اس کتاب میں مصنف نے اسلام کےبارے میں جدید ذہن میں پیداہونے والے شبہات کامدلل اورسائینٹیفک جواب دیاہے ۔اسے پڑھ کراسلام کی شدیدضرورت کااحساس ہوتاہےاوریہ معلو م ہوتاہے کہ اسلامی ہی دنیاکےموجودہ مصائب اوردکھوں کاواحدعلاج ہے۔دراصل ہمیں اپنی کوششیں مخالفین اسلام کی پھیلائی ہوئی ان غلط فہمیوں اورشبہات کے ازالہ تک ہی محدودنہیں رکھنی چاہیئں جووہ ہمیں پریشان کرنے اورمنطقی انداز دفاع اختیارکرنے پرمجبورکرنےکےلیے وقتاً فوقتاًپھیلاتے رہتے ہیں ،بلکہ ضرورت ہے کہ اب ہم زندگی کے مختلف دوائرمیں اسلامی تعلیمات کے اجابی پہلوکواجاگرکریں اوراسلامی قانون کےان پہلوؤں کودنیاکے سامنے نمایاں کریں جن سے زندگی میں اسلامی قانون کامثبت اورنگراں کردارواضح ہوتاہے ۔اس کتاب کی اشاعت میں بھی یہی مقصدکارفرمانظرآتاہے ۔
اللہ عزوجل نے انسان کی ہدایت ورہنمائی کے لیے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبراس دنیامیں مبعوث فرمائے۔ان سب کاپیغام دعوت ایک ہی تھااوروہ تھاکلمہ توحید۔یعنی لوگ صرف اللہ تبارک وتعالی ٰ ہی کوعبادت کامستحق جانیں اوراس کے سامنے دست سوال درازکریں ۔یہی مشترک دعوت انبیاء کی میراث ہے ۔فاضل مؤلف نے زیرنظرکتاب میں بڑی خوبصورتی سےتوحیدکی اہمیت اوراس کےمعنی ومفہوم کواجاگرکیاہے ۔انہوں نےبتایاہے کہ کلمہ لاالہ الااللہ کب انسان کےلیے مفیدہوگااوراس کی شرائط کیاہیں؟علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی واضح کیاہے کہ طاغوت سے بچناضروری ہے اورجوطاغوت سے فیصلے کرواتاہے وہ درحقیقت طاغوت پرایمان لاتاہے ۔فی زمانہ جبکہ شرعی قوانین کےبجائے خودساختہ دساتیرکی پابندی کی جارہی ہے ،یہ بحث بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔اس کےساتھ ساتھ سیاست حاضرہ کوموضوع بحث بناتے ہوئے یہ بتایاگیاہے کہ موجودہ اسمبلیوں اورایوان ہائے سیاست واقتدارمیں شمولیت کاشرعی حکم کیاہے ۔بہت ہی اہم کتاب ہے ،ہرمسلمان کواس کالازماً مطالعہ کرناچاہیے تاکہ توحیدکاتصورصحیح معنوں میں سمجھاجاسکے اورطاغوت سے بچناممکن ہوسکے۔
اسلام عقل ونقل كاايك حسين امتزاج ہے اوراس ضمن میں کمال اعتدال اورتوازن سے کام لیاگیاہے اسلام نے یہ اصول مقررکیاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے تمام افعال واعمال اورہدایات عقل ومنطق سے کسی طورمتصادم نہیں البتہ یہ ممکن ہے کہ ان کی تفہیم میں عقل انسانی عاجزآجائے ۔معجزات بھی اسی قبیل سے ہیں یعنی ایسے افعال جن کے کرنےسے انسان عاجزوقاصررہ جائیں۔ان پرایمان لاناواجب ہے اس اصولی نکتہ کونظراندازکرنے سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں ۔چنانچہ بعض لوگ جب معجزات کوبظاہرعقل کےخلاف دیکھتے ہیں توان کے انکارکی روش اپنالیتے ہیں جوکہ صریحاً غلط ہے زیرنظرکتاب میں ایسے ہی ایک صاحب کی غلط فہمیوں کاازالہ کیاگیاہے جوعقل پرستی کاشکارہوکرمعجزات کاانکارکربیٹھے ۔اس کتاب کے مطالعہ سے جہاں معجزات کاثبوت ملے گاوہیں عقل انسانی کے صحیح کردارکی بھی تعیین ہوجائے گی ۔
اس کتاب میں مصنف ارشاد الحق اثری صاحب نے پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کی خدمات حدیث کو بیان کیا ہے جس میں انہوں نے بے شمار جید علماء اہلحدیث کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ برصیغر میں اسلام کی آمد کیسے ہوئی , حدیث سے بے اعتنائی کے چند واقعات کو بیان کرتے ہوئے چند رجال حدیث کا بھی ذکر کیا ہے جس میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ , شاہ اسماعیل شہید ؒ , عبد الغزیز ؒ , مولانا عبد الرحمان محدث مبارکپوری ؒ , مولانا شمس الحق محدث ڈیانوی ؒ مولانا وحید الزمان خاں ؒ , حضرت نواب صدیق الحسن خاں قنوجی ؒ اور اہلحدیثوں کے تدریسی مراکز , اکابرین دیوبند کا انداز تدریس , حدیث کی تعلیم اشاعت میں روکاٹ , دیوبند کا اساسی مقصد , علمائے اہلحدیث کا طریقہ درس , علمائے اہلحدیث کی خدمات کا اعتراف اور اس کی تحسین , اہلحدیثوں کی تصنیفی خدمات , خدمات علمائے غزنویہ کو بیان کرتے ہوئے موصوف نے بے شمار کتب حدیث کا تعارف کرایا ہے جس میں صحیح بخاری , صحیح مسلم , سنن نسائی , سنن ابی داؤد , جامع ترمذی , سنن ابن ماجہ , مؤطا امام مالک جیسی بے شمار کتب کا تعارف کروایا ہے اس کتاب کے مطالعہ سے علمائے اہل حدیث کی حدیث وسنت سے محبت اور اس کی تبلیغ واشاعت کا جذبہ نکھر کرسامنے آتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدمت حدیث اہل حدیث کا طرۂ امتیاز ہے
اسلام وحی الہی کی اتباع وپیروی سے عبارت ہے وحی قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کی حدیث وسنت کی صورت میں امت مسلمہ کے پاس محفوظ حالت میں موجود ہے اللہ تبارک وتعالی نے بھی ہمیں یہیں حکم دیا ہے کہ ’’اتبعوا ما انزل الیکم من ربکم ‘‘یعنی اس شئے کی اتباع کرو جو تمہار ے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ وحی یعنی قرآن وحدیث کے سوا کچھ نہیں اہل حدیث کی صرف یہی دعوت ہے کہ امت فلاح وکامرانی او رکامیابی کا راز کتاب وسنت کی غیر مشروط اطاعت میں مضمر ہے یہ فطری سادہ اور شفاف دعوت ہر طبع سلیم کو اپنی جانب راغب کرتی ہے اور لوگ اپنے آبائی اور علاقائی مسالک ومذاہب کو چھوڑ کر اسے اپنا رہے ہیں زیر نظر کتاب میں چند ایسے ہی خوش قسمت افراد کی داستان بیان کی گئی ہے جنہوں نے وحی کی صدائے دل نواز پہ لبیک کہتےہوئے اپنی تقلیدی مسالک کو ترک کرکے عمل بالحدیث کا مذہب اختیار کیا ٹھنڈے دل اور وسعت قلب کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے انشاء اللہ حق کو قبول کرنے کا جذبہ بیدارہوگا اور خودساختہ فرقوں کی حقیقت نکھر کر نظر وبصر کے سامنے آجائے گی ہم خلوص دل کے ساتھ یہ کتاب ہدیۂ قارئین کر رہے ہیں امید ہے اسی جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے اس کتا ب کا مطالعہ کیا جائے گا
حدیث نبوی ہے کہ عنقریب تم پرہرطرف سے قومیں ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھاناکھانے والے دسترخواں پرٹوٹ پڑتے ہیں۔اس وقت مسلمانوں کی تعدادکم نہیں ہوگی لیکن ان کاعالم یہ ہوگاکہ سمندرکی جھاگ کی طرح ہوں گے ۔مسلمانوں کارعب دشمنوں کے دل سے نکل جائے گا۔اوران کےدلوںمیں وہن یعنی زندگی سے محبت اورموت سے نفرت پیداہوجائے گی ۔سقوط کابل وبغدادرسول کریم ﷺ کی اسی پیش گوئی کی منہ بولتی تصویرہے ۔ڈیڑھ ارب مسلم آبادی کی موجودگی میں دومسلم ریاستوں کوکفرکی اتحادی افواج نے جس طرح تہس نہس کیاہے ،یہ محض مسلمانوں کی ایمانی کمزوری کانتیجہ ہے ۔زیرنظرکتاب افغان اورعراق جنگ کے دوران شائع ہونے والے ان مضامین کامجموعہ ہے جن میں کفرکی یلغارکے نتیجہ میں امت مسلمہ کے عروج وزوال کی داستان کتاب وسنت کاتاریخ اورحالات حاضرہ سے دلائل کے ساتھ بیان کی گئی ہے اورساتھ یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کی مددکب کرتاہے اورکب مسلمان اللہ کی مددسے محروم ہوتے ہیں۔
کائنات میں امن وسکون اوراطمینان وچین اسی صورت میں ہوسکتاہے جب ہرانسان اپنی ذمہ داری پوری کرے اوردوسروں کے حقوق اداکرے۔اسلام نے حقوق العبادپربہت زوردیاہے ۔حقوق العبادمیں سرفہرست والدین کےحقوق ہیں ۔حقوق والدین کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ قرآن مجیدمیں اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی عبادت کے بعدجن ہستیوں کی اطاعت اورفکرگزاری کاحکم دیاہے وہ ہمارے والدین ہیں۔لیکن عام طورپردیکھاگیاہے کہ والدین شکوہ کرتے نظرآتے ہیں کہ بچے بات نہیں سنتے ،بچے بات نہیں مانتے ،گویاوہ والدین کے حقوق ادانہیں کررہے۔زیرنظرکتاب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں والدین کے حقوق اوران کےمقام ومرتبہ کےبارےمیں انتہائی مؤثراسلوب میں بحث کی گئی ہے ،جوکہ لائق مطالعہ ہے۔دعاہے کہ اللہ تعالی ہمیں والدین کاادب اوران کی صحیح معنوں میں خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین
اہل حدیث کی دعوت یہ ہے کہ وحی الہی یعنی کتاب وسنت کو زندگی کا دستور العمل بنایا جائے اور اسی کے مطابق اپنے عقیدہ وعمل کو ڈھالا جائے اس کے بالمقابل ارباب تقلید اپنے آئمہ وفقہاء کے اقوال وآراء او راجتہادات وفتاوی کی طرف دعوت دیتے ہیں خود ان کو بھی احساس ہے کہ ان کی دعوت میں قرآن وحدیث کو اولیت حاصل نہیں ہے اب بجائے اس کے کہ یہ اپنی اصلاح کریں اوراتباع سنت کو اپنانے کی فکر کریں اگر کوئی ان کو سمجھانے کی کوشش کرے ان کے عقائد واعمال کی کمزوریوں کی نشاندہی کرے او رقرآن وسنت کی طرف رجوع کی ترغیب دے تو یہ اسی پہ سرچڑ ھ دوڑتے ہیں اور اس کے خلاف اپنے غیظ وغضب کا اظہار کرتےہیں ایسی ہی صورت حال مولانا محمد یوسف جے پوری ؒ کی کتاب حقیقۃ الفقہ کے بارے میں دیکھنے میں آئی ہے کہ اس کے جواب میں اہل تقلید کے دیوبندی وبریلوی دھڑوں نے کتابیں لکھی ہیں جن میں علمی اور سنجیدہ اسلوب اپنان کے بجائے محض الزام تراشیوں اور دشنام طرازی سے کام لیا گیا ہے زیر نظر کتاب اسی طرح کی دوکتابوں کا جواب ہے جس مین انتہائی مدلل اور علمی طریق سے اہل حدیث کا دفاع کیا ہے اور ارباب تقلید کے استدلال قلعی گھوبی گئی ہے ۔
اسلامی تاریخ میں جو شخصیات مسلمانوں کےلیے سرمایۂ افتخار کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں ایک نمایاں نام سلطان یوسف المعروف صلاح الدین ایوبی کا ہے جنہوں نے اپنی بے مثال شجاعت اور جرأت واستقلال سے قبلۂ اول فلسطین کو صلیبیوں کے پنجۂ استبداء سے آزادکروایا ۔سلطان صلاح الدین ایوبی کی پوری زندگی ان کے دلیرانہ اور بہادرانہ کارناموں سے بھری پڑی ہے موصوف نے ہمیشہ ملت کے دفاع کااور اسلام کی سربلندی کےلیے اپنی شمشیر کو بے نیام کرتے ہوئے میدان قتال مین دادشجاعت دی ہے زیر نظر کتاب میں ان کی زندگی کے آخری چھ سالوں کے مختلف واقعات کو جمع کیا گیا ہے جو سلطان کی حیات کے سب سے قیمتی اور یادگار ایام ہیں کہ جن میں انہوں نے مسلسل صلیبیوں سے گھیر گھیر کر ان کا شکار کرتے ہوئے بیت المقدس کو ان کے ناپاک عزائم سے بچانے کےلیے اللہ کے گھر کی عزت وناموس کی رکھوالی کے لیے دن رات اپنی جان ہتھیلی پرلیے شمشیروں کی چھاوں میں ،تیروں کی بارش میں ،نیزوں کی انیوں میں،گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر اس کو شمن کی صفوں میں سرمیٹ دوڑاتے ہوئے تلوار بلند کرتے ہوئے اللہ کے باغیوں ،کافروں ،ظالموں کی گردنیں اڑاتے ہوئے بسرکیا زیر نظر صفحات میں آپ کو یہی نظارے نظر آئیں گے۔
اسلامی تعلیمات کامقصدبنی نوع انسان کورب کریم کےقرب وحضورکااہل بناتاہے ۔اس ضمن میں خصوصیت کےساتھ اخلاقی برائیوں سےبچنے کی تلقین کی گئی ہے ،جن میں جھوٹ سرفہرست ہے۔کتاب وسنت کی روسے مومن جھوٹ کاارتکاب نہیں کرسکتا۔یہی وجہ ہے کہ جھوٹوں پرخداکی لعنت کی گئی ہےاوراسے منافق کی علامت قراردیاگیاہے ۔حقیقت یہ ہےکہ ایمان کی اصل صدق وسچائی ہےجبکہ کفرونفاق کذب وجھوٹ پراساس پذیرہے۔لیکن افسوس ہے کہ آج کل نام نہادمسلمانوں میں جھوٹ عام ہوتی ہے اوراس کی مختلف شکلیں معاشرے میں رواج پذیرنظرآتی ہے۔یہ قبیح جرم اس قدرپھیل چکاہے کہ بعض صورتوں کوتوجھوٹ سمجھاہی نہیں جاتامثلاً جھوٹامیڈیکل سرٹیفکیٹ ،جھوٹ کی وکالت کرنا،جھوٹے سابقے ولاحقے لگانا،جھوٹی خبریں اخباروں میں شائع کرناکروانا،جھوٹی ڈگریوں کی بنیادپرمعاشرے میں تعارف کرواناوغیرہ جیساکہ فی زمانہ اس کابخوبی مشاہدہ کیاجاسکتاہے ۔اس کےعلاوہ بھی بے شمارشکلوں میں جھوٹ موجودہے لیکن ہم اس پہلوسے غفلت کاشکارہیں ۔زیرنظرکتاب میں اسی مسئلہ کوموضوع بحث بنایاگیاہے اورقرآن وحدیث کی روشنی میں اس کے مختلف پہلوؤں پرمفصل کلام کیاگیاہے ،جس کےمطالعے سے یقیناً جھوٹ سے نفرت کاداعیہ بیدارہوگااوراصلاح نفس کاجذبہ پیداہوگا۔ان شاء اللہ
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کی تجدیدی اوراصلاحی خدمات قیامت تک امت اسلامیہ پراحسان رہیں گی،اوران کی علمی ،اصلاحی اورتجدیدی یادگاریں رہتی دنیاتک عوام وخواص کے لیے مشعل راہ بنی رہیں گی۔زیرنظررسالہ الوصیۃ الصغریٰ جودراصل حضرت معاذبن جبل ؓکی اس حدیث کی مکمل تشریح ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ان کو تقوی ،حسن خلق ،اخلاص ،توکل ،توبہ ،استغفار،تفقہ فی الدین اورمداومت ذکرکی تاکیدفرمائی تھی ۔یہ وصیت اتنی جامع اورمکمل ہے کہ ہرمسلمان کواسے اپنی زندگی کادستورالعمل بنایاچاہیے کہ اسی میں امت کی فلاح اوردین ودنیا کی سعادت کارازمضمرہے ۔رب کریم ہمیں ان قیمتی نصائخ کواپنانے کی توفیق عنائیت فرمائے تاکہ ہم اپناکھویاہوا وقارپھرسے حاصل کرسکیں۔آمین
یہودی جوقرآن مقدس کی روسے مغضوب علیہم ہیں ،پوری دنیاکواپنے زیرتسلط لاناچاہتے ہیں ۔اس مقصدکے لیے وہ بہت عرصے سے جدوجہدمیں مصروف ہیں۔اس ضمن میں انہوں نے فری میسن کے نام سے ایک صیہونی تنظیم قائم کی ہے جوانتہائی خفیہ طریقے سے ان کےمفادات کےلیے کام کرتی ہے ۔اس کے اراکین بڑے بڑے افرادوامراوحکام ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ذریعے بھی صیہونی اپنااثرورسوخ بڑھارہے ہیں۔اس کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اقوام متحدہ کے دس انتہائی اہم اداروں میں ان کے اہم ترین عہدوں پر73یہودی فائزہیں۔اقوام متحدہ کے صرف نیویارک کے دفترمیں بائیس شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں۔دنیاکی معیشت پربھی یہودیوں کامضبوط کنٹرول ہے ۔یہ سب کچھ دراصل ان دستاویزات کی بنیادپرہے جویہودیوں کے دانابزرگوں نے تحریرکی ہیں۔ان میں وہ تمام اصول وتصورات درج کردیے گئے ہیں جن کی ورشنی میں پوری دنیاپریہودی اقتدارقائم ہوگا۔واضح رہے کہ یہودی انہیں جعلی دستاویزات قراردیتے ہیں،لیکن یہ محظ دھوکہ ہے ۔زیرنظرکتاب میں یہودیوں کے ان اصولوں کواردوزبان میں پیش کیاگیاہے ،جن کامطالعہ چشم کشاثابت ہوگا۔ان شاء اللہ ۔
اسرائیل ،امت مسلمہ کے لیے انتہائی خطرناک دشمن کی حیثیت رکھتاہے ۔دنیابھرکے صیہونی اسے اپنامرکزسمجھتےہیں۔انتہاپسندصیہونیوں میں یہودی بھی ہیں اورعیسائی بھی جوبائبل کی نصوص کی بنیادپراسرائیل کوپوری دنیاپرغالب دیکھناچاہتے ہیں ۔لیکن خوداہل کتاب کے مخالف اورحقائق وواقعات واضح طورپراس امرکی نشاندہی کررہے ہیں کہ اسرائیل اب روبہ زوال ہے ۔یہ صورت حال امت مسلمہ کے لیے بہت ہی امیدافزاہے ۔زیرنظرکتاب میں اسی پہلوکواجاگرکیاہے۔اس کے ساتھ ساتھ دشمن کامورال نیچالانے کی بےحدمعقول اورحقیقی وجوہات کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے ۔یہاں تک کہ دشمن کے اپنے ہی دینی مصادرسے اس پرشواہدلے کرآتی ہے ۔علاوہ ازیں امت اسلام کےکچھ تاریخی خصائص اوراس کاانبیاء کاوراث ہوناہے ۔بےحدعلمی وتاریخی شواہدسے سامنے لایاگیاہے ۔اس باب میں اہل کتاب کے تناقضات اوران کےبلندبانگ دعووں کابے حقیقت ہوناجووہ اپنی اقوام کوامت خاتم الرسل کےخلاف اس معرکے میں جوش دلانے کے لیے کررہے ہیں،ان کے سب مزاعم کابے بنیادہونامدلل طورپرواضح کیاگیاہے ،یہاں تک کہ مغرب کے ایک منصف مزاج اہل کتاب کے لیے ان حقائق سے آنکھیں بندرکھنابے حدمشکل ہوجاتاہے۔زیرنظرکتاب میں صیہونیت کے عیسائی عنصرپربھی خصوصی روشنی ڈالی گئی ہے ۔کتاب کااصل موضوع نصرانی صیہونیوں کی کھڑی کی ہوئی وہ فکری عمارت گراناہے جواس وقت کے اسلام دشمن ،یہودوہنوددوست مغرب کے ذہنی پس منظرمیں بآہنگ بول رہی ہے
خدائی نظرمیں پسندیدہ اورکامل نظام زندگی صرف اسلام ہے ۔اس کوغالب کرنے کے لیے اللہ عزوجل نے جناب محمدرسول اللہ ﷺ کومعبوث فرمایااورضمانت دی کہ دین حق کاچراغ گل کرنے کی ہرسازش کووہ ناکام بنائے گا۔توسورۃ توبہ فطرت کی اپنی حقیقتوں کی ترجمان ہے ۔اس سورہ میں اللہ تبارک وتعالی نے یہودونصاریٰ ،کفارومشرکین،منافقین اورمومنین کوواضح طورپرچارگروہوں میں تقسیم کیاہے اورہرایک کے کردارپرسیرحاصل بحث کی ہے ۔خاص طورپردنیاکی نام نہادسپرطاقتوں کے شکنجے میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کوغلبہ اسلام اورکفرکی دہشت گردی سے نجات کاطریقہ واضح کیاہے ۔یہ سورہ مبارکہ عصرحاضرکےمسلمانوں کے لیے ستارہ نوراورکفارومشرکین کےلیے تازمانہ عبرت کی حیثیت رکھتی ہے ۔موصوف تحریکی شخصیت جناب پروفیسرحافظ محمدسعیدنے عصرحاصرکے تناظرمیں اس سورہ مبارکہ کی تفسیربہت ہی خوبصورت اورعام فہم انداز میں کی ہے ،جس سے اس کے جملہ مفاہیم ومطالب نکھرکرسامنے آجاتےہیں ۔نیزقلب وذہن میں اس پرعمل کاجذبہ بیدارہوتاہے ۔
افغان جہادکےنتیجےمیں جب روس ٹکڑے ٹکڑے ہواتوکروڑوں مسلمانوں کے علاوہ دیگراقوام بھی روسی تسلط سےآزادہوئیں ۔مساجداورمدارس جوشراب خانے اورسینماگھربنادیئے گئے تھے ،دوبارہ اللہ اکبرکی صداؤں سےمعمورہونےلگے۔اسی دوران خداکی توفیق سے زیرنظرکتاب کے مؤلف نےطورخم سے کوہ قاف تک کاسفرکیا۔انہوں نےجہادکے ثمرات کامشاہدہ کیااواپنی آنکھوں کے سامنے دنیاسے کیمونزم کاجنازہ اٹھتے اوراسے دفن ہوتےہوتے دیکھا۔اس سفرسے واپسی پرانہوں نے اپنے تاثرات قلم بندکیے اوریوں یہ کتاب منصہ شہودپرآئی ۔اس کےمطالعہ سے شکست خوردہ روس کی مکمل تصویرنگاہوں کے سامنے آجاتی ہے جومصنف کے دلنشین پیرائہ اظہارکامنہ بولتاثبوت ہے ۔
احادیث مبارکہ میں بچوں کےاچھے نام رکھنے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے ۔اس بناء پرعلمانےکہاہےکہ بچے کااچھانام رکھنااس کاحق ہے۔ہمارے ہاں اس حوالے سے بہت ہی کوتاہی برتی جاتی ہے ،ایک طرف شرکیہ اوربےمعنی نام رکھنے کارجحان ہے تودوسری جانب ایکسٹروں اورفلمی ستاروں کے نام رکھےجاتے ہیں ،خواہ وہ فضول اورگھٹیانوعیت ہی کے کیوں نہ ہوں ۔حالانکہ یہ بالکل غیرشرعی طریقہ ہے ۔معنوی لحاظ سے بھی یہ دیکھناچاہیے کہ اس میں کوئی مذموم نام تونہیں مثلاً ایسے نام رکھناجن کےمعنی سانپ،بچھو،کمینہ وغیرہ بنتے ہوں۔نبی کریم ﷺ نےکئی صحابہ کرام کےنام تبدیل کیے کیونکہ وہ معنوی اعتبارسے درست نہ تھے۔زیرنظرکتاب ،اس حوالے سے ایک اچھی کاوش ہے ۔تاہم دیوبندی حضرات کے طریقے کے مطابق احادیث کی تخریج کااہتمام نہیں کیاکیاجوایک کمزورپہلوہے ،تاہم مجموعی طورپریہ مناسب ہے ۔
اسلام میں نماز کی اہمیت کیاہے؟اس کااندازہ اس حدیث پاک سے لگایاجاسکتاہےکہ کفروسلام کےمابین حدفاصل نمازہی ہے۔یہی مومن کی معراج اوردین کاستون ہے۔رسول اللہ ﷺ کاارشادپاک ہے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں رکھی ہے۔دوزخی لوگ بھی اعتراف کریں گے کہ ان کےجہنم میں داخلے کاسبب نماز کی عدم ادائیگی ہے ۔نماز کانہ پڑھناتوخیربہت ہی بڑاجرم ہے ،اس کی پابندی نہ کرنابھی بہت عظیم گناہ ہے جس پرشریعت میں بہت سی وعیدیں آئی ہیں۔زیرنظراوراق میں اس شے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ نماز کوبروقت نہ پڑھنااوراس سلسلہ میں لاپرواہی برتناباعث عذاب ہے،فلہذانمازوں کوپابندی وقت اورجمع آداب کوملحوظ رکھتے ہوئے اداکرناچاہیے ۔
ایک زمانے میں روس سپرطاقت سمجھاجاتاتھا،اسی طاقت کے نشے میں اس نے مسلمانوں کے بلادواوطان کوتاراج کرناشروع کردیااورافغانستان سمیت بہت سے اسلامی ممالک کواپنی شورشوں کاہدف بنایا۔اس کےردعمل میں مجاہدین اسلام میدان قتال میں نکلے اوراعلان جہادکرتے ہوئے اس کے خلاف نبردآزماہوئے ۔زیرنظرکتاب میں اسی جہادافغانستان کی تاریخ بیان کی گئی ہے ۔اس ضمن میں یہ پہلوملحوظ رکھاگیاہے مشرق ومغرب کے سلفی مجاہدین کاجہادافغانستان میں وسیع وعریض کردارتاریخی حقائق ووثائق کی روشنی میں واضح اورنمایاں ہوجائے ۔جہادافغانستان کی تاریخ میں سلفی جہادی قافلہ کن نشیب وفراز سےگزرا،کیسے کیسے مراحل طے کیے ،مخالفین کی طرف سے کیسی کیسی مزاحمتوں ،مخالفتوں اورسازشوں کاسامناکرناپڑااوربالأخرنصرت خداوندی کے ذریعے کون سی کامیابیاں اورکامرانیاں حاصل ہوئیں ،یہ سب باتیں کتاب میں موجودہیں ۔امیدہے کہ یہ کتاب پاکستان کےسلفی نوجوانوں میں احیائے جہادکے سلسلہ میں سنگ میل ثابت ہوگی ۔ان شاء اللہ
اولاداللہ عزوجل کی ایک عظیم نعمت ہے ،جس کی اہمیت کااندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں ،جواس سے محروم ہیں ۔اس نعمت کاتقاضایہ ہے کہ اس کاشکراداکیاجائے ،جس کاطریقہ یہ ہے کہ ان کی صحیح اسلامی تربیت کی جائے اورشریعت کے بتائے اصولوں کےمطابق ان کی پرورش کی جائے ۔بصورت دیگریہ اولادانعام کی بجائے وبال بن جاتی ہے اوراپنے اعمال بدسے والدین کےلیے اذیت وبدنامی کاباعث بنتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف میں صالح اولادکی دعاکرنےکی ترغیب دلائی گئی ہے۔رب ہب لی من الصالحین ۔فی زمانہ اولادکی تربیت کےحوالے سے بہت زیادہ کوتاہی دیکھنے میں آرہی ہے ۔دین واخلاق کادیوالیہ نکل چکاہے ،بچےوالدین کے سامنے غیرشرعی امورومشاغل میں مصروف رہتے ہیں ،لیکن وہ انہیں روکتے ہیں نہ سرزنش کرتے ہیں ،حالانکہ یہ ضروری ہے ،ورنہ وہ بھی شریک گناہ ہوں گے ۔زیرنظرکتاب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں ان اصول وضوابط کی وضاحت کی گئی ہے ،جنہیں تربیت اولادمیں ملحوظ رکھناضروری ہے ۔
اسلام ،دین فطرت ہے۔وہ ان تمام فطری جذبات کی قدر کرتا ہے ،جو انسانی مزاج میں موجود ہیں۔انہی میں سے ایک فطری جذبہ یہ بھی ہے کہ انسان خوشی کے تہوار منانے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔اسلام نے انسان کے اسی فطری داعیے کی تکمیل کے لیے دو تہوار(عید الفطر اور عید الاضحٰی)عطا کیے ہیں ۔لیکن اس کے ساتھ اسلام کی یہ بھی خوبی ہے کہ وہ انسان کو شتر بےمہار کی طرح آزاد نہیں چھوڑتا کہ وہ خوشی کے نام پر جو چاہیے کرتا رہے،بلکہ خوشی منانے کا سلسلہ بھی بتلاتا ہے ۔زیرنظر کتاب میں عیدین کے مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور ان سے متعلقہ ہر مسئلے کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کیا ہے ۔امتیازی خوبی یہ ہے کہ صرف صحیح یا حسن احادیث سے استدلال کیا گیا ہے ۔عید الفطر کی آمد آمد ہے ، فلہذا موقع کی مناسبت سے یہ کتاب ناظرین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے ۔(م۔ا)
زندگی اس دنیامیں آنےاورموت دنیاسےواپسی کانام ہے ۔آنےاورجانے کےدرمیان ایک مختصرساوقت جوہم سب کوملاہے ،ہرشےسے قیمتی ہے ۔اس وقت کاصحیح حق وہی اداکرسکتاہے جواپنےآغازاورانجام سےباخبرہے ۔اس چندروزہ دنیامیں کامیاب وہ نہیں ہے جوڈھیروں مال کمائے،بڑےبڑےمحلات تعمیرکرلے،یاچنددن کے لیےشہرت پالےاصل کامیاب وہ ہے جواپنے وقت کومفیدکاموں میں استعمال کرلے اوراپنےخالق کی مرضی کےمطابق خودکواس کےلیے خالص کرلے۔لیکن اس کے برعکس ہمارے معاشرے کی اکثریت جہاں اپنےمقصدزندگی سےغافل ہےوہاں دنیاسےواپسی کےسفر،اس کی کیفیت اورموت کےبعدپیش آنےوالے حالات اورحقیقت سےبھی بےخبرہے ۔اس پردرددل رکھنے والاہرصاحب ایمان مضطرب اورپریشان ہے۔زیرنظرکتاب کی مؤلفہ نے بھی اسی دردمندی کےجذبےسے زیرنظرکتاب مرتب کی ہےتاکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں سفرواپسی کےمختلف مراحل کےبارے میں عوام الناس کوباخبرکیاجائے۔خداکرےہم سب کاسفرواپسی رب کےبتائے ہوئے طریقے کےمطابق ہو،تاکہ ملاقات کےوقت وہ ہم پرنظرکرم کرے ۔آمین ۔
حدیث پاک ،دین اسلام کا بنیادی اور اولین مصدر ہے احکام دین کی تفصیلات حدیث وسنت ہی سے معلوم ہوتی ہیں لہذا دین کو جاننے کےلیے احادیث کامطالعہ ناگزیر ہے خداجزائے خیر دے محدثین کو جنہوں نے امت کی آسانی اور بھلائی کےلیے احادیث کو مرتب او رمدون کیازیر نظر کتاب فہم الحدیث مین حدیث کی معتبر کتابوں سےاحادیث صحیحہ کاانتخاب کیا گیا ہے اور ہرگوشئہ زندگی سے متعلق حدیثیں جمع کی گئی ہیں اس میں حدیث کی روانی ،کلام رسول ﷺ کے تسلسل اور نبوت کے معجزۂ خطابت کو حتی المقدور قائم رکھتے ہوئے یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ احادیث کا ترجمہ اورتشریح اس انداز میں عام فہم ہو کہ عام آدمی سمجھ سکے اسی لیے ابتداء میں باب کامفہوم او رآخر میں باب کاخلاصہ اس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ فرقہ واریت کی بجائے حدیث کی تشریح او رمفہوم وہی بیان کیا جائے جورسالت مآب ﷺ کے فرمان کامقصد ہے ۔واضح رہے کہ کتاب میں درج شدہ روایات پر محدثین،دیوبندی ،بریلوی اور اہل حدیث علمآء کا اتفاق ہے ۔
خدائے پاک کی نافرمانی کوگناہ کہتے ہیں گناہ دوطرح کے ہوتے ہیں ایک صغیرہ او ردوسرے کبیرہ ۔صغیرہ گناہ بھی اگرچہ نقصان دہ ہیں او رخداوندقدوس کی ناراضگی کا سبب ہیں لیکن ان کےبارے میں شرع کاقاعدہ یہ ہے کہ نیکیوں سے یہ خود بخود ختم ہوجاتے ہیں جبکہ کبیرہ گنا ہ غضب الہی کو زیادہ بھڑکانےوالے ہیں اور بغیر توبہ ختم بھی نہیں ہوتے الاکہ اللہ تعالی چاہٰے متعدد علمآء کرام نے کبیرہ گناہ کی سنگینی وشدت کو اجاگر کرنے کےلیے مستقل کتابیں لکھی ہیں تاکہ عوام باخبر ہوجائیں اور ان کےارتکاب سے باز رہیں اس ضمن میں علامہ ذہبی اور شیخ محمد بن سلیمان رحمہمااللہ کی مرتب کردہ فہرست سے استفادہ کرتے ہوئے کبیرہ گناہوں سے متعلق رہنمائی دی گئی ہے فی زمانہ جبکہ لوگ بڑے دعوے سے ان گناہوں کا ارتکاب کررہے ہیں یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ کبیرہ گناہ کون کون سے ہیں اور شرع میں ان کی سزا کیا ہے خدا ہمیں ہرطرح کے گناہوں سے بچنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
رزمیہ شاعری کی تاریخ بڑی پرانی ہے اس کے ذریعے شاعر جنگوں او رلڑائیوں کے واقعات کو ولولہ انگیز اور پرجوش انداز میں لوگوں تک پہنچاتا ہے زیر نظر کتاب غزوہ بدر کے منظوم تذکرہ پر مشتمل ہے غزوہ بدر حق وباطل کا اولین معرکہ تھا جس میں مسلمانوں کو عظیم الشان فتح حاصل ہوئی اور کفارومشرکین کی شان وشوکت خاک میں مل گئی ۔شاعر اسلام علیم ناصری مرحوم نے بڑے ہی دلنشین پیرائیہ اظہار میں اس کے واقعات کے نظم کیا ہے جسے پڑھ کر دل میں جذبۂ جہاد کی آبیاری ہوتی ہے یہ کتاب خصوصاًبچوں کو یادکرانی چاہیے تاکہ انہیں تاریخ سے واقفیت حاصل ہوجائے اور مجاہدانہ طریقوں کو اپنانے کی آرزو پیدا ہوجائے غزوہ بدر رمضان میں برپا ہواتھا اسی مناسبت سے رمضان مقدس میں یہ کتاب انٹرنیٹ پر پیش کی جارہی ہے ۔
مسلمان روزانہ پانچ نمازوں میں بہ تکرار بارگاہ ایزدی میں یہ دعا کرتے ہیں کہ یااللہ ہمیں سیدھا راستہ دیکھا لیکن اس کے باوجود بے شمار مسلمان سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور بعض خود یہ کہتے ہیں کہ ہمیں دین ومذہب سے لگاؤ کوئی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان رکاوٹوں کو دور نہیں کرتے جو ہدایت کی راہ میں حائل ہیں ظاہر ہے انہیں دور کیے بغیر سیدھے راستے تک رسائی ممکن نہیں ہے زیر نظر کتاب میں انہی موانع ہدایت کاذکر کیا گیا ہے تاکہ انہیں پہچان کر ان کےخاتمے کی فکر کی جائے اور صراط مستقیم پر گامزن ہواجاسکے۔