’علمِ وراثت‘، علمِ فرائض‘ یہ ایک ہی علم کے دو نام ہیں، جس میں انسان کی وفات کے بعد اس کے مال کی تقسیم کے اصول وضوابط کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے، وراثت کے مسائل بھی نماز روزہ، نکاح وطلاق جیسے شرعی احکام ہی ہیں، لیکن اہمیت کے پیشِ نظر علما و فقہا نے جن احکام ومسائل میں الگ الگ تصنیفات فرمائی ہیں، ’علمِ وراثت‘ بھی انہیں میں سے ایک ہے، اردو زبان میں بھی اس پر کئی ایک تصنیفات موجود ہیں، لیکن جس طرح نماز وغیرہ کے مسائل پر بہ کثرت تصنیفات پائی جاتی ہیں، وراثت کے متعلق وہ اہتمام نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہمارے ہاں برصغیر میں وراثت کے شرعی طریقہ کار کو جاننے میں دلچسپی نسبتا کم ہوتی ہے ، اسی طرح اس فن کو قدرے مشکل بھی سمجھا جاتا ہے، بلکہ سننے میں آیا ہے کہ بعض کبار اور معروف اہلِ علم بھی اس فن میں رائے دینے سے کتراتے ہیں، لیکن شیخ کفایت اللہ ان خوش نصیب علما میں سے ہیں، جنہیں یہ علم انتہائی آسان محسوس ہوتا ہے، بلکہ انہیں اس کے مسائل پر اتنی گرفت ہے کہ وہ اس فن کو دیگر لوگوں کے لیے بھی انتہائی آسان بنا کر پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، جس کی بہترین دلیل ان کی زیر نظر تصنیف ’ تفہیم الفرائض‘ ہے، شیخ سنابلی کا دعوی ہے کہ اس فن کو مشکل سمجھنے کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں تدریس و تصنیف کا قدیم طریقہ اپنایا جاتا ہے، اسی طرح تفہیم کی بجائے رٹے پر زور دینے کی وجہ سے یہ علم مزید عقل وخرد پر بھاری محسوس ہوتا ہے، شیخ سنابلی نے ’ تفہیمِ فرائض‘ کو ممکن و سہل بنانے کے لیے ایک تو جدید اصول وضوابط کا استعمال کیا ہے، دوسرامسائلِ وراثت کی مروجہ تقسیم میں تقدیم و تاخیر کی ہے، اسی طرح اہم اور غیر اہم کا تعین کرکے بھی اس فن کی مشکلات و عوائص کی تیسیر کرنی کی سعی مشکور فرمائی ہے۔ اس فن کی تدریس کرنے والے اساتذہ کرام کے لیے کچھ تجاویز بھی ارشاد فرمائی ہیں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو مصنف، ناشر سب کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، اور اس علم کے طلبہ واساتذہ کے لیے نفع مند بنائے۔ شیخ سنابلی نوجوان عالم دین ہیں، اپنی کئی ایک تصنیفات کی وجہ سے علمی حلقوں سے قابل مصنف و محقق کی طرح تعریف و ستائش وصول کرچکے ہیں، البتہ محدث لائبریری اور فورم کے ساتھ ان کا رشتہ و تعلق ان سب چیزوں سے پہلے کا ہے، چہار سو شہرت کے باوجود وہ اپنے اس پہلے تعلق کی لاج آج بھی رکھے ہوئے ہیں، اور اپنی کئی ایک علمی کاوشیں محدث فورم اور محدث لائبریری کے لیے بھیجتے رہتے ہیں، زیر نظر کتاب کی محدث لائبریری پر پیشکش بھی اسی ایمانی محبت ومودت کا ایک نمونہ ہے، اللہ تعالی اس اخوت و رشتے کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ (ح۔ خ)
عناوین |
صفحہ نمبر |
عرض مؤلف |
6 |
مقدمہ |
16 |
علم فرائض کا تعارف |
16 |
ترکہ کے مصارف |
18 |
تجہیز و تکفین |
18 |
قرض کی ادائیگی |
18 |
وصیت کی تنفیذ |
20 |
وارثین میں تقسیم وراثت |
21 |
ارکان وراثت |
22 |
اسباب وراثت |
22 |
شروط وراثت |
22 |
موانع وراثت |
23 |
پہلا حصہ : وارثین |
24 |
باب اول : وارثین کی فہرست |
24 |
وارثین کےگروپس |
24 |
وارثین کی فہرست |
25 |
باب دوم: وارثین کی قسمیں |
28 |
پہلی قسم :اصحاب الفروض |
28 |
دوسری قسم: عصبہ |
30 |
تیسری قسم :ذوی الارحام |
39 |
باب سوم: حجب |
39 |
قواعد حجب |
41 |
قواعد حجب کےدلائل |
41 |
دوسرا حصہ :وارثین کے حصے |
44 |
باب اول : زوجین کے حصے |
45 |
باب دوم: فروع کےحصے |
49 |
باب سوم: اصول کےحصے |
64 |
باب چہارم : حواشی کےحصے |
80 |
تیسراحصہ : تاصیل و تصحیح |
101 |
تاصیل |
101 |
تصحیح |
107 |
چوتھا :مسائل فرائض کی قسمیں |
117 |
مسئلہ عادلہ |
117 |
مسئلہ عائلہ (عول) |
118 |
مسئلہ ناقصہ (رد) |
120 |
پانچواں حصہ: نادر مسائل |
134 |
باب المناسخہ (تقسیم ترکہ سے قبل وارثین میں کو ئی فوت ہوجائے ) |
134 |
باب میراث المفقود (گم شدہ شخص کی میراث) |
149 |
باب میراث الحمل ( ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی میراث ) |
155 |
باب میراث الخنثی (مخنث یعنی ہجڑے کی میراث) |
160 |
باب الموت الجماعی او الغرقی ونحوہم ( حادثہ میں ایک ساتھ مرنےوالوں کی میراث ) |
164 |
چھٹا حصہ : تقسیم ترکہ |
172 |
ذوی الارحام کی تفصیل |
173 |
قرض خواہوں کے مابین ترکہ تقسیم کرنے کا طریقہ |
180 |
تخارج |
181 |
میراث الجد مع الاخوۃ |
182 |
جدول |
183 |