مسلمانوں میں دینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ عہد نبوی ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ دارارقم ،درس گاہ مسجد قبا ، مسجد نبوی اور اصحاب صفہ کے چبوترہ میں تعلیم وتربیت کی مصروفیات اس کے واضح ثبوت ہیں۔ چوتھی وپانچویں صدی ہجری کی معروف دینی درس گاہوں میں مصر کا جامعہ ازہر ، اصفہان کا مدرسہ ابوبکر الاصفہانی ، نیشاپور کا مدرسہ ابو الاسحاق الاسفرائینی اور بغداد کا مدرسہ نظامیہ شامل ہیں۔غرضیکہ مدارس کی تاریخ وتاسیس کی کڑی عہد رسالت سے جاکر ملتی ہے اور مدارس میں پڑھائی جانے والی کتب حدیث کی سند کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ برصغیر میں مدارس کا قیام دوسری صدی ہجری یعنی آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا۔اور جب دہلی میں مسلم حکومت قائم ہوئی تو دہلی کے علاوہ دوسرے شہروں وقصبوں ودیہاتوں میں کثیر تعداد میں مکاتب ومدارس قائم ہوئے۔ مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد کتاب وسنت اور ان سے ماخوذ علوم وفنون کی تعلیم وتعلم ، توضیح وتشریح ، تعمیل واتباع ، تبلیغ ودعوت کے ساتھ ایسے رجال کار پیدا کرنا ہے جو اس تسلسل کو قائم وجاری رکھ سکیں ، نیز انسانوں کی دنیاوی زندگی کی رہنمائی کے ساتھ ایسی کوشش کرنا ہے کہ ہر ہر انسان جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والا بن جائے۔لیکن افسوس کہ اس وقت دینی مدارس اپنوں نے بے وفائیوں اور غیروں کی سازشوں کا نشانہ ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب"دینی مدارس، روایت اور تجدید، علماء کی نظر میں" محترم ممتاز احمد صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے روایت پسند اور تجدد پسند علماء کرام کی نظر میں دینی مدارس کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
تعلیم صرف تدریسِ عام کا ہی نام نہیں ہے ۔تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کےذریعہ ایک فرد اور ایک قوم خود آگہی حاصل کرتی ہے اور یہ عمل اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے احساس وشعور کونکھارنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔یہ نئی نسل کی وہ تعلیم وتربیت ہے جو اسے زندگی گزارنے کے طریقوں کاشعور دیتی ہے اور اس میں زندگی کے مقاصد وفرائض کا احساس پیداکرتی ہے ۔ تعلیم سے ہی ایک قوم اپنے ثقافتی وذہنی اور فکری ورثے کوآئندہ نسلوں تک پہنچاتی اور ان میں زندگی کے ان مقاصد سے لگاؤ پیدا کرتی ہے جنہیں اس نے اختیار کیا ہے۔ تعلیم ایک ذہنی وجسمانی اور اخلاقی تربیت ہے اور اس کامقصد اونچے درجے کےایسے تہذیب یافتہ مرد اور عورتیں پیدا کرنا ہے جواچھے انسانوں کی حیثیت سے اور کسی ریاست میں بطور ذمہ دارشہری اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہوں۔ لیکن وطن عزیز میں تعلیمی نظام کو غیروں کے ہاتھ دے کر تعلیم سے اسلامی روح کو نکال دیاگیا ہے ۔تہذیب واخلاق سےعاری طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں نے تعلیم کے نام پر بربادی کاکھیل کھیلا۔حکومت پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں سیکڑوں ملین ڈالر پاکستان میں سیکولر نظام تعلیم رائج کرنے کےلیے آغاخاں بورڈ کو دئیے۔جن کےعقائدہندوانہ اور مشرکانہ ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’پاکستان میں تعلیم آغاخان کے حوالے ‘‘میں اسی بات کو اجاگر کیا گیا ہےکہ حکمرانوں کے تعلیمی نظام کو ہندو انہ اور مشرکانہ عقائد کے حامل لوگوں کے حوالے کرنے اور نصاب تعلیم میں اسلامیات کو نکالنے کا کیا پس منظر اور مقاصد تھے اور اس کے ہماری پاکستانی قوم پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔(م۔ا)
انسان ازل سے حالات سے باخبر رہنے کا خواہش مند رہا ہے اس کی یہ خواہش مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے پوری ہوتی رہی ہے۔ شروع میں تحریریں پتھروں اور ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں، پھر معاملہ درختوں کی چھال اور چمڑے کی طرف بڑھا۔ زمانہ نے ترقی کی تو کاغذ او رپریس وجود میں آیا۔ جس کے بعد صحافت نے بے مثال ترقی کی، صحافت سے بگڑی ہوئی زبانیں سدھرتی ہیں، جرائم کی نشان دہی اور بیخ کنی ہوتی ہے، دوریاں قربتوں میں ڈھلتی ہیں، معاشرتی واقعات وحوادثات تاریخ کی شکل میں مرتب ہوتی ہیں۔ بالخصوص نظریاتی اور اسلامی صحافت معاشرہ کی مثبت تشکیل ، فکری استحکام، ملکی ترقی کے فروغ ، ثقافتی ہم آہنگی ، تعلیم وتربیت اصلاح وتبلیغ ، رائے عامہ کی تشکیل ، خیر وشر کی تمیز اور حقائق کے انکشاف میں بہت مدد دیتی ہے۔صحافت ایک امانت ہے، اس کے لیے خدا ترسی ، تربیت واہلیت اور فنی قابلیت شرط اول ہے۔ فی زمانہ بدقسمتی سے بہت سے ایسے لوگوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کر لیا ہے جن میں دینی اور اخلاقی اہلیت نہیں، اصول اور کردار کے لحاظ سے وہ قطعاً غیر ذمہ دار اور مغربی یلغار کی حمایت اور لادینی افکار کو نمایاں کرنے میں سر گرم ہیں۔۔حالاں کہ صحافت ایک مقدس اور عظیم الشان پیشہ ہے، جس کے ذریعے ملک وملت کی بہترین خدمت کی جاسکتی ہے ۔ اسلامی صحافت قوم کے ذہنوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ ان کی فکری راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ لوگوں کو ظلمات سے نکال کر نور ہدایت کی طرف لاتی ہے، برے کاموں سے روکتی اور اچھے کاموں کی ترغیب دیتی ہے۔جماعت اہل حدیث نے صحافت کی اس اہمیت کو دیکھتے ہوئے بھرپور انداز میں اس میں حصہ ڈالا ہے اور بے شمار رسائل وجرائد اور اخبارات کے ذریعے اصلاح معاشرہ کا عظیم الشان بیڑا اٹھایا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "تعلیم گاہوں کے رسائل وجرائد" محترم ضیاء اللہ کھوکھر صاحب کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نےعبد المجید کھوکھر یاد گار لائبریری گوجرانوالہ کے ذخیرہ رسائل میں 1894ء سے 2005ء تک کے موجود تعلیمی اداروں کے رسائل وجرائد کا اشاریہ جمع فرما دیا ہے، تاکہ اس لائبریری سے استفادہ کرنے والوں کو آسانی رہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ رب العزت نے آنحضرت ﷺ کو رحمت اللعالمین بنا کر مبعوث فرمایا، آپ ﷺ نے جہالت میں ڈوبی ہوئی امت کو جہاں علم و حکمت کا شعور بخشا وہیں انہیں اعلیٰ طرز معیشت سے بھی ہمکنار کیا۔ شریعت اسلامیہ ہی وہ واحد شریعت ہے جس میں ہر چیز کوعدل و انصاف کے ترازو میں رکھ کر توازن برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اس کی بے شمار خصوصیات و خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے اندر تمام حقوق کی بغیر کسی کمی بیشی کے وضاحت کر دی گئی ہے، اور حقوق کی پامالی پر عتاب کی وعید بھی سنائی گئی ہےاور ہر ایک کو اس کا پورا پورا حق دیا ہے تا کہ فتنہ و فساد سے محفوظ رہ سکیں۔ عصر حاضر میں ہوس و لالچ کی وجہ سے حق تلفی کی مہلک بیماری ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہی ہے۔ آپؐ نے معاشرے میں شر انگیز اسباب کینہ، بغض، حسد، عداوت اور رشوت وغیرہ جیسی مہلک بیماریوں کا خاتمہ کیا۔ جس طرح دینی تربیت اور دین کی امتناعی قوت بڑے بڑے کے ارتکاب سے بخوبی روکتی ہے اسی طرح یہ دونوں چیزیں جرم رشوت کا بھی نہایت بہترین طریقے سے سد باب کرتی ہیں۔ اسلام نے اپنی زبردست تعلیمات کے ذریعے فرد اور جماعت کے حقوق کو بحال رکھا، اور انہیں برباد ہونے سے بچایا۔ جیسا حضورﷺ نے فرمایا: "اِن دِماءکم وَاموالکم علیکم حرام" تمہارے خون(جان) تمہارے اموال تم پر حرام ہے(بخاری)۔ زیر نظر کتاب" رشوت ایک معاشرتی ناسور" جو کہ مولانا عبد اللہ بن عبد المحسن الطریقی کی عربی تالیف ہے جس کو مولانا نصیر احمد ملی نے آسان اور سلیس اردو میں ڈھالا ہے۔ موصوف نے کتاب ہذا میں رشوت کی صورتیں، اسلامی سزائیں اور معاشرتی گناہوں کو احاطہ تحریر میں لاتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں ان کے احکام و مسائل کو واضح کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہمت و استقامت سے نوازے۔ آمین(عمیر)
اللہ رب العزت نے آنحضرت ﷺ کو رحمت اللعالمین بنا کر مبعوث فرمایا، آپ ﷺ سراپا رحمت اور اخلاق کریمانہ کی عملی تصویر تھے، کتاب الٰہی قرآن مجید کے عملی مظہر تھے، آپ ﷺ نے جہالت میں ڈوبی ہوئی امت کو جہاں علم و حکمت کا شعور بخشا وہیں انہیں اعلیٰ طرز معیشت سے بھی ہمکنار کیا۔ شریعت اسلامیہ ہی وہ واحد شریعت ہے جس میں ہر چیز کوعدل و انصاف کے ترازو میں رکھ کر توازن برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اس کی بے شمار خصوصیات و خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جہاں آپﷺ نے لوگوں کو احکام الٰہی کا پابند بنایا وہاں آپﷺ نے حسن معاشرت اور کھانے پینے کے آداب سے بھی روشناس کیا تا کہ ایک مثالی معاشرے کی تکمیل ہو سکے۔ موجودہ دور میں ہمارے محفلیں، تقریبات وغیرہ جہاں کھانے کا اعلیٰ انتظام تو ہوتا ہے مگر کھانے کے وقت ایک عجیب سا منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی اچھے اخلاق و کردار کا مجموعہ ہے آپﷺ نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا اگر خواہش ہوتی تو کھالیتے ورگرنہ چھوڑ دیتے، آپؐ کا دسترخواں امیر و غریب کے لیے یکساں ہوا کرتا تھا، آپﷺ نے فرمایا: کھانوں میں سے برا کھانا ایسا ولیمہ ہے جس میں اغنیاء کو بلایا جائے اور مساکین کو چھوڑ دیا جائے(مسلم)۔ زیر نظر کتاب" رسول اللہ ﷺ کا دستر خواں" فضیلۃ الشیخ محمود نصّار کی کھانے کے آداب پر بے مثال تالیف ہے۔ فاضل مؤلف نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کھانے کے آداب، دعوت ولیمہ، عقیقہ کے مسائل، آپؐ کے پسندیدہ کھانے اور کھانے کے دوران جن برے اخلاق سے منع فرمایا ہے ان مسائل کو بڑی جامعیت کے ساتھ احاطہ تحریر میں لائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی محنت کو قبول و منظور فرمائے اور ان کے درجات حسنہ میں بلندی کا سبب بنائے۔ آمین(عمیر)
شیخ الاسلام فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری 1868ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے آپ نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں پائی۔ سات سال کی عمر میں والد اور چودہ برس کی عمر تک پہنچتے والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ بنیادی تعلیم مولانا احمد اللہ امرتسر سے حاصل کرنے کے بعد استاد پنجاب، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے علم حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ ۱۸۸۹ء میں سندفراغت حاصل کرصحیحین پڑھنے دہلی میں سید نذیر حسین دہلوی کے پاس پہنچے۔ مولانا ثناءاللہ امرتسری وسیع المطالعہ، وسیع النظر، وسیع المعلومات اور باہمت عالم دین ہی نہیں دین اسلام کے داعی، محقق، متکلم، متعلم، مناظر مصنف، مفسر اور نامور صحافی بھی تھے۔ مولانا کے پیش نگاہ دفاعِ اسلام اور پیغمبر اعظم جناب محمد رسول اللہﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کا کام تھا۔ یہودونصاریٰ کی طرح ہندو بھی اسلام کے درپے تھے۔ مولانا کی اسلامی حمیت نے یہودونصاریٰ، ہندو اورقادیانیوں کو دندان شکن جواب دیے۔ عیسائیت اور ہند مت کے رد میں آپ نےمتعد دکتب لکھیں۔اور آپ نے جس سرگرمی و تندہی سے عقیدہ ختم نبوتﷺ کا دفاع کیا، ایسی سعادت کم ہی مسلمانوں کے حصے میں آئی ہے۔ آپ نے اسلام کی حقانیت کو ہر موڑ پر ہر حوالے سے ثابت کیا۔ ۱۸۹۱ء میں جب مرزا قادیانی نے دعویٰ مسیحیت کیا‘ آپ اس وقت طالب علم تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں آپ نے ردِ قادیانیت کو اختیار کر لیا۔ قادیانیت کی دیوار کو دھکا دینے میں مولانا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مرزا غلام احمد کے چیلنج پر اس کے گھر جا کر اسے مناظرے کے لیے للکاراکہ مرزا قادیانی اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گیا۔ ردِ قادیانیت میں مولانا ثناء اللہ امرتسری نے’’تاریخ مرزا، فیصلہ مرزا، الہامات مرزا، نکات مرزا، عجائبات مرزا، علم کلام مرزا، شہادت مرزا، شاہ انگلستان اور مرزا، تحفہ احمدیہ، مباحثہ قادیانی، مکالمہ احمدیہ، فتح ربانی، فاتح قادیان اور بہااللہ اور مرزا۔‘‘ جیسی کتب لکھیں۔اس کے علاوہ آپ نے لاتعداد مناظرے کیے اور ہر جگہ اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا۔الغرض شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ برصغیر پاک و ہند کی جامع الصفات علمی شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے پناہ خوبیوں اور محاسن سے نواز رکھا تھا۔آپ اسلام کی اشاعت اور اپنے مسلک کی ترویج کے لیے تمام زندگی کوشاں رہے۔ اخبار اہل حدیث جاری کیا۔ قادیانیت ،عیسائیت اور ہند مت کے رد کے علاوہ بھی بہت سی کتب لکھیں۔ تفسیر القرآن بکلام الرحمن (عربی) اور ’’تفسیرِ ثنائی ‘‘ (اردو) قابل ذکر ہیں ۔مولانا کی حیات خدمات کے سلسلے میں معروف قلماران او رمضمون نگاران نے بیسیوں مضامین لکھے ہیں جو پاک وہند کے رسائل کی کی زینت بنتے رہتے ہیں اور بعض اہل علم نے مستقل کتب بھی تصنیف کی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب’’ رئیس المناظرین شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب مبارک مسجد اسلامیہ کالج ،لاہور کے سابق خطیب جناب فضل الرحمٰن الازہری کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے شیخ الاسلام کی پیدائش سے وفات تک کے تما م حالات واقعا ت اور ان کی تعلیم، چند مشہور اساتذہ کے حالات اور ان کی مرزائیت، عیسائیت کے خلاف خدمات اور ان کی تصانیف کا بڑے احسن انداز میں تذکرہ کیاہے۔ یہ کتاب دراصل مصنف کا وہ مقالہ ہے جسے انہوں نے1974ءمیں ایم اے عربی کےسالانہ امتحان کے لیے لکھ کر پنجاب یونیورسٹی میں پیش کیا اور اول پوزیشن حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی قبر پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے۔ (آمین) (م۔ا)
اسلام اور کفر کے درمیان پہلا معرکہ جنگ بدر کی صورت میں لڑا گیا ہے ۔اس غزوہ میں اللہ کے فضل سےمسلمان سرخرو رہے اور ذلت ورسوائی مشرکین کا مقدر ٹھہری۔اس جنگ نے مشرکین مکہ کاغرور خاک میں ملاد یا ۔ان کے ستر بڑے بڑے سردار مارے گئے اور تقریبا اتنےہی گرفتار ہوئے۔اور چودہ مسلمان بھی خلعت شہادت زیب تن کر کے جنت کے مکیں ہوئے اور باقی بہت سا مال غنیمت حاصل کر کے مدینہ منورہ کو واپس لوٹے ۔بدرکی جنگ میں مشرکین مکہ کو بدترین شکست اور ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا تھااس شکست اور ذلت کاخیال کسی بھی لمحے ان کا پیچھا نہیں چوڑتا تھا۔ پورے خطۂ عرب میں ان کی شہرت خاک میں مل گئی تھی ۔ اور وہ بدلہ لینے کے لیے مرے جارہے تھے ۔انہوں نے مکہ مکرمہ جاکر اعلان کر دیا تھا کہ بدر کےمقتولین پر نہ تو کوئی روئے اور نہ ان پر مرثیہ خوانی کرے ہم مسلمانوں سے اس کا بدلہ لے کرر ہیں گے ۔آخر کار خو ب تیاری کر کے شوال 3ھ میں تقریبا تین ہزار کا لشکر مدینہ منور ہ سے کچھ فاصلے پرجبل احد کے قریب آٹھہرا۔مشرکین کے لشکر کی قیادت سیدناابوسفیان کے پاس تھی اورمسلمانوں کی قیادت حضور ﷺنے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔اس معرکہ میں ستر کے قریب صحابہ کرام جام شہادت نوش کر گئے اور نبی کریم ﷺ بھی اس میں زخمی ہوگئے تھے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ تذکرہ شہدائے بدر واحد‘‘ محترم جنا ب جناب پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی ﷾ (فاضل مدینہ یونیورسٹی سابق مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور) کی تالیف ہےاس کتاب میں آپ نے نبی کریم ﷺکے ان جانثار صحابہ کرام کا ایمان افروز تذکرہ کیا ہے جو جنگ بدر واحد میں جام شہاد ت نوش کے کر گئے تھے ۔مصنف موصوف نے شہدائے بدر واحد کے حالات امام ابن عبد البر کی تصنیف لطیف ’’الاستعاب بمعرفۃ الاصحاب‘‘ سے لے کر انہیں اردو قالب میں ڈھالا ہے۔فاضل مصنف نےجامعہ لاہور الاسلامیہ کی تدریس کےدوران ہی گورنمنٹ سروس جائن کرلی تھی ۔آپ عرصہ دراز سے گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ، لیہ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسراسلامیات خدمات سرانجام درہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ زبردست مقرر اور ایک منجھے ہوئے مؤلف ومترجم بھی ہیں ۔آپ نے حال ہی میں حدیث کی معروف کتاب ’’سنن ابن ماجہ‘‘ کا ترجمہ اور فوائد احادیث لکھے ہیں اور اسی طرح مسنداحمد بن حنبل کا ترجمہ بھی کیا ہے جسے انصار السنۃ ،لاہور نے12 جلدوں میں شائع کیا ہے ۔اس کےعلاوہ’’الاکمال فی اسماء الرجال، تدریب الراوی ، غایۃ المرید شرح کتاب التوحید وغیرہ کے آپ مترجم اور کئی کتب کےمصنف ہیں ۔اور مختلف جرائد ومجلات میں آپ کے علمی مضامین بھی شائع ہوتے رہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ موصوف کی دعوتی وتبلیغی،تحقیقی وتصنیفی خدمات کو قبول فرمائے ۔ (آمین) (م۔ا)
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ ، تفسیر قرآن کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیا ۔علمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔پنجاب میں تدریسی خدمت کے سلسلہ میں مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث و زیر آبادی (م1334ھ) کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔مولانا حافط عبدالمنان صاحب حضرت شیخ الکل کے ارشاد تلامذہ میں سے تھے اور فن حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ صحاح ستہ پڑھائی۔ آپ کے تلامذہ میں ملک کے ممتاز علمائے کرام کا نام آتاہے اورجن کی اپنی خدمات بھی اپنے اپنے وقت میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:’’علمائے اہلحدیث کی تدریسی و تصنیفی خدمات قدر کے قابل ہے۔ پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خاں (م1307ھ) کے قلم او رمولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (م1320ھ) کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا۔ بھوپال ایک زمانہ تک علمائے اہلحدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان اوراعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کررہے تھے۔ شیخ حسین عرب یمنی (م327ھ) ان سب کے سرخیل تھے اوردہلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے ہاں سند درس بچھی تھی اور جوق در جوق طالبین حدیث مشرق و مغرب سے ان کی درس گاہ کا رخ کررہے تھے۔ ان کی درس گاہ سے جو نامور اُٹھے ان میں ایک مولانا محمد ابراہیم صاحب آروی (م1320ھ) تھے۔ جنہوں نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیادڈالی ۔اس درس گاہ کے دوسرے نامور مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی عظیم ابادی (م1329ھ) صاحب عون المعبود فی شرح ابی داؤد ہیں جنہوں نے کتب حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کامقصد قرار دیا اوراس میں وہ کامیاب ہوئے۔تصنیفی لحاظ سے بھی علمائے اہلحدیث کاشمار برصغیر پاک و ہند میں اعلیٰ اقدار کا حامل ہے۔ علمائے اہلحدیث نے عربی ، فارسی اور اردو میں ہر فن یعنی تفسیر، حدیث، فقہ،اصول فقہ، ادب تاریخ او رسوانح پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ الغرض برصغیر پاک وہندمیں علمائےاہل حدیث نےاشاعت اسلام ، کتاب وسنت کی ترقی وترویج، ادیان باطلہ اور باطل افکار ونظریات کی تردید اور مسلک حق کی تائید اور شرک وبدعات ومحدثات کےاستیصال اور قرآن مجید کی تفسیر اور علوم االقرآن پر جو گراں قدر نمایاں خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ اہل حدیث کاایک زریں باب ہے ۔مختلف قلمکاران اور مؤرخین نے علمائے اہل حدیث کےالگ الگ تذکرے تحریر کیے ہیں اور بعض نے کسی خاص علاقہ کے علماء کا تذکرہ وسوانح حیات لکھے ہیں۔ جیسے تذکرہ علماء مبارکپور ، تذکرہ علماء خانپور وغیرہ ۔ علما ئے عظام کے حالات وتراجم کو جمع کرنے میں مؤرخ اہل حدیث جناب مولانامحمد اسحاق بھٹی کی خدمات سب سے زیادہ نمایاں ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’تذکرہ علمائے خانپور؍فتح الغفور فی تذکرۃ علمائے خانفور‘‘اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس کتاب کو مولانا قاضی محمد عبد اللہ خانپوری نے مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی اور شارح نسائی مولانا عطاء اللہ حنیف کی ترغیب پر مرتب کیا۔موصوف نے یہ کتاب ’’فتح الغفور فی ذکر علمائے خانفور‘‘ کے نام سے مرتب کی تھی جو ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکی ۔بعدازاں مولانا حکیم قاضی عبد الاحد خانپوری کے تلمیذ رشید مولانا حکیم محمد یحییٰ شفاخانپوری صاحب نے تکملۃ تذکرۂ علمائے خانپور کے نام سے اس میں مزید اضافہ کیااو راس میں مؤلف فتح الغفور قاضی محمد عبد اللہ کے حالات بھی تحریر فرمادیئے۔ مولانا محمد عطااللہ حنیف بھوجیانی نے 1985ءمیں اسے حسن طباعت سے آراستہ کیا۔(م۔ا)
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی۔جس کی بنیادظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔مغلیہ سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام تھا۔ تاہم اکبراعظم کے دور میں کچھ عرصے تک اکبر کا ایجاد کردہ مذہب (دین الٰہی) رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن اس کا عوام پر کوئی اثر نہ پڑا اور وہ بہت جلد ہی ختم ہوگیا۔ باقی تمام شہنشاہوں کے دور میں اسلام ہی سرکاری مذہب تھا اور مغل شہنشاہان اسلام کے بہت پابند ہوا کرتے تھے۔ان میں اورنگزیب عالمگیر زیادہ شہرت رکھتے تھے۔ باقی شہنشاہ بھی اسلام کی پیروی کے لحاظ سے جانے جاتے ہے۔انہوں نے نہ صرف اسلامی قوانین رائج کیے اور اسلامی حکومت کو برصغیر کے کونے کونے میں پھیلانے کی بھرپور کوشش کی۔مغلوں میں جانشینی کا کوئی قانون نہیں تھا ایک بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں اور رشتہ داروں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی جو شہزادہ اپنے حریفوں کو شکست دے دیتا وہ تخت مغلیہ کا وارث بن جاتا۔ زیر تبصرہ کتاب"وسط ایشیا کے مغل حکمران"محترم قاضی محمد اقبال چغتائی بائقرہ صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے مغلیہ سلطنت کی اسی تاریخ اور عروج وزوال کو بیان کیا ہے۔(راسخ)
امام شوکانی 1350 صدی کے مجدد اور مصلح دین تھے۔آپ کی اصلاحی کوششیں کسی خاص علاقے تک محدود نہ رہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں متعارف ہوئیں۔آپ نے کتاب وسنت اور عقیدہ توحید کو عوام تک پہنچانے کے لئے آخری دم تک اپنی کوششیں جاری رکھیں۔امام شوکانی کا شمار یمن کے مشاہیر اور کبار علماء میں ہوتا ہے۔ آپ بے شمار کتب کے مصنف ومولف ہیں۔ آپ کا خاندان ایک علمی خاندان تھا اور آپ کے والد گرامی اپنے وقت کے ایک معروف عالم دین تھے۔ آپ نے متعدد اساتذہ کرام سے فیض حاصل کیا اور اپنے معاصرین پر فوقیت حاصل کر لی حتی کہ کبار شیوخ بھی آپ کے علمی مقام ومرتبے کے معترف ہو گئے۔آپ کے بے شمار تلامذہ ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" امام شوکانی اور تفسیر فتح القدیر " پروفیسر محترمہ نسیم اختر ایم۔ اےکی کاوش ہے، جو امام شوکانی کی معروف تصنیف تفسیر فتح القدیر کے مصادر وماخذ پر مشتمل ہے۔ مولفہ نے اس کتاب میں فتح القدیر کے ماخذ اور ان کا تعارف قلم بند کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولفہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
سیرت کا موضوع گلشن سدابہار کی طرح ہے جس کی سج دہج میں ہر پھول کی رنگینی و شادابی دامان نگاہ کو بھر دینے والی ہے۔ یہ گل چیں کا اپنا ذوق انتخاب ہے کہ وہ کس پھول کو چنتا اور کس کو چھوڑتاہے مگر حقیقت یہ ہےکہ جسے چھوڑا،وہ اس سے کم نہ تھاجسے چن لیا گیا۔بس یوں جانیے کہ اس موضوع پر ہرنئی تحقیق وتوثیق قوس قزح کےہر رنگ کو سمیٹتی اور نکھارتی نظر آتی ہے۔ سیرت طیبہ کا موضوع اتنا متنوع ہے کہ ہر وہ مسلمان جو قلم اٹھانے کی سکت رکھتا ہو، اس موضوع پر لکھنا اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ ہر قلم کار اس موضوع کو ایک نیا اسلوب دیتا ہے،اور قارئین کو رسول اللہﷺ کی زندگی کے ایک نئے باب سے متعارف کرواتا ہے۔ پھر بھی سیرت پر لکھی گئی بے شمارکتب کسی نہ کسی پہلو سے تشنگی محسوس کراہی دیتی ھیں۔ فاضل مصنف ’’حافظ عبد الشکور شیخوپوری‘‘صاحب نے ذخیرہ احادیث اور مصدقہ تاریخی واقعات کی قوی شہادتوں سے سیرت طیبہﷺ کے موضوع پرنہایت ہی قابل تحسین اورخوبصورت کتاب تألیف کی ہے اللہ ان کی اس کاوشکو قبول فرمائے۔ آمین(شعیب خان)
ختمی المرتبت رسول اللہ ﷺ سے محبت دین متین کی بنیاد ہے اور محبت رسول ﷺ کا مظہر اطاعت رسول ﷺ ہے۔ دعوائے محبت ہو اور اطاعت مفقود ہو تو دعویٰ کی سچائی پر حرف آتا ہے۔ پیغمبر اعظم ﷺ کا یہ اعجاز بھی منفرد ہے کہ آپ کے جانثاروں کی زندگیاں جہا ں محبت رسول کی شاہکار ہیں وہاں ہر ایک کی زندگی سنت رسول ﷺ کی آئینہ دار ہے۔ ان نفوس قدسیہ نے دونوں جہتوں میں راہنمائی کا عظیم الشان معیار قائم فرما دیا کہ محبت کا انداز کیا ہوتا ہے اور جو ذاتِ محبت ہے اس کی اطاعت کا معیار کیا ہے۔آپ ﷺ نے بھی اپنے جانثاروں کی جس انداز سے تربیت فرمائی وہ تعلیمات تمام کائنات کے لیے ایک بہترین نمونہ اور مشعل راہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے مختلف مواقع پر مختلف صحابہ کرام کو مختلف وصیتیں فرما کر ان کا تزکیہ نفس کیا۔ جس طرح ایک ماہر طبیب، حکیم یا ڈاکٹر ہر مریض کی بیماری اور مزاج کو مدنظر رکھ کر علاج اور غذا تجویز کرتا ہے، اسی طرح نبی کریم ﷺ جو انسانیت کے سب سے بڑے روحانی معالج تھے ہر شخص کو اسی عمل کی وصیت فرماتے جو اس کے لیے ضروری اور اس کے حالات کے مطابق ہوتی۔ زیر تبصرہ کتاب"رسول اللہ ﷺ کی وصیتیں" الشیخ خالد ابو صالح حفظہ اللہ کی عربی تصنیف ہے جس کو فضیلۃ الشیخ محمد عظیم حاصلپوری حفظہ اللہ نے بڑے احسن انداز سے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ کتاب ہذا دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ ان وصیتوں پر مشتمل ہے جو نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابی ابو ذر غفاری رضی اللہ کو فرمائی اور دوسرا حصہ ان وصیتوں پر مشتمل ہے جو آپؐ نے دیگر صحابہ کرام ؓ کو فرمائیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مصنف و مترجم کی اس سعی کو قبول و منظور فرمائے اور معاونین و ناشرین کے لیے ذریعہ نجات بنائے۔ آمین(عمیر)
اردو ادب میں سفرناموں کو ایک مخصوص صنف کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ سفرنامے دنیا کے تمام ممالک کااحاطہ کرتے ہیں۔اِن کی طرزِ نوشت بھی دوسری تحریروں سے مختلف ہوتی ہے۔یہ سفرنامے کچھ تاثراتی ہیں تو کچھ معلوماتی۔ کچھ میں تاریخی معلومات پر زور دیا گیا ہے تو کچھ ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت کو نمایاں کرتے ہیں جہاں کا انسان سفر کرتاہے۔ سفرمیں انسان دوسرے علاقوں کےرہنے والے انسانوں سےبھی ملتا جلتا ہے۔ ان کےرسم ورواج ، قوانین رہن سہن ،لائف اسٹائل اور لین دین کے طریقوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آثار قدیمہ کے مطالعہ سے قدیم دور کے انسان کی زندگی کے انہی پہلوؤں سے آشنائی حاصل ہوتی ہے۔ اور اس میں سیکھنے کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں جو انسان کی اپنی عملی زندگی میں کام آتے ہیں ۔ جزیرۃالعرب کے سفرنامے زیادہ تر حج و عمرہ کے حوالے سے منظر عام پر آئے ہیں، ان میں بھی بعض کیفیاتی طرز کے ہیں، جب کہ بعض میں علمی اور ادبی پہلو نمایاں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سفر نامہ حجاز ‘‘ مولانا غلا م رسول مہر کے سفرحجاز کی روداد ہے ۔مولانا غلام رسول مہر نے خادم الحرمین الشریفین سلطان عبدالعزیز ابن سعود کی دعوت پر سفرمبارک کا عزم فرمایا تھااو ر23؍اپریل 1930 کو کراچی سے روانہ ہوئے۔مولانا اسماعیل غزنوی اور چند دیگر احباب ان کےہم سفرتھے ۔ ارض حرم میں 29؍ مئی1930ء تک انہیں قیام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔اس دوران سلطان ابن سعود سے ان کی ملاقات ہوئی ان کی صحبت سے فیض یاب ہوئے اور سعادتِ حج سےبھی مشرف ہوئے ۔اس سفر مبارک کی ہر منزل ہر مقام، قیام کی صحبت ومصروفیت کی روداد روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور میں اپریل سے جولائی تک خطوط کی صورت میں قسط وار شائع ہوئی۔یہ خطوط انہوں نے ’’انقلاب‘‘ کےمدیر ثانی عبد المجید سالک کے نام مختلف مراحل ومقامات سے ارسال کیے تھے ۔ 29؍مئی 1930ء کو مولانا مہر جس بحری جہاز سے واپس ہوئے اسی میں قاضی سلیمان سلمان منصورپوری(مصنف رحمۃ للعالمین) بھی اپنے سترہ رفقا کے ساتھ سوارتھے۔ قاضی صاحب سخت علیل تھے او ران کا سانحۂ ارتحال30؍مئی کوبحالتِ سفر جہاز ہی میں پیش آیا۔ قاضی صاحب کی علالت ،ان کی وفات اور پھر ان کی میت کی سپردِ آب کرنے کی روداد مولانا غلام رسول مہر نےبڑی دل سوزی اورافسردگی سےساتھ قلم بند کی ہے جسے اس سانحۂ ارتحال کےایک اہم اور چشم دید ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔یہ روداد بھی اس سفر نامہ میں شامل اشاعت ہے ۔اس سفر نامہ کی مطبوعہ اقساط کو ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری نے اپنے ادبی اور دینی ذوق کی بناپر 1970۔71 میں ’’انقلاب اخبار سے نقل کر مرتب کیا ۔اس سفرنامہ کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے ہیں ۔ایڈیشن ہذا محترم جناب ضیاء اللہ کھوکھر آف گوجرانوالہ نے 1984ء میں شائع۔۔مولانا غلام رسول مہر کا یہ دوسرا سفر حجاز تھا۔ اس سے قبل آپ وفد خلافت کے رکن کی حیثیت سے یکم نومبر 1924ء کو مولانا ظفر علی خان کی معیت میں پہلی مرتبہ کراچی سے حجازِ مقدس کےسفر پر روانہ ہوئے۔جہاں ان کاقیام22جنوری 1926ء تک رہا۔مولانا مہر نےاپنے اس سفر کی روداد اور حجاز مقدس میں اپنے قیام ،مشاہدات او رتجربات کی سرگزشت بھی قلم بند کی تھی جو اُس وقت روزنامہ ’’زمیندار‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ (م۔ا)
اسلام کی قدیم تایخ ہمارے سامنے مسلمان عورت کابہترین اور اصلی نمونہ پیش کرتی ہے اور آج جب کہ زمانہ بدل رہا ہے مغربی تہذیب و تمدن او رطرزِ معاشرت ہمارے گھروں میں سرایت کررہا ہے دور حاضر میں مغربی تہذیب وثقافت سے متاثر مسلمان خواتین او رلڑکیاں اسلام کی ممتاز اور برگزید خواتین کوچھوڑ کر راہِ راست سے ہٹی ہوئی خواتین کواپنے لیے آئیڈل سمجھ رہی ہیں اسلام کے ہردور میں اگرچہ عورتوں نےمختلف حیثیتوں سے امتیاز حاصل کیا ہے لیکن ازواجِ مطہرات طیباتؓ اور اکابر صحابیاتؓ ان تمام حیثیات کی جامع ہیں اور ہمار ی عورتوں کے لیے انہی کے دینی ،اخلاقی معاشرتی اور علمی کارنامے اسوۂ حسنہ بن سکتے ہیں اور موجودہ دور کےتمام معاشرتی او رتمدنی خطرات سے ان کو محفوظ رکھ سکتےہیں زیر تبصرہ کتاب’’ صحابیات الرسول گلشن ِرسالت کی مہکتی کلیاں‘‘ الشیخ ابوعمارمحمود المصری کی عربی کتاب ’’ صحابیات حول الرسول ‘‘ کاسلیس ورواں اردو ترجمہ ہے ۔یہ کتاب مدرسۂ نبویﷺ کی تربیت یافتہ صحابیات ؓن کے ایمان افروز تذکرہ پر مشتمل ہے ۔اس کتاب میں فاضل مصنف نے 35 عدد ان جلیل القدرصحابیات کی سوانح حیات قلم بند کی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے امام الانبیاء ﷺ کی صحابیات کے شرف کےلیے منتخب فرمایا او رجنہوں نے غلبۂ اسلام کی عظیم تحریک میں مردوں کےشانہ بشانہ جرأت وبسالت کی عظیم روایات قائم کیں۔اس اہم کتاب کو معروف سیرت نگار اور نامور مصنف مولانا محمود احمد غضنفرنے اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔فاضل مترجم نے واقعات نگاری میں حقیقت پسندی کو ملحوظ خاطر رکھنے کے ساتھ ساتھ ادبی اسلوب نگارش کو بھی پیش نظر رکھا ہے ۔ جس کی بناپر کتاب کی اثر انگیزی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو خواتینِ اسلام کے لیے مفید بنائے اور مؤلف ، مترجم، او ران تمام احباب کے لیے جنہوں نے اس کی تیاری میں اپنا کردار اداکیا ہے ذخیرۂ آخرت بنائے۔ (آمین) (م۔ا)
قوموں کے عروج و زوال کی داستان اس حقیقت پر شاہد ہے کہ قومی دفاع اور ملکی سلامتی سے غفلت برتنے والی اقوام با لآخر اپنی آزادی اور استقلال کو کھو دیتی ہیں اور اغیار کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لی جاتی ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ برصغیر کے جذبہ ایمانی سے سرشار مسلمانوں کی ایک بھرپور تحریک اور لازوال شہادتوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں ہم جس عظیم ملک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، پچھلے تقریباً پچاس(50) سالوں کے دوران اس کی بقاء اور سلامتی کے تقاضوں کو کما حقہ سمجھنے، ان کے حصول کے لیے مناسب پالیسیوں کی تشکیل اور پھر ہم ان پر خلوص نیت سے عمل پیرا ہونے میں مسلسل ناکام چلے آ رہے ہی، بدلتے ہوئے عالمی حالات میں پاکستان کی سلامتی کو گوناگوں خطرات کاسامنا ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کسی ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدیں بھی ہوتی ہیں۔ دور حاضر میں کچھ ادارے اغیار کے اشاروں پر پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ ان کی سر گرمیاں شریعت اور قرآن مجید کو(نعوذ با للہ) نا قابل عمل قرار دلوانے، ارتداد کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں سے نور ایمان کی دولت ختم کرنے، دینی مدارس پر پابندی لگانے، مخلوط تعلیم کی ترغیب دینے، یہودیت اور عیسائیت کو فروغ دینے، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کرنے اور مغربی کلچر کو فروغ دینے کے لیے وقف ہیں۔ زیر نظر کتاب" حقوق انسانی کی آڑ میں" محترم محمد خالد متین کی ایک بے مثال اور تاریخی تصنیف ہے۔ جس میں موصوف نے ان اداروں کا تذکرہ کیا ہے جو اسلام کے دشمن کے ساتھ ساتھ ملک پاکستان کے بھی انتہائی خطرناک نقاب پوش دشمن ہیں، جو کہ ملک و قوم کی نظریاتی سرحدوں کو انسانی حقوق کی آڑ لے کر اپنی غلیظ پالیسیوں سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر محب اسلام پاکستانی کو اپنے دین اور وطن کی فکر کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور مصنف ہذا کو ہمت و استقامت سے نوازے۔ آمین(عمیر)
HEC کے معیار تحقیق کو ملحوظ رکھتے ہوئے رشد کا دوسرا شمارہ تیار کیا گیا ہے جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس شمارے میں فقہ اسلامی کی قانون سازی کے بارے معاصر علماء اور فقہاء کی آراء کا ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے کہ اسلامائزیشن آف لاز قومی اور ریاستی سطح پر ایک بہت ہی بنیادی مسئلہ شمار ہوتا ہے کہ جس کے حق اور خلاف میں عالم عرب میں خاص طور بہت کچھ لکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ امام بخاری کے لفظ ’دلالت‘ کے بارے افکار پر ایک تفصیلی مضمون موجود ہے کہ جس میں الجامع الصحیح کی روشنی میں امام بخاری کے اصول استدلال اور طرق استنباط کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ امام بخاری کا تفقہ تو بہت معروف ہے لیکن ان کے اصول استدلال پر بہت کم بحث دیکھنے کو ملتی ہے لہٰذا یہ مقالہ اس ضرورت کو کسی حد تک پورا کرتا ہے۔
علاوہ ازیں قرآن مجید میں خواتین کے مسائل کے بارے تحریک حقوق نسواں کے نمائند گان کیا کہتے ہیں اور ایسی آیات کی تفسیر کا ان کے ہاں کیا تاویلی طریقہ کار مقرر ہے، اس پر بھی ایک علمی و تحقیقی مضمون شائع کیا جا رہا ہے کہ جس میں اس طبقے کی تفسیر قرآن کے جدید اسالیب کا عقل ومنطق کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔
معروف مستشرق جان اسپوزیٹو کی مسلم فیملی لاء کے بارے ایک کتاب کا تنقیدی تجزیہ بھی انگریزی سیکشن میں شامل اشاعت ہے جبکہ اولاد کے معاشی اور معاشرتی حقوق کے بارے بھی ایک مضمون شامل کیا گیا ہے کہ جس میں اس بارے ہماری بعض سماجی اور خاندانی الجھنوں کے بارے رہنمائی موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مصنفین کی اس علمی کاوش کو شرف قبولیت عطا فرمائے جبکہ جملہ محققین اور اہل علم سے درخواست ہے کہ وہ مجلہ کے لیے اپنی قیمتی تحریر بھیجیں۔ جزاکم الله خیرا (ڈاکٹر حافظ محمد زبیر)
بیماری اور شفاء کا نظام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔وہ جسے چاہتا ہے بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صحت جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرما دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی اس نے بیماری کے وقت ادویات استعمال کرنے اور ظاہری اسباب کو بروئے کار لانے کی ترغیب دی ہے۔نبی کریمﷺنے متعدد اشیاء کو بطور علاج استعما ل کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپﷺ نے اپنی حیات میں جہاں روحانی اور باطنی بیماریوں کے حل تجویز فرمائے وہیں جسمانی اور ظاہری امراض کے لیے بھی اس قدر آسان اور نفع بخش ہدایات دیں کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کر لے لیکن ان سے سرمو انحراف نہیں کر سکتی۔ اس وقت دنیا میں ہربل، ایلو پیتھی اور ہومیو پیتھی سمیت متعدد علاج کے طریقے رائج ہیں، جن سے لوگ اپنی بیماریوں کا علاج کر رہے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’بیماریوں کی تشخیص وعلاج پر مشتمل میرا کلینک ‘‘میڈیکل آفیسر محترم ڈاکٹر شوکت علی شوکانی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے ہومیو پیتھی طریقہ علاج، مرض کی تشخیص اور اس کے علاج پر مبنی ادویات کو جمع کر دیا ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد اور شاندار کتاب ہے۔ اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
مولانا سيد عطاءالله شاه بخاری اردو زبان کے عظیم خطیب، مجلس احرار اسلام کے بانی، تحریک ختم نبوت کے قائد اور سامراج كے خلاف برسر پیكارایک سپاہی اور جرنیل تهے۔آپ ایک ہمہ گیر اور پہلو دار شخصیت کے مالک تھے۔آپ نے ہندوستان کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انگریز کو ہندوستان سے بھگانے می بنیادی کردار ادا کیا۔آپ نے اپنے پرجوش خطبات کے ذریعے پوری ہندوستان میں آزادی کی آگ لگا دی۔آپ جب تلاوت قرآن پاک كرتے تو ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال آپ كی تلاوت سنتے تو ان کے آنسؤوں كا سيلاب رواں ہوجاتا۔آپ کی نس نس ميں محبت رسول ﷺ اور انگ انگ ميں سامراج كی نفرت بھری ہوئی تهی۔آپ نے ساری زندگی مرزائيوں كے خلاف علمی اور عملی كام كيا۔آپ فرمايا کرتے تھے کہ جس دين ميں ابوبكر، عمر، عثمان اور علی كی قدر نہيں وه دين سچا نہيں ہوسكتا۔ زیر تبصرہ کتاب"پاکستان میں کیا ہوگا؟" محترم محمد کفیل بخاری صاحب کی تصنیف ہے، جوامیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے خطبات پر مشتمل ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
ایک جدید ذہن جب دین کی طرف مائل ہوتا ہے تو اسے اپنے سامنے دین کے نام پر ڈھیروں اختلافات نظر آتے ہیں۔ اس موقع پر وہ اس کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے کہ کون سا راستہ درست ہے اور کون سا غلط اور میں کس کی بات مانوں اور کسے غلط قرار دوں؟ ہر فرقہ و مسلک اپنے نقطہ نظر کی تائید میں قرآن و سنت سے ہی دلائل پیش کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص دین کی طرف مائل ہوا ہے، اسے جس فرقہ و مسلک کے لوگوں سے پہلے واسطہ پڑ جائے، وہ اسی مسلک کے دلائل کو پڑھتا ہے اور پھر اسے اپنا لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ انہی دلائل کی روشنی میں دوسروں کو دیکھتا ہے۔اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ خوش قسمتی سے تم درست جگہ آ گئے ہو، اب کسی اور جانب مت دیکھنا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔اگر تمہیں دوسرے مسلک کا مطالعہ کرنا بھی ہے تو اپنے ہی علماء کی کتابوں کے ذریعے کرو جو اس فرقے کے رد میں لکھی گئی ہیں۔اس طریقے سے وہ شخص تعصب اور تحزب کا شکار ہو جاتا ہے۔اس وقت ہندوستان میں بھی بے شمار ایسے فرقے پائے جاتے ہیں جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا" محترم نعیم اختر سندھو صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے ہندوستان میں موجود انہی فرقوں کے تعارف پر ایک انسائیکلوپیڈیا تیار کر دیا ہے اور تمام مسالک کے عقائد اور مناہج کو بیان کر دیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
آغا شورش کاشمیری پاکستان کےمشہور و معروف شاعر،صحافی، سیاستدان اوربلند پایہ خطیب تھے۔آغا شورش کاشمیری 14 اگست 1917ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام عبدالکریم تھا، لیکن آغا شورش کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ آپکی سیاسی علمی ادبی تربیت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ گھر میں ’’زمیندار‘‘ اخبار آتا اور مسجد شہید گنج کی تحریک نصف نہار پر تھی عبدالکریم اسکول سے فارغ ہوئے تو تحریک شہید گنج کا رخ کیا اور مولانا ظفر علی خان سے قربت میسر آ گئی۔ عبدالکریم پہلے ہی جوش و جذبہ کا سیل رواں تھے، بغاوت و آزادی کا ہدی خواں تھے، شمشیر برہاں تھے، آپ تخلص الفت کرتے اور زمانے میں شورش برپا کر رکھی تھی لہٰذا حسب مزاج الفت کو شورش کا نام دینا مناسب جانا بس مولانا ظفر علی خان تھے۔ تحریک شہید گنج تھی اور شورش کا جذبہ تھا کچھ کر گزرنے کا جنوں تھا۔ مولانا ظفر علی خان کی سیاست، صحافت، خطابت اور عشق خاتم النبیؐ آغا شورش کے مزاج میں سرایت کرتا چلا گیا، خون میں حلاوت کرتا چلا گیا۔ اب شورش بھی برصغیر کا منفرد خطیب مانا جانے لگے۔ سارا ہندوستان انکے نام سے شناسا ہوا۔ آغا صاحب کا ایک سیاسی قد کاٹھ بن گیا جس دوران مسلم لیگ علیحدہ وطن کیلئے کوشاں تھی اس وقت آغا شورش کاشمیری مجلس احرار کے چنیدہ رہنمائوں میں شامل ہو چکے تھے۔ مجلس کے ایک روزنامہ (آزاد) کے ایڈیٹر بن گئے مگر قیام پاکستان کے بعد آغا شورش کاشمیری وطن عزیز کی بقا اور استحکام کیلئے آخری سانسوں تک میدان عمل میں رہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر کڑی تنقید اور اپنے نقطہ نظر کو دلائل کے ساتھ پُرزور انداز میں پیش کرتے ہوئے بڑے استقلال سے کھڑے ہو جانا آغا شورش کا مزاج بن چکا تھا۔ تحریک ختم نبوت آغا صاحب کی زندگی کا اثاثہ عظیم تھا وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک 1973ء کے آئین میں ختم نبوت کے عقیدے کو شامل کرا کے قادیانیوں کو خارج الاسلام نہ کر لیا۔ آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران عمر عزیز کے قیمتی ساڑھے بارہ سال قید و بند کی صعوبتوں کو کشادہ دلی اور وقار کے ساتھ برداشت کرکے گزارے۔ زیر تبصرہ کتاب " پس دیوار زنداں " میں آپ نے اپنی قید وبند کی اس کہانی کو بیان کیا ہے جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے آپ نے گزاری۔اللہ تعالی ان کی قبر کو منور فرمائے اور ان پر اپنی رحمت فرمائے۔آمین(راسخ)
سیرت نبوی ﷺ کامو ضوع ہر دور میں مسلم علماء ومفکرین کی فکر وتوجہ کا مرکز رہا ہے،اور ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وتوفیق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی بھی ہے۔قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے ،جو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔اللہ تعالی نے نبی کریمﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلی اور اچھے وخوبصورت نمونہ وکردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،اور لکھی جا رہی ہیں،جو ان مولفین کی طرف سے آپ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " کمالات سیرۃ رسولﷺ"محترم الاستاذ الشیخ محمد عبد الجبار صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے نبی کریمﷺ کی سیرت کا خوبصورت گلدستہ سجا دیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی بھی توفیق دے۔آمین(راسخ)
شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی (1895ء تا 1968ء) کی ذات ِمتنوع صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ عالم اسلام کےعلمی حلقے ان کے قلم کی روانی سے بخوبی آگاہ ہیں۔مولانا مرحوم بيک وقت ايک جيد عالمِ دين مجتہد ، مفسر ،محدث ، مؤرخ ، محقق ، خطيب ، معلم ،متکلم ، نقاد ، دانشور ، مبصر تھے ۔ تمام علوم اسلاميہ پر ان کو يکساں قدرت حاصل تھی ۔ تفسیر قرآن ، حديث ، اسماء الرجال ، تاريخ وسير اور فقہ پر ان کو عبور ِکامل حاصل تھا ۔ حديث اور تعليقات حديث پر ان کا مطالعہ بہت وسيع تھا حديث کے معاملہ ميں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہيں کرتے تھے۔مولانا محمد اسماعيل سلفیايک کامياب مصنف بھی تھے ۔ان کی اکثر تصانيف حديث کی تائيد وحمايت اور نصرت ومدافعت ميں ہيں آپ نے دفاع سنت کابیڑا اٹھایا اور اس کا حق ادا کیا۔ زیر تبصرہ کتاب’’مخدوم العلماء مولانا محمد اسماعیل سلفی ‘‘ محترمہ سعدیہ ارشد بنت حافظ محمد ارشد صاحب کا 1979ء ایم اے علوم اسلامیہ کےلیے پنجاب یونیورسٹی میں پیش کیےگئے مقالہ کی کتابی صورت ہے ۔اس میں مصنفہ نے مولانا سلفی کی تگ وتاز کے مختلف دائروں کی وضاحت کی ہے او ران کے علمی میدانوں سے قارئین کرام کو متعارف کرانے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔کتاب کے آخر میں مؤرخ اہل مولانا محمد اسحاق بھٹی نے حرف چند کے عنوان سے مولانا سلفی کے مزید بیس شاگردوں کے حالات قلم بند کیے ہیں ۔(م۔ا)
دین اسلام مذہب اور سیاست کے درمیان علیحدگی کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔اسلام اللہ تعالی کی جانب سے انسانوں کے تمام مادی اورروحانی معاملات میں رہنمائی کے لئے آیا ہے۔ نبی کریم ﷺنے یہی کام اپنی مبارک زندگی میں عملی طور پر کر کے دکھایا ہے۔ اسلام میں یہ عقیدہ اور تصور باہر سے آیا ہے کہ دین کی روحانی اور معنوی تعلیمات پر ایک علیحدہ طبقہ عمل کرے گا اور سیاست، نظامِ حکومت اور معاشرے کے معاملات دوسرا طبقہ سنبھالے گا۔ اسی لیے تو آپﷺاور ان کے بعد خلفائے راشدین مسلمانوں کی حکومت اور نظام کے رہنما بھی تھے اور ان کے دینی رہنماء اور امام مسجد بھی۔ تاریخِ اسلام میں جب بھی معاشرے کو سیاسی اعتبار سے مسجد اور محراب سے قیادت اور رہنمائی ملی ہے،مسلمان قوت، سر بلندی اور فتوحات حاصل کرتے رہے۔ اس کے برعکس جب بھی مسلمانوں کی سیاسی قیادت قوم پرستوں نے کی تو مسلمان ذلت اور آپسی جنگوں کا شکار ہو کر حکومت اور نظام گنوا بیٹھے۔ مذہب اور سیاست کے درمیان علیحدگی کے نظریہ کومغربی اصطلاح میں سیکولرازم بھی کہا جاتا ہے، جو کلیسا کے منحرف دین کے خلاف یورپ کی الحادی بغاوت کا نتیجہ ہے۔اس نظریے نے ایک جانب اگر یورپیوں کو کلیسا کے استبداد کے مقابلے کے لیے کھڑا کیا تو دوسری جانب یورپی استعماروں نے اسلامی دنیا میں اپنے نظریے کی اشاعت اور پھیلاؤ کے لیے مسلمانوں کو بھی اسلامی نظام کی حاکمیت سے محروم کر دیا۔اردو زبان میں تقریبا تمام اسلامی علوم پر کتب لکھی جا چکی ہیں لیکن سیاسیات پر کما حقہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"مسلمانوں کے سیاسی افکار"محترم پروفیسر رشید احمد صاحب کی تصنیف ہے، جس میں اسی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس میں مولف نے مسلم مفکرین کے سیاسی افکار کو ایک جگہ جمع فرما دیا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات دین ہے۔ دین اسلام میں انسانی زندگی کا ایسا کوئی مقام نہیں جس میں دین اسلام کی راہنمائی موجود نہ ہو۔ اسلام سے قبل عرب قبیلے مختلف اقسام کے تہوار اور میلے منعقد کرتے تھے۔ اسلام جہاں اپنے ماننے والوں کو مختلف احکامات کا پابند کرتا ہے وہاں دین اسلام نے مسلمانوں کے لیے عیدین کو بھی متعارف کروایا ہے جس میں مسلمان اللہ رب العزت کے آگے سر بسجود ہوتے ہوئے، شریعت کے قوانین کی خلاف ورزی کیے بغیر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں نہ تو عید میلاد النبیؐ کا تصور ملتا ہے اور نہ ہی بسنت منانے کا، یہ ایک ایسی بدعات ہیں جن کی دین اسلام میں کوئی اصل نہیں۔ بسنت ایک خالصتاً ہندو انہ رسم ہے اور اس کے پیچھے ایک گستاخ اور بدبخت لڑکے کی یاد گیری کا عنصر واضح طور پر کار فرما ہے۔ زیر نظر کتاب"بسنت کیا ہے؟" مفتی ابو لبابہ شاہ منصور ایک تحقیقی رسالہ ہے جس میں مستند تاریخی شہادتوں اورہندو مصنفین کی تحریرات کے عکس کے ساتھ یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ بسنت ایک واقعتاً ہی ہندوانہ رسم ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل اسلام کو اس جان لیوا رسم سے محفوظ فرمائے اور مصنف کو اجر عظیم سے نوازے۔ آمین(عمیر)
صحابہ نام ہے ان نفوس قدسیہ کا جنہوں نے محبوب ومصدوق رسول ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا اور اس خیر القرون کی تجلیات ِایمانی کو اپنے ایمان وعمل میں پوری طرح سمونے کی کوشش کی ۔ صحابی کا مطلب ہے دوست یاساتھی شرعی اصطلاح میں صحابی سے مراد رسول اکرم ﷺکا وہ ساتھی ہے جو آ پ پر ایمان لایا،آپ ﷺ کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا ۔ صحابی کالفظ رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ کے خاص ہے لہذاب یہ لفظ کوئی دوسرا شخص اپنے ساتھیوں کےلیے استعمال نہیں کرسکتا۔ انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا،ان کے ساتھ مل کر کفار سے لڑائیاں کیں ، اسلام کی سر بلندی اور اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا۔پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام تمام کے تمام عدول ہیں یعنی دیانتدار،عدل اور انصاف کرنے والے ،حق پر ڈٹ جانے والے اور خواہشات کی طرف مائل نہ ہونے والے ہیں۔صحابہ کرام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔نبی کریم ﷺ کے ان صحابہ کرام میں سے بعض صحابہ کرام ایسے بھی ہیں جن کی جرات وپامردی،عزم واستقلال اوراستقامت نے میدان جہاد میں جان اپنی ہتھیلی پر رکھ کر بہادری کی لازوال داستانیں رقم کیں،اور اپنے خون کی سرخی سے اسلام کے پودے کو تناور درخت بنایا۔ صحابہ کرام کےایمان افروز تذکرے اورسوانح حیا ت کے حوالے سے ائمہ محدثین او راہل علم نے کئی کتب تصنیف کی ہیں عربی زبان میں الاصابہ اور اسد الغابہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔اور اسی طرح اردو زبان میں کئی مو جو د کتب موحود ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب "اصحاب بدر" ہندوستان کے نامور صاحب قلم اورمورخ محترم قاضی محمد سلیمان منصور پوریکی تصنیف ہے۔جس میں معروف روایت کے مطابق جمیع اصحاب بدر کا احاطہ کیا ہے آسان فہم انداز میں جنگ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ کرام کے نام اور مختصر حالات زندگی کو بیا ن کیا ہے۔قاضی صاحب ایک معروف مصنف اور مورخ ہیں ۔ان کے قلم سے متعدد کتب شائع ہو کر درجہ قبولیت حاصل کر چکی ہیں۔اور سیرت نبوی ﷺ پر ان کی کتاب "رحمۃ للعالمین "ہر صاحب علم سے خراج تحسین وصول کر چکی ہے۔ اللہ تعالی مولف کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے اور تمام مسلمانوں کو صحابہ کرام سے محبت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔(آمین ) یہ کتاب اگرچہ پہلے بھی ویب سائٹ پر موجود تھی لیکن مکتبہ اسلامیہ،لاہور کی طبع شدہ اس ایڈیشن میں تخریج کا اہتمام کیا گیا ہے اس لیے اسے بھی پبلش کردیاگیا ہے ۔(م۔ا)