بھی ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیقات اوردرفیافتوں کے نتیجے میں قرآنِ حکیم میں بیان کردہ سابقہ اقوام کی تباہی کے حالات قابل ِمشاہدہ ہوچکے ہیں ۔زیر نظرکتاب ’’تباہ شدہ اقوام‘‘ جوکہ معروف رائٹر ہارون یحی کی تصنیف ہے ۔اس میں انہوں نے احکامِ الٰہی سے انحراف کے سبب ہلاک ہونے والے چند معاشروں اور قوموں کا تذکرہ کیا ہے ۔یہ کتاب بتاتی ہے کہ قرآن مجید میں ذکر کی جانے والی یہ اقوام کس طرح تباہ ہوئیں۔اپنے موضوع پر یہ ایک بےمثال کتاب ہے ۔کتاب ہذا کے فاضل مصنف ہارون یحی نے بہت سی سیاسی اور مذہبی کتب لکھیں جو زیور طباعت سے آ...
اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں پوری کائنات میں بکھری پڑی ہیں ،جو اس ذات باری کےو جود پر دلالت کرتی ہیں۔دن اور رات کا آنا جانا،سورج چاند اور ستاروں کی گردش ،سر سبز باغات اور لہلہاتی کھیتیاں ،بلند وبالا پہاڑ اور گہرے سمندر،وسیع وعریض زمین اور گہرے نیلگوں بادل اور یہ پر شکوہ کائنات اللہ تعالی کی قدرت کا مظہر ہیں۔ان تمام چیزوں کو دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر کوئی تو ایسی ہستی ہے جس نے کائنات کو یہ خوبصورت رنگ عطا کئے ہیں اور اس وسیع وعریض نظام کو چلا رہی ہے۔خلاء اتنی وسیع ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔اس کے باوجود یہ نظام اتنی خوبصورتی اور ترتیب سے چل رہا ہے کہ اٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے اور سوتے وقت ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔زیر تبصرہ کتاب "یہ پر شکوہ کائنات"ترکی کے معروف فلسفی اور دانشور محترم ہارون یحیی ﷾کی کاوش ہے،جس کا اردو ترجمہ گلناز کوثر نے کیا ہے۔مولف بیسیوں کتب کے مولف ہیں ۔آپ کی کتب کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ لوگوں میں قرآن کے پیغام کو پھیلایا جائے اور ان کے ایمان واعتقاد کو مستحکم کیا جا...
عہد موجود خواب اور خبر کی یکجائی کا ،بلکہ صحیح تر معنوں میں انسان کی بے خبری کے اعتراف کا دور ہے۔بیسویں صدی اور بالخصوص اس کے آخری ربع میں انسان کی تیز رفتار علمی پیش قدمی اور وسیع ہوتی ہوئی معلومات نے انسان کی لاعلمی کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔گزرتا ہوا ہر پل ان کڑیوں کو باہم مضبوط کر رہا ہے،جو ایک عظیم ڈیزائنر اور لازوال خالق کی نشان دہی کرتی ہیں۔اس حیرت سرا میں کھلنے والا ہر دروازہ ایک نئے جہان کی خبر دیتا ہے،اور اس اعتراف کے بنا کوئی چارہ نہیں کہ انسان ابھی اس جہان کی صرف دہلیز پر کھڑا ہے۔یہ کتاب" کائنات ،نظریہ وقت اور تقدیر" اسی حیرت سرا کی طرف کھلنے والا ایک دریچہ ہے۔یہ کتاب ہارون یحیی کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔ترجمہ کرنے کی سعادت محترم ارشد علی رازی نے حاصل کی ہے۔مصنف 1956ء میں انقرہ ترکی میں پیدا ہوئے ۔آپ نے آرٹس کی تعلیم میمار سینان یونیورسٹی سے اور فلسفے کی تعلیم استنبول یونیورسٹی سے حاصل کی۔آپ کی سیاست ،سائنس اور اسلامی عقائد پر متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں۔آپ کا شمار ان معروف مصنفین میں ہوتا ہے جنہوں نے ارتقاء پرستی اور ارتقاء پرستو...
معمولی سے معمولی زندگی بھی اتفاقا پیدا نہیں ہوئی ،بلکہ اس کو پیدا کرنے والی ایک عظیم ذات ہے جواس ساری کائنات کی مالک ہے۔ یہ لا محدود کائنات ،جس میں ہم رہتے ہیں،کس طرح وجود میں آئی ؟یہ تمام توازن،ہم آہنگی اور نظم وضبط کس طرح سے پیدا ہوئے؟یہ کیونکر ممکن ہوا کہ یہ زمین ہمارے رہنے کے لئے موزوں ترین اور محفوظ قیام گاہ بن گئی؟ایسے سوالات نوع انسانی کے ظہور ہی سے توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ان کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں سائنس دان اور فلسفی ،اپنی عقل ودانش اور عقل سلیم کی بدولت اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات کی صورت گری اور اس میں موجود نظم وضبط کسی اعلی ترین خالق مطلق کی موجودگی کی شہادت دے رہے ہیں۔جو اس ساری کائنات کا خالق و مالک ہے۔یہ ایک غیر متنازعہ سچائی ہے ،جس تک ہم اپنی ذہانت استعمال کرتے ہوئے پہنچ سکتے ہیں۔اللہ تعالی نے اس حقیقت کا اعلان اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں واشگاف الفاظ میں کر دیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " لازوال خالق کے تخلیقی عجائب "ہارون یحیی کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔ترجمہ محترمہ گلناز کوثر نے کیا ہے ۔مصنف 1956ء میں انقر...