افراد اور اقوام کی زندگی میں جو انقلابات اور تغیرات واقع ہوتے ہیں، ان سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسان اپنے مستقبل کی تعمیر وتشکیل اور اپنی قسمت کے بناؤ بگاڑ پر قادر نہیں ہے۔ہر فرد اور ہر قوم کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت سے آگے کی جانب قدم نہ بڑھا سکے تو کم از کم پیچھے ہٹنے پر بھی مجبور نہ ہو۔اگر ترقی اور اصلاح کی منازل طے نہ کر سکے تو اپنے آپ کو پستی اور ذلت سے محفوظ رکھے۔لیکن اس قسم کی کوششیں بارہا ناکام ہو جاتی ہیں۔افراد پر خوشحالی اور آسودگی کے بعد اکثر اوقات تنگی اور افلاس کا دور آ جاتا ہے۔قومیں عروج وترقی کے بعد محکومی اور ذلت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔اسی تغیر حال اور انقلاب کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید فرماتا ہے:وتلک الایام نداولھا بین الناس(3:140)اور یہ زمانہ کے انقلابات ہیں جن کو ہم لوگوں میں گردش دیتے رہتے ہیں۔لیکن جب کسی گروہ یا خاندان پر خوشحالی اور قوت واقتدار کا ایک طویل دور گزر جاتا ہے تو اس کے افراد اس دھوکہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ان کی یہ صورت حال ہمیشہ باقی رہے گی اور ان کی حکومت کبھی ختم نہ ہوگی۔اور اگر کبھی شکست کا دور آ جائے تو اسے ایسے اسباب سے نتھی کر دیتے ہیں جن کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلام کا نظریہ تاریخ "محترم محمد مظہر الدین صدیقی کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے اقوام کے عروج وزوال کی اسی تاریخ کو بیان ہے کہ جب قومیں اللہ کی نافرمانی کرتی ہیں تو اللہ تعالی انہیں پستی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے اور تمام مسلمانوں کو دنیا کی رہبری عطا فرمائے۔آمین (راسخ)
مولانا محمدعلی جوہر (1878ء ۔1931ء)نے ریاست اترپردیش کے ضلع رامپور میں مولانا عبدالعلی کے گھر میں اپنی آنکھیں کھولیں۔مولانا محمدعلی جوہر کے والد محترم مولانا عبدالعلی بھی ایک عظیم مجاہد آزادی تھے۔ اور انگریزوں کے خلاف ہمیشہ سربکف رہے۔مولانا محمد علی جوہرنے اپنی تحریروں اور تقریروں سے ہندوستانیوں کے رگوں میں حریت کا جذبہ اس قدر سرایت کر دیا تھا کہ ہر آن کی تحریروں سے ہر کوئی باشعور ومحب وطن ہندوستانی انگریزوں کے خلاف لازماً سر بکف نظر آتا تھا۔مولانا نے کبھی بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ آزادیٔ ہند کے لئے کوشاں رہے آپ تحریک خلافت کے روح رواں اور عظیم مجاہدِ آزادی ۔مولانا محمد علی جوہر کا بچپن نہایت کسمپرسی میں گزرا۔بچپن میں ہی ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔والدین کا سایہ سر پرنہ ہونے کے باوجودآپ نے دینی ودنیوی تعلیم حاصل کی ۔آپ نے الہٰ آباد یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا اس کے بعد1898ءمیں آکسفورڈیونیورسٹی کے ایک کالج میں ماڈرن تعلیم کی غرض سے داخلہ لیا اور وہاں پر اپنے مذہبی تشخص کو من وعن برقرار رکھتے ہوئے دنیاوی تعلیم حاصل کرتے رہے۔مولانا محمد علی جوہربیک وقت بیدار مغزصحافی بھی تھے، بے مثال قلمکار بھی تھے ، پُرا ثرشاعر بھی تھے، فکر جلیل رکھنے والے ادیب بھی تھے،اور ایک بہترین مقرر بھی تھے۔آکسفورڈ سے واپسی کے بعدآپ رامپور میں ایجوکیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے لگے۔اس کے کچھ دنوں بعدآپ اسٹیٹ ہائی اسکول کے پرنسپل مقرر ہوئے۔آپ کی تحریریں انگریزی اور اردو زبان میں ہندوستانی اخبارات کی زینت بنتی رہتی تھیں۔آپ نے صحافت کے میدان میں میں ایک اردو ہفت روزہ بنام ’’ہمدرد‘‘اور انگلش ہفت روزہ’’کامریڈ‘‘کا اجراء بھی کیا۔مولانا ایک عظیم صحافی تھے ،آپ کی تحریریں اتنی شستہ ہوتی تھیں کہ صرف مسلمان ہی یا ہندوستانی ہی نہیں بلکہ انگریز بھی بصد شوق پڑھتے تھے اور ان پڑھنے والوں میں افسر پروفیسر،طلبہ،اسکالر سبھی طرح کے لوگ شامل ہوتے تھے اور سب آپ کی تحریریں دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔آپ ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے اور انگریزوں کے خلاف سربستہ رہے۔جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ 1919ءکی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے۔ جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ آپ جنوری 1931ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سےانگلستان گئے۔ آپ نے لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’اگر ہندوستان کو آزادی نہیں دو گے تو یہاں مجھے قبر کے لئے جگہ دے دو،میں غلام ہندوستان میں جانے سے بہتر سمجھوں گا کہ یہیں مر جاؤں ارو مجھے یہیں دفنا دیا جائے‘‘آخر کار گول میز کانفرنس ناکام ہوئی اور آپ وہیں پر داعی ٔاجل کو لبیک کہہ گئے ۔آپ کے جسد خاکی کو فلسطین لے جایا گیا اور انبیاء کرامؑ کی سرزمین میں آپ کو ابدی آرام کا اعزاز ملا۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’ ہمارے راہنما مولانا محمدعلی جوہر‘‘ جناب حسن اعرافی صاحب کی کاوش ہےجس میں مصنف موصوف نے مولانا محمد علی جوہر کی سوانح، خدمات کو مختصرا ً قلمبند کیا ہے۔اللہ تعالیٰ مولاناجوہر اور مسلمانوں کےلیےالگ خطہ پاکستان کو قائم کرنےوالےدیگر مسلمان موحد راہنماؤں کی قبور پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے ۔ اور پاکستان کو امن وامان کا گہوارہ بنائے اور ہمیں دینِ اسلام اور پاکستان کے ساتھ مخلص حکمران نصیب فرمائے (آمین) (م۔ا)
شیخ الکل فی الکل شمس العلما، استاذالاساتذہ سید میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی (1805۔1902ء) برصغیر پاک وہند کی عظیم المرتبت شخصیت ہی نہیں بلکہ اپنے دور میں شیخ العرب و العجم، نابغہ روز گار فردِ وحید تھےسید نذیر حسین بن سید جواد علی بن سید عظمت اللہ حسنی، حسینی بہاری، جو کہ میاں صاحب کے نام سے مشہور تھے، کا سلسلہ نسب حضرت علی اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔آپ نے سولہ برس کی عمر میں قرآن مجید سورج گڑھا کے فضلا سے پڑھا، پھر الہ آباد چلے گئے جہاں مختلف علما سے مراح الارواح، زنجانی، نقود الصرف، جزومی، شرح مائۃ عامل، مصباح ہزیری اور ہدایۃ النحو جیسی کتب پڑھیں۔پھر آپ نے ۱۲۴۲ھ میں دہلی کا رخ کیا۔ وہاں مسجد اورنگ آبادی محلہ پنجابی کٹرہ میں قیام کیا۔ اسی قیام کے دوران دہلی شہر کے فاضل اور مشہور علما سے کسب ِفیض کیاجن میں مولانا عبدالخالق دہلوی، مولانا شیرمحمد قندھاروی، مولانا جلال الدین ہروی اور مولانا کرامت علی صاحب ِسیرتِ احمدیہ قابل ذکر ہیں۔ یہاں آپ کا قیام پانچ سال رہا۔ آخری سال ۱۲۴۶ھ کو استادِ گرامی مولانا شاہ عبدالخالق دہلوی نے اپنی دختر نیک اختر آپ کے نکاح میں دے دی۔ اس نکاح میں خاندانِ ولی اللّٰہی کے فرزند ِنبیل شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی اور ان کے بھائی شاہ محمد یعقوب دہلوی بھی شریک ِخاص ہوئے۔میاں صاحب محدث دہلوی نے شاہ محمد اسحق محدث دہلوی سے بیش قیمت علمی خزینے سمیٹے۔ آپ معرفت ِحدیث و معانی اور شرح و تفسیر کے میدان میں ایک اعلیٰ مقام پر جاپہنچے۔ اپنے شیخ کی صحبت ِصالح میں عمرعزیز کے تیرہ سال صرف کئے اور ان سے وہ فیوضِ کبیرہ سمیٹنے میں کامیاب ہوئے جہاں تک کوئی دوسرا تلمیذ نہ پہنچ سکا۔ جب حضرت شاہ محمد اسحق دہلوی شوال ۱۲۵۸ھ کو حج بیت اللہ کے ارادے سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو اپنے تلمیذ ِرشید حضرت میاں صاحب کو مسند ِحدیث پر بیٹھا کر گئے بلکہ تعلیم نبویؐ اور سنت ِرسول اللہؐ کے لئے انہیں سرزمین ہند میں اپنا خلیفہ قرار دیا۔ پھر اپنے دست ِمبارک سے سند ِحدیث لکھ کر دی۔ تدریس حدیث و افتاء کی اجازت مرحمت کرنے کے ساتھ خلوصِ قلب سے برکت کے لئے دعا کی۔ آپ کی حیات و خدمات کے حوالے اب تک متعد د کتب اور سیکڑوں مضامین لکھ جاچکے ہیں ۔زیر نظر کتاب بھی اسی عظیم شخصیت کےحالات پر مشتمل ہے۔جوکہ پروفیسر محمد مبارک صاحب کی کاوش ہے۔انہوں نےاس کتاب مں میاں صاحب کے علمی وعملی کارناموں سے روشناس کرایا ہے۔(م۔ا)
حبِ رسول ﷺ اہل ایمان کے لیے ایک روح افزاءباب کی حیثیت رکھتا ہے۔ حبِ رسول ﷺ کے بروئے شریعت کچھ تقاضے ہیں۔ خود نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنی جان، مال، اولاد، ماں باپ غرض جمیع انسانیت سے بڑھ کر محبوب نہ سمجھے‘‘۔ محبت رسول ﷺ کا مظہر اطاعتِ رسول ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کےبغیر مومن ہونے کا دعویٰ منافقت کی بیّن دلیل ہے اور حب رسول ﷺ ہی وہ پیمانہ ہےجس سے کسی مسلمان کے ایمان کوماپا جاسکتا ہے۔ دعوائے محبت ہو اوراطاعت مفقود ہو تو دعویٰ کی سچائی پر حرف آتاہے۔ حب رسولﷺ کےتقاضوں میں سے ایک تقاضا تو نبی ﷺ کا ادب و احترام کرنا، آپ سے محبت رکھنا ہے۔ ۔پیغمبر اعظم وآخر الزمان ﷺ کا یہ اعجاز بھی منفرد ہے ہک آپ کے جان نثاروں کی زندگیاں جہاں محبتِ رسول کی شاہکار ہیں وہاں ہر ایک کی زندگی سنت رسولﷺ کی آئینہ دار ہے۔ ان نفوس قدسہ نے دونوں جہتوں میں راہنمائی کا عظیم الشان معیار قائم فرمایا ہے۔ زیر نظر کتاب’’ حب رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام َ‘‘ مجلہ منہاج (دیال سنگھ لائبریری ،لاہور) کےایڈیٹر جناب حافظ سعد اللہ صاحب کی کاوش ہے جوکہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب صحابہ کرام کی پاکیزہ زندگیوں کی ان دو اہم خصوصیات کی جامع ہے ۔ مصوف نے کتب حدیث وسیر سے ایسے واقعات محبتِ رسولﷺ اور اطاعت رسول ﷺ کے ایسے نقوش جمع کر نے کی سعادت حاصل کہ سعید روحیں ان کامطالعہ کرتے وقت جھوم اٹھتی ہیں۔موصوف نے اس کتاب کو مستند مآخذ ومراجع کی مدد سے تالیف کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف موصوف کی اس کاوش کوقبول فرمائے اور ہمیں صحابہ کی طرح نبی کریمﷺ سے محبت اورآپ کی اطاعت کرنے کی توفیق دے (آمین)(م۔ا)
انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے۔ جماعت ِ صحابہ میں سےخاص طور پر وہ ہستیاں جنہوں نے آپ ﷺ کے بعد اس امت کی زمامِ اقتدار، امارت، قیادت اور سیادت کی ذمہ داری سنبھالی ، امور دنیا اور نظامِ حکومت چلانے کے لیے ان کےاجتہادات اور فیصلوں کو شریعت ِ اسلامی میں ایک قانونی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔ ان بابرکت شخصیات میں سے خلیفۂ اول سیدنا ابو بکر صدیق سب سے اعلیٰ مرتبے اور بلند منصب پر فائز تھے اور ایثار قربانی اور صبر واستقامت کا مثالی نمونہ تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیق قبیلہ قریش کی ایک مشہور شاخ تیم بن مرہ بن کعب کے فرد تھے۔ساتویں پشت میں مرہ پر ان کا نسب رسول اللہﷺ سے مل جاتا ہے ہے ۔ایک سچے مسلمان کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ انبیاء ورسل کے بعد اس کائنات میں سب سے اعلیٰ اور ارفع شخصیت سیدنا ابو بکر صدیق ہیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق ہی وہ خو ش نصیب ہیں جو رسول اللہﷺ کےبچپن کے دوست اور ساتھی تھے۔ آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت حاصل کی اور زندگی کی آخری سانس تک آپ ﷺ کی خدمت واطاعت کرتے رہے اور اسلامی احکام کے سامنے سرجھکاتے رہے۔ رسول اللہ سے عقیدت ومحبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت کے لیے تن من دھن سب کچھ پیش کر دیا ۔نبی کریمﷺ بھی ان سے بے حد محبت فرماتے تھے ۔آپ ﷺ نے ان کو یہ اعزاز بخشا کہ ہجرت کے موقع پر ان ہی کو اپنی رفاقت کے لیے منتخب فرمایا۔ بیماری کے وقت اللہ کے رسولﷺ نے حکماً ان کو اپنے مصلیٰ پر مسلمانوں کی امامت کے لیے کھڑا کیا اورارشاد فرمایا کہ اللہ اورمؤمنین ابو بکر صدیق کے علاوہ کسی اور کی امامت پر راضی نہیں ہیں۔خلیفہ راشد اول سیدنا صدیق اکبر نے رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہر قدم پر آپ کا ساتھ دیا اور جب اللہ کے رسول اللہ وفات پا گئے سب صحابہ کرام کی نگاہیں سیدنا ابو بکر صدیق کی شخصیت پر لگی ہو ئی تھیں۔ امت نے بلا تاخیر صدیق اکبر کو مسند خلافت پر بٹھا دیا ۔ تو صدیق اکبر ؓ نے مسلمانوں کی قیادت ایسے شاندار طریقے سے فرمائی کہ تمام طوفانوں کا رخ اپنی خدا داد بصیرت وصلاحیت سے کام لے کر موڑ دیا اور اسلام کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگا دیا۔ آپ نے اپنے مختصر عہدِ خلافت میں ایک مضبوط اور مستحکم اسلامی حکومت کی بنیادیں استوار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے بعد اس کی سرحدیں ایشیا میں ہندوستان اور چین تک جا پہنچیں افریقہ میں مصر، تیونس او رمراکش سے جاملیں او ریورپ میں اندلس اور فرانس تک پہنچ گئیں۔سیدنا ابو بکر صدیق کی زندگی کے شب وروز کے معمولات کو الفاظ کے نقوش میں محفوظ کرنے کی سعادت نامور شخصیات کو حاصل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ فضائل سیدنا ابو بکر صدیق‘‘پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس حسنی صاحب ( سابق صدر شعبہ اردو ،جامعہ کراچی) کی کاوش ہے ۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں مستند مآخذ کے حوالے سے خلیفۂ راشد امیر المؤمنین سیدنا ابو بکر صدیق کے مناقب کی جہات کودل کش اور شستہ الفاظ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ۔اور تمام اہل اسلام کو صحابہ سےمحبت کرنے اور صحابہ کرام کی طر ح زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین) (م۔ا)
نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی بھی ہے۔قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے ،جو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلی اور اچھے وخوبصورت نمونہ وکردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،جو ان مولفین کی طرف سے آپ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "ھمارے رسول پاکﷺ"محترم طالب ہاشمی صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے ایک منفرد اور عام فہم انداز میں نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ کو بیا ن کیا ہے تاکہ ہر مسلمان بآسانی اس کا مطالعہ کر کے اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھال سکے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اورتمام مسلمانوں کو نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی بھی توفیق دے۔آمین(راسخ)
انسانی تاریخ عبرت کا بہت وسیع وعریض مرقع ہے۔انسان نے ظلم وستم کی داستانیں بھی رقم کی ہیں لیکن یہی انسان ہمت وعزیمت کے باب بھی جریدہ عالم پر ثبت کرتا رہا ہے۔وقت کے مستبد حکمران ہمیشہ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ ان کا حق حکمرانی غیر محدود ہے۔اپنے اقتدار کے نشے میں بد مست حکمرانوں کو گھنٹی بجنے سے قبل تک کبھی وہم وگمان بھی نہیں ہوتا کہ ان کے ڈراوے کا کوئی ڈراپ سین بھی ہے۔جس طرح نابکار حکمران ہر دور میں ظلم کے فسانے میں ایک نیا ٹکڑا شامل کردیتے ہیں، اسی طرح راہ وفا کے دیوانے بھی تاریخ کا قرض چکانے کی جسارت میں لگے رہتے اور اپنے آپ پیش رؤں کے نقش قدم پرچلنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" اسیران روشن خیالی " جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما محترم حافظ محمد ادریس صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے ظالم حکمرانوں کی جانب سے انہیں قید کرنے اور جیل میں ڈالنے جیسے واقعات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔انہیں 62 سالہ زندگی میں آٹھ مرتبہ جیل جانے اور سنت یوسفی پر عمل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ان کی یہ روداد مختلف مضامین کی شکل میں ہفت روزہ ایشیا میں چھپتی رہی لیکن احباب کے اصرار پر اسے کتابی شکل میں شائع کرنا پڑا۔شاید کہ کسی دوسرے بندے کو بھی اس سے ترغیب حاصل ہوجائے اور وہ بھی اس راہ وفا پر چل نکلے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین (راسخ)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے ،جسے اللہ تعالی کا کلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس کو پڑھنا باعث اجر وثواب اور اس پر عمل کرنا باعث نجات ہے۔جو قوم اسے تھام لیتی ہے وہ رفعت وبلندی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہو جاتی ہے،اور جو اسے پس پشت ڈال دیتی ہے ،وہ ذلیل وخوار ہو کر رہ جاتی ہے۔یہ کتاب مبین انسانیت کے لئے دستور حیات اور ضابطہ زندگی کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ انسانیت کو راہ راست پر لانے والی ،بھٹکے ہوؤں کو صراط مستقیم پر چلانے والی ،قعر مذلت میں گرے ہووں کو اوج ثریا پر لے جانے والے ،اور شیطان کی بندگی کرنے والوں کو رحمن کی بندگی سکھلانے والی ہے۔اہل علم نے عامۃ الناس کے لئے قرآن فہمی کے الگ الگ ،متنوع اور منفرد قسم کے اسالیب اختیار کئے ہیں ،تاکہ مخلوق خدا اپنے معبود حقیقی کے کلام سے آگاہ ہو کر اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔اہل علم نے قرآن مجید کی تفسیر کے ساتھ ساتھ اس کے علوم کو الگ سے جمع کرنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔جن میں سے امام سیوطی کی کتاب الاتقان فی علوم القرآن اور امام زرقانی کی کتاب مناھل العرفان فی علوم القرآن قابل ذکر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب"علوم القرآن"مولانا علامہ سید شمس الحق افغانی کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے معروف ترتیب کے مطابق علوم قرآن کو جمع فرما دیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
امام احمد بن حنبل( 164ھ -241) بغداد میں پیدا ہوئے۔ آپ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 179ھ میں علم حدیث کے حصول میں مشغول ہوئے جبکہ اُن کی عمر محض 15 سال تھی۔ 183ھ میں کوفہ کا سفر اختیار کیا اور اپنے استاد ہثیم کی وفات تک وہاں مقیم رہے، اِس کے بعد دیگر شہروں اور ملکوں میں علم حدیث کے حصول کی خاطر سفر کرتے رہے۔ امام احمد جس درجہ کے محدث تھے اسی درجہ کے فقیہ اورمجتہد بھی تھے۔ حنبلی مسلک کی نسبت امام صاحب ہی کی جانب ہے۔ اس مسلک کا اصل دار و مدار نقل و روایت اور احادیث و آثار پر ہے۔ آپ امام شافعی کے شاگرد ہیں۔ اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیث میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ مسئلہ خلق قرآن میں خلیفہ معتصم کی رائے سے اختلاف کی پاداش میں آپ نے کوڑے کھائے لیکن غلط بات کی طرف رجوع نہ کیا۔ آپ کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتے لیکن غلط بات کی تصدیق سے انکار کر دیتے۔ انہوں نے حق کی پاداش میں جس طرح صعوبتیں اٹھائیں اُس کی بنا پر اتنی ہردلعزیزی پائی کہ وہ لوگوں کے دلوں کے حکمران بن گئے۔ آپ کی عمر کا ایک طویل حصہ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں بسر ہوا۔ پاؤں میں بیڑیاں پڑی رہتیں، طرح طرح کی اذیتیں دی جاتیں تاکہ آپ کسی طرح خلق قرآن کے قائل ہو جائیں لیکن وہ عزم و ایمان کا ہمالہ ایک انچ اپنے مقام سے نہ سرکا۔ حق پہ جیا اور حق پہ وفات پائی۔ امام صاحب نے 77 سال کی عمر میں 12 ربیع الاول 214ھ کوانتقال فرمایا۔ اس پر سارا شہر امنڈ آیا۔ کسی کے جنازے میں خلقت کا ایسا ہجوم دیکھنے میں کبھی نہیں آیا تھا۔ جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد محتاط اندازہ کے مطابق تیرا لاکھ مرد اور ساٹھ ہزار خواتین تھیں۔ (وفیات الاعیان : 1؍48) حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام صاحب کایہ قول اللہ تعالیٰ نےبرحق ثابت کردیا کہ: ’’ان اہل بدع ،مخالفین سے کہہ دوکہ ہمارے اور تمہارے درمیان فرق جنازے کے دن کا ہے (سیراعلام النبلاء:11؍ 343) امام صاحب نے کئی تصنیفات یادگار چھوڑیں۔ ان کی سب سے مشہوراور حدیث کی مہتم بالشان کتاب ’’مسنداحمد‘‘ ہے۔ اس سے پہلےاور اس کے بعد مسانید کے کئی مجموعے مرتب کیے گئے مگر ان میں سے کسی کو بھی مسند احمد جیسی شہرت، مقبولیت نہیں ملی۔ یہ سات سو صحابہ کی حدیثوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں روایات کی تعداد چالیس ہزار ہے۔ امام احمد نے اس کو بڑی احتیاط سے مرتب کیا تھا۔ اس لیے اس کا شمار حدیث کی صحیح اور معتبر کتابوں میں ہوتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے اس کو کتبِ حدیث کے دوسرے درجہ کی کتابوں یعنی سنن ابی داؤد، سنن نسائی اور جامع ترمذی کے ہم پایہ قرار دیا ہے۔ مسنداحمد کی اہمیت کی بنا پر ہر زمانہ کے علما نے اس کے ساتھ اعتنا کیا ہےاور یہ نصاب درس میں بھی شامل رہی ہے۔ بہت سے علماء نے مسند احمد کی احادیث کی شرح لکھی بعض نے اختصار کیا بعض نےاس کی غریب احادیث پر کام کیا۔ بعض نے اس کے خصائص پر لکھا اوربعض نے اطراف الحدیث کا کام کیا۔ مصر کے مشہور محدث احمد بن عبدالرحمن البنا الساعاتی نے الفتح الربانى بترتيب مسند الامام احمد بن حنبل الشيباني کے نام سے مسند احمد کی فقہی ترتیب لگائی اور بلوغ الامانى من اسرار الفتح الربانى کے نام سے مسند احمد پر علمی حواشی لکھے۔ اور شیخ شعیب الارناؤوط نے علماء محققین کی ایک جماعت کے ساتھ مل کر الموسوعة الحديثية کے نام سے مسند کی علمی تخریج او رحواشی مرتب کیے جوکہ بیروت سے 50 جلدوںمیں شائع ہوئے ہیں۔ مسند احمد کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اسے اردو قالب میں بھی ڈھالا جاچکا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مسند احمد امام احمد بن حنبل‘‘ مسند احمد کا 12 جلدوں پر مشتمل ترجمہ وفوائد ہیں۔ مترجمین میں پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی﷾ (سابق شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ، لاہور) شیخ الحدیث عباس انجم گوندلوی﷾، ابو القاسم محمد محفوظ اعوان ﷾ کےاسمائےگرامی شامل ہیں۔ تخریج وتحقیق اور شرح کا کام جناب ابو القاسم محمد محفوظ اعوان ﷾ کی کاوش ہے۔ موصوف نے آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کی روشنی میں احادیث کی تشریح وتوضیح کی ہے اورمختلف فیہ مسائل میں زیادہ ترصرف راحج قول پیش کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ شرح میں شیخ ناصر البانی کے بعض فقہی مباحث بھی موجود ہیں ۔فوائد میں امام البانی جیسے محققین پر اعتماد کرتے ہوئے احادیث صحیحہ کاذکر کیاگیا ہے۔ احادیث کی تخریج، صحت وضعف کاحکم لگاتے وقت ’’الموسوعۃ الحدیثیۃ‘‘ کو سامنے رکھاہے۔ اور بعض مقامامات پر حکم لگاتے وقت شیخ البانی کی رائے کو ترجیح دی ہے۔ کتاب کے آخر میں الف بائی ترتیب کے ساتھ احادیث کے اطراف قلمبند کردئیے گئےہیں۔ تاکہ قارئین آسانی کےساتھ اپنے مقصد تک رسائی حاصل کرسکیں۔ اور اسے شیخ احمد عبدالرحمن البنا کی فقہی ترتیب کے مطابق مرتب کر کے شائع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے مولانا حافظ عبد اللہ رفیق﷾ (شیخ الحدیث جامعہ محمد یہ لوکوورکشاپ، لاہور) کو جنہوں نے اس کتاب پرنظرثانی فرماکر اس میں موجود نقائص کو دور کرنے کی بھر پور سعی کی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اجر عظیم سے نوازے جناب شیخ الحدیث ومفتی پاکستان حافظ عبدالستار حماد﷾ کوکہ جنہوں نےاپنی نگرانی میں مسند احمد کا ترجمہ بزبان اردو کروانے کی ذمہ داری لی۔ جو کہ بعد میں یہ سعادت محمد رمضان محمدی صاحب کے حصہ میں آئی جن کی نگرانی میں یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچا۔ خراج تحسین کےلائق جناب ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ﷾ جو دیار غیر میں رہتے ہوئے بھی حدیث رسول کی خدمت میں مصروف کار ہیں۔ دیار غیر میں منہج سلف کی ترجمانی میں ان کا کردار انتہائی نمایاں ہے۔ ایسے ہی ان کےدست راست او رمخلص دوست حافظ حامد محمود خضری﷾ (ایم فل سکالر لاہور انسٹی ٹیوٹ فارسوشل سائنسز، لاہور) کو اللہ تعالیٰ اجر جزیل عطا فرمائے کہ جن کے علمی تعاون واشراف سے محدثین کی علمی تراث کو بزبان اردو ترجمہ کے ساتھ منصۃ شہود پر لایاجارہا ہے۔ اب تک مختلف موضوعات پر تقریبا 35 کتب مرتب ہوکر شائع ہوچکی ہیں۔ ہم انتہائی مشکور ہیں جناب خضری صاحب کےجن کی کوششوں سے انصار السنۃ، لاہور کی تقریباً تمام مطبوعات ادارہ محدث کی لائبریری کو حاصل ہوئیں۔ یہ ضخیم کتاب بھی انہی کے تعاون سے میسر ہوئی ہے جسے افادۂ عام کے لیے ہم نے ویب سائٹ پر پبلش کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو منظر عام پرلانے میں شامل تمام افرادکی محنت کو قبول فرمائے۔ آمین (م۔ا)
تفسیر کا معنیٰ بیان کرنا یا کھولنا یا کسی تحریر کےمطالب کوسامعین کےقریب ِفہم کردینا ہے ۔قرآن مجید ایک کامل ومکمل کتاب ہے مگر اس کوسمجھنے کےلیے مختلف علوم کی ضرورت ہے ۔قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ کرنا اور ان کامطلب بیان کرنا علم تفسیر ہے اور علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظِ قرآن کی کیفیت ،نطق،اور الفاظ کے معانی اور ان کےافرادی ترکیبی حالات اور ان کے تتمات کا بیان ہوتاہے ۔اور اصول تفسیر سے مراد وہ علوم ہیں جن کے ذریعے قرآن کی تشریح کی جاتی ہے۔ قرآن کلام الٰہی ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ میں ایسی قابلیت پیدا کردی تھی کہ آپ منشاء الٰہی کو سمجھ جاتے تھے اور آپ کو وحی جلی اور وحی خفی کے ذریعہ سےاحکام سے آگاہ بھی کردیاجاتا تھا ۔جو سورت یاآیت نازل ہوتی آپ مسلمانوں کو اس کامطلب سمجھاتےدیتے تھے ۔اس لیے قرٖٖآن مجید کےمفسر اول حضور ﷺ اور پہلی تفسیر حدیث ِرسول ﷺہے ۔آپ ﷺ نے قرآن کی جو تفسیر بیان کی اس کا کچھ حصہ آپ کی حیات ِمبارکہ میں ہی ضبط تحریر میں آیا او رکچھ حصہ صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ رہا جو اس عہد کے بعد ضبطِ تحریر میں آیا ۔عہد خلافت راشد ہ میں مسلمانوں کی زیادہ توجہ حفظ قرآن اور تدوین حدیث اور ملکی معاملات پر رہی اس لیے تفسیر کے نام سے سوائے تفسیر ابی بن کعب اور تفسیر ابن عباس کےاورکوئی تفسیر کی کتاب مرتب نہیں ہوئی۔ اس کے بعد عصر حاضر تک قرآن کریم کی ہزاروں تفاسیر لکھی جا چکی ہیں اور ہر صدی میں متعدد کتب تفسیر کی کئی لکھی گئیں ۔اس کے علاوہ قرآن کریم کےمتعدد پہلوؤں پر علمی و تحقیقی کام موجود ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب ’’تاریخ تفسیر واصول تفسیر‘‘پروفیسر میاں منظور احمد صاحب کی کاوش ہے ۔اس کتاب میں وہ ان چند مباحث کو جن کاتعلق ایم اے علوم اسلامیہ کےامتحان سے ہے انہیں وہ جدید ترین نصاب کے مطابق زیربحث لائے ہیں۔ تفصیل وتطویل کو چھوڑ کر اختصار کو پیش نظر رکھا گیا ہے تاکہ ایک تویہ رسالہ طویل نہ ہو اور طلبہ وقارئین کےلیے باعث ملال نہ ہو۔مصنف موصوف نے مختلف موضوعات وابحاث پر امتحانی نقظۂنظر کوبھی ذہن میں رکھا ہے بلکہ اصول تفسیر میں تو امتحانی سوالات ہی کوبنیاد بنایا ہے۔(م۔ا)
نماز دین اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے کلمہ توحید کے بعد سب سے اہم رکن ہے۔ اس کی فرضیت قرآن سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ شب معراج کے موقع پر امت محمدیہ کو اس تحفہ خداوندی سے نوازہ گیا۔ نماز کفر و ایمان کے درمیان ایک امتیاز ہے۔ دن اور رات میں پانچ مرتبہ باجماعت نماز ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے، لیکن نماز کی قبولیت کی شرط اول یہ ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کے نماز کے موافق ہو۔ نماز کے مختلف فیہ مسائل میں سے ایک مختلف فیہ مسئلہ فاتحہ پڑھنے کا بھی ہے کہ نماز میں مقتدی امام کے پیچھے فاتحہ پڑھے گا یا نہیں۔ کتاب و سنت کے دلائل کے مطابق فاتحہ ہر فرض و نفل نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا فرض اور واجب ہے خواہ نمازی منفرد ہو، امام ہو یا مقتدی، کیونکہ فاتحہ کے بغیر نماز نا مکمل و ناقص ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: "لا صلوٰۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب" اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے فاتحہ نہ پڑھی۔ زیر تبصرہ کتاب"نماز میں سورۃ الفاتحہ" جو کہ فاضل مصنف کرم الدین سلفی کی فرضیت فاتحہ پر بے مثال تصنیف ہے۔ جس میں موصوف نے احادیث صحیحہ، آثار صحابہ و اقوال ائمہ کی روشنی میں یہ بات ثابت کی ہے کہ نماز میں فاتحہ پڑھنا ہر نمازی پر فرض اور واجب ہے خواہ وہ نمازی منفرد ہو یا جماعت کی حالت میں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ وہ فاضل موصوف کی محنت کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین(عمیر)(نماز نبوی)
لغت میں وقت سے آگاہ کرنے کو "تاریخ" کہتے ہیں یعنی کسی چیز کے وقوع پذیر ہونے کاوقت بتانے کولغتہً "تاریخ" کا نام دیا جاتا ہے۔ اصطلاح میں تاریخ اس وقت کےبتانے کا نام ہےجس سے راویوں کے احوال وابستہ ہیں،ان کی ولادت و وفات،صحت وفراست،حصول علم کے لیے تگ ودو،ان کاحفظ وضبط،ان کا قابل اعتبار یا قابل جرح و نقدہونا،غرض اسی قسم کی وہ ساری باتیں جن کاتعلق راویوں کے احوال کی چھان بین سے ہوتا ہے۔ پھر اس کے مفہوم میں وسعت کر کے واقعات و حوادثات،مصائب وآفات کا ظہور، خلفاء و وزراء کے حالات اور امور سلطنت کا بیان وغیرہ کو تاریخ میں شامل کیا جانے لگا۔جہاں تک اسلام میں تاریخ نگاری کے سلسلہ آغاز کا تعلق ہے اسکی ابتدائی نوعیت یہ تھی کہ صحابہ کرام ؓ محمد عر بی ﷺ کے غزوات و سرایا کی تفاصیل کواپنے سینوں میں محفوظ رکھتے تھے۔ ان کےبعد تابعین اور اسی طرح یہ سلسلہ رواں دواں رہااور ہردور میں مؤرخین کی ایک جماعت نے اس فن کو اجاگر رکھا۔دوسری صدی ہجری میں محمد بن اسحاق نے "السیرۃ والمبتداوالمغازی" تالیف فرمائی۔ جس سے مؤرخین نے بھرپور فائدہ حاصل کیا۔اسی طرح علم التاریخ کا ایک روشن باب شروع ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب "مسلمان تاریخ نویس "محترم شیخ سعید اختر کی تالیف ہے۔ جس میں مسلمانوں کےعظیم مؤرخین مثلا'ابن اسحاق، ابن ہشام،ابن قتیبہ، ابن حزم،خطیب البغدادی وغیرہ کے حالات وواقعات، حصول علم کے لیے اسفاراورشیوخ وغیرہ کا تذکرہ کیاہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ ان کی محنت و کاوش کو قبول فرمائے۔ آمین(عمیر)
دنیا میں فرقےمختلف ناموں اور کاموں کے اعتبار سے موجود ہیں۔ کچھ فرقےفکری و نظریاتی بنیادوں پر وجود میں آتے ہیں اور فرقے سیاسی بنیادوں پر وجود پکڑتےہیں۔ فکری و نظریاتی فرقوں میں سےایک باطل فرقہ قادیانیت ہے جس کی بنیاد ہی غلط ہے۔ اور ان کی سب سے بڑی غلطی نبوت و رسالت پر حملہ ہے۔ملک وقوم کے دشمنوں نے اپنے اغراض ومقاصد کی تکمیل کےلیے مرزا غلام احمد قادیانی کو مجدد کا رنگ دیاجو بعد میں مسیح موعودنبی اور رسالت کا روپ دھار گیا۔ان کی اسی غلط نظریات کی وجہ سے بالخصوص حکومت پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک نے ان کو غیر مسلم قراردیا۔ اس فرقے کو دبانے کے لیے علماء اسلام نے قادیانیوں کو ناکوں چنے چبوائے بالخصوص علمائے اہل حدیث کی گراں قدر کاوشیں، قربانیاں قابل ذکر ہیں۔ زیر نظر کتاب"مرزائے قادیان اور علماء اہل حدیث مولانا حنیف یزدانی کی تصنیف ہے۔ جس میں موصوف نے قادیانیوں کے باطل افکارو نظریات اور علماء اہلحدیث کا ان کے خلاف برسر پیکار ہونا ذکر کیاہے۔ اللہ رب العزت امت مسلمہ کو اس خطرناک فتنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین (عمیر)
دنیا جہان میں مختلف ذہنیتوں کےاعتبار سے اختلافات کاہونا ایک فطری امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنيا ميں بہت سارے مذاہب اور مسالک پائے جاتے ہیں۔ اور ان میں سے ہر مسلک یہ نعرہ بلند کرتاہے کہ وہی حق پر ہے اور باقی تمام مسالک راہ ہدایت سے ہٹے ہوئے ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق ایسے لوگ حق پر ہیں جن کا عمل نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے عمل کے عین مطابق ہے۔ زبانی کلامی تو مذاہب عالم کاہر گروہ و مذہب اپنی جگہ یہی حسن ظن رکھتا ہے کہ فرقہ ناجیہ طائفہ منصورہ کامصداق ہمارا مذہب ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اہل حدیث ایک ایسی جماعت ہے جو تقلیدی بیڑیوں کی بجائے قرآن سنت پر عمل پیرا ہیں اور یہی اہل حدیث کا منہج و دعوت ہے۔ اہل حدیثوں کےخلاف الزام تراشی کی مہم اور بدنام کرنے کی پرزور کوشش کچھ حیرت انگیز نہیں بلکہ ہر دور میں اہل حق کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا یا جاتا رہاہے۔ زیر نظر کتاب"فرقہ ناجیہ بجواب فائفہ منصورہ" مولانا حکیم محمد اشرف سندھو کی تصنیف ہے۔جس میں موصوف نے مقلدین کے اکابر علماء کے اقوال نقل کیے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ فرقہ ناجیہ اگر ہےتو اہل حدیث ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی محنتوں کو قبول فرمائے۔ آمین (عمیر)
اسلامی نظام حکومت میں تمام امور قرآن وسنت کی ہدایات کی روشنی میں انجام دئیے جاتے ہیں اور پورے نظام کی اساس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر استوار ہوتی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات، تجارت ہو یا سیاست، عدالت ہو یا قیادت، طب ہو یا انجینئرنگ، اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔ اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں، بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان، سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔ موجودہ دورمیں جبکہ اسلام کےخلاف بے شمار فتنے اسلام کے سیاسی، معاشی نظاموں پر اعتراضات اور شبہات کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں اور جدید تعلیم یافتہ افرادجن کی اکثریت دین کےعلم سے واقفیت نہیں رکھتی ان اعتراضات کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ دور حاضر کا ایک بڑا فتنہ علاقائی معاشی حقوق کےعدم تعین کی وجہ سے پیداہوا ہے۔اس کو ایک ذریعہ بنا کر ملحدانہ، قوم پرستانہ نظریات کو ہوا دی جارہی ہے۔ تاکہ ملت اسلامیہ کا شیرازہ مکمل طور پرمنتشر ہو جائے۔اور ان فتنوں میں الجھ کر مسلمان ایک دوسرے کے سے دست وگریبان ہوجائیں اور مسلم ملت کےاتحاد اور دنیا میں اسلامی ریاست کا قیام نہ ہوسکے۔ زیر تبصرہ کتاب "اسلامی ریاست میں علاقائی حقوق کا تصور" پروفیسر عبدالخالق سہر یانی بلوچ کی ایک بے مثال تالیف ہے، جس میں موصوف نےایک نئے موضوع کو زیر بحث لایا ہے۔ ضروری مواد کی عمدہ ترتیب اور نہایت آسان فہم اسلوب کو اپنایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ دعا ہے وہ ان کی کاوش کو قبول فرمائے۔ آمین(عمیر)
دعاء کا مؤمن کاہتھیار ہے جس طرح ایک مجاہد اپنے ہتھیار کواستعمال کرکے دشمن سےاپنادفاع کرتا ہے اسی طرح مؤمن کوجب کسی پریشانی مصیبت اور آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تووہ فوراً اللہ کےحضو ر دعا گو ہوتا ہے دعا ہماری پریشانیوں کے ازالے کےلیے مؤثر ترین ہتھیارہے انسان اس دنیا کی زندگی میں جہاں ان گنت ولاتعداد نعمتوں سےفائدہ اٹھاتا ہے وہاں اپنی بے اعتدالیوں کی وجہ سے بیمار وسقیم ہو جاتاہے اس دنیاکی زندگی میں ہر آدمی کے مشاہد ےمیں ہےکہ بعض انسان فالج، کینسر، یرقان، بخار وغیرہ اور اسی طرح کئی اقسام کی بیماریوں میں مبتلاہیں ان تمام بیماریوں سےنجات وشفا دینےوالا اللہ تعالی ہے ان بیماریوں کے لیے جہاں دواؤں سے کام لیا جاتا ہے دعائیں بھی بڑی مؤثر ہیں۔بہت سارے اہل علم نے قرآن وحدیث سے مسنون ادعیہ پر مشتمل بڑی وچھوٹی کئی کتب تالیف کی ہیں تاکہ قارئین ان سے اٹھاتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے تعلق مضبوط کرسکیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ رحمۃ للعالمین ﷺ کی محبوب دعائیں‘‘مولانا محمداسماعیل حلیم (فاضل جامعہ سلفیہ لائل پور ) کی مرتب شدہ ہے۔اس رسالہ میں انہوں نے دین ودنیا کی فلاح وبہبود کےلیے زبان رسالت مآب ﷺ سے نکلی ہوئی اکثر دعاؤں کوجمع کردیا ہے۔ تاکہ اس سے ہرمسلمان مستفید ہوسکے ۔(م۔ا)
آج ملت اسلامیہ کے سامنے سب سےبڑا چیلنج یہ ہےکہ وہ اپنی مکمل زندگی کی تشکیل نو اسلام کے مطابق کرے۔ اس جدوجہد کا اہم ترین محاذ نظام تعلیم کا میدان ہے۔ اور اس میدان میں کلیہ اور مرکز کی حیثیت معلم کو حاصل ہے۔ اگر ایک معلم اپنی صلاحیت اور طاقت کو محسو س کر لے اور تعلیم و تعلم کے ساتھ اخلاص پیدا کرتے ہوئے معاشرے کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا شروع کردے تو دنیا کی کوئی طاقت اسلام کا راستہ نہیں روک سکتی۔ اس لیے تعلیم ہی وہ ذریعہ ہےجس کے ذریعے مغرب اور مغربی تہذیب کا تسلط مسلمانوں پر قائم ہے۔ سیاسی بیداری کا یہ تو نتیجہ ہو اکہ غلامی کے جو طوق گردن میں تھے وہ ایک حدتک اتر گئے لیکن تعلیم کے ذریعے مغرب کے جو نظریات وتصورات ہمارے رگ و پے میں اتر چکے ہیں ان کا نکالنا اتنا آسان ثابت نہ ہوا۔ اس کے لیے بہت جدوجہد کی ضرورت ہے۔ زیر نظر کتاب "احیائے اسلام اورمعلم" خرم جاہ مراد کی تعلیم و تعلم سے وابستہ افراد کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔ جس میں معلمین کا اپنے مقام کو پہچاننا، مقصد کی لگن، تعلیمی محاذ پر احیائے اسلام کو اجاگر کرنا اوراپنے تلامذہ کو اسلامی تعلیمات سے بہرور کرتے ہوئے ایک اسلامی معاشرہ کی تشکیلِ نو کا تصور دیا گیاہے۔ اللہ رب العزت ان کی محنت و لگن کو قبول فرمائے۔ آمین(عمیر)
ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ شہادتین کا اقرار کرنا۔ پانچ وقت کی نماز آدا کرنا۔زکوٰۃ دینا۔ بیت اللہ کا حج کرنا ۔رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔ (متفق علیہ) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ان میں سے ہر ایک پر عمل کرنا ضروری جس طرح حضور نبی کریم ﷺ نے بتلایا ہے ان میں سے کسی ایک کا انکار کرنا یا سستی کی وجہ سے ادا نہ کرنا اسلام کی بنیاد کو کمزور کرنے کے متراف ہے کیونکہ ان ارکان اسلام میں سے ہر ایک اپنی جگہ لازم العمل ہے۔ کچھ لوگ ملحدانہ و سیکولر ذہن رکھنے کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے آلہ کار ہیں ہر دور میں اسلام کا لبادہ اوڑ ھ کر شیخ الاسلام اور دیگر اسلامی اصطلاحات کو استعمال کر کے جہالت کی کسوٹی میں خود کو دین کے مبلغ اور اسلام کے داعی ظاہر کر کے اسلام میں نقص ہی پیدا کرنے کی جسارت نہیں کرتے بلکہ اسلام کی اصلی ہائیت اور صورت کو بیگاڑنے کے ساتھ اپنے گمراہ کن عقائد و نظریات کو پھیلانے میں شب و روز لوگوں کے ضمیر خریدنے میں مال و زر کی اس قدر وسیع پیمانے پر فنڈنگ کرتے ہیں جو کسی سے مخفی نہیں ہے۔ مگر وہ دور حاضر میں خاص کر جب کہ بے ضمیر اور بے لگام میڈیا اپنے شیطانی ہتھکنڈوں سے ہر خاص و عام کو جکڑے ہوئے ہے اور دن رات بدعت و خرافات کی تشہیر کے لیے ماڈرن قسم کے دین کی ابجد سے نا واقف علماء کے پروگرام نشر کر کے لوگوں کے ایما ن و عقائد کو مسخ کرنے کے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ مگر دین حق کی پہچان اور نام نہاد مسلمانوں کے عزائم و عقائد اور طریقہ واردات کو لوگوں کے سامنے بے نقاب کرنے کے لیے علماء حق کی جماعت جس کا نبی کریمﷺ نے فرمایا: میری امت میں سے ایک جماعت لازمی حق پر قائم رہے گی (جو لوگوں کی رہنمائی کے لیے دن رات جہا د بالقلم ‘ باللسان بالمال) کرتی رہے گی۔ اس مذکورہ موضوع پر علماء حق نے خصوصا اور ہر ابھرتے ہوئے فتنے کے بطلان کے لیےعموماً تحریر تقریر کا سیلاب بہا دیا۔ اگرچہ اس موضوع پر پہلے بہت سی کتب لکھی گئیں مگر ہر کتاب اور رائٹر کا اپنا طریقہ تحریر ہے ہر کسی کی کوئی نہ کوئی خوبی ہوتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب (وسیلۃ النجاۃ باداء الصلوۃ والحج والزکوٰۃ) نواب صدیق الحسن خاں صاحب کی تالیف مولانا کی کثیر العدد تصنیفات میں سے قابل ذکر ہے جس میں مولانا موصوف کا اولین مقصد دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اصلاح و رہنمائی کا پہلوں تھا۔ جس میں انہوں نے اسلام کی اساسیات کے متعلق بحث کرتے ہوئے بے عمل و سست گام لوگوں کی اصلاح کے لیے ایک جامعہ اور تحقیقی نصاب زندگی کو جمع کرنے کی کوشش میں شب وروز کی محنت سے کفر و نفاق ‘شرک وبدعت ‘عقیدہ وعمل کی گمراہیوں سے نقاب کشائی کی ہے اور اہل باطل کے دجل و فریب کاری کو ہر لمحہ نوک قلم لا کر متلاشیان حق کے لیے ارکان اسلام کی فضیلت و اہمیت اور ان کی ترغیب کے لیے قرآن و سنت ‘اسلاف کی زندگی کے واقعات سے وضاحت کرتے ہوئے عامۃ الناس کی رہنمائی کا سامان کیا ہے۔ اس کتاب کی تصحیح‘ آیات قرآنیہ کے حوالا جات ‘فقرو کی تعیین کا کام ادارۃ البحوث الا سلامیہ کے رکن مولوی عبد الوہاب حجازی صاحب نے سر انجام دیا۔ اس سے قبل اڈیشن میں فہرست موجود نہیں تھی تو اس اڈیشن میں موصوف نے اس خلا کو بھی پر کر دیا ہے۔ اس کی اشاعت ادارۃ البحوث الاسلامیہ والدعوۃ والافتاء الجامعہ السلفیہ بنارس ‘الھند ‘‘نے 1981ء میں حاصل کی۔ اس ادارہ کا مقصد تحقیق و ریسرچ کی غرض سے اسلام کے اہم موضوعات اور اسلام کے خلاف اعتراضات کے تسلی بخش جوابات اور فتویٰ نویسی ہے۔ اللہ تعالیٰ نواب صدیق الحسن خاں صاحب اور ان کی اس دینی خدمت کو شرف قبولیت سے نوازے ‘ادارۃ البحوث الاسلامیہ کی خدامات کو متلاشیان حق کے لیے فائدہ مند بنائے۔ آمین(ظفر)
قرآن حکیم ایک ایسی کتاب ہے جو انسانی اجتماعیت کے لئے قیامت تک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے قرآنی تعلیمات پر نہ صرف ایک جماعت قائم کی بلکہ ایک زندہ وتابندہ سو سائٹی بھی قائم کر کے دکھائی، جس نے انسانی ترقی کا ایک ایسا منصفانہ نظام زندگی فراہم کیا جس سے آج کا انسان بے نیاز نہیں رہ سکتا ہے۔قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے، او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہےکہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دی ہیں ۔ اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم، نبی ﷺ کے فیض تربیت، قرآن مجید کی زبان اور زمانۂ نزول کے حالات سے واقفیت کی بنا پر، قرآن مجید کی تشریح، انتہائی فطری اصولوں پر کرتے تھے۔زیر تبصرہ کتاب"تفسیر ابن عباس "صحابی رسول ترجمان القرآن سیدنا عبد اللہ بن عباس کی طرف منسوب ہے، جسے ابو طاہر محمد بن یعقوب فیروز آبادی نے مرتب کیا ہے۔اس تفسیر کی نسبت کے حوالے سے اسلاف کی مختلف آراء موجود ہیں۔اس کی اسناد کے متعلق بھی گفتگو کی خاصی گنجائش موجود ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی متعدد روایات صحاح ستہ ودیگر کتب حدیث میں موجود ہیں۔اس لئے اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔یہ کتاب اردو میں تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(راسخ)
زیر تبصرہ کتاب "مسلم دنیا میں پائے جانے والے گروہوں کا تقابلی مطالعہ، تعارف"محترم جناب مبشر نذیر صاحب کے اس انٹر نیٹ تصنیفات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے ، جس میں انہوں نے مسلم دنیا میں پائے جانے والے متعدد گروہوں کی تاریخ، پس منظر اور عقائد کو تفصیل کے ساتھ جمع کر دیا ہے۔مولف کے بقول اس کتاب کو لکھنے کا مقصد امت مسلمہ کے مختلف گروہوں اور مکاتب فکر کے مابین جو اختلافات پائے جاتے ہیں ، ان کا ایک غیر جانبدارانہ مطالعہ کرنا اور ان کے نقطہ ہائے نظر کے ساتھ ساتھ ان کے استدلال کا جائزہ لینا ہے۔اس کتاب میں مولف نے کوشش کی ہے کہ تمام نقطہ ہائے نظر کو بغیر کسی اضافے یا کمی کے بیان کر دیا جائے۔ان کے بنیادی دلائل بھی جیسا کہ ان کے حاملین بیان کرتے ہیں، واضح طور پر بیان کر دئے جائیں اور کسی بھی معاملے میں اپنا نقطہ نظر بیان نہ کیا جائے اور نہ ہی کوئی فیصلہ سنایا جائے کہ کونسا نقطہ نظر درست ہے اور کونسا غلط ہے، بلکہ یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے۔اس کتاب کے آٹھ حصے ہیں جن میں سے پہلا حصہ اس کتاب کے تعارف پر مشتمل ہے، جبکہ باقی سات حصے مختلف گروہوں کے تعارف پر مبنی ہیں۔ان ساتوں میں سے پہلا حصہ ماڈیولCS01:اہل سنت، اہل تشیع اور اباضیوں کے تعارف پر، دوسرا حصہ ماڈیولCS02:اہل سنت کے ذیلی مکاتب فکر، دیو بندی، بریلوی، اہل حدیث اور ماورائے مسلک حضرات کے تعارف پر، تیسرا حصہ ماڈیولCS03:انکار سنت، انکار ختم نبوت اور مین اسٹریم مسلمانوں کے تعارف پر، چوتھا حصہ ماڈیولCS04:فقہی مکاتب فکر، حنفی ، مالکی، شافعی، حنبلی،ظاہری اور جعفری کے تعارف پر،پانچواں حصہ ماڈیولCS05:تصوف اور اس کے ناقدین کے تعارف پر،چھٹا حصہ ماڈیولCS06:دینی، سیاسی، عسکری،دعوتی اور فکری تحریکوں کے تعارف پر اور ساتواں حصہ ماڈیولCS07:روایت پسندی، جدت پسندی،معتدل جدیدیت،اور فکری، ثقافتی، معاشی اور قانونی مسائل کے تعارف پر مشتمل ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اہل حدیث کوئی نئی جماعت نہیں، تمام اہل علم اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا نصب العین کتاب و سنت ہے۔ اس لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف نہیں ہے۔ "اہلحدیث" ایک فکر اور تحریک کا نام ہے جو سنت کو مدار عمل ٹھہرانے میں نہایت حریص اور رد بدعات میں نہایت بے باک ہیں۔ اس کا مطح نظر فقط عمل بالقراٰن والحدیث ہے معاشرے میں پھیلے ہوئے رسوم و رواج کو یہ جماعت میزان نبوی میں پرکھتی ہے۔ جوبات قرآن و سنت کے مطابق ہو اس کو قبول کرنا اس جماعت کا خاصہ اور امتیاز ہے۔ مسلک اہل حدیث وہ دستور حیات ہے جو صرف قرآن وحدیث سے عبارت ہے، بزرگان دین کی عزت سکھاتا ہے مگر اس میں مبالغہ نہیں۔ "امرین صحیحین" کے علاوہ کسی کو بھی قابل حجت اور لائق تعمیل نہیں مانتا۔ اہل حدیث ہی وہ فرقہ ہے جو خالص کتاب وسنت کا داعی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "ہم اہل حدیث کیوں ہوئے" مولانا عبد الغفور اثری کی تالیف ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے لقب اہل حدیث کی وجہ تسمیہ، اہل حدیث کبار ائمہ کی نظر میں، اور صحیح احادیث و آثار سے ثابت کیا ہے کہ اہل حدیث ہی وہ طائفہ منصورہ ہے جس کے متعلق سرور کائنات نے اپنی احادیث مبارکہ میں امت کو پیشین گوئی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ رب العزت موصوف کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(عمیر)
عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کابہت اہم اور بنیادی عقیدہ ہے۔جس پر تمام امت مسلمہ سلفاً و خلفاً کا ہمیشہ ہر زمانے میں اجماع رہا ہےکہ جو شخص بھی اس اجماعی عقیدے کا مخالف ہو گاوہ کافر، مرتد، خارج از اسلام ہوگا۔ 1857ء کے بعد برطانوی سامراج نے برصغیر میں اپنے غلیظ اور ناپاک مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے جھوٹی نبوت کی بنیاد ڈالی اور اس کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کا انتخاب کیا گیا۔ اس دجال، کذاب کے ذریعے امت مرزائیہ وجود میں آئی۔ جس نے برطانوی سامراج کے مقاصد شریرہ کو ہر سطح پر کامیاب کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ علمائے اسلام مجاہدین ختم نبوت نے شروع دن سے ہی اس کفریہ فتنے کا محاسبہ وتعاقب کیا اور عوام الناس کو ان کے کفریہ و باطل عقائد و عزائم سے آگاہ کیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے مذہبی روپ اختیار کرکے مسلمانوں کو اجرائے نبوت، حیات مسیح، مہدویت کی بحثوں میں الجھایا اور مسلمانوں کو انگریزوں کا وفادار بننے پر زور دیا۔ قادیانی صرف اسلام ہی کے لیے نہیں بلکہ ملک وقوم کے لیے بھی ایک سامراجی ہتھیار ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب"محاسبہ قادیانیت"جس کو مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے مجاہد ختم نبوت آغاشورش کاشمیریؒ کے ہفت روزہ "چٹان" سےاقتباسات کو جمع و ترتیب دیا ہے۔ آغا کاشمیریؒ عقیدہ ختم نبوت کو مذہبی و سیاسی سطح پر اجاگر کرنے والے صف اول کے مجاہد تھے۔ عقیدہ ختم نبوت پر غیر متزلزل ایمان اور فتنہ قادیانیت سے شدید نفرت ان کی پہچان تھی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی محنت و لگن کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازے اور امت مسلمہ کو اس خطرناک فتنہ سے محفوظ رکھے۔ آمین(عمیر)
قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔قرآن واحادیث میں قرآن اور حاملین قرآن کے بہت فضائل بیان کے گئے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ رسالت سے ارشاد فرمایا: «خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ» صحیح بخاری:5027) اور ایک حدیث مبارکہ میں قوموں کی ترقی اور تنزلی کو بھی قرآن مجید پر عمل کرنے کےساتھ مشروط کیا ہے ۔ارشاد نبو ی ہے : «إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ»صحیح مسلم :817)تاریخ گواہ کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن وحدیث کو مقدم رکھااور اس پر عمل پیرا رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو غالب رکھا اور جب قرآن سے دوری کا راستہ اختیار کیا تو مسلمان تنزلی کاشکار ہوگئے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’فضائل قرآن‘‘ جناب محمد کریم سلطانی صاحب کی مرتب شدہ ہے ۔اس کتاب میں فاضل مصنف نے قرآن کریم ،احادیث مبارکہ اور سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں قرآن مجید کے فضائل بیان کیے ہیں۔اور احادیث کی مکمل تخریج وتحقیق بھی پیش کردی ہے جس سے کتاب کی افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔(م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے،اور قراء کرام کا تجربہ گواہ ہے کہ اگر بچپن میں ہی تلفظ کے ساتھ قاعدہ پڑھا دیا جائے تو بڑی عمر میں تلفظ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔انہی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے محترم قاری محمدیوسف صدیقی صاحب نے بچوں کے لئے قرآنی قاعدہ مرتب کیا ہے، جس کی نظر ثانی استاذ القراء قاری محمد ادریس العاصم صاحب﷾نے فرمائی ہے۔اس میں حروف مفردہ،حروف مستعلیہ ،متشابہ الصوت حروف،حروف قلقلہ ،حروف مدہ اور حرکات وغیرہ کی ادائیگی کی انتہائی آسان اور سہل انداز میں پہچان کروائی گئی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی ان خدمات کو قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے، او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہےکہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دی ہیں ۔ اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم، نبی ﷺ کے فیض تربیت، قرآن مجید کی زبان اور زمانۂ نزول کے حالات سے واقفیت کی بنا پر، قرآن مجید کی تشریح، انتہائی فطری اصولوں پر کرتے تھے۔ چونکہ اس زمانے میں کوئی باقاعدہ تفسیر نہیں لکھی گئی، لہٰذا ان کے کام کا بڑا حصہ ہمارے سامنے نہیں آ سکا اور جو کچھ موجود ہے، وہ بھی آثار او رتفسیری اقوال کی صورت میں، حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں بکھرا ہوا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"تفسیر احسن التفاسیر اردو" محترم مولانا سید احمد حسن محدث دہلوی کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے احادیث صحیحہ حسنہ اور اقوال صحابہ ودیگر سلف سے قرآن مجید کی تفسیر کی ہے اور صحت روایت کا حد درجہ خیال رکھتے ہوئے معتبرہ ومسلمہ تفاسیر مثلا تفسیر ابن جریر، ابن کثیر،معالم، خازن، درمنثور، اور فتح البیان کے اہم مطالب کا بہترین انتخاب کیا ہے،نیز آیات کریمہ کے شان نزول صحیح بہ التزام صحت سند لائے ہیں۔یہ تفسیر پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ، جسے بلال گروپ آف انڈسٹریز نے چھاپ کر فی سبیل اللہ فری تقسیم کیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور تقسیم کنندگان کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔۔آمین(راسخ)