یہ حقیقت کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ ہمارا ملک خالص کتاب وسنت پر مبنی مکمل اسلام کے تعارفی نا م کلمہ طیبہ کے مقدس نعرہ پرمعرض وجود میں آیا تھا۔ جس کا ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ 1956ء، 1963ء اور پھر 1973ء کے ہر آئین میں اس ملک کانام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان لکھا جاتا رہاہے اور سر فہرست یہ تصریح بھی ہے کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا اور کتاب وسنت کےخلاف کوئی قانون نہیں بنایاجائے گا۔ 1973ء کے منظورشدہ آئین وہ آئین ہے جس پربریلوی مکتبِ فکر کے سیاسی لیڈرشاہ احمد نورانی،مولوی عبدالمصطفیٰ الازہری وغیرہما کےبھی دستخط ثبت ہیں۔اسی طرح جب صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق نے اسلامی نظام کی طرف پیش رفت کی ایمان پرور نوید سنائی تھی۔ جس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب اس مملکت میں نظریاتی مقاصد ہی نہیں بلکہ در پیش سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، اورتمدنی مسائل کے حل کی راہیں بھی کھل جائیں گی۔ مگر افسوس کہ احناف کے ایک گروہ نے تمام مذکورہ حقائق اور ملکی تقاضوں سے آنکھیں موندکر کتاب و سنت کو نظر انداز کرتے ہوئے فقہ حنفی کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا اور ملتان کے قاسم باغ سے یہ مطالبہ کر دیا کہ چونکہ فتاویٰ عالمگیری ہماری مکمل قانونی دستاویز ہے اور اس کا ہر ہر فتویٰ قرآن وحدیث کا عطر اور جوہر ہے۔ لہذا اس کو عوام میں نافذ کردیا جائے۔ زیر تبصرہ کتاب"فتاویٰ عالمگیری پر ایک نظر"مفتی محمد عبید اللہ خان عفیف حفظہ اللہ تعالیٰ کی ایک منصفانہ تحقیقی تصنیف ہے۔ مفتی صاحب نے احناف کی معتبر ترین کتاب "فتاویٰ عالمگیری" کے فتاوجات کو قرآن سنت کے میزان میں رکھ کر یہ بات واضح اور ثابت کی ہے کہ دین کسی عالم یا اکابر کا قول و فعل نہیں بن سکتا بلکہ دین نام ہے قرآن وسنت کے مجموعے کا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مولانا مفتی صاحب عمر دراز کرے اور ان کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے۔ آمین(عمیر)
دنیا میں فرقے مختلف ناموں اور کاموں کے اعتبار سے موجود ہیں۔ کچھ فرقے فکری و نظریاتی بنیادوں پر وجود میں آتے ہیں اور فرقے سیاسی بنیادوں پر وجود پکڑتے ہیں۔ فکری و نظریاتی فرقوں میں سے ایک باطل فرقہ قادیانیت ہے جس کی بنیاد ہی غلط ہے۔ اور ان کی سب سے بڑی غلطی نبوت و رسالت پر حملہ ہے۔ ملک وقوم کے دشمنوں نے اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کو مجدد کا رنگ دیاجو بعد میں مسیح موعودنبی اور رسالت کا روپ دھار گیا۔ ان کی اسی غلط نظریات کی وجہ سے بالخصوص حکومت پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک نے ان کو غیر مسلم قراردیا۔ اس فرقے کو دبانے کےلیے علماء اسلام نے قادیانیوں کو ناکوں چنے چبوائے اور ہر میدان میں ان کا مدلل و منہ توڑ جواب دیاچاہے وہ تحریر ی میدان ہو یا مناظرے کا اسٹیج غرضیکہ مجاہدین ختم نبوت ان کے ناپاک مقاصدکو نیست و نابود کرتے رہے اورکرتے رہیں گئے (انشاءاللہ) زیر نظر کتاب" کامیاب مناظرہ"مجاہد ختم نبوت محمد خالد متین کا ایک قادیانی عالم سےفیصلہ کن مناظرے کو تحریری قالب میں ڈھالا گیا ہے جس کے نتیجہ سے وہ قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام کی آغوش میں آگیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گوہیں کہ علماء اسلام کو اجر عظیم سے نوازے۔ آمین(عمیر)
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحیدِ خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل شہید تھے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 6 مئی 1831ء بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ ’’اگر مولانا محمد اسماعیل شہید کےبعد ان کے مرتبہ کاایک مولوی بھی پیدا ہوجاتا تو آج ہندوستان کے مسلمان ایسی ذلت کی زندگی نہ گزارتے۔ سید محمد اسماعیل شہید اور ان کےبےمثل پیرو ومرشد سید احمد شہید اور ان کےجانباز رفقاء کی شہادت کےبعد ،بقیۃ السیف مجاہدین نے دعوت واصلاح وجہاد کاعلم سرنگوں نے نہ ہونے دیا بلکہ اس بے سروسامانی کی کیفیت میں اسے بلند سےبلند تر رکھنے کی کوشش کی ۔سید اسماعیل شہید اور ان کےجانباز رفقاء اوران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک کو زندہ رکھنے والے مجاہدین کی یہ داستان ہماری ملی غیرت اور اسلامی حمیت کی سب سے پر تاثیر داستان ہے۔ ان اللہ والوں نےاللہ کی خاطر آلام ومصائب کوبرداشت کیا ،آتش باریوں اور شمشیرزنیوں کی ہنگامہ آرائیوں میں جانیں دے دیں،خاندان ،گھر بار اور جائیدادوں کی قربانیاں دیں ۔ جیل کی کال کوٹھڑیوں اور جزائر انڈیمان یعنی کالاپانی کی بھیانک اور خوفناک وحشت ناکیوں میں دن بسر کیے ۔لیکن جبیں عزیمیت پر کبھی شکن نہ آنے دی اور پائے استقامت میں کبھی لرزش پیدا نہ ہونے دی۔ زندگی کےہرآرام اور ہر عیش کو نوکِ حقارت سے ٹھکراتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ۔ زیر نظرکتاب ’ ’تحریک مجاہدین‘‘ڈاکٹر صادق حسین صاحب کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نےمجاہد کبیر سید احمد شہید اور ان کےعالی ہمت رفقا کے ایمان افروز واقعات کو بڑے احسن انداز میں بیان کیاہے ۔ نیز سید ین شہیدین کی شہادت کے بعد اس تحریک مجاہدین کی جن شخصیات نے بطور امارت خدمات انجام دیں ان کابھی ذکر خیر ہے کہ جن کو پڑھ کر اسلام کی ابتدائی صدیوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ یہ کتاب متعدد جلدوں میں ہے لیکن ہمیں کی اس کی صرف جلد پنجم اور ششم دستیاب ہو سکیں ہیں اگر کسی صاحب کےپاس اس کی باقی جلدیں ہو تو ہمیں مطلع کرے تاکہ ان کو بھی سائٹ پر پبلش کرکے انٹر نیٹ کی دنیا میں محفوظ کیا جاسکے ۔
علم تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے ۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری صدی کے نصف سے ہوا۔ائمۂ حدیث وفقہ کی طرح تجوید وقراءات کے ائمہ کی بھی ایک طویل لسٹ ہے اور تجوید وقراءات کے موضوع پرماہرین تجوید وقراءات کی بے شمار کتب موجود ہیں ۔ عرب قراء کی طرح برصغیر پاک وہند کے علماء کرام اور قراءعظام نے بھی علم تجوید قراءات کی اشاعت وترویج کےلیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔پاکستان میں دیوبندی قراء کرام کےعلاوہ سلفی قراء عظام جناب قاری یحییٰ رسولنگری، قاری محمداریس العاصم ،قای محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہم اللہ اور ان کےشاگردوں کی تجوید قراءات کی نشرواشاعت میں خدمات قابل تحسین ہیں ۔مذکورہ قراء کی تجوید وقراءات کی کتب کے علاوہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے کلیۃ القرآن ومجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کے زیر نگرانی شائع ہونے والے علمی مجلہ رشد کےعلم ِتجویدو قراءات کے موضوع پر تین ضخیم جلدوں پر مشتمل قراءات نمبر اپنے موضوع میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جس میں مشہور قراء کرام کے تحریر شدہ مضامین ، علمی مقالات اور حجیت قراءات پر پاک وہند کے کئی جیدمفتیان کرام کے فتاوی ٰ جات بھی شامل ہیں اور اس میں قراءات کو عجمی فتنہ قرار دینے والوں کی بھی خوب خبر لیتے ہوئے ان کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں۔تلاوت ِقرآن کا بھر پور اجروثواب اس امر پرموقوف ہے کہ تلاوت پورے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ کی جائے قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ جاننا اورسیکھنا علم تجوید کہلاتا ہے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے ۔ کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم الشان کتاب ہے کہ ہر مسلمان پراس کتاب کو صحیح پڑھنا لازمی اور ضروری ہے جس کاحکم ورتل القرآن ترتیلا سے واضح ہوتا ہے۔ اس قرآنی حکم کی تکمیل اور تجویدکوطالب تجوید کےلیے آسان اورعام فہم بناکر پیش کرناایک استاد کے منصب کا اہم فریضہ ہے ۔ایک اچھا استاد جہاں اداء الحروف کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ احسن التجوید‘‘ محترم جناب قاری محمد اظہر حسن صاحب کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہو ں نے علم تجوید کےضروری مسائل اور روایت سیدنا حفص کے تمام جزئیات نہایت اختصار کے ساتھ سلیس او رعام فہم اردو میں بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس رسالہ کو طلبائے تجوید کےلیے نافع بنائے (آمین) ( م۔ا)
قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔قرآن واحادیث میں قرآن اور حاملین قرآن کے بہت فضائل بیان کے گئے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ رسالت سے ارشاد فرمایا: «خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ» صحیح بخاری:5027) اور ایک حدیث مبارکہ میں قوموں کی ترقی اور تنزلی کو بھی قرآن مجید پر عمل کرنے کےساتھ مشروط کیا ہے ۔ارشاد نبو ی ہے : «إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ»صحیح مسلم :817)تاریخ گواہ کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن وحدیث کو مقدم رکھااور اس پر عمل پیرا رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو غالب رکھا اور جب قرآن سے دوری کا راستہ اختیار کیا تو مسلمان تنزلی کاشکار ہوگئے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا : وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر زیر تبصرہ کتاب’’( فصل الخطاب فی فضل الکتاب‘‘ علامہ نواب صدیق حسن خاں کی تصنیف ہے ۔ یہ رسالہ موصوف نے 1305ھ میں تحریر کیا او رمؤلف کی زندگی میں متعد بارطبع ہوا۔علامہ موصوف نے اس رسالہ میں احادیث صحیحہ واقوال صحابہ وائمہ دین کی روشنی میں قرآن مجید فرقان حمید کے فضائل بیان کیے اور آیات کتاب اللہ اور اس کی سورتوں پر مفصل گفتگو کی ہے۔ مولانا عطاء اللہ حنیف اس رسالہ میں مذکور آیات واحادیث وآثار کی تخریج ، اعراب اور ان کےاردو ترجمے کرکے اسے شائع کرنا چاہتےتھے تاکہ اس کی افادیت زیادہ ہوجاجائے ۔لیکن اپنی بیماری کی وجہ سے موصوف یہ کام نہ کرسکے البتہ فصل الخطاب فی فضل االکتاب کا مطبع فاروقی دہلی طبع 1896ء کےنسخے کو قدرے ممکن تنقیح وحواشی کے ساتھ اسے 1984ء میں شائع کیا علامہ نواب صدیق حسن کا یہ رسالہ اب حافظ عبد اللہ سلیم﷾ ، حافظ شاہد محمود﷾ کی تسہیل وتخریج کے ساتھ مجموعہ علوم القرآن میں دار ابی الطیب گوجرانوالہ سے شائع ہوچکا ہے۔اس مجموعہ میں نواب صدیق حسن کی قرآن کےمتعلق مزید تین کتب (تذکیر الکل بتفسیر الفاتحۃ واربع قل،افادۃ الشیوخ بمقدار الناسخ والمنسوخ،اکسیر فی اصول التفسیر) بھی شامل ہیں یہ مجموعہ علوم قرآن بھی ویب سائٹ پر موجود ہے ۔( م ۔ا)
حافظ ابن کثیر(701۔774ھ) عالمِ اسلام کے معروف محدث، مفسر، فقیہہ اور مورخ تھے۔ پورا نام اسماعیل بن عمر بن کثیر، لقب عماد الدین اور ابن کثیر کے نام سے معروف ہیں۔ آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ ان کے والد شیخ ابو حفص شہاب الدین عمر اپنی بستی کے خطیب تھے اور بڑے بھائی شیخ عبدالوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہہ تھے۔کم سنی میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ بڑے بھائی نے اپنی آغوش تربیت میں لیا۔ انہیں کے ساتھ دمشق چلے گئے۔ یہیں ان کی نشوونما ہوئی۔ ابتدا میں فقہ کی تعلیم اپنے بڑے بھائی سے پائی اور بعد میں شیخ برہان الدین اور شیخ کمال الدین سے اس فن کی تکمیل کی۔ اس کے علاوہ آپ نے ابن تیمیہ وغیرہ سے بھی استفادہ کیا۔ تمام عمر آپ کی درس و افتاء ، تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی۔ آپ نے تفسیر ، حدیث ، سیر ت اور تاریخ میں بڑی بلند پایہ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ تفسیر ابن کثیر اور البدایۃ والنہایۃ آپ کی بلند پایہ ور شہرہ آفاق کتب شما ہوتی ہیں۔ البدایۃ والنہایۃ 14 ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس وقت ’البدایۃ والنہایۃ‘ کا اردو قالب ’تاریخ ابن کثیر‘ کی صورت میں موجود ہے۔ ابن کثیر کی یہ تاریخ بھی دوسری تاریخوں کی طرح ابتدائے آفرینش سے شروع ہوتی ہے اور اس کے بعد انبیاء اور مرسلین کے حالات سامنے آتے ہیں، یہ کئی لحاظ سےاہم ہیں۔ تاریخ ابن کثیر حضرت آدم سے لے کر عراق و بغداد میں تاتاریوں کے حملوں تک وسیع اور عریض زمانے کا احاطہ کرتی ہے اور غالباً سب سے پہلی تاریخ ہے جس میں ہزاروں لاکھوں سال کی روز و شب کی گردشوں، کروٹوں، انقلابوں اور حکومتوں کومحفوظ کیا گیا ہے۔ پھر ابن کثیر نے جن حالات و واقعات کا احاطہ کیا ہے وہ اس قدر صحیح اور مستند ہیں کہ ان کا مقابلہ کوئی دوسری کتاب نہیں کر سکتی۔ زیر تبصرہ کتاب’’سیرت النبی ﷺ‘‘ امام ابن کثیر کی مذکورہ کتاب البدایۃ والنہایۃ میں سے سیرت النبی ﷺ پر مشتمل ایک حصہ ہے۔ اس حصے کواردو قالب میں ڈھالنے کی سعادت مولانا ہدایت اللہ ندوی صاحب نے حاصل کی۔ یہ کتاب اپنے اندر بے پناہ مواد سموئے ہوئے ہے۔ امام ابن کثیر نے واقعات کا انداز تاریخ کے حساب سے رکھا ہے۔ سن وار واقعات کو درج کیاگیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے قارئین کو بہت سے ایسی معلومات حاصل ہوں گئی جودیگر کتبِ سیرت میں نہیں ہیں۔ امام ابن کثیر چونکہ اعلیٰ پائے کےادیب او رعمدہ شعری ذوق کے مالک تھے۔ البدایۃ میں انہو ں نےجابجار اشعار درج کیے ہیں۔محترم ندوی صاحب نے ان اشعار کوبھی اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ نیز فاضل مترجم نے واقعات کے جابجا ذیلی عنوانات بھی دیئے ہیں جو بڑے مفید ہیں اورکہیں کہیں کچھ تشریحات بھی کی ہیں جوکہ ’’ندوی‘‘ کے تحت بریکٹ میں درج ہیں ۔اس کتاب کو عربی سے اردو قالب میں ڈھال کر حسنِ طباعت سے آراستہ کرنے کی سعادت شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر کے ساتھ پیش آنےوالے الم ناک واقعہ میں شہادت کا رتبہ پانے والے ان کے رفیق خاص جناب مولانا عبد الخالق قدوسی شہید (بانی مکتبہ قدوسیہ، لاہور) کےصاحبزدگان نے حاصل کی ۔ مدیر مکتبہ جناب ابو بکر قدوسی صا حب نے 1996ء میں اس سیرت النبی ﷺ کو تین جلدوں میں بڑے خوبصورت انداز میں شائع کیا۔اس سے قبل 1987ء میں بھی البدایۃ والنہایۃ کےعربی نسخے کو 14 جلدوں میں مکتبہ قدوسیہ نے شائع کیا ۔اب توجناب ابو بکر قدوسی اور جناب عمر فاروق قدوسی اوران کے دیگر برادران کی محنت سے مکتبہ قدوسیہ ماشاء اللہ بیسیوں معیاری کتابیں شائع کرچکا ہے۔ اللہ ان برادران کے علم وعمل میں خیر وبرکت فرمائے اوران کی کاوشوں کو شرف ِقبولیت سے نوازے۔ (آمین) (م۔ا)
عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کابہت اہم اور بنیادی عقیدہ ہے۔جس پر تمام امت مسلمہ سلفاً و خلفاً کا ہمیشہ ہر زمانے میں اجماع رہا ہےکہ جو شخص بھی اس اجماعی عقیدے کا مخالف ہو گا وہ کافر، مرتد، خارج از اسلام ہوگا۔ 1857ء کے بعد برطانوی سامراج نے برصغیر میں اپنے غلیظ اور ناپاک مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے جھوٹی نبوت کی بنیاد ڈالی اور اس کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کا انتخاب کیا گیا۔اس دجال،کذاب کے ذریعے امت مرزائیہ وجود میں آئی۔ جس نے برطانوی سامراج کے مقاصد شریرہ کو ہر سطح پر کامیاب کرنے کی بھرپور کوشش کی۔علمائے اسلام مجاہدین ختم نبوت نے شروع دن سے ہی اس کفریہ فتنے کا محاسبہ وتعاقب کیااور عوام الناس کو ان کے کفریہ و باطل عقائد و عزائم سے آگاہ کیا۔مرزاغلام احمد قادیانی نے مذہبی روپ اختیار کرکے مسلمانوں کو اجرائے نبوت،حیات مسیح،مہدویت کی بحثوں میں الجھایا اورمسلمانوں کو انگریزوں کا وفادار بننے پر زور دیا۔ زیر تبصرہ کتاب" عقیدہ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت"مولانا صادق علی زاہد کی تصنیف ہے موصوف نے اپنی تصنیف میں قادیانیوں کے گمراہ کن عقائد و نظریات کوسوالاً جواباً پیش کیاہے۔اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم سے نوازے۔ آمین(عمیر)
د ين اسلام ايك ايسا فطری اور عالمگیر مذہب ہے جس کے اصول وفرامین قیامت تک کے لوگوں کے لیے شمع ہدایت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جبکہ دیگر الہامی مذاہب تحریف کاشکار ہو کر ضلالت و گمراہی کے گڑھوں میں جا پڑے۔مگر قرآن مجید واحد کتاب ہے جو تقریبا ساڑھے چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود ہر طرح کی تحریف سے پاک ہے۔کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خو د اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔ عیسائیت اور اسلام دونو ں الہامی مذاہب ہیں اور ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔عیسائی عقیدہ تثلیث کے قائل ہیں جبکہ اسلام اس کے بر عکس عقیدہ توحید اظہر من الشمس نظریے کا قائل ہے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ، حضرت مریمؑ، حضرت عیسیٰ ؑ کے حواریوں،راہبوں کی کھلم کھلا پرستش کی مگر اسلام اس کے برخلاف وحدانیت کا سبق دیتاہے۔ زیر تبصرہ کتاب"عیسیٰ ابن مریم ؑ اور عیسائیت" جس کو محترمہ سرفراز طاہر نے مرتب کیا ہے۔جس میں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش، حالات، معجزات، حضرت محمد ﷺ کی بشارت بزبان حضرت عیسیٰؑ اورواقعہ صلیب کو بہت احسن انداز سےمرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی محنت کو قبول فرمائے۔ آمین(عمیر)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،جس میں تجارت سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے مکمل راہنمائی موجود ہے۔اسلام تجارت کے ان طور طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ،جس میں بائع اور مشتری دونوں میں سے کسی کو بھی دھوکہ نہ ہو ،اور ایسے طریقوں سے منع کرتا ہے جن میں کسی کے دھوکہ ،فریب یا فراڈ ہونے کا اندیشہ ہو۔یہی وجہ ہے اسلام نے تجارت کے جن جن طریقوں سے منع کیا ہے ،ان میں خسارہ ،دھوکہ اور فراڈ کا خدشہ پایا جاتا ہے۔اسلام کے یہ عظیم الشان تجارتی اصول درحقیقت ہمارے ہی فائدے کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام اپنی مصنوعی اور غیر فطری بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ایک مغرب کا سرمایہ داری نظام ہے ،جس پر آج کل انحطاط واضطراب کا رعشہ طاری ہے۔دوسرا مشرق کا اشتراکی نظام ہے، جو تمام کی مشترکہ ملکیت کا علمبردار ہے۔ایک مادہ پرستی میں جنون کی حد تک تمام انسانی اور اخلاقی قدروں کو پھلانگ چکا ہے تو دوسرا معاشرہ پرستی اور اجتماعی ملکیت کا دلدادہ ہے۔لیکن رحم دلی،انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی روح ان دونوں میں ہی مفقود ہے۔دونوں کا ہدف دنیوی مفاد اور مادی ترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس کے برعکس اسلام ایک متوسط اور منصفانہ معاشی نظریہ پیش کرتا ہے،وہ سب سے پہلے دلوں میں خدا پرستی،انسان دوستی اور رحم دلی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " محاضرات معیشت وتجارت" محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کی تصنیف ہے۔جو درحقیقت ان کے ان دروس اور لیکچرز پر مشتمل ہے جو انہوں نےدوحہ قطر میں مختلف مقامات پر ارشاد فرمائے۔۔یہ محاضرات مختصر
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحیدِ خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل شہید تھے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 6 مئی 1831ء بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ ’’اگر مولانا محمد اسماعیل شہید کےبعد ان کے مرتبہ کاایک مولوی بھی پیدا ہوجاتا تو آج ہندوستان کے مسلمان ایسی ذلت کی زندگی نہ گزارتے۔ سید محمد اسماعیل شہید اور ان کےبےمثل پیرو ومرشد سید احمد شہید اور ان کےجانباز رفقاء کی شہادت کےبعد ،بقیۃ السیف مجاہدین نے دعوت واصلاح وجہاد کاعلم سرنگوں نے نہ ہونے دیا بلکہ اس بے سروسامانی کی کیفیت میں اسے بلند سےبلند تر رکھنے کی کوشش کی ۔سید اسماعیل شہید اور ان کےجانباز رفقاء اوران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک کو زندہ رکھنے والے مجاہدین کی یہ داستان ہماری ملی غیرت اور اسلامی حمیت کی سب سے پر تاثیر داستان ہے۔ ان اللہ والوں نےاللہ کی خاطر آلام ومصائب کوبرداشت کیا ،آتش باریوں اور شمشیرزنیوں کی ہنگامہ آرائیوں میں جانیں دے دیں،خاندان ،گھر بار اور جائیدادوں کی قربانیاں دیں ۔ جیل کی کال کوٹھڑیوں اور جزائر انڈیمان یعنی کالاپانی کی بھیانک اور خوفناک وحشت ناکیوں میں دن بسر کیے ۔لیکن جبیں عزیمیت پر کبھی شکن نہ آنے دی اور پائے استقامت میں کبھی لرزش پیدا نہ ہونے دی۔ زندگی کےہرآرام اور ہر عیش کو نوکِ حقارت سے ٹھکراتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ۔ زیر نظرکتاب ’ ’تحریک مجاہدین‘‘ڈاکٹر صادق حسین صاحب کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نےمجاہد کبیر سید احمد شہید اور ان کےعالی ہمت رفقا کے ایمان افروز واقعات کو بڑے احسن انداز میں بیان کیاہے ۔ نیز سید ین شہیدین کی شہادت کے بعد اس تحریک مجاہدین کی جن شخصیات نے بطور امارت خدمات انجام دیں ان کابھی ذکر خیر ہے کہ جن کو پڑھ کر اسلام کی ابتدائی صدیوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ یہ کتاب متعدد جلدوں میں ہے لیکن ہمیں کی اس کی صرف جلد پنجم اور ششم دستیاب ہو سکیں ہیں اگر کسی صاحب کےپاس اس کی باقی جلدیں ہو تو ہمیں مطلع کرے تاکہ ان کو بھی سائٹ پر پبلش کرکے انٹر نیٹ کی دنیا میں محفوظ کیا جاسکے ۔(م۔ا )
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ ، تفسیر قرآن کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیا ۔علمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔پنجاب میں تدریسی خدمت کے سلسلہ میں مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث و زیر آبادی (م1334ھ) کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔مولانا حافط عبدالمنان صاحب حضرت شیخ الکل کے ارشاد تلامذہ میں سے تھے اور فن حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ صحاح ستہ پڑھائی۔ آپ کے تلامذہ میں ملک کے ممتاز علمائے کرام کا نام آتاہے اورجن کی اپنی خدمات بھی اپنے اپنے وقت میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:’’علمائے اہلحدیث کی تدریسی و تصنیفی خدمات قدر کے قابل ہے۔ پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خاں (م1307ھ) کے قلم او رمولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (م1320ھ) کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا۔ بھوپال ایک زمانہ تک علمائے اہلحدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان او راعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کررہے تھے۔ شیخ حسین عرب یمنی (م327ھ) ان سب کے سرخیل تھے اوردہلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے ہاں سند درس بچھی تھی اور جوق در جوق طالبین حدیث مشرق و مغرب سے ان کی درس گاہ کا رخ کررہے تھے۔ ان کی درس گاہ سے جو نامور اُٹھے ان میں ایک مولانا محمد ابراہیم صاحب آروی (م1320ھ) تھے۔ جنہوں نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیادڈالی ۔اس درس گاہ کے دوسرے نامور مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی عظیم ابادی (م1329ھ) صاحب عون المعبود فی شرح ابی داؤد ہیں جنہوں نے کتب حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کامقصد قرار دیا اوراس میں وہ کامیاب ہوئے۔تصنیفی لحاظ سے بھی علمائے اہلحدیث کاشمار برصغیر پاک و ہند میں اعلیٰ اقدار کا حامل ہے۔ علمائے اہلحدیث نے عربی ، فارسی اور اردو میں ہر فن یعنی تفسیر، حدیث، فقہ،اصول فقہ، ادب تاریخ او رسوانح پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ الغرض برصغیر پاک وہندمیں علمائےاہل حدیث نےاشاعت اسلام ، کتاب وسنت کی ترقی وترویج، ادیان باطلہ اور باطل افکار ونظریات کی تردید اور مسلک حق کی تائید اور شرک وبدعات ومحدثات کےاستیصال اور قرآن مجید کی تفسیر اور علوم االقرآن پر جو گراں قدر نمایاں خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ اہل حدیث کاایک زریں باب ہے زیر تبصرہ کتابچہ ’’برصغیر پاک وہند میں علمائے اہل حدیث کی تفسیری خدمات‘‘جماعت اہل حدیث کے ممتاز مؤرخ ومقالہ نگار محترم جناب عبدالرشید عراقی﷾ کی کاوش ہے ۔یہ کتابچہ دراصل مولانا عبدالرشید عراقی کےان مضامین کا مجموعہ ہے جوانہوں نے 1980ء میں’’علمائے اہل حدیث کی تفسیری خدمات ‘‘ کےعنوان سے ہفت روزہ الاعتصام میں تحریر کیے بعد ازاں بعض اہل علم کے اصرار پر ان میں مزید اضافہ جات کرکے اسے کتابی صورت میں شائع کیاگیا۔عراقی صاحب کا یہ رسالہ تین ابواب پر مشتمل ہے ۔اس میں انہوں نے 308 کتابوں کاذکر کیا ہےجن کا تعلق تفسیر قرآن اور علوم القرآن سے ہے اور اس کے علاوہ 28 مفسرین کرام (اہل حدیث) کے مختصر حالات زندگی اوران کی تفسیری خدمات کاذکر کیا ہے۔نیز ان کتابوں کابھی ذکر کیا ہے جومخالفین اسلام نے قرآن مجید پر اعتراضات کیے اور علمائے اہل حدیث نے ان کے جوابات دیے اور کچھ ایسی کتابوں کابھی ذ کر کیا ہے جوعلمائے اسلام نے فروعی اختلافات کی وجہ سے بطور تنقید ایک دوسرے کے خلاف لکھیں۔ اللہ تعالی ٰ عراقی کو صحت وعافیت سے نوازےاوران کی تمام مساعی حسنہ کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
اسلام ایک سچا مذہب ہے جو قیامت تک کے آنے والے لوگوں کے لیے رہنما ہے چاہے کسی مذہب کے ماننے والے ہو اور جو اسلام کی تعلیمات کو ماننے کے ساتھ ساتھ نبی محمدﷺ کےآخری نبی ہونے اور قرآن کو اللہ کی کلام ہونے پر ایمان رکھے باقی ایمان کی تمام بنیادی چیزوں پر ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں زندگی بسر کرے وہی کامیاب و کامران ہو گا ورنہ قیامت کے روز ناکام و نامراد ہو گا یہ ہی ایک مومن کا عقیدہ ہے -سچے مومن کی علامات ومنہج اور عقیدے کی پہچان حضور اکرم ﷺکی اس حدیث مبارکہ سے ہو گی کہ آپﷺ نے فرمایا: میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہو جب تک ان دونوں کو تھامے رکھوں گے ہر گز گمراہ نہیں ہو گے ‘‘معلوم ہوا کہ حقیقی مومن وہی ہو سکتا ہے جو صرف اور صرف قرآن و سنت پر عمل کرنے والا ہو۔ تقلید شخصی وشرک و بدعت ‘ تشبیہ و تمثیل‘ تکییف و تاویل ‘تحریف و تنکیر ‘غلو ‘اشتباہ ‘ شبہات ومنکرات اور منہیات سے بچ کر عقیدہ توحید خالص و اطاعت رسول ﷺ کی فرمابرداری میں زندگی کے جملہ پہلوں کو بسر کرے وہی محشر کے روزسرخ روع ہوگا ان شاء اللہ۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو حق پر قائم رہنے کے لیے اسی راستہ کو اختیار کرے گا جس پر میں (محمدﷺ)اور میرے صحابہ چل رہے ہیں اور جو اس سے ہٹ کر اپنی مرضی کا دین بنا لےگا وہ گمراہی کی دلدل میں پھنستا ہوا حق سے دوری اختیار کرتا چلا جائے گا : ناکامی اس کا مقدر بنتی چلی جائے گی۔ جیسا کہ باطل فرقے (جہمیہ ‘معتزلہ ‘روافض‘خوارج وغیرہ )ہیں ۔عقائد کے متعلق جتنی بھی کتب لکھی گئیں یا لکھی جا رہی ہیں سب میں ایمان کی تشریع کی گئی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’عقیدۃ المومن ‘‘ نواب صدیق الحسن خاں کی کتاب ’’فتح الباب لعقائد اولی الالباب ‘‘کی تلخیص و ترتیب ہے۔ تلخیص وترتیب کا یہ اہم کام جناب عبد المعید عبد الجلیل سلفی صاحب نے انجام دیا ہے۔ اس کتاب میں عقیدے کے متعلق ہر بحث کو دلائل کی دنیا میں ثابت کیا گیا ہے اور جس جگہ اہل علم کے درمیان اختلاف پایا گیا وہاں راجع قول کی نشان دہی کتاب و سنت‘صحابہ و تابعین کے اقوال کی روشنی میں پیش کر دی گئی ہے۔ کیونکہ وہ اولین مخاطبین میں سے ہیں۔ یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے ۔اس میں پہلا باب اللہ تعالیٰ کے نام اور تمام صفات پر مشتمل ہے دوسرا باب اسماء الہی کی تقسیم وتعداد اورمسئلہ روئیت پر مشتمل ہے۔ تیسرا باب بندو کے تمام افعال کی تخلیق و خالق حقیقی کے متعلق ہے۔ چوتھا باب کتب الہی یوم آخرت ‘ملائکہ ‘اور انبیاء و رسل کے بھیجے جانےکی حکمت و مصلحت پر مشتمل ہے ۔پانچواں باب ایمان کی اقسام و علامات و ایمان سے خارج کر دینے والے اعمال کے متعلق ہے۔ چھٹا باب مختلف عقائد اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے پختہ وعدے وگمراہی کے اسباب ا و رکفریہ کاموں کے ساتھ کامیاب جماعت کے متعلق بحث پر مشتمل ہے۔ ساتواں باب امامت و خلافت کی بحث پر مشتمل ہے۔ آٹھواں باب سلف صالحین کے سیرت و کردار اور عقائدپر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر ادارۃ البحوث الاسلامیہ جامعہ سلفیہ بنارس نے اکتوبر 1986میں اشاعت کی سعادت حاصل کی ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو سلفی صاحب اور نواب صدیق الحسن صاحبکے لیے صدقہ جاریہ بنائے اس کتاب کو راہ حق کی پہچان کا ذریعہ بناتے ہوئےشرف قبولیت سے نوازے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں انسان کے لیے بےشمار اور بیش بہا نعمتیں پیداکی گئی ہیں۔ پس انسان کے لیےلازم ہےکہ وہ ان سے نہ صرف بھرپور فائدہ اٹھائے بلکہ اس پر اللہ رب العزت کا شکریہ بھی اداکرے۔ اب اگر یہ مسئلہ پیدا ہو کہ سب سے عظیم ترین اور اعلیٰ ترین نعمت کونسی ہے تو اس کا قطعی اور دو ٹوک جواب یہ ہےکہ صراط مستقیم ہی ایک ایسی منفرد نعمت ہے جس کا درجہ دیگر سب اشیاء سے بلند تر ہے۔ ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ دنیا میں اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور آخرت میں بھی جنت اس کا مقدر بنے۔دنیا وآخرت میں کامیابی کا حصول صرف تعلیمات اسلام میں ہےیہ واحد دین ہےجو انسان کی ہر ضرورت کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"طریق الجنۃ" مولانا زبیر علی زئیؒ کی محنت کا نتیجہ ہےموصوفؒ کسی تعارف کی محتاج شخصیت نہیں اور مسلک حق اہل حدیث کےلیے ان کی بے پناہ تحقیقات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ موصوفؒ نے اپنی تصنیف میں مختصر صحیح عقائد، نماز کے احکام، قیام رمضان، فاتحہ خلف الامام، اور تقلید وغیرہ کے موضوعات پر تحقیقی بحث کی ہے اللہ تعالیٰ ان کی محنتوں کو شرف قبولیت سے نوازے اور ان کے لیے سامان مغفرت بنائے۔ آمین(عمیر)
ہماری معاشرتی ،اخلاقی اور سماجی برائیوں کےحل کی صرف ایک ہی راہ ہے وہ یہ ہےکہ ملک میں اسلامی احکامات وقوانین کو ذاتی اوراجتماعی طور پر عمل کی دنیا میں نافذ کیا جائے ۔قرآن پاک کی تعلیمات اور رسول مقبولﷺ کی پاکیزہ زندگی کا مکمل اسوۂ حسنہ ہماری اصلاح اور رہنمائی کے لیے کافی ہے ۔ تاریخ گواہ ہےکہ ماضی میں جب تک مسلمانوں نےاپنے معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنائے رکھا اس وقت تک مسلم قوم سر بلند رہی او رجیسے جیسے معاشرہ تباہ ہوگیاہے ویسے ویسے امتِ مسلمہ بھی اخلاقی زبوں حالی جڑ پکٹرتی چلی گئی چنانچہ معلوم ہوا کہ فوز وفلاح وکامیابی کے لیے اپنے معاشرے کی اصلاح کرناضرروی ہے معاشرےکی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں اور اصولوں کو اپنانا چاہیے او راسی پاک اوربے عیب ذات سے اصلاح طلب کرنی چاہیے۔سرور کائنات ﷺ کی بعثت کے وقت عرب معاشرہ جن گھناؤنے اعمال کامرتکب تھا قرآن وحدیث ہی کا نورتھا جس نے تاریک معاشرے کو روشن کرکردیا ان کی برائیوں کونیکیوں میں تبدیل کردیا ۔رزائل وفضائل کالباس پہنا دیا کہ وہ لوگ شرافت،دیانت،محبت ،اخوت، شرم وحیا اوراخلاق فاضلہ کے پتلے بن گئے ترقی کے زینے چڑہتے چڑہتے وہ اوج ثریا پر جا پہنچے اور نجات ِآخرت کی بشارتیں انہیں قرآن نے سنائیں۔حکومت ربانی کا فرض کہ وہ قانون کے زورسے بدیوں کو مٹاکر معاشرے کی اصلاح کر ے اور علمائے ربانی کوبھی چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی اصلاح اورمعاشرےکو گناہوں کی آلوگی سے پاک کرنے کے لیے ان کو اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے ڈرائے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ اصلاح معاشرہ ‘‘ محترم جناب مولانا عبد الغفار صاحب کی کاوش ہے ۔جس میں انہو ں نے جملہ حقوق وفرائض اور معاشرہ میں پائی جانی والے بیماریوں کو ذکر کرنےکےساتھ ان کی اصلاح کےلیے بھی آسان فہم اندازمیں تجاویز پیش کی ہیں ۔(م۔ا)
نبی کریم ﷺبچوں کے ساتھ انتہائی پیار اور شفقت سے پیش آتے تھے۔آپ کا اسلوب تربیت،علم، تجربہ،کشادہ دلی، صبر اور برداشت پر مشتمل تھا۔بچپن کے مرحلے کی اہمیت کے پیش نظر آپ ﷺ نے بچوں کے ساتھ ایسا تربیتی اور تعلیمی اسلوب اختیار کیا، جس کے نتیجے میں کامیاب شخصیات، بے نظیر قائدین، اور نابغہ روزگار افراد پیدا ہوئے۔ نبی کریم ﷺ کا بچوں کے ساتھ برتاوکیسا ہوتا تھا، اور آپ کس انداز سے بچوں کو ڈیل کرتے تھے۔یہ تفصیلات کتب احادیث میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’رسول شفقت ومحبتﷺاور کمسن بچے‘‘ معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نےبچوں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی شفقت اور پیار محبت کی تفصیلات کو ایک جگہ جمع فرما دیا ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنفہ کی تدریسی وتصنیفی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو لوگوں کےلیے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
آج کل فرقہ بندی اس قدر عام ہے کہ ہرمسلمان پریشان ہے ۔کچھ لوگ اس صورت حال سے تنگ آکر اسلام سےدور ہو رہے ہیں ۔ اور کچھ لوگ تمام فرقوں کو درست سمجھتے ہیں ۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے جہاں اپنی امت کے فرقوں کا ذکر کیا ہے وہاں صرف ایک فرقے کو جنتی کہا ہے ۔اور مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ بڑا طویل اورالمناک ہے ۔مسلمان پہلے صرف ایک امت تھے ۔ پہلے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ کر ایک شخص مسلمان ہوسکتا تھا لیکن اب اس کلمہ کے اقرار کے ساتھ اسے حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی بھی ہونے کا اقرار کرنا ضروری ہوگیا ہے ۔ضرورت اس امر کی مسلمانوں کو اس تقلیدی گروہ بندی سے نجات دلائی جائےاور انہیں براہ راست کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دی جائے ۔نبی کریم ﷺنے اپنی زبان ِرسالت سے جس ایک فرقہ کو جنتی کہا وہ اہل سنت والجماعۃ ہے ۔اب اہل سنت کی صحیح تعریف کیا ہے یہ ساری بحث اس زیر تبصرہ رسالہ ’’تعریف اہل سنت اور مسنون تراویح ایک دلچسپ علمی مکالمہ‘‘ میں ایک مکالمہ کی صورت میں پیش کی گئی ہے ۔اس کتابچہ کےمطالعہ سے اصلی اور نقلی اہل سنت کا فرق واضح ہوجائے گا۔ قارئین تعصب کی عینک اتار کر تلاش حق کے جذبے سے اس کتابچے کو پڑھیں دل ٹھک جائے تو راہِ حق کوقبول کرنے میں ہر گز دیر نہ کریں اس کتابچے پر اگرچہ اسے مرتب کرنے والے کا نام نہیں ملا لیکن میرا خیال یہ ہے کہ یہ حافظ عبداللہ بہاولپوری کا مرتب کردہ ہے جسے مولانا عبدالقدوس سلفی﷾ نے یو ای ٹی ، لاہور میں اپنے زمانہ طالب علمی کےدوران اس پر پیش لفظ لکھ کر شائع کیا ۔اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو مرتب کرنے اور شائع کرنے والوں کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین ) (م۔ا)
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان نے اس دھرتی پر اپنی ضرورتیں لے کر قدم رکھا۔ کھانے کے لیے غذا، پینے کے لیے پانی، پہننے کے لیے لباس،گرمی،سردی، بارش، طوفان سے بچنے کےلیے گھر انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔اور اس کے زندہ رہنے کا دارومدار ان ضرورتوں پر ہےاسی طرح حسن پسندی کی حس بھی انسانی فطرت میں شامل ہے، جس کے تحت وہ ہر چیز میں حسن و خوبی کو پسند کرتا ہے۔ایسے ہی سہولت اور آسائش پسندی بھی انسانی مزاج کاحصہ ہے،جس کے لیے وہمیشہ بہتر سےبہتر کی تلاش میں رہتا ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق خالق کائنات میں سب بنیادی ضرورتیں، سہولتیں، آسائشیں، زیبائش کی ہر چیز اس کائنات میں پیدا کر رکھی ہے۔ اب انسان کو چاہیے کہ وہ ان آسائشوں سے اسلام کی تعلیمات کے مطابق فائدہ اٹھائے۔ مگر انسان عجلت میں آکر حلال وحرام کی تمیز کو پس پشت ڈال دیتا ہے اور ہوس و لالچ کا شکار ہوتے ہوئے دنیا و آخرت میں خسارے کا سامان تیارکرتا ہے۔ زیر بحث کتاب"بابرکت رزق اور موجودہ دور کے فتنے"خالد گھرجاکھی کی تالیف کردہ ہے۔جس میں کسب حلال کی ترغیب دی گئی ہےاور وہ اسباب جن سے تجارت حرام ہوجاتی ہے ان کابڑے احسن انداز سے ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ موصوف کو اجر عظیم سے نوازے اور بنی نوع کو کسب حلال کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین(عمیر)
اسلامی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کائنات کلی کا مالک حقیقی ہے تمام تر اختیارات اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ تمام جہانوں کا خالق و مالک وہی اکیلا و یکتا ہے وہی موت و حیات ‘صحت و تندرستی مصائب و مشکلات کو ٹالنے والا ہے۔ ایک مومن و مسلمان کا یہی عقیدہ ہے اسی پر چل کر کامیابی و کامرانی مل سکتی ہے اس کے علاوہ غیر اللہ کی پوجا و پیروی کرنے سے گمراہی اور ناکامی اس کا مقدر بن جائے گی۔ بد قسمتی سے اسی طرح کا عقیدہ مشرکین مکہ کا تھا جو غیر اللہ کو خدائی صفات کا حامل مان کر ان سے اپنی حاجات و منات بجا لاتے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے مرتکب ہوتے۔ اسی شرک سے منع کرنے اور توحید الوہیت و ربوبیت اور اسماء و صفات کی بنیادی تعلیم کے لیے انبیاء و رسل کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو حضرت آدم سے لے کر آخری نبی ﷺپر اختتام پزیر ہوا۔ یہی بنیادی عقیدہ تھا جس پر آپنے بھی دشمن بن گئے طائف کی وادیوں میں لہو لہان کیا گیا۔ مگر افسوس کہ نبی اکرم ﷺ سے محبت و عقیدت کا دعویٰ کرنے والے نام نہاد مسلمان آج اسی بنیادی عقیدہ کو مسخ کرنے کے در پہ ہیں۔ محبت رسولﷺ کے نام پہ آج بدعات و خرافات اور تفسیر و تاویل باطلہ کا اس قدر طوفان کھڑا کر دیا کہ اسلامی روایات داؤ پہ لگنے لگیں۔ جیسا کہ بریلوی مکتبہ فکر کا پندرہ روزہ مجلّہ (رضوان) جس کے مدیر سید محمود احمد صاحب رضا خانی ہیں اس رسالہ کےخصوصی شمارے جو کہ ستمبر 952ء میں (غوث اعظم نمبر) کے موضوع پرشائع ہوا جس میں مندرجہ ذیل من گھڑت کرامات کے سا تھ پیر عبد القادر جیلانی کی شخصیت کو خدائی صفات کا حامل مانا گیا ہے۔ جو کہ پیر صاحب کی شخصیت کے بھی منافی ہیں اور پیر صاحب نے ان عقائدکی اپنی زبانی تردید بھی کی ہے اور اس سے براءت بھی ظاہر کی ہے جیسا کہ ’’مردے سنتے ہیں۔ چور قطب بنا دیا۔ بادلوں پر حکومت۔ لوح محفوظ اولیاء کے قبضہ میں ہے۔ چہرہ سرخ ہو گیا۔ عصا روشن ہو گیا۔ مرغی کو زندہ کر دیا۔ روافض کی توبہ قابل ذکر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’بے لوث نمبر‘‘ ابو الشفیق محمد رفیق خاں پسروری کی علمی کاوش ہے جو کہ (رضوان کے خصوصی شمارے غوث اعظم نمبر) کا تحقیقی جواب ہے جس میں صوفیاء و اولیاء کی جعلی اور من گھڑت کرامات پرقرآن و سنت اور پیر عبدالقادر جیلانی کے اقوال کی روشنی میں مشرکین کے باطل عقائد پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ اس سے قبل رضوان کے خاص شمارے (نماز نمبر جس میں احادیث نبویہ سلف صالحین و حقیقی اہل سنت والجماعت اور علماء حق ’’سید نذیر حسین محدث دہلوی نواب صدیق الحسن خاں صاحبؒ مولانا سعید بنارسی مرحوم جیسی شخصیات پر تبرابازی کی گئی ہے فا ضل مصنف نے بڑی فکر اور تحقیق سے (شعبان)کے نام سے دلائل و براھین کی روشنی میں جواب دیا۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس علمی بصیرت اور دینی خدمت کو شرف قبولیت سے ہمکنار فرمائے اور حق کی پہچان و باطل کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ (ظفر)
ہر صاحب عقل یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ معاشروں کی اصلاح وتعمیر میں قوموں کی فلاح وکامیابی وترقی چھپی ہے تاریخ گواہ ہےکہ ماضی میں جب تک مسلمانوں نےاپنے معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنائے رکھا اس وقت تک مسلم قوم سر بلند رہی او رجیسے جیسے معاشرہ تباہ ہوگیاہے ویسے ویسے امتِ مسلمہ بھی اخلاقی زبوں حالی جڑ پکٹرتی چلی گئی چنانچہ معلوم ہوا کہ فوز وفلاح وکامیابی کے لیے اپنے معاشرے کی اصلاح کرناضرروی ہے معاشرےکی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں اور اصولوں کو اپنانا چاہیے او راسی پاک اوربے عیب ذات سے اصلاح طلب کرنی چاہیے۔سرور کائنات ﷺ کی بعثت کے وقت عرب معاشرہ جن گھناؤنے اعمال کامرتکب تھا قرآن وحدیث ہی کا نورتھا جس نے تاریک معاشرے کو روشن کرکردیا ان کی برائیوں کونیکیوں میں تبدیل کردیا ۔رزائل وفضائل کالباس پہنا دیا کہ وہ لوگ شرافت،دیانت،محبت ،اخوت، شرم وحیا اوراخلاق فاضلہ کے پتلے بن گئے ترقی کے زینے چڑہتے چڑہتے وہ اوج ثریا پر جا پہنچے اور نجات ِآخرت کی بشارتیں انہیں قرآن نے سنائیں۔حکومت ربانی کا فرض کہ وہ قانون کے زورسے بدیوں کو مٹاکر معاشرے کی اصلاح کر ے اور علمائے ربانی کوبھی چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی اصلاح اورمعاشرےکو گناہوں کی آلوگی سے پاک کرنے کے لیے ان کو اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے ڈرائے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ اصلاح معاشرہ ‘‘ مولاناجمال الدین صاحب کے اصلاح معاشرہ ان مضامین کا مجموعہ ہے جو مختلف اوقات میں مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہوتےر ہے ۔ بعد ازاں افاد ہ عام کےلیے اسے کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ اس کتاب میں مصنف موصوف نے ایسے دس بڑے حقوق ذکر کیے ہیں جن کی ادائیگی ہر کسی پر لازمی ہےیہ کتاب اگرچہ مختصر ہے لیکن اصلاح معاشرہ کےلیے نہایت مفید ہے ۔(م۔ا)
تزکیۂ نفس ایک قرآنی اصطلاح ہے ۔اسلامی شریعت کی اصطلاح میں تزکیہ کا مطلب ہے اپنے نفس کوان ممنوع معیوب اور مکروہ امور سے پاک صاف رکھنا جنہیں قرآن وسنت میں ممنوع معیوب اورمکروہ کہا گیا ہے۔گویا نفس کو گناہ اور عیب دارکاموں کی آلودگی سے پاک صاف کرلینا اور اسے قرآن وسنت کی روشنی میں محمود ومحبوب اور خوب صورت خیالات وامور سے آراستہ رکھنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو جن اہم امور کےلیے بھیجا ان میں سے ایک تزکیہ نفس بھی ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے : هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ‘‘اس آیت سے معلوم ہوتاہےکہ رسول اکرم ﷺ پر نوع انسانی کی اصلاح کےحوالے جو اہم ذمہ داری ڈالی گئی اس کےچار پہلو ہیں ۔تلاوت آیات،تعلیم کتاب،تعلیم حکمت،تزکیہ انسانی۔ قرآن مجید میں یہی مضمون چار مختلف مقامات پر آیا ہے جن میں ترتیب مختلف ہے لیکن ذمہ داریاں یہی دہرائی گئی ہیں۔ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت آیات اورتعلیم کتاب وحکمت کا منطقی نتیجہ تزکیہ ہے۔تزکیہ نفس کے حصول کےلیے قرآن وحدیث میں وارد بہت سے امور کااختیار کرنا اور بہت سےامور کا ترک کرنا ضروری ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ اسلام اور تزکیہ نفس‘‘ در اصل ڈاکٹر محمد امین (مدیر البرہان ،لاہور )کے پی ایچ ڈی کے مقالہ کی کتابی صورت ہے جس میں تزکیۂ نفس کے اسلامی تصور اور مغربی نفسیات کا تقابلی جائزہ پیش کیاگیا ہے ۔ڈاکٹر امین صاحب کی یہ کتاب مذہب اور نفسیات کے حوالے سے ایک معتبر اورسائنٹفک سوچ کا امتزاج ہے ۔یہ کتاب تعمیر سیرت میں تزکیہ نفس کاکردار ، نفسیات میں مذہبی رنگ یا مذہب میں نفسیات کے حوالے سے تعمیر شخصیت میں تزکیہ نفس کی ہر پہلو اور افادیت کو عام فہم زبان میں گیرائی اور گہرائی کےساتھ خوبصورت انداز میں بیان کرتی ہے۔انسان ، شخصیت ، نفس ، روح اور قلب کی بڑی اچھی طرح وضاحت کی گئی ہے ۔ مصنف موصوف نے تزکیہ نفس کی اہمیت ، قرآن وحدیث اور مسلمان مفکرین کےحوالے سے بتاتے ہوئے مغربی نفسیات کا بھی بھر پور انداز میں تذکرہ کیا ہے۔(م۔ا)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے، جو پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت اخلاق ہے، ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر فائزتھے، چنانچہ آپﷺ کی راز دار زندگی اور آپﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ عنہا فرماتی ہیں، ”آپﷺ کے اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہے“۔ آپﷺ نے اپنے ہر قول وفعل سے ثابت کیا کہ آپﷺ دنیا میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے تشریف لائے، چنانچہ ارشاد ہے: ”بعثت لاتتم مکارم الاخلاق“ یعنی ”میں (رسول اللہ ﷺ) اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیا ہوں“۔ پس جس نے جس قدر آپﷺ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاکر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا اسی قدر آپﷺ کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا، صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے، ”ان خیارکم احسن منکم اخلاقا“ یعنی ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ حضورﷺ کی ساری زندگی اخلاقِ حسنہ سے عبارت تھی، قرآن کریم نے خود گواہی دی ”انک لعلی خلق عظیم“ یعنی ”بلاشبہ آپﷺ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں“۔ آپ ﷺ لوگوں کوبھی ہمیشہ اچھے اخلاق کی تلقین کرتے آپ کے اس اندازِ تربیت کےبارے میں حضرت انس کہتے ہیں۔ رایتہ یامر بمکارم الاخلاق(صحیح مسلم :6362) میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ لوگوں کو عمدہ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔کتب حدیث میں آپ کے اخلاق کے بارے میں مستقل ابواب ہیں جبکہ حیات طیبہ کےجملہ احوال کتب حدیث کے عمومی صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ سیرت پر جو مستقل کتابیں تصنیف ہوئی ہیں ان میں اخلاقِ حسنہ کےبارے میں تفصیلی ابواب ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ خلق عظیمﷺ‘‘ ڈاکٹر خالدعلوی کی تصنیف ہے۔اس کتاب میں انہوں نے آپﷺ کے اخلاقِ حسنہ کےبارے میں مواد ترتیب دیتے وقت اختصار وجامعیت کو ملحوظ رکھا ہے ۔مصنف نےکوشش کی ہے کہ جزئیات کی تفصیلی حکایت کی بجائے نمایاں اخلاقی صفات کامختصر جائزہ پیش کرنےپر اکتفا کیاجائے ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب قارئین کےلیےنفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
یہ بات بہت واضح اور شفاف ہے کہ آپﷺ کی بیویاں تمام امت کی مائیں ہیں۔اس میں کسی عقل سلیم رکھنے والے کو کوئی اختلاف نہیں کیونکہ یہ قرآنی فیصلہ ہے اور قرآن حکیم نے صاف لفظوں میں اس کو بیان کردیاہے:ترجمہ۔نبیﷺ مومنوں کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں اور آپﷺ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں(الاحزاب:6:33)۔جن عورتوں کو آپﷺ نے حبالہ ءعقد میں لیا انکو اپنی مرضی سے رشتہ ازدواج میں منسلک نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپﷺ نے ان سے نکاح کیا تھا۔ کچھ لوگ امہات المومنین کی مقدس،مطہر،مزکیّ ذاتوں کے متعلق ہرزاسرائی اوراپنی نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں ان کو اپنے ایمان کے بارےفکرمند ہونا چاہیے۔ زیربحث کتاب"امہات المؤمنین"فاضل مؤلف محمود احمد صواف کی عربی تصنیف ہے جس کو مولانا عبدالرشید حنیف نے احسن انداز سے اردو قالب میں ڈھالا ہے فاضل مؤلف نے اپنی کتاب میں امہات المومنین پر کیے جانے والے اعتراضات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جوابات دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(عمیر)(
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دین اسلام ایک امن و سلامتی کا دین ہے۔جب آنحضرتﷺ نے لوگوں کو دین اسلام کی تبلیغ کی تب عرب قبائل بت پرستی اور جہالت کی تاریکیوں میں غوطہ زن تھے۔اسلام نے ہر طرف پھیل کر طاغوتی طاقتوں کا قلع قمع کیا۔لوگوں کو گمراہیوں سے بچا کر راہ ہدایت سے ہمکنار کیاتو دشمنان اسلام نے منافقت سے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنےکی خفیہ سازشیں کیں اور انتہائی غیر محسوس طریقے سے حق و باطل کی آمیزش کی۔ اس طرح حقیقت نظروں سے اوجھل ہوئی اور قرون اولیٰ کی عظمت رخصت ہونے کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھر گیا۔آپﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ؓخلیفہ اول بنے اور امت محمدیہ کی بھاگ دوڑ سنبھالی۔ آپ کےبعد حضرت عمر ؓخلیفہ دوم بنے حضرت عمرفاروق ؓحق وباطل کےدرمیان فارق تھے۔ سیدنا عمر ؓکے دور خلافت میں اسلام ایک طوفان کیطرح اقصائے عالم پر چھا گیاایران و روم کی عظیم سلطنتوں کو شکست سے دو چار کیااور بیت المقدس کو یہودیوں کی چنگل سے آزاد کروایا۔ زیر تبصرہ کتاب"انتخاب لاجواب"محمد اسماعیل کی تصنیف ہےجس میں موصوف نے خلیفہ ثانی سیدنا عمر بن خطاب ؓکی سوانح عمری کو مختصر اور جامع انداز میں قلمبند کیاہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی جزائے خیر عطافرمائےاور اجر عظیم سے نوازے۔ آمین(عمیر)
دین کے اکثر مسائل مردوں اور عورتوں کے درمیان مشترکہ ہیں اور بعض مسائل ایسے ہیں جو عورتوں کے ساتھ خاص ہیں۔جن کو جاننا خواتین کے لئےانتہائی ضروری ہے تاکہ وہ ان پر عمل پیرا ہو کراسلام کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عورتیں نہ تو خود مطالعہ کرتی ہیں اور نہ ہی کسی مستند عالم دین سے مسئلہ دریافت کرنے کی تکلیف گوارہ کرتی ہیں۔بعض باتیں بڑی شرم وحیا کی ہوتی ہیں جن کے دریافت کرنے میں حجاب محسوس ہوتا ہے لیکن ایسی باتیں جب دین اور شریعت سے متعلق ہوں تو ان کے دریافت کرنے میں شرم نہیں کرنی چاہئے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ شرع میں شرم نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "مستورات کے مسائل"محترم محمد یونس خلیق صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے انہی شرم وحیا والے عورتوں کے مخصوص مسائل کو بیان کیا ہے تاکہ مسلمان خواتین ان مخصوص مسائل کا مطالعہ کر کے ان پر عمل پیرا ہو سکیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنطورفرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
جب سیلاب آتا ہے تو حکومت ، میڈیا ، ادارے، جماعتیں، شخصیات او رعوام سبھی اس سے بچاؤ کی چارہ جوئی کرتے ہیں اور ایسے ہمدرد لوگوں کو معاشرے میں وقار اوراحترام ملتا ہے ۔ اس سیلاب سے روک تھام کے نتیجے میں جان ومال کو تحفظ ملتا ہے اور یہ کتنا اچھا جذبہ ہے ۔اسی طرح ایک فحاشی کاسیلاب بھی ہے جس کے مقابلے میں حکومت ،میڈیا ،ادارے ،جماعتیں اور عوام کچھ اقدام کرنے کی بجائے اسے فروغ دیتے ہیں (الا ماشاء اللہ )حالانکہ فحاشی کے سیلاب سے ہمارے ایمان ویقین اور اقدار روایات کو خطرہ ہے اور فحاشی کا یہ سیلاب اونچے اونچے گھرانوں تک پہنچ چکا ہے۔اس فحاشی کےسیلاب کوروکنا معاشرے کےہرفرد کی ذمہ داری ہے ۔ زیر تبصرہ کتابچہ’’ فحاشی کاسیلاب اور اس کا سدِّ باب‘‘ ایڈیٹر ماہنامہ’’ ضیائے حدیث ‘‘ ،مدیر مسلم پبلی کیشنزمحترم محمد نعمانی فاروقی ﷾ کی کاوش ہے۔اس کتابچہ میں انہوں نے فحاشی کا مفہوم ، اثرات اور اس پر ملنے والی سزاؤں کے حوالے سے قرآن وسنت کے دلائل کی روشنی میں بحث پیش کی ہے۔اللہ تعالیٰ ملت اسلامیہ کو فحاشی کے سیلاب میں تنکوں کی طرح بہنے کی بجائے اس کےسامنے ہرممکن بند باندھنے کی توفیق نصیب فرمائے (آمین) (م۔ا)