قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی جانے والی کتب ِسماویہ میں سے سب سے آخری کتاب ہے ۔جسےاللہ تعالیٰ نے امت کی آسانی کے لئے سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں،عالم اسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، جبکہ مغرب ،الجزائر ،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت امام نافع بروایت ورش ، لیبیا ،تیونس اور متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع ،مصر، صومالیہ، سوڈان اور حضر موت میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج اور متداول ہے۔محدث لائبریری ،لاہورمیں ان چاروں متداول روایات(اور مزید روایت شعبہ) میں مجمع ملک فہد کے مطبوعہ قرآن مجید بھی موجود ہیں۔عہد تدوین علوم سے کر آج تک قراءات قرآنیہ کے موضوع پر بے شمار اہل علم اور قراء نے عربی و اردو میں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر نظر کتاب’’ الدرر فی قراءات امام ابو عمروبصری ‘‘ قاری نجم الصبیح التھانوی﷾ کی تصنیف ہے ۔امام ابوعمرو بصری قراء سبعہ میں سے ایک ہیں ۔ فاضل مصنف نے کتاب کے شروع میں امام ابوعمرو بصری کے اصول قراءات کو قواعد کی صورت میں تحریر کردیا ہے جنہیں سمجھ کر امام ابوعمرو بصری کی قراءت کو پڑھاجاسکتا ہےنیز کتاب کو سمجھنے کے لیے مصنف نے ص11 پرمزید ہدایات بھی درج کردی ہیں۔(م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی جانے والی کتب ِسماویہ میں سے سب سے آخری کتاب ہے ۔جسےاللہ تعالیٰ نے امت کی آسانی کے لئے سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں،عالم اسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، جبکہ مغرب ،الجزائر ،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت امام نافع بروایت ورش ، لیبیا ،تیونس اور متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع ،مصر، صومالیہ، سوڈان اور حضر موت میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج اور متداول ہے۔محدث لائبریری ،لاہورمیں ان چاروں متداول روایات(اور مزید روایت شعبہ) میں مجمع ملک فہد کے مطبوعہ قرآن مجید بھی موجود ہیں۔عہد تدوین علوم سے کر آج تک قراءات قرآنیہ کے موضوع پر بے شمار اہل علم اور قراء نے عربی و اردو میں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔زیر نظر کتاب’’ العبیر فی قراءت امام ابن کثیر ‘‘ قاری نجم الصبیح التھانوی﷾ کی تصنیف ہے فاضل مصنف نے کتاب کے شروع میں امام ابن کثیر کے اصول قراءات کو تقریباً دس قواعد کی صورت میں تحریر کردیا ہے جنہیں سمجھ کر امام ابن کثیر کی قراءت کو پڑہا جاسکتا ہے ۔(م۔ا)
قراء ثلاثہ (ابو جعفر یزید بن القعقاع ،یعقوب بن اسحاق الحضرمی ،خلف بن ہشام ) سے مروی قراءات کو قراءات ثلاثہ کہاجاتا ہے ۔ مذکورہ قراء ثلاثہ کی قراءات ثلاثہ اور مشہور قراء سبعہ(عبد اللہ بن عامر، ابن کثیر المکی، عاصم ابی النجود الکوفی، ابو عمرو بصری، حمزہ کوفی، نافع مدنی اور کسائی کوفی) کی قراءات کے مجموعے کو قراءات عشرہ کہتے ہیں ۔قراءات سبعہ اور قراءات ثلاثہ کے متعلق الگ الگ کئی کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ احسن المقال فی القراءات الثلاث‘‘ و طن عزیز پاکستان کی نامور شخصیت شیخ القراء والمجودین قاری محمد ادریس العاصم ﷾کی تصنیف ہے۔شیخ موصوف نے اس کتاب میں قراءات ثلاث کو نہایت جامعیت اور آسان انداز میں پیش کرنےکی کوشش کی ہے ۔طلباء اس کتاب سے استفادہ کر کے ’’ الدرۃ المضیۃ‘‘ کوآسانی سے پڑھ سکتے ہیں ۔شیخ قاری ادریس عاصم ﷾ تجوید قراءات کے متعلق درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحت وعافیت والی زندگی دے اور خدمت قرآن وقراءات کے سلسلے میں ان کی تدریسی وتصنیفی خدمات کو شرفِ قبولیت سے سے نوازے ۔(آمین) (م۔ا)
فقہ اسلامی کا ایک اہم ماخذ او رسرچشمہ عرف و عادت ہے ۔عرف سے مراد وہ قول یا فعل ہے جو کسی ایک معاشرہ کےیا تمام معاشروں کے تمام لوگوں میں روا ج پاجائے ۔اور وہ اس کے مطابق چل رہے ہوں۔فقہاء کے نزدیک عرف وعادت دونوں کے ایک ہی معنیٰ ہیں ۔عرف شریعت اسلامیہ میں معتبر ہے او ر اس پر احکام کی بنیاد رکھنا درست ہے ۔کتب فقہ میں اس کی حجیت اور اقسام وغیرہ کے حوالے سے تفصیلی مباحث موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ احکام میں عروف وتعامل کی حیثیت ‘‘ علامہ سید محمد امین المعروف ابن عابدین شامی کے ’’ مجموعہ رسائل‘‘ میں سے ایک رسالہ نشر العرف في بناء الأحكام على العرف کا اردو ترجمہ ہے۔اس رسالہ میں میں علامہ ابن عابدین نے یہ ثابت کیا ہے کہ بہت سے مسائل شرعیہ کی بنیاد عرف پرہے نیز کن مسائل میں عرف کا اعتبار ہے اور کن لوگوں کاعرف معتر ہے۔یہ رسالہ تخصص فی الفقہ کے طلباء اور مفتیان کرام کےلیے بہت مفید ہے ۔جناب مولانا محمد زبد الحق برکاتی نے اسے اردو قالب میں ڈالا ہے ۔(م۔ا)
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ ، سیدنا ابوبکر صدیق کی صاحبزادی ہیں والدہ کا نام زینب تھا ان کا نام عائشہ لقب صدیقہ اور کنیت ام عبد اللہ تھی۔ حضور ﷺ نے سن 11 نبوی میں سیدہ عائشہ ؓ سے نکاح کیا اور 1 ہجری میں ان کی رخصتی ہوئی۔ سیدہ عائشہ حضور ﷺ کی سب سے کم عمر زوجہ مطہرہ تھیں۔ انہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ نو برس گذارے۔ام الموٴمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ عنہاوہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضور کی زوجہ محترمہ اور ”ام الموٴمنین“ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ عنہاسے شادی سے قبل حضور نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہے… پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی بیوی ہے، آپ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت عائشہ ہیں۔صحیح بخاری میں حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا " مردوں میں سے تو بہت تکمیل کے درجے کو پہنچے مگر عورتوں میں صرف مریم دختر عمران، آسیہ زوجہ فرعون ہی تکمیل پر پہنچی اور عائشہ کو تمام عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر ۔آپ ﷺکو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ عنہا سے بہت محبت تھی، ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن عاص نے حضور سے دریافت کیا کہ… آپ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہ ؓ عنہا کو، عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! مردوں کی نسبت سوال ہے! فرمایا کہ عائشہ کے والدابوبکر صدیق کو۔ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ عنہا کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک واسطہ سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا۔حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کو کبھی ایسی مشکل پیش نہ آئی جس کے بارے میں ہم نے حضرت عائشہ ؓ عنہا سے پوچھا اور ان سے اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ نے حضور ﷺ کےانتقال کے 48 سال بعد 66 برس کی عمر میں 17 رمضان المبارک 58 ہجری میں وفات پائی۔سید عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی زندگی خواتینِ اسلام کے لیے بہترین نمونہ ہے ۔سید عائشہ کی ایمان افروز زندگی کے متعلق کئی اہل علم نے مستقل کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیرنظر کتاب’’ملکۂ عفاف ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ کی سیرت کا ایک مختصر تحقیقی جائزہ‘‘محترم جناب عبد الولی عبدالقوی﷾ (مکتب دعوۃوتوعیۃالجالیات،سعودی عرب ) کے شبلی کالج اعظم گڑھ میں منعقدہ سینمار میں پیش کیے گئے مقالہ کی کتابی صورت ہے ۔ مقالہ نگار نے اجمال واختصار کے ساتھ اس مقالہ میں سیدہ عائشہ کی سیرت و تعارف اورمناقب کو18 نکات کی صورت میں پیش کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ مغربی تہذیب و تمدن کی دلدادہ خواتین ِ اسلام کو امہات المومنین کی سیرت طیبہ کو اسوۂ اورنمونہ بنانےکی توفیق دے ۔(آمین)(م۔ا)
اخروی نجات ہر مسلمان کا مقصدِ زندگی ہے جو صرف اور صرف توحیدِ خالص پرعمل پیرا ہونے سے پورا ہوسکتا ہے۔ جبکہ مشرکانہ عقائد واعمال انسان کو تباہی کی راہ پر ڈالتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکوں کے لیے وعید سنائی ہے ’’ اللہ تعالیٰ شرک کو ہرگز معاف نہیں کرے گا او اس کے سوا جسے چاہے معاف کردے گا۔‘‘ (النساء:48) لہذا شرک کی الائشوں سے بچنا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے ۔اس کے بغیر آخرت کی نجات ممکن ہی نہیں ۔ حضرت نوح نے ساڑے نوسوسال کلمۂ توحید کی طرف لوگوں کودعوت دی ۔ اور اللہ کے آخری رسول سید الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نےبھی عقید ۂ توحید کی دعوت کے لیے کس قدر محنت کی اور اس فریضہ کو سر انجام دیا کہ جس کے بدلے آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف ومصائب سے دوچار ہوناپڑا۔ عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ کرا م نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا وہاں علمائے اسلام نےبھی عوام الناس کوتوحید اور شرک کی حقیقت سےآشنا کرنے کےلیے دن رات اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا ۔ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر نظر کتاب’’حقیقتِ توحید‘‘محترم جناب عبد الولی عبدالقوی﷾(مکتب دعوۃوتوعیۃالجالیات،سعودی عرب ) کی کاوش ہے ۔اس کتاب میں مصنف موصوف نے آسان فہم انداز میں عوام الناس کو اسلام کے چشمہ صافی سے متعارف کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ فاضل مصنف اس کے علاوہ نصف درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں اللہ تعالیٰ ان کی تمام تح-قیقی وتصنیفی اور تبلیغی خدمات کو قبول فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
اپنی حقیقت ،اپنی صورت، ہیئت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت ، اس کی صورت اختیار کرنے اور اس کے وجود میں مدغم ہو جانے کا نام تشبہ ہے۔ شریعتِ مطہرہ مسلم وغیر مسلم کے درمیان ایک خاص قسم کا امتیاز چاہتی ہے کہ مسلم اپنی وضع قطع،رہن سہن اور چال ڈھال میں غیر مسلم پر غالب اوراس سے ممتاز ہو،اس امتیاز کے لیے ظاہری علامت داڑھی اور لباس وغیرہ مقرر کی گئی کہ لباس ظاہری اور خارجی علامت ہے۔اور خود انسانی جسم میں داڑھی اور ختنہ کو فارق قراردیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے موقع بہ موقع اپنے اصحاب کو غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ تمام ادیان میں صرف دینِ اسلام کو ہی جامع، کامل و اکمل ہونے کا شرف حاصل ہے، دنیا کے کسی خطے میں رہنے والا، کوئی بھی انسان ہو ، کسی بھی زبان کا ہو، کسی بھی نسل کا ہو، اگر وہ اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے کے بارے میں راہنمائی لینا چاہتا ہو ،تواس کے لیے اسلام میں مکمل راہنمائی کا سامان موجود ہے،اگر کوئی انسان اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی راہنمائی کے مطابق اپنی زندگی کو ترتیب دیتاہے تو ایسے شخص کو دنیا و آخرت کی کامیا بی کا مژدہ سنایا گیا ہے، اور اس کے برعکس اگر کوئی مسلمان اپنی زندگی کے معمولات کے سرانجام دینے میں اسلامی احکامات کی طرف دیکھنے کے بجائے اسلام دشمن لوگوں کی طرف دیکھتا ہےاور ان کے طور طریقوں کو اختیا ر کرتا ہے، یہ طور طریقے، شکل و صورت میں ہوں یا لباس میں ، کھانے میں ہو ں یا سونے میں ، معاملات میں ہوں یا معاشرت میں، اَخلاق میں ہوں یا کسی بھی طریقے میں ہوں تو اس امر کو اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے، ایسے شخص کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، سرکار دوعالم ﷺ نے صاف فیصلہ سنا دیا ہے کہ” جو شخص دنیا میں کسی کی مشابہت اختیار کرے گا، کل قیامت میں اس کاحشر اسی شخص کے ساتھ ہو گا“اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر ،کسی بھی کام میں غیر مسلموں کا طریقہ یا مشابہت اختیار نہ کریں، ہماری مسلمانی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے محبوب ﷺکی صورت اور سیرت سے محبت کرتے ہوئے ان کی مبارک سنتوں کو اپنی زندگی میں جگہ دے کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوں اور اس خوفناک دن کی رسوایوں سے بچ سکیں۔ زیر نظر کتاب’’غیر مسلموں کی مشابہت اوراسلامی ہدایات‘‘ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ناصر الدین بن عبد الکریم العقل کی عربی کتاب من تشبه بقوم فهومنهم کا اردو ترجمہ ہے شیخ موصوف نے اس کتاب میں کتاب وسنت کے بین دلائل سےمرصع ان اہم امور کا ذکر کیا ہے جن میں ہمیں غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تساہل یا لاعلمی کی بنا پر ان کی تہذیب وتمدن اور طرز وبوند ماندکی مقلد ہے اور اپنےآپ کو انہیں کے رنگ میں رنگ لینے ہی کو تہذیب وثقافت کی معراج سمجھتی ہے جب کہ یہ اپنے مضراثرات اور تباہ کن نتائج کےاعتبار سے ناسور سے کم نہیں ہے۔اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر محترم جناب عبد الولی عبدالقوی﷾ (مکتب دعوۃوتوعیۃالجالیات،سعودی عرب ) نے اسے اردو قالب میں ڈھالنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف ومترجم کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے عامۃ الناس کی اصلاح کاذریعہ بنائے ۔(م۔ا)
اسلام آج سے چودہ سو سال قبل مکمل ہوچکا ہے ۔اب اس میں کسی بھی ایسی بات کی گنجائش نہیں جس کا ثبوت قرآن وحدیث میں موجود نہ ہو فرمانِ نبویﷺ ہےکہ ’’لوگو میں تم میں دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہاہوں جب تک تم ان پر مضبوطی سے عمل کرتے رہو گے ہر گز گمراہ نہیں ہوگے اللہ کی کتاب اور میری سنت۔تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان ان دونوں چیزوں پر براہ راست عمل کرتےرہے ترقی کرتے رہے اور جب مسلمانوں نے قرآن وحدیث کو چھوڑ کر دین میں نئی نئی باتیں نکال لی ہیں او ر انہیں دین کا درجہ دے دیا تو زوال کا شکار ہوگے ۔اذان اسلام کا شعار ہے نماز پنجگانہ کےلیے اذان کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے رائج ہے ۔حضرت بلال اسلام کے پہلے مؤذن تھے۔ بلالی اذان کے الفاظ بھی قرآن وحدیث سے ثابت ہیں ۔ لیکن ایک نام نہاد جماعت نے اذان سے پہلے او ربعض مساجد میں اذان کےبعد ایک ایسا درود جاری کیا ہےجس کا ثبوت قرآن وحدیث ، صحابہ ،تابعین ، تبع تابعین ،محدثین سے نہیں ملتا۔ زیر کتابچہ’’اذان واقامت کے احکام ومسائل کتاب وسنت کی روشن میں ‘‘محترم جناب عبد الولی عبدالقوی﷾(مکتب دعوۃوتوعیۃالجالیات،سعودی عرب ) کامرتب شدہ ہے ۔فاضل مرتب نےاس کتابچہ میں مختصراً آسان اسلوب میں اذان واقامت کا حکم اس کا مفہوم اور فضائل وآداب کے ساتھ ساتھ مؤذن کی شرائط اور ا س کےلیے شرعاً مطلوب صفات کاذکر کیا ہے ۔تاکہ ایک مسلمان اذان واقامت کے فقہی احکام ومسائل سے روشناس ہو سکے اور اس کے اہم شعار کو علم وبصیرت کے ساتھ قائم کرسکے ۔ مرتب موصوف اس کے علاوہ نصف درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں اللہ تعالیٰ فاضل مرتب کی تمام تحقیقی وتصنیفی اور تبلیغی خدمات کو قبول فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
’علمِ وراثت‘، علمِ فرائض‘ یہ ایک ہی علم کے دو نام ہیں، جس میں انسان کی وفات کے بعد اس کے مال کی تقسیم کے اصول وضوابط کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے، وراثت کے مسائل بھی نماز روزہ، نکاح وطلاق جیسے شرعی احکام ہی ہیں، لیکن اہمیت کے پیشِ نظر علما و فقہا نے جن احکام ومسائل میں الگ الگ تصنیفات فرمائی ہیں، ’علمِ وراثت‘ بھی انہیں میں سے ایک ہے، اردو زبان میں بھی اس پر کئی ایک تصنیفات موجود ہیں، لیکن جس طرح نماز وغیرہ کے مسائل پر بہ کثرت تصنیفات پائی جاتی ہیں، وراثت کے متعلق وہ اہتمام نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہمارے ہاں برصغیر میں وراثت کے شرعی طریقہ کار کو جاننے میں دلچسپی نسبتا کم ہوتی ہے ، اسی طرح اس فن کو قدرے مشکل بھی سمجھا جاتا ہے، بلکہ سننے میں آیا ہے کہ بعض کبار اور معروف اہلِ علم بھی اس فن میں رائے دینے سے کتراتے ہیں، لیکن شیخ کفایت اللہ ان خوش نصیب علما میں سے ہیں، جنہیں یہ علم انتہائی آسان محسوس ہوتا ہے، بلکہ انہیں اس کے مسائل پر اتنی گرفت ہے کہ وہ اس فن کو دیگر لوگوں کے لیے بھی انتہائی آسان بنا کر پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، جس کی بہترین دلیل ان کی زیر نظر تصنیف ’ تفہیم الفرائض‘ ہے، شیخ سنابلی کا دعوی ہے کہ اس فن کو مشکل سمجھنے کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں تدریس و تصنیف کا قدیم طریقہ اپنایا جاتا ہے، اسی طرح تفہیم کی بجائے رٹے پر زور دینے کی وجہ سے یہ علم مزید عقل وخرد پر بھاری محسوس ہوتا ہے، شیخ سنابلی نے ’ تفہیمِ فرائض‘ کو ممکن و سہل بنانے کے لیے ایک تو جدید اصول وضوابط کا استعمال کیا ہے، دوسرامسائلِ وراثت کی مروجہ تقسیم میں تقدیم و تاخیر کی ہے، اسی طرح اہم اور غیر اہم کا تعین کرکے بھی اس فن کی مشکلات و عوائص کی تیسیر کرنی کی سعی مشکور فرمائی ہے۔ اس فن کی تدریس کرنے والے اساتذہ کرام کے لیے کچھ تجاویز بھی ارشاد فرمائی ہیں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو مصنف، ناشر سب کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، اور اس علم کے طلبہ واساتذہ کے لیے نفع مند بنائے۔ شیخ سنابلی نوجوان عالم دین ہیں، اپنی کئی ایک تصنیفات کی وجہ سے علمی حلقوں سے قابل مصنف و محقق کی طرح تعریف و ستائش وصول کرچکے ہیں، البتہ محدث لائبریری اور فورم کے ساتھ ان کا رشتہ و تعلق ان سب چیزوں سے پہلے کا ہے، چہار سو شہرت کے باوجود وہ اپنے اس پہلے تعلق کی لاج آج بھی رکھے ہوئے ہیں، اور اپنی کئی ایک علمی کاوشیں محدث فورم اور محدث لائبریری کے لیے بھیجتے رہتے ہیں، زیر نظر کتاب کی محدث لائبریری پر پیشکش بھی اسی ایمانی محبت ومودت کا ایک نمونہ ہے، اللہ تعالی اس اخوت و رشتے کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ (ح۔ خ)
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اب دعوت و تبلیغ کا ایک مستقل پلیٹ فارم بن چکا ہے، اور اس میدان کے بھی کچھ شہسوار ہیں، جن کی دعوت و تبلیغ سرحدی حدود قیود سے ماورا ہو کر روشنی کی طرح اطراف و اکنافِ عالم میں ہم زبانوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہے، شیخ مقبول احمد سلفی بھی انہیں نوجوان علمائے کرام میں سے ایک ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے دین کی ترویج اور نشر واشاعت کے لیے جدید وسائل و ذرائع کو استعمال کرنے کا سلیقہ عطا فرمایا ہوا ہے، آپ جامعہ سلفیہ بنارس، انڈیا سے تعلیم یافتہ ہیں، جبکہ عرصہ دراز سے سعودی عرب میں بطور ’داعی‘ دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، فیس بک، واٹس ایپ، اردو فورمز وغیرہ پر علمی و دعوتی مضامین تحریر کرنا، صارفین کے سوالات کو سننا، اور اہتمام سے جواب لکھنا آپ کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے، شیخ مقبول سلفی کی تحریریں سوشل میڈیا پر تواتر سے آتی رہتی ہیں، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ نہایت منظم و مرتب زندگی گزار رہے ہیں، ورنہ یہ میدان ایسا ہے کہ اس میں انسان کے اندر ذرا سی بھی غفلت ہو تو گھنٹوں ضائع ہونے کی خبر تک نہیں ہوتی۔عموما ہمارے ہاں تحقیق و تصنیف اسے سمجھا جاتا ہے، جو باقاعدہ پریس سے چھپ کر آئے، لیکن اب بہرصورت سوشل میڈیا کے گردو وغبار میں بھی بعض تحریریں تحقیقی اور قیمتی ہوتی ہیں، زیر نظر کتاب بھی فضیلۃ الشیخ مقبول احمد سلفی صاحب کی مختلف قیمتی تحریروں کا مجموعہ ہے، جو متنوع موضوعات پر مختلف اوقات میں لکھی گئی ہیں، اور انہیں ’مضامین ومقالاتِ مقبول‘ کے نام سے سافٹ کاپی کی شکل میں مرتب کردیا گیا ہے، جس میں دو سو سے زائد مقالات ومضامین تیرہ سو کے قریب دیدہ زیب صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، شروع میں عناوین کی فہرست مرتب کرتے ہوئے انہیں اصل مقام سے لنک بھی کردیا گیا ہے، تاکہ فہرست میں عنوان پر کلک کرکے مطلوبہ مقام تک پہنچنا آسان ہو۔ مقبول احمد سلفی صاحب کا مقالات و مضامین میں تحریر کا انداز مدلل ومحقق ہے، کتاب وسنت کے دلائل ذکر کرکے موقف اپناتے ہیں، اور پھر علما کے اقوال و آراء سے استیناس کرتے ہوئے زیر بحث مسئلہ کی وضاحت کرتے ہیں، تقلید اور آراءِ رجال کی جکڑبندیوں سے آزاد ہو کر اہل حدیث مکتبِ فکر کے مطابق مسائل کے حل میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ مجموعہ مقالات کسی تحفہ سے کم نہیں ہے، اور اس میں کئی ایسے موضوعات و مسائل بھی ہیں، جن پر عام طور پر سرچ کرنے میں مواد دستیاب نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا پر کام کرنے کے آداب، اس میدان میں پائی جانے والی اخلاقی بیماریاں وغیرہ کے متعلق بھی کئی ایک مفید مقالات اس مجموعہ کی اہمیت میں اضافہ کا سبب ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کارِ خیر میں حصہ دار بننے والے تمام لوگوں کو اجرِ جزیل سے نوازے، اور انہیں مزید دین کے کام کی توفیق رحمت فرمائے۔(ح۔خ)
نماز دین اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے کلمہ توحید کے بعد ایک اہم ترین رکن ہے۔اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ یہ شبِ معراج کے موقع پر فرض کی گئی ،اور امت کو اس تحفہ خداوندی سے نوازا گیا۔اس کو دن اور رات میں پانچ وقت پابندی کے ساتھ باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے۔لیکن نماز کی قبولیت کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی نماز کے موافق ہو۔نماز کے مختلف فیہ مسا ئل میں سے ایک مسئلہ فاتحہ خلف الامام کا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی سورۃ الفاتحہ پڑھے گا یا نہیں پڑھے گا۔ہمارے علم کے مطابق فرض نفل سمیت ہر نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا فرض اور واجب ہے،نمازی خواہ منفرد ہو،امام ہو یا مقتدی ہو۔کیونکہ سورۃ الفاتحہ نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور اس کے بغیر نماز نامکمل رہتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے اس میں فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی۔دوسری جگہ فرمایا: “جس نے أم القرآن(یعنی سورۃ الفاتحہ)پڑھے بغیرنماز ادا کی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، نا مکمل ہے۔یہ احادیث اور اس معنیٰ پر دلالت کرنے والی دیگر متعدد احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنا واجب اور ضروری ہے۔ زیر نظر کتابچہ ’’سورۃ الفاتحہ کی اہمیت وعظمت‘‘حافظ عبد الجبار بن عبدلرحمٰن صاحب کا مرتب شدہ ہے فاضل مرتب نے اس کتابچہ میں سورۃ فاتحہ کے مختلف ناموں کی وضاحت ، مکمل سورۃ فاتحہ کے معانی اور تفسیر کو آسان فہم انداز میں پیش کرنے کے علاوہ سورۃ فاتحہ کی اہمیت وعظمت اور نماز میں اس کی فرضیت کو واضح کیا ہے ۔(م۔ا)
سیدنا حضرت ابراہیم اللہ تعالی کے جلیل القدر پیغمبر تھے ۔قرآن مجید میں وضاحت سے حضرت ابراہیم کا تذکرہ موجود ہے ۔قرآن مجید کی 25 سورتوں میں 69 دفعہ حضرت ابراہیم کا اسم گرامی آیا ہے ۔اور ایک سورۃ کا نام بھی ابراہیم ہے ۔حضرت ابراہیم نے یک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جو شرک خرافات میں غرق اور جس گھر میں جنم لیا وہ بھی شرک وخرافات کا مرکز تھا بلکہ ان ساری خرافات کو حکومتِ وقت اورآپ کے والد کی معاونت اور سرپرستی حاصل تھی ۔جب حضرت ابراہیم پربتوں کا باطل ہونا اور اللہ کی واحدانیت آشکار ہوگی تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے والد آزر کو اسلام کی تلقین کی اس کے بعد عوام کے سامنے اس دعوت کو عام کیا اور پھر بادشاہ وقت نمرود سےمناظرہ کیا اور وہ لاجواب ہوگیا ۔ اس کے باجود قوم قبولِ حق سے منحرف رہی حتیٰ کہ بادشاہ نے انہیں آگ میں جلانے کا حکم صادر کیا مگر اللہ نے آگ کوابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بنا دیا اور دشمن اپنے ناپاک اردادوں کے ساتھ ذلیل ورسوار ہوئے اور اللہ نے حضرت ابراہیمکو کامیاب کیا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انبیائے کرامکے واقعات بیان کرنے کامقصد خودان الفاظ میں واضح اور نمایا ں فرمایا ’’اے نبیﷺ جونبیوں کے واقعات ہم آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں ان سے ہمارا مقصد آپ کے دل کو ڈھارس دینا ہے اور آپ کے پاس حق پہنچ چکا ہے اس میں مومنوں کے لیے بھی نصیحت وعبرت ہے ۔‘‘ زیر تبصرہ کتاب ’’ سیرت ابراہیم عمل کے آئینے میں ‘‘ محترم جناب ابو سعد آصف عباس حماد﷾ کی جد الانبیاءسیدنا ابراہیم کی سیرت پر ایک محققانہ کاوش ہے ۔کتاب میں مذکورہ تمام احادیث محدثین کےاصول وضوابط کے مطابق ’’ حسن ‘‘ یا ’’صحیح‘‘ کے درجہ کی ہیں ۔ فاضل مصنف نے بڑی محنت، عرق ریزی،شبانہ روز کوششوں سے اس کتاب میں جد الانبیاء کے تبلیغی لیل ونہار کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے ۔یہ کتاب نہایت وقیع اورسیرت ابراہیم کے موضوع پر لکھی جانے والی کتب میں ایک خوشگوار اضافہ اور ڈھیروں علمی وفوائد پر مشتمل ہے ، کتاب اپنا ایک اچھوتا انداز اور نرالا اسلوب رکھتی ہےاس بگڑے ہوئے معاشرے میں کتاب ہذا تربیت واصلاح کی ایک بہترین کڑی ہے۔محقق العصر فضیلۃ الشیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری﷾ کی تحقیق وتخریج سے اس کتاب کی افادیت مزید دوچند ہوگئی ہے ۔(م۔ا)
شرعی اصطلاح میں صحابی سے مراد رسول اکرم ﷺکا وہ ساتھی ہے جو آ پ پر ایمان لایا،آپ ﷺ کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا ۔ صحابی کالفظ رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ کے خاص ہے لہذاب یہ لفظ کوئی دوسراا شخص اپنے ساتھیوں کےلیے استعمال نہیں کرسکتا۔ انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام اس امت کے سب سے افضل واعلیٰ لوگ تھے ،انہوں نے نبی کریم ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا،ان کے ساتھ مل کر کفار سے لڑائیاں کیں ، اسلام کی سر بلندی اور اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا۔پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام تمام کے تمام عدول ہیں یعنی دیانتدار،عدل اور انصاف کرنے والے ،حق پر ڈٹ جانے والے اور خواہشات کی طرف مائل نہ ہونے والے ہیں۔صحابہ کرام کے بارے میں اللہ تعالی ٰ کا یہ اعلان ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہےلیکن بعض لوگوں نے ضعیف روایات کا سہارا لے کر بعض کبار صحابہ کرام کے بعض اجتہادی مواقف پر بے جا اعتراضات کیے ہیں ،جن کی کوئی استنادی حیثیت نہیں ہے۔ زیر نظر کتاب’’صحابہ کرام کا تدارکِ فتن‘‘ علامہ قاضی ابوبکر ابن العربی کی شاہکار کتاب العواصم من القواصم کے اس نسخے کا اردو ترجمہ ہے جسے گزشتہ صدی کے ایک نامور مصری عالم علامہ محب الدین الخطیب کے حواشی وتعلیقات کے ساتھ وازارۃ الشوؤن الاسلامیہ(وزارت مذہبی امور )سعودی عرب نے شائع کیا تھا) کتاب ہذا میں صحابہ کرام کے بارے میں کیے گئے اعتراضات کےتسلی بخش جوابات دینے کے ساتھ ساتھ قرونِ اولیٰ کے دھندلے عکس کو انتہائی ٹھوس دلائل کےساتھ اس انداز میں میں پیش کیا گیا ہے کہ یہ ایک مصدر اور قوی سندی کی حیثیت رکھتی ہے۔جناب ابو عبد اللہ ابراہیم ﷾ نے اس کتا ب کواردو قالب میں ڈھالنے کی سعادت حاصل کی ہے۔مترجم موصوف نے نہایت آسان فہم اور اردو ادب کی چاشنی سے مزین ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ توضیحات بھی پیش کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ مترجم وناشرین کی اس عمدہ کاوش کو قبول فرمائے اور اسے امت مسلمہ کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
سیدنا حسین اپنے بھائی سیدنا حسن سے ایک سال چھوٹے تھے وہ نبی کریم ﷺ کے نواسے،سیدنا فاطمہ بنت رسول کے اور سیدنا علی لخت جگر تھے۔ سیدنا حسین ہجرت کے چوتھے سال شعبان کے مہینے میں پیدا ہوئے ۔آپ کی پیدائش پر رسول اللہ ﷺ بہت خوش ہوئے اور آپ کو گھٹی دی ۔رسول اللہ ﷺ نے آپ کا نام حسین رکھا ۔ساتویں دن آپ کا عقیقہ کیا گیا او ر سر کے بال مونڈے گئے ۔ رسالت مآب اپنے اس نواسے سے جتنی محبت فرماتے تھے اس کے واقعات دیکھنے والوں نے ہمیشہ یا درکھے۔ اکثر حدیثیں محبت اور فضیلت کی حسن وحسین دونوں صاحبزادوں میں مشترک ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے سایہ عاطفت میں اپنے ان نواسوں کی تربیت کی ۔ سیدنا حسین نے پچیس حج پیدل کیے۔جہاد میں بھی حصہ لیتے رہے۔پہلا لشکر جس نے قیصر روم کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کیا۔اس میں بھی تشریف لے گئے۔ وہاں میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاری کی وفات ہوئی تو امام کے پیچھے ان کے جنازے میں بھی شریک ہوئے۔آخری مرتبہ جب مکہ میں موجود تھے اور حج کے ایام شروع ہو چکے تھے۔ مگر کوفیوں نے دھوکا دیا اور لکھا کہ ہمارا کوئی امیر نہیں۔ ہم سب اہل عراق آپ کو امیر بنانا چاہتے ہیں آپ جلد ہمارے پاس تشریف لے آئیں۔ اگر آپ تشریف نہ لائے تو قیامت کے دن ہم اللہ تعالیٰ سے شکایت کریں گے کہ ہمارا کوئی امیر نہیں تھا اور نواسہ رسول نے ہماری بیعت قبول نہ کی تھی۔حضرت حسین نے ان باتوں کو سچ سمجھ لیا اور کوفہ روانہ ہو گئے۔روایات کے مطابق سیدنا حسین کو بارہ ہزار خطوط لکھے گئے۔حالات کا جائزہ لینے کے لئے سیدنا حسین نے اپنے عم زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجا۔ پہلے ہزاروں کوفیوں نے ان کی بیعت کی پھر بے دردی کے ساتھ ان کو شہید کر دیا۔ حضرت حسین مقام ثعلبہ پہنچے تو مسلم بن عقیل کی شہادت کا علم ہوا۔ آپ نے مسلم بن عقیل کے بیٹوں سے مشورہ کے بعد یزید سے ملاقات کا فیصلہ کر لیا۔ مسلم بن عقیل کے بیٹے ہمراہ تھے ۔کوفہ سے دور مقامِ ثعلبہ سے کوفہ کی بجائے شام کا راستہ اختیار فرما لیا۔مسلم بن عقیل کے قتل میں براہ راست شریک اور خطوط بھیجنے والے غدار کوفیوں نے سمجھ لیا کہ اگر حسین یزید کے پاس پہنچ گئے تو اصل سازش فاش ہو جائے گی۔ ہزاروں خطوط ہمارے خلاف گواہ ہوں گے،حکومت کے ساتھ ان کی مفاہمت ہو جائے گی اور ہمیں پھر کوئی نہیں بچا سکے گا۔ لہذا انہوں نے راستہ روکا ۔خطوط تو نہ ہتھیا سکے مگر ابن زیاد سے براہ راست بیعت یزید کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ سیدنا حسین نے تین شرطیں رکھیں کہ مجھے واپس مکہ جانے دو، یا مجھے کسی سرحد پر جانے دو میں کسی جہاد میں شریک ہو جاؤں گا، یا پھر میں یزید کے پاس چلا جاتا ہوں۔وہ میرا ابن عم ہی تو ہے۔مگر ظالمو نے ایک شرط بھی نہ مانی اورنواسۂ رسول کو شہید کر دیا۔ زیر نظر کتاب’’متن اربعین سیدنا حسین‘‘امریکہ میں طویل عرصہ سےمقیم معروف مذہبی سکالر فضیلۃ الشخ عبداللہ دانش﷾ (مصنف کتب کثیرہ) کی کاوش ہے موصوف نے بڑی عرق ریزی سے مستنداور معتبر روایات کا سہارا لیتے ہوئے ذخیرۂ احادیث سے نبی کریم ﷺ کی اپنے نواسے سیدنا حسین کے متعلق چالیس صحیح احادیث مبارکہ کا مجموعہ ’’ اربعین سیدنا حسین‘‘ کے نام مرتب کر کے بڑے اجھےاسلوب میں سیدنا حسین کی حیثیت، شخصیت اورکردار کو بڑے ہی باوقار انداز میں پیش کیا ہے۔اللہ تعالیٰ صاحب تصنیف کی تحقیقی وتصنیفی ، دعوتی وتبلیغی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کےعلم وعمل اور عمر میں برکت فرمائے۔ (آمین) (م۔ا)
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺاللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ ﷺکو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ ﷺکے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم ﷺکی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی متعدد آیت میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ما كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا(الاحزاب، 33 : 40)ترجمہ:’’ محمد ﷺتمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔‘‘ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالٰیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ ﷺ ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو اس منصب پرفائزنہیں کیا جائے گا۔ قرآن حکیم میں متعددآیات ایسی ہیں جو عقيدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم ﷺنے اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنیٰ متعین فرمایا ہے۔ یہی وہ عقید ہ جس پر قرون اولیٰ سے آج تک تمام امت اسلامیہ کا اجماع ہے ۔ زیر نظر کتابچہ ’’ختمِ نبوت کوئز‘‘جناب منیر احمد صاحب کا مرتب شدہ ہے ۔مرتب موصوف نے اس رسالہ میں ختمِ نبوت، ناموس رسالت، اور ردّقادیانیت کے متعلق اہم سوالات اور ان کے جواباب کو جمع کردیا ہے ۔(م۔ا)
امت میں اختلاف کا ہونا ناگزیر ہے، ہر دور میں ہوتا آیاہے اور ہوتا رہے گا، حقیقت میں یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظاہرہ ہے اس کو کوئی مٹانے کے درپے ہوتو بھی مٹ نہیں سکتا، یہ الگ بات ہے کہ ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے اور نہ ہی ہر اختلاف محمود ہوسکتا، وہ اختلاف جس کا منشاء وسبب قبیح ہو وہ اختلاف یقینا مذموم ہے، اختلاف خواہ مذموم ہو یا محمود اس کے حدود سے تجاوز کرنا اور مخالفین کے ساتھ اعتدال سے ہٹ کر افراط وتفریط کا معاملہ کرنا جائز نہیں۔ فقہی مباحث میں جو کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اس کا اکثر حصہ افضلیت و اولیت پر مبنی ہےایک نوع فروعی واجتہادی اختلاف کی ہے، یہ اختلاف محمود ہے۔ جس طرح انبیاء کی شریعتیں الگ الگ رہی ہیں، فروعی مسائل میں ہر مجتہد کی آراء مختلف ہوئی ہیں، کسی کو باطل نہیں کہا جاسکتا، اس قسم کا اختلاف امت کی آسانی کے لیے ہے۔ زیر نظر کتابچہ’’خلاف الامۃ فی العبادات‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا ایک اہم رسالہ ہے ۔امام موصوف نے اس میں اختلافات امت کے اسباب وعلل پر نہایت گراں قدر تحریری سرمایہ محفوظ کردیا ہے ۔ جونہایت جامع بھی ہے اور انتہائی موثر بھی ۔ اور بالخصوص اپنی دینی معاملات کی رہمائی کے لیے جس سبیل ہدایت کی ضرروت ہے اس میں ا س کی نشاندہی کردی گئی ہے۔علمی حلقوں کی معروف شخصیت مولانا عبد الرحیم پشاوری ﷾ نےاس کتابچہ کو اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔مترجم موصوف نے اس کے علاوہ بھی امام ابن تیمیہ ،امام ابن قیم کی کئی کتب کے اردو ترجمے کیے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مساعی حسنہ کا قبول فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
ہندو مت یا ہندو دھرم جنوبی ایشیا اور بالخصوص بھارت اور نیپال میں غالب اکثریت کا ایک مذہب ہے جس کی بنیاد ہندوستان میں رکھی گئی، یہ اس ملک کا قدیم ترین مذہب ہے۔مختلف عقائد اور روایات سے بھرپور مذہب ہندومت کے کئی بانی ہیں۔ اِس کے ذیلی روایات و عقائد اور فرقوں کو اگر ایک سمجھا جائے تو ہندومت مسیحیت اور اِسلام کے بعد دُنیا کا تیسرا بڑا مذہب ہے۔ تقریباً ایک اَرب پیروکاروں میں سے 905 ملین بھارت اور نیپال میں رہتے ہیں۔ ہندومت کے پیروکار کو ہندو کہاجاتا ہے۔برصغیر پاک وہند کے علمائے اسلام نے ہندوانہ کے عقائد کے خلاف ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں ۔ زیر نظررسالہ’’ ہندو مذہب کی تاریخ اور ہندی مسلمان ‘‘ عزیر احمدصدیقی کا مرتب شد ہ ہے ۔اس مختصر کتابچہ میں انہوں نے ہندومذہب کی تاریخ وعقائد کو پیش کرنے کےبعد ہندوستان میں ایک ہزار سال سے بسنے والے مسلمانوں پر افسوس کااظہار کیا ہے کہ وہ اپنے اسلامی شعائر بھول گئے اور ہندوانہ مراسم کے غلام بن گئے ہیں اس کےبعد اسلام کی حقانیت کو پیش کیا ہے ۔(م۔ا)
اسلام میں ہر اس چیز کی روک تھام کی گئی ہے جس سے اخلاقی بگاڑ پیدا ہوتا ہو۔ذہنی انتشار اور اخلاقی بگاڑ پیدا کرنے والی مختلف چیزوں میں سے ایک موسیقی ہے جس کو لوگوں نے جواز بخشنے کے لیے روح کی غذا تک کے قاعدے کو لاگو کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ اسلام میں موسیقی اور گانے بجانے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے واضح الفاظ میں اس حوالے سے وعید کا تذکرہ کیاہے۔ فرمانِ رسولﷺ ہے:’’ میرى امت میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا ہونگے جو شرمگاہ [زنا] ’ ریشم ’ شراب اور گانا وموسیقی کو حلال کرلیں گے‘‘ یہ دل میں نفاق پیدا کرنے اور انسان کو ذکرالٰہی سے دور کرنے کا سبب ہے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے:﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا ۚ أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ﴾( سورة القمان)’’ لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو لغو باتو ں کو مول لیتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے مذاق بنائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کن عذاب ہے"جمہور صحابہ وتابعین اور ائمہ مفسرین کے نزدیک لهوالحدیث عام ہے جس سے مراد گانا بجانا اور اس کا ساز وسامان ہے اس میں آلات ِ موسیقی او رہر وہ چیزجو انسان کو خیر او ربھلائی سے غافل اور اللہ کی عبادت سے دور کردے شامل ہے ۔ زیر نظر کتاب’’گانا اور آلات موسیقی قرآن وسنّت اور اقوالِ صحابہ کی روشنی میں ‘‘ معروف سعودی عالم دین فضیلۃ الشیخ سعید بن علی بن وھف القحطانی کے رسالہالغناء والمعازف في ضوء الكتاب واالسنةواٰثار الصحابة کا اردو ترجمہ ہے۔شیخ مرحوم نے اس رسالہ میں قرآن وسنت، اقوال صحابہ کی روشنی میں موسیقی اور آلات موسیقی کی حرمت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے نقصانات کا جائزہ بھی پیش کیا ہے ۔اس کی افادیت کے پیش نظر محترمہ حافظہ سمیرا طاہرہ صاحبہ نے اسے اردو قارئین کے لیے بہت ہی عمدہ انداز میں اردو قالب میں ڈھالا ہے اور اس کے آخر میں موسیقی کےدنیاوی اور اخروی انجام کے متعلق چند مضامین بھی شامل کردئیے ہیں جن سے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف ، مترجم اور ناشرین کی کو اجر عظیم سے نوازے اور اسے عامۃ الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔(م۔ا)
اس میں کوئی شک نہیں جادو، نظر اور حسداور ان سب کادوسروں پر اللہ کے حکم سےاثر انداز ہوجانا یہ عین حق اور درست بات ہے قرآن وسنت میں اس کاثبوت موجود ہے۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جادو کا عمل مختلف انبیاء کے عہد میں جاری تھا ۔جیساکہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر سیدنا صالح، موسیٰ،سلیمان کےعہد میں جادو اورجادوگروں کاتذکرہ موجود ہے اور یہ موضوع انتہائی حساس ہے ۔ آج اس بنیاد پر بے شمار لوگوں نےاپنی مسندیں سجا رکھی ہیں۔ جادو کا توڑ کرنے اور جن نکالنے کے نام پر وہ سادہ عوام کا دین، عزت، مال سب کچھ لوٹ رہے ہیں ۔ بڑے بڑے نیکوکار لوگ بھی اس دھندے میں پڑ چکے ہیں۔جادو کرنا اورکالے علم کےذریعے جنات کاتعاون حاصل کر کے لوگوں کو تکالیف پہنچانا شریعتِ اسلامیہ کی رو سےمحض کبیرہ گناہ ہی نہیں بلکہ ایسا مذموم فعل ہےجو انسان کو دائرۂ اسلام سے ہی خارح کردیتا ہے اور اسے واجب القتل بنادیتا ہے ۔جادو اور جنات سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کے علاج کےلیے کتاب وسنت کے بیان کردہ طریقوں سے ہٹ کر بے شمار لوگ شیطانی اور طلسماتی کرشموں کے ذریعے ایسے مریضوں کاعلاج کرتے نظر آتے ہیں جن کی اکثریت تو محض وہم وخیال کے زیر اثر خود کو مریض سمجھتی ہے ۔جادوکا موضوع ان اہم موضوعات میں سے ہے جن کا بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے ذریعے تعاقب کرنا علماء کےلیے ضروری ہے کیونکہ جادو عملی طور پر ہمارے معاشروں میں بھر پور انداز سے موجود ہے اور جادوگرچند روپوں کے بدلے دن رات فساد پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں جنہیں وہ کمزور ایمان والے اور ان کینہ پرور لوگوں سے وصو ل کرتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے بغض رکھتے ہیں اورانہیں جادو کے عذاب میں مبتلا دیکھ کر خوشی محسوس کرتےہیں لہذا علماء کے لیے ضروری ہے کہ جادو کے خطرے او راس کے نقصانات کے متعلق لوگوں کوخبر دارکریں اور جادو کا شرعی طریقے سے علاج کریں تاکہ لوگ اس کے توڑ اور علاج کے لیے نام نہادجادوگروں عاملوں کی طرف رخ نہ کریں۔ زیر نظر کتاب’’ دعا ، دوا اور دم سے مسنون علاج‘‘مولانا محمد اسماعیل ساجد﷾(مدیر جامعہ محمدیہ ،جام پور) کی تالیف ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں زندگی کے تمام گوشوں میں نبی کریم ﷺ سے ثابت شدہ دعاؤں کو یکجا کردیا ہے۔ مسلمان خواتین وحضرات اس کتاب کے استفادہ سے روحانی وجسمانی بیماریوں کا علاج جعلی عاملوں اور جھوٹے پیروں کارخ کرنے کی بجائے خود بھی کرسکتے ہیں بلکہ تھوڑی سے محنت کر کے ایک ماہرروحانی وجسمانی معالج بھی بن سکتے۔(ان شاء اللہ) اللہ تعالیٰ اس کتاب کومصنف کے لیے صدقۂ جاریہ اور عامۃ الناس کے لیےنفع بخش بنائے ۔آمین (م۔ا)
قرآن مجید جو انسان کے لیے ایک مکمل دستور حیات ہے ۔اس میں بار بار توجہ دلائی گئی ہے کہ شیطان مردود سےبچ کر رہنا ۔ یہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ارشاد باری تعالی ’’ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ‘‘( یقیناًشیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن ہی سمجھو)لیکن شیطان انسان کو کہیں خواہشِ نفس کو ثواب کہہ کر ادھر لگا دیتا ہے ۔کبھی زیادہ اجر کالالچ دے کر او ر اللہ او راس کے رسول ﷺ کے احکامات کے منافی خود ساختہ نیکیوں میں لگا دیتاہے اور اکثر کو آخرت کی جوابدہی سے بے نیاز کر کے دنیا کی رونق میں مدہوش کردیتا ہے۔شیطان سے انسان کی دشمنی آدم کی تخلیق کےوقت سے چلی آرہی ہے اللہ کریم نے شیطان کوقیامت تک کے لیے زندگی دے کر انسانوں کے دل میں وسوسہ ڈالنے کی قوت دی ہے اس عطا شدہ قوت کے بل بوتے پر شیطان نے اللہ تعالیٰ کوچیلنج کردیا کہ وہ آدم کے بیٹوں کو اللہ کا باغی ونافرمان بناکر جہنم کا ایدھن بنادے گا ۔لیکن اللہ کریم نے شیطان کو جواب دیا کہ تو لاکھ کوشش کر کے دیکھ لینا حو میرے مخلص بندے ہوں گے وہ تیری پیروی نہیں کریں گے او رتیرے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ابلیس کے وار سے محفوظ رہنے کےلیے علمائے اسلام اور صلحائے ملت نے کئی کتب تالیف کیں او ردعوت وتبلیغ او روعظ وارشاد کےذریعے بھی راہنمائی فرمائی۔جیسے مکاید الشیطان از امام ابن ابی الدنیا، تلبیس ابلیس از امام ابن جوزی،اغاثۃ اللہفان من مصاید الشیطان از امام ابن قیم الجوزیہ اور اسی طرح اردو زبان میں بھی متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ شیطان سے بچاؤ کےاسباب‘‘ مولانا عبد الرزاق اظہر ﷾ کی تصنیف ہے ۔موصوف نے اس کتاب میں ان تمام اسباب کااحاطہ کرنے کی بڑی عمدہ کوشش کی ہے جن کے ذریعے سے شیطانی مکروفریب سے بچا جاسکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
مسلمان کی اصل کامیابی قرآن مجیداور احادیث نبویہ میں اللہ اور رسول اکرم ﷺ کی جو تعلیمات ہیں ان کی پیروی کرنے اوران کی خلاف ورزی یا نافرمانی نہ کرنے میں ہے مسلمانوں کوعملی زندگی میں اپنے سامنے قرآن وحدیث ہی کو سامنے رکھنا چاہیے اس سلسلے میں صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے راہنمائی لینے چاہیے کہ انہوں نے قرآن وحدیث پر کیسے عمل کیا کیونکہ انہی شخصیات کو اللہ تعالیٰ نے معیار حق قرار دیا ہے۔ اورنبی ﷺنے بھی اختلافات کی صورت میں سنتِ نبویہ اور سنت خلفائے راشدین کو تھامنے کی تلقین کی ہےمتازعہ مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ بارہ ربیع الاول کو میلاد النبی ﷺ منانےکاہے بہت سارے مسلمان ہرسال بارہ ربیع الاول کو عید میلادالنبی ﷺ او رجشن مناتے ہیں ۔عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا ہے ، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، نعت خوانی کےلیے محفلیں منعقدکی جاتی ہیں اور بعض ملکوں میں سرکاری طور پر چھٹی کی جاتی ہے۔ لیکن اگر قرآن وحدیث اور قرونِ اولیٰ کی تاریخ کا پوری دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہےکہ قرآن وحدیث میں جشن عید یا عید میلاد کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ نبی کریم ﷺ نے اپنا میلاد منایا او رنہ ہی اسکی ترغیب دلائی ، قرونِ اولیٰ یعنی صحابہ کرام ﷺ ،تابعین،تبع تابعین کا زمانہ جنہیں ہیں نبی کریم ﷺ نے بہترین لوگ قرار دیا ان کے ہاں بھی اس عید کا کوئی تصور نہ تھا اورنہ وہ جشن مناتے تھے اور اسی طرح بعد میں معتبر ائمہ دین کےہاں بھی نہ اس عید کا کو ئی تصور تھا اور نہ وہ اسے مناتے تھے او ر نہ ہی وہ اپنے شاگردوں کو اس کی تلقین کرتےتھے بلکہ نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے جشن منعقد کرنے کا آغاز نبی ﷺ کی وفات سے تقریبا چھ سو سال بعد کیا گیا ۔ زیر نظر کتابچہ ’’ میلاد النبی ﷺپر ڈاکٹر طاہر القادری کے دلائل او ر ان کی حقیقت‘‘ ہارون عبد اللہ کی کاوش ہے انہوں نے اس کتابچہ میں ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے پیدا کیے جانے والے شبہات اور لوگوں کو دینِ حق سے پھیرکی بدعت کی طرف بلانےوالے بعض دلائل کاعلمی جائزہ لے کر یہ بات واضح کی ہےکہ طاہر القادری کے دلائل کا شرعی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ مرتب کی اس کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔(م۔ا)
اسلامی تاریخ کے لحاظ سے مدینہ منورہ دوسرا بڑا اسلامی مرکز اور تاریخی شہر ہے ۔نبی ﷺ کی ہجرت سے قبل اس کا نام یثرب تھا اورغیر معروف تھا لیکن آپ ﷺ کی آمد ،مہاجرین کی ہجرت اور اہل مدینہ کی قربانیوں نے اس غیر معروف شہر کو اتنی شہرت و عزت بخشی کہ اس شہرِ مقدس سے قلبی لگاؤ اور عقیدت ہر مسلمان کا جزو ایمان بن چکی ہے ۔اس شہر میں بہت سے تاریخی مقامات اور بکثرت اسلامی آثار وعلامات پائے جاتے ہیں جن سے شہر کی عظمت ورفعت شان کا پتہ چلتا ہے.اس شہر مقدس کی فضیلت میں بہت سی احادیث شریفہ وارد ہوئی ہیں۔سیدنا عبد اللہ بن زید نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں ’’کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: سیدناابراہیم نے مکہ کو حرم قرار دیا اور اس کے لئے دعا کی، میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں اورمدینہ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ یہاں کے مُد میں اس کے صاع میں برکت ہو۔‘‘ (صحیح بخاری) نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ کے چند مقامات کی زیارت کو مشروع قرار کردیا ہے ان مقامات کی طرف جانا سیدنا حضرت محمد ﷺ کی اقتدا اور آپ کے اسوۂ حسنہ کے پیش نظر موجبِ اطاعت ہے ۔ زیر نظرکتابچہ’’ مدینہ منورہ کی زیارت کے شرعی آداب ‘‘ سعودی عرب کےادارے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی طرف سے پیش کیا گیا اس میں قرآن وحدیث کی روشنی میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ مدینہ منورہ کے مقدس مقامات (مسجد نبوی ، مسجد قبا ،بقیع الغرقد،شہدائے احد) کی زیارت کے وقت تعلیماتِ نبویﷺ پر عمل کرتے ہوئے بدعات وخرافات سے مکمل طور پر اجتناب کیا جا ئے محض کتاب وسنت اور آثار صحابہ پر اکتفا کیا جائے اور ان شعائر اسلام کی زیارت کا مقصد صر ف اور صرف اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا مقصود ہو ۔اللہ تعالیٰ رسالہ ہذا کے مرتبین وناشرین کو اجر عظیم سے نوازے ۔(آمین)(م۔ا)
اہل السنۃ والجماعۃ کےنزدیک ازواج ِمطہرات تمام مومنین کی مائیں ہیں ۔ کیونکہ یہ قرآنی فیصلہ ہے اور قرآن حکیم نے صاف لفظوں میں اس کو بیان کردیاہے۔’’نبیﷺ مومنوں کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں اور آپﷺ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں‘‘۔(الاحزاب:6:33)۔جن عورتوں کو آپﷺ نے حبالۂ عقد میں لیا انکو اپنی مرضی سے رشتہ ازدواج میں منسلک نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپﷺ نے ان سے نکاح کیا تھا۔ان کوبرا بھلا کہنا حرام ہے ۔اس کی حرمت قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے ثابت ہے ۔جو ازواج مطہرات میں سے کسی ایک پر بھی طعن وتشنیع کرے گا وہ ملعون او ر خارج ایمان ہے۔نبی کریمﷺ کی ازواج مطہرات کی سیرت خواتین اسلام کے لیے اسوہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ان امہات المومنین کی سیرت کے تذکرے حدیث وسیرت وتاریخ کی کتب میں موجود ہیں ۔اور اہل علم نے الگ سے بھی کتب تصنیف کی ہیں زیر کتاب’’ ام المومنین سید ماریہ قبطیہ ؓ عنہا ‘‘ نبی کریم ﷺ کی شریکِ حیات اور فرزند رسولﷺ کی والدہ مکرمہ کے مستقل تذکرہ پر مشتمل اردوزبان میں اولین کتاب ہے جو کہ مولانا سید حسن مثّنی ندوی کی کاوش ہے صاحب قلم وقرطاس سوانح نگار جناب محمد تنزیل الصدیقی الحسینی﷾ کےاس کتاب پر حواشی ،تقدیم اور نظرثانی سے اس کتاب کی افادیت دو چند ہوگئی ہے۔ ( م۔ا)
اسلام ایک کامل اور اکمل دین ہے جواپنے ماننے والوں کی عقائد ونظریات ،عبادات کے علاوہ اخلاق وآداب ، معاشی ومعاشرتی ،عائلی معاملات ،حلال وحرام ،جائز وناجائز الغرض زندگی کے ہر موڑ پر یہ دین مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کی یہ روشن اور واضح تعلیمات اللہ تعالیٰ کی عظیم کتاب قرآن مجید او رنبی کریم ﷺ کی صحیح احادیث کی شکل میں مسلمانوں کے پاس محفوظ ہیں۔ انہی دوچشموں سے قیامت تک مسلمان سیراب ہوکر اپنے علم کی پیاس بجھاتے رہیں گے۔علمائے حق کی ہر موضوع پر مستقل کتابوں، رسائل وجرائد، محاضرات و مقالات کی صورت میں رہنمائی موجود ہےجس سے ایک عام مسلمان بھی آسانی سے استفادہ کرسکتا ہے۔ زیر نظر کتاب’’ تحفۂ مسلم‘‘ فاضل نوجوان محقق مولانا محمد ارشد کمال﷾(مصنف ومترجم کتب کثیرہ) کی عقیدہ و طہارت اور نماز کے مسائل پر مختصر وجامع تالیف ہے۔(م۔ا)
اسلام ایک کامل اور اکمل دین ہے جواپنے ماننے والوں کی عقائد ونظریات ،عبادات کے علاوہ اخلاق وآداب ، معاشی ومعاشرتی ،عائلی معاملات ،حلال وحرام ،جائز وناجائز الغرض زندگی کے ہر موڑ پر یہ دین مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کی یہ روشن اور واضح تعلیمات اللہ تعالیٰ کی عظیم کتاب قرآن مجید او رنبی کریم ﷺ کی صحیح احادیث کی شکل میں مسلمانوں کے پاس محفوظ ہیں۔ انہی دوچشموں سے قیامت تک مسلمان سیراب ہوکر اپنے علم کی پیاس بجھاتے رہیں گے۔علمائے حق کی ہر موضوع پر مستقل کتابوں، رسائل وجرائد، محاضرات و مقالات کی صورت میں رہنمائی موجود ہےجس سے ایک عام مسلمان بھی آسانی سے استفادہ کرسکتا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ تحفۃ المسلم ‘‘ شیخ ابن باز اور شیخ عبد الملک قاسم کے چند اہم عربی رسائل (اسلامی عقیدہ ،عقیدہ کی غلطیاں،نواقض اسلام،محبت حرمت،توکل،گناہوں کے برے اثرات ،توبہ واستغفار،اسلام علیکم ،مثالی عورت) کامجموعہ ہے ۔قاری سیف اللہ ساجد صاحب نے ان رسائل کا ترجمہ ،تبویب اور تخریج کر کے افادۂ عام کےلیے مرتب کیا ہے ۔یہ رسائل بنیادی عقائد واعمال کابہترین مجموعہ ہے ۔(م۔ا)