قرآن مجید کتبِ سماویہ میں سے آخری کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں صحابہ کرام کے سامنے قرآن مجید کی مکمل تشریح وتفسیر اپنی عملی زندگی، اقوال وافعال اور اعمال کے ذریعے پیش فرمائی اور صحابہ کرام کو مختلف قراءات میں اسے پڑھنا بھی سکھایا۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد آئمہ فن اور قراء نے ان قراءات کو آگے منتقل کیا۔ کتبِ احادیث میں احادیث کی طرح مختلف قراءات کی اسناد بھی موجود ہیں۔ بے شمار اہل علم اور قراء نے علومِ قراءات کے موضو ع پرسینکڑوں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔1173 ؍اشعار پر مشتمل شاطبیہ امام شاطبی کی قراءات ِ سبعہ میں اہم ترین اساسی اور نصابی کتاب ہے ۔شاطبیہ کا اصل نام حرز الامانی ووجه التهانی ہے لیکن یہ شاطبیہ کےنام سے ہی معروف ہے اور اسے قصیدة لامیة بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے ہر شعر کا اختتام لام الف پر ہوتا ہے۔ یہ کتاب قراءاتِ سبعہ کی تدریس کے لئے ایک مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے۔بڑے بڑے مشائخ اور علماء نے اس قصیدہ کی تشریح کو اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ شاطبیہ کے شارحین کی طویل فہرست ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’تلخیص المعانی من عنایات رحمانی شرح حرز الأماني ووجه التهاني المعروف شرح شاطبیه ‘‘شیخ القراء قاری محمدشریف کی کاوش ہے ۔یہ پاک وہند میں علم قراءات کے میدان کی معروف شخصیت استاذ القراء والمجودین قاری فتح محمد پانی پتی شاطبیہ کی معروف شرح عنایات رحمانی کی تلخیص ہے ۔قاری شریف صاحب مرحوم نے نئے ترجمہ کی بجائے قاری فتح محمد پانی پتی کے بامحاورہ ترجمہ کو ہی اس حد تک تحت لفظی اورآسان کردیا ہے کہ طلباء شعر کے مفردات کے معنیٰ ومفہوم کوآسانی سے سمجھ سکیں۔ اور قراءات کی تمام وجوہ کو نفس متن سے اخذ کرسکیں ۔نیز قاری شریف مرحوم نے اصل ترجمہ میں جو نحوی ترکیب کے اشارات ہیں ان کو باقی رکھا ہے البتہ جہاں کہیں نحوی ترکیب یا لغت کے اعتبار سے کئی ترجمے ہیں ان میں عمومًا ایک ہی پر اکتفا کیا ہے۔اور اگر کہیں ترجمہ کو تحت لفظی لانے میں طلباء کے لیے کچھ الجھن محسوس ہوئی تو متن کےمفردات کو بامحاورہ ترجمہ کےتابع کرکے آگے پیچھے کردیا ہے،رمزی کلمات کو بطورِ اسم ترجمہ میں شامل کر کےان کے مرموزین کو قوسین میں اوران کلمات کےلغوی معانی کوقوسین سے باہر رکھا ہے۔قاری صاحب نے اس شرح کا تاریخی نام غزیر المعاني والفضفضة المعاني رکھا ہے ۔(م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
حرف اول |
9 |
مقدمۃ الکتاب |
11 |
جدودل شاطبیہ کے طریق |
26 |
جدول رموز حرفی مفرد اور ان کے مرموزین کی تشریح |
27 |
جدول رموز حرفی جمع اور رموز کلمی |
31 |
اضداد کا طریقہ استعمال |
34 |
باب استغناء اور باب اطلاق میں فرق |
35 |
باب الاستعاذۃ |
44 |
باب البسلمۃ |
47 |
ابتداء براۃ کا حکم |
49 |
بسملہ کی روایات |
49 |
سورۃ ام القرآن |
54 |
باب الادغام الکبیر |
58 |
باب ادغام الحرفین |
65 |
باب ھاء الکنایۃ |
75 |
اختلافی کلمات ایک نظر میں |
75 |
ارجنہ |
79 |
ہمزہ کی اصولی تین قسمیں |
115 |
ہمزہ کی رسم کے اصولی قواعد و ضوابط |
122 |
خلاصۃ الباب |
136 |
ضروری باتیں |
136 |
ہمزہ ساکنہ کی چھ شاخیں |
136 |
ہمزہ متحرکہ ماقبل ساکن کی بارہ شاخیں |
138 |
ہمزہ متحرک ماقبل متحرک |
142 |
ورش کے لیے بدل یائی اور لین وغیرہ |
250 |
استفہام مکروہ |
401 |