قرآن مجید میں جہاں والدین کےحقوق کاتذکرہ آیا ہے وہیں اولاد کے حقوق کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے ۔جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے ، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کےحقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ۔ اور اس بات میں کوشک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے ۔اولاد کرہ ارض پر اللہ تعالیٰ کاسب سے خوبصورت تحفہ ہے اس کی تربیت والدین کی اولین ذمہ...
والدین پر بچوں کےحقوق میں سے اہم ترین یہ ہےکہ والدین اپنے بچوں کی دینی واسلامی ،اخلاقی وجسمانی اورمعاشرتی تربیت کریں۔ جیسے والدین پر ضروری ہے کہ وہ بچےکی پیدائش کے بعد اس کےحقوق مثلاً بچے کے کان میں اذان کہنا ، اسے گھٹی دینا ،ساتویں دن اچھا نام رکھنا ،سر منڈوانا ،عقیقہ کرنا او رختنہ کرنا وغیرہ لازم ہیں ۔ اسی طرح والدین پر ضروی ہے کہ کہ وہ اپنے بچوں کوبچپن میں ہی قرآن کریم کی تعلیم دلوائیں اور اسے ارکان اسلام کی تعلیم دے کر انہیں اس کاپابند بنائیں۔اور انہیں شریعت کے تمام احکام وآداب کی تعلیم دیں یعنی کھانے پینے،سونے ،جاگنے ،اٹھنے بیٹھنے ،چلنے پھرنے اور ملنے جلنے کےاسلوب وسلیقے سکھائیں اوراس کا خصوصی اہتمام کریں جیسا کہ حضرت جابر نے کیا تھا کہ بچوں کی تربیت کے لیے تجربہ کار ایک بیوہ سے نکاح کرلیا۔ زیر نظر کتابچہ ’’ بچوں کےلیے 40 نصیحتیں‘‘مولانا محمد عظیم حاصل پوری ﷾ (مدیرماہنامہ المحمدیہ،حاصل پور )کی کاوش ہےجس میں انہوں نے بچوں کےلیے وہ 40 نصیحتیں اکٹھی کی ہیں جو مختلف موقعوں پر انبیاء ، نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام ،تابعین اور سلف صال...
اُخروی نجات ہر مسلمان کا مقصدِ زندگی ہے جو صرف اور صرف توحید خالص پرعمل پیرا ہونے سے پورا ہوسکتا ہے۔ شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کوجہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے قرآن کریم میں شرک کوبہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے ۔ قیامت کے روز عقیدۂ توحید کی موجودگی میں اعمال کی کوتاہیوں اور لغزشوں کی معافی تو ہوسکتی ہے لیکن شرک کی غلاظت وگندگی کے ہوتے ہوئے آسمان وزمین کی وسعتوں کےبرابر اعمال بھی بے کاروعبث ہوگے ۔شرک اس طرح انسانی عقل کوماؤف کردیتا ہےکہ انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے ۔نیز شرک اعمال کو ضائع وبرباد کرنے والا اور ثواب سے محروم کرنے والا ہے ۔ شرک وبدعت کے خاتمہ اور اثباتِ توحید میں عرب وعجم کےبے شمارعلماء نے گراں قدر کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ حافظ عبد الرحمٰن الشافعی (فاضل جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن) کی زیر نظر تصنیف’’ بگاڑ سے اصلاح تک ‘‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔موصو ف نے اس کتاب میں معاشرے میں بگاڑ کا باعث بننے والی بیماری(شرک وب...
تقویٰ اصل میں وہ صفت عالیہ ہے جو تعمیر سیرت و کردار میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ عبادات ہوں یا اعمال و معاملات۔ اسلام کی ہر تعلیم کا مقصود و فلسفہ، روحِ تقویٰ کے مرہون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر تقویٰ اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ خوفِ الٰہی کی بنیاد پر حضرت انسان کا اپنے دامن کا صغائر و کبائر گناہوں کی آلودگی سے پاک صاف رکھنے کا نام تقویٰ ہے۔ زیر نظر کتاب پروفیسر نجیب الرحمٰن کیلانی کی ایک علمی کاوش ہے، جس میں انہوں نے قرآن و حدیث کی متعدد نصوص سے تقویٰ کے موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ کتاب کو پانچ ابواب پر تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اوّل میں تقویٰ کا مفہوم، معیار اور مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ باب دوم میں حصولِ تقویٰ کے ذرائع نقل کئے گئے ہیں۔ باب سوم میں مختلف انبیائے کرام کے حوالے سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ وہ اپنی اپنی امت کو تقویٰ کی تائید کرتے رہے تھے۔ باب چہارم میں تقویٰ کی برکات و ثمرات کا بیان ہے اور باب پنجم میں تقویٰ کے مظاہر کا بیان ہے۔ مجموعی لحاظ سے کتاب ھذا قابلِ مطالعہ اور قابلِ ستائش ہے۔ (آ۔ہ)
اسلام میں حسن اخلاق کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں ہے۔نبی کریم نے مسلمانوں کو حسن اخلاق کو اپنانے اور رذائل اخلاق سے بچنے کی پر زور ترغیب دی ہے۔ رسول کریم نے فرمایا:” قیامت کے روز میرے سب سے نزدیک وہ ہوگا جس کا اخلاق اچھا ہے۔“ حسن اخلاق انسان میں بلندی اور رفعت کے جذبات کا مظہر ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان میں پستی کے رجحانات بھی پائے جاتے ہیں جنہیں رذائل اخلاق کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل حیوانی جذبات ہیں۔ چنانچہ جس طرح حیوانوں میں کینہ ہوتا ہے۔ انسانوں کے اندر بھی کینہ ہوتا ہے۔ حیوانوں کی طرح انسانوں میں بھی انتقامی جذبہ اور غصہ ہوتا ہے۔ اسے اشتعال دیا جائے تو وہ مشتعل ہو جاتا ہے۔ یہ چیزیں اخلاقی بلندی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور بدخلقی کے ذیل میں آتی ہیں ۔ ضروری ہے کہ ان پر کنٹرول کیا جائے۔ غصہ ، انتقام ، عداوت ، تکبر کے جذبات پر قابو پایا جائے اور تحمل و برداشت اور عاجزی و انکساری کو شعار بنایا جائے۔ اگر آدمی ایسا کرے گا تو اس کے نفس کی تہذیب ہوگی، اس کے اخلاق سنوریں گے۔ وہ اللہ کا بھی محبوب بن جائے گا اور خلق خدا بھ...
کون ہے جو اپنی زندگی کامیاب اور خوش نہیں بنانا چاہتا؟لیکن کتنے ہیں جو اس گر سے واقف ہیں؟دنیا میں انسان مختلف طبیعتوں کے مالک ہیں، اور ان کے پیشے ، کاروبار اور مصروفیات مختلف ہیں۔ہر انسان چاہتا ہے کہ کامیاب ہو، خوب ترقی کرلے، آگے بڑھے، اس کی دشواریاں دور ہوں، بھرپور عزت واحترام ملے، اس کے ساتھ بہترین سلوک اور نمایاں رویّے سے پیش آیا جائے، اس کی صحت اچھی رہے، اس کی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو، اور یہ کہ ساری چیزیں اپنے آپ ہوجائیں اور خود اسے کچھ کرنا نہ پڑے۔کیا ایسی کامیابی اور ترقی کو جس کے لیے خود انسان کو اپنے لیے کچھ کرنا نہ پڑے، خواب کے سوا اور کوئی نام دیا جاسکتا ہے؟کامیابی کا راستہ بہت مشکل اور کٹھن ہوتا ہے۔ کامیابی کے سفر میں آپ کو پریشانیاں، دقتیں اور مشکلات برداشت کرناپڑتی ہیں۔ لیکن آخر میں ہرے بھرے باغ انہیں کو ملتے ہیں جو سچی لگن سے محنت کرتے ہیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود اپنا راستہ بناتے ہیں۔ہر انسان اپنے معیار کے مطابق کامیابی کو دیکھتا اور سمجھتا ہے زیر تبصرہ کتاب" تعمیر حیات" محترم ڈاکٹر ڈیل کارینگی صاحب کی تصنیف...
تفریح فارغ وقت میں دل چسپ سرگرمی اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ اردو عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں مستعمل ہے۔ دور جدید میں تفریح انسانی زندگی کے معمولات کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔ تیز مشینی دو راور مقابلے کی فضا میں کام کرنے سے انسان تھک کر چور ہو جاتا ہے اس کا حل اس نے تفریح میں ڈھونڈا ہے۔ مگر بہت سی تفریحی سرگرمیاں انسان کو دوبارہ کام کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ اس سے دین بھی چھین لیتی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تفریح وسیاحت کا اس کے جائز وسائل و شرعی ضوابط ‘‘ اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا کے زیر اہتمام مارچ 2011ء میں منعقد کیے گئے بیسویں فقہی سیمنار میں مختلف اصحاب علم و دانش و مفتیان کرام کی کرطرف سے پیش گئے علمی، فقہی اور تحقیقی مقالات ومناقشات کامجموعہ ہے جس میں مزاح، لطیف گوئی، مزاحیہ کہانیاں اور ڈرامے، سیر و سیاحت پر زرِ کثیر خرچ کرنا، مختلف کھیل اس کے اصول، کھلاڑیوں کے لباس و پوشاک کھیلوں پر سٹہ لگانا، تاریخی اور تعلیمی مقاصد کے لیے فلمیں اور کارٹون بنانا وغیرہ جیسی ابحاث شامل ہیں۔ (م۔ا )
آج مسلمانوں کی اکثریت جہاں زندگی کے دیگر معاملات میں افراط و تفریط کا شکار ہے وہیں عبادات کے سلسلے میں بھی وہ اعتدال و توازن سے دور ہے۔ ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ عبادات ہی کامل دین ہیں، جس نے نماز ادا کرلی، روزہ رکھ لیا اور مال دارہونے کی صورت میں زکوٰة ادا کردی اور حج کیا اس نے گویا مکمل دین پر عمل کرلیا؛ حالانکہ قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادات مقاصد بھی ہیں اور ذرائع بھی، کسی ایک چیز کے مقصداور ذریعہ ہونے کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے،بعض حیثیتوں سے ایک چیز مقصود ہوسکتی ہے اور وہی چیز بعض دوسری حیثیتوں سے ذریعہ بن سکتی ہے۔بحیثیت انسان ہم سب خطا کار ہیں اور اچھے خطا کار وہ ہیں جو اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے بلکہ اقرار واستغفار کا راستہ اپناتے ہیں اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔قرب خدا وندی حاصل کرنے کے بے شمار طریقے اور ذرائع ہیں اور ایک مومن کو وہ تمام ذرائع اختیار کرنے چاہئیں تاکہ کسی ذریعہ سے اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو جائے۔ زیر تبصرہ کتاب"تقرب الی اللہ"محترم جناب فاروق احمد صاحب کی تصنیف ہے، جس کی تخریج محتر...
تقویٰ انسانی زندگی کاشرف ہےاور تقویٰ انسانی زندگی وہ صفت ہے جو تمام انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ ہے۔اور یہ وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور قرب آسان ہوجاتاہے ۔قرآن میں سیکڑوں آیات تقویٰ کی اہمیت وفادیت پر وارد ہوئی ہیں ۔تمام عبادات کا بنیادی مقصد بھی انسان کے دل میں اللہ کا خوف اور تقویٰ پیدا کرنا ہےتقویٰ کا مطلب ہے پیرہیز گاری ، نیکی اور ہدایت کی راہ۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بے تاہانہ تڑپ ہوتی ہے۔ ۔ اللہ تعالیٰ کو تقویٰ پسند ہے۔ ذات پات یا قومیت وغیرہ کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے قابل عزت و احترام وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ ۔ تقویٰ دینداری اور راہ ہدایت پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بزرگانِ دین کا اولین وصف تقویٰ رہا ہے۔ قرآن پاک متقی لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے۔افعال و اقوال کے عواقب پر غوروخوض کرنا تقویٰ کو فروغ دیتا ہے۔اور روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ...
تقویٰ کا مطلب ہے پیرہیز گاری ، نیکی اور ہدایت کی راہ۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بے تاہانہ تڑپ ہوتی ہے۔ ۔ اللہ تعالیٰ کو تقوی پسند ہے۔ ذات پات یا قومیت وغیرہ کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے قابل عزت و احترام وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ ۔ تقویٰ دینداری اور راہ ہدایت پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بزرگان دین کا اولین وصف تقویٰ رہا ہے۔ قرآن پاک متقی لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے۔افعال و اقوال کے عواقب پر غوروخوض کرنا تقویٰ کو فروغ دیتا ہے۔اور روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ روزے، خدا ترسی کی طاقت انسان کے اندر محکم کر دیتے ہیں۔ جس کے باعث انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آتا اور یہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان اللہ کے حکم کی وجہ سے حرام ناجائزاور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی کبھی ج...
دنیا دارالامتحان ہے اس میں انسانوں کو آزمایا جاتا ہے ۔آزمائش سے کسی مومن کوبھی مفر نہیں۔ اسے اس جہاں میں طرح طرح کی مصائب اور پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑتاہے۔ قسم قسم کےہموم وغموم اس پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔اور یہ تمام مصائب وآلام بیماری اور تکالیف سب کچھ منجانب اللہ ہیں اس پر ایمان ویقین رکھنا ایک مومن کے عقیدے کا حصہ ہے کیوں کہ اچھی اور بری تقدیر کا مالک ومختار صر ف اللہ کی ذات ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سےجنہیں چاہتا ہے انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ اطاعت پرمضبوط ہوکر نیکی کے کاموں میں جلدی کریں اور جوآزمائش انہیں پہنچی ہے ۔اس پر وہ صبر کریں تاکہ انہیں بغیر حساب اجروثواب دیا جائے ۔ اور یقیناً اللہ کی سنت کا بھی یہی تقاضا ہےکہ وہ اپنے نیک بندوں کوآزماتا رہے تاکہ وہ ناپاک کوپاک سےنیک کو بد سے اور سچے کوجھوٹے سے جدا کردے ۔ لیکن جہاں تک ان کے اسباب کا تعلق ہے تو وہ سراسر انسان کے اپنے کئے دھرے کا نتیجہ سمجھنا چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’جوکچھ تمہیں مصائب پہنچتے ہیں وہ تمہارے ہی کردار کا نتیجہ ہیں جبکہ تمہارے بے شمار گناہوں کو...
نبیﷺ اپنے علمی‘ عملی اور نبوی درجات کی سب سے بلندی پر فائز تھے‘ بلاشبہ آپ اللہ کے سب سے بڑے متقی‘ سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے بندے تھے لیکن خود کو سب سے زیادہ متواضع‘ خاکسار اور اللہ کا عاجز بندہ تصور کرتے تھے‘ اور یہی شان آپ ﷺ کے تمام اصحاب کرام میں بھی پائی جاتی تھی‘ دنیا میں اللہ کے محبوب بندے‘ انبیاء‘ صدیقین‘ شہداء اور صالحین تمام اپنے علم وتقوی میں جتنے بلند تھے اسی مناسبت سے اللہ سے ڈرنے والے‘ اس کی بارگاہ میں گردن عجز ونیاز جھکانے والے اور خود کو اللہ کا ادنی بندہ سمجھنے والے بھی تھے۔ زیرِ تبصرہ کتاب بھی خاص اسی موضوع پر ہے جس میں ’’التواضع‘‘ پر بڑی جامع‘ بڑی مفید اور مؤثر کتاب ہے۔ اس میں سب سے پہلے تواضع کی تعریف پھر سلف صالحین کے نزدیک تواضع کی تعریف‘ تو اس کے بعد باب بندی کی گئی ہے پہلے باب میں قرآن کریم اور حدیث سے تواضع کی فضیلت‘ دوسرے باب میں نبیﷺ اور صحابہ کا تواضع‘ اور تیسرے میں صحابہ وتابعین اور...
نبی کریم ﷺ اخلاقیات کے اعلی ترین مقام پر فائز تھے،اللہ تعالی نے آپ کو اخلاق کا بہترین نمونہ اور پیکر بنا کر بھیجا تھا۔کسی نے سیدہ عائشہ ؓ سے نبی کریم ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو آپ نے جواب دیا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟آپ ﷺ اخلاق کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز تھے۔ اس کی گواہی قرآن نے بھی دی اور صحابہ و ازواج مطہرات ؓ نے بھی۔ یہاں تک کہ آپ کے بدترین مخالفین،جنہوں نے آپ پر طرح طرح کے الزامات تو لگائے لیکن کبھی آپ کی سیرت اور کردار کی بابت ایک لفظ بھی نہ کہہ پائے۔حیرت کا مقام ہے کہ آپ کے ہم عصر مخالفین تک آپ کو اعلیٰ اخلاق و کردار کا حامل گردانتے تھے۔ لیکن چودہ سو سال بعد مغرب کے آزادی صحافت کے علمبرداروں کو آپ کے کردار پر انگشت نمائی کا گھناؤنا خیال سوجھا۔ اس کا حل یہی ہے کہ ہم اپنے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت اور کردار کا مطالعہ کریں اور اس کا زیادہ سے زیادہ پرچار کریں۔ زیر تبصرہ کتاب "تہذیب الاخلاق" محترم حافظ قاری محمد ہمایوں صاحب کی مرتب کردہ ہے جسے وزارت مذہبی امور، حکومت پاکستان کے شعبہ تحقیق ومراجع نے شائع کیا ہے۔مرتب مو...
دنیا کے اس چند روزہ دار امتحان کو اللہ تعالیٰ نے آخرت کے تیاری او ر نیکیاں کمانے کی مہلت قرار دیا ہے۔ اللہ کا یہ بے پایاں انعام واحسان ہے کہ اس نے انسان کو نیکی کی طرف راغب کرنےکے لیے چھوٹے چھوٹے اعمال کے بدلے عظیم نیکیاں او راجروثواب کا وعد ہ کیا ہے ۔انسان کی یہ فطرت بھی ہے کہ وہ اعمال نامے میں اضافہ کے لیے ان ترغیبات پر انحصار کرتاہے ۔جن میں اکثر مستند باتوں کی بجائے بزرگوں کے اقوال اور ضعیف احادیث کا سہار ا لیا جاتا ہے۔ قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کے مستند فرامین میں ایسے اعمال کاتذکرہ ملتاہے جو انسان کو جنت میں لے جانے کا حقیقی سبب بن سکتے ہیں۔زیرتبصرہ کتاب ایک عرب عالم دین نایف بن ممدوح بن عبد العزیز آل سعود کی عربی کتا ب فرص کسب الثواب کا اردو ترجمہ ہے جس میں فاضل مصنف نے بڑے احسن انداز میں کتاب اللہ اورصحیح احادیث کی روشنی میں ایسے اعمال و اسباب کو جمع کردیا ہے ،جن پر عمل کر کے انسان...
لیفٹیننٹ کرنل (ر) اشفاق حسین کا نام ادبی حلقوں میں کافی مشہور ہے ۔موصوف نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پر یٹرشپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں ۔اور تقریباً 29 سال پاک فوج سے وابستہ بھی رہے ، کالج آف آرمی ایجوکیشن،اپرٹوپا اور ملٹری کا لج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے ، انہوں نے کئی شہرہ آفاق کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں طنز ومزاح کی شگفتہ کتابیں، جنٹلمین بسم اللہ ، جنٹلمین الحمد للہ ، جنٹلمین اللہ اللہ اور جنٹلمین سبحان اللہ ، جنٹل مین فی ارض اللہ شامل ہیں ۔ جینٹل مین سیریز کرنل (ر) اشفاق حسین صاحب کی خود نوشت ہے۔ یہ کتابیں ایک فوجی کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان میں مزاح سے بھرپور، اور کچھ رلا دینے والے اقتباسات بھی۔ ہوشربا انکشافات بھی ہیں ۔کرنل اشفاق حسین کی زیر نظر کتاب ’’ جنٹل م...
لیفٹیننٹ کرنل (ر) اشفاق حسین کا نام ادبی حلقوں میں کافی مشہور ہے ۔موصوف نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پر یٹرشپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں ۔اور تقریباً 29 سال پاک فوج سے وابستہ بھی رہے ، کالج آف آرمی ایجوکیشن،اپرٹوپا اور ملٹری کا لج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے ، انہوں نے کئی شہرہ آفاق کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں طنز ومزاح کی شگفتہ کتابیں، جنٹلمین بسم اللہ ، جنٹلمین الحمد للہ ، جنٹلمین اللہ اللہ اور جنٹلمین سبحان اللہ ، جنٹل مین فی ارض اللہ شامل ہیں ۔ جینٹل مین سیریز کرنل (ر) اشفاق حسین صاحب کی خود نوشت ہے۔ یہ کتابیں ایک فوجی کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان میں مزاح سے بھرپور، اور کچھ رلا دینے والے اقتباسات بھی۔ ہوشربا انکشافات بھی ہیں ۔کرنل اشفاق حسین کی زیر نظر کتاب ’’
اسلامی تعلیمات کامقصدبنی نوع انسان کورب کریم کےقرب وحضورکااہل بناتاہے ۔اس ضمن میں خصوصیت کےساتھ اخلاقی برائیوں سےبچنے کی تلقین کی گئی ہے ،جن میں جھوٹ سرفہرست ہے۔کتاب وسنت کی روسے مومن جھوٹ کاارتکاب نہیں کرسکتا۔یہی وجہ ہے کہ جھوٹوں پرخداکی لعنت کی گئی ہےاوراسے منافق کی علامت قراردیاگیاہے ۔حقیقت یہ ہےکہ ایمان کی اصل صدق وسچائی ہےجبکہ کفرونفاق کذب وجھوٹ پراساس پذیرہے۔لیکن افسوس ہے کہ آج کل نام نہادمسلمانوں میں جھوٹ عام ہوتی ہے اوراس کی مختلف شکلیں معاشرے میں رواج پذیرنظرآتی ہے۔یہ قبیح جرم اس قدرپھیل چکاہے کہ بعض صورتوں کوتوجھوٹ سمجھاہی نہیں جاتامثلاً جھوٹامیڈیکل سرٹیفکیٹ ،جھوٹ کی وکالت کرنا،جھوٹے سابقے ولاحقے لگانا،جھوٹی خبریں اخباروں میں شائع کرناکروانا،جھوٹی ڈگریوں کی بنیادپرمعاشرے میں تعارف کرواناوغیرہ جیساکہ فی زمانہ اس کابخوبی مشاہدہ کیاجاسکتاہے ۔اس کےعلاوہ بھی بے شمارشکلوں میں جھوٹ موجودہے لیکن ہم اس پہلوسے غفلت کاشکارہیں ۔زیرنظرکتاب میں اسی مسئلہ کوموضوع بحث بنایاگیاہے اورقرآن وحدیث کی روشنی میں اس کے مختلف پہلوؤں پرمفصل کلام کیاگیاہے ،جس کےمطالعے سے ی...
گناہوں کی دو قسمیں ہیں :صغیرہ اور کبیرہ ،پھر کبیرہ گناہوں میں بعض انتہائی سنگین ہیں ،جن کی بنا پر لوگ شدید اذیت اور مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں ۔ایسے ہی گناہوں میں سے ایک بد ترین گناہ جھوٹ ہے ۔لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جھوت عام ہو چکا ہے ۔بہت سے لوگ دوسرے لوگوں کے جھوٹ پر رنجیدہ ہونے والے اپنے لیے دروغ گوئی کو عقل و دانش کی علامت سمجھتے ہیں ۔کذب بیانی سے بزعم خود دوسروں کو بے وقوف بنانے کا تذکرہ اپنے لیے باعث افتخار گردانتے ہیں ۔عالم اسلام کے عظیم اسکالر ڈاکٹر فضل الہیٰ نے زیر نظر کتاب میں جھوٹ کی ہلاکت خیزی کو واضح کیا ہے اور جھوٹ کی سنگینی ،جھوٹ چھوڑنے کا عظیم الشان صلہ ،جھوٹ کی اقسام اور جھوٹ بولنے کی اجازت کے مواقع جیسے اہم مسائل کو قرآن و حدیث اور علمائے سلف کے اقوال کی روشنی میں اجاگر کیا ہے ۔ہر مسلمان کو یہ کتاب لازماً پڑھنی چاہیے تاکہ معاشرے کو جھوٹ جیسے قبیح جرم سے پاک کیا جا سکے ۔
انسان شروع سےہی اس دنیا میں تمدنی او رمجلسی زندگی گزارتا آیا ہے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک اسے زندگی میں ہر دم مختلف مجلسوں سے واسطہ پڑتا ہے خاندان ،برادری اور معاشرے کی یہ مجالس جہاں ا س کے اقبال میں بلندی ،عزت وشہرت میں اضافے او ر نیک نامی کا باغث بنتی ہیں وہیں اس کی بدنامی ،ذلت اور بے عزتی کاباعث بنتی ہیں انسان کو ان مجلسوں میں شریک ہو کر کیسا رویہ اختیار کرناچاہیے کہ جو اسے لوگوں کی نظروں میں ایسا وقار اور عزت وتکریم والا مقام بخش دے کہ لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی اسے یاد رکھیں ۔ زیر نظر کتاب جوکہ ایک عربی کتاب کا ترجمہ ہے اس میں ایسی ہی باتوں او ر امور قبیحہ کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جو روزمرہ کی یاروں ،دوستوں ، عزیزوں، رشتہ داروں ،کاروباری شراکت داروں وغیرہ کے ساتھ مل بیٹھ کر گفتگو کرنے کی مجلسوں میں سرانجام دئیے جاتے ہیں فاضل مصنف &n...
جن لوگوں کے اعمال اچھے نہیں ہوتے ہیں یا وہ اچھائی کرنا نہیں چاہتے ہیں،وہ لوگ قیامت کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔کبھی کہتے ہیں قیامت نہیں آنی ہے،کبھی کہتے ہیں جزا وسزا نہیں ہوگی،کبھی کہتے ہیں اگر دوبارہ زندہ ہوئے تو جنت میں ہم ہی جائیں گے۔ایسے لوگ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلاء ہیں،ان کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ انصاف کا دن ضرور قائم ہوگا اور انسان کو اس کے اعمال کے مطابق جزا وسزا ضرور ملے گی۔اللہ تعالی ہمیشہ انصاف کرتے ہیں اور قیامت کے دن بھی انصاف کریں گے۔اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتے ۔یہ کبھی نہیں ہوسکتا ہے اللہ تعالی نیکوکاروں کو تو جہنم میں پھینک دیں اور نافرمانوں اور سرکشوں کو جنت دے دیں،بلکہ ہر شخص سے اس کے اعمال کے مطابق ہی معاملہ کیا جائے گا۔یہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء ہے،وہاں ہر انسان کو اس کے دنیا میں کئے گئے اعمال کے مطابق جزا وسزا ملے گی۔جبکہ ایک محدود حد تک اس دنیا میں بھی اللہ تعالی انسان کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا صلہ دے دیتے ہیں۔کارخانہ قدرت کا نظام عدل و انصاف پر مبنی ہے۔اللہ تعالی عدل وانصاف کا اختیار...
روز جزاانسان کو اس کے اعمال کے مطابق جزا وسزا ضرور ملے گی۔اللہ تعالی ہمیشہ انصاف کرتے ہیں اور قیامت کے دن بھی انصاف کریں گے۔اللہ کسی پرظلم نہیں کرتے ۔یہ کبھی نہیں ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کو تو جہنم میں پھینک دیں اور نافرمانوں اور سرکشوں کو جنت دے دیں،بلکہ ہر شخص سے اس کے اعمال کے مطابق ہی معاملہ کیا جائے گا۔یہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء ہے،وہاں ہر انسان کو اس کے دنیا میں کئے گئے اعمال کے مطابق جزا وسزا ملے گی۔جبکہ ایک محدود حد تک اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ انسان کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا صلہ دے دیتے ہیں۔کارخانہ قدرت کا نظام عدل و انصاف پر مبنی ہے۔متعدد احادیث کی روہ سے اللہ کی ذات کا اعلان بھی یہی ہے کہ تم کسی پر آسانی کرو میں تم پر کروں گا۔ تم کسی مسلمان کا عیب چھپاؤ گے تو تم بھی کبھی رسوانہ ہوگئے ، تم دوسروں پر رحم کروگے تو تم پر رحم کیا جائے گا۔اگرکسی مسلمان کی مدد کروگے تو میں تمہاری مدد کروں گا ۔ تم کسی پر خرچ کروگے تم میں تمہیں عطا کروں گا ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ جیسا کرو گے ویسا بھروگے ‘‘ جامعہ اسلامیہ سلفی...
امام ابن حزم کی شخصیت علمی حلقوں میں تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ یہ امام ابن حزم کی کردارسازی کے موضوع پر لکھی کتاب الاخلاق والسیر کا اردو ترجمہ ہے۔اس میں انہوں نے اخلاق اور معاشرتی روایات کا تجزیہ کیاہے۔ انہوں نے اس کتاب کی بنیاد کتاب و سنت کے راہنما اصولوں کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی تجربات ومشاہدات اورافکار وخیالات پر رکھی ہے ۔ اور زیادہ تر اپنے ذاتی تجرباتِ زندگی اور پند ونصائح کو ذکر کرتے ہوئے عنوانات قائم کئے ہیں۔اس کتاب کے معروف عنوانات تزکیۂ نفس، عقل مندی ،راحت وسکون،علم وعرفان،اخلاق وکردار، دوستی وخیر خواہی ، محبت ، عادات وخصال ، بری عادتیں اوران کا علاج،مدح پسندی کی خواہش،انسان کی عجیب وغریب عادتیں،اور علمی محفلیں وغیرہ ہیں۔اصل کتاب عربی میں ہے ،اورعربی سے اردو ترجمے کا کام مولانامحمد یوسف ﷾آف راجووال کے صاحبزادے ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف نےسرانجام دیا ہے۔ اس کو شائع کرنےمیں حافظ عبد اللہ حسین روپڑی آف کراچی اور عارف جاوید محمدی﷾ نےنمایاں کردار اداکیاہے۔اللہ ان سب ک...
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے، جو پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت اخلاق ہے، ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے، چنانچہ آپﷺ کی راز دار زندگی اور آپﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ عنہا فرماتی ہیں، ”آپﷺ کے اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہے“۔ آپﷺ نے اپنے ہر قول وفعل سے ثابت کیا کہ آپﷺ دنیا میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے تشریف لائے، چنانچہ ارشاد ہے: ”بعثت لاتتم مکارم الاخلاق“ یعنی ”میں (رسول اللہ ﷺ) اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیا ہوں“۔ پس جس نے جس قدر آپﷺ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاکر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا اسی قدر آپﷺ کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا، صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے، ”ان خیارکم احسن منکم اخلاقا“ یعنی ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ حضورﷺ کی ساری زندگی اخلاقِ حسنہ سے عبارت تھی، قرآن کریم نے خود گواہی دی ”انک لعلی خلق عظیم“ یعنی ”بلاشبہ آپﷺ اخلاق کے بڑے مرتب...
حسن خاتمہ يہ ہے كہ بندے كو موت سے قبل ايسے افعال سے دور رہنے كى توفيق مل جائے جو اللہ رب العزت كو ناراض اورغضبناك كرتے ہيں، اور پچھلے كيے ہوئے گناہوں اور معاصى سے توب و استغفار كى توفيق حاصل ہو جائے، اور اس كے ساتھ ساتھ اعمال خير كرنا شروع كردے، تو پھر اس حالت كے بعد اسے موت آئے تو يہ حسن خاتمہ ہو گاسیدنا.انس بن مالك بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم ﷺ نےفرمايا:’’ جب اللہ تعالى ٰاپنے بندے سے خير اور بھلائى چاہتا ہے تو اسے استعمال كر ليتا ہے‘‘تو صحابہ كرام رضی اللہ عنہم نے عرض كيا: اسے كيسے استعمال كر ليتا ہے؟تو رسول كريمﷺ نے فرمايا:’’ اسے موت سے قبل اعمالِ صالحہ كى توفيق عطا فرما ديتا ہے‘‘(مسند احمد: 11625 ، السلسلۃ احادیث الصحيحۃ: 1334 ) اور سوء خاتمہ یہ ہےکہ انسان کی وفات رب تعالیٰ سے اعراض ورو گردانی ، اس کی ناراضگی کے کاموں پر عمل اور اس کے حقوق واجبات کوضائع وبربا...
حیا ایمان کاشعبہ ہے اور ایمان سب سے زیادہ مقدم ومحبوب نعمت ہے لہذا ایمان کی نگہداشت اور حیا کےلیے ضروری ہے کہ حیا کی بارش سےاسے مسلسل سینچنے کا عمل جاری رکھا جائے۔ جب کسی انسان کےاندر حیا کا آبِ حیات کم ہوجائے تو یہ خطرےکی علامت ہے کہ اس کا ایمان کم ہوگیا ہےرسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الْحَيَاءُ وَالْإِيمَانُ قُرِنَا جَمِيعًا، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُهُمَا رُفِعَ الْآخَرُ(مستدرکحاکم)’’حیا اور ایمان باہم جڑے ہوئے ہیں جب ان میں سے ایک اٹھتا ہے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے‘‘موجودہ معاشرے میں یہ خیال پایا جاتاہے کہ نکاح کےبعد حیا کی ضرورت نہیں رہتی جو جی چاہے کرو جیسا چاہو پہنو، جیسی چاہو باتیں کرو یہ خیال سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ نکاح تو حیا اور عفت کوبرقرار رکھنے کا محفوظ ترین قلعہ ہے اور حیا توکنوار پنے اور ازدواجی زندگی دونوں حالتوں میں عمر بھر کی عادت کےطور پر اپنائے رکھنا ضروری ہے۔رسول اللہ ﷺ کےبارے میں صحابہ کرام بیان کرتے ہیں کہ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَشَدَّ حَيَا...