خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں ،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اوراپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کرسکتا ہے۔خطابت صرف فن ہی نہیں ہے بلکہ اسلام میں خطابت اعلیٰ درجہ کی عبادت اورعظیم الشان سعادت ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کومیدانِ خطابت کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کادھارا بدل دیتے ہیں،ہواؤں کےرخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے ہیں ۔تاریخ کےہر دورمیں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اقوام وملل او رقبائل کے امراء وزعما کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امرتھا۔قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی ہمیں کئی معروف ِ زمانہ فصیح اللسان اور سحر بیان خطباء اس فن کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظرآتے ہیں۔دورِ اسلام میں فنِ خطابت اپنے اوج کمال تک پہنچ گیا تھا ۔نبی کریم ﷺ خود سحرآفرین اور دلنشیں اندازِ خطابت اور حسنِ خطابت کی تمام خوبیوں سے متصف تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں وراثتِ نبوی کے تحفظ اور تبلیغِ دین کےلیے ایسی نابغۂ روز گار اور فرید العصر شخصیات کو پیدا فرمایا کہ جنہوں نے اللہ تعالی کی عطا کردہ صلاحیتوں اور اس کے ودیعت کردہ ملکۂ خطابت سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے پر زور انداز میں دعوت حق کوپیش کیا اور لوگوں کے قلوب واذہان کو کتاب وسنت کے نور سے منور کیا ۔ ماضی قریب میں امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد، سیدابو بکر غزنوی، آغا شورش کاشمیری، سید عطاء اللہ بخاری ، حافظ محمد اسماعیل روپڑی،مولانا محمد جونا گڑھی وغیرہم کا شمار میدان خطابت کے شہسواروں میں ہوتا ہے ۔اور خطیبِ ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید میدان ِ خطابت کے وہ شہسوار ہیں جنہوں نے اللہ کی توفیق سے ایک نیا طرزِ خطابت ایجاد کیا ۔اور شیخ القرآن مولانا محمدحسین شیخوپوری گلستانِ کتاب وسنت کے وہ بلبل شیدا ہیں کہ دنیا انہیں خطیبِ پاکستان کے لقب سے یاد کرتی ہے۔خطباء ومبلغین اور دعاۃِ اسلام کےلیے زادِراہ ،علمی مواد اور منہج سلف صالحین کےمطابق معلومات کاذخیرہ فراہم کرنا یقیناً عظیم عمل اوردینِ حق کی بہت بڑی خدمت ہے اور واعظین ومبلغین کا بطریق احسن علمی تعاون ہے ۔اس لیے علماء نے ہر دور میں یہ رزیں کارنامہ سرانجام دینے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ خطباء ودعاۃ جن کے پاس مصادر ومراجع میسر نہیں یا جن کے پاس وقت کی قلت ہے ان کے لیے خطباء کی تیاری کےلیے آسانی ہوسکے ۔ماضی قریب میں اردوزبان میں خطبات کے مجموعہ جات میں اسلامی خطبات از مولانا عبدالسلام بستوی ، خطباتِ محمدی از مولانا محمد جونا گڑھی ،خطبات ِنبوی از مولانا محمد داؤد راز اور بعض اہل علم کے ذاتی نام سے (خطبات آزاد ،خطبات علامہ احسان الٰہی ظہیر ، خطبات یزدانی ،مواعظ طارق وغیرہ ) خطبات کے مجموعات قابلِ ذکر ہیں ۔اور عربی زبان میں خطباء واعظین حضرات کے لیے 12 ضخیم مجلدات پر مشتمل ’’نضرۃ النعیم ‘‘انتہائی عمدہ کتاب ہے ۔ فاضل نوجوان مولانا عبد المنان راسخ کی کتب( خوشبوئے خطابت منہاج الخطیب،ترجمان الخطیب ، مصباح الخطیب ، حصن الخطیب ، بستان الخطیب) اسلامی وعلمی خطبات کی کتابوں کی لسٹ میں گراں قدر اضافہ ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’بستان الخطیب‘‘ محترم مولانا ابو الحسن عبدالمنان راسخ ﷾( مصنف کتب کثیرہ) کی مرتب شدہ ہے جوکہ علماء خطبا اورواعظین کےلیے 17 علمی وتحقیقی خطبات کا نادر مجموعہ ہے ۔ کتاب کے آغاز میں خطباء اور واعظین حضرات کے لیے مصنف کا تحریرکردہ’’ خیرخواہی کا چھٹا سبق‘‘کے عنوان سے طویل مقدمہ بھی انتہائی لائق مطالعہ ہے ۔ اس میں انہوں نے خطبائے کرام کے لیے انتہائی قیمتی باتیں سپرد قلم کی ہیں کامیاب اور اچھا خطیب ومبلغ بننے کے لیے ان کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔ (ان شاءاللہ ) ۔موصوف جامعہ اسلامیہ ،صادق آباد کے فیض یافتہ ہیں اور مولانا حافظ ثناء اللہ زاہدی﷾ کے مایۂ ناز قابل شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں ۔تبلیغی واصلاحی موضوعات کے علاوہ علمی وتحقیقی موضوعات کو بیان کرنے اور تحریر کی کامل دسترس رکھتے ہیں۔ موصوف جامعہ اسلامیہ،صادق آبادسے فراغت کےبعد شروع شروع میں مجلس التحقیق الاسلامی ، لاہور میں حافظ عبد الرحمن مدنی﷾ کی زیر نگرانی بھی علمی وتحقیقی خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ موصوف ایک اچھے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے اچھے خطیب ، واعظ اور مدرس بھی ہیں ۔ عرصہ دراز سے فیصل آباد میں خطابت کافریضہ انجام دینے کےساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا کام بھی کرتے ہیں ۔تقریبا دو درجن کتب کےمصنف ہے۔ جن میں سے چھ کتابیں(خشبو ئے خطابت ،ترجمان الخطیب،منہاج الخطیب ، حصن الخطیب،بستان الخطیل) خطابت کے موضوع پر ہیں ۔کتاب ہذا بستان الخطیب کو موصوف نے بہت دلجمعی اور محنت سے مرتب کیا ہے ۔ ہر موضوع پر سیر حاصل مواد کے ساتھ ساتھ تحقیق وتخریج کا وصف بھی حددرجہ نمایا ں ہے ۔ مولانا عبدالمنان راسخ ﷾ کے خطبات حسب ذیل امتیازی خوبیوں کے حامل ہیں۔ منفرد موضوعات کا چناؤ،سب مواد موضوع کےمطابق، قرآنی آیات اور صحیح احادیث پر مشتمل ، تاریخی واقعات کا اہتمام، رسمی گردان بازی سے اجنتاب ، حتی المقدور اعراب کی صحت کا خیال اللہ تعالیٰ ان کی تبلیغی واصلاحی ،تصنیفی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے،ان کے علم وعمل اور زور ِقلم میں اضافہ فرمائے ۔اور ان کی تمام کتب کوعوام الناس کےلیےنفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
نبی کریم ﷺ کی نبوت کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپﷺ نے مستقبل میں پیش آنے والے فتنوں کی پہلے سے ہی پیشین گوئی فرما دی تھی۔نبی کریمﷺ نے اپنی متعدد احادیث مبارکہ میں عراق کو فتنوں کی سرزمین قراردیا ہے۔تاریخ اس بات پرشاہد ہے کہ ہمیشہ بڑے بڑے فتنے عراق ہی سےنمودارہوئے ہیں، اورآج بھی ہم اپنی کھلی آنکھوں سے یہاں پر پھیلے فتنوں کودیکھ رہے ہیں۔ صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ فتنہ یہاں ہے فتنہ یہاں ہے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔(بخاری:3289) اس حدیث میں مشرق سے مراد عراق ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد عراق جنگ جمل، صفین، نہروان، واقعہ کربلاء، بنو امیہ اور بنو عباس کی لڑائیاں، پھر تاتاریوں کے خون ریز ہنگاموں کی شکل میں یہ فتنے ظاہر ہوئے۔خوارج وروافض، قدریہ ومعتزلہ اور جہمیہ وغیرہ جیسے گمراہ فرقوں کا ظہور بھی کوفہ، بصرہ وغیرہ عراقی شہروں سے ہوا۔بارہ سو سال تک مسلمانوں کا متفق علیہ یہ رہا کہ نجد قرن الشیطان سے مراد عراق ہی ہے۔جیسا کہ حنفی شارحین حدیث علامہ کرمانی وعینی اور مسلمہ شارحین حافظ ابن حجر وقسطلانی کی تصریحات سے ظاہر ہوتا ہے۔لیکن جب امام التوحید شیخ محمد بن عبد الوھاب نے نجد یمامہ میں توحید کا علم بلند کیا تو فرقہ غالیہ نے انکے ساتھ بھی وہی سلوک کرنا شروع کر دیا جو ہر موحد کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ان انہوں نے امام محمد بن عبد الوھاب کو بدنام کرنے کے لئے اس حدیث کا مفہوم بگاڑتے ہوئے اسے نجد یمامہ پر فٹ کرنا شروع کر دیا۔ زیر تبصرہ کتاب "اکمل البیان فی شرح حدیث نجد الشیطان" محترم حکیم محمد اشرف سندھو صاحب کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے انہوں نے فرقہ غالیہ کی ان جعل سازیوں کا مستند دلائل سے رد کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
مسلک اہل حدیث کوئی نئی جماعت نہیں۔ تمام اہل علم اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت موجود ہے تب سے یہ جماعت موجود ہے۔اسی لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے۔یہ نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔پہلا لفظ"اہل"ہے۔جس کے معنی ہیں والے صاحب دوسرا لفظ"حدیث" ہے۔حدیث نام ہے کلام اللہ اور کلام رسولﷺ کا۔قرآن کو بھی حدیث فرمایا گیا ہے۔اور آپﷺ کے اقوال اور افعال کے مجموعہ کا نام بھی حدیث ہے۔پس اہل حدیث کے معنی ہوئے۔”قرآن و حدیث والے” جماعت اہل حدیث نے جس طریق پر حدیث کو اپنا پروگرام بنایا ہے اور کسی نے نہیں بنایا۔اسی لیے اسی جماعت کا حق ہے۔کہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہے۔مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہی جماعت حق ہے۔ اہل حدیث مروّجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں، نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے، بلکہ اہل حدیث ایک جماعت اور تحریک کا نام ہے۔ اور وہ تحریک ہے زندگی کے ہر شعبے میں قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنا اور دوسروں کو ان دونوں پر عمل کرنے کی ترغیب دلانا، یا یوں کہ لیجئے کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب وسنت کی دعوت اور اہل حدیث کا منشور قرآن وحدیث ہے۔اور اصلی اہل سنت یہی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "مقام اہلحدیث" محترم حکیم اشرف صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے اہل حدیث کے اسی مقام ومرتبے اور شان کو بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
صحیح احادیث کے مطابق رکعاتِ تراویح کی مسنون تعداد آٹھ ہے ۔مسنون تعداد کا مطلب وہ تعداد ہےجو اللہ کے نبی ﷺ سے بسند صحیح ثابت ہے ۔ رکعات ِتراویح کی مسنون تعداد اوررکعات تراویح کی اختیاری تعداد میں فرق ہے ۔ مسنون تعداد کا مطلب یہ ہے کہ جو تعداد اللہ کےنبی ﷺ سے ثابت ہے او راختیاری تعداد کا مطلب یہ ہے کہ وہ تعداد جو بعض امتیوں نے اپنی طرف سے اپنے لیے منتخب کی ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ ایک نفل نماز ہے اس لیے جتنی رکعات چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔اورصحیح احادیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کا رمضان او رغیر رمضان میں رات کا قیام بالعموم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں ہوتا تھااور حضرت جابر کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کوتین رات جو نماز پڑہائی وہ گیارہ رکعات ہی تھیں او ر حضرت عمر نے بھی مدینے کے قاریوں کو گیارہ رکعات پڑہانے کا حکم دیاتھا اور گیارہ رکعات پڑھنا ہی مسنون عمل ہے ۔امیر المومنین حضر ت عمر بن خطاب ، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابی بن کعب اور حضرت عبد اللہ بن مسعود سے 20 رکعات قیام اللیل کی تمام روایات سنداً ضعیف ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ البرہان فی قیام رمضان اعنی ترویح سنت صر ف آٹھ ہیں بجواب تراویج صرف بیس ہیں‘‘ مولانا محمد رفیق سلفی راہوالی کی تصنیف ہے جوانہو ں نے مولوی نور احمد چشتی کی کتاب ’’ نماز تراویح صرف بیس ہیں‘‘ کے جواب میں لکھی ۔ اور چشتی صاحب کی کتاب کا مدلل جواب دیتے ہوئے ثاتب کیا ہےکہ مسنون نمازتراویح کی تعداد صرف آٹھ ہے ۔جبکہ چشتی صاحب پوری کتاب میں کسی صحیح حدیث سے باجماعت بیس تراویح سنت ِ رسول ﷺ تو درکنار خلفاء اربعہ میں سے بھی ثابت نہ کرسکے کہ حضرت ابو بکر صدیق ،حضرت عمرفاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی نے بنفس نفیس بیس رکعات تراویح پڑھی ہیں ۔(م۔ا)
بلاشبہ نماز ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے اوردین کا ستون ہے۔اور مسلمانوں کا امتیازی وصف دن اور رات میں پانچ دفعہ اپنے پروردگار کےسامنے باوضوء ہوکر کھڑے ہونا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا اور اپنے رب سے اس کی رحمت طلب کرنا ہے ۔نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اورا سلام کا دوسرا رکن ِ عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کلمۂ توحید کے اقرار کےبعد سب سے پہلے جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہی ہے ۔اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے ۔ بے نماز کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔ قیامت کےدن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا۔ نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے ۔بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سےنماز کا پابند بنایا جائے ۔نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قدر اہم ہے کہ سفر وحضر ، میدان ِجنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔اس لیے ہرمسلمان مرد اور عورت پر پابندی کے ساتھ وقت پر نماز ادا کرنا لازمی ہے۔نماز کی اہمیت کے پیش نظر متقدمین ومتأخرين علمائے کرام نےمختلف اسالیب کے ساتھ مختصر ومفصل کتابیں لکھیں ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ مومن کی نماز ‘‘محترم قاری صہیب احمد میری ﷾(فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ و مدینہ یونیورسٹی ،مدیر کلیۃ القرآن الکریم والتربیۃ الاسلامیۃ،پھولنگر) کی نماز کےحوالے سے قرآن وسنت کے دلائل سے مزین ایک اہم کتاب ہے ۔ قاری صاحب نے اس کتاب کو مبتدی طلباء کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اسلوب کو عام فہم رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ حتی کہ احادیث کا ترجمہ کرتے وقت بھی عام مفہوم کوترجیح دی ہے۔ اور صحیح احادیث پیش کرنےکی کوشش کی ہے۔ احادیث کی تخریح بھی کردی ہے تاکہ بوقت ضرورت اصل کتاب کی طرف رجوع کرنا آسان ہو۔محترم قاری صاحب ماشاء اللہ اس کتاب کے علاوہ بھی کئی دینی ،تبلیغی اور اصلاحی وعلمی کتب کے مصنف ہیں او رایک معیاری درسگاہ کے انتظام وانصرام کو سنبھالنے کےعلاوہ اچھے مدرس ،واعظ ومبلغ اور ولی کامل حافظ یحیٰ عزیز میر محمدی کے صحیح جانشین اور ان کی تبلیغی واصلاحی جماعت کے روح رواں ہیں ۔راقم کو الحمد للہ جامعہ لاہورالاسلامیہ، لاہور میں قاری صاحب کا کلاس فیلو ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ قاری صا حب کے علم وعمل اور زورِ قلم میں اضافہ فرمائے اور دین اسلام کےلیے ان کی خدمات کو شرف ِ قبولیت سے نوازے (آمین) (م۔ ا )
شریعتِ اسلامیہ میں عبادات اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان مناجات کانام ہے اور بندے کا اپنے خالق سےقلبی تعلق کا اظہار ہے ۔ایک مسلمان جب اپنی غمی،خوشی اور زندگی کے دیگر معاملات میں اللہ سےرہنمائی حاصل کرتا ہے تو اس کا یہ تعلق اس کے رب سے اور بھی گہرا ہوجاتا ہے ۔ عبادات کاایک حصہ ان دعاؤں پر مشتمل جو ایک مسلمان چوبیس گھنٹوں میں نبی ﷺ کی دی ہوئی رہنمائی کے مطابق بجا لاتا ہے او ر یقیناً مومن کےلیے سب سے بہترین ذریعہ دعا ہی ہے جس کے توسل سے وہ اپنے رب کو منالیتا ہے اور اپنی دنیا وآخرت کی مشکلات سے نجات پاتا ہے۔کتبِ احادیث نبی کریمﷺ کی دعاؤں سے بھری پڑی ہیں ۔مگر سوائے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے تمام احادیث کی کتب میں صحیح ضعیف اور موضوع روایات مل جاتی ہیں ۔دعاؤں پر لکھی گئی بے شمار کتب موجود ہیں اوران میں ایسی بھی ہیں جن میں ضعیف وموضوع روایات کی بھر مار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’صحیح اذکارووظائف‘‘محترم جناب مولانا محمد فاروق رفیع﷾(استاد الحدیث والفقہ، جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور) کی کاوش ہے۔اس کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں فقط صحیح اور حسن احادیث ہی پر اکتفاء کیاگیا ہے اور زندگی کے ہر پہلوپر محیط اور ہرمشکل کے حل پرمشتمل صحیح اذکار وظائف اس کتاب جمع کردیے گئے ہیں اور ساتھ قرآنی دعائیں بھی شامل کردی گئی ہیں۔ یہی وصف اسے دیگر کتب سے ممتاز وفائق کرتا ہے ۔ تاکہ عام لوگ اس سے بھرپور استفادہ کرسکیں اور صحیح دعاؤں کا اہتمام کر کے اللہ تعالیٰ کےمقرب ومحترم قرار پائیں۔فاضل مصنف اس کے کتاب کے علاوہ بھی ماشاء اللہ تقریبا نصف درجن کتب کے مصف و مؤلف ہیں اور اذکار وظائف کے موضوع پر معروف زمانہ ومقبول عام کتاب ’’حصن المسلم‘‘ اور ’’اذکار مسلم‘‘ پرتحقیق وتخریج کا کام بھی کرچکے ہیں یہ دونوں کتابیں طبع ہوکر عوام الناس تک پہنچ چکی ہیں اور ویب سائٹ بھی موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل اور زور ِقلم میں اضافہ فرمائے (آمین)(م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے سب سے آخری کتاب ہے ۔جسےاللہ تعالی نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں،عالم اسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، جبکہ مغرب ،الجزائر ،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت امام نافع بروایت ورش ، لیبیا ،تیونس اور متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع ،مصر، صومالیہ، سوڈان اور حضر موت میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج اور متداول ہے۔ہمارے ہاں مجلس التحقیق الاسلامی میں ان چاروں متداول روایات(اور مزید روایت شعبہ) میں مجمع ملک فہد کے مطبوعہ قرآن مجید بھی موجود ہیں۔عہد تدوین علوم سے کر آج تک قراءات قرآنیہ کے موضوع پر بے شمار اہل علم اور قراء نے کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔طیبۃ النشر علامہ ابن الجزری کی قراءات عشرہ کبری پر اہم ترین اساسی اور نصابی منظوم کتاب ہے ۔ اللہ تعالی نے اسے بھی شاطبیہ کی مانند بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے،جو قراءات عشرہ کبری کی تدریس کے لئے ایک مصدر کے حیثیت رکھتی ہے۔متعدد علماء اور قراءنے اس کی شروحات لکھی ہیں، جنہیں یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ زیر نظر کتاب ''الکواکب النیرۃ فی وجوہ الطیبۃ"شیخ القراءقاری محمد ادریس العاصم صاحب کی تالیف ہے۔جس میں انہوں نے شاطبیہ اور درہ سے زائد ان وجوہ کو جمع فرما دیا ہے جو علامہ ابن الجزری نے اپنی کتاب "طیبۃ النشر" میں بیان کی ہیں۔ مولف موصوف نے ان وجوہ کو انتہائی آسان اور سہل انداز میں پیش کیا ہے، جسے سامنے رکھ آسانی سے عشرہ کبری پڑھی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالی قراء ات قرآنیہ کے حوالے سے سر انجام دی گئی ان کی ان خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے، اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے،اور قراء کرام کا تجربہ گواہ ہے کہ اگر بچپن میں ہی تلفظ کے ساتھ قاعدہ پڑھا دیا جائے تو بڑی عمر میں تلفظ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ " نورانی قاعدہ " محترم مولانا نو ر محمد حقانی صاحب کا مرتب کردہ ہے ، جس میں انہوں نے قاعدے کی معروف تختیوں کے ساتھ ساتھ جا بجا تجوید کے قواعد بھی بیان کر دئیے ہیں اور ساتھ نماز اور مسنون دعائیں جمع کر دی ہیں تاکہ بچے قاعدے کے ساتھ نماز اور چند ضروری دعائیں بھی بچپن ہی سے یاد کر لیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کی نافرمانی کاہر کام گناہ کہلاتا ہے ۔ اہل علم نے کتاب وسنت کی روشنی میں گناہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں ۔ صغیرہ گناہ یعنی چھوٹے گناہ اور کبیرہ گناہ یعنی بڑے گناہ۔ اہل علم نے کبیرہ گناہوں کی فہرست میں ان گناہوں کوشمار کیا ہے جن کےبارے میں قرآن وحدیث میں واضح طور پر جہنم کی سزا بتائی گئی ہے یا جن کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے شدید غصہ کا اظہار فرمایا ہے ۔اور صغیرہ گناہ وہ ہیں جن سے اللہ اوراس کے رسول نےمنع توفرمایا ہے ، لیکن ان کی سزا بیان نہیں فرمائی یا ان کے بارے میں شدید الفاظ استعمال نہیں فرمائے یا اظہارِ ناراضگی نہیں فرمایا۔کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کی وجہ سے آدمی پر سب سے بڑی ہلاکت اور مصیبت تو یقیناً آخرت میں ہی آئے گی جہاں اسے چاروناچار جہنم کاعذاب بھگتنا پڑے گا لیکن اس دینا میں بھی گناہ انسان کے لیے کسی راحت یاسکون کا باعث نہیں بنتے بلکہ انسان پر آنے والے تمام مصائب وآلام،بیماریاں اور پریشانیاں تکلیفیں اور مصیبتیں درحقیقت ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہی آتی ہیں ۔کبیرہ گناہ کا موضوع ہمیشہ علماء امت کی توجہ کامرکز رہا ہے چنانچہ اس پر مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں اور شروح حدیث وکتبِ اخلاق میں یہ بحث ضمناً بھی آئی ہے ۔مستقل تصانیف میں امام ذہبی ، شیخ احمد بن ہیثمی ،ابن النحاس، محمد بن عبدالوہاب، اور شیخ احمد بن حجر آل بوطامی کی کتابیں قابل ذکر ہیں ۔ زير تبصره کتاب’’کتاب الکبائر‘‘ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی کتاب ’’ کتاب الکبائر‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ہے ۔اس کتاب میں شیخ موصوف نے 124 ابواب کی صورت میں گناہ کبیرہ کو قرآنی آیات اور احادیث نبویہ ﷺ سے مزین کیا ہے ۔شیخ کی یہ کتاب مختصر ہونے کے باوجود اپنے موضوع میں بہترین کتاب ہے ۔ اس اہم کتاب کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر(مترجم ومصف کتب کثیرہ ) نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ،مترجم اور ناشرین کو ان کی محنتوں کابہترین صلہ عطا فرمائے ، کتاب کو شرف قبولیت سے نوازے اور اسے پڑھنے والوں کے لیے نفع بخش بنائے (آمین) م۔ا)
لعنت دھتکار اور پھٹکار کا عربی نام ہے اور لعنت ایک بدعا ہے اس کا معنی اللہ کی رحمت سے دور ہونے اور محروم ہونے کے ہیں جب کوئی کسی پر لعنت کرتا ہے توگویا وہ اس کے حق میں بدعا کرتا ہے کہ تم اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاؤ رسول کریم ﷺ نے کسی پر لعنت کرنے کو بڑی سختی سے منع کیا فرمایا ہے یہاں تک کہ بے جان چیزوں پر بھی لعنت کرنے سے منع کیا فرمایا ہے لعنت اور ناشکری جہنم میں جانے کا باعث بن سکتے ہیں جیسے کہ نبی ﷺ نے فرمایا’’ اے عورتو! صدقہ کیا کرو میں نےجہنم میں دیکھاکہ عورتوں کی تعدادزیادہ ہے عورتوں نےعرض کیا یارسول اللہﷺ اس کی کیاوجہ ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم لعنت زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو ‘‘۔ جس شخص پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت ہو اس کی دینوی اخروی ذلت ورسوائی میں قعطا کوئی شک وشبہ نہیں او روہ خسارے ہی خسارے میں ہے۔بحیثیت مسلم ہم سب مسلمانوں پر لازم ہےکہ ہم ملعون کام کرنا تودرکنار ن کی طرف دیکھنا بھی برداشت نہ کریں ۔ کیوں کہ جن اعمال واشیاء اور حرکات سے اللہ اوراس کے رسول ﷺ کو نفرت ہے اس سے نفرت کرنا ہم سب پر فرض ہے اور جزو ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ تکمیل ایمان کے لیے شرط ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’لعنتی کون‘‘محترم مولانا ابو الحسن عبدالمنان راسخ ﷾( مصنف کتب کثیرہ) کی مرتب شدہ ہے۔ انہوں نے علمی وتحقیقی انداز میں اس کتا ب میں لوگوں کو اس بات کی دعوت ِفکر دی ہے کہ وہ لعنت کےاسباب سے مکمل اجتناب واحتراز کریں اور جو افراد دنیا کی رنگ رلیوں میں مست حدوو اللہ کو پامال کر رہے ہیں ان کو خبردار کیا ہے کہ وہ لعنت کی بجائے رحمت کے مستحق ٹھریں۔موصوف نے لعنت کے متعلق قرآنی آیات و احادث کو جمع کر کے انہیں بڑے احسن انداز سے مرتب کیا ہے اور سب کی سب صحیح احادیث ہی جمع کی ہیں۔ ضعیف احادیث سے مکمل اجتناب کیا ہے اور احادیث کے مکمل حوالہ جات پیش کیے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے آخری رسول سیدنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی لعنت سے محفوظ فرمائے اورجن کاموں کے کرنےپر لعنت پڑتی ہے اللہ تعالیٰ ان سے بچنے کی ہمت اورتوفیق عطا فرمائے اور رحمتیں ہی رحمتیں حاصل کرنے کی سعادت نصیب فرمائے اور فاضل مصنف کی تبلیغی واصلاحی ،تصنیفی خدمات کو شرف ِقبولیت سے نوازے،ان کے علم وعمل اور زور ِقلم میں اضافہ فرمائے ۔اور ان کی تمام کتب کوعوام الناس کےلیےنفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
شادی ایک سماجی تقریب ہے جو دنیا کے ہر مذہب ہر خطے اور ہر قوم میں جاری وساری ہے کیونکہ اس کا تعلق زندگی کی بقا اور تسلسل کے اس مخصوص عمل سے ہے جسے چھوڑ دینے سے نسلِ انسانی ہی منقطع ہوکررہ جائے گی۔اسکی اہمیت کےپیش نظر ہر قوم اور ہر مذہب نے اس کے لیے اپنے اپنے معاشرتی اور مذہبی پس منظر میں طریقے وضع کر رکھے ہیں ۔یہ طریقے بہت سی رسومات کا مجموعہ ہیں۔ان رسومات کے بعض پہلویا تو انتہائی شرم ناک ہیں یا اہل معاشرہ اور شادی کرانے والے شخص اوراس کے متعلقین کے لیے مالی اور جسمانی تکلف اور تکلیف کاباعث ہیں۔دینِ اسلام میں بھی شادی کوایک اہم معاشرتی تقریب کی حیثیت حاصل ہے ۔تقریب نکاح کاطریقہ اس قدر آسان ہونے کے باوجود ہمارے موجودہ معاشرے میں اسے ایک مشکل ترین تقریب بنادیاگیا ہے ۔بات طے کرنے سےلے کر قدم قدم پر ایسی رسومات ادا کی جاتی ہیں جن میں مال خرچ بھی ہوتا ہے اور متعلقین کوبھی بار بار مال اور وقت خرچ کر کے ان رسومات میں شریک کیا جاتا ہے ۔ ان رسومات پر ایک طائرانہ نظر رڈالنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے اکثر کاتعلق ہندو مذہب کی شادی کی رسومات سے ہے ۔اور کچھ لوازمات مغربی معاشرے کے بھی شامل کر لیے گیے ہیں۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’شادی اسلام کی نظر میں‘‘ مولانا عبد اللہ دانش صاحب کی تحریر ہے۔انہوں نے اس موضوع کو بڑے ہی مؤثر ودلکش اور دلنشیں انداز میں پیش فرمایا ہے اور اس کتابچہ کو کتاب وسنت کےحوالہ جات سے مزین کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
حدیث کو نقل کرنے والے راویوں کو پرکھنے کے فن کو "جرح و تعدیل" کہا جاتا ہے۔ اگر کسی راوی کو پرکھنے کے نتیجے میں اس کی مثبت صفات سامنے آئیں اور وہ شخص قابل اعتماد قرار پائے تو اسے "تعدیل" یعنی 'قابل اعتماد قرار دینا' کہا جاتا ہے۔ اگر راوی کی منفی شہرت سامنے آئے اور اس پر الزامات موجود ہوں تو اسے "جرح" یعنی 'ناقابل اعتماد قرار دینا' کہا جاتا ہے۔نبی کریم ﷺ کی احادیث ہم تک راویوں کی وساطت سے پہنچی ہیں۔ ان راویوں کے بارے میں علم ہی حدیث کے درست ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے حدیث کے ماہرین نے راویوں کے حالات اور ان سے روایات قبول کرنے کی شرائط بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ شرائط نہایت ہی گہری حکمت پر مبنی ہیں اور ان شرائط سے ان ماہرین حدیث کے گہرے غور و خوض اور ان کے طریقے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ان میں سے کچھ شرائط کا تعلق راوی کی ذات سے ہے اور کچھ شرائط کا تعلق کسی راوی سے حدیث اور خبریں قبول کرنے سے ہے۔ دور قدیم سے لے کر آج تک کوئی ایسی قوم نہیں گزری جس نے اپنے افراد کے بارے میں اس درجے کی معلومات مہیا کرنے کا اہتمام کیا ہو۔ کوئی قوم بھی اپنے لوگوں سے خبریں منتقل کرنے سے متعلق ایسی شرائط عائد نہیں کر سکی جیسی ہمارے علمائے حدیث نے ایجاد کی ہیں۔ ایسی روایات جن کے منتقل کرنے والے راویوں کے ناموں کا علم نہ ہو سکے کے بارے میں یہ خطرہ ہے کہ کسی غلط خبر کو صحیح سمجھ لیا جائے۔ اس وجہ سے ایسی روایات کے سچے یا جھوٹے ہونے کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ زیر تبصرہ کتاب" اثبات الدلیل علی توثیق مؤمل بن اسماعیل "انڈیا کے معروف عالم دین، محقق محترم ابو الفوزان کفایت اللہ السنابلی صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے راوی حدیث مؤمل بن اسماعیل کے بارے میں پچیس(25) محدثین سے توثیق ثابت کرتے ہوئے ان پر جرح کے اقوال کا جائزہ لیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔۔آمین(راسخ)
حدیث کو نقل کرنے والے راویوں کو پرکھنے کے فن کو "جرح و تعدیل" کہا جاتا ہے۔ اگر کسی راوی کو پرکھنے کے نتیجے میں اس کی مثبت صفات سامنے آئیں اور وہ شخص قابل اعتماد قرار پائے تو اسے "تعدیل" یعنی 'قابل اعتماد قرار دینا' کہا جاتا ہے۔ اگر راوی کی منفی شہرت سامنے آئے اور اس پر الزامات موجود ہوں تو اسے "جرح" یعنی 'ناقابل اعتماد قرار دینا' کہا جاتا ہے۔نبی کریم ﷺ کی احادیث ہم تک راویوں کی وساطت سے پہنچی ہیں۔ ان راویوں کے بارے میں علم ہی حدیث کے درست ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے حدیث کے ماہرین نے راویوں کے حالات اور ان سے روایات قبول کرنے کی شرائط بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ شرائط نہایت ہی گہری حکمت پر مبنی ہیں اور ان شرائط سے ان ماہرین حدیث کے گہرے غور و خوض اور ان کے طریقے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ان میں سے کچھ شرائط کا تعلق راوی کی ذات سے ہے اور کچھ شرائط کا تعلق کسی راوی سے حدیث اور خبریں قبول کرنے سے ہے۔ دور قدیم سے لے کر آج تک کوئی ایسی قوم نہیں گزری جس نے اپنے افراد کے بارے میں اس درجے کی معلومات مہیا کرنے کا اہتمام کیا ہو۔ کوئی قوم بھی اپنے لوگوں سے خبریں منتقل کرنے سے متعلق ایسی شرائط عائد نہیں کر سکی جیسی ہمارے علمائے حدیث نے ایجاد کی ہیں۔ ایسی روایات جن کے منتقل کرنے والے راویوں کے ناموں کا علم نہ ہو سکے کے بارے میں یہ خطرہ ہے کہ کسی غلط خبر کو صحیح سمجھ لیا جائے۔ اس وجہ سے ایسی روایات کے سچے یا جھوٹے ہونے کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ زیر تبصرہ کتاب"ازالۃ الکرب عن توثیق سماک بن حرب"انڈیا کے معروف عالم دین، محقق محترم ابو الفوزان کفایت اللہ السنابلی صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے راوی حدیث سماک بن حرب کے بارے میں پینتیس محدثین سے توثیق ثابت کرتے ہوئے ان پر جرح کے اقوال کا جائزہ لیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔۔آمین(راسخ)
اعمال صالحہ کا اعتبار ایمان پر موقوف ہے اس لیے کہ ایمان اصل ہے ۔ امام بخاری نے اعتقادی اصولوں کو کتاب الایمان اور کتاب التوحید کے تحت نہایت مفصل او رمدلل بیان فرمایا ۔امام ابوداؤد اوربعض دیگر آئمہ کرام نے ان اصولوں کو کتا ب السنۃ کے تحت ذکر کیا ہے جہاں اثباتی انداز میں اللہ کی ربوبیت، الوہیت اس کے اوصاف کا ذکر فرمایا ہے وہاں منفی انداز میں ان فرقوں کو گمراہ قرار دیا جنہوں نے اللہ کی صفات کا انکار کیا ۔ مسائل عقیدہ پر خصوصیت کے ساتھ بعض جلیل القدر اہل علم نے عقائد کے عنوان پر کتابیں تالیف کی ہیں ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے العقیدۃ الواسطیہ، العقیدۃالحمویہ،شرح العقیدہ الاصفہانیہ او رامام طحاوی نے العقیدۃالطحاویہ کے نام سے رسائل تالیف فرمائے۔ ان کے علاوہ بعض دیگر محدثین نے نہایت عمدہ او رمؤثر انداز میں کتابیں تالیف کیں۔ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیرنظر کتاب ’’اسلامی عقائد اردور ترجمہ شر ح عقیدہ طحاویہ‘‘علامہ ابو جعفر الورّاق الطحاوی کی عقیدہ کے موضوع پر معروف کتاب ’’ العقیدہ الطحاویہ ‘‘ کی شرح کا اردو ترجمہ ہے ۔ عقید ہ طحاویہ کی یہ ضخیم شرح علامہ ابن ابی العز الحنفی نےترتیب دی ۔جس میں احسن انداز میں اسلامی عقائد کا احاطہ کیا گیا ہے اور اہل سنت والجماعت کےعقائد بیان کیے گئے ۔ہیں۔ کتاب مذکور کی خو بی یہ ہے کہ تمام اسلامی عقائد کو مختصراً بیان کردیا گیا ہے اور باطل فرقوں کے بالمقابل اہل سنت والجماعت کے افکارونظریات کی نمائندگی کی گئی ہے یہ شرح اپنی اہمیت وافادیت کے باعث تقریبا تمام مدارس عربیہ،جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور دیگر سعودی عرب کی جامعات وکلیات کے نصاب میں شامل ہے۔کتاب کے آغاز میں علامہ ناصر الدین البانی کامقدمہ نہایت قیمتی نادر معلومات کا خزانہ ہے جس میں انہو ں نے احادیث کے بارے میں نادر معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ علامہ زاہد الکوثری اور ان کے شاگرد علامہ ابو غدہ کے اعتراضات کے جس علمی تحقیقی انداز میں انہوں نے پوسٹ مارٹم کیا ہے یقیناً انہی کا حصہ ہے ۔ شرح عقیدہ طحاویہ کا یہ سلیس و آسان فہم ترجمہ معروف عالم دین مصنف ومترجم کتب کثیرہ مولانا محمد صادق خلیل نے تقریبا تیس سال قبل شائع کر کے اپنے ادارہ ضیاء السنۃ سے شائع کیا ہے جسے مدارس کے اساتذہ وطلباء کے ہاں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ۔اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کوقبول فرمائے اور ان کےمیزان حسنات میں اضافہ فرمائے (آمین) (م۔ا)
جنت وہ باغ جس کے متعلق انبیاء کی تعلیمات پرایمان لا کر نیک اور اچھے کام کرنے والوں کو خوشخبری دی گئی ہے۔ یہ ایسا حسین اور خوبصورت باغ ہے جس کی مثال کوئی نہیں ۔یہ مقام مرنے کے بعد قیامت کے دن ان لوگوں کو ملے گا جنہوں نے دنیا میں ایمان لا کر نیک اور اچھے کام کیے ہیں۔ قرآن مجید نے جنت کی یہ تعریف کی ہے کہ اس میں نہریں بہتی ہوں گی، عالیشان عمارتیں ہوں گی،خدمت کے لیے حور و غلمان ملیں گے، انسان کی تمام جائز خواہشیں پوری ہوں گی، اور لوگ امن اور چین سے ابدی زندگی بسر کریں گے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ:’’جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں جنھیں کسی آنکھ نے دیکھا نہیں نہ کسی کان نے ان کی تعریف سنی ہے نہ ہی ان کا تصور کسی آدمی کے دل میں پیدا ہوا ہے۔‘‘(صحیح مسلم: 2825) اور ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ ابدی جنتوں میں جتنی لوگ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباؤاجداد، ان کی بیویوں اور اولادوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے، جنت کے ہر دروازے سے فرشتے اہل جنت کے پاس آئیں گے اور کہیں گے تم پر سلامتی ہو تم یہ جنت تمھارے صبر کا نتیجہ ہے آخرت کا گھر تمھیں مبارک ہو‘‘۔(سورۂ الرعدآیت نمبر: 23،24) حصول جنت کےلیے انسان کو کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے تو اسے ادا کرکے اس کامالک ضرور بنے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’جنت کی راہ ‘‘ مولانا ابو عبد الرحمن شبیربن نور کی تصنیف ہے ۔اس کتاب کوانہوں نے تین ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ باب اول میں جنت کیسی ہوگی اوراہل جنت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا کیا عنائتیں اور نوازشیں ہوں گی کا بیان ہے ۔ اور باب دوم میں جنت میں داخلے کی لازمی شرطوں کابیان ہے ۔ تیسرے باب میں ان ’’سو (100) اعمال کا تذکرہ ہے جو کسی مومن کو جنت میں لے جانے کاسبب بن سکتے ہیں ۔اور شروع میں ایک مفصل تمہید ہے جس میں مبادی واصول بیان کیے گئے ہیں ۔ نیز ڈاکٹر محمد نذیر مسلم کا جامع اورعلمی طویل مقدمہ بھی شامل اشاعت ہے ۔ فاضل مصنف نے تمام مسائل کو کتاب اللہ اور ثابت شدہ احادیث کے حوالے سے بیان کیاہے اور اقوال، قصے ،کہانیاں، ذاتی آراء، خواب اوراس طرح کے غیر مستند ذرائع معلومات سےمکمل اجتناب کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کواہل اسلام کےلیے نفع بخش بنائے اور ہر مومن موحدکو جنت میں داخلہ نصیب فرمائے (آمین)(م۔ا)
مسلمانوں کا امتیازی وصف دن اور رات میں پانچ دفعہ اپنے پروردگار کےسامنے باوضوء ہوکر کھڑے ہونا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا اور اپنے رب سے اس کی رحمت طلب کرنا ہے ۔نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اورا سلام کا دوسرا رکن ِ عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کلمۂ توحید کے اقرار کےبعد سب سے پہلے جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہی ہے ۔اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے ۔ بے نماز کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔ قیامت کےدن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا۔ نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے ۔بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سےنماز کا پابند بنایا جائے ۔ قرآن وحدیث میں نماز کو بر وقت اور باجماعت اداکرنے کی بہت زیاد ہ تلقین کی گئی ہے ۔نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قدر اہم ہے کہ سفر وحضر ، میدان ِجنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔اس لیے ہرمسلمان مرد اور عورت پر پابندی کے ساتھ وقت پر نماز ادا کرنا لازمی ہے۔ نماز کی اہمیت وفضلیت پر بیسیوں کتب موجود ہیں جس میں نماز کے جملہ احکام ومسائل بیان کیے گیے ہیں۔ زیر تبصرہ کتابچہ’’ نماز کی اہمیت اورانسانی زندگی پر اس کے اثرات‘‘ محترم جناب عبد الباسط کی تحریر ہے جس میں انہوں نے قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کی روشنی میں نماز کی غیر معمولی اہمیت اورزندگی پر اس کے صالح انقلابی اثرات کو بڑے آسان اوردل نشیں انداز میں پیش کیا ہے غیر مسلموں اور نو مسلموں کو نمازکی ضرورت و افادیت سمجھانے میں یہ رسالہ معاون ثابت ہوسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو عوام الناس کےلیےنفع بخش بنائے۔ (آمین) ( م۔ا)
کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ دین کے بارے میں اکثر مسلمانوں کا رویہ مثبت نہیں ہے۔اس سلسلے میں ایک تو ہماری معلومات بہت کم ہیں۔اس قدر کم کہ انہیں واجبی بھی نہیں کہا جا سکتا ۔دوسرے دین کے نام پر ہم جس طرح کے قول وفعل کا مظاہرہ کرتے ہیں اسے خالص دین ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔کیونکہ جو کچھ ہم پیش کرتے ہیں وہ عموما افراط وتفریط پر مبنی ہوتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم نہ توعقائد میں متوازن ہیں اور نہ ہی اعمال میں مقتصد ہیں۔ شرک کا لغوی معنی برابری جبکہ شرک کی واضح تعریف جو علماء کرام نے کی ہے وہ یہ ہے کہ اَللہ تعالیٰ کے کسی وصف کو غیر اللہ کیلئے اِس طرح ثابت کرنا جس طرح اور جس حیثیت سے وہ اَللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہے ،یعنی یہ اِعتقاد رکھنا کہ جس طرح اَللہ تعالیٰ کا علم اَزَلی، اَبدی ، ذاتی اور غیر محدود ومحیطِ کل(سب کو گھیرے ہوئے ) ہے ،اِسی طرح نبی اورولی کو بھی ہے اور جس طرح اَللہ تعالیٰ جملہ صفاتِ کمالیہ کا مستحق اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے ،اِسی طرح غیر اللہ بھی ہے تو یہ شرک ہو گا اور یہی وہ شرک ہے جس کی وجہ سے اِنسان دائرۂ اِسلام سے خارِج ہو جاتا ہے اور بغیر توبہ مرگیا تو ہمیشہ کیلئے جہنم کا اِیندھن بنے گا۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ میں جس قدر شرک کی مذمت اور توحید کا اثبات کیا ہے اتنا کسی اور مسئلے پر زور نہیں دیا ہے۔سیدنا آدم ؑ سے لے کر نبی کریمﷺ تک ہر رسول و نبی نے اپنی قوم کو یہی دعوت دی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" الجبت وطاغوت، جادو اور شیطان "ایک گراں قدر تحقیقی مقالہ ہے جومحترم ابن آدم صاحب کی کاوش ہے۔یہ کتاب جہاں عقائد کی سطح پر اصلاح کرتی ہے وہاں اعمال کی سطح پر ایسے ایسے افق سامنے لاتی ہے جو عام طور پر نظروں سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اسلام کے دوبنیادی اور صافی سرچشمے قرآن وحدیث ہیں جن کی تعلیمات وہدایات پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے ۔ قرآن مجید کی طرح حدیث بھی دینِ اسلام میں ایک قطعی حجت ہے ۔ کیونکہ اس کی بنیاد بھی وحی الٰہی ہے ۔احادیث رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اہل علم نے خدمات انجام دیں۔ تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی سے ہوا او ر صحابہ وتابعین کے دور میں پروان چڑھا ۔ ائمہ محدثین کےدور میں خوب پھلا پھولا ۔مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے۔ان ضخیم مجموعہ جات سے استفتادہ عامۃ الناس کےلیے انتہائی دشوار ہے ۔عامۃ الناس کی ضرورت کے پیش نظر کئی اہل علم نے مختصر مجموعات حدیث تیار کیے ہیں ۔اربعین کے نام سے کئی علماء نے حدیث کے مجموعے مرتب کیے ۔اور اسی طرح 100 احادیث پر مشتمل ایک مجموعہ عارف با اللہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے ا نتہائی مختصراور جامع رسالہ ’’نخبۃ الاحادیث‘‘ کے نام سے مرتب کیا جس میں عبادات معاملات ،اخلاق وآداب وغیرہ سے متعلق کامل راہنمائی موجود ہے۔ موصوف کے کمال حسنِ انتخاب کی وجہ سے یہ کتاب اکثر دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہے۔عصر حاضر میں بھی کئی مزید مجموعات ِحدیث منظر عام پر آئے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’الحکمۃ‘‘بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔احادیث مبارکہ یہ دلنشیں مجموعہ شیخ عمر فاروق ﷾ نے مرتب کیا ہے ۔یہ کتاب در اصل ہفت روزہ ’’الاعتصام ‘‘ میں شیخ عمر فاروق کے درس حدیث کے نام سےچھپنے والے مضامین کا مجموعہ جو انہوں مولانا عطاء اللہ حنیف کی ترغیب پر الاعتصام میں شروع کیے ۔ بعدازاں انہوں نے ان مضامین کو نئے سرے کمپوز کروا کر’’الحکمۃ‘‘کے نام شائع کیا ۔ اس کتاب کا ایک حصہ عبادات اور دوسرا حصہ معاملات واخلاقیات پر مشتمل ہے۔ مرتب موصوف کی اس کتاب کے علاوہ ’’ الفرقان‘‘ اور ’’شریعتِ اسلامیہ کے محاسن‘‘ کے نام سےبھی دو کتابیں قیولیت عامہ کا درجہ حاصل کرچکی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ موصوف کو صحت وتندرستی والی زندگی عطا فرمائے اور ان کی دینی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے (آمین)(م۔ا)
نبی کریم دین کامل لے کر آئے اور آپ نے اسے کامل و اکمل ترین حالت میں امت تک پہنچا دیا ۔آپ نے اس میں نہ تو کوئی کمی کی اور نہ ہی زیادتی کی ،بلکہ اللہ نے جو پیغام دیا تھا اسے امانت داری کے ساتھ اللہ کے بندوں تک پہنچا دیا۔اب اگر کوئی شخص دین میں ایسی نئی چیز لاتا ہے جو آپ سے ثابت نہیں ہے تو وہ بدعت ہوگی ،اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی انسان کو جہنم میں لے جانے والی ہے۔ہمارے معاشرے میں پھیلی بے شمار بدعات میں سے ایک محفل میلاد النبیﷺ کی بدعت بھی ہے۔جس کا اسلام ،شریعت ،نبی کریمﷺ ،صحابہ کرام،تابعین اور تبع تابعین ومحدثین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ بعد میں گھڑی جانے والی بدعات میں سے ایک بدعت ہے۔لیکن افسوس کہ بعض نام نہاد مولوی اسے دین ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور مسلمانوں میں اسے رواج دینے کی سعی نامشکور کر رہے ہیں۔انہی حضرات میں سے ایک محمد علوی مالکی ہیں ، جنہوں نے جعل سازی اور تلبیس سے کام لیکر اس بدعت کو مشروع ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "علوی مالکی سے دو دو باتیں، گمراہ کن عقائد وخیالات کی تردید"سعودی عرب کے معروف عالم دین محترم شیخ عبد اللہ بن سلیمان بن منیع صاحب کی عربی تصنیف "حوار مع المالکی "کا اردو ترجمہ ہے۔اردو ترجمہ محترم مولانا محمد رئیس ندوی صاحب نے کیا ہے۔اس کتاب میں مولف نے علوی مالکی کے گمراہ کن خیالات وعقائد کی تردید کی ہے، اور صحیح اسلامی عقیدہ بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور مترجم دونوں کی اس عظم کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے جس پر زور طریقے سے شرک کی مذمت کی ہے کسی اور چیز کی نہیں کی ہے۔حتی کہ شرک کی طرف جانے والے ذرائع اور اسباب سے بھی منع فرما دیا ہے۔ شرک کا لغوی معنی برابری جبکہ شرک کی واضح تعریف جو علماء کرام نے کی ہے وہ یہ ہے کہ اَللہ تعالیٰ کے کسی وصف کو غیر اللہ کیلئے اِس طرح ثابت کرنا جس طرح اور جس حیثیت سے وہ اَللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہے ،یعنی یہ اِعتقاد رکھنا کہ جس طرح اَللہ تعالیٰ کا علم اَزَلی، اَبدی ، ذاتی اور غیر محدود ومحیطِ کل(سب کو گھیرے ہوئے ) ہے ،اِسی طرح نبی اورولی کو بھی ہے اور جس طرح اَللہ تعالیٰ جملہ صفاتِ کمالیہ کا مستحق اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے ،اِسی طرح غیر اللہ بھی ہے تو یہ شرک ہو گا اور یہی وہ شرک ہے جس کی وجہ سے اِنسان دائرۂ اِسلام سے خارِج ہو جاتا ہے اور بغیر توبہ مرگیا تو ہمیشہ کیلئے جہنم کا اِیندھن بنے گا۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ میں جس قدر شرک کی مذمت اور توحید کا اثبات کیا ہے اتنا کسی اور مسئلے پر زور نہیں دیا ہے۔سیدنا آدم ؑ سے لے کر نبی کریمﷺ تک ہر رسول و نبی نے اپنی قوم کو یہی دعوت دی ہے۔شرک کی اسی قباحت اور اس کے ناقابل معافی جرم ہونے کے سبب تمام علماء امت نے اس کی مذمت کی اور لوگوں کو اس سے منع کرتے رہے۔عصر حاضر میں شرک پھیلانے کے سب سے بڑے علمبردار احناف اور معتقدین ہیں، جنہوں نے ہزاروں درباروں اور مزاروں کو کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔لیکن متقدمین احناف شرک کی مذمت کرتے اور لوگوں کو اس سے منع کیا کرتے تھے۔ زیر تبصرہ کتاب" ائمہ حنفیہ کی کوششیں، شرک اور اس کے وسائل کے بیان میں" سعودی عرب کے معروف عالم دین ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن الخمیس کی عربی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔اردو ترجمہ محترم سعید مرتضی ندوی صاحب نے کیا ہے۔مولف موصوف نے اس کتاب میں علماء احناف کے وہ اقوال جمع فرما دئیے ہیں جن میں انہوں نے شرک کی مذمت کی ہے،تاکہ عصر حاضر کے مشرکین پر حجت قائم ہو سکے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور مترجم دونوں کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالی ٰ کے بابرکت نام او رصفات جن کی پہچان اصل توحید ہے ،کیونکہ ان صفات کی صحیح معرفت سے ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔عقیدۂ توحید کی معرفت اور اس پر تاحیات قائم ودائم رہنا ہی اصلِ دین ہے ۔اور اسی پیغامِ توحیدکو پہنچانے اور سمجھانے کی خاطر انبیاء و رسل کومبعوث کیا گیا او رکتابیں اتاری گئیں۔ اللہ تعالیٰ کےناموں او رصفات کے حوالے سے توحید کی اس مستقل قسم کوتوحید الاسماء والصفات کہاجاتاہے ۔ قرآن واحادیث میں اسماء الحسنٰی کوپڑھنے یاد کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے۔’’ وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا ‘‘اور اللہ تعالیٰ کے اچھے نام ہیں تو اس کوانہی ناموں سےپکارو۔اور اسی طرح ارشاد نبویﷺ ہے«إِنَّ لله تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ»یقیناً اللہ تعالیٰ کے نناوےنام ہیں یعنی ایک کم 100 جس نےان کااحصاء( یعنی پڑھنا سمجھنا،یادکرنا) کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح بخاری )اسماء الحسنٰی کے سلسلے میں اہل علم نے مستقل کتب تصنیف کی ہیں اور بعض نے ان اسماء کی شرح بھی کی ہے زیر تبصرہ کتاب ’’معارف الاسماء شرح اسماء الحسنیٰ ‘‘ سیرت النبیﷺ پر مقبول عام کتاب رحمۃ للعالمین کے مصنف جناب قاضی محمد سلیمان منصورپوری کی تصنیف ہےجو کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کی بنظیر شرح ہے ۔مصنف موصوف نے روایات کی روشنی میں اسماء الحسنی ٰ کو نقشہ جات کی صورت میں پیش کی ہے۔اللہ تعالیٰ مصنف کتاب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام عطافرمائے (آمین)(م۔ا)
توحید کا معنی ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ حق باری تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور جُملہ اوصاف و کمال میں یکتا و بے مثال ہے۔ اس کا کوئی ساتھی یا شریک نہیں۔ کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔ صرف وہی با اختیار ہے۔ اس کے کاموں میں نہ کوئی دخل دے سکتا ہے، نہ اسے کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نہ اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہواہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ ڏ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ کہو کہ وہ (ذات پاک ہے جس کا نام) اللہ (ہے) ایک ہے۔معبود برحق جو بےنیاز ہے۔نہ کسی کا باپ ہے۔ اور نہ کسی کا بیٹا۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔(سورۃالاخلاص)علامہ جرجانی ؒ توحید کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں :توحید تین چیزوں کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی پہچان اس کی وحدانیت کا اقرار اور اس سے تمام شریکوں کی نفی کرنا۔ (التعریفات73) توحید کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق صرف اللہ تعالیٰ ہی کیلئے خاص رکھے جائیں۔ زیر تبصرہ کتاب" اصول دین "شیخ الاسلام امام محمد بن سلیمان التمیمی کی عربی تصنیف "اصول الدین الاسلامی " کا اردو ترجمہ ہے۔ترجمہ کرنے کی سعادت جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین اور بلند پایہ ادیب محترم مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے حاصل کی ہے۔یہ کتاب اپنی اہمیت وفادیت کے پیش نظر متعدد دینی مدارس میں داخل نصاب ہے۔یہ کتاب اس لائق ہے کہ اسے ہر گھر کی زینت بنایا جائے اور گھر میں تما م بچوں کو یہ زبانی یاد کروائی جائے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور مترجم دونوں کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
مسئلہ آخرت کاہو یا دنیا کاانسان ’’ وسیلہ‘‘ کامحتاج ہے ۔ وسیلہ زندگی کی ایک بنیادی حقیقت ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کااعتراف ہرحقیقت پسند کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اہل یمان کووسیلہ کاحکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدہ) ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ‘‘۔وسیلہ کامطلب ہے ایسا ذریعہ استعمال کیا جائے جو مقصود تک پہنچا دے۔توسّل اور اس کے شرعی حکم کے بارے میں بڑا اضطراب واِختلاف چلا آ رہا ہے ۔کچھ اس کو حلال سمجھتے ہیں اورکچھ حرام ۔کچھ کو بڑا غلو ہے اور کچھ متساہل ہیں ۔اور کچھ لوگوں نے تو اس وسیلہ کے مباح ہونے میں ایسا غلو کیا کہ اﷲکی بارگاہ میں اس کی بعض ایسی مخلوقات کا وسیلہ بھی جائز قرار دے دیاہے ، جن کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ وقعت ۔مثلاً اولیاء کی قبریں ،ان قبروں پر لگی ہوئی لوہے کی جالیاں ،قبر کی مٹی ،پتھر اور قبر کے قریب کا درخت۔اس خیال سے کہ ''بڑے کا پڑوسی بھی بڑا ہوتا ہے''۔اور صاحب قبر کے لئے اﷲکا اکرام قبر کو بھی پہنچتا ہے 'جس کی وجہ سے قبر کا وسیلہ بھی اﷲکے پاس درست ہوجاتا ہے ۔یہی نہیں بلکہ بعض متاخرین نے تو غیر اﷲسے استغاثہ کو بھی جائز قرار دے دیا اور دعویٰ یہ کیا کہ یہ بھی وسیلہ ہے 'حالانکہ یہ خالص شرک ہے جو توحید کی بنیاد کی خلاف ہے۔ جائز وسیلہ کی تین صورتیں ہیں جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور وہ درج ذیل ہیں۔ 1۔اللہ تعالیٰ کے اسماء کا وسیلہ قرآن میں ہے: وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا(الاعراف:108)’’اور اللہ کے اچھے نام ہیں پس تم اس کے ناموں سے پکارو‘‘۔اللہ تعالیٰ سے اس کے اسماء حسنیٰ کے وسیلہ سے دعا کرنا درست ہے جیسا کہ اوپر آیت میں ذکر ہے جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے نبیﷺ سے دعا کا پوچھا تو آپﷺ نے یہ دعا پڑھنے کا کہا: " قُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ "(صحيح بخاری:834’)’اے اللہ ! یقیناً میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے علاوہ کوئی بخشنے والا نہیں ۔پس تو اپنی خصوصی بخشش کے ساتھ میرے سب گناہ معاف کردے او رمجھ پر رحم فرما، بے شک تو ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے دو اسماء کو وسیلہ بنایا گیا۔ 2۔اللہ کی صفات کے ساتھ وسیلہ حدیث میں ہے: ’’اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي‘‘(سنن النسائی :1306)’’اے اللہ میں تیرے علم غیب او رمخلوق پر قدرت کے وسیلے سے یہ دعا کرتا ہوں کہ جب تک تیرے علم کے مطابق میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے مجھے حیات رکھا او رجب تیرے علم کے مطابق میرا مرنا بہتر ہو تو مجھے وفات دے دے۔‘‘اس دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفات، علم او رقدرت کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔3۔ نیک آدمی کا وسیلہ ایسے آدمی کی دعا کو وسیلہ بنانا کہ جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو۔احادیث میں ہےکہ صحابہ کرام بارش وغیرہ کی دعا آپؐ سے کرواتے۔(صحيح بخاری :847)۔حضرت عمرؓ کے دور میں جب قحط سالی پیدا ہوئی تو لوگ حضرت عباسؓ کے پاس آئے اور کہا کہ وہ اللہ سے دعا کریں۔ حضرت عمر اس موقع پر فرماتے ہیں: ’’اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا‘‘ (صحيح بخاری:1010)۔ ’’اے اللہ! پہلے ہم نبیﷺ کووسیلہ بناتے (بارش کی دعا کرواتے) تو تو ہمیں بارش عطا کردیتا تھا اب (نبیﷺ ہم میں موجود نہیں) تیرے نبیﷺ کے چچا کو ہم (دعا کے لیے) وسیلہ بنایا ہے پس تو ہمیں بارش عطا کردے۔اس کے بعد حضرت عباسؓ کھڑے ہوئے اور دعا فرمائی۔مذکورہ صورتوں کے علاوہ ہر قسم کاوسیلہ مثلاً کسی مخلوق کی ذات یافوت شدگان کا وسیلہ ناجائز وحرام ہے۔
زیر تبصرہ کتاب’’وسیلہ کے انواع واحکام‘‘علامہ ناصر الدین البانی کی وسیلہ کے موضوع پر اہم کتاب ’’ التوسل انواعہ واحکامہ‘‘ کا اردوترجمہ ہے ۔ یہ کتاب دراصل شیخ البانی کے مسئلہ وسیلہ کے موضوع پر دو لیکچرز کا مجموعہ ہے جو انہوں نے 1392ھ میں دمشق میں مسلمانوں کے ایک جم غفیر کے سامنے ارشاد فرمائے تھے۔انہوں نے ان لیکچرز میں اپنے مخصوص فاضلانہ ، محققانہ ومحدثانہ انداز میں وسیلہ کے شر ک کی بھر پور تردید اورمذمت بیان فرمائی۔کتاب وسنت کے دلائل کی روشنی میں بہت خوبصورت طریقے سے وسیلہ کےلغوی وشرعی مفہوم کی تشریح وتوضیح فرمائی اور مخالفین کےاعتراضات اور شکوک وشبہات کے نہایت مسکت جواب دئیے۔آپ کے انہی لیکچرز کو آپ کے ایک شاگرد رشید محمد العید العباسی نے ٹیپ ریکارڈ کی مدد سے مرتب کیا اور پھر’’التوسل انواعہ واحکامہ ‘‘ کے نام سے زیور طباعت سے آراستہ کیا۔بہت ہی قلیل مدت میں اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔اہل علم کے ہاں اسے قبول عام کا درجہ ملا۔اس کی افادیت کی بنا پر اس محمد خالد سیف﷾ نے اس کا رواں وسلیس ترجمہ کیا جسے طارق اکیڈمی ،فیصل آباد نے تقریباً 25سا ل قبل حسن ِطباعت سےآراستہ کیا۔ اللہ تعالیٰ شیخ ناصر الدین البانی ،مرتب ومترجم کی تمام کاوشو ں کو قبول فرمائے اوراس کتاب کو عامۃ المسلمین کے عقیدہ کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔ (آمین) (م۔ا)
اللہ تبارک و تعالیٰ کے تنہالائقِ عبادت ہونے ، عظمت وجلال اورصفاتِ کمال میں واحد اور بے مثال ہونے اوراسمائے حسنیٰ میں منفرد ہونے کا علم رکھنے اور پختہ اعتقاد کےساتھ اعتراف کرنے کانام توحید ہے ۔توحید کے اثبات پر کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ میں روشن براہین اور بے شمار واضح دلائل ہیں ۔ اور شرک کام معنی یہ کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرائیں جبکہ اس نےہی ہمیں پیدا کیا ہے ۔ شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کوجہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے قرآن کریم میں شرک کوبہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے اور شرک ایسا گناہ کہ اللہ تعالی انسان کے تمام گناہوں کو معاف کردیں گے لیکن شرک جیسے عظیم گناہ کو معاف نہیں کریں گے ۔شرک اس طرح انسانی عقل کوماؤف کردیتا ہےکہ انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے ۔نیز شرک اعمال کو ضائع وبرباد کرنے والا اور ثواب سے محروم کرنے والا ہے ۔ پہلی قوموں کی تباہی وبربادی کاسبب شرک ہی تھا۔ چنانچہ جس کسی نے بھی محبت یا تعظیم میں اللہ کے علاوہ کسی کواللہ کے برابر قرار دیا یا ملت ابراہیمی کے مخالف نقوش کی پیروی کی وہ مشرک ہے۔تردید شرک اور اثبات کےسلسلے میں اہل علم نے تحریر اور تقریری صورت میں بےشمار خدمات انجام دیں۔ ماضی میں شیخ الاسلام محمد بن الوہاب کی اشاعت توحید کےسلسلے میں خدمات بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔شیخ الاسلام ،مجدد العصر محمد بن عبد الوہاب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ ایک متبحر عالم دین،قرآن وحدیث اور متعدد علوم وفنون میں یگانہ روز گار تھے۔آپ نے اپنی ذہانت وفطانت اور دینی علوم پر استدراک کے باعث اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء دین کو متاثر کیا اور انہیں اپنا ہم خیال بنایا۔آپ نے قرآن وسنت کی توضیحات کے ساتھ ساتھ شرک وبدعات کے خلاف علمی وعملی دونوں میدانوں میں زبر دست جہاد کیا۔آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔جن میں سے ایک کتاب (کتاب التوحید) ہے۔مسائل توحید پر یہ آپ کی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے،اور سند وقبولیت کے اعتبار سے اس کا درجہ بہت بلند ہے۔علماء کا اس بات پر اتفاق ہ کہ اسلام میں توحید کے موضوع پرکتاب التوحید جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔یہ کتاب توحید کی طرف دعوت دینے والی ہے ۔ایک طویل مدت سے دنیائے علم میں اس کی اشاعت جاری ہے اور اب تک عرب وعجم میں کروڑوں بے راہروں کو ہدایت کا راستہ دکھانے اور انہیں کفر وضلالت کے اندھیروں سے نکال کر توحید کی روشنی میں لانے کا فریضہ ادا کر چکی ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کے افادیت کے پیشِ نظر متعد د اہل علم نےاس کی شروحات بھی لکھی ہیں اور کئی علماء نے اس کتاب کےمتعد د زبانوں میں ترجمہ بھی کیا ہے۔اردو زبان میں بھی اس کےمتعدد علماء نےترجمے کیے جسے سعودی حکومت اور اشاعتی اداروں نے لاکھوں کی تعداد میں شائع کر کے فری تقسیم کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’کتاب التوحید‘‘کا ترجمہ علامہ محمدعثمانی صاحب نے کیا ہے اور شیخ الحدیث مولانا حافظ محمداسلم شاہدروی﷾ نے کتاب التوحید کی تخریج اورمشکل مقامات کی توضیح اور کتاب کی پروف خوانی کے علاوہ اس پر تفصیلی مقدمہ بھی تحریر کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مترجم وناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔ (آمین) (م۔ا)
اللہ تبارک و تعالیٰ کے تنہالائقِ عبادت ہونے ، عظمت وجلال اورصفاتِ کمال میں واحد اور بے مثال ہونے اوراسمائے حسنیٰ میں منفرد ہونے کا علم رکھنے اور پختہ اعتقاد کےساتھ اعتراف کرنے کانام توحید ہے ۔توحید کے اثبات پر کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ میں روشن براہین اور بے شمار واضح دلائل ہیں ۔ اور شرک کام معنیٰ یہ کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرائیں جبکہ اس نےہی ہمیں پیدا کیا ہے ۔ شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کوجہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے قرآن کریم میں شرک کوبہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے اور شرک ایسا گناہ کہ اللہ تعالی انسان کے تمام گناہوں کو معاف کردیں گے لیکن شرک جیسے عظیم گناہ کو معاف نہیں کریں گے ۔شرک اس طرح انسانی عقل کوماؤف کردیتا ہےکہ انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے ۔نیز شرک اعمال کو ضائع وبرباد کرنے والا اور ثواب سے محروم کرنے والا ہے ۔ پہلی قوموں کی تباہی وبربادی کاسبب شرک ہی تھا۔ چنانچہ جس کسی نے بھی محبت یا تعظیم میں اللہ کے علاوہ کسی کواللہ کے برابر قرار دیا یا ملت ابراہیمی کے مخالف نقوش کی پیروی کی وہ مشرک ہے۔تردید شرک اور اثبات کےسلسلے میں اہل علم نے تحریر اور تقریری صورت میں بےشمار خدمات انجام دیں۔ ماضی میں شیخ الاسلام محمد بن الوہاب کی اشاعت توحید کےسلسلے میں خدمات بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔شیخ الاسلام ،مجدد العصر محمد بن عبد الوہاب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ ایک متبحر عالم دین،قرآن وحدیث اور متعدد علوم وفنون میں یگانہ روز گار تھے۔آپ نے اپنی ذہانت وفطانت اور دینی علوم پر استدراک کے باعث اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء دین کو متاثر کیا اور انہیں اپنا ہم خیال بنایا۔آپ نے قرآن وسنت کی توضیحات کے ساتھ ساتھ شرک وبدعات کے خلاف علمی وعملی دونوں میدانوں میں زبر دست جہاد کیا۔آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔جن میں سے ایک کتاب (کتاب التوحید) ہے۔مسائل توحید پر یہ آپ کی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے،اور سند وقبولیت کے اعتبار سے اس کا درجہ بہت بلند ہے۔علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام میں توحید کے موضوع پرکتاب التوحید جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔یہ کتاب توحید کی طرف دعوت دینے والی ہے ۔شیخ موصوف نے اس کتاب میں ان تمام امور کی نشان دہی کردی ہے جن سے عقائد میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور نتیجۃً انسان ایسے عملوں کا ارتکاب کرلیتا ہے حو شرک کے دائرے میں آتے ہیں ۔اس کتاب میں مصنف علیہ نےہر مسئلہ کے لیے علیحدہ علیحدہ باب باندھا ہے اور ہر بات کے ثبوت کےلیے قرآن مجید کی آیات اور احادیثِ صحیحہ بطور دلیل پیش کی ہیں۔ بعد ازاں ہر باب کے خاتمہ پر آیاتِ قرآنی اوراحادیث سے استنباطِ احکام کیا ہے اور یہ اندازِ تحقیق اتنا سادہ اور علمی ہے کہ کسی شخص کے لیے اس سے اختلاف کی گنجائش اور انکار کی جرأت باقی نہیں رہتی ۔الاّ یہ کہ وہ سرے سے احکامِ دین کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کردے ۔انہی انفرادی خصوصیات کی وجہ سے ایک طویل مدت سے دنیائے علم میں اس کتاب کی اشاعت جاری ہے اور اب تک عرب وعجم میں کروڑوں بے راہروں کو ہدایت کا راستہ دکھانے اور انہیں کفر وضلالت کے اندھیروں سے نکال کر توحید کی روشنی میں لانے کا فریضہ ادا کر چکی ہے۔ اس کتاب کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر متعد د اہل علم نےاس کی شروحات بھی لکھی ہیں اور کئی علماء نے اس کتاب کےمتعد د زبانوں میں ترجمہ بھی کیا ہے۔اردو زبان میں بھی اس کےمتعدد علماء نےترجمے کیے جسے سعودی حکومت اور اشاعتی اداروں نے لاکھوں کی تعداد میں شائع کر کے فری تقسیم کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ کتاب التوحید‘‘ کا ترجمہ محترم جناب سید شبیر احمد صاحب نے کیا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ کتاب میں ایک تفصیلی مقدمہ کا اضافہ کیا ہے ۔جس میں توحید کےبارے میں کچھ بنیادی اور اصولی گفتگو پیش کی ہے تاکہ ایک مسلمان یہ بات سمجھ سکے کہ دراصل توحید سے مراد کیا ہے ؟ اس کے تقاضے کیا ہیں ؟ اور ایک مسلمان اور موحد ہونے کی حیثیت سے اس پر کیا فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اس کے نتائج کیا ہیں؟اللہ تعالیٰ مترجم کی اس کوشش ومحنت کوقبول فرمائیں اور قارئین کے لیے اس کومفید اور نفع بخش ثابت کرے ۔(آمین) (م۔ا)