دورِجدید میں بعض تعلیم یافتہ حضرات کے ذہنوں میں یہ غلط خیال پایا جاتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی احادیثِ مبارکہ اپنے اولین دور میں ضبطِ تحریر میں نہیں لائیں گئیں بلکہ صرف زبانی نقل وروایت پر اکتفاء کیاگیا۔اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دروخلافت میں کم از کم ایک صدی گزرجانے کے بعد احادیث کے لکھے جانے اور ان کو مدون کئے جانے کے کام کا آغاز ہوا۔ یہ خیال بالکل غلط ہے اورعلمی وتاریخی حقائق کے خلاف ہے ۔کیونکہنبی ﷺ کے عہد بابرکت میں حدیث و سنت کی تدوین کا سلسلہ ایک خاص انداز میں شروع ہو گیا تھا اور صحابہ کرام نے اس کی حفاظت و صیانت کو اپنا مقصد حیات قرار دے لیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو حدیث کو محفوظ کرنے کے لیے احادیث نبویہ کو زبانی یاد کرنے اوراسے لکھنے کی ہدایات فرمائیں ۔ اسی لیے مسلمانوں نے نہ صرف قرآن کی حفاظت کا اہتمام کیا بلکہ حدیث کی حفاظت کے لئے بھی ناقابل فراموش خدمات انجام دیں، ائمہ محدثین نے بھی حفظ احادیث اور کتابت حدیث کےذریعے حفاظت ِحدیث کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ اللہ کے رسول ﷺکو شروع میں یہ خوف لاحق تھا کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ حدیث اور قرآن دونوں کو ایک ساتھ ملا کر لکھ لیں جس سے کچھ لوگوں کے لئے دونوں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے، اسی لئے آپ ﷺ نے صحابہ کو احادیث لکھنے سے منع کر دیا تھا، جیسا کہ مسند احمد کی حدیث ہے:لا تكتبوا عني، ومن كتب عني شيئا سوى القرآن فليمحه (مسند أحمد)’’مجھ سے کچھ مت لکھو، اور جس نے قرآن کے علاوہ مجھ سے کچھ بات لکھی ہو اسے چاہیے کہ مٹا دے۔‘‘رسول اللہ ﷺکا یہ حکم سن 7 ہجری تک برقرار رہا، لیکن جب قرآن کی حفاظت کے تئیں اللہ کے رسول ﷺ کو اطمینان حاصل ہو گیا تو اپنے ساتھیوں کو احادیث بھی قلمبند کرنے کی عام اجازت دے دی، صحابہ میں کچھ لوگ ایسے تھے جو آپ کی باتیں سننے کے بعد انہیں باضابطہ لکھ لیا کرتے تھے۔ سیدناعبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ سے جو کچھ سنتا اسے یاد کرنے کے لئے لکھ لیا کرتا تھا، لوگوں نے مجھے روکا اور کہا: اللہ کے رسول ﷺایک انسان ہیں، کبھی خوشی کی حالت میں باتیں کرتے ہیں تو کبھی غصہ کی حالت میں، اس پر میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ پھر میں نے نبیﷺسے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:اكتب فوالذي نفسي بيده لا يخرج منه إلا حق (رواه أبو داود والحاكم)“لکھ لیا کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔‘‘اسی طرح سیدنا ابوهریرہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے (فتح مکہ کے موقع پر) ایک خطبہ دیا. ابو شاہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اسے میرے لئے لکھوا دیجئے، آپ نے کہا: أكتبوا لأبي شاة اسے ابوشاہ کے لیے لکھ دو. (بخاری، مسلم)رسول اللہ ﷺکے انتقال کے بعد قرآن جھليوں، ہڈیوں اور کھجور کے پتوں پر لکھا گیا تھا، صحابہ نے اسے جمع کردیا، لیکن حدیث کو جمع کرنے کی طرف صحابہ کا دھیان نہیں گیا لیکن وہ زبانی طور پر ایک دوسرے تک اسے پہنچاتے رہے، اس کے باوجود کچھ صحابہ نے جو حدیثیں لکھی تھیں ان میں سے کچھ صحيفے مشہور ہو گئے تھے. جیسے ’’ صحیفہ صادقہ‘‘ جو ایک ہزار احادیث پر مشتمل عبداللہ بن عمرو بن عاص عنہ کا صحیفہ تھا، اس کا زیادہ تر حصہ مسند احمد میں پایا جاتا ہے، ’’صحیفہ سمرہ بن جندب ‘‘، ’’صحیفہ سعد بن عبادہ‘‘ ،’’ صحیفہ جابر بن عبداللہ انصاری ‘‘۔ جب مختلف ممالک میں اسلام کا دائرہ وسیع ہونے لگا اور صحابہ کرام مختلف ملکوں میں پھیل گئے، پھر ان میں سے زیادہ تر لوگ وفات پاگئے اور لوگوں کی یادداشت میں بھی کمی آنے لگی تواب حدیث کو جمع کرنے کی ضرورت کا احساس ہوا، لہذا سن 99 ہجری میں جب عمر بن عبدالعزیز مسلمانوں کے خلیفہ بنے اور مسلمانوں کے احوال پر نظر ڈالی جس سے اس وقت مسلمان گزر رہے تھے تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ احادیث کی تدوین کا بندوبست کیا جائے، چنانچہ آپ نے اپنے حکام اور نمائندوں کو اس کا حکم دیتے ہوئے لکھا اور تاکید کی کہ اللہ کے رسول ﷺ کی احادیث کو جمع کرنے کا کام شروع کر دیا جائے، جیساکہ آپ نے مدینہ کے قاضی ابو بکر بن حزم کو لکھا کہ: ’’تم دیکھو، اللہ کے رسول ﷺکی جو حدیثیں تمہیں ملیں انہیں لکھ لو کیوں کہ مجھے علم کے ختم ہونے اور علماء کے چلے جانے کا اندیشہ ہے۔‘‘اسی طرح آپ نے دوسرے شہروں میں بھی ائمہ اور محدثین کو خطاب کیا کہ رسول اکرم ﷺکی حدیثیں جمع کرنے کی طرف توجہ دیں۔جب تیسری صدی آئی تو اس میں احادیث جمع کرنے کا ایک الگ طریقہ مشہورہوا کہ محض اللہ کے رسول ﷺ کی حدیثیں جمع کی گئیں، اور ان میں صحابہ کے قول اورو فعل کو شامل نہیں کیا گیا. اسی طرح مسانيد بھی لکھی گئیں ۔امیر المومنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل البخاری نے فقہی ترتيب کے مطابق محض صحیح احادیث کا مجموعہ تیار کیا جسے دنیا آج صحیح بخاری کے نام سے جانتی ہے جو حدیث کی صحیح اور مستند کتابوں میں پہلے نمبر پر آتی ہے، پھر ان کے بعد ان کے ہی شاگرد امام مسلم بن حجاج نے صحیح حدیث کا ایک مجموعہ تیار کیا جو آج صحیح مسلم کے نام سے مقبول ہے. اور صحیح بخاری کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے.امام بخاری اور امام مسلم کے طریقے پر ان کے دور میں اور ان کے بعد بھی محدثین نے کتابیں لکھیں، آج حدیث کی بڑی کتابوں میں جو حدیثیں محفوظ ملتی ہیں انہیں جمع کرنے والے محدثین نے راویوں کے حوالے سے روایتیں بیان کی ہیں، صحابہ نے اللہ کے رسول ﷺکو جو کچھ کہتے سنا تھا یا کرتے دیکھا تھا اسے انہوں نے حفظ کیا اور کچھ لوگوں نے اسے لکھا پھر بعد کی نسل تک اسے پہنچایا، جن کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے پھر سننے والوں نے دوسروں کو سنایا یہاں تک کہ اسے جمع کر دیا گیا. جیسے فلاں نے فلاں سے کہا اور فلاں نے فلاں سے کہا کہ میں نے اپنے کانوں سے محمد ﷺکو ایسا فرماتے ہوئے سنا ہے. آ ج صرف مسلمانوں کو یہ اعزاز اور فخر حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے رسول کی ایک ایک بات کو مکمل طور پر محفوظ کیا، اس کے لئے مسلمانوں نے اسماء الرجال کاعلم ایجاد کیا، جس کی گواہی ایک جرمن مستشرق ڈاکٹر اے سپرگر (Dr A. Springer) نےدی اور حافظ ابن حجر کی کتاب الإصابہ (مطبوعہ کلکتہ )کے مقدمہ میں لکھا ہے:’’دنیا کی تاریخ میں نہ پہلے دنیا کی کسی قوم کو یہ شرف حاصل ہوا نہ جدید مہذب دنیا میں کسی کو یہ فخر حاصل ہوا کہ اسماء الرجال کے تیکنک کو مسلمانوں کے انداز پر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں. مسلمانوں نے اس علم سے دنیا کو آگاہ کرکے ایک ریکارڈ قائم کر دیا ہے، اس ہمہ گیر اور عظیم علم کے ذریعہ 5 لاکھ لوگوں کی زندگیاں انتہائی باریکی سے محفوظ ہو گئیں ‘‘۔زیر تبصرہ کتاب ’’تدوین حدیث‘‘سید اطہر بن جعفر کی کتاب تدوین قرآن حدیث اور تاریخ کا حصہ دوم تدوین حدیث ہے۔اس کتاب میں مصنف موصوف نے تدوین حدیث کی تاریخ ، صحائف حدیث اورکتب حدیث ومحدثین کا تعارف پیش کرنےکے ساتھ ساتھ منکرین حدیث کے دلائل کا رد بھی پیش کیا ہے ۔(م۔ا)
اسلام کے دوبنیادی اور صافی سرچشمے قرآن وحدیث ہیں جن کی تعلیمات وہدایات پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے ۔ قرآن مجید کی طرح حدیث بھی دینِ اسلام میں ایک قطعی حجت ہے ۔ کیونکہ اس کی بنیاد بھی وحی الٰہی ہے ۔احادیث رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اہل علم نے خدمات انجام دیں۔ تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی سے ہوا او ر صحابہ وتابعین کے دور میں پروان چڑھا ۔ ائمہ محدثین کےدور میں خوب پھلا پھولا ۔مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے۔ان ضخیم مجموعہ جات سے استفتادہ عامۃ الناس کےلیے انتہائی دشوار ہے ۔عامۃ الناس کی ضرورت کے پیش نظر کئی اہل علم نے مختصر مجموعات حدیث تیار کیے ہیں ۔اربعین کے نام سے کئی علماء نے حدیث کے مجموعے مرتب کیے ۔اور اسی طرح 100 احادیث پر مشتمل ایک مجموعہ عارف با اللہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے ا نتہائی مختصراور جامع رسالہ ’’نخبۃ الاحادیث‘‘ کے نام سے مرتب کیا جس میں عبادات معاملات ،اخلاق وآداب وغیرہ سے متعلق کامل راہنمائی موجود ہے۔ موصوف کے کمال حسنِ انتخاب کی وجہ سے یہ کتاب اکثر دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہے۔عصر حاضر میں بھی کئی مزید مجموعات ِحدیث منظر عام پر آئے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تحفۂ حدیث‘‘بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔یہ مجموعہ حدیث مولانا محمد اثری کامرتب شدہ ہے اس میں انہو ں نے ان احادیث مبارکہ کو جمع کیا ہے جو انسان کی عملی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں ۔اور اردو زبان میں ان احادیث کی وضاحت اورتفصیل سے ان کی تشریح بھی کردی ہے ۔اسلامی زندگی کی بابت احادیث صحیحہ کا یہ مستند تشریحی مجموعہ تقریباً ساٹھ احادیث پر مشتمل ہے۔ (م۔ا)
اسلام عفت و عصمت اور پاکیزگی قلب و نگاہ کا دین ہے۔انسان کی عزت وآ برو کی حفاظت کےلیے دین اسلام نے نکاح کا حکم دیا ہے۔تاکہ حصول عفت کےساتھ ساتھ نسل انسانی کی بقاء و تسلسل بھی جاری رہے۔ایک فرقہ (اہل تشیع )کے ہاں نکاح کی ایک صورت متعہ کے نام پر بھی رائج ہےجو اگر چہ اسلام کے آغازمیں جائز تھاتاہم آپﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ہی اسے بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ ناجائز و ممنوع قرار دے دیاتھا۔مگر اہل تشیع اپنے باطل نظریات و افکار سے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرتے آئے ہیں۔ ان کااصل مقصد دین حنیف کا خاتمہ اور اپنے خود ساختہ عقائد کا پرچارہے۔ زیر تبصرہ کتاب"رسالہ حرمت متعہ"جس میں مصنف کتاب ہذا نے نصو ص صریحہ و احادیث صحیحہ عقل و نقل سے حرمت متعہ ثابت کی گئی ہےاور واضح کر دیاگیاہےکہ متعہ ایک ایسا فعل ہےکہ جس کو کوئی باعزت اور دیندار انسان اپنے اور اپنی اولاد کے لیے پسند نہیں کر سکتا۔نیز اہل تشیع کے جواز متعہ پر دلائل و براہیں کا رد کیاگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ وہ اہل اسلام کو اس گمراہ فرقے سے محفوظ رکھے۔ آمین( عمیر)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے سب سے آخری کتاب ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام کوبندوں کی رشد وہدایت کے لیے نازل فرمایا۔یہ اللہ تعالیٰ کا ایساکلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ خودلیا ہے اسی لیے توعرب کے فصیح وبلیغ ادیب اور شعراءایک آیت بنانے سے بھی قاصر و عاجز رہے۔ اس "لاریب" کتاب میں دنیا و آخرت کی بھلائیاں مضمر ہیں۔اب چونکہ یہ کتاب منزل من اللہ ہے تو اس کتاب کو اس طرح پڑھا جائے جیسا ارشاد باری تعالیٰ ہے "ورتل القراٰن ترتیلا"(المدثر) اس حکم الٰہی پر کماحقہ اس وقت عمل ہو گا جب کلام الٰہی کو علم تجوید کے اصول و قواعد کے مطابق پڑھا جائے گا۔ہر مسلمان کے ضروری کہ وہ علم تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہ ہو۔ زیرتبصرہ کتاب"تنویر المیراث شرح ضیاءالقراٰءت"قاری ابن ضیاء محب الدین احمد کی تصنیف ہے۔ موصوف نے علم تجوید کے بنیادی قواعد مثلا''احکام بسملہ، صفات حروف،مد کے احکام،اظہارو ادغام کے قواعد وغیرہ کا مختصر مگر جامع احاطہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ اللہ تعالیٰ موصوف کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائےاور طلبہ دین کواس کتاب سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین(عمیر)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی برصغیر کی ایک معروف علمی شخصیت ہیں۔ آپ بنیادی طور پر حنفی المسلک تھے۔جس دور میں آپ پیدا ہوئے وہ تقلیدی جمود کا دور تھا اور فقہ حنفی کو حکومتی سرپرستی حاصل تھی۔شاہ ولی اللہ جیسے ماہر فقہ نے اسی مکتبہ فکر میں پرورش پائی تھی۔ لیکن جب آپ حج کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو وہاں عرب شیوخ سے درس حدیث لیاجس سے آپ کی طبیعت میں تقلیدی جمود کے خلاف ایک تحریک اٹھی۔چنانچہ وہاں سے واپسی پر آپ نے سب سے پہلے برصغیر کے عوام کو اپنی تحریروں سے یہ بات سمجھائی کہ دین کو کسی ایک فقہ میں بند نہیں کیا جا سکتا، بلکہ وہ چاروں اماموں کے پاس ہے۔ یہ جامد تقلید کے خلاف برصغیر میں باضابطہ پہلی کوشش تھی۔اس کے بعد شاہ صاحب نے ساری زندگی قرآن و سنت کو عام کرنے کے لیے وقف کردی۔آپ نے اپنی معروف کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ احکام شرع کی حکمتوں اور مصلحتوں پر روشنی ڈالی ہے۔یہ کتاب انسانوں کے شخصی اور اجتماعی مسائل، اخلاقیات، سماجیات او راقتصادیات کی روشنی میں فلاح انسانیت کی عظیم دستاویز کا خلاصہ ہے۔اصل کتاب عربی میں ہے جس کا متعدد اہل علم نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔اور اس وقت ضرورت تھی کہ اس کی کوئی شرح بھی ہو تی چنانچہ مولف نے یہ کمی پوری کر دی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغۃ" دار العلوم دیوبند کے استاذ مولانا سعید احمد پالن پوری صاحب کی تصنیف ہےجس میں انہوں نے شاہ صاحب کی اس عظیم الشان تصنیف کی شرح کر دی ہے۔یہ کتاب پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور افادیت کے پیش نظر اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغۃ کی یہ جلدیں ہمیں پی ڈیف کی صورت میں ملی ہیں ان میں جلد نمبر 2 نہیں مل سکی اگر کسی صاحب کے پاس دوسر ی جلد ہو تو ہمیں عنایت کردے تاکہ اسے بھی سائٹ پر آن لائن کیا جاسکے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف، مترجم اور شارح سب کی اس عظیم خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
خدمتِ حدیث بھی بلاشبہ عظیم شرف وسعادت ہے او راس عظیم شرف اور سعادت کبریٰ کے لیے اللہ تعالیٰ نےہمیشہ اپنی مخلوق میں عظیم لوگوں کاانتخاب فرمایا انہی سعادت مند چنیدہ شخصیات میں سرفہرست مجددِ ملت ،محدثِ عصر علامہ شیخ ناصر الدین البانی(1914۔1999ء) کا نام عالی شان ہے جنہوں نے ساری زندگی شجرِ حدیث کی آبیاری کی ۔امام البانی حدیث وفقہ کے ثقہ اما م تھے تما م علوم ِ عقلیہ ونقلیہ پر عبور واستحضار رکھتے تھے ۔آپ کی شخصیت مشتاقان علم وعمل کے لیے نعمت ربانی تھی اورآج بھی آپ کی علمی وتحقیقی او رحدیثی خدمات اہل علم او رمتلاشیان حق کےلیے روشن چراغ ہیں۔آپ کی خدمات کے اثرات وثمرات کودیکھ کر ہر سچا مسلمان یہی محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کوتجدیدِ دین کے لیے ہی پیدا فرمایا تھا۔علامہ ناصر الدین البانی کاشمار ان عظیم المرتبت شخصیات میں ہوتاہے کہ جنہوں نے علمی تاریخ کےدھارے کا رخ بدل دیا ۔شیخ البانی نے اپنی خدمات حدیث سے امت میں احادیث کی جانچ پرکھ کاشعور زندہ کیا۔شیخ کی ساری زندگی درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں گزری ۔ان کی مؤلفات اور تعلیقات کی تعداد تقریبا دوصد سے زائد ہے۔دور حاضر میں شیخ البانی نے احادیث کی تحقیق اور تخریج کا جو شاندار کام کیا ہے ماضی میں اس کی مثالی نہیں ملتی ۔ زیر نظر کتاب ’’احادیث ضعیفہ کامجموعہ ‘‘ شیخ البانی کی احادیث ضعیفہ اور موضوعہ پر مشتمل کتاب سلسلة احاديث الضعيفة والموضوعة واثرها السي في الامة کی پہلی جلد کا ترجمہ ہے ۔شیخ البانی نے سلسلة احاديث الضعيفة والموضوعة میں بڑی محنت اور عرق ریزی سے صحیحین کے علاوہ سنن اربعہ اور باقی کتب حدیث میں ان احادیث کو تلاش کر کے ان کا پوسٹ مارٹم کیا ہے او ر ان کی تحقیق کو تفضیل کے ساتھ پیش کیا اور انہیں جرح وتعدیل کے قواعد کو سامنے رکھتے ہوئے ان پر ضعیف اور موضوع ہونے کاحکم لگایا ہے ۔یہ کتاب اہل علم ،خطباء ،واعظین ،اساتذہ کرام اور ائمہ حضرات کے علاوہ عوام الناس کے لیے بھی بہت مفید اور ضروری ہے۔کتاب ہذا کے ترجمہ کے فرائض معروف عالم دین مولانا محمد صادق خلیل نے انجام دئیے ہیں ۔ کتاب ہذا سلسلة احاديث الضعيفة والموضوعة واثرها السي في الامة کی پہلی جلد میں سے صرف سو ضعیف اور موضوع احادیث کی تحقیق کو سلیس اردو میں پیش کیا گیا ہے۔اللہ تعالی مصنف ومترجم کے درجات بلند فرمائے ، ان کی خدمتِ دین کےلیے جہود کوقبول فرمائے اور اس کتاب کا نفع عام فرمائے (آمین)( م۔ا )
فتنہ انکار حدیث تاریخ اسلام میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے پیدا کیا۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں سنت رسول ﷺ حائل تھی۔ لہذا نہوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کا مسئلہ یہ تھا کہ یونانی فلسفے نے اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے جو شکوک و شبہات عقل انسانی میں پیدا کر دیے تھے، وہ انہیں سمجھنے سے پہلے ہی حل کر دینا چاہتے تھے لہذا انہوں نے فلسفہ کے نام سے منقول ہر بات کو عقل کا لازمی تقاضا سمجھا اور اسلامی عقائد اور اصول و احکام کی ایسی تعبیر کرنا شروع کر دی جو ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو۔ اس راہ میں پھر حدیث و سنت حائل ہوئی تو انہوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھہرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ فتنہ درمیان میں کئی صدیوں تک اپنی شمشان بھومی میں پڑا رہا یہاں تک کہ تیرہویں صدی ہجری میں وہ دوبارہ زندہ ہوا۔ پہلے یہ مصر و عراق میں پیدا ہوا اور اس نے دوسرا جنم برصغیر پاک و ہند میں لیا۔ برصغیر میں اس کی ابتدا کرنے والے سرسید احمد خان اور مولوی چراغ علی تھے۔ ان کے بعد مولوی عبد اللہ چکڑالوی اس کے علمبردار بنے۔ ان کے بعد مولوی احمد دین امرتسری نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور پھر اسلم جیرجپوری اسے آگے لے کر بڑھے۔ اور آخر کار اس فتنہ انکار حدیث و سنت کی ریاست و چودہراہٹ غلام احمد پرویز صاحب کے حصے میں آئی اور انہوں نے اس فتنے کو ضلالت کی انتہا تک پہنچا دیا۔ اس فکر کے حاملین اسلام کو موم کا ایک ایسا گولہ بنانا چاہتے ہیں جسے بدلتی دنیا کے ہر نئے فلسفے کے مطابق روزانہ ایک نئی صورت دی جا سکے۔زیر تبصرہ کتاب"رسالہ عمل بالحدیث" محترم مولانا ولایت علی صادق پوری صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے حدیث پر عمل کرنے کی اہمیت وضرورت پر روشنی ڈالی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولف موصوف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین (راسخ)
نبی کریم ﷺ کے اقوال، افعال اور آپ کے سامنے پیش آنے والے واقعات کو حدیث کا نام دیا جاتا ہے، جو درحقیقت قرآن مجید کی توضیح وتشریح ہی ہے۔کتاب وسنت یعنی قرآن وحدیث ہمارے دین ومذہب کی اولین اساس وبنیاد ہیں۔ پھر ان میں کتاب الٰہی اصل اصول ہے اور احادیث رسول اس کی تبیین و تفسیر ہیں۔ خدائے علیم وخبیر کا ارشاد ہے ”وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیّن لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ“ (النحل:44) اور ہم نے اتارا آپ کی طرف قرآن تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اسے خوب واضح کردیں۔اس فرمان الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی رسالت کا مقصد عظیم قرآن محکم کے معانی و مراد کا بیان اور وضاحت ہے۔ آپﷺنے اس فرض کو اپنے قول و فعل وغیرہ سے کس طور پر پورا فرمایا، سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے اسے ایک مختصر مگر انتہائی بلیغ جملہ میں یوں بیان کیا ہے ”کان خلقہ القرآن“(مسند احمد:24601)یعنی آپ کی برگزیدہ ہستی مجسم قرآن تھی، لہٰذا اگر قرآن حجت ہے (اور بلا ریب وشک حجت ہے) تو پھر اس میں بھی کوئی تردد و شبہ نہیں ہے کہ اس کا بیان بھی حجت ہوگا، آپ نے جو بھی کہا ہے،جو بھی کیا ہے، وہ حق ہے، دین ہے، ہدایت ہے،اور نیکی ہی نیکی ہے، اس لئے آپ کی زندگی جو مکمل تفسیر کلام ربانی ہے آنکھ بند کرکے قابل اتباع ہے ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَةٌ“ (احزاب:21)خدا کا رسول تمہارے لئے بہترین نمونہٴ عمل ہے، علاوہ ازیں آپ ﷺکو خداے علی وعزیز کی بارگاہ بے نہایت سے رفعت وبلندی کا وہ مقام بلند نصیب ہے کہ ساری رفعتیں اس کے آگے سرنگوں ہیں حتی کہ آپ کے چشم وابرو کے اشارے پر بغیر کسی تردد وتوقف کے اپنی مرضی سے دستبردار ہوجانا معیار ایمان و اسلام ٹھہرایا گیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اہمیت حدیث‘‘سید محمداسماعیل مشہدی کے 1376ھ کو عام خاص باغ ،ملتان میں حدیث کی اہمیت کے موضوع پر سالانہ جلسہ میں کیےگیے خطاب کی کتابی صورت ہے۔ اس خطاب میں انہوں نے منکرین حدیث کے چند اعتراضات کے مدلل جواب دیے اور حدیث کی اہمیت وحجیت کو خو ب اجاگر کیا۔ تو بعد ازاں اسے افادۂ عام کےلیے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ۔
ہندستا ن پر مغربی اقتدار کے تاریک دور میں ایک زمانہ ایسا آیا تھا کہ عیسائی مشنریوں نے اپنی پوری طاقت برصغیر کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی مہم میں صرف کر رکھی تھی۔ایک طرف تو مسلمانوں سے سر پر انگریز مسلط ہو رہا تھا تو دوسری طرف عیسائی مبلغ دین اسلام کے خلاف زہر اگل رہے تھے۔ یہ صورت حال انتہائی خطر ناک تھی لیکن تاریخ اسلام کا کوئی زمانہ ان سر فرشوں سے خالی نہیں رہا،جو دین کی ناموس پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں بھی علمائے اسلام کی ایک مقدس جماعت کھڑی کر دی جس نے انگریزوں کے ہر پیداکردہ فتنے کا صبر آزمامقابلہ کیا۔اسلام کے خلاف ہر محاذ پر علمائے اسلام "بنیان مرصوص"کی عملی تصویربن گئے۔ زیر نظر کتاب"بائبل کیا ہے "مولانا محمد تقی عثمانی کی تصنیف ہےموصوف نے اس کتاب میں بائبل سے نا قابل انکا ر دلائل سے ثابت کیا ہے کہ بائبل میں طرح طرح سے تحریفیں ہوئی ہیں،عقیدہ تثلیث کو عقل و نقل کی روشنی میں باطل قرار دیا گیا ہے،قرآن کی حقانیت اور آپﷺ کی رسالت پر بینظیر بحث کی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت مصنف ہذا کو اجر عظیم سے نوازے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(عمیر)
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں انسان کےلیےبےشمار اور بیش بہا نعمتیں پیداکی گئی ہیں۔پس انسان کے لیےلازم ہےکہ وہ ان سے نہ صرف بھرپور فائدہ اٹھائے بلکہ اس پر اللہ رب العزت کا شکریہ بھی اداکرے۔اب اگر یہ مسئلہ پیدا ہو کہ سب سے عظیم ترین اور اعلیٰ ترین نعمت کونسی ہےتو اس کا قطعی اور دو ٹوک جواب یہ ہےکہ صراط مستقیم(سیدھی راہ)ہی ایک ایسی منفرد نعمت ہےجس کا درجہ دیگر سب اشیاء سے بلند تر ہے۔ اسی لیے روزانہ کروڑوں اہل ایمان اپنی ہر نماز میں باربار اپنے آقاو مالک سے اگر کوئی چیز طلب کرتے ہیں تو یہی کہ وہ انہیں ہمہ وقت اور تازیست صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہےکہ عامۃ الناس جس قدر کثرت سے اس نادراور انمول شے کی طلب اور آرزو کا اظہارکرتے ہیں اتنا ہی اس کے مفہوم اور تقاضے سے بے خبراور ناآشناہیں۔ انسان کا تعلق اپنے خالق حقیقی سے کمزور ہوتا چلا جارہا ہےروزی کی تلاش میں رازق کو بھلابیٹھا ہے۔ دنیاوی معاملات میں اس قدر الجھ گیا ہےکہ وہ اپنی آخرت کو بھی یاد نہیں کرتا انسان بھول گیا ہےکہ اس کو ایک دن موت آنی ہے،قبر اس کے انتظار میں ہے،قیامت کے روز حساب ہو گا ان تمام باتوں کے باوجود بھی انسان غفلت اور لاپروہی میں اپنی زندگی بسر کر رہاہے۔ زیر تبصرہ کتاب"تنبیہ الغافلین"نصر بن محمد بن ابراہیم ابو اللیث السمر قندی ؒ کی ایک شاہکار تصنیف ہےجس کو مولانا عبدالنصیر علوی نے اردو قالب میں بڑے احسن اندازسے ڈھالا ہے۔موصوف نے غفلت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کوان کا مقام و مرتبہ اور فکر آخرت کی یاد ہانی کرائی ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے اللہ تعالیٰ مؤلف و مترجم کو اجرے عظیم سے نوازے اور بھٹکی ہو ئی انسانیت کو راہ ہدایت سے ہمکنار کرے۔ آمین(عمیر)
پاکستان میں رہنے والے اکثر لوگوں کی زبان اردو ہے، جو اردو میں ہی گفتگو کرتے ہیں اور اردو میں ہی اپنی تحریریں لکھتے ہیں۔آئینی طور پر حکومت پاکستان پر لازم تھا کہ وہ 1988ء تک اردو کو بطور دفتری زبان کے رائج کرے۔لیکن افسر شاہی نے بیوروکریٹس نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا اور ارود کے نفاذ میں روڑے اٹکاتے آئے۔دفاتر میں اردو کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تربیت یافتہ عملے کی کمی بیان کی جاتی ہے۔اس کمی کو پورا کرنے کے لئے مقتدرہ قومی زبان اور صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے اردو مختصر نویسی اور ٹائپ کاری کے متعدد تربیتی مراکز قائم کئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب"اردو مختصر نویسی"محترم نور احمد شاد صاحب کی تصنیف ہے، جوان مراکز میں تربیت پانے والے طلباء کی سہولت کے پیش نظر لکھی گئی ہے۔امید ہے کہ اردو مختصر نویسی سیکھنے کے شائق دوسرے طلباء بھی اس کتاب کو کارآمد اور مفید پائیں گے۔اللہ کرے کہ ہماری حکومت اردو زبان کو دفاتر میں رائج کرنے کے لئے مخلص ہو جائے اور افسر شاہی کے ہتھکنڈوں اور جالوں کا شکار نہ ہو۔ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی حکومت کو اس طرف توجہ دلائی ہے۔اللہ ہمیں غیروں کی زبان کی بجائے اپنے ملک میں اپنی قومی زبان نافذ کرنے کی ہمت دے۔آمین(راسخ)
موجودہ دور میں عالم اسلام میں امریکہ اور سامراج کا ایک بنیادی ہدف، تفرقہ و اختلافات کی آگ بھڑکانہ ہے اور اس کا بہترین طریقہ اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں سامراج کے پروردہ عناصر آج عراق کے مسائل کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں؟! کس طرح زہرافشانی کر رہے ہیں اور دشمنی کے بیج بو رہے ہیں؟! مغرب کی تسلط پسند اور جاہ طلب طاقتیں برسہا برس سے اس کام میں مصروف ہیں۔ شیعہ سنی جنگ امریکہ کا مرغوب ترین مشغلہ ہے۔قوم وملت کی پستی کا سبب مذہب سے بے اعتنائی،لا پرواہی اور صنادیدو کبائر اسلام کی تاریخ و سیر سے نا آشنائی اور باہمی اتحاد و اتفاق کی قلت ہے۔بد قسمتی سے عالم اسلام میں ایسے بھی عناصر ہیں جو طاغوتی اور سامراجی طاقتوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہر جائز ناجائز کام کرنے کو تیار ہیں اور شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے رے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب"اصحاب ثلاثہ کے مقام پر شیعہ سنی اتحاد" محترم عبدالرحمن عزیز الہ آبادی کی تصنیف ہے۔جس میں شیعہ سنی کے مابین اصحاب ثلاثہ پر متفق ہونے کی ایک تحقیقی کاوش کی ہےاور اہل تشیع کی معتبر کتب کشف الغمہ،نہج البلاغہ تفسیر قمی،وغیرہ سے اصحاب ثلاثہ پر اتفاق کو ثابت کیا ہے ۔اللہ رب العزت ان کی محنت کو قبو ل فرمائے اور امت مسلمہ کو باہمی اتفاق کی توفیق عطا فرمائے۔آمینـ (عمیر )
عربی زبان ایک فصیح اللسان زبان ہے جس کی جوامع الکلم کی شکل میں فصاحت وبلاغت کی ان خو بیوں سے متصف ہے. کہ یہ اعزاز دوسری زبان کوحاصل نہیں کیونکہ آخری نبوی محمدرسول اللہ ﷺکے سا تھ اس زبان میں اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا جو قرآن کی شکل میں ہمارے تک پہنچی ہے اس کے بعد نبی آخر الزماں کے ارشادات بھی عربی زبان میں ہی ہیں.یہی دونوں دین اسلام کے ماخذ بھی ہیں .تو مسلمانوں کے لیے ان دونوں کا فہحم رکھنے اور عربی زبان کو بولنے کی بھی اس قدر ضرورت ہے جس قدر اسلامی تعیلمات کو سیکھ کر عمل کرنا ضروری ہے جو نجات کا ذریعہ ہے.مسلمانوں کی مذہیی ز بان عربی ہےجس کو جانے بغیر کماحقہ اسلامی تعلیات سے واقفیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ عربی زبان کو جانے کے لیے عربی گرائمر کو جاننا بے حد ضر روی ہے اور عربی زبا ن بولنےاور سمجھنے میں خاصی مشکلات آڑ ے آتی ہیں ‘جس کی وجہ سے لوگ عربی زبان کو مشکل جانتے ہوئے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اسی طرح وہ قرآن و حدیث کی تعلیما ت سے جاہل ہی نہیں رہتے بلکہ تعلیمات دین سے دوری اختیار کرتے ہیں. فاضل مصنف محمدیار راضی صاحب نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ عربی کی آفادیت کو بڑھانے اور لوگوں کی آسانی کے لیے کوئی ایسا جامع نصاب ترتیب دیا جائے جس سے عام قاری بھی فائدہ اٹھاسکے۔ عربی بول چال کے ساتھ قرآن و سنت کے فہم میں طلبا ء او رعوام الناس کے لیے آسان ثابت ہو سکے۔ فاضل مصنف نے آپنے تدریسی تجربات کا نچوڑ (آسان درس عربی )کے نام سے مرتب کرنے کا عزم کیا اور مسلسل جہدوجہد اور محنت سے (25آسان سبق )کو جمع کرنے میں کامیا ب ہوئے جس کو کتابی شکل میں اگست(1974) کو پہلی دفعہ شائع کیا گیا اس طرح کتاب کی افادیت واہمیت کے پیش نظر مسلسل اشاعت کے بعد ساتواں اڈیشن جنور ی (1979)کو شائع ہوا (تعلیمی سہولت کے لیے قرآنی آیات اور احادیث و روزانہ استعمال ہونے والے جملےاور عربی گرائمر کے بنیادی قواعد وغیرہ )سے عام فہم اور آسان بنا دیا ہے جس سے دینی تعلیم حاصل کرنے والے ابتدائی طالب علم اور عوام الناس ٹھوڑی سی محنت اور مشق کے بعد عربی سمجھنے میں مہارت حاصل کر لیں گے۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کتاب کو قرآن و حدیث کے فہم کا ذریعہ بنائے اور فاضل مصنف کی نیک نیتی اور اعلیٰ مقصد کو شرف قبولیت سے نوازے۔ (ظفر)
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب "عربی اردو بول چال"محترم مخدوم صابری صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے انتہائی مختصر اور آسان انداز میں عربی زبان سکھانے کی کوشش کی ہے اور زیادہ سے زیادہ عملی مشقیں کروانے کی ٹریننگ دی ہےاور عربی الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کا اردو ترجمہ بھی دے دیا ہے جس سے اس کتاب کی افادیت میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین (راسخ)
فارسی جیسی شیریں زبان کی اہمیت محتاج وضاحت نہیں ہے۔یہ زبان ایران افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان وہندوستان کے علاوہ خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں بھی بکثرت بولی اور سمجھی جاتی ہے۔فارسی دنیا کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔مسلمانوں نے عربی کے بعد فارسی ہی کو اپنایا کیونکہ مسلمانوں کا بیشر دینی وادبی سرمایہ فارسی زبان میں ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کے دور حکومت میں قومی وسرکاری زبان فارسی ہی تھی لیکن سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد اسے بتدریج فراموش کیا جاتا رہا۔ زیر تبصرہ کتاب"فارسی اردو بول چال" محترم مخدوم صابری صاحب کی تصنیف ہے جو فارسی زبان سیکھنے کے خواہش مند حضرات اور بالخصوص تلاش روز گار کے لئے بیارون ملک جانے والوں کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔کتاب کاانداز بیان سہل، پیرایہ دلچسپ اور اسلوب عام فہم ہے۔یہ کتاب فارسی سیکھنے والوں کے لئے ایک نادر تحفہ ہے جس سے فارسی زبان سیکھنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
اہل حدیث کوئی نئی جماعت نہیں، تمام اہل علم اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا نصب العین کتاب و سنت ہے۔ اس لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف نہیں ہے۔ "اہلحدیث "ایک فکر اور تحریک کا نام ہے جو سنت کو مدار عمل ٹھہرانے میں نہایت حریص اور رد بدعات میں نہایت بے باک ہیں۔اس کا مطح نظر فقط عمل بالقراٰن والحدیث ہے معاشرے میں پھیلے ہوئے رسوم و رواج کو یہ جماعت میزان نبوی میں پرکھتی ہے۔جوبات قرآن و سنت کے مطابق ہو اس کو قبول کرنا اس جماعت کا خاصہ اور امتیاز ہے۔ مسلک اہل حدیث وہ دستور حیات ہے جو صرف قرآن وحدیث سے عبارت ہے،بزرگان دین کی عزت سکھاتا ہے مگر اس میں مبالغہ نہیں۔"امرین صحیحین" کے علاوہ کسی کو بھی قابل حجت اور لائق تعمیل نہیں مانتا۔ زیر نظر کتاب"میں اہل حدیث کیوں ہوا "خالد گرجاکھی کی تصنیف ہےجس میں مولانا عبدالرحمن فاضل دارلعلوم دیوبند کا اہل حدیث ہونے کا مکمل سفر اور درپیش مسائل کو ایک تحریری قالب میں ڈھالا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اور تمام مسلک اہل حدیث اختیار کرنے والوں کو صبرو استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین(عمیر)
یہ حقیقت ہےکہ شرک ظلمِ عظیم ہےشرک اکبر الکبائر ہے ،شرک رب کی بغاوت ہے شرک ناقابلِ معانی جرم ہے ، شرک ایمان کےلیے زہر قاتل ہے ، شرک اعمالِ صالحہ کے لیے چنگاری ہے ۔اور شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کوجہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے قرآن کریم میں شرک کوبہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے اور شرک ایسا گناہ کہ اللہ تعالی انسان کے تمام گناہوں کو معاف کردیں گے لیکن شرک جیسے گناہ کو معاف نہیں کریں گے ۔شرک اس طرح انسانی عقل کوماؤف کردیتا ہےکہ انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے ۔پہلی قوموں کی تباہی وبربادی کاسبب شرک ہی تھا بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ جو شرک کے مفہوم کونہیں سمجھتےشرک کرنے کےباوجود وہ کہتے ہیں کہ وہ شرک نہیں کر رہے ان کے نزدیک شرک صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جیساکوئی اور رب بنالیا جائے او راس کی عبادت کی جائے اصل میں وہ شرک کی حقیقت سےناواقف ہیں اسی لیے تو وہ کہتے ہیں انہوں نے کونسا کو ئی اور رب بنایا ہے۔شرک جیسی مہلک بیماری سے بچنے اور تو حید کواختیار کرنے کا انسانیت تک پہنچانےکے لیے اللہ تعالیٰ نےانبیاء کرام کو مبعوث کیا اور قرآن مجید نےسب سے زیادہ زور توحید کےاثبات اورشرک کی تردید پر صرف کیا ہے ۔سید البشر حضرت محمد ﷺ نے بھی زندگی بھر لوگوں کو اسی بات کی دعوت دی اورزندگی کے آخری ایام میں بھی اپنی امت کو شرک سے بچنے کی تلقین کرتے رہے ۔بعد میں صحابہ کرام ، تابعین ، ائمہ محدثین اور علمائے عظام نے دعوت وتبلیغ ، تحریر وتقریر کے ذریعے لوگوں کو شرک تباہ کاریوں سے اگاہ کیا ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’شرک کیا ہے؟‘‘ مولانا محمد عطاء اللہ بندیالوی صاحب کے1421ء کےرمضان المبارک میں سرگودھا شہر کی جامع مسجد حنفیہ میں ’’شرک کیا‘‘ کےعنوان پر دروس کا مجموعہ ہے موصوف کے ان دروس کاسلسلہ تقریباً دس روز جاری رہا ۔جسے سامعین نے بہت زیادہ پسند کیا تو موصوف نے افادہ عام کےلیے اسے مرتب کرکے شائع کیا۔ اللہ تعالیٰ اسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
جس طرح امام ابن تیمیہ کی تجدید دین کی خدمات کا انکار ناممکن ہے اسی طرح ہندوستان میں اسلا می روح اور سلفی عقیدے کی ترویج و اشاعت میں جو خدمات شاہ ولی اللہ کے خاندان نے سر انجام دی ہیں ان کوبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا- تقویۃ الایمان شاہ اسماعیل شہید کی ایک جاندار اور لا جواب تصنیف ہے۔ ’’تقویۃ الایمان‘‘ کا موضوع توحید ہے جو دین کی بنیاد ہے اس موضوع پر بے شمار کتابیں اور رسالے لکھے جاچکے ہیں ۔تقویۃ الایمان بھی انہی کتب میں سے ایک اہم کتاب ہے ۔یہ کتاب پہلی مرتبہ 1826ء میں شائع ہوئی جب شاہ اسماعیل شہید سید احمدبریلوی اور ان کی جماعت مجاہدین کےہمراہ وطن مالوف سے ہجرت کر کے جاچکے تھے ۔اور ہند وستان کی آزادی وتطہیر کے لیے جہاد بالسیف کا آغاز ہورہا تھا۔کتاب تقویۃ الایمان اب تک لاکھوں کی تعداد میں چھپ کر کروڑوں آدمیوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بن چکے ہے ۔شاہ اسماعیل شہید کا اندازِ بحث اور طرزِ استدلال سب سے نرالا ہے اور سراسر مصلحانہ ہے علمائے حق کی طرح انہوں نے صرف کتاب وسنت کومدار بنایا ہے ۔ آیات وآحادیث پیش کر کے وہ نہایت سادہ اور سلیس میں ان کی تشریح فرمادیتے ہیں اور توحید کے مخالف جتنی بھی غیر شرعی رسمیں معاشرے میں مروج تھیں ان کی اصل حقیقیت دل نشیں انداز میں آشکارا کردیتے ہیں ۔انہوں نے عقیدہ وعمل کی ان تمام خوفناک غلطیوں کوجو اسلام کی تعلیم توحید کے خلاف تھیں مختلف عنوانات کے تحت جمع کردیا۔مثلاً شرک فی العلم ، شرک فی التصرف، شرک فی العبادات، شرک فی العادت۔ یوں تقویۃالایمان توحید کے موضوع پر ایک جامع اور یگانہ کتاب بن گئی ۔اردو زبان میں یہ کتاب معمولی پڑھے لکھے آدمی سے لےکر متبحر عالم دین تک سب کے لیےیکساں مفید ہے ۔زیر تبصرہ تقویۃ الایمان کا نسخہ المکتبہ السلفیۃ،لاہور سے طبع شد ہے جس میں مولانا غلام رسول مہر کا مبسوط مقدمہ شامل اشاعت ہے نیزاس اس نخسے کی امتیازی خوبی یہ ہےکہ اس پر شارح نسائی مولانا عطا اللہ حنیف کی تحقیق موجود ہے ۔(م۔ا)
نبی کریم دین کامل لے کر آئے اور آپ نے اسے کامل و اکمل ترین حالت میں امت تک پہنچا دیا ۔آپ نے اس میں نہ تو کوئی کمی کی اور نہ ہی زیادتی کی ،بلکہ اللہ نے جو پیغام دیا تھا اسے امانت داری کے ساتھ اللہ کے بندوں تک پہنچا دیا۔اب اگر کوئی شخص دین میں ایسی نئی چیز لاتا ہے جو آپ سے ثابت نہیں ہے تو وہ بدعت ہوگی ،اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی انسان کو جہنم میں لے جانے والی ہے۔امت مسلمہ آج بے شمارسنتوں کو چھوڑ کر من گھڑت رسوم ورواجات اور بدعات میں پڑی ہوئی ہے۔اور اس امر کی بڑی شدید ضرورت ہے کہ بدعات کی جگہ مردہ ہوجانے والی سنتوں کو زندہ کیا جائے،اور لوگوں کی درست طریقے سے راہنمائی کی جائے۔ہمارے معاشرے میں پھیلی بے شمار بدعات میں سے ایک بدعت نبی کریم ﷺ کا نام مبارک آنے پر انگوٹھوں کو چومنا ہے جس کا اسلام ،شریعت ،نبی کریم ،صحابہ کرام،تابعین اور تبع تابعین ومحدثین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ نبی کریم کی وفات کے بعد گھڑی گئی ہے۔ زیر نظر کتاب " تذکیر الثقلین برد تقبیل الابہامین"محترم مولانا محمد رفیق خاں صاحب خطیب جامع مسجد اہلحدیث پسرور صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے قرآن وحدیث اور ایک سو علماء کرام کی تحریرات اور تصدیقات کی روشنی میں ہر جگہ نبی کریم ﷺ کو پکارنے، انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانے،کفن پر لکھنے اور قبر پر بوسہ دینے سمیت معاشرے میں پھیلی متعددبدعات کا مستند اور مدلل رد کیا ہےاور تمام مسلمانوں کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ بدعات کو چھوڑ کر نبی کریم ﷺ کی سنت کی اتباع کریں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اسلام میں عقائدکی حیثیت ایک ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں۔اسی وجہ سے قرآن وسنت میں عقائد کو بہت شدومد کے ساتھ بیان کیا گیاہے ۔عقائد ہی کی وجہ سے بہت سے گمراہ فرقوں نے جنم لیا۔ معتزلہ،ماتریدیہ،اشاعرہ،جہمیہ وغیرہم یہ تمام جماعتیں عقائد میں لغزش اور افراط و تفریط کا شکار ہونے کے سبب معرض وجود میں آئیں۔قرآن و سنت سے غلط استدلال اور عقل کےعمل دخل کی وجہ سے صراط مستقیم سے ہٹ گئیں۔ اسی طرح اہل سنت والجماعت او ر اہل تشیع کے مابین کئی ایک اختلافی مسائل میں سے ایک معرکۃ الآراہ اختلاف "عقیدہ امامت "ہے۔ "عقیدہ امامت "اہل تشیع کا بنیادی عقیدہ ہے۔اس عقیدے کو ان کے ہا ں اصول دین میں شمار کیا جاتا ہے ۔جس کےبغیروہ آدمی کا ایمان نا مکمل گردانتےہیں ان کے ہاں اصول دین پانچ ہیں ۔ (1) توحید (2) عدل۔ (3)نبوت۔ (4)امامت۔ (5) قیامتاہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ امت کی ہدایت کے لیے اللہ نے اماموں کو متعین کیاہے اور قیامت تک بارہ امام آئیں گے۔گیارہ امام کا انتقال ہو چکا ہے جبکہ بارہواں امام جب اللہ کی مصلحت ہو گی تب ظاہر ہو گا۔ اور اسی طرح حضرت علی ؓ کو خلیفہ بلافصل اور معصوم تسلیم کرتے ہیں ۔ اپنے عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے وہ قرآن کی آیات او ر حدیث غدیر۔ حدیث ثقلین، حدیث موالاۃ سے استدلال کرتے ہیں۔ زیر نظرکتاب "عقیدہ امامت اور حدیث غدیر" مولانا محمود اشرف عثمانی حفظہ اللہ کی قابل داد تالیف ہے ۔جس میں انہوں نے اہل تشیع کے استدلال کا احسن طریقے سےتعاقب کیا ہے ۔اور ان کے باطل عقائد کا مدلل جواب دیا ہے۔ ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ ان کو اجر عظیم عطا فرمائے اور امت مسلمہ کے لیے ان کی کاوش کو ذریعہ رہنمائی بنائے۔ آمین (عمیر )
اسلام ایک امن و سلامتی کا عالمگیر مذہب ہے۔خاتم النبیین کی بعثت سے پہلے دنیامیں شرک و الحاد اور باہمی انتشار وفساد کا دور دورہ تھا۔ رحمت حق جوش میں آئی اور آفتاب رسالت کے ذریعے انوار توحید و سنت سے عالم انسانی کو منور کیا۔سید المرسلین ﷺکی ذات بابرکات و اعلیٰ صفات،امن و عافیت اور شفقت و محبت کا مجمع،حلم و سکینت کا مرقع ہے۔آپﷺ گفتار،کردار کے اعلیٰ منصب پر فائزتھے۔ آپﷺ کی ہر دم عفو درگزی اور نرم دم گفتگو نے عرب کےخانہ بدوش قبیلوں کو امت کے لیے ایک ماڈل اور نمونہ بنادیا۔لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگےاور یہ بات جہاں مشرکین مکہ کو کھٹکتی تھی وہاں یہودیوں ا ور نصرانیوں کو بھی انتہائی ناپسند تھی۔ جبکہ آخری نبی سیدنا حضرت محمد ﷺ کے متعلق پیش گوئی ان کی مذہبی کتابوں میں مختلف انداز سے موجود تھی۔یہودو نصاریٰ نے اپنے مذہب کو خواہشات کے مطابق لفظوی و معنوی تحریف کی نذر کرتے ہوئے انا پرستی،ہٹ دھرمی نے ان کو دین حق سےمحروم کردیا۔ زیر تبصرہ کتاب "عیسائی بھائیوں کو دعوت اسلام" از قلم میا ں قادر بخش ریٹائرڈ ریلوے آفیسر کا ایک مختصر کتابچہ ہے ۔موصوف نے اپنے کتابچہ میں عیسائیوں کی معتبر کتب انجیل متیٰ،انجیل مرقس،انجیل یوحنا،انجیل لوقا،تورات،وغیرہ سےبعثت رسول اللہ ﷺکےدلائل کو یک جاں کرتے ہوئے عیسائی برادری کو ایک لمحہ فکریہ اور اسلام کی ترغیب دلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی محنت اور لگن کو شرف قبولیت سے نوازے اور اہل کتاب کے لیے ذریعہ راہنمائی بنائے۔ (آمین)(عمیر )
دور ِحاضر میں مسلمانوں کے اندر بہت سی خرافات ورسومات نےجنم لے لیا ہے جن میں سے کسی آدمی کے فوت ہوجانے کے بعد ایصالِ ثواب کا مسئلہ بہت غلط رنگ اختیار کرچکا ہے بالخصوص قرآن خوانی کے ذریعے مردوں کوثواب پہنچانے کارواج عام ہے ۔ قرآن خوانی اورگٹھلیوں وغیرہ پر کثرت سے تسبیحات پڑھ کر مرنے والے کو اس کا ثواب بخشا جاتاہے ۔حتی کہ قرآنی خوانی اور ایصال ثواب توایک پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پڑھنے کا میت کوثواب نہیں پہنچتا۔ البتہ قرآن پڑھنےکے بعد میت کے لیے دعا کرنے سے میت کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ہمارے ہاں جو اجتماعی طور قرآن خوانی ایک رواج ہے جس کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ احادیث کی رو سے چند ایک چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔ 1۔کسی مسلمان کا مردہ کےلیے دعا کرنا بشرطیکہ دعا آداب وشروط قبولیت دعا کے مطابق ہو۔2 میت کے ذمے نذرکے روزے ہوں جو وہ ادا نہ کرسکا تو اس کی طرف سے روزے رکھنا بھی باعث ثواب ہے ۔3 نیک بچہ جوبھی اچھے کام کرے گا والدین اس کے ثواب میں شریک ہوں گے۔4مرنے کے بعد اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑجانے سےبھی میت کو ثواب ملتا ہے،صدقہ جاریہ بھی اس میں شامل ہے ۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’اھداء ثواب‘‘ محدث دوراں حافظ محمد گوندلوی کی رد بدعات کےسلسلے میں ایک علمی تحریر ہے۔ جس میں انہو ں میت کی نفع رسانی کےجائز اور ناجائز طریقے بیان کرنے کےساتھ ساتھ تیجے ،ساتویں وچالیسویں کے بدعت اور ناجائز ہونےکامدلل بیان ہے۔اور قرآن مجید کی آیت کریمہ’’ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى‘‘پر بھی بحث کی ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کوعامۃ الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ (آمین) ( م۔ا)
اللہ تبارک وتعالیٰ کے تنہالائقِ عبادت ہونے ، عظمت وجلال اورصفاتِ کمال میں واحد اور بے مثال ہونے اوراسمائے حسنیٰ میں منفرد ہونے کا علم رکھنے اور پختہ اعتقاد کےساتھ اعتراف کرنے کانام توحید ہے ۔توحید کے اثبات پر کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ میں روشن براہین اور بے شمار واضح دلائل ہیں ۔ اور شرک کام معنی یہ کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرائیں جبکہ اس نےہی ہمیں پیدا کیا ہے ۔ شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کوجہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے قرآن کریم میں شرک کوبہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے اور شرک ایسا گناہ کہ اللہ تعالی انسان کے تمام گناہوں کو معاف کردیں گے لیکن شرک جیسے عظیم گناہ کو معاف نہیں کریں گے ۔شرک اس طرح انسانی عقل کوماؤف کردیتا ہےکہ انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے ۔نیز شرک اعمال کو ضائع وبرباد کرنے والا اور ثواب سے محروم کرنے والا ہے ۔ پہلی قوموں کی تباہی وبربادی کاسبب شرک ہی تھا۔ چنانچہ جس کسی نے بھی محبت یا تعظیم میں اللہ کے علاوہ کسی کواللہ کے برابر قرار دیا یا ملت ابراہیمی کے مخالف نقوش کی پیروی کی وہ مشرک ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’مسئلہ توحید‘‘ حجۃ الاسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کےباب التوحید ،باب حقیقۃ الشرک، اور باب اقسام الشرک کا اردو ترجمہ اور ذیلی تعلیقات ہیں۔ حجۃ اللہ البالغہ کے اس حصہ کو اردو قالب میں ڈھالنے کا شرف خاندان ِ غزنویہ کے عظیم سپوت مولانا سید داؤو غزنوی کو حاصل ہو ا۔ 1950ء میں پہلی بار اس کی اشاعت منظر عام آئی تو ہرطبقہ کےاہل علم وتحقیق اور عوامی حلقوں میں نہایت پسند کیاگیا۔اور جلد ہی یہ ایڈیشن ختم ہوگیا۔موجودہ ایڈیشن مئی 1973 ء کاطبع شدہ ہے ۔اللہ تعالیٰ شاہ ولی اللہ اور سید داؤد غزنوی کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے (آمین) (م۔ا)
مسئلہ آخرت کاہو یا دنیا کاانسان ’’ وسیلہ‘‘ کامحتاج ہے ۔ وسیلہ زندگی کی ایک بنیادی حقیقت ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کااعتراف ہرحقیقت پسند کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اہل یمان کووسیلہ کاحکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدہ) ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ‘‘۔وسیلہ کامطلب ہے ایسا ذریعہ استعمال کیا جائے جو مقصود تک پہنچا دے۔توسّل اور اس کے شرعی حکم کے بارے میں بڑا اضطراب واِختلاف چلا آ رہا ہے ۔کچھ اس کو حلال سمجھتے ہیں اورکچھ حرام ۔کچھ کو بڑا غلو ہے اور کچھ متساہل ہیں ۔اور کچھ لوگوں نے تو اس وسیلہ کے مباح ہونے میں ایسا غلو کیا کہ اﷲکی بارگاہ میں اس کی بعض ایسی مخلوقات کا وسیلہ بھی جائز قرار دے دیاہے ، جن کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ وقعت ۔مثلاً اولیاء کی قبریں ،ان قبروں پر لگی ہوئی لوہے کی جالیاں ،قبر کی مٹی ،پتھر اور قبر کے قریب کا درخت۔اس خیال سے کہ ''بڑے کا پڑوسی بھی بڑا ہوتا ہے''۔اور صاحب قبر کے لئے اﷲکا اکرام قبر کو بھی پہنچتا ہے 'جس کی وجہ سے قبر کا وسیلہ بھی اﷲکے پاس درست ہوجاتا ہے ۔یہی نہیں بلکہ بعض متاخرین نے تو غیر اﷲسے استغاثہ کو بھی جائز قرار دے دیا اور دعویٰ یہ کیا کہ یہ بھی وسیلہ ہے 'حالانکہ یہ خالص شرک ہے جو توحید کی بنیاد کی خلاف ہے۔ جائز وسیلہ کی تین صورتیں ہیں جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور وہ درج ذیل ہیں۔ 1۔اللہ تعالیٰ کے اسماء کا وسیلہ قرآن میں ہے: وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا(الاعراف:108)’’اور اللہ کے اچھے نام ہیں پس تم اس کے ناموں سے پکارو‘‘۔اللہ تعالیٰ سے اس کے اسماء حسنیٰ کے وسیلہ سے دعا کرنا درست ہے جیسا کہ اوپر آیت میں ذکر ہے جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے نبیﷺ سے دعا کا پوچھا تو آپﷺ نے یہ دعا پڑھنے کا کہا: " قُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ "(صحيح بخاری:834’)’اے اللہ ! یقیناً میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے علاوہ کوئی بخشنے والا نہیں ۔پس تو اپنی خصوصی بخشش کے ساتھ میرے سب گناہ معاف کردے او رمجھ پر رحم فرما، بے شک تو ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے دو اسماء کو وسیلہ بنایا گیا۔ 2۔اللہ کی صفات کے ساتھ وسیلہ حدیث میں ہے: ’’اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي‘‘(سنن النسائی :1306)’’اے اللہ میں تیرے علم غیب او رمخلوق پر قدرت کے وسیلے سے یہ دعا کرتا ہوں کہ جب تک تیرے علم کے مطابق میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے مجھے حیات رکھا او رجب تیرے علم کے مطابق میرا مرنا بہتر ہو تو مجھے وفات دے دے۔‘‘اس دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفات، علم او رقدرت کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔3۔ نیک آدمی کا وسیلہ ایسے آدمی کی دعا کو وسیلہ بنانا کہ جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو۔احادیث میں ہےکہ صحابہ کرام بارش وغیرہ کی دعا آپؐ سے کرواتے۔(صحيح بخاری :847)۔حضرت عمرؓ کے دور میں جب قحط سالی پیدا ہوئی تو لوگ حضرت عباسؓ کے پاس آئے اور کہا کہ وہ اللہ سے دعا کریں۔ حضرت عمر اس موقع پر فرماتے ہیں: ’’اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا‘‘ (صحيح بخاری:1010)۔ ’’اے اللہ! پہلے ہم نبیﷺ کووسیلہ بناتے (بارش کی دعا کرواتے) تو تو ہمیں بارش عطا کردیتا تھا اب (نبیﷺ ہم میں موجود نہیں) تیرے نبیﷺ کے چچا کو ہم (دعا کے لیے) وسیلہ بنایا ہے پس تو ہمیں بارش عطا کردے۔اس کے بعد حضرت عباسؓ کھڑے ہوئے اور دعا فرمائی۔مذکورہ صورتوں کے علاوہ ہر قسم کاوسیلہ مثلاً کسی مخلوق کی ذات یافوت شدگان کا وسیلہ ناجائز وحرام ہے۔ زیر نظر رسالہ ’’مسئلہ وسیلہ کی شرعی حیثیت‘‘پاکستان کے معروف عالم دین مصنف کتب کثیرہ مولانا محمد صادق سیالکوٹی کی کاوش ہے۔اس رسالہ میں انہو ں نے وسیلہ کامعنیٰ ومفہوم، جائز وناجائز وسیلہ اور وسیلہ کی شرعی حیثیت کو عام فہم انداز میں پیش کیا ہے۔اللہ تعالیٰ اس اس کتابچہ کو عامۃ المسلمین کے عقیدہ کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔ (آمین) (م۔ا)
سیدنا حسین کی شہادت کا واقعہ جو شریعت محمدیہ کی بے شمار بصیرتیں اپنے اندر پنہاں رکھتا تھا، افسوس کہ وہ بھی افراط وتفریط کی دست درازیوں سے محفوظ نہ رہ سکا۔ماتمی مجالس کی چیخ وپکار اور ماتمیوں کی سینہ کوبی کے شور میں اس کی صدائے عبرت انگیز گم ہو گئی۔آہ !اشکبار آنکھوں کے آنسوؤں کے سیلاب میں اس کا سارا سامان عبرت وبصیرت بہہ گیا ۔افسوس اس کی ساری عظمت وبزرگی تعزیوں کے ساتھ ہی زمین میں دفن کر دی گئی۔آہ! دوست اور دشمن دونوں نے اس کے ساتھ بے انصافی کی۔دشمن نے اس واقعہ شہادت پر خوشیاں منائیں اور اس کی عظمت کو اپنے جور واستبداد کے زور سے متانے کی کوشش کی۔لیکن دوست نے بھی اس کے حقیقی شرف سے غفلت برتی اور مختلف بدعات اور شرکیہ رسوم کے تاریک پروں مین اس کو چھپا دیا۔پس آئیے !دنیا کی مجالس ماتم میں ایک نئے حلقہ ماتم کا اضافہ کریں، اور واقعہ شہادت کو اسرار شریعت کا سرچشمہ بنائیں۔اور ایک ایسی مجلس منعقد کریں جو سینہ کوبی اور ماتمی بین کی چیخ وپکار کی بجائے صبر واستقامت، عزیمت وبرداشت، ایثار وقربانی، جان نثاری وفدائیت، اور شہادت وفنا فی سبیل الحریت کا درس دے۔ زیر تبصرہ کتاب"اسوہ حسین"جماعت اہل پاکستان کے معروف عالم دین محترم مولانا سید محمد داود غزنوی صاحب کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے سیدنا حسین کی شہادت کو ایک منفرد انداز میں نمونے کے طور پر بیان کیا ہے اور ہمیں اس نمونے کی پیروی کرنے کی تلقین کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)