مؤطا امام مالک حدیث کی ایک ابتدائی کتاب ہے ۔ جسے امام مالک بن انس نے تصنیف کیا۔ انہی کی وجہ سے مسلمانوں کا ایک طبقہ فقہ مالکی کہلاتا ہے جو اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروکا ر آج بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔امام مالک فقہ اورحدیث میں اہل حجاز بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے امام ہیں۔ آپ کی کتاب "الموطا" حدیث کے متداول اور معروف مجموعوں میں سب سے قدیم ترین مجموعہ ہے۔مؤطاسے پہلے بھی احادیث کے کئی مجموعے تیار ہوئے اور ان میں سے کئی ایک آج موجود بھی ہیں لیکن وہ مقبول اورمتداول نہیں ہیں۔ مؤطاکے لفظی معنی ہے، وہ راستہ جس کو لوگوں نے پےدرپے چل کر اتناہموارکردیاہو کہ بعد میں آنے والوں کے لیےاسپرچلناآسان ہوگیاہو۔ جمہور علماء نے موطاکو طبقات کتب حدیث میں طبقہ اولیٰ میں شمار کیاہے امام شافعی فرماتے ہیں’’ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک‘‘کہ میں نے روئے زمین پر موطاامام مالک سے زیادہ کوئی صحیح کتاب (کتاب اللہ کے بعد)نہیں دیکھی ۔مؤطاکا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ امام مالک نے اس میں صرف صحیح احادیث کو ہی نقل کرنے کی سعی جمیل فرمائی ہے ۔جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نےاس پر محدثین کا اتفاق نقل فرمایا ہے ۔اس کی اسی اہمیت کے باعث ہر دور میں اکابر امت نے اپنے اپنے حلقہ ہائے تدریس میں اس سے استفادہ کیا اورمختلف ادوار میں مختلف دول ِ اسلامیہ میں اس کی شروحات وتعلیقات بھی لکھی ہیں ۔امام ابن عبد البر کی ’’الاستذکار‘‘ مؤطا امام مالک کی ضخیم شرح ہے ۔ اور اسی طر ح اردو زبان میں علامہ وحیدالزمان نے صحاح ستہ کی طرح اس کا بھی ترجمہ کیا طویل عرصہ سے یہی ترجمہ متداول تھا ۔ لیکن چند سال قبل محدث عصر علامہ حافظ زبیر علی زئی حافظ عمران ایوب لاہور ی﷾ نے بھی اس ترجمہ کی تسہیل کی اور اسے تخریج کےساتھ پیش کیا۔ زیرتبصرہ ’’ مؤطا‘‘ کا ترجمہ اگرچہ علامہ وحید الزماں کا ہے لیکن اس میں حافظ عمران ایوب لاہوری ﷾نے اس ترجمہ کی تسہیل کی ہےاور حسب امکان احادیث کی مکمل تخریج کردی ہے ۔تخریج کے سلسلہ میں معیاری نمبرنگ کوملحوظ رکھاگیا ہے۔اور جہاں کہیں ضرورت تھی وہاں اس کےترجمہ وحواشی کوبھی درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کوشش کےباعث اردو زبان میں مؤطا کا یہ نسخہ عصر حاضر میں دیگر تمام مؤطا کے نسخوں میں ممتاز نظر آتاہے۔اللہ تعالیٰ اس نسخےکو اس عمد ہ معیار پر تیار کرکے شائع کرنے والےتمام احباب کی کاوش کوقبول فرمائے اور اسے امت مسلمہ کے لیے نافع بنائے (آمین)(م۔ا)
زیر تبصرہ کتابچہ"احادیث مزارعت کا ایک مطالعہ، حقوق کے سلسلے میں اسلام کا قاعدہ کلیہ" محترم جناب السید حامد عبد الرحمن الکاف صنعاء، یمن کے ان دو مقالات پر مشتمل ہے، جو اس سے پہلے ہفت روزہ "الاعتصام" میں بالاقساط چھپ چکے تھے۔چنانچہ مولف کی خواہش پر انہیں کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا جو اس وقت آپ کے سامنے ہیں۔ان میں سے پہلا مقالہ ان احادیث مزارعت کے مطالعہ وتحقیق پر مشتمل ہے جو کتب احادیث میں پائی جاتی ہیں اور جن میں بظاہر کچھ تعارض سا نظر آتا ہے۔علمائے کرام نے ان کے درمیان جمع وتطبیق کی کئی صورتیں بیان فرمائی ہیں، جن سے بادی النظر میں محسوس ہونے والا یہ تعارض دور ہوجاتا ہے اور مسئلہ ایک واضح شکل میں سامنے آ جاتا ہے۔تاہم سطح بین قسم کے لوگ پھر بھی ان روایات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور دوسروں کو مغالطے میں ڈالنے کی مذموم کوشش کرتے ہوئے مزارعت کے مطلقا عدم جواز کا فتوی جاری کر دیتے ہیں۔کتابچے میں دوسرا مقالہ "حقوق کے سلسلے میں اسلام کا قاعدہ کلیہ" کے عنوان سے ہے ، جس میں شورائی نظام اور عصر حاضر میں اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔امید ہے کہ علمی ودینی حلقوں میں ان دونوں مقالات کو قدر اور تحسین کی نظر سے دیکھا جائے گا اور یہ عوام کی فکری جلا اور ازدیاد بصیرت کا باعث ہوں گے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔۔آمین(راسخ)
کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺدینِ اسلامی کے بنیادی مآخذ ہیں۔ احادیث رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اہل علم نے خدمات انجام دیں۔ تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی ﷺ سے ہوا صحابہ وتابعین کے دور میں پروان چڑھا او ر ائمہ محدثین کےدور میں خوب پھلا پھولا ۔مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے او رپھر بعدمیں اہل علم نے ان مجموعات کے اختصار اور شروح ،تحقیق وتخریج او رحواشی کا کام کیا۔مجموعاتِ حدیث میں اربعین نویسی، علوم حدیث کی علمی دلچسپیوں کا ایک مستقل باب ہے ۔عبداللہ بن مبارک وہ پہلے محدث ہیں جنہوں نے اس فن پر پہلی اربعین مرتب کرنے کی سعادت حاصل کی ۔بعد ازاں علم حدیث ،حفاظت حدیث، حفظ حدیث اورعمل بالحدیث کی علمی او رعملی ترغیبات نے اربعین نویسی کو ایک مستقل شعبۂ حدیث بنادیا۔ اس ضمن میں کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں اربعین کے سینکڑوں مجموعے اصول دین، عبادات، آداب زندگی، زہد وتقویٰ او رخطبات و جہاد جیسے موضوعات پر مرتب ہوتے رہے ۔اس سلسلۂ سعادت میں سے ایک معتبر اور نمایاں نام ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی کا ہے جن کی اربعین اس سلسلے کی سب سے ممتاز تصنیف ہے۔امام نووی نے اپنی اربعین میں اس بات کا التزام کیا ہے کہ تمام تر منتخب احادیث روایت اور سند کے اعتبار سے درست ہوں۔اس کے علاوہ اس امر کی بھی کوشش کی ہے کہ بیشتر احادیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ماخوذ ہوں ۔اپنی حسن ترتیب اور مذکورہ امتیازات کے باعث یہ مجموعۂ اربعین عوام وخواص میں قبولیت کا حامل ہے انہی خصائص کی بناپر اہل علم نے اس کی متعدد شروحات، حواشی اور تراجم کیے ہیں ۔عربی زبان میں اربعین نووی کی شروحات کی ایک طویل فہرست ہے ۔ اردوزبان میں بھی اس کے کئی تراجم وتشریحات پاک وہند میں شائع ہوچکے ہیں۔نیزبرصغیر میں بھی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے لےکر عصر حاضر کے متعدد علماء کرام نے بھی ’’اربعین‘‘ کے نام سے کئی مجموعے مرتب کیے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’اربعین للنساء‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔اس کتاب کو پروفیسر محترمہ ثریا بتول علوی صاحبہ نے خواتین کے لیے مرتب کیا ہے ۔مصنفہ نےاس میں مجموعہ کو پانچ ابواب اور چالیس ذیلی موضوعات میں تقسیم کیا ہے ۔ جن میں ایمانیات واخلاق ، ارکان واعمال ،معاملات اور ستروحجاب جیسے اہم موضوعات کا انتہائی پر مغز اور معنی خیر احاطہ کیا ہے ۔خواتین کی انفرادی زندگی سے لے کر عائلی ومعاشرتی سطح تک اہم مسائل سے متعلقہ احادیث مبارکہ کا انتہائی دقت تظری سے انتخاب کیا گیا ہے ۔ اسی وجہ سے یہ مجموعہ مختصر ہونے کے باوجود جامع او رمحیط ہے اور اپنی جامعیت وافادیت کے لحاظ سے اس قابل ہے کہ اسے باقاعدہ سبقاً پڑھا یاجائے ۔اللہ تعالیٰ اس مجموعہ حدیث کو خواتین اسلام کے لیے نفع بخش بنائے اور مصنفہ کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین)(م۔ا)
"ریاض الصالحین" ساتویں صدی ہجری کے امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی کی ایسی عظیم الشان تالیف ہے کئی صدیوں سے یہ مجموعہ حدیث سے امت مسلمہ میں مقبول ہے ۔اس میں عام آدمی کودرپیش تمام مسائل کا حل قرآن کریم کی آیات اور منتخب صحیح احادیث کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے عبادات سے لے کر معاملات تک اور معاشرت سے لے کر سیاسیات تک، زندگی کے تمام اہم شعبوں کے لیے قرآن و حدیث سے جس طرح رہنمائی مہیا فرمائی گئی ہے اس نے اسے اسلامی لٹریچر میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام عطا کیا ہے اور اسی وجہ سے اسے ہر طبقے میں یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ یہ ایک بہترین تبلیغی نصاب ہے جو قرآنی آیات اور صحیح احادیث سے مزین ہے۔ ضعیف و موضوع روایات اور من گھڑت قصے کہانیوں سے پاک جو اس لائق ہے کہ عوام اسے حرز جاں اور آویزۂ گوش بنائیں۔ یہ ایک ضابطہ حیات ہے جس کی روشنی میں ایک مسلمان اپنے شب و روز کے معمولات مرتب کر سکتا ہے اور ایک ایسا آئینہ ہے جس کو سامنے رکھ کر اپنے اخلاق و کردار کی کوتاہیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔اس کتاب کی اسی اہمیت کی وجہ سےعربی زبان میں اس کی متعدد شروح لکھی گئی ہیں اور اردو زبان میں بھی اس کے متعدد تراجم کئے گئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’بہجۃ الناظرین شرح ریاض الصالحین ‘‘ اردن کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ ابو اسامہ سلیم بن عید الھلالی کی تصنیف ہے۔ موصوف محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں ۔ان کے قلم سے تحریر شدہ کئی ایک کتب شائع ہو کر عالم عرب میں شرف قبولیت حاصل چکی ہیں اور ان کی بعض تصانیف کےانگریزی تراجم بھی ہوچکے ہیں۔شیخ کی کتاب ہذا کے ترجمہ و تلخیص کا کام جناب ابوانس محمد سرورگوہر،حافظ مطیع اللہ اور محمد اشیتاق اصغر صاحب نے کیا ہے ۔مکتبہ قدوسیہ ،لاہور کے مدیر ابو بکر قدوسی ﷾ نے اس کتاب کو دو جلدوں میں شائع کیا ہے ۔ یہ کتاب احادیث نبویہ پرمشتمل بیش قیمت خوبصورت تحفہ ہے۔ علمائے کرام خطباء اور واعظوں کے ساتھ ساتھ طالبانِ حدیث نبوی اور عام قارئین اس سے مستفیدہوکر ہر قدم پر رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں ۔اللہ تعالی ٰ اس کو اس قدر عمدگی سے تیار کرنے والوں او رناشرین کی اس کاوش کوقبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
انکارِ حدیث کے فتنہ نے دوسری صدی میں اس وقت جنم لیا جب غیر اسلامی افکار سے متاثر لوگوں نے اسلامی معاشرہ میں قدم رکھا اور غیر مسلموں سے مستعار بیج کو اسلامی سرزمین میں کاشت کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت فتنہ انکار ِ حدیث کے سرغنہ کے طور پر جو دو فریق سامنے آئے وہ خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج جو اپنے غالی افکار ونظریات کو اہل اسلام میں پھیلانے کا عزم کئے ہوئے تھے، حدیث ِنبوی کو اپنے راستے کا پتھر سمجھتے ہوئے اس سے فرار کی راہ تلاش کرتے تھے۔ دوسرے معتزلہ تھے جو اسلامی مسلمات کے ردّوقبول کے لئے اپنی ناقص عقل کو ایک معیار اور کسوٹی سمجھ بیٹھے تھے، لہٰذا انکارِحد رجم، انکارِ عذابِ قبر اور انکارِ سحر جیسے عقائد و نظریات اس عقل پرستی کا ہی نتیجہ ہیں جو انکارِ حدیث کا سبب بنتی ہے۔ دور ِجدید میں فتنہ انکارِ حدیث نے خوب انتشار پیدا کیا اور اسلامی حکومت ناپید ہونے کی وجہ سے جس کے دل میں حدیث ِ نبوی کے خلاف جو کچھ آیا اس نے بے خوف وخطر کھل کر اس کا اظہار کیا۔ دین کے ان نادان دوستوں نے اسلامی نظام کے ایک بازو کو کاٹ پھینکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور لگا رہے ہیں۔یورپ کے مستشرقین کی نقالی میں برصغیر پاک وہند میں ماضی قریب میں بہت سے ایسے متجددین پیدا ہوئے جو حدیث وسنت کی تاریخیت ،حفاظت اور اس کی حجیت کو مشکوک اور مشتبہ قرار دے کر اس سے انحراف کی راہ نکالنے میں ہمہ تن گوش رہے۔ اس فتنے کی آبیاری کرنے والے بہت سے حضرات ہیں جن میں سے مولوی چراغ علی، سرسیداحمدخان، عبداللہ چکڑالوی، حشمت علی لاہوری، رفیع الدین ملتانی، احمددین امرتسری اور مسٹرغلام احمدپرویز، جاوید غامدی وغیرہ نمایاں ہیں۔ غلام احمد پرویز پاکستان میں فتنہ انکار حدیث کے سرغنہ اور سرخیل تھے۔ان کی ساری زندگی حدیث رسول ﷺ کی صحت وثبوت میں تشکیک ابھارنے میں بسر ہوئی اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ تردید حدیث کا کام قرآن حکیم کے حقائق ومعارف اجاگر کرتے ہوئے سرانجام دیتے تھے۔ ہردور میں فتنوں کی سرکوبی میں علمائے حق کی خدمات نمایاں نظر آتی ہیں ۔برصغیر پاک وہند میں فتنہ انکار کے رد میں جید علماء کرام بالخصوص اہل حدیث علماء کی کاوش ناقابل فراموش ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’آئینہ پرویزیت‘‘ کتاب وسنت ڈاٹ کام کے مدیر جناب ڈاکٹر حافظ انس نضر﷾ کے نانا جان مولانا عبدالرحمٰن کیلانی کی پرویزیت کے رد میں لاجواب تصنیف ہے۔ مولانا کیلانی مرحوم نے اپنے خالص علمی، معلومات اور قدرے فلسفیانہ رنگ میں یہ کتاب تحریر کی ہے۔ اس ضخیم کتاب میں پرویزیت کا جامع انداز میں پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔ اور مدلل طریقے سے فتنہٴ انکارِ حدیث کی سرکوبی کی ہے، اور مبرہن انداز میں پرویزی اعتراضات کے جوابات پیش کئے گئے ہیں۔ حصہ اَول: معتزلہ سے طلوعِ اسلام تک...حصہ دوم :طلوع اسلام کے مخصوص نظریات... حصہ سوم : قرآنی مسائل...حصہ چہارم : دوامِ حدیث...حصہ پنجم: دفاعِ حدیث...حصہ ششم :طلوعِ اسلام کا اسلام۔ یہ کتاب اپنے موضوع میں ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ 1987ء میں چھ الگ الگ حصوں میں شائع ہوئی ۔بعدازاں اس کویکجا کر کے شائع کیا گیا۔بعد والا ایڈیشن ویب سائٹ پر موجود ہے۔ زیرتبصرہ پہلے ایڈیشن کوبھی محفوظ کر نےکی خاطر پبلش کردیاگیاہے۔ مصنف کتاب مولانا عبد الرحمٰن کیلانی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں، انکی علمی و تحقیقی کتب ہی ان کا مکمل تعارف ہیں۔ موصوف جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ہیں اس کا حق ادا کر دیتے ہیں، مولانا كيلانى اسلامى اور دينى ادب كے پختہ كارقلم كار تھے۔ کتب کے علاوہ ان کے بیسیوں علمی وتحقیقی مقالات ملک کے معروف علمی رسائل وجرائد(ماہنامہ محدث، ترجمان الحدیث، سہ ماہی منہاج لاہور وغیرہ) میں شائع ہوئے ان كى بيشتر تاليفات اہل علم وبصيرت سے خراج تحسين پا چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ا ن کی مرقد پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔ (آمین)(م۔ا)
اسلام ایک امن و سلامتی کا عالمگیر مذہب ہے۔ خاتم النبیین کی بعثت سے پہلے دنیا میں شرک و الحاد باہمی انتشار و فساد کا دور دورہ تھا۔ اللہ رب العزت نے آفتاب رسالت ﷺ کے ذریعے انوار توحید و سنت عالم انسانی کو منور و مزین کیا۔ آپﷺ کی ذات بابرکات و اعلیٰ صفات، امن و عافیت اور شفقت و محبت کا مجمع، حلم و سکینت کا مرقع ہے۔ آپﷺ گفتار و کردار کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔ آپ کی ہر دم عفو و درگزری اور نرم دم گفتگو نے عرب کے خانہ بدوش قبیلوں کو پوری دنیا کے لیے ایک ماڈل و نمونہ بنایا۔ لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے اور یہ بات جہاں مشرکین مکہ کو کھٹکتی تھی وہاں یہودیوں اور نصرانیوں کو بھی نا پسند تھی، جبکہ آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی پیش گوئی ان کی مذہبی کتابوں میں مختلف انداز سے موجود تھی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب بھی تاریخ اسلام میں کوئی سانحہ رو نما ہوا ہے یہودی اس میں بالاواسطہ یا بالواسطہ ملوث رہے ہیں۔ ان کی اسلام دشمنی ہجرت مدینہ سے شروع ہوتی ہے۔ زیر نظر کتاب"یہودیت تاریخ، فطرت و عزائم" یوسف ظفر مرحوم کی ایک تاریخی تصنیف ہے۔ موصوف نے اپنی کتاب ہذا میں یہودیت کی تاریخ، سانحہ بیت المقدس، یہودی اور ان کے پیغمبر، اسرائیل کا قیام اور یہودیوں کے مستقبل کے عزائم کو احاطہ تحریر میں لائے ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے اور ان کو اجر عظیم سے نوازے۔ آمین(عمیر)
احکام الٰہی کےمتن کانام قرآن کریم ہے اور اس متن کی شرح و تفصیل کانام حدیث رسول ہے اور رسول اللہ ﷺ کی عملی زندگی اس متن کی عملی تفسیر ہے رسول ﷺ کی زندگی کے بعد صحابہ کرام نے احادیث نبویہ کو آگے پہنچا کر اور پھر ان کے بعد ائمہ محدثین نے احادیث کومدون او ر علماء امت نے کتب احادیث کے تراجم وشروح کے ذریعے حدیث رسول کی عظیم خدمت کی ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں علمائے اہل حدیث کی تدریسی وتصنیفی خدمات بھی قابل قد رہیں پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خاں کے قلم اور مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا پھر ان کے شاگردوں اور کبار علماء نے عون المعبود، تحفۃ الاحوذی، التعلیقات السلفیہ، انجاز الحاجۃ جیسی عظیم شروح لکھیں اور مولانا وحید الزمان نے کتب حدیث کا اردو زبان میں ترجمہ کر کے برصغیر میں حدیث کو عام کرنے کا عظیم کام سرانجام دیا۔تقریبا ایک صدی سے یہ تراجم متداول ہیں لیکن اب ان کی زبان کافی پرانی ہوگئ ہے اس لیے ایک عرصے سے یہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے تھی کا اردو زبان کے جدید اسلوب میں نئے سرے سے یہ ترجمے کرکے شائع کیے جائیں۔ شیخ البانی اور ان کے تلامذہ کی کوششوں سے تحقیق حدیث کاجو ذوق پورے عالم اسلام میں عام ہوا اس کے پیش نظر بجار طور پر لوگوں کے اندر یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ کاش سننِ اربعہ میں جو ضعیف رویات ہیں ان کی نشاندہی کر کے اور ان ضعیف روایات کی بنیادپر جو احکام و مسائل مسلمانوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی تردید و ضاحت بھی کردی جائے۔ سننِ اربعہ کی عربی شروحات میں تحقیق وتخریج کا اہتمام تو موجود تھا لیکن اردو تراجم میں نہیں تھا تو جب ان کے نئے ترجمے کر کے شائع کیے گیے اور ان میں احادیث کی تخریج وتحقیق کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ جیسے دارالسلام سے مطبوعہ سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، سنن ابو داؤد، میں احادیث کی مکمل تخریج وتحقیق پیش کی گئی ہے۔ اور اسی طرح بعض دوسرے اداروں نے بھی یہ کام کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’سنن نسائی شریف مترجم‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ یہ ترجمہ جنا ب پروفیسر ابو انس محمد سرور گوہر ﷾ نے کیا ہے اور اس میں شیخ خلیل بن مامون شیحا کے نسخہ کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کی تخریج کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ اور احادیث پر صحت وضعف کاحکم علامہ ناصر البانی کے نسخہ کے مطابق لگایا گیا ہے۔ مکتبہ محمدیہ، لاہور نے اسے 3مجلدات میں شائع کر کے خدمت حدیث کی سعادت حاصل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی تیاری میں شامل تمام احباب کی اس محنت کو قبول فرمائے۔ (آمین)
کلام الٰہی اور نبی کریم ﷺکی احادیث مبارکہ عربی زبان میں ہیں اسی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں سے عربی کا رشتہ مضبوط ومستحکم ہے عربی اسلام کی سرکاری زبان ہے ۔شریعت اسلامی کے بنیادی مآخد اسی زبان میں ہیں لہذا قرآن وسنت اور شریعت اسلامیہ پر عبور حاصل کرنےکا واحد ذریعہ عربی زبان ہے۔قرآن کا پڑھنا ثواب اور باعث خیر وبرکت ہے لیکن قرآن کا سمجھنا اوراس پر عمل کرنا باعث نجات ہے۔ اس لحاظ سے قرآن کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنا ،سیکھنا اور سکھانا امتِ مسلمہ کا اولین فریضہ ہے ۔عربی زبان کی تفہیم وتدریس کے لیے کئی ماہرین فن نے اردو زبان زبان میں کتب تصنیف کی ہیں۔جن سے استفادہ کرکے عربی زبان سے واقفیت حاصل کی جاسکتی ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ تعلیم العربیۃ ‘‘ شیخ محمد رفیق کی تصنیف ہے جو کہ تدریس عربی کے پندرہ ابتدائی اسباق پر مشتمل ہے۔ اس میں عربی سے اردو ،اردو سے عربی ،عربی گفتگو اور صرف ونحو کےکچھ قواعد دیئے گئے ہیں ۔ اورآخر میں حل لغات اور چند ایک گردانیں بھی تحریر کردی گئی ہیں ۔(م۔ا)
اسلام میں فتویٰ نویسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بذات خود اسلام۔ فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سےمتعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کےجواب میں کوئی عالم دین اور احکامِ شریعت کےاندر بصیرت رکھنے والاشخص بیان کرے۔فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کاسلسلہ رسول ﷺکےمبارک دور سے چلا آرہا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان ر سالت سے سوال کرنے اور اس سوال کاجواب دینے کےادب آداب بھی سکھلائے ہیں ۔کتب فقہ وحدیث میں یہ بحثیں موجود ہیں او رباقاعدہ آداب المفتی والمستفتی کے نام سے کتب بھی لکھی گئیں ہیں ۔ اب عصر حاضر میں تو مفتی کورس بھی کروائے جاتے ہیں۔ ہر دور میں فتاووں کےاثرات دیر پار ہے ہیں ۔فتاوی کےاثرات کبھی کبھی تاریخ ساز ہوتے ہیں ۔ہندوستان میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے فتوےکاہی اثر تھا کہ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی قیادت میں مجاہدوں کی ایک تحریک اٹھی جس نےملک کو انگریزی استبداد سےنجات دلانے کےلیے کمر کس لی اور اس کی راہ کی صعوبتیں براداشت کرتے ہوئے 1831ء میں جام شہادت نوش کیا ۔ یہ اس فتویٰ کااثر تھا کہ ہندوستانیوں میں قومی شعور پیدا ہوا، ان میں آزادی کا احساس جاگا اور 1857ء میں انگریزوں کےخلاف ایک فیصلہ کن جنگ چھیڑ دی۔ہندوستان میں آزادی کےبعد افتا کافریضہ کافی اہمیت اختیار کرگیا۔لیکن ہمارا دستور آئینِ اسلام کے شرعی قوانین سے قعطا میل نہیں کھاتا ۔ افتا کے نفاذ اور اس پر عمل کی آزادی بہت ہی محدود ہوچکی ہے ۔ حکومتی عدالتیں دار الافتا کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتی ہیں۔بر صغیر پاک وہند کےعدالتی نظام نے انصاف کےحصول کوبہت پچیدہ اوردشوار بنادیا ہے ۔پاک ہند میں دار الافتاء کی تعد اد عربی مدارس سے کم نہیں مگر افسوس کہ ان میں باہمی ربط اور ہم آہنگی نہیں ہے ۔ برصغیر پاک وہند میں قرآن کی تفاسیر شروح حدیث، حواشی وتراجم کےساتھ فتویٰ نویسی میں بھی علمائے اہل حد یث کی کاوشیں لائق تحسین ہیں تقریبا چالیس کے قریب علمائے حدیث کے فتاویٰ جات کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں ۔ زیر تبصرہ ماہنامہ ’’محدث بنارس‘‘ کاافتا نمبر ہے ۔ جس میں مجلہ کےمدیر مولانا ابو القاسم فاروقی اوران رفقا ءنے بڑی جدوجہد سے افتا کے موضوع پر پاک وہند کے 26 اہل علم کے مضامین جمع کر کے اس اشاعت خاص میں شامل کیے ہیں۔ان میں فتویٰ نویسی کی تاریخ ، مستفتی کےآداب، فتوی نویسی اور منہج سلف صالحین، عصر حاضر میں ،اسلام میں افتا کی اہمیت ، فتویٰ نویسی میں نواب صدیق حسن خاں کا مرتبہ ومقام وران کا طریقۂ استدلال وغیرہ جیسے اہم مضامین کےعلاوہ مفتیا ن جامعہ سلفیہ،بنارس، شعبہ دار الافتاء جامعہ سلفیہ ،بنارس عزائم اور منصوبے اور ہندوستان میں افتا کےموجود ہ اہل حدیث مراکزبڑے اہم مضامین ہیں ۔اس خاص نمبر میں شامل ایک مضمون بعنوان ’’علماء اہل حدیث کی اہم کتب فتاویٰ تعارف اور خصوصیات ازمولانا حافظ کلیم اللہ عمری مدنی میں میرے خیال کے مطابق علماء اہل حدیث کے فتاویٰ جات کے تعارف میں مکمل احاطہ نہیں کیاگیا۔کیونکہ اس میں پاکستان کے ممتاز مفتیان کرام کے کتب فتاوی ٰ ( فتاوی ٰ اہل حدیث از عبداللہ محدث روپڑی ،فتاویٰ علماء اہل حدیث از مولانا سعیدی ، فتاوی ٰ حصاریہ از مولاناعبد القادر حصاری ، فتاوی ثنائیہ مدنیہ از مولانا ثناء اللہ مدنی ، فتاویٰ اصحاب الحدیث از مولانا حافظ عبدالستار حماد، فتاوی محمد یہ از مفتی عبید اللہ عفیف ،آپ کے مسائل اور ان کا حل از مبشرربانی ،احکام ومسائل از مولاناعبد المنان نورپوری ، فتاوی ٰ راشدیہ از مولانا بدیع الدین شاہ راشدی اور مولانا زبیرعلی زئی کے فتاویٰ کے عرب شیوخ کے فتاویٰ جات کےتراجم کا بھی ذکر نہیں ہے۔اور کچھ ایسی کتب فتاویٰ کا تعارف پیش کیا ہے جن کا میرے علم کےمطابق وجود ہی نہیں ہے ۔جیسے فتاویٰ محمد اسحاق بھٹی لاہوری اور فتاویٰ صادق سیالکوٹی پاکستانی۔اس سلسلے میں اگر ماہنامہ محدث ،لاہور ،صحیفہ اہل حدیث ،کراچی، ہفت روزہ الاعتصام وغیرہ رسائل میں ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر صاحب اور مولانا رمضان یوسف سلفی آف فیصل آباد کے علماء اہل حدیث کی کتب فتاویٰ کے تعارف پر مشتمل مضامین کو سامنے رکھا جاتا تو بہتر تھا ۔بحرحال مجموعی طور ماہنامہ محدث بنارس کے ذمہ داران کی اس موضوع پر یہ ایک منفرد کاوش ہے اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔ (آمین) (م۔ا)
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے انبیاء کرام و رسل عظام کی ایک برزگزیدہ جماعت کو مبعوث فرمایا۔ اس مقدس و مطہر جماعت کو کچھ ایسے حواری اور اصحاب بھی عنائت کیے جو انبیاء کرام کی تصدیق و حمایت کرتے۔ اللہ رب العزت نے سید الاوّلین و الآخرین حضرت محمدﷺ کو صحابہ کرام کی ایک ایسی جماعت عطا فرمائی جن کے بارے میں اللہ کی یہ مشیت ہوئی کہ وہ خاتم النبیین سے براہ راست فیض حاصل کریں اور رسول اللہﷺ خود ان کا تزکیہ نفس کرتے ہوئے کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔ درس گاہِ محمدیہ ﷺ کی تعلیم و تربیت نے افرادِ انسانی کی ایک ایسی مثالی جماعت تیار کی کہ انبیاء کرام کے بعد روئے زمین پر کوئی جماعت ان سے بہتر سیرت و کردار پیش نہ کر سکی۔ وہ مقدس جماعت جن کا ذکر قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتب میں بھی کیا گیا اور جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "خیر امتی قرنی" (بخاری)"میری امت کی سب سے بہترین جماعت میرے عہد کے لوگ ہیں" یہ وہ جماعت تھی جن کی سیرت و کردار کے بارے میں دشمنوں نے بھی گواہی دی۔ یہ وہ عظیم جماعت تھی جنہوں نے دین اسلام کی آبیاری خود اپنے لہو سے کی اپنے مال و متاع، جان حتیٰ کہ اہل و عیال تک اللہ کے دین کے لیے قربان کر کے ہمیشہ کے لیے جنتوں کے وارث بن گئے۔ یہ وہ مثالی جماعت تھی جن کے دن میدان جہاد میں گزرتے اور راتیں اپنے رب کے حضور عبادت میں گزرتیں۔ زیر تبصرہ کتاب"صحابہء رسولﷺ ہندوستان میں" اکبر علی خان قادری کی تاریخی تالیف ہے۔ جس میں موصوف نے سر زمین پاک و ہند میں اشاعت اسلام کی ایمان افروز داستانیں رقم کرنے والے صحابہ کرام ؓ کے واقعات کو احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔ اور برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا آغاز کیسے ہوا؟ اور اس کے محرکات کون بنے؟ اس کے علاوہ آپﷺ کا پاک و ہند کے بارے میں ارشادات کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ موصوف کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(عمیر)
برصغیر پاک و ہند میں کچھ ایسی شخصیات نے جنم لیا جو علم و ادب اور صحافت کے افق پر ایک قطبی ستارے کی طرح نمودار ہوئے اور دیر تک چھائے رہے۔ ان شخصیات میں سے مولانا ابو الکلام آزادؒ سرِ فہرست ہیں، مولانا کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازہ تھا۔ مولانا آزادؒ عربی، اردو، فارسی اور انگریزی کے عظیم سکالر تھے، آپ نہایت ہی زیرک اور بے باک انسان تھے۔ جب فرنگی حکومت نے ایک منصوبہ کے تحت تقسیم برصغیر کا پروگرام بنایا اور ان کا ارادہ تھا کہ مسلمان پسماندہ ہیں اس لیے ان کو چند ایک رعایتوں کے ساتھ اپنا آلہ کار بنا لیا جائے گا۔ مولانا آزادؒ نے جب برطانوی حکومت کی چالوں میں شدّت محسوس کی تو برصغیر کے مسلمانوں کو اس خطرناک چال سے بچانے کے لیے مولانا نے باقاعدہ کوششیں کیں۔ مولانا یہ چاہتے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی نو(9) کروڑ سے زیادہ ہے اور وہ اپنی اس زبردست تعداد کے ساتھ ایسی مذہبی و معاشرتی صفات کے حامل ہیں کہ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگی میں فیصلہ کن اثرات ڈال سکتے ہیں۔ مولانا کا یہ نظریہ تھا کہ اگر آج ہندوستان کے مسلمان ایک الگ ملک حاصل کر لیں گئے تو وہ فرنگیوں کے آلہ کار ہو کر رہ جائیں گئے اور انڈیا کے مسلمان اپنی اجتماعی طاقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو کر احساس کمتری کا شکار رہیں گئے۔ زیر تبصرہ کتاب"مولانا ابو الکلام آزاد نے پاکستان کے بارے میں کیا کہا" جس کواحمد حسین کمال نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب مولانا کے وہ خطابات و بیانات کا مجموعہ ہے جو مولانا آزادؒ نے تقسیم ہندوستان کی جدوجہد میں کہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(عمیر)
د ين اسلام ايك ايسا فطری اور عالمگیر مذہب ہے جس کے اصول وفرامین قیامت تک کے لوگوں کے لیے شمع ہدایت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جبکہ دیگر الہامی مذاہب تحریف کاشکار ہو کر ضلالت وگمراہی کے گڑھوں میں جا پڑے۔ مگر قرآن مجیدواحد کتاب ہے جو تقریبا ساڑھے چودہ سو سال گزر جانے کےباوجود ہر طرح کی تحریف سے پاک ہے، کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خو د اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔ دین اسلام کو نیست و نا بود کرنے کے لیےدشمنان اسلام نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج اگر موجودہ دور کو کفر و الحاد کا دور کہا جائے تو یہ ایک ایسی حقیقت کا اظہار ہو گا، جسے ہم چشمِ سر سے دیکھ رہے ہیں۔ ہدایت و ضلالت کی کشمش روز اوّل سے ہے، مگر کفر و الحاد کو ایسا ہمہ گیر اثر و رسوخ کسی زمانے میں حاصل نہ ہوا تھا جیسا موجودہ زمانہ میں ہے۔ کفر نے دنیا کے بڑے حصے پر حاکمانہ اقتدار حاصل کر لیا، کہیں تعلیم و تہذیب کی راہ سے، کہیں افکار و نظریات کی راہ سے، کہیں سائنس و فلسفہ کی راہ سےاور کہیں سیاست و حکومت کی راہ سے اسلام پر یلغار کی ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ نسل تعلیم گاہوں سے تعلیم یافتہ ہو کر بھی یا تو اسلام سے نا آشنا ہیں یا پھر موجودہ سائنسی و سیاسی افکار و نظام سے متاثر ہو کر اسلام کی طرف سے احساس کمتری کا شکار ہوتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"مطالعہ مذاہب" محمود الرشید حدوٹی کی ایک تحقیقی اور علمی کاوش ہے۔ موصوف نے اپنی تصنیف میں دنیا میں پائے جانے والے مشہور مذاہب کی رسوم و رواج، ان کی تعلیمات، ان کے نظریات و مقاصد وغیرہ کا بڑے احسن انداز سے دین حنیف سے تقابل کیا ہے اور اسلام کی حقانیت کو مختلف دلائل سے ثابت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی محنتوں کو قبول و منظور فرمائے اور ان کے لیے نجات کا سبب بنائے۔ آمین(عمیر)
ہماری قومی زبان اردو اگرچہ ابھی تک ہمارے لسانی و گروہی تعصبات اور ارباب بست و کشاد کی کوتاہ نظری کے باعث صحیح معنوں میں سرکاری زبان کے درجے پر فائز نہیں ہو سکی لیکن یہ بات محققانہ طور پر ثابت ہے کہ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی بولی جانے والی زبان ہے۔ ہر بڑی زبان کی طرح اس زبان میں بے شمار کتب حوالہ تیار ہو چکی ہیں اور اس کے علمی، تخلیقی اور تنقیدی و تحقیقی سرمائے کا بڑا حصہ بڑے اعتماد کے ساتھ عالمی ادب کے دوش بدوش رکھا جا سکتا ہے۔ ایسی زبان اس امر کی متقاضی ہے کہ اسے صحیح طور پر لکھا بولا جا سکے۔ کیونکہ کسی بھی زبان کی بنیادی اکائی اس کے اصول وقواعد ہیں ۔ زبان پہلے وضع ہوتی ہے اور قواعد بعد میں لیکن زبان سے پوری واقفیت حاصل کرنے کےلیے قواعد زبان سے آگاہی ضروری ہے۔اہل زبان نے قواعد کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کیا اس لیے انہوں نے قواعد مرتب نہیں کیے ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اردو بولنے یا لکھنے والے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد اپنی قومی زبان کی صحت کی طرف سے سخت غفلت برت رہی ہے۔سکولوں اورکالجوں کےلیے گرائمر کی متعدد کتابیں شائع ہوئیں ہیں جو کاروباری مقاصد کو سامنے رکھ کر تیار کی گئیں۔جن میں گرائمر برائے نام اور انشاپردازی کےلیے اِدھر اُدھر سے مواد اکٹھا کر کے ضخیم بنادیاگیا ہے۔جن میں کسی ترتیب کاخیال نہیں رکھا گیا۔ صرف اور نحو کوباہم گڈمڈ کردیاگیا ہے۔روزہ مرہ ،محاورہ، ضرب المثل اور مقولہ میں تمیز کےبغیر انہیں شامل کتاب کردیا گیا ہے ۔ان کتابوں میں صرف امتحانی ضروریات کا خیال رکھاگیا ہے لیکن ان سے لسانی تقاضے پورے نہیں ہوتے ۔اسی لیے اخبارات ورسائل میں جو مضامین شائع ہوتے ہیں ان میں بہت زیادہ غلطیاں پائی جاتی ہیں۔اس کی وجہ یہی ہےکہ قواعد سے عدم واقفیت ہے ۔ان ہی ضروریات کے پیش نظر جناب خان سحاب نے زیر نظر کتاب ’’ نگارستان‘‘ مرتب کی ہے ۔مصنف نےکتاب کوترتیب دیتےوقت کسی خاص درجہ کےطلباء کومدنظر نہیں رکھا بلکہ عام قارئین ،طلبا،اساتذہ، صحافی اور نئے لکھنے والے حضرات یکساں طور پر اس سے استفادہ کرسکتےہیں۔یہ کتاب دوحصوں پر مشتمل ہے حصہ اول میں قواعد زبان، علم صرف،علم نحو، علم بیان، علم بدیع کو آسان انداز میں بیان کیاگیاہے۔اور حصہ دوم میں متعلقات گرائمر،اردو ادب کی اصناف پر بحث کی ہے ۔اس کتاب کی تیاری میں جن کتب سے استفادہ کیا گیا ہے کتابیات کے عنوان سے یہ بھی شاملِ اشاعت ہے ۔قواعد زبان پر لکھی گئی کتابوں کےعلاوہ پی ایچ ڈی کےمقالوں سے بھی استفادہ کیاگیا ہے۔یہ کتاب اردو گرائمر پر ایک مکمل کتاب ہے ۔(م۔ا)
اللہ تبارک وتعالیٰ کے تنہالائقِ عبادت ہونے ، عظمت وجلال اورصفاتِ کمال میں واحد اور بے مثال ہونے اوراسمائے حسنیٰ میں منفرد ہونے کا علم رکھنے اور پختہ اعتقاد کےساتھ اعتراف کرنے کانام توحید ہے ۔توحید کے اثبات پر کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ میں روشن براہین اور بے شمار واضح دلائل ہیں۔ اور شرک کام معنیٰ یہ کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرائیں جبکہ اس نےہی ہمیں پیدا کیا ہے۔ شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کوجہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے قرآن کریم میں شرک کوبہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے اور شرک ایسا گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے تمام گناہوں کو معاف کردیں گے لیکن شرک جیسے عظیم گناہ کو معاف نہیں کریں گے ۔شرک اس طرح انسانی عقل کوماؤف کردیتا ہےکہ انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے ۔نیز شرک اعمال کو ضائع وبرباد کرنے والا اور ثواب سے محروم کرنے والا عمل ہے۔ پہلی قوموں کی تباہی وبربادی کاسبب شرک ہی تھا۔ چنانچہ جس کسی نے بھی محبت یا تعظیم میں اللہ کے علاوہ کسی کواللہ کے برابر قرار دیا یا ملت ابراہیمی کے مخالف نقوش کی پیروی کی وہ مشرک ہے۔ زیر تبصرہ رسالہ ’’شیخ الاسلام مجدد دین امام محمد بن عبد الوہاب کے تلمید خاص اور ان کی قائم کرد ہ تحریک احیاء کتاب وسنت کےممد ومعاون شیخ عبد العزیز بن محمد بن سعود کے توحید اور شرک کے موضوع پر ایک رسالہ کاترجمہ ہے۔ یہ رسالہ اگرچہ مختصر ہے مگراپنے مشمولات ومحتویات کے اعتبار سے ایک جامع کتاب کی حیثیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس میں ایک دقیق النظر صاحب بصیرت عالم کتاب وسنت کی فکری کاوش اور امت مسلمہ کے ایک مخلص مجاہد ، مصلح حاکم اور مرد میدان کی عقیدہ فہمی جمع ہے۔ اس اہم رسالہ کا ترجمہ کی سعادت جناب ڈاکٹر ظہور احمد اظہر (سابق پرنسل اورئنٹیل کالج،لاہور ) نے حاصل کی۔اور محترم جناب حافظ عبدالرشید اظہر نے 1995ء میں اسے اپنے قائم کردہ ادارے ’’دار الفکر الاسلامی ‘‘ کی طرف سے شائع کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقیدہ توحیدپر قائم ودائم رکھیں اور اس کی نشرواشاعت وتبلیغ کی توفیق دے۔ (آمین)
دین اسلام میں تعلیم کی اہمیت مسلّم ہے۔ تاریخ انسانیت میں یہ منفرد مقام اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ سراسر علم بن کر آیا اور تعلیمی دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیامبر ثابت ہوا۔ تعلیم ہی کی بناء پر انسانِ اوّل کو باقی تمام مخلوقات سے ممیز اور برتر فرمایا۔ اسلام کے علاوہ دنیا کا کوئی مذہب یا تمدن ایسا نہیں جس نے تمام انسانوں کی تعلیم کو ضروری قرار دیا ہو، یونان اور چین نے غیر معمولی علمی اور تمدنی ترقی کی لیکن وہ بھی تمام انسانوں کی تعلیم کے قائل نہ تھے بلکہ علم کو ایک خاص طبقہ میں محدود رکھنے کے قائل تھے۔ جس زمانہ میں انڈیا کا تمدن رو بکمال تھا اس میں علم کو برہمنوں میں محدود کر دیا گیا تھا۔ کسی شودر کو تحصیلِ علم کی اجازت نہ تھی۔ شودر کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا جاتا تھا، تاکہ وہ علمی بات نہ سن سکے۔ یورپ کی تنگ نظری اور تعصب کا یہ عالم تھا کہ جو شخص علمی و تحقیقی کام کو سر انجام دیتا اس پرکفر و ارتداد کا فتویٰ عائد کیا جاتا۔ ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے تعلیم کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ درس و تدریس کے میدان میں معلّم کی حیثیت ایک مربی و محسن کی مانند ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہمیشہ استاد کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بادشاہوں اور شہزادوں کے دماغ میں استاد کے پاؤں دھونے کی خواہش انگڑائیاں لیتی رہی ہے۔ زیر نظر کتاب"مسلمان استاد" ڈاکٹر محمد وسیم احمد شیخ کی منفرد تصنیف ہے۔ جس میں ڈاکٹر صاحب نے تعلیم و تعلم کی اہمیت، موجودہ نظام تعلیم کی خامیاں، اسلام اور سائنس اور مسلمانوں کی سائنسی خدمات پر مفصل قلمبند کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین (عمیر)
د ين اسلام ايك ايسا فطری اور عالمگیر مذہب ہے جس کے اصول وفرامین قیامت تک کے لوگوں کے لیے شمع ہدایت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جبکہ دیگر الہامی مذاہب تحریف کاشکار ہو کر ضلالت وگمراہی کے گڑھوں میں جا پڑے۔ مگر قرآن مجید واحد کتاب ہے جو تقریبا ساڑھے چودہ سو سال گزر جانے کےباوجود ہر طرح کی تحریف سے پاک ہے۔ کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خو د اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔ عیسائیت اور اسلام دونو ں الہامی مذاہب ہیں اور ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ عیسائی عقیدہ تثلیث کے قائل ہیں جبکہ اسلام اس کے بر عکس عقیدہ توحید اظہر من الشمس نظریے کا قائل ہے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ،حضرت مریمؑ، حضرت عیسیٰ ؑ کے حواریوں، راہبوں کی کھلم کھلا پرستش کی مگر اسلام اس کے برخلاف وحدانیت کا سبق دیتاہے۔ زیر نظر کتاب"کرسمس عیسائیت سے مسلمانوں تک"مولانا عبدالوارث ساجد کی ایک فکر انگیز تالیف ہے۔ موصوف نے کرسمس کی تاریخ، کرسمس ٹری، رسومات کرسمس، موجودہ عیسائیت کا بانی اور دیگر عیسائیت کے افکار و نظریات کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی محنتوں کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین(عمیر)
سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت وعقیدت مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے اور کسی بھی شخص کاایمان اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک رسول اللہ ﷺ کو تمام رشتوں سے بڑھ کر محبوب ومقرب نہ جانا جائے۔فرمانِ نبویﷺ ہے تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اسے رسول اللہﷺ کے ساتھ ماں،باپ ،اولاد اور باقی سب اشخاص سے بڑھ کر محبت نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کاشروع دن سے ہی یہ عقیدہ ہےکہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ گرامی سے محبت وتعلق کےبغیر ایمان کا دعویٰ باطل اور غلط ہے۔ہر دو ر میں اہل ایمان نے آپ ﷺ کی شخصیت کے ساتھ تعلق ومحبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔اور اگر تاریخ کے کسی موڑ پرکسی بد بخت نے آپﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شتم رسولﷺ کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ چند سال قبل ڈنمارک ناروے وغیرہ کے بعض آرٹسٹوں نے جوآپ ﷺ کی ذات گرامی کے بارے میں خاکے بنا کر آپﷺ کامذاق اڑایا۔جس سے پورا عالم اسلام مضطرب اور دل گرفتہ ہواتونبی کریم ﷺ سے عقیدت ومحبت کے تقاضا کو سامنے رکھتے ہواہل ایما ن سراپا احتجاج بن گئے اور سعودی عرب نے جن ملکوں میں یہ نازیبا حرکت ہوئی ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ۔ پاکستان میں ’’تحریک حرمت رسولﷺ ‘‘ معرض وجود میں آئی جس میں ملک بھر کی 22 دینی وسیاسی جماعتیں شامل ہوئیں۔اور اسی دوران گستاخ رسول کی سزا وانجام کےحوالے سے متعددنئی کتب چھپ منظر عام پر آئی ہیں کتاب ہذا بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’توہین رسالت کی سزا‘‘ جنا ب پروفیسر حبیب اللہ چشتی کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے توہین رسولﷺ کرنےوالوں کےلیے سزائےموت کےقانون کوقرآن وسنت،اجماع امت، اقوال ائمہ فقہ اور تاریخی حوالوں سے ثابت کیا ہے۔یہ کتاب جمال رسول ﷺ کادلکش تذکرہ اور قانون توہین رسالت کا تاریخی مجموعہ ہے۔ (م۔ ا)
آغا شورش کاشمیری پاکستان کےمشہور و معروف شاعر،صحافی، سیاستدان اوربلند پایہ خطیب تھے۔آغا شورش کاشمیری 14 اگست 1917ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام عبدالکریم تھا، لیکن آغا شورش کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔آپکی سیاسی علمی ادبی تربیت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ گھر میں ’’زمیندار‘‘ اخبار آتا اور مسجد شہید گنج کی تحریک نصف نہار پر تھی عبدالکریم اسکول سے فارغ ہوئے تو تحریک شہید گنج کا رخ کیا اور مولانا ظفر علی خان سے قربت میسر آ گئی تو مولانا ظفر علی خان کی سیاست، صحافت، خطابت آغا شورش کے مزاج میں سرایت کرتی چلی گئی ۔ اب شورش بھی برصغیر کا منفرد خطیب مانا جانے لگے۔ سارا ہندوستان انکے نام سے شناسا ہوا۔ آغا صاحب کا ایک سیاسی قد کاٹھ بن گیا جس دوران مسلم لیگ علیحدہ وطن کیلئے کوشاں تھی اس وقت آغا شورش کاشمیری مجلس احرار کے چنیدہ رہنماؤں میں شامل ہو کر مجلس کے ایک روزنامہ (آزاد) کے ایڈیٹر بن گئے اور قیام پاکستان کے بعد آغا شورش کاشمیری وطن عزیز کی بقا اور استحکام کیلئے آخری سانسوں تک میدان عمل میں رہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر کڑی تنقید اور اپنے نقطہ نظر کو دلائل کے ساتھ پُرزور انداز میں پیش کرتے ہوئے بڑے استقلال سے کھڑے ہو جانا آغا شورش کا مزاج بن چکا تھا۔ تحریک ختم نبوت آغا صاحب کی زندگی کا اثاثہ عظیم تھا وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک 1973ء کے آئین میں ختم نبوت کے عقیدے کو شامل کرا کے قادیانیوں کو خارج الاسلام نہ کر لیا۔ آپ تحریک پاکستان میں تو نہ تھے مگر تعمیر پاکستان میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پاکستان میں آئین سازی کا مرحلہ ہو یا جمہوری اقدار کے احیاء کی بات ہو ۔پاک بھارت جنگ ہو یا ملک میں مارشل لاء کے ضابطے آڑے آئیں۔ شورش ایک محب وطن رہبر بن کر میدان میں ڈٹے نظر آئے۔آپ قادر الکلام شاعر میدان صحافت کے جریں سالار سیاسی سٹیج کے بے تاج بادشاہ تھے۔شہید ملت شہسوار خطابت علامہ احسان الٰہی ظہیر آغاشورش کاشمیری کی خطابت سے متاثر ہوئے اورپھر آغا صاحب کو اپنی خطابت سے متاثر بھی کیا۔1946ء میں آغا صاحب کو مجلس احرار اسلام کا سیکرٹری جنرل بنایا گیا اور1974ء میں انہوں نے ختم نبوت کے لئے اہم کردار ادا کیا جسے رہتی دُنیا تک یاد رکھا جائے۔ آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران عمر عزیز کے قیمتی ساڑھے بارہ سال قید و بند کی صعوبتوں کو کشادہ دلی اور وقار کے ساتھ برداشت کرکے گزارے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’بوئےگل نالۂ دل ، دودِ چراغ ِ محِفل‘‘ جناب شور ش کاشمیری کی خود نوشت سوانح حیات ،ان کی زندگی اہم واقعات ،ان کی سیاست وقیادت ، قید بند کا ایامِ اسیری اور ان کے افکار پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب کی اشاعت اول ان کی زندگی میں 1972 ء میں ہوئی اور 24 اکتوبر 1975ء کواپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ آغا صاحب خود اپنی اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں کہ میں کیا اورمیرے سوانح کیا ؟ یہ کہانی صرف اسے لیےلکھ دی ہے کہ دوسروں کوعبرت ہو ۔(م۔ا)
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب "دیوان المتنبی"عالم عرب کے ایک معروف شاعرابو الطیب المتنبی کا قصیدہ ہے۔جس کا اردو ترجمہ محترم محمد امین کھوکھر اور محترم محمد یسین قصوری صاحب نے کیا ہے۔عربی زبان وادب سیکھنے کے حوالے سے یہ ایک مقبول ترین کتاب ہے ،جو متعدد دینی مدارس اور سکولوں وکالجوں کے ایم اے عربی اور فاضل عربی کے نصاب میں داخل ہے۔اللہ تعالی مولف ،مترجم اور ناشر سب کو اس عظیم الشان کتاب کی طباعت پر اجر عطا فرمائے۔آمین(راسخ)
اخروی نجات ہر مسلمان کا مقصد زندگی ہے جو صرف اور صرف توحید خالص پرعمل پیرا ہونے سے پورا ہوسکتا ہے۔ جبکہ مشرکانہ عقائد واعمال انسان کو تباہی کی راہ پر ڈالتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکوں کے لیے وعید سنائی ہے ’’ اللہ تعالیٰ شرک کو ہرگز معاف نہیں کرے گا او اس کے سوا جسے چاہے معاف کردے گا۔‘‘ (النساء:48) لہذا شرک کی الائشوں سے بچنا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے ۔اس کے بغیر آخرت کی نجات ممکن ہی نہیں۔ حضرت نوح نے ساڑے نوسوسال کلمۂ توحید کی طرف لوگوں کودعوت دی۔ اور اللہ کے آخری رسول سید الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نےبھی عقید ۂ توحید کی دعوت کے لیے کس قدر محنت کی اور اس فریضہ کو سر انجام دیا کہ جس کے بدلے آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف ومصائب سے دوچار ہوناپڑا۔ عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ او رآپ کے صحابہ کرا م نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا وہاں علمائے اسلام نےبھی عوام الناس کوتوحید اور شرک کی حقیقت سےآشنا کرنے کےلیے دن رات اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا۔ ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر تبصرہ کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے توحید و شرک کی حقیقت کو سادہ اور دل نشیں الفاظ میں بیان کردیا ہے۔ اوراللہ تعالیٰ کے بارے میں مذاہب باطلہ کا تصور پیش کرنے کے بعد سفارش کی حقیقت بیان کی ہے او راس ضمن میں قرآنی حقائق سے استشہاد کیا ہے۔ حضرت نوح، اصحاب کہف اور عزیر کے قصوں اور قرآنی آیات سے خالص توحید کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے وسیلے کی حقیقت اوراسے اختیار کرنےکا طریقہ انبیائے کرام کی پاکیزہ سیرت کی پیروی میں دکھایا ہے، نیز قرآن کریم کی روشنی میں معجزہ اور کرامات کی حقیقت کھول کر بیان کردی ہے۔ اسے کھلے دل ودماغ سے پڑھنے والا شرک اوراس کے تمام مظاہر سے بچ کر خلوص دل سے توحید الٰہی کوحرزِ جاں بنائے گا تو دنیا اورآخرت میں یقیناً فوز وفلاح کا مستحق ٹھرے گا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’رسائل توحید‘‘ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی کتب و رسائل میں سے توحید کے موضوع پرماخوذ رسائل کا مجموعہ ہے۔ محترم جناب حامد محمود صاحب نے شیخ موصوف کی کتب سے اخذ کر کے ان کا ترجمہ کیا ہے۔ مترجم نے بعض مقامات پر حاشیہ کی صورت میں کچھ توضیحی نکات بھی پیش کیے ہیں۔ اور محترم جناب عمران صدیقی صاحب نے بعض رسائل کے شروع میں اس رسالہ کے متعلقہ ایک چھوٹی سی تمہیدتحریر کی ہے۔ جو اس رسالہ کے فہم کے لیے مفید ومعاون ہے۔ اللہ تعالیٰ عقیدہ توحید پر قائم دائم رکھے۔ (آمین) (م۔ا)
تاریخ عالم اٹھا کر دیکھئے۔ کفر نے اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ہمیشہ ایڑھی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ وہ کون سا جال ہے، جو اسلام کو مقید کرنے کے لیے استعمال نہ کیا گیا۔ وہ کون سی سازش ہے، جو اسلام کی گردن کاٹنے کے لیے تیار نہ کی گئی۔ وہ کونسی درندگی ہے جس کی مشق سینہ اسلام پر نہ کی گئی۔ وہ کونسے ہولناک مظالم ہیں، جو اسلام کے نام لیواؤں پر روانہ رکھے گئے۔ لیکن جب ہندوستان پر فرنگی استعمار قابض ہو چکا تھا۔ مسلمان غلامی کی آہنی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ کفر نے اسلام پر ایک نیا، نرالا اور اچھوتا حملہ کیا۔ ایک خوفناک اور بھیانک منصوبہ بنا۔ جس کے تحت اسلام کو اسلام کے نام پر لوٹنے کا پروگرام بنا۔ کفر نے اپنے اس خاص مشن کو"قادیادنیت" کا نام دیا۔ اور اس کی قیادت ایک ننگ دین، ننگ وطن اور تاریخ کا بدترین انسان مرزا غلام احمد قادیانی کو سونپ دی گئی۔ وہ کذاب مرزا احمد ہی تھا جس نے برطانوی سامراج کے مقاصدے شریرہ کو ہر سطح پر کامیاب کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ مرزا نے مذہبی روپ اختیار کر کے اجرائے نبوت، حیات مسیح، مہدویت کی بحثوں میں الجھایا اور مسلمانوں کو انگریزوں کا وفادار بننے پر آمادہ کیا۔ زیر تبصرہ کتاب"حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ کا مقدمہ عیسائی عدالت میں" مولانا محمد الیاس چنیوٹی کی ایک فکر انگیز تصنیف ہے۔ مولانا نے عیسائیوں کو ایک لمحہ فکریہ دیا ہے کہ قادیانی گروہ حضرت عیسیٰؑ کی شان میں انتہائی نا قابل برداشت گستاخی کے باوجود عیسائی قوم اور حکومتوں کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں بلکہ عیسائی قوم ان کے حقوق کی جنگ لڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ راقم کو اجر عظیم سے نوازے اور امت محمدیہ کو اس خطرناک فتنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین (عمیر)
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام اور رسولوں کو مبعوث فرمایا جو شرک و بدعت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم سے ہمکنار کرتے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بندوں تک پہنچاتے۔ اس سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ختم الانبیاء حضرت محمد ﷺ ہیں۔ آپﷺ ایک داعئ انقلاب، معلم، محسن و مربی بن کر آئے۔ جس طرح آپﷺ کے فضائل و مناقب سب سے اعلیٰ اور اولیٰ ہیں اسی طرح آپ ﷺ کی امت کو بھی اللہ رب العزت نے اپنی کلام پاک میں"امت وسط" کے لقب سے نوازہ ہے۔ اسلام نے اپنی دعوت و تبلیغ اور امت کے قیام و بقاء کے لیے اساس اولین ایک اصول کو قرار دیا ہے جو "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دعوت الی الخیر، برائی سے روکنا اس امت کا خاصہ اور دینی فریضہ ہے۔ جب ہر فرد اپنے حقیقی مشن"امر با لمعروف و نہی عن المنکر" کو پہچانتے ہوئے عملی جامہ پہنائے گا تو ایک پر امن، باہمی اخوت اور مودّدت کا مثالی معاشرہ تشکیل ہو گا۔ زیر تبصرہ کتاب"صدائے حق امر بالمعروف و نہی عن المنکر" مولانا ابو الکلام آزادؒ کی نادر تصنیف ہے جو کہ در اصل ان مضامین پر مشتمل ہے جو آپ نے "امر با لمعروف و نہی عن المنکر" کے عنوان کے تحت اپنے ہفت روزہ رسالے"الہلال" میں قسط وار شائع کئے تھے۔ مولانا آزادؒ ایک تحریکی اور بے پناہ صلاحیتوں کے مرقع تھے آپ کا قلم ایک سونتی ہوئی تلوار کی مانند تھا حق گوئی، بے باکی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ مولانا آزادؒ نے اپنی تصنیف میں مسلمانوں کو ان کے حقیقی مشن کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا آزادؒ کو اپنی رحمت سے اجر عظیم سے نوازے۔ آمین(عمیر)
دنیا دارالامتحان ہے اس میں انسانوں کو آزمایا جاتا ہے ۔آزمائش سے کسی مومن کوبھی مفر نہیں۔ اسے اس جہاں میں طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑتاہے۔ قسم قسم کےہموم وغموم اس پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔اور یہ تمام مصائب وآلام بیماری اور تکالیف سب کچھ منجانب اللہ ہیں اس پر ایمان ویقین رکھنا ایک مومن کے عقیدے کا حصہ ہے کیوں کہ اچھی اور بری تقدیر کا مالک ومختار صر ف اللہ کی ذات ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سےجنہیں چاہتا ہے انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ اطاعت پرمضبوط ہوکر نیکی کے کاموں میں جلدی کریں اور جوآزمائش انہیں پہنچی ہے ۔اس پر وہ صبر کریں تاکہ انہیں بغیر حساب اجروثواب دیا جائے ۔ اور یقیناً اللہ کی سنت کا بھی یہی تقاضا ہےکہ وہ اپنے نیک بندوں کوآزماتا رہے تاکہ وہ ناپاک کوپاک سےنیک کو بد سے اور سچے کوجھوٹے سے جدا کردے ۔ لیکن جہاں تک ان کے اسباب کا تعلق ہے تو وہ سراسر انسان کے اپنے کئے دھرے کا نتیجہ سمجھنا چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’جوکچھ تمہیں مصائب پہنچتے ہیں وہ تمہارے ہی کردار کا نتیجہ ہیں جبکہ تمہارے بے شمار گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے ‘‘ دنیا میں غم ومسرت اور رنج وراحت جوڑا جوڑا ہیں ان دونوں موقعوں پر انسان کو ضبط نفس اور اپنے آپ پر قابو پانے کی ضرورت ہے یعنی نفس پر اتنا قابو ہوکہ مسرت وخوشی کے نشہ میں اس میں فخر وغرور پیدا نہ ہو اور غم وتکلیف میں وہ اداس اور بدل نہ ہو۔دنیاوی زندگی کے اندر انسان کوپہنچنے والی تکالیف میں کافر اور مومن دونوں برابر ہیں مگر مومن اس لحاظ سے کافر سےممتاز ہےکہ وہ اس تکلیف پر صبرکرکے اللہ تعالیٰ کےاجر وثواب اور اس کےقرب کاحق دار بن جاتا ہے۔اور حالات واقعات اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ مومنوں کوپہنچنے والی سختیاں تکلیفیں اور پریشانیاں اور نوعیت کی ہوتی ہیں جبکہ کافروں کوپہنچنے والی سختیاں ،تکلیفیں اور پریشانیاں اور نوعیت کی ہوتی ہیں۔مصائب، مشکلات ، پریشانیوں اور غموں کے علاج اور ان سےنجات سےمتعلق کئی کتب چھپ چکی ہیں ہرایک کتاب کی اپنی افادیت ہے۔ زیر نظر کتاب ’’پریشانیوں اور مشکلات کاحل ‘‘ محترم حافظ محمد حمزہ کاشف اور جناب ڈاکٹر حافظ محمد شبہاز حسن حفظہمااللہ کی مشترکہ کاوش ہے ۔مصنفین نےاس کتاب کی ترتیب کےوقت اس موضوع کی اکثر کتب بالخصوص عامر محمد ہلالی کی کتاب ’’مشکلات کا مقابلہ کیسے کریں؟‘‘ کومدنظر رکھا ہے۔قارئین کی سہولت کی خاطر کتاب کو حسب ذیل ساتھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ آزمائش اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اوروہی مشکل دورکر سکتا ہے۔ آزمائش اور تقدیر الٰہی۔ آزمائشوں میں خیر وبرکات کےپہلو۔ سوچنےکا عمدہ انداز اور خوش رہنے کے قاعدے ۔ آزمائش میں نیک لوگوں کا طرز عمل ۔ آزمائش سے پہلے اور بعد۔ جادواورنظر بد سےبچاؤ کےطریقے ۔ آخری باب میں عرب علماء کا موقف بالعموم اور شیخ وحید عبدالسلام بالی کا موقف اوران کے تجربا ت بالخصوص پیش کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب پریشانیوں کا احساس کم کرنے اور غموں کےزخموں پر مرحم رکھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ (ان شاء اللہ) فاضل محقق مولانا محمدارشد کمال﷾ کی تحقیق کے ساتھ اس کتاب کی افادیت اور ثقاہت میں مزید اضافہ ہوگیاہے ۔اللہ تعالیٰ اس کاوش کومؤلفین اور جملہ معاونین کےلیے صدقہ جاریہ بنائے اور اہل ایمان کو مصائب اور پریشانیوں پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) یہ کتاب اگرچہ پہلے بھی ویب سائٹ پر موجود تھی لیکن موجود ایڈیشن میں ساتویں باب کااضافہ کیا گیا ہے جو تقریبا100 صفحات پر مشتمل ہے۔ لہذا اسے بھی سائٹ پر پبلش کردیاگیا ہے۔(م۔ا)
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ اورباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعدر رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت ،کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت اور مذاہب باطلہ کی تردید وتوضیح میں بسر کردی ۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیا۔آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔فکر وعقیدہ کی گمراہیوں میں سے شرک اور بدعت دو بڑی گمراہیاں ہیں۔ امام ابن تیمیہ ؒ کی کتب میں ان دونوں گمراہیوں پر مفصل کلام موجود ہے۔آپ کی کتابوں میں سے ’’اقتضاء الصراط المستقیم فی مخالفۃ اصحاب لجحیم‘‘ایک ممتاز مقام رکھتی ہے ۔اس کتاب کا موضوع بدعات ہیں ۔ شیخ الاسلام نے اپنی اس کتاب میں اپنے زمانے میں پائی جانے والی متعدد بدعات کی نشاندہی کی ہے اور ان کا رد کیا ہے۔اور غیر مسلموں سےمشابہت او ران کےخاص دن، رسوم اور رواج اپنانے یا ان میں شرکت کرنے پر بحث فرمائی ہے۔اصل کتاب عربی زبان میں بڑی ضخیم کتاب ہے عام لوگوں کے لیے اس سے استفادہ کرنا مشکل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’راہ حق کےتقاضے ‘‘اسی کتاب کی تلخیص کا اردو ترجمہ ہے ۔تلخیص کا کام جامعۃ الامام محمد بن سعود کے پروفیسر جناب ڈاکٹر عبدالرحمٰن عبد الجبار فریوائی نے کیا اور اس تلخیص کو اردو قالب میں ڈھالنےکی ذمہ داری انڈیا کے ممتاز سلفی عالم دین ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری نے انجام دی۔ المکتبۃ السلفیۃ ،لاہورکےمدیرجناب احمد شاکر ﷾ نے تقریباً بیس سال قبل اسے حسن طباعت سےآراستہ کیا ۔اللہ تعالیٰ بدعات و خرافات میں گھرے لوگوں کےلیے اس کتاب کو نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ، خاص استعداد و صلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار، اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے اور خطابت و بیان کے ذریعے انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح و قلب پر اثر پڑتا ہے۔ اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہے جسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس و تقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے ۔اس لیے خطبا حضرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت، معاملات میں درستگی، آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’خطبات نواز جلد اول‘‘ ہر دلعزیز عوامی جناب مولانا محمد نواز چیمہ کے تقریبا 36 اہم موضوعات پر خطبات کا مجموعہ ہے۔ موصوف نے ان خطبات میں دلچسپ اور غیرمشہور واقعات کو باحوالہ درج کیا ہے اور ہرموضوع میں اشعار بھی درج کیے ہیں۔ اور حتی الوسع موضوع اور ضعیف روایات کی نشاندہی کی ہے اور صحیح احادیث و روایات سے عنوان بیان کیے ہیں۔ آیات و احادیث اور واقعات کے مستند کتب سے حوالہ جات بھی نقل کیے۔ کتاب ہذا خطبات نواز کی جلد اول ہے جوکہ ہمیں کسی صاحب نے سائٹ پر پبلش کرنے کے لیے عنایت کی تھی اگر کسی صاحب کے پاس اس کی مزید جلدیں ہوں تو ہمیں پبلش کرنے کے لیے دے دیں تاکہ قارئین اس سے بھی مستفید ہوسکیں۔ (م۔ا)