دینی تعلیم میں بے شمارعلوم وفنون پڑھائے جاتے ہیں جن سب سے اہم ترین قرآن وحدیث ہے ۔تخریج وتحقیق کا حدیث رسول ﷺ ہے۔طالبانِ حدیث کوحدیث بیان کرنے اور پڑھنے کی ضرورت پڑھتی ہے ۔ اگر وہ فن تخریج وتحقیق سے آشنا ہوں گے تو تب ہی کسی روایت کی صحت وضعف کے بارے جان سکیں گے۔تخریج وتحقیق سے مراد مصادر اصلیہ کی طرف حدیث کی نسبت اوررہنمائی او ران پر حکم لگانا ہے۔ یعنی کسی محدث کا حدیث کی بنیادی کتابوں کی جانب کسی حدیث کا منسوب کرنا اورعوام کی اس کی طرف رہنمائی کرنا کہ مذکورہ حدیث فلاں کتاب میں ہےفن تخریج وتخریج کا جاننا ہر طالبِ حدیث کےلیے انتہائی ضروری ہے کیونکہ سنتِ رسول کی معرفت کےلیے یہ فن بنیادی کردار ادا کرتا ہے خاص طور پر موجودہ زمانہ میں علومِ شریعت سے تعلق رکھنے والے باحثین اور محققین کےلیے اس کی معرفت بے حد ضروری ہے کیونکہ اس فن کی معرفت سے حدیثِ رسول کی معرفت حاصل ہوتی ہے فن حدیث کی بنیادی کتابوں کی معرفت ان کی ترتیب ، طریقۂ تصنیف اور ان سے استفادہ کی کیفیت کا پتہ چلتا ہے اسی طرح فنون حدیث کے دیگر علوم کی معرفت حاصل ہوتی ہے جن کی ضرورت تخریج ِ حدیث میں پڑتی ہے۔ مثلاً اسماء الرجال، جرح وتعدیل ،علل حدیث وغیرہ۔نیز اس علم کی معرفت سے بڑی آسانی سے حدیث رسول کی معرفت ہوجاتی ہے اور یہ پتہ چل جاتا ہے کہ مطلوبہ روایت کتب ِ حدیث میں سے کن کتابوں میں کہاں پائی جاتی ہے اور صحت وضعف کے لحاظ سے اس کا حکم کیا ہے۔حدیث کے اصول تخریج وتحقیق کے حوالے سے عربی زبان میں تو کئی کتب موجود ہیں لیکن اردو زبان میں اس موضوع پر کتابیں بہت کم ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’تخریج وتحقیق کےاصول وضوابط ‘‘ نوجوان محقق، مصنف کتب کثیرہ شیخ محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی﷾ (رئیس جامعہ امام احمد بن حنبل ،مدیرسلفی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ،قصور )کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب فاضل مصنف کی قیمتی کتب میں سے ایک ہے جوانہوں نے بڑی محنت سے ترتیب دے ہے۔اس تخریج وتحقیق کے قواعد آسان میں پیش کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب دینی مدارس ،کالجز اور یونیورسٹیز ک طلبہ وطالبات کے لیے بیش قیمت علمی تحفہ ہے ۔اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی تحقیقی وتصنیفی، تدریسی ودعوتی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے علم و عمل اضافہ کرے۔آمین) (م۔ا)
قرآن مجید نبی کریم ﷺپر نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے آخری کتاب ہے۔آپﷺ نے اپنی زندگی میں صحابہ کرام کے سامنے اس کی مکمل تشریح وتفسیر اپنی عملی زندگی ، اقوال وافعال اور اعمال کے ذریعے پیش فرمائی اور صحابہ کرام کو مختلف قراءات میں اسے پڑھنا بھی سکھایا۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد آئمہ فن اور قراء نے ان قراءات کو آگے منتقل کیا۔ کتبِ احادیث میں اسناد احادیث کی طرح مختلف قراءات کی اسنادبھی موجود ہیں ۔ اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں،عالمِ اسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، جبکہ مغرب ،الجزائر ،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت امام نافع بروایت ورش ، لیبیا ،تیونس اور متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع ،مصر، صومالیہ، سوڈان اور حضر موت میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج اور متداول ہے۔ مجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور میں ان چاروں متداول روایات(اور مزید روایت شعبہ) میں مجمع ملک فہد کے مطبوعہ قرآن مجید بھی موجود ہیں۔عہد تدوین علوم سے کر آج تک قراءات قرآنیہ کے موضوع پر بے شمار اہل علم اور قراء نے علوم ِقراءات کے موضوع پرسیکڑوں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔حجیت قراءات وفاع قراءات کےسلسلے میں ’’ جامعہ لاہور الاسلامیہ ، لاہور کے ترجما ن مجلہ ’’ رشد‘‘ کے تین جلدوں میں خاص نمبر گراں قد ر علمی ذخیرہ ہے اور اردو زبان میں اس نوعیت کی اولین علمی کاوش ہے ۔اللہ تعالیٰ قراءات کے موضوع پر اس ضخیم علمی ذخیرہ کےمرتبین وناشرین کی اس عمدہ کاوش کو قبول فرمائے ۔آمین۔ زیر نظرکتاب’’الیسر شرح طیۃ النشر فی القرءات العشر‘‘ قراءات عشرہ کی عظیم القدر درسی کتاب ’’ طبیۃ النشر فی القرءات العشر‘‘ از جزری کی عام فہم اور شافی شرح ہے ۔الیسر محمد تقی الاسلام دہلوی کی تالیف ہے موصوف نےاس شرح کا نام النَّضِير البَصَرُ –الضَّبِيعةُ النَّضرُ رکھا لیکن یہ الیُسر کے نام سے معروف ہے ۔چونکہ طیبۃ النشر فن کی آخری درسی کتاب ہےاس لیےشارح نے اس شرح میں انتہائی اختصار سے کام لیا ہے۔شرح کا انداز اس طرح کا رکھا ہے کہ جو ترجمہ ہے وہی شرح ہے یعنی تشریحی ترجمہ ہے ۔ جس سے مقصود ومطلب بآسانی اخذ ہوسکے۔ اسی مقصد کےلیے کلمات رمزیہ کو اسماء کے قائم مقام رکھا ہےا ور ان کو ترجمہ میں بطور ِ اسماء کے لیا ہے۔نیز اختصار کے پیش نظر تکرار سے بچنے کےلیے زیادہ تر ایسا کیا ہے کہ اختلافی کلمہ کا تلفظ پہلے کیاپھر قیود بیان کی ہیں ۔اور اندازِ شرح کو آسان سےآسان تر کرنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے ۔ تاکہ طلباء خود نفسِ اشعار سے اختلاف اور وجوہ کو سمجھ کر نکالیں۔شائقین علم تجوید کے لئے یہ ایک مفید اور شاندار کتاب ہے،جس کا تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ مؤلف مرحوم کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزانِ حسنات میں اضافہ فرمائے۔(آمین)(م۔ا)
اسلام دینِ فطر ت اور مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ اس ضابطہ حیات میں ہر دو مرد وزن کی حفاظت وتکریم کے لیے ایسے قواعد مقرر کئے گئے ہیں کہ ان پر عمل پیرا ہونے میں نہ کوئی دقت پیش آتی ہے نہ فطرت سلیم انہیں قبول کرنے میں گرانی محسوس کرتی ہے ۔اسلام باوقار زندگی گزارنے کادرس دیتا ہے۔ جس کے تحفظ کے لیے تعزیری قوانین نافذ کئے گئے ہیں تاکہ عزت نفس مجروح کرنے والوں کا محاسبہ ہوتا رہے ۔عورت کے لیے پردے کاشرعی حکم اسلامی شریعت کا طرۂ امتیاز اور قابل فخر دینی روایت ہے ۔اسلام نے عورت کو پردےکا حکم دے کر عزت وتکریم کے اعلیٰ ترین مقام پر لاکھڑا کیا ۔پردہ کاشرعی حکم معاشرہ کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور مردکی شہوانی کمزوریوں کا کافی وشافی علاج ہے ۔اس لیے دخترانِ اسلام کو پردہ کے سلسلے میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی بجائے فخریہ انداز میں اس حکم کو عام کرنا چاہیے تاکہ پوری دنیا کی خواتین اس کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔اللہ تعالیٰ کے حکم کی رو سے عورت پر پردہ فرض عین ہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں ا یک سے زیادہ جگہ پر آیا ہے اور کتبِ احادیث میں اس کی صراحت موجو د ہے ۔کئی اہل علم نے عربی واردو زبان میں پردہ کے موضوع پرمتعدد کتب تصنیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’پردہ عقل مند خواتین کاانتخاب‘‘ امریکہ میں طویل عرصہ سےمقیم ڈاکٹر گوہر مشتاق کی تصنیف ہے ۔ یہ کتاب اسلام کےسوشل سسٹم پر ا یک سائنسی تحقیق ہے ۔ اس کتاب میں حجاب کی اہمیت کےحوالے سے قرآن وحدیث ، صحابہ کرامؓ اور علماء کرام کے فتاویٰ سمیت بہت سے دلائل جمع کردئیے گئے ہیں ۔ اس میں اسلام کے احکامات ِ حجا ب اور معاشرے میں عورتوں ، مردوں کےتعلقات کی نوعیت پر بھی بحث کی گئی ہے۔اس کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں عمرانی سائنسی علوم کےمستند اور مؤقر جرائد سے بے شمارحوالہ جات پیش کیے گئے ہیں جو کتاب کی اہمیت میں اضافہ کرتےہیں یہ کتاب لوگوں کےدلوں میں پردے کے حوالے سے پائے جانے والے شبہات کو دور کرتی ہے ۔ فاضل مصنف نےاپنی مومنانہ فراست اورا سلام کی فتح مندانہ تعلیمات کویکجا کر کےیورپی محققین کی تحقیقات ہی سے یہ خوب صورت مرقع تیار کیا ہے اس کتاب کے مطالعہ سے مسلمان خواتین میں اپنے دین پر فخر کےجذبات پید اہونگے ۔(ا ن شاء اللہ ) ڈاکٹر گوہر مشتاق کی یہ کتاب ایسے مناسب وقت پر منظر عام پرآئی ہے کہ جب مسلمان خواتین کےنقاب اور حجاب کےمتعلق روشن خیال ممالک فرانس ،برطانیہ اور ہالینڈ میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔یورپ کی حجاب مخالف مہم ہی کے جواب میں یہ کتاب لکھی گئی ہے ۔(م۔ا)
اسلام کی فلک بوس عمارت عقیدہ کی اسا س پر قائم ہے ۔ اگر اس بنیاد میں ضعف یا کجی پیدا ہو جائے تو دین کی عظیم عمارت کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ عقائد کی تصحیح اخروی فوز و فلاح کے لیے اولین شرط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی طرف سے بھیجی جانے والی برگزیدہ شخصیات سب سے پہلے توحید کا علم بلند کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ اور نبی کریم ﷺ نے بھی مکہ معظمہ میں تیرا سال کا طویل عرصہ صرف اصلاح ِعقائدکی جد وجہد میں صرف کیا عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ او رآپ کے صحابہ کرا م نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا وہاں علماء اسلام نےبھی دن رات اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا ۔ عقائد کے باب میں اب تک بہت سی کتب ہر زبان میں شائع ہو چکی ہیں اردو زبان میں بھی اس موضوع پر قابل قدر تصانیف اور تراجم سامنے آچکے ہیں ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ زنظر رسالہ’’ اصلاح عقیدہ کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ پروفیسر عبد الرحمٰن طاہر صاحب کے شاگرد عزیز محترم جناب عزیز الرحمٰن کا مرتب شدہ ہے فاضل مرتب نے اس رسالہ میں اصلاح عقائد، دعا اور توبہ سے متعلقہ مسائل کو سوالاً جواباً عام فہم انداز میں مرتب کیا ہے اللہ تعالیٰ اس رسالہ کو عامۃ الناس کےلیے مفید بنائے اور مرتب مرحوم کےلیے اسے صدقہ جاریہ بنائے اور انہیں جنت میں اعلیٰ دررجات عنائت فرمائے۔ آمین(م۔ا)
خطبہ حجۃ الوداع کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔خطبہ حجۃ الوداع بلا شبہ انسانی حقوق کا اولین اور مثالی منشور اعظم ہے۔حجۃ الوداع میں نبی کریم ﷺ کی تقریر اور نصیحتیں بے شک بہت اہم اور بنیادی ہیں آپ نےاس میں مذہبِ اسلام کےاصول ، بھلائی کی باتیں اور اچھے اخلاق کو بہت کھلے اور نصیحت بھر ے الفاظ میں بیان فرمایا کیونکہ آپ کو جامع بات انوکھی حکمتیں مکمل خیرخواہی، حسنِ بیان اچھے الفاظ اور فصیح کلام سے نوازا گیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کے خطبا ت میں یہ آخری خطبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اس خطبہ کی تشریح وتوضیح پر مستقل کتب موجود ہیں ۔نبی کریمﷺ نے اس خطبہ حجۃ الوواع کے موقع پر صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: یہ میری تم سے آخری اجتماعی ملاقات ہے،شاید اس مقام پر اس کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکو۔تو نبی کریم ﷺ اس کے بعد ذوالحجہ کا مہینہ آنے سے قبل ربیع الاول میں ہی اپنے حقیقی سے جاملے ۔ محترم جناب شیخ عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر نےزیر نظر کتاب ’’ حجۃ الوداع کےخطبے اور نصیحتیں‘‘ میں آپ ﷺ کی مبارک تقریروں اور قیمتی خطبوں کے بعص حصوں کو مختصر شرح کے ساتھ جمع کیا ہے ۔ فاضل مصنف نے ایام حج کا خیال کرتے ہوئے اس کتاب کو تیرہ دروس میں تقسیم کیا ہے ۔اصل کتاب عربی زبان میں ’’خطب ومواعظ من حجة الوداع‘‘ کے نام سے ہے۔جناب محمد وسیم خان بن محمد نسیم خان نے اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومترجم کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
مولانا عبد اللہ دانش ﷾ (خطیب مسجد البدر، نیویارک )جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد کےاولین فضلا میں سے ہیں ۔ ایک طویل عرصہ سے نیویارک امریکہ میں مقیم ہیں وہاں دعوتی ، تبلیغی، تصنیفی وتحقیقی میدان میں سرگرم عمل ہیں اور اشاعت علم کےفریضہ کو بخوبی انجام دے رہے ہیں 50 سے زائد چھوٹی بڑی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ وہ عرصۂ دراز سے دیار غیر میں بیٹھ کر لوگوں کو سچے دین سے آگہی دے رے ہیں اور بے شمار لوگ ان کی دعوت سے متاثر ہوکر اسلام کی حقانیت کو تسلیم کر کےدائرۂ اسلام میں داخل ہوچکے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کو صحت وسلامتی اور ایمان والی لمبی زندگی عطا فرمائے ۔ اور ان کی تبلیغی دعوتی، تحقیقی وتصنیفی، خطابتی وصحافتی خدمات کو قبول فرمائے۔ (آمین) زیر نظر کتاب’’بات سے بات‘‘ مولانا موصو ف کی ہی تصنیف لطیف ہے ۔انہوں نےعوام الناس اور خصوصاً دینی مدارس کےطلبا کی فکری رہنمائی کےلیے یہ کتاب مرتب کی ہے۔ کتاب اپنے عنوان ’’ بات سے بات‘‘ کی عملی تصویر نظر آتی ہے کہ صرف ایک مروجہ لفظ ’’ ابو الاعلی‘‘ کی تشریح وتوضیح اور اس سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمی کےازالے کے ضمن میں احادیث مبارکہ ، تاریخی حقائق او راہل لغت کےحوالوں پر مشتمل ایک دستاویز مرتب کر ڈالی ہے جو یقیناً مولانا عبد اللہ دانش ﷾ کی وسعت مطالعہ اور علمی رسوخ کامنہ بولتا ثبوت ہے۔(م۔ا)
تعلیم اچھی سیرت سازی اور تربیت کا ایک ذریعہ ہے ۔علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔اس لحاظ سے تعلیم وتربیت شیوۂ پیغمبری ہے۔ اُستاد اورشاگرد تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر ہیں۔ معلّم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں، سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے بارے میں فرمایا: ﴿يُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَيُزَكّيهِمۚ…. ﴾ (سورة البقرة: ١٢٩)اور نبی ﷺ ان(لوگوں) کو کتاب وحکمت (سنت) کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ وتربیت کرتے ہیں‘‘۔اس بنا پر یہ نہایت اہم اور مقدس فریضہ ہے ،اسی اہمیت او ر تقدس کے پیش نظر اُستاد اور شاگرد دونوں کی اپنی اپنی جگہ جدا گانہ ذمہ داریاں ہیں۔ اُنہیں پورا کرنا ہر دو جانب کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن پورا کیا جائے تو پھر تعلیم بلاشبہ ضامنِ ترقی ہوتی اور فوزوفلاح کے برگ و بار لاتی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’اساتذہ کی ذمہ داریاں سلسلہ مجالس یوسفیہ1 ‘‘ صاحب کتاب مولانا محمد یوسف خان صاحب(استاد الحدیث جامعہ اشرفیہ ،لاہور ) کے مدرسہ بیت العلم اور البدر اسکول ،کراچی میں اساتذۂ کرام کے مختلف طبقات سےمختلف نشتوں میں دل سوز بیانات اور درس وتدریس کے درمیان پیداہونے والے مختلف اشکلات کے جوابات کی کتابی صورت ہے ۔ یہ کتاب مدارس اور اسکول کے اساتذہ کرام کے لیے ایک انمول اور بیش قیمت تحفہ ہے ۔اس کتاب میں مولانا محمد یوسف خان صاحب کے وہ بیانات جمع کیے گئے ہیں جواساتذہ کرام سے متعلق ہیں تاکہ اساتذہ کرام منصبِ تدریس کی حقیقت کو پہنچان کر صحیح معنوں میں رسول اللہﷺ کی نیابت کاحق ادا کرسکیں اور معاشرے کےایک کامیاب اور مثالی استاد بن سکیں۔(م۔ا)
بہائی فرقہ نے شیعہ اثنا عشریہ سے جنم لیا بہائی فرقہ کا بانی مرزا حسین علی 1887ء کو ایران کے علاقے مازندان کی ایک نور نامی بستی میں پیدا ہوااس نے بچپن ہی میں صوفیت اور شیعیت سے متعلقہ علوم پڑھ لیے اور مختلف علوم میں مہارت حاصل کرلی۔یہ اثنا عشری شیعہ سے تعلق رکھتا تھا مگر اثنا عشریوں کی حدود سے بھی تجاویز کرگیا تھا ۔وہ شیعہ کی روایات اور کتابوں کےبارے میں وسیع معلومات رکھتا تھا ۔ بہائیت دراصل بابیت کی وارث اور اس کی بوسیدہ ہڈیوں پر استوار ہے او ران کاآپس کا رشتہ انتہائی گہرا،بلکہ چولی دامن کاساتھ ہےاس لیے بہائیت کو سمجھنے کے لیے بابیت سے ایک حد تک واقف ہونا ناگزیر ہے۔ مرزا حسین علی اس کے برطانوی استعمار کے ساتھ گہرے روابط تھے ۔انگریزوں نے اس کواپنا مذہب اور دعویٰ پروان چڑھانے میں بھر پور مدد کی ۔ اس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کےاتحاد کو پارہ پارہ کرنا تھااس نے اپنے فرقے کی ترویج کےلیے برطانیہ، روس ، ترکی پاکستان ،افریقہ اور دیگر بلاد میں مسلمانوں کو دعوتِ حق اور کتاب وسنت سے دور کرنے کےلیے بہت کچھ کیا ۔ زیر نظر کتاب ’’البہائیۃ نقد وتحلیل‘‘ شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر کی تصنیف ہے موصوف نے یہ کتاب اس خبیث اور باطل باطنی فرقے کےخطرے سے آگاہ کرنے کےلیے 278 عربی ،انگریزی ،فارسی اور اردو کتابوں سے استفادہ کر کے مسلمانوں اور اسلامی وعربی حکومتوں کو فرقہ بہائیہ کے خطرات سے آگاہ کرنے کےلیے یہ کتاب تصنیف کی ۔یہ کتاب اپنے موضوع ، عناوین اور مواد کےاعتبار سے مستقل حیثیت رکھتی ہے ،اس میں بہائیت کی تاریخ ،بانی مذہب کے احوال ، علمی حیثیت، پشین گوئیوں، تعلیمات، اعتقادات اور اس دین کی کوکھ سے جنم لینے والے فرقوں پر ترتیب کےساتھ سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ علامہ احسان الہی ظہیر شہید کی علمی ودعوتی، تحقیقی وتصنیفی،سیاسی ودینی، فکری وادبی، خطابتی وصحافتی اوررفاعی و انسانی خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام عطافرمائے ۔ آمین(م۔ا)
وتر کےمعنیٰ طاق کےہیں۔ احادیث نبویہ کی روشنی میں امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم ﷺ سفروحضر میں ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے، نیز نبیِ اکرم ﷺ نے نماز ِوتر پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے حتی کہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص وقت پر وتر نہ پڑھ سکے تو وہ بعد میں اس کی قضا کرے۔ آپ ﷺ نے امت مسلمہ کو وتر کی ادائیگی کاحکم متعدد مرتبہ دیا ہے۔ نمازِ وتر کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح ہونے تک رہتا ہے۔رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد پڑھ کر نماز ِوتر کی ادائیگی افضل ہے، نبی اکرم ﷺکا مستقل معمول بھی یہی تھا۔ البتہ وہ حضرات جورات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد اور نمازِ وتر کا اہتمام نہیں کرسکتے ہیں تو وہ سونے سے قبل ہی وتر ادا کرلیں ۔آپ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعات کےساتھ نماز وتر کی ادائیگی ثابت ہے۔کتب احادیث وفقہ میں نماز کے ضمن میں صلاۃوتر کےاحکام ومسائل موجود ہیں ۔ نماز کے موضوع پر الگ سے لکھی گئی کتب میں بھی نماز وتر کے احکام موجود ہیں۔ زیرنظر کتاب’’نمازِوتر کامسنون طریقہ‘‘ ابومحمد خرم شہزاد کی تصنیف ہے۔موصو ف نے اس کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نماز وتر میں دعائے قنوت کے لیےرکوع کے بعد ہاتھ اٹھانا اور تین وتر ایک سلام سے پڑھنا سنت رسول ﷺ نہیں ۔بلکہ وتر پڑھنے کا صحیح سنت طریقہ یہ ہے کہ دورکعت پڑھ کر سلام پھیر دیاجائے اور ا یک رکعت علیحدہ پڑھی جائے ۔(م۔ا)
"روایت اور جدیدیت" چند تحریروں کا مجموعہ ہے جو پہلے پہل فیس بک ٹائم لائن پر شیئر کی گئی تھیں۔ بعض دوستوں کا تقاضا تھا کہ انہیں ایک کتابچے کی صورت جمع کر دیا جائے تو اس غرض سے ان تحریروں کو ضروری ایڈیٹنگ اور کچھ اضافوں کے بعد ایک کتابچے کی صورت جمع کیا گیا ہے کہ جسے فیس بک اور واٹس ایپ گروپس میں شیئر کیا جا سکتا ہے۔ اس کتابچے کا شان نزول یہ ہے کہ ہمارے ایک قریبی دوست جناب مراد علوی صاحب جو اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ سیاسیات میں زیر تعلیم ہیں اور دین کا بہت ہی درد رکھنے والے طالب علم ہیں، کچھ عرصہ سے فکر اہل حدیث اور علمائے اہل حدیث پر گاہے بگاہے کچھ پوسٹیں لگا رہے تھے۔ خیر اہل حدیث علماء سے اختلاف یا ان پر نقد تو کوئی ایسا ایشو نہیں ہے کہ جس پر کوئی جوابی بیانیہ تیار کیا جائے کہ کسی بھی مسلک کے علماء ہوں، ان سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور ان پر نقد بھی ہو سکتا ہے لیکن فکر اہل حدیث ہماری نظر میں ایک ایسی شیء ہے کہ جس پر نقد کا جواب دینا ہم ایک دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اور فکر اہل حدیث سے ہماری مراد کتاب وسنت کی طرف رجوع کی دعوت ہے جو کہ خود کتاب وسنت ہی کی دعوت ہے۔ مراد علوی صاحب کی اس تحریر میں رجوع الی القرآن کی ہر تحریک کو مارٹن لوتھر کی تحریک کا تاثر قرار دیا گیا تھا اور کچھ ایسا ہی موقف جناب حسن عسکری صاحب ؒ نے اپنی کتاب "جدیدیت" میں بھی پیش کیا ہے کہ جس کا تفصیل سے رد ہم نے اپنے کتابچے "اسلامائزیشن آف سائنس" میں کیا ہے۔ فیس بک پر ہی ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب نے بھی اس بحث میں حصہ لیا اور ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی تحریک رجوع الی القرآن کو روایت ہی کا تسلسل سمجھتے ہیں البتہ اہل حدیث کے بارے ان کا کہنا تھا کہ ان میں جدیدیت ہے۔ تو اس کے جواب میں ہمارا کہنا یہ تھا کہ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کو روایت پسند ہونے کا تمغہ صرف اس لیے دیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو نیم مقلد کہتے تھے جبکہ فقہ، کلام اور تصوف کی تینوں روایات کے بارے جو سختی اور رد ان کے بیانات میں موجود ہے، اہل حدیث کے ہاں عام طور نہیں ملتی۔ تو اہل حدیث کو بعض فکری احناف کی طرف سے صرف اور صرف مسلکی تعصب میں جدیدیت کا نمائندہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ بھی وہی نعرہ لگاتے ہیں یعنی رجوع الی القرآن جو اہل حدیث نے لگایا ہے یعنی رجوع الی الکتاب والسنۃ۔ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے تو فقہ کو دور ملوکیت کی پروردہ ، علم کلام کو قوالی اور مروجہ تصوف کو بدعت قرار دیا ہے۔ اب لوگ پڑھیں تو معلوم ہو کہ کس کا کیا موقف رہا ہے۔ تو اہل حدیث کو جدیدیت کا نمائندہ قرار دینا یہ مسلکی تعصب کا شاخسانہ ہے۔ اور مسلکی تعصب، مسلکی تعصب ہی کو جنم دیتا ہے۔ بہرحال اس کتابچے میں ہم نے بہت اچھے سے کتاب وسنت کی روایت کے ساتھ ساتھ فقہ، کلام اور تصوف کی روایتوں کے بارے فکر اہل حدیث کا موقف بیان کر دیا ہے۔ اور یہ وہی موقف ہے جو ائمہ اربعہ کا تھا۔ اور یہ وہی موقف ہے جو خیر القرون میں رائج تھا۔ اور یہ وہی موقف ہے جو صحابہ وتابعین کا تھا۔ اور یہ وہی موقف ہے جو سلف صالحین کا تھا کہ روایت دو قسم پر ہے؛ ایک کتاب وسنت کی اور یہی اصل روایت ہے اور اس کی تو غیر مشروط اطاعت کی جائے گی اور اہل حدیث اس کے پورے طور قائل ہیں۔ اور رہی فقہ، کلام اور تصوف کی روایت تو اس کے ساتھ ہمیں تمسک اختیار کرنا ہے لیکن اس کی اصلاح کی پوزیشن لیتے ہوئے نہ کہ تقلیدی جمود کی کہ جس کا نتیجہ روایت پسندی نہیں بلکہ روایت پرستی ہے۔ ( ڈاکٹر حافظ محمد زبیر )
تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے اس کےلیے امانت ودیانت او رصداقت کاہونا از بس ضروری ہے۔مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ تعصب ،حسد بغض، سے کوسوں دور ہو ۔تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہو ۔ذہین وفطین ہو اپنے حافظےپر کامل اعتماد رکھتا ہو۔حالات وواقعات کوحوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو ۔اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتاہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگار ی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور یہ اس کے امتیازات میں سے ہے ۔بے شمارمسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کےعلمی وعملی،تصنیفی،تبلیغی اورسائنسی کارناموں کوبڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ مؤرخین اسلام نے عام طور پر اپنی تالیفات میں زمانی مناسبت اور واقعاتی ترتیب کا لحاظ کیا ہے۔زمانی مناسبت پر مبنی منہجِ تالیف کے ساتھ ساتھ مکانی مناسبت بر مبنی تاریخ نگاری کا رجحان بھی کافی قدیم ہے۔ مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ میں زندگی گزارنے والے ائمہ کرام ، محدثین ،فقہاء اور علماء ودعاۃ کے حالاتِ زندگی پر مبنی کتابیں ہر دور میں لکھی گئیں۔حرمین کے علاوہ کوفہ، بصرہ، اوردمشق،اندلس سے متعلق علماء ومحدثین کی الگ الگ کتابیں بھی موجود ہیں ۔زمان ومکان کی مناسبت سے اردو زبان میں تذکرہ ،سیرت اور سوانح کی کثیرتعداد میں کتابیں لکھی گئی ہیں ۔یوں تو صدیوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے لیکن ماضی قریب او ر موجودہ دور میں تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے میدان میں جماعت اہل حدیث میں اردو مصنفین اور مقالہ نگاروں میں مولانا محمد اسحاق بھٹی ،سرفہرست ہیں مرحوم نے علماء اہلحدیث کے رفتگان اورموجودگان کی خدمات پر قابل ستائش علمی وثقافتی سرمایہ جمع کیا ہے جس کے لیے وہ پوری جماعت کی طرف سے دعا اور شکریہ کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں اپنی جوارِ رحمت جگہ دے ۔(آمین) زیر نظر کتاب ’’دامنِ کوہ کاروانِ رفتگاں(جھارکھنڈ)‘‘ جناب ابو عدنان اشفاق سجاد سلفی ﷾(فاضل جامعہ سلفیہ ، بنارس،مدرس جامعہ ابن تیمیہ،بہار) کی تالیف ہے۔’’دامنِ کوہ‘‘سے مراد’’جھارکھنڈ‘‘ ہے ۔مغل حکمرانوں کےدورِ اقتدار میں اس خطہ کو ’’دامنِ کوہِ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔جھار کھنڈ، قدرتی وسائل اور معدنی ذخائر سے مالا مال بھارت کا ایک نیا صوبہ ہے۔یہاں صرف ہندو مسلم ، سکھ، عیسائی ہی آباد نہیں ہیں بلکہ یہاں جین، پارسی،آدی واسی قبائل بھی ہیں اور یہاں مسلمانوں کی آبادی اچھی خاصی ہے۔ یہ لوگ مختلف جماعتوں میں منقسم اور کئی ایک مکاتبِ فکر سے تعلق رکھتے ۔ان میں جماعت اہل حدیث ایک نمایاں اورتاریخی حیثیت کی حامل ہے۔اس جماعت کےعلمی ودعوتی، تحقیقی وتصنیفی،سیاسی ودینی، فکری وادبی، خطابتی وصحافتی اوررفاعی و انسانی خدمات وکارنامے دوسوسالوں پرمحیط او ربے حد اہم ہیں ۔صاحب کتاب نے اس کتاب میں بڑی دقت سے کام لیا ہے اور دامنِ کوہ میں جماعت کی جو بھی خدمات ہیں ان کو جمع کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔یہ کتاب(دامنِ کوہ کاروانِ رفتگاں جلداول) دو فصلوں پر مشتمل ہے ۔ فصل اول میں جھار کھنڈ کا مختصر تعارف اورجھار کھنڈکے 26 اصحابِ علم وفضل کی خدمات وکارنامے اور فصل دو میں جھارکھنڈ میں تشریف لانے والے 29 مہمان داعیانِ حق کی خدمات واثرات کو پیش کیا گیا ہے ۔فاضل مصنف نے عربی زبان میں بھیرجال من التاريخ وأعمالهم في ولاية جاركند کےعنوان سے کتاب مرتب کی ہے ۔اللہ تعالی ٰان کی جہود کو قبول فرمائے اور ان کے زورِ قلم مزید اضافہ کرے ۔(آمین) (م۔ا)
تلاوت ِقرآن کا بھر پور اجروثواب اس امر پرموقوف ہے کہ تلاوت پورے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ کی جائے قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ جاننا اورسیکھنا علم ِتجوید کہلاتا ہے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے ۔ کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم الشان کتاب ہے کہ ہر مسلمان پراس کتاب کو صحیح پڑھنا لازمی اور ضروری ہے جس کاحکم ورتل القرآن ترتیلا سے واضح ہوتا ہے۔ اس قرآنی حکم کی تکمیل اور فن تجویدکوطالب تجوید کےلیے آسان اورعام فہم بناکر پیش کرناایک استاد کے منصب کا اہم فریضہ ہے ۔ایک اچھا استاد جہاں اداء الحروف کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ وہیں وہ اپنے طالب علم کو کتاب کےذریعے بھی مسائل تجوید ازبر کراتا ہےعلم تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری صدی کے نصف سے ہوا۔ائمۂ حدیث وفقہ کی طرح تجوید وقراءات کے ائمہ کی بھی ایک طویل فہرست ہے اور تجوید وقراءات کے موضوع پرماہرین تجوید وقراءات کی بے شمار کتب موجود ہیں جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔حتیٰ کہ اب تجویدی مصاحف نے قرآن مجید کو تجوید سے پڑھنا مزید آسان کردیا ہے۔علم تجوید میں حرف ضاد کا مخرج طویل ہونے کی وجہ سے اس کا تلفظ ایک مشکل ترین تلفظ سمجھا جاتا ہے ۔ازروئے ادا بھی یہ حرف اتنا مشکل ہے کہ عوام تو کیا بہت سے خواص بھی اس کو کماحقہ ادا کرنے سے قاصر ہیں س لیے اہل علم نے حرف ضاد کی ادائیگی کے متعلق اپنی اپنی آراء کا اظہار فرمایا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "سبیل الرشاد فی تحقیق تلفظ الضاد " شیخ القراء والمجودین محترم قاری محمد شریف کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے ضاد کے صحیح اور درست تلفظ پر اظہار خیال کیا ہےاور ان تمام غلط فہمیوں کودور کرنے کی امکانی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے اصل حقیقت کے سمجھنے میں الجھنیں پیدا ہوگئی ہیں ۔ شائقین علم تجوید کے لئے یہ ایک مفید اور شاندار کتاب ہے،جس کا تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ مؤلف مرحوم کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزانِ حسنات میں اضافہ فرمائے۔(آمین)(م۔ا)
قرآن مجید کتبِ سماویہ میں سے آخری کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں صحابہ کرام کے سامنے قرآن مجید کی مکمل تشریح وتفسیر اپنی عملی زندگی، اقوال وافعال اور اعمال کے ذریعے پیش فرمائی اور صحابہ کرام کو مختلف قراءات میں اسے پڑھنا بھی سکھایا۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد آئمہ فن اور قراء نے ان قراءات کو آگے منتقل کیا۔ کتبِ احادیث میں احادیث کی طرح مختلف قراءات کی اسناد بھی موجود ہیں۔ بے شمار اہل علم اور قراء نے علومِ قراءات کے موضو ع پرسینکڑوں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔1173 ؍اشعار پر مشتمل شاطبیہ امام شاطبی کی قراءات ِ سبعہ میں اہم ترین اساسی اور نصابی کتاب ہے ۔شاطبیہ کا اصل نام حرز الامانی ووجه التهانی ہے لیکن یہ شاطبیہ کےنام سے ہی معروف ہے اور اسے قصیدة لامیة بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے ہر شعر کا اختتام لام الف پر ہوتا ہے۔ یہ کتاب قراءاتِ سبعہ کی تدریس کے لئے ایک مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے۔بڑے بڑے مشائخ اور علماء نے اس قصیدہ کی تشریح کو اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ شاطبیہ کے شارحین کی طویل فہرست ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’تلخیص المعانی من عنایات رحمانی شرح حرز الأماني ووجه التهاني المعروف شرح شاطبیه ‘‘شیخ القراء قاری محمدشریف کی کاوش ہے ۔یہ پاک وہند میں علم قراءات کے میدان کی معروف شخصیت استاذ القراء والمجودین قاری فتح محمد پانی پتی شاطبیہ کی معروف شرح عنایات رحمانی کی تلخیص ہے ۔قاری شریف صاحب مرحوم نے نئے ترجمہ کی بجائے قاری فتح محمد پانی پتی کے بامحاورہ ترجمہ کو ہی اس حد تک تحت لفظی اورآسان کردیا ہے کہ طلباء شعر کے مفردات کے معنیٰ ومفہوم کوآسانی سے سمجھ سکیں۔ اور قراءات کی تمام وجوہ کو نفس متن سے اخذ کرسکیں ۔نیز قاری شریف مرحوم نے اصل ترجمہ میں جو نحوی ترکیب کے اشارات ہیں ان کو باقی رکھا ہے البتہ جہاں کہیں نحوی ترکیب یا لغت کے اعتبار سے کئی ترجمے ہیں ان میں عمومًا ایک ہی پر اکتفا کیا ہے۔اور اگر کہیں ترجمہ کو تحت لفظی لانے میں طلباء کے لیے کچھ الجھن محسوس ہوئی تو متن کےمفردات کو بامحاورہ ترجمہ کےتابع کرکے آگے پیچھے کردیا ہے،رمزی کلمات کو بطورِ اسم ترجمہ میں شامل کر کےان کے مرموزین کو قوسین میں اوران کلمات کےلغوی معانی کوقوسین سے باہر رکھا ہے۔قاری صاحب نے اس شرح کا تاریخی نام غزیر المعاني والفضفضة المعاني رکھا ہے ۔(م۔ا)
علم وتحقیق کےمیدان میں کتابیاتی لٹریچر کی اہمیت ، ضرورت اور افادیت اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ۔دورِحاضر میں کتابیات اور اشاریہ سازی کےفن میں جو غیر معمولی ترقی ہوئی ہے۔ علمی وتحقیقی کاموں کے لیے اس کی ناگزیر ضرورت واہمیت کا احساس سب سے پہلے مسلمانوں ہی نے کیا اور اس میدان میں بڑی گراں قدر خدمات انجام دیں ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔کتابیات کا ایک بنیادی فائدہ تو یہ ہےکہ بہت سی علمی اور تحقیقی کاوشیں جو امتداد زمانہ کے باعث اہل علم کی نظروں سےاوجھل ہوچکی ہیں وہ دوبارہ نظر میں آجاتی ہیں اور اس طرح ان سے استفادہ کی راہ آسان ہوجاتی ہے ۔ نیز بہت سے غیر معروف مصنفین کی علمی خدمات سے اہل علم ودانش کو متعارف ہونے کا موقع بھی ملتاہے اوران تک رسائی کی سبیل پیدا ہوجاتی ہے ۔جس کی وجہ سے زیر بحث موضوع پر مطلوبہ معلومات تک رسائی اس حد تک آسان ہوگئی ہے کہ کسی بھی علمی وتحقیقی موضوع پر کام کرنے والا اسکالر آسانی سے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ زیربحث موضوع پر اب تک کس قدر کام ہوچکا ہےا ور وہ کہاں دستیاب ہے۔اس سےمواد کی تلاش وجستجو کا کام بہت کچھ آسان ہوجاتا ہے۔زیر نظر کتاب ’’برصغیر پاک وہندمیں تصوّف کی اردو مطبوعات‘‘جناب نذیر رانجھا صاحب کی تالیف ہے یہ کتاب دراصل ڈاکٹر سید عبد اللہ کےجاری کردہ منصوبہ ’’کتابیاتِ اسلام‘‘ کی پانچویں جلد ہے ۔صاحب کتا ب جناب نذیر رانجھا صاحب نے اس کتاب کی تدوین وترتیب میں سرکاری وشخصی لائبریوں سے استفادہ کر کے اس میں تصوف کی 2666 مطبوعہ اردو کتب کے عنوانات جمع کیے ہیں ۔مصنف نے جن ماخذ سے استفادہ کیا ان کی جامع فہرست کتاب کےآخر میں دے دی ہے۔(م۔ا)
فوت ہونے والا شخص اپنےپیچھے جو اپنا مال ، زمین،زیور وغیرہ چھوڑ جاتاہے اسے ترکہ ،وراثت یا ورثہ کہتے ہیں ۔ کسی مرنے والے مرد یا عورت کی اشیاء اور وسائلِ آمدن وغیرہ کےبارے یہ بحث کہ کب ،کس حالت میں کس وارث کو کتنا ملتا ہے شرعی اصلاح میں اسے علم الفرائض کہتے ہیں ۔ علم الفرائض (اسلامی قانون وراثت) اسلام میں ایک نہایت اہم مقام رکھتا ہے ۔قرآن مجید نے فرائض کےجاری نہ کرنے پر سخت عذاب سے ڈرایا ہے ۔چونکہ احکام وراثت کاتعلق براہ راست روز مرہ کی عملی زندگی کے نہایت اہم پہلو سے ہے ۔ اس لیے نبی اکرمﷺ نےبھی صحابہ کواس علم کےطرف خصوصاً توجہ دلائی اور اسے دین کا نہایت ضروری جزء قرار دیا ۔صحابہ کرام میں سیدنا علی ابن ابی طالب، سیدنا عبد اللہ بن عباس،سیدنا عبد اللہ بن مسعود،سیدنا زیدبن ثابت کا علم الفراض کے ماہرین میں شمار ہوتا ہے ۔صحابہ کےبعد زمانےکی ضروریات نےدیگر علوم شرعیہ کی طرح اس علم کی تدوین پر بھی فقہاء کومتوجہ کیا۔ انہوں نے اسے فن کی اہمیت کے پش نظراس کے لیے خاص زبان اور اصلاحات وضع کیں اور اس کے ایک ایک شعبہ پر قرآن وسنت کی روشنی میں غوروفکر کر کے تفصیلی وجزئی قواعد مستخرج کیے۔اہل علم نے اس علم کے متعلق مستقل کتب تصنیف کی ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ اسلامی وراثت ‘‘ از مفتی عبد الرحیم حاکم الدین رحمانی آف کراچی کتب وراثت کی لسٹ میں ایک اہم اضافہ ہے صاحب کتاب نے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کرنے کےلیے خود اس کتاب کی پی ڈی ایف ادارے کو ارسال کی ہے اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین (م۔ا)
مستشرقین سے مراد وہ غیرمسلم دانشور حضرات ہیں جو چاہے مشرق سے تعلق رکھنے والے ہوں یا مغرب سے کہ جن کا مقصد مسلمانوں کے علوم وفنون حاصل کرکے ان پر قبضہ کرنا اور اسلام پر اعتراضات کرنا ہے اور مسلمانوں کے ہاتھوں صلیبی جنگوں میں ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینا ہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے قرآن وحدیث ،سیرت اور اسلامی تاریخ کو بطور خاص اپنا ہدف بنایا ہے وہ انہیں مشکوک بنانے کےلیے مختلف ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہیں ۔مستشرقین نے اپنے خاص اہداف اوراغراض ومقاصد کو مد نظر رکھ کر قرآن ،حدیث اورسیرت النبی ﷺ کے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایاتو مستشرقین کی غلط فہمیوں ،بدگمانیوں اور انکے شکوک وشبہات کے ردّ میں علماء اسلام نے بھی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ زتبصرہ کتاب’’تحریک استشراق لامتناہی تسلسل‘‘ محترم جناب افتخار احمد افتخار صاحب کی تصنیف ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں تحریک استشراق کی تاریخ کو بیان کرنے کی بجائے ان اثرات کا جائزہ لیا ہے جو اس تحریک کے نتیجے میں آج کی جدید اور متمدن تہذیبوں پر اثر انداز ہوئے ہیں مصنف نےکتاب کے آخرمیں کچھ ان سیاہ بخت مستشرقین کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ جن کی ساری زندگیاں اسلام اور پیغمبر اسلام پر کیچڑ اچھالتے گزر گئیں۔مستشرقین کا یہ گروہ اس دنیا میں ہمیشہ اسلام کے خلاف تعصب کی کی آگ میں جلتا رہا اور آخرت میں بھی یہ دوزخ کی آگ میں جلنے والے ہیں ۔ کتاب ہذا کے مصنف افتخاراحمدافتخاراس کتاب کے علاوہ ’’ جاہلی عرب شعراء‘‘؛’’ انسان اور کائنات‘‘ کےبھی مصنف ہیں اور سیرت النبیﷺ پر ایک ضخیم کتاب بعنوان ’’ سیرت مزمل‘‘زیر تصنیف ہے۔ یہ کتابیں فی الحال نیٹ پر موجود ہیں ابھی مطبوع نہیں ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف کے زورِ قلم میں مزید اضافہ کرے۔ (آمین)(م۔ا)
علوم القرآن سے مراد وہ تمام علوم وفنون ہیں جو قرآن فہمی میں مدد دیتے ہیں او رجن کے ذریعے قرآن کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے ۔ ان علوم میں وحی کی کیفیت ،نزولِ قرآن کی ابتدا اور تکمیل ، جمع قرآن،تاریخ تدوین قرآن، شانِ نزول ،مکی ومدنی سورتوں کی پہچان ،ناسخ ومنسوخ ، علم قراءات ،محکم ومتشابہ آیات وغیرہ ،آعجاز القرآن ، علم تفسیر ،اور اصول تفسیر سب شامل ہیں ۔علومِ القرآن کے مباحث کی ابتداء عہد نبوی اور دورِ صحابہ کرام سے ہو چکی تھی تاہم دوسرے اسلامی علوم کی طرح اس موضوع پربھی مدون کتب لکھنے کا رواج بہت بعد میں ہوا۔ قرآن کریم کو سمجھنے اور سمجھانے کے بنیادی اصول اور ضابطے یہی ہیں کہ قرآن کریم کو قرآنی اور نبوی علوم کی روشنی میں ہی سمجھا جائے۔علوم قرآن کو اکثر جامعات و مدارس میں بطور مادہ پڑھا پڑھایا جاتا ہے اوراس کے متعلق عربی اردو زبان میں بیسیوں کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’علوم القرآن :فنی فکری اور تاریخی مطالعہ ‘‘ پروفیسرڈاکٹر عبد الرؤف ظفر﷾ (سابق چیئرمین شعبہ علوم اسلامیہ سرگودہا یونیورسٹی وجامعہ اسلامیہ بہاولپور) کی تالیف ہے ۔موصوف نے علوم القرآن کے موضوع پر کتب سے بھر پور استفادہ کرکے اسے مرتب کیا ہے اور قرآن مجید کے متعلق عام معلومات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ کتاب کل سات ابواب پر مشتمل ہے ۔باب اول ’وحی ا ور متعلقات وحی‘ کے نام سے ہے جو کہ تین فصلوں پر مشتمل ہے ۔باب دوم ’تدوین علو م القرآن‘ کے نام ہےاس میں کل دو فصلیں ہیں ۔باب سوم’ قرآن۔ تعارف ومباحث‘‘ کےعنوان سے ہے جوکہ تین فصلوں پر مشتمل ہے ۔باب چہارم’مبادیات قرآن کےنام سے ہے اس میں چار فصلیں ہیں ۔باب پنجم ’مبادیات علم تفسیر‘ کے عنوان سے ہےاس میں کل چھ فصلیں ہیں ۔باب ششم’ تفاسیر ومفسرین کا تعارف‘ کےنام سے ہے۔باب ہفتم’مستشرقین اور مطالعہ قرآن‘ کے عنوان سے ہے ۔ علوم القرآن کے موضوع پر تقریبا700 صفحات پر مشتمل یہ ایک ضخیم کتا ب ہے اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ خدمت قرآن کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کی اس عظیم کاوش کو قبول فرمائے اورانہیں صحت وعافیت والی زندگی دے ۔آمین)(م۔ا)
سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت وعقیدت مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے اور کسی بھی شخص کاایمان اس وقت تک مکمل قرار نہیں پاتا جب تک رسول اللہ ﷺ کو تمام رشتوں سے بڑھ کر محبوب ومقرب نہ جانا جائے۔فرمانِ نبویﷺ ہے:’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اسے رسول اللہﷺ کے ساتھ ماں،باپ ،اولاد اور باقی سب اشخاص سے بڑھ کر محبت نہ ہو۔‘‘یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ کاشروع دن سے ہی یہ عقیدہ ہےکہ نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی سے محبت وتعلق کےبغیر ایمان کا دعویٰ باطل اور غلط ہے۔ دورِ نبوی ﷺ میں صحابہ کرام اور بعد کے ادوار میں اہل ایمان نے آپ ﷺ کی شخصیت کے ساتھ تعلق ومحبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔اور اگر کسی بدبخت نے آپﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شتم رسولﷺ کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا ۔برصغیر پاک وہند میں بہت سے شاتمینِ رسولﷺ مسلمانوں کے ہاتھوں جہنم کا ایدھن بنے ۔عصر حاضر میں بھی بہت سے شاتمین رسول شانِ رسالت مآبﷺ میں گستاخیاں کررہے ہیں اور مغرب انہیں آغوش میں لیے ہوئے ہے۔اہل مغرب کو اس قبیح حرکت سے بعض رکھنے اور شاتمین رسولﷺ کو عبرتناک سزا دینے کے لیے مؤثر قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی توہین کرنے والے کی سز ا قتل کے حوالے سے کتبِ احادیث اورتاریخ وسیرت میں بے شمار واقعات موجود ہیں ۔اور اہل علم نے تحریر وتقریر کے ذریعے بھی ناموس ِرسالت کا حق اداکیا ہے شیخ االاسلام اما م ابن تیمیہ نے اس موضوع پر ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول ﷺ ‘‘کے نام سے مستقل کتاب تصنیف فرمائی۔ اوائل اسلام سے ہی ہر دور کی باطل قوتوں نے آپ ﷺکی بڑھتی ہوئی دعوت کو روکنے کے لیے ہزار جتن کیے لیکن ہر محاذ پر دشمنان ِرسول کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ماضی قریب میں سلمان رشدی ،تسلیمہ نسرین جیسے ملعون بد باطنوں کی نبی رحمت ﷺ کی شان میں ہرزہ سرائی اسی مکروہ سلسلہ کی کڑی ہے ۔ 30 ستمبر 2005ء کوڈنمارک، ناروے وغیرہ کے بعض آرٹسٹوں نے آپ ﷺ کی ذات گرامی کے بارے میں خاکے بنا کر آپﷺ کامذاق اڑایا۔جس سے پورا عالم ِاسلام مضطرب اور دل گرفتہ ہوا ۔تونبی کریم ﷺ سے عقیدت ومحبت کے تقاضا کو سامنے رکھتے ہواہل ایما ن سراپا احتجاج بن گئے ۔ علماء ،خطباء حضرات اور قلمکاروں نے بھر انداز میں اپنی تقریروں اور تحریروں کےذریعے نبی کریمﷺ کے ساتھ عقیدت ومحبت کا اظہار کیا ۔اور بعض رسائل وجرائد کے حرمت ِرسول کے حوالے سے خاص نمبر ز اور کئی نئی کتب بھی شائع ہوکر عوام کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں یہ کتاب بھی اسے سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ناموس رسالت اور قانون توہین رسالت اور مستشرقین کے اعتراضات کے جواب میں بے شمار کتابیں اور مضامین لکھے جاچکے ہیں جن میں ناموس رسالت اور قانون توہینِ رسالت کے موضوع پر خوب کام ہوا ہے۔لیکن آزادئ اظہار رائے کے بہانے توہین رسالت کی ناپاک جسارت پر کتابی صورت میں کوئی خاص تفصیلی کام نہیں ہواکہ جس میں آزادئ اظہار رائے کی وضاحت ، اس کےحدود کا تعین، مختلف ممالک میں اس کی تعریف اور غلط استعمال پر سزائیں، آزادئ اظہاررائے کے بہانے ،گستاخی کی مختلف صورتوں او ران کےتدارک کے قانونی پہلوؤں کو سامنے رکھ کا م ہوا ہو۔ زیر نظر کتاب ’’ ناموس رسالتﷺ کا قانون اور اظہارِ رائے کی آزادی‘‘وطنِ عزیز کی معروف شخصیت کہنہ مشق صحافی رانا محمد شفیق خاں پسروی﷾(مرکزی رہنمامرکزی جمعیت اہلحدث ،رکن اسلامی نظریاتی کونسل،پاکستان) کے ایم فل کے تحقیقی مقالہ کی کتابی صورت ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں آزادئ اظہار کے بہانے گستاخی کرنے والوں کے جال اور سازشوں کے تدارک وسدباب کے لیے ایک مؤثر علمی وتحقیقی کام پیش کیا ہے۔یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔باب اول ناموس رسالت ، تعارف وجائزہ کے عنوان پر مشتمل ہے۔ باب دوم توہین رسالت وقانون توہین ماموس رسالت اور بین الاقوامی قوانین (آزادی اظہار رائے کے تناظر میں )کے متعلق ہے۔ اور باب سوم آزادئ اظہار رائے حدود وضوابط۔ باب چہارم آزادئ اظہار رائے کے نام پر گستاخی۔باب پنجم آزادئ اظہار کے نام پر توہین کا تدارک اور عملی اقدامات کے متعلق ہے۔یہ کتاب ناموس رسالت کے معانی ومفاہیم، تاریخ وشواہد ، اس کی نزاکت ،حساسیت اور ایمان کی بنیادوں پر دلائل سے بھر پور ہے۔اسی طرح اظہارِ رائے کیا ہے ؟،اس کا دائرہ کار کہاں تک ہے،یورپ وامریکہ میں اس کی ازادی کی حدود کیا ہیں ؟ان تمام سوالات او ردیگر اہم اشکلات پر علمی وتحقیقی ابحاث اس کتاب میں موجود ہیں ۔الغرض یہ کتاب اپنے موضوع میں انتہائی جامع کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ راناصاحب کی جماعتی ، دعوتی ،تحقیقی وتصنیفی جہود کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔(آمین)(م۔ا)
اسلام ایک ایسا دین ہے جو زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔روزہ شروع کرنےاور عید منانے کے مسئلے میں شریعت مطہرہ نے جو معیار مقرر کیا ہے وہ یہ ہے کہ چاند دیکھ کرعید منائی جائے او رچاند دیکھ کر ہی روزہ کی ابتداء کی جائے ۔اور اگر گرد وغبار اور ابر باراں کی وجہ سے چاند دکھائی نہ دے تو رواں مہینے کےتیس دن مکمل کر لیے جائیں بالخصوص شعبان اوررمضان المبارک کے ۔ مذکورہ قاعدہ کلیہ تمام مسلمانوں کیلئے ہے خو اہ وہ عربی ہو یا عجمی ۔دور حاضر ہو یا دور ماضی ۔ایک وقت تک مسلمان اس اصول وقاعدہ کے پابند رہےمگر پھر آہستہ آہستہ فقہائے دین و ائمہ مجتہدین اور ان کے مقلدین کی دینی خدمات کے نتیجے میں امت مسلمہ مختلف آراء میں بٹ گئی ۔اس سلسلے میں دو رائے پائی جاتی ہیں ۔ایک نقطۂ نظر کےمطابق مطالع کا اختلاف معتبر نہیں ہے اور ایک جگہ کی رؤیت پوری دنیا کے لیے ہے۔اور دوسرے نقطۂ نظر کے حاملین کے نزدیک اختلاف مطالع معتبر ہے لہٰذا ہر علاقہ کی رؤیت اس علاقہ کے لیے معتبر ہوگی ۔ قرآن وحدیث کے دلائل وبراہین کے مطابق اختلافِ مطالع معتبر ہونے کی رائے راجح ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان میں سال کےبارہ مہینوں میں زیادہ اختلاف شوال یا عید الفطرکےچاند پر ہوتا ہے۔باقی دس ماہ کے چاند ہمارے ملک میں تقریبا متفقہ ہوتے ہیں ۔اس مسئلے کے متعلق پاک وہند میں مختلف سیمینار بھی منعقد ہوئے ہیں اور مختلف اہل علم نے اس موضوع پر کتب بھی تصنیف کی ہیں یہ کتاب بھی اسی سلسلہ کی ا یک اہم کاوش ہے ۔ زیرنظر کتاب ’’ چاند پر اختلاف کیوں؟ مسئلہ رؤیت ہلال تحقیقی وتنقیدی جائزہ ‘‘وطن عزیز کی معروف شخصیت کہنہ مشق صحافی رانا محمد شفیق خاں پسروی﷾(مرکزی رہنمامرکزی جمعیت اہلحدث ،رکن اسلامی نظریاتی کونسل،پاکستان) کی کاوش ہے ۔موصوف نے کتاب کے آغاز میں خلاصۃً بات کو خوب واضح کردینے کے بعد روزنامہ پاکستان فورم میں اس موضوع پر منعقد ہونے والے ایک علمی سیمینار میں علماء کرام اور ماہرین کے بیانات کے خلاصہ کو درج کیا ہے ۔مفسرقرآن حافظ صلاح الدین یوسف﷾ کاایک عمدہ مضمون اور چند مفتیان کرام کے فتاویٰ جات بھی اس کتاب کا حصہ ہیں ۔رانا صاحب نےاس موضوع سے متعلقہ مضامین کاتجزیہ کر کے بات کو خوب سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے پشاور سے اس موضوع پر اختلاف کرنےوالے احباب کے نقطۂ نظر پر نقد بھی کیا ہے ۔دوران تحریر اس ارشاد نبوی ﷺ ’’چاند دیکھ کرروزےرکھو اور چانددیکھ ہی روزے چھوڑو۔‘‘کی روشنی میں اس موقف کاجواب بھی آگیا ہے کہ پوری دنیا میں ایک ہی رؤیت ممکن نہیں ہے اور چاند پر موقوف معاملات اکٹھے نہیں ہوسکتے ۔اللہ تعالیٰ راناصاحب کی جماعتی ، دعوتی ،تحقیقی وتصنیفی جہود کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔(آمین)(م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اوراصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر عربی و اردوزبان میں بے شمار کتب موجود ہیں۔جن میں سے مقدمہ جزریہ ایک معروف اور مصدر کی حیثیت رکھنے والی عظیم الشان منظوم کتاب ہے،جو علم تجوید وقراءات کے امام علامہ جزری کی تصنیف ہے۔اس کتاب کی اہمیت وفضیلت کے پیش نظر متعدد اہل علم نے اس کی شروح اور تراجم کیے ہیں ۔زنظر کتاب علم تجوید کے دو معروف رسالے ’’ المقدمۃ الجزریۃ‘‘ از علامہ محمد بن محمد الجز ری الشافعی ،تحفۃ الاطفال از علامہ سلیمان بن حسین بن محمد الجمروزی پر مشتمل ہے ۔ شیخ القراء قاری محمدشریف نے طلباء کی آسانی کے لیے مذکورہ دونوں رسائل کا سلیس ترجمہ کر کے انہیں یکجا شائع کیا ہے۔صفحہ 9 تا16 مقدمہ جزریہ کا صرف عربی متن ہے۔ صفحہ 17 سے صفحہ 65 تک مقدمہ جزریہ کے اشعار کا عربی متن مع سلیس اردو ترجمہ ہےاور اس کےبعد علامہ جزری کے مختصر حالات زندگی قلمبند کیے گئے ہیں ۔صفحہ 67 سے آخرتک علامہ جمروزی کےرسالہ’’ تحفۃ الاطفال‘‘ کابمع عربی متن اردو ترجمہ ہے۔طلباء تجوید مقدمہ جزریہ کے ساتھ اگر صرف اکسٹھ اشعار پر مشتمل ’’تحفۃ الاطفال‘‘ بھی یاد کرلیں گے تو علم میں ایک قیمتی اضافے کےعلاوہ اذہان وطبائع میں انشراح بھی پیدا ہوگا اور طلباء ان اشعار کو مزے مزے لے لے کر پڑھیں گے ۔(م۔ا)
قرآن مجید کتبِ سماویہ میں سے آخری کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں صحابہ کرام کے سامنے قرآن مجید کی مکمل تشریح وتفسیر اپنی عملی زندگی، اقوال وافعال اور اعمال کے ذریعے پیش فرمائی اور صحابہ کرام کو مختلف قراءات میں اسے پڑھنا بھی سکھایا۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد آئمہ فن اور قراء نے ان قراءات کو آگے منتقل کیا۔ کتبِ احادیث میں احادیث کی طرح مختلف قراءات کی اسناد بھی موجود ہیں۔ بے شمار اہل علم اور قراء نے علوم قراءات کے موضو ع پرسینکڑوں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔1173 ؍اشعار پر مشتمل شاطبیہ امام شاطبی کی قراءات ِ سبعہ میں اہم ترین اساسی اور نصابی کتاب ہے ۔شاطبیہ کا اصل نام حرز الامانی ووجه التهانی ہے لیکن یہ شاطبیہ کےنام سے ہی معروف ہے اور اسے قصیدة لامیة بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے ہر شعر کا اختتام لام الف پر ہوتا ہے۔ یہ کتاب قراءاتِ سبعہ کی تدریس کے لئے ایک مصدر کے حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے۔بڑے بڑے مشائخ اور علماء نے اس قصیدہ کی تشریح کو اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ شاطبیہ کے شارحین کی طویل فہرست ہے ۔زیر نظر کتاب’’الألوانية في متن الشاطبية‘‘ جناب خالدمحمود صاحب کی کاوش ہے۔اس میں طلباء واساتذہ قراءات ِسبع کی آسانی کےلیے رنگوں کااستعمال کیاگیا ہے ۔وہ کلماتِ قرآنیہ جو اختلاف قراءات سے متعلق ہیں انہیں سبز رنگ کے ساتھ ممتاز کردیاگیا ہے۔اور جہاں کلمہ قرآنی سے کسی سورۃ یا محل کی جانب اشارہ ہے توایسے کلمات کا رنگ تبدیل نہیں کیا گیا۔رموز واسماء اور واؤ فاصل کے لیے سرخ رنگ استعمال کیا کیا ہے۔(م۔ا)
بلاشبہ ہماری سوسائٹی میں اس وقت خاندان کا ادارہ بری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ سال بھر میں اتنی شادیاں نہیں ہوتیں کہ جتنی طلاقیں یا علیحدگیاں ہو جاتی ہیں ۔ شوہر کو بیوی سے شکایات ہیں اور بیوی کو شوہر سے۔ شوہر کا کہنا ہے کہ بیوی اس کے حقوق ادا نہیں کرتی تو بیوی کا کہنا ہے کہ شوہر اس کے حقو ق ادا نہیں کر رہا ۔ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے بارے میں نفرت اور غصے کے جذبات سے بھرے ہوئے ہیں اور انہی کیفیات کے ساتھ یا تو علیحدہ ہو جاتے ہیں یا پھر کڑھ کڑھ کر اور سڑ سڑ کر زندگی کے دن گزارتے رہتے ہیں۔ ایسے میں نہ صرف وہ خود نفسیاتی مریض بن جاتے ہے بلکہ روز روز کے لڑائی جھگڑے دیکھ کر اولاد میں بھی ایبنارمل ایٹی چیوڈ پروان چڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ تو یہ وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے کہ مذہب اور نفسیات کی روشنی میں میاں بیوی کے مسائل اور ان کے حل کو ڈسکس کیا جائے۔ اور اس بارےبڑے بڑے شہروں میں ایونٹ کمپلیکسز یا شادی ہالز میں ایک روزہ میریٹل لائف ورکشاپس کروائی جائیں کہ جن میں بکھرے ہوئے خاندانوں (broken families) یا وہ جو ٹوٹنے کے قریب پہنچ چکے ہیں، کے ایشوز کو ایڈریس کیا جائے اور مذہب اور سائیکالوجی کی روشنی میں ان کی رہنمائی کی جائے۔ بہرحال یہ کام تو کسی ادارے کے کرنے کا ہے لیکن جو میں کر سکتا تھا، وہ یہ کہ اس بارے کئی ایک فیملیز کی کاؤنسلنگ کا موقع ملا اور اس کے نتیجے میں “ ازدواجی زندگی: مسائل اور حل” کے عنوان سے ایک مختصر تحریر مرتب کر دی ہے کہ جس سے میاں بیوی کو اپنے مسائل سمجھنے اور انہیں حل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ اور کتاب جلد ختم کرنے کی بجائے لفظوں پر غور کر کر کے مطالعہ کریں کہ بعض مقامات پر بات گہری ہے، اس سے باہمی مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ یہ کتابچہ دراصل میری ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو ازدواجی زندگی کے مسائل اور حل کے حوالے سے میری دو کتابوں “صالح اور مصلح” اور “مکالمہ” میں شائع ہو چکی ہیں۔ ان تحریروں کی اہمیت کے پیش نظر انہیں اب علیحدہ کتابچے کی صورت میں پبلش کیا جا رہا ہے۔ ہر شادی شدہ کو اور جس کی شادی قریب ہے، اس کتابچے کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، بہت فائدہ ہو گا،ان شاء اللہ۔ [ڈاکٹر حافظ محمد زبیر]
عرصہ ہوا کہ فیس بک پر آسان دین کے عنوان سے ایک سلسلہ ہائے مضامین مکمل کیا تھا کہ بہت سے دوستوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان مضامین کو یکجا کر کے کسی کتابچے کی صورت شائع کر دیا جائے تو اسی غرض سے یہ کتابچہ مرتب کیا گیا ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ آسان دین کے نام سے اس کتابچے میں جو کچھ میں نے لکھا ہے یہ تصویر کا ایک رخ ہے، مکمل تصویر نہیں ہے۔ لیکن یہ تصویر کا وہ رخ ضرور ہے کہ جسے مذہبی حلقوں کی طرف سے لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا گیا لہذا مجھے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ تصویر کے اس رخ کو بھی لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ دین کی سخت گیری کا جو روایتی تصور اس وقت سوسائٹی میں عام ہو چکا ہے، اس میں اعتدال پیدا ہو۔ اللہ عزوجل ہم سب کی علمی کاوشوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے، آمین۔(م۔ا)
لغت میں کسی چیز کے بہنے اور جاری رہنے کو حیض کہتے ہیں اورشریعت کی اصطلاح میں صحت کی حالت میں خاص اوقات میں بغیر سبب کے عورت کے رحم سے نکلنے والے خون کو حیض کہتے ہیں۔ اور ولادت کی وجہ سے عورت کے رحم سے نکلنے والے خون کو نفاس کہتے ہیں۔حیض ونفاس کا موضوع انتہائی گراں قدر اور غایت درجہ کاحامل ہے کیونکہ کہ خواتینِ اسلام کی نماز ورزہ وغیرہ کےاہم مسائل اس سے وابستہ ہیں اورخواتین اپنی فطری شرم و حیا کی وجہ سے علماءسے ایسے مسائل دریافت نہیں کرپاتی ۔قرآن وسنت میں اس کے تفصیل احکام موجود ہیں ۔ محترم جناب عبد الولی عبدالقوی(مکتب دعوۃوتوعیۃالجالیات،سعودی عرب ) نےاس ضرورت کے پیش کے نظر زیر نظر رسالہ بعنوان’’ حیض ونفاس کے احکام ومسائل ‘‘ میں حیض و نفاس اور استحاضہ کی لغوی وشرعی تعریف اور کتا ب وسنت کی روشنی میں اس کے شرعی احکام مرتب کیے ہیں ۔ فاضل مصنف اس کے علاوہ نصف درجن کتب کے مصنف ہیں ۔ا للہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی حسنہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور ان کے میزانِ حسنات میں اضافہ کا ذریعہ بنائے ۔(آمین)(م-ا)
اللہ تعالی ٰ کے بابرکت نام او رصفات جن کی پہچان اصل توحید ہے ،کیونکہ ان صفات کی صحیح معرفت سے ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔عقیدۂ توحید کی معرفت اور اس پر تاحیات قائم ودائم رہنا ہی اصل دین ہے ۔اور اسی پیغامِ توحیدکو پہنچانے اور سمجھانے کی خاطر انبیاء و رسل کومبعوث کیا گیا او رکتابیں اتاری گئیں۔ اللہ تعالیٰ کےناموں او رصفات کے حوالے سے توحید کی اس مستقل قسم کوتوحید الاسماء والصفات کہاجاتاہے ۔ قرآن واحادیث میں اسماء الحسنی کوپڑھنے یاد کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے۔’’ وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا ‘‘اور اللہ تعالیٰ کے اچھے نام ہیں تو اس کوانہی ناموں سےپکارو۔اور اسی طرح ارشاد نبویﷺ ہے«إِنَّ لله تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ»یقیناً اللہ تعالیٰ کے نناوےنام ہیں یعنی ایک کم 100 جس نےان کااحصاء( یعنی پڑھنا سمجھنا،یادکرنا) کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح بخاری )۔اسماء الحسنیٰ کے معانی ،شرح تفہیم کے متعلق اہل علم نے مستقل کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر نظر رسالہ ’’اسماء اللہ الحسنیٰ اللہ تعالیٰ کے پیارے نام معانی ومفہوم‘‘ المدینہ اسلامک ریسرچ سنٹر،کراچی کی رفیق خاص محترم جناب عثمان صفدر (فاضل مدینہ یونیورسٹی )کا مرتب شدہ ہے اس مختصر رسالہ میں فاضل مرتب نے اللہ تعالیٰ کے پیارے ناموں کے معانی ومفہوم کو آسان فہم اندازمیں پیش کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ فاضل مرتب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔(آمین)(م۔ا)