شریعت اسلامیہ میں تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کوان ممنوع معیوب اور مکروہ امور سے پاک صاف رکھے جنہیں قرآن وسنت میں ممنوع معیوب اورمکروہ کہا گیا ہے۔گویا نفس کو گناہ اور عیب دارکاموں کی آلودگی سے پاک صاف کرلینا اور اسے قرآن وسنت کی روشنی میں محمود ومحبوب اور خوب صورت خیالات وامور سے آراستہ رکھنا نفس کا تزکیہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو جن اہم امور کےلیے مبعوث فرمایا ان میں سے ایک تزکیہ نفس بھی ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے : هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ‘‘اس آیت سے معلوم ہوتاہےکہ رسول اکرم ﷺ پر نوع انسانی کی اصلاح کےحوالے جو اہم ذمہ داری ڈالی گئی اس کےچار پہلو ہیں ۔تلاوت آیات،تعلیم کتاب،تعلیم حکمت،تزکیہ انسانی۔ قرآن مجید میں یہی مضمون چار مختلف مقامات پر آیا ہے جن میں ترتیب مختلف ہے لیکن ذمہ داریاں یہیدہرائی گئی ہیں۔ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت آیات اورتعلیم کتاب وحکمت کا منطقی نتیجہ بھی تزکیہ ہی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "تزکیہ نفس" پاکستان کے معروف عالم دین مولانا امین احسن اصلاحی کی تصنیف ہے،جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔اس میں انہوں تزکیہ نفس کے حوالے سے تفصیلی گفتگو فرمائی ہےاور اس کی متعدد جزئیات پر قلم اٹھایا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ مولانا صاحب کے متعدد افکار ونظریات ایسے ہیں جو شاذ اور انفرادی حیثیت کے حامل ہیں ،اور علماء امت ان سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔لہذا کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ان چیزوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں تزکیہ نفس کرنے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(راسخ)
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی 25جون 1957ء کو حضرو، ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ آپ نےتین سے چار ماہ میں قرآن مجید حفظ کیا ۔ دینی علوم کے حصول کے لیے جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں داخل ہوئے اور سند فراغت حاصل کی ۔وفاق المدارس السلفیہ سے الشھادۃ العالمیہ بھی حاصل کی ۔نیز آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات اور عربی میں ایم اے بھی کیا تھا۔آپ اپنی مادری زبان ہندکو کے ساتھ ساتھ کئی ایک زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ آپ کو علم الرجال سےبڑی دلچسپی تھی۔مولانا سید محب اللہ شاہ راشدی ،مولانا سیدبدیع الدین شاہ راشدی ،مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی ،مولانا حافظ عبدالمنان نورپوری وغیرہ جیسے عظیم علماء سے آپ کو شرف تلمذ حاصل تھا۔علم الرجال اور احادیث کی تحقیق وتخریج میں آ پ کی رائے کو سند کی حیثیت حاصل تھی ۔ شیخ نے متعدد علمی و تحقیقی تصانیف کی صورت میں علمی ورثہ چھوڑا ۔اور اس کےعلاوہ کتب احادیث پر تحقیق و تخریج کا کام بھی کیا۔ اور موصوف نے سیکڑوں علمی وتحقیقی مضامین بھی لکھے جو ان کے جاری کردہ مجلہ ’’الحدیث‘‘ کے علاوہ ماہنامہ محدث ،ہفت روزہ الاعتصام ودیگر مجلات ورسائل میں شائع ہوتے رہے ۔آپ نے تصنیفی وصحافتی خدمات کے علاوہ ابطال باطل کے لئے مناظرے بھی کئے،بلکہ مناظروں کے لئے دور دراز کا سفر بھی کیا۔بہرحال وہ علم کا پہاڑ تھے۔ اللہ انکے درجات بلند فرمائے۔ملک بھر سےطلبہ کی کثیر تعداد نے آپ سے استفادہ کیا۔ آپ کے شاگردوں میں مولانا حافظ ندیم ظہیر﷾،مولانا حافظ شیر محمد﷾،مولانا صدیق رضا﷾، مولانا غلام مصطفی ظہیر امن پوری ﷾ وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔موصوف 10نومبر2013ء بروز اتوار طویل علالت کےبعد اپنی خالق حقیقی جاملے ۔شیخ کا نمازِ جنازہ ان کے آبائی گاؤں میں فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالحمید ازہر﷾نے پڑھایا۔نماز جنازہ میں علماء،طلباء سمیت کثیر تعداد نے شرکت کی۔ان کی رحلت پر کئی مجلات ورسائل میں ان کی حیات وخدمات کے حوالے سے مختلف اہل علم کے مضامین شائع ہوئے ۔شیخ موصوف کے جاری کردہ مجلہ’’الحدیث‘‘ کے ذمہ داران نے شیخ کی حیات وخدمات پر مشتمل ’’الحدیث ‘‘کا خاص نمبر نکالنے کا اعلان کیا تھا ۔ ناجانے کیوں اس رسالے کی اشاعتِ خاص ابھی تک شائع نہ ہوسکی ۔ زیر نظر کتاب ’’ تحقیقی ،علمی واصلاحی مقالات ‘‘جو کہ ضخیم چھ جلدوں پر مشتمل ہے او رشیخ کے ان تحقیقی وعلمی مضامین کامجموعہ جو مختلف علمی مجلات بالخصوص الحدیث حضرو میں مسلسل شائع ہوتے رہے ۔ جنہیں بڑی محنت سے عام فہم انداز میں موضوعاتی ترتیب، ابواب بندی اور فہارس کے ساتھ مرتب کیاگیا اور مولانا محمد سرور عاصم ﷾نے اعلیٰ معیار اور بہترین طرز پر شائع کیا۔ شیخ کے تلمیذ خاص حافظ ندیم ظہیر ﷾ کی زیر نگرانی ان مقالات کی ترتیب وتبویب کا مزید کام جاری ہے۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عوام وخواص کے لیے مفید اورمصنف وناشرین کےلیے ذریعۂ نجات بنائے ۔(آمین)زیر نظر نسخہ الکتاب انٹرنیشنل ،دہلی سے طبع شدہ ہے(م۔ا)
قرآن کریم شریعت کے قواعد عامہ اوراکثر احکام کلیہ کا جامع ہے اسی جامعیت نے اس کو ایک ابدی اور دائمی حیثیت عطا کی ہے او رجب تک کائنات پرحق قائم ہے وہ بھی قائم ودائم رہے گا۔ سنت ِنبوی ان قواعد کی شرح وتوضیح کرتی ۔ ان کے نظم وربط کوبرقرار رکھتی اور کلیات سےجزئیات کا استخراج کرتی ہے یہ ایک درخشندہ حقیقت ہے جس سے ہر وہ شخص بخوبی آگاہ ہے جو سنت کے تفصیلی مطالعہ سے بہرہ مند ہ ہوچکا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر عصر وعہد کے علما وفقہا سنت پر اعتماد کرتے چلے آئے ہیں ۔ وہ ہمیشہ سنت کے دامن سے وابستہ رہے اور نئے حوادث وواقعات کے احکام اس سےاخذ کرتے رہے ۔قرآن کریم تمام شرعی دلائل کا مآخذ ومنبع ہے۔اجماع وقیاس کی حجیت کے لیے بھی اسی سے استدلال کیا جاتا ہے ،اور اسی نے سنت نبویہ کو شریعت ِاسلامیہ کا مصدرِ ثانی مقرر کیا ہے مصدر شریعت اور متمم دین کی حیثیت سے قرآن مجید کے ساتھ سنت نبویہ کوقبول کرنےکی تاکید وتوثیق کے لیے قرآن مجید میں بے شمار قطعی دلائل موجود ہیں۔اہل سنت الجماعت کا روزِ اول سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی ایک مستقل شرعی حیثت ہے ۔اتباعِ سنت جزو ایمان ہے ۔حدیث سے انکا ر واعراض قرآن کریم سے انحراف وبُعد کازینہ اور سنت سے اغماض ولاپرواہی اور فہم قرآن سے دوری ہے ۔سنت رسول ﷺکے بغیر قرآنی احکام وتعلیمات کی تفہیم کا دعو یٰ نادانی ہے ۔ اطاعت رسول ﷺ کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ رسو ل اکرم ﷺ کی اطاعت صرف آپﷺ کی زندگی تک محدود نہیں بلکہ آپﷺ کی وفات کے بعد بھی قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے فرض قرار دی گئی ہے ۔گویا اطاعتِ رسول ﷺ اورایمان لازم وملزوم ہیں اطاعت ہے تو ایمان بھی ہے اطاعت نہیں تو ایمان بھی نہیں ۔ اطاعت ِ رسول ﷺ کے بارے میں قرآنی آیات واحادیث شریفہ کے مطالعہ کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ دین میں اتباعِ سنت کی حیثیت کسی فروعی مسئلہ کی سی نہیں بلکہ بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے ۔اتباعِ سنت کی دعوت کو چند عبادات کے مسائل تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ یہ دعوت ساری زندگی پر محیط ہونی چاہیے۔جس طر ح عبادات(نماز ،روزہ، حج وغیرہ) میں اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق وکردار ،کاروبار، حقوق العباد اور دیگر معاملات میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔اللہ تعالیٰ نے ’’ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه (سورہ نساء:80) کا فرمان جاری فرماکر دونوں مصادر پر مہر حقانیت ثبت کردی ۔ لیکن پھر بھی بہت سارے لوگوں نے ان فرامین کو سمجھنے اور ان کی فرضیت کے بارے میں ابہام پیدا کرکے کو تاہ بینی کا ثبوت دیا ۔مستشرقین اور حدیث وسنت کے مخالفین نے حدیث کی شرعی حیثیت کو مجروح کر کے دینِ اسلام میں جس طرح بگاڑ کی نامسعود کوشش کی گئی اسے دینِ حق کے خلاف ایک سازش ہی کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن الحمد للہ ہر دو ر میں محدثین اور علماءکرام کی ایک جماعت اس سازش اور فتنہ کا سدباب کرنے میں کوشاں رہی اور اسلام کے مذکورہ ماخذوں کے دفاع میں ہمیشہ سینہ سپر رہی ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’حدیث رسولﷺ کا تشریعی مقام‘‘سوریا کے معروف مفکر جید عالم دین ڈاکٹر مصطفیٰ السباعی کی دفاع حدیث میں مشہور ومعرو ف کتاب ’’ السنة ومكانتها في التشريع‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ہے جسے مصنف موصوف نے 1949 میں جامعہ ازہر سے حصول ڈگری کے لیے بطور مقالہ پیش کیا ۔موصوف نے اس کتاب میں حدیث کا فقہ اسلامی میں مرتبہ ومقام کو پیش کیا ہے نیز یہ حدیث کن تاریحی مراحل وادوار سے گزر کر موجودہ مقام تک پہنچی او رعلماء نے اس کی صیانت وتحفظ میں کیا حصہ لیا؟ علاوہ ازیں ماضی وحال میں جن لوگوں نے فن حدیث کو ہدف ِ تنقید ونتقیص بنایا تھا مصنف نے بڑی پر وقار علمی انداز میں ان کی تردید کی ہے اور انہوں نے جرح وقدح کےلیے وہ طرز وانداز اختیار کیا جس سے حق نمایاں ہوجائے اور سنت مطہرہ کا چہرہ درخشاں وتاباں نظر آئے ۔اور کتاب کے آخر میں ان شہرۂ آفاق مجتہدین ومحدثیں کے سیر وسوانح پر روشنی ڈالی ہے جنہوں نے سنت کےحفظ وتدوین میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ اس اہم کتاب کےترجمہ کی سعادت معروف مترجم پروفیسر غلام احمد حریری (مترجم کتب کثیرہ )نے تقریبا 45سال قبل حاصل کی ۔اس کتاب کے پہلا اردو ایڈیشن 1971ء میں شائع ہوا۔ کتاب ہذا دوسرا ایڈیشن ہے جسے ملک سنز فیصل آباد نے 198ء میں شائع کیا ۔ ایک صاحب کی فرمائش پر یہ کتاب ویٹ سائٹ پر پیش کی گئی ۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومترجم کی دفاع حدیث کےسلسلے میں اس کاوش کو قبول فرمائے اور اہل علم اور طالبان ِعلوم نبوت کے لیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کی نفسیاتی تربیت میں اہم کراداکرتی ہے ۔ نفس کی طہارت ، اس میں پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام او ر نیکیوں میں سبقت حاصل کرنے کی طلب روزے کے بنیادی اوصاف میں سے ہیں۔ اس لیے یہ لازم ہے کہ ہم روزےکو قرآن وسنت کی روشنی میں رکھنے ، افطار کرنے اور اس کے شرائط وآداب کو بجا لانے کا خصوصی خیال رکھیں۔دورِ سلف کی نسبت دورِ حاضر میں بہت سے جسمانی بیماریاں رونما ہورہی ہیں نیز طب میں جدید آلات اور دوا کے استعمال میں گوناگوں طریقے منظر عام آچکے ہیں بوقت ضرورت ان سے فائدہ اٹھانا ایک معمول بن چکا ہے۔روزے کے عام احکام ومسائل کے حوالے سے اردوزبان میں کئی کتب اور فتاوی جات موجود ہیں لیکن روزہ او رجدید طبی مسائل جاننےکےلیے اردو زبان میں کم ہی لٹریچر موجود ہےکہ جس سے عام اطباء او ر عوام الناس استفادہ کرسکیں۔ زیر نظر کتابچہ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نےانہی لوگوں کی آسانی کے لیے مختصراً ترتیب دیاہےموصوفہ نے مختلف اہل علم کے فتاویٰ جات سے استفادہ کر کے اسے آسان فہم انداز میں مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے اور محترمہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔آمین( م۔ا)
انسا ن کو بیماری کا لاحق ہو نا من جانب اللہ ہے اوراللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج بھی نازل فرمایا ہے جیسے کہ ارشاد نبویﷺ ہے ’’ اللہ تعالی نے ہر بیماری کی دواء نازل کی ہے یہ الگ بات ہے کہ کسی نےمعلوم کر لی اور کسی نے نہ کی ‘‘بیماریوں کے علاج کے لیے معروف طریقوں(روحانی علاج،دواء اور غذا کے ساتھ علاج،حجامہ سے علاج) سے علاج کرنا سنت سے ثابت ہے ۔ روحانی اور جسمانی بیماریوں سےنجات کے لیے ایمان او ر علاج کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے اگر ایمان کی کیفیت میں پختگی ہو گی تو بیماری سے شفاء بھی اسی قدر تیزی سے ہوگی ۔نبی کریم ﷺ جسمانی وروحانی بیماریوں کا علاج جن وظائف اور ادویات سے کیا کرتے تھے یاجن مختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے آپﷺنے جن چیزوں کی نشاندہی کی اور ان کے فوائد ونقصان کو بیان کیا ان کا ذکر بھی حدیث وسیرت کی کتب میں موجو د ہے ۔ کئی اہل علم نے ان چیزوں ک یکجا کر کے ان کو طب ِنبوی کا نام دیا ہے ۔ان میں امام ابن قیم کی کتاب طب نبوی قابل ذکر ہے او ردور جدید میں ڈاکٹر خالد غزنوی کی کتب بھی لائق مطالعہ ہیں۔طب کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کو بطور علم پڑھا جاتارہا ہے اور کئی نامور ائمہ ومحدثین ماہر طبیب بھی ہوا کرتے تھے۔ہندوستان میں بھی طب کو باقاعدہ مدارس ِ اسلامیہ میں پڑھایا جاتا رہا ہے اور الگ سے طبیہ کالج میں بھی قائم تھے ۔ اور ہندوستان کے کئی نامور علماء کرام اور شیوخ الحدیث ماہر طبیب وحکیم تھے ۔محدث العصر علامہ حافظ محمد گوندلوی نے طبیہ کالج دہلی سے علم طب پڑھا اور کالج میں اول پوزیشن حاصل کی ۔کئی علماء کرام نے علم طب حاصل کر کے اسے اپنے روزگار کا ذریعہ بنائے اور دین کی تبلیغ واشاعت کا فریضہ فی سبیل اللہ انجام دیا ۔ لیکن رفتہ رفتہ علماء میں یہ سلسلہ ختم ہوتاگیا اب خال خال ہی ایسے علماء نظر آتے ہیں کہ جوجید عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر ومستند حکیم وڈاکٹر بھی ہوں۔الحمد للہ مولانا حکیم مبشر علی حسن ﷾ (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور )ان علماء میں سے ایک ہیں جو اچھے عالم دین ، اچھے خطیب وواعظ ہونےکے ساتھ ساتھ ماہر تجربہ کا ر حکیم ہیں اور طب کے موضوع پر تقریبا چار کتب(تشخیص صابر ،کلیات صابر، انسائیکلو پیڈیا آف طب نبویﷺ، تحقیقات علم النباتات ) کے مصنف ہیں ۔ اور لاہور میں مطب بخاری کے نام سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔موصوف کے تقریبا 70 اطباء شاگرد پنجاب بھر میں مصروف عمل ہیں۔ طب کےمیدان میں ان کی حسنِ کارکردگی کے اعتراف میں ان کی مادر علمی جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور نے فروری 2014میں انہیں اعزازی شیلڈ سے نوازا ہے۔ اور حال ہی میں موصو ف نے ’’جامعۃ الامام البخاری‘‘ کے نام سے ایک دینی ادارے کا آغازکیا ہے جس میں دینی و عصر ی علوم کے ساتھ ساتھ طب وحکمت کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی تمام مساعی جمیلہ کوشرفِ قبولیت سے نوازے (آمین) زیر نظر کتاب’’تشخیص صابر‘‘ مولانا حکیم مبشر علی حسن ﷾ کی تصنیف ہے جو کہ انہوں نے بطور ہدیہ ویب سائٹ پر پبلش کرنے کے لیے عنائیت کی ۔ یہ کتاب طبِ قدیم کے بنیادی اصولوں اور جدید میڈیکل سائنس کی تحقیق (لیبارٹری ٹیسٹوں)سے تشخیصی مطابقت کے اسرار ورموز کامجموعہ ہے جسے فاضل مصنف نے جدید طبی تحقیق قانون مفرد اعضاءکی روشنی میں بیان کر دیا ہے۔ تاکہ مبتدی حضرات علم سریریات یعنی علم تشخیص سے آگاہ ہوسکیں۔اس کتاب میں انہوں نے تشخیص کے پانچ بنیادی ذرائع کے متعلق ٹھوس معلومات بھی جمع کردی ہیں جس سے تعارف رکھنا ہر معالج کی بنیادی ضرورت ہے کیونکہ صحیح تشخیص ہی صحیح علاج کی اساس ہے ۔(م۔ا)
اسلام نے ولی سربراہ خاندان کویہ حق عطا کیا ہے کہ اگر سربراہِ خاندان اپنے علم ،تجربہ اور خیر خواہی کے تحت یہ محسوس کرتا ہے کہ فلاں فرد کےفلاں کام سے خاندانی وقار مجروح ہوگا ۔یااس فرد کودینی ودنیوی نقصان پہنچے گا تو وہ اسے اس کام سے بالجبر بھی باز رکھ سکتاہے۔ البتہ جوحقوق اسلام نے فرد کوذاتی حیثیت سے عطا کیے ہیں سربراہ کاجان بوجھ کر انہیں پورا نہ کرنا یا افراد پر ان کے حصول کے حوالے سےپابندی عائد کرنا درست نہیں اور اسلام میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ولایت ِنکاح کا مسئلہ یعنی جوان لڑکی کے نکاح کے لیے ولی کی اجازت او ررضامندی ضروری ہے قرآن وحدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ کسی نوجوان لڑکی کو یہ اجازت حاصل نہیں ہے کہ وہ والدین کی اجازت اور رضامندی کے بغیر گھر سے راہ ِفرار اختیار کرکے کسی عدالت میں یا کسی اور جگہ جاکر از خود کسی سے نکاح رچالے ۔ایسا نکاح باطل ہوگا نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت ،رضامندی اور موجودگی ضروری ہے ۔ لیکن موجودہ دور میں مسلمانوں کے اسلام سے عملی انحراف نے جہاں شریعت کے بہت سے مسائل کوغیر اہم بنادیا ہے ،اس مسئلے سے بھی اغماض واعراض اختیار کیا جاتاہے -علاوہ ازیں ایک فقہی مکتب فکر کے غیر واضح موقف کو بھی اپنی بے راہ روی کے جواز کےلیے بنیاد بنایا جاتاہے ۔زیر نظر کتابچہ ’’نکاح میں ولی کی حیثیت‘‘محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی کاوش ہے جس میں انہو ں نے ولی کے معنی ومفہوم کو بیان کرنے کےبعد نکاح میں ولی کی اہمیت وضرورت اور بغیر ولی کے نکاح کرنے کا نقصان اور اس نکاح کی شرعی حیثیت کو قرآن وحدیث اور فقہاء ومحدثین عظام کی آراء اور اقوال کی روشنی میں آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
دینِ اسلام کا جمال وکمال یہ ہے کہ یہ ایسے ارکان واحکام پر مشتمل ہے جن کا تعلق ایک طرف خالق ِکائنات اور دوسری جانب مخلوق کےساتھ استوار کیا گیا ہے ۔ دین فرد کی انفرادیت کا تحفظ کرتے ہوئے اجتماعی زندگی کوہر حال میں قائم رکھنے کاحکم دیتاہے۔اس کے بنیادی ارکان میں کوئی ایسا رکن نہیں جس میں انفرادیت کے ساتھ اجتماعی زندگی کو فراموش کیا گیا ہو ۔انہی بینادی ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن زکوٰۃ ہے۔ عربی زبان میں لفظ ’’زکاۃ‘‘ پاکیزگی ،بڑھوتری اور برکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔جبکہ شریعت میں زکاۃ ایک مخصوص مال کے مخصوص حصہ کو کہا جاتا ہے جو مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے ۔اور اسے زکاۃ اس لیے کہاجاتا ہے کہ اس سے دینے والے کا تزکیہ نفس ہوتا ہے اور اس کا مال پاک اور بابرکت ہوجاتا ہے۔ نماز کے بعد دین اسلام کا اہم ترین حکم ادائیگی زکاۃ ہے ۔اس کی ادائیگی فر ض ہے اور دینِ اسلام کے ان پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جن پر دین قائم ہے۔زکاۃ ادا کرنےکے بے شمار فوائد اور ادا نہ کرنے کے نقصانات ہیں ۔قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں تفصیل سے اس کے احکام ومسائل بیان ہوئے ۔جو شخص اس کی فرضیت سےانکار کرے وہ یقینا کافر اور واجب القتل ہے ۔یہی وجہ کہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق نے مانعین زکاۃ کے خلاف اعلان جنگ کیا۔اور جو شخص زکاۃ کی فرضیت کا تو قائل ہو لیکن اسے ادا نہ کرتا ہو اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔جس کی وضاحت سورہ توبہ کی ایت 34۔35 اور صحیح بخاری شریف کی حدیث نمبر1403 میں موجود ہے ۔ اور اردو عربی زبان میں زکوٰۃ کے احکام ومسائل کےحوالے سے بیسیوں کتب موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ زکوٰۃ کے مسائل وفوائد ‘‘سابق ناظم اعلی مرکزی جمعیت اہل حدیث ،کنونئیر تحریک دعوت توحید ،پاکستان ،مدیر وبانی ابو ھریرہ اکیڈمی ،لاہور محترم میاں محمد جمیل ایم اے ﷾ کی کاوش ہے۔ جس میں انہوں نے زکوٰۃ کی اہمیت وفضیلت ،تاریخ ، فوائد وثمرات اور زکوٰۃ کے جملہ احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کے دلائل کی روشنی میں بڑے آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے۔ موصوف اس کتاب کے علاوہ بھی تقریبا ایک درجن کتب کے مصنف ہیں۔ اوردینی وعصری علوم کےمعیاری ادارے ابوھریرہ اکیڈمی چلانے کے علاوہ پاکستان میں دعوتِ توحید کوعام کرنے کے لیے ’’تحریک دعوت توحید‘‘ کی قیادت کرتے ہوئے شرک وبدعات کے خاتمے کےلیے بڑے فعال ہیں۔اللہ تعالیٰ موصوف کی تصنیفی،تبلیغی واصلاحی خدمات کوشرفِ قبولیت سے نوازے اور کتاب ہذا کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے۔آمین( م۔ا)
الحمد لله والصلاة والسلام علىٰ رسول الله ﷺأما بعد: فإن كتاب"الماتريدية وموقفهم من الأسماء والصفات اللّهية " للشيخ شمس الدين السلفي الأفغاني رحمه الله من أهمّ الكتب المصنفة في فهم عقيدة السلف الصّالح وردّ شبهات الزائغين عنها ولكن مع الأسف أن الطبعة الأولىٰ من هذا الكتاب التي نشرته مكتبة الصديق بالطائف عام1431هـ-1993ء كانت مليئة بالأخطاء المطبعية حتىٰ بلغت أخطائها قريبا من 450 خطأ فربما يصعب على القارئ فهم مراد المؤلف في بعض المواضع وبعد مدة طويلة قد طبع الكتاب بعد إصلاح أخطائه و تصحيحها فعلىٰ قارئيه و المستفيدين منه و المحبين لعقيدة السلف أن يختاروا هذه الطبعة الجديدة لأنها طبعة جيدة خالية صافية عن الأخطاء فليسهل عليهم فهم المراد من الكتاب - (إن شاء الله تعالىٰ) علما أنه يوجد هذا الكتاب على انترنت من قبل الذي طبع من المكتبة المذكورة مليئة بالأخطاء المطبعية- فلفت أنظارنا الشيخ أبو سيف جميل (أستاد الحديث والفقه في جامعة الدعوة الإسلامية، باكستان خريج من الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة) إلى الطبعة المصححة وأرسلها إلينا فصورناها ونقدمها على انترنت لیستفد الناس من طبعة جديدة خالية عن الأخطاء
بیوٹی پالر سے مراد ایسے مقامات ہیں جہاں عورتیں ،مرد اور بچے اپنے جسم کے فطری حسن اور فطری رنگ و روپ کی بجائے اضافی زیب وزینت اور من پسند رنگ وروپ حاصل کرنے کے لئے رجوع کرتے ہیں۔ایسے بیوٹی پالرز کا خیال سب سے پہلے رومی قوم میں پیدا ہوا جو لوگ روح کی بجائے جسم کے عیش، آرام ،اس کی لذتوں اور آرائش کو ترجیح دیتے تھے۔وہ اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے زر خرید لونڈیوں کی جسمانی نگہداشت کرتے ،انہیں طرح طرح کے فیش کروا کر سجاتے بناتے اور پھر ان کے اپنی نفسانی خواہشات پوری کرتے تھے۔موجودہ زمانے کے بیوٹی پالر بھی انہی قباحتوں اور برائیوں کو اپنے اندار لئے ہوئے ہیں،اور ان کی آڑ میں ہونے والے بے حیائی کے واقعات دیکھ اور سن کر انسانی روح کانپ اٹھتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "سنگھار خانے "معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے جسمانی زیب وزینت کے لئے شرعی تقاضوں کا لحاظ رکھنے ،اور برائی وبے حیائی کے ان اڈوں سے دور رہنے کی ترغیب دی ہے ۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)(م۔ا)
قرآن مجید میں انبیاء کرام کے واقعات کے ضمن میں انبیاء کی دعاؤں او ران کے آداب کاتذکرہ ہوا ہے ۔ ان قرآنی دعاؤں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے سب سے برگزیدہ بندے کن الفاظ سے کیا کیا آداب بجا لاکر کیا کیا مانگا کرتے تھے ۔ انبیاء کی دعاؤں کو جس خوبصورت انداز سے قرآن مجید نے پیش کیا ہے یہ اسلوب کسی آسمانی کتاب کے حصے میں بھی نہیں آیا ۔ ان دعاؤں میں ندرت کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر قسم کی ضرورت کے بہترین عملی اور واقعاتی نمونے بھی ہماری راہنمائی کے لیے فراہم کردیئے گئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ قرآنی اور مسنون دعائیں‘‘ کودعاؤوں کے حوالےسے مشہور ومعروف مقبول عام کتاب ’’حصن المسلم ‘‘ کے مؤلف فضیلۃ الشیخ سعید بن علی ین وہف القحطانی﷾ نےترتیب دیا ہے ۔اس میں انہوں نے دعا کی قبولیت کے اوقات،آداب، وغیرہ کوتفصیلا بیان کرنے کے بعد قرآن وسنت سے ثابت شدہ 79 دعائیں مع تخریج پیش کی ہیں ۔اردو دان طبقے کے لیے ادارہ تبلیغ اسلام ،جامپور نے حافظ ابو بکر ظفر﷾ سے ترجمہ کروا کر محترم خلیل احمد ملک صاحب کے تعاون سے فی سبیل اللہ شائع کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کتاب ہذا کے مصنف،مترجم اور ناشرین کی حسنات کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے ۔ آمین (م۔ا)
متحدہ پنجاب کے جن اہل حدیث خاندانوں نے تدریس وتبلیغ اور مناظرات ومباحث میں شہرت پائی ان میں روپڑی خاندان کےعلماء کرام کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔روپڑی خاندان میں علم وفضل کے اعتبار سے سب سے برگزیدہ شخصیت حافظ عبد اللہ محدث روپڑی(1887ء۔1964) کی تھی، جو ایک عظیم محدث ،مجتہد مفتی اور محقق تھے ان کے فتاویٰ، ان کی فقاہت اور مجتہدانہ صلاحیتوں کے غماز او ر ان کی تصانیف ان کی محققانہ ژرف نگاہی کی مظہر ہیں۔ تقسیمِ ملک سے قبل روپڑ شہر (مشرقی پنجاب) سے ان کی زیر ادارت ایک ہفتہ وار پرچہ ’’تنظیم اہلحدیث‘‘ نکلتا رہا، جو پاکستان بننے کے بعد اب تک لاہور سے شائع ہو رہا ہے۔ محدث روپڑی تدریس سے بھی وابستہ رہے، قیامِ پاکستان کے بعد مسجد قدس (چوک دالگراں، لاہور) میں جامعہ اہلحدیث کے نام سے درس گاہ قائم فرمائی۔ جس کے شیخ الحدیث اور صدر مدرّس اور ’’تنظیم اہلحدیث‘‘ کے مدیر وغیرہ سب کچھ وہ خود ہی تھے، علاوہ ازیں جماعت کے عظیم مفتی اور محقق بھی۔اس اعتبار سے محدث روپڑی کی علمی و دینی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، وہ تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ رہے اور کئی نامور علماء تیار کئے، جیسے حافظ عبدالقادر روپڑی ،حافظ اسمٰعیل روپڑی ، مولانا ابوالسلام محمد صدیق سرگودھوی ، مولانا عبدالسلام کیلانی ، حافظ عبد الرحمن مدنی ،مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہما اللہ وغیرہم۔ ’’تنظیم اہلحدیث‘‘کے ذریعے سے سلفی فکر اور اہلحدیث مسلک کو فروغ دیا اور فرقِ باطلہ کی تردید کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اجتہاد و تحقیق کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا، فتویٰ و تحقیق کے لئے وہ عوام و خواص کے مرجع تھے۔ ۔ چنانچہ اس میدان میں بھی انہوں نے خوب کام کیا۔ ان کے فتاویٰ آج بھی علماء اور عوام دونوں کے لئے یکساں مفید اور رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ مذکورہ خدمات کے علاوہ مختلف موضوعات پر تقریبا 80تالیفات علمی یادگار کے طور پر چھوڑیں، عوام ہی نہیں، علماء بھی ان کی طرف رجوع کرتے تھے او ران کی اجتہادی صلاحیتوں کے معترف تھے ۔مولانا عبدالرحمن مبارکپور ی (صاحب تحفۃ الاحوذی )فرماتے ہیں حافظ عبد اللہ روپڑی جیسا ذی علم اور لائق استاد تمام ہندوستان میں کہیں نہیں ملےگا۔ہندوستان میں ان کی نظیر نہیں۔زیر تبصرہ کتاب ’’ درایت تفسیری‘‘ مجتہد العصر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کی اصول تفسیر کے موضوع پرایک اہم اور بے مثال تالیف ہے ۔یہ کتاب محدث روپڑی کی تعلیمی دور سے فراغت کے بعد پہلی کتاب ہے ۔ یہ کتاب دراصل محدث روپڑی نے فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری کی کتاب کے رد میں لکھی تھی ۔ اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے مینجر اخبار ’’تنظیم اہلحدیث ‘‘ روپڑ ضلع ابنالہ لکھتے ہیں :’’آج کا خصوصیت کے ساتھ کچھ ایسی آزادی ہوگئی ہے کہ ہرفرقہ قرآن مجید سے استدلال کرتا ہے اور تروڑ مروڑ کر اپنے موافق کرلیتا ہے ۔ اس رسالہ میں بتلایا گیا ہے کہ کن اصولوں پر تفسیر کرنی چاہیے اور صحیح تفسیر کونسی ہے ‘‘اللہ تعالیٰ محدث روپڑی کی مرقد پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطافرمائے (آمین) (م۔ا)
محبت ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میںبیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے اسی طرح معاشرہ میں ہر فرد اس کامتلاشی نظر آتا ہے اگرچہ ہرمتلاشی کی سوچ اورمحبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تویہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام محبت اوراخوت کا دین ہے اسلام چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت،پیار اوراخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کوغلط رنگ دے کرمحبت کے لفظ کو بدنام کردیا گیا او ر معاشرے میں محبت کی بہت ساری غلط صورتیں پید ہو چکی ہیں اسکی ایک مثال عالمی سطح پر ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ کا منایا جانا ہے ہر سال۱۴ فروری کو عالمی یومِ محبت کےطور پر ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے منایا جانے والا یہ تہوار ہر سال پاکستان میں دیمک کی طر ح پھیلتا چلا جارہا ہے ۔ جو کہ اہل مغرب کے اوباش طبقے کا پسندیدہ تہوار ہے ۔اس د ن جوبھی جس کے ساتھ محبت کا دعوے دار ہے اسے پھولوں کا گلدستہ پیش کرتا ہے۔ زیر نظر مختصر کتابچہ ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی کاوش ہے اس کتاب میں ویلنٹائن ڈے کی تاریخ ،اس کے فروغ میں میڈیا کا کردار، ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت جیسے موضوعات کو مختصرا بیان کیا ہے اللہ مصنفہ کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے اور ان کی اس کاوش کو معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ (آمین)(م۔ا)
اسلامی معاشرے میں نامحرم مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے سے حجاب میں رہنا ایک جانا پہچانا طریقہ ہے جس کا مقصد مرد وعورت کےدرمیان ناجائز خواہشات کےہر داعیے کو روکنا ہے۔ان میں سب سے پہلے خطرناک چیز نظر ہے جونامحرم مرد عورت پر پڑتے ہی اپنے صاحب کےدل میں ایک طوفان بپا کردیتی ہے ۔ ناجائز تعلقات کاآخری فعل زنا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کلیۃً حرام قرار دیا اورلاتقربوا الزنا فرماکر اسی فعل بد سے بچانے کےلیے محرم پر نظر اٹھانے سے لے کر اس آخری فعل تک جو جو مرحلے آتے ہیں ۔جو چیزیں اسباب بنتی ہیں ۔ان سب کوحرام قرار دیا گیا۔اس لیے نامحرم مرد اورعورت کے درمیان حجاب اسلامی معاشرے کا معروف طریقہ ہے اور حجاب کےاحکام نازل ہونے کے ساتھ ہی اس پر صحابیات اور صحابہ نے فوری عمل کرنا شروع کردیا تھا۔لیکن دور ِ حاضر میں اکثریت اس بات پر اڑی ہوئی ہے کہ اجنبی مرد اورعورت کے درمیان کسی درمیان کسی دیوار کپڑے یا کسی اور چیزکی آڑ ہونا یا عورت کا اپنے چہرے کوڈھانپ کر اجنبی مرد کے سامنے آنا اسلامی طریقہ نہیں بلکہ ایجا ملا ہے۔ پردے کی شرعی حیثیت ،اہمیت وفرضیت کے سلسلے کئی اہل علم نے اردو وعربی زبان میں مستقل کتب تصنیف کی ہیں۔زیر نظر کتابچہ ’’پردے کی اوٹ سے ‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے اپنے آسان فہم انداز میں مرتب کیا ہے ۔جس میں انہوں نے پردے کے جملہ احکام ومسائل کواحادیث نبویہ اورآیات قرآنیہ کی روشنی میں بیان کیا ۔اللہ اس کتابچہ خواتینِ اسلام کے لیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہدایت ہے جس کا مطالعہ نہ صرف مسلمانوں نے بلکہ بعض غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔اگرچہ ان کے اپنے مخصوص مقاصد تھے جس کے تحت انہوں نے یہ کام کیا۔زیر تبصرہ کتاب " دینی اخلاقیات کے قرآنی مفاہیم " پروفیسر از تسو کی کتاب "قرآن کریم کی اخلاقی اصطلاحات کا معنویاتی مطالعہ" کا اردو ترجمہ ہے۔یہ کتاب پہلی مرتبہ 1959ء میں کائیو یونیورسٹی جاپان سے شائع ہوئی تھی اور اس پر انہیں 1960ء میں اسی یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف لٹریچر کی ڈگری ملی تھی۔بعد میں انہوں نے اس پر نظر ثانی کی اور 1966ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن میکگل یونیورسٹی،مانٹریال کینیڈا سے شائع کیا۔قرآن مجید کا معنویاتی مطالعہ کیسے کیا جائے ،اس موضوع پر یہ ایک بے حد وقیع کتاب ہے۔1981ء میں اس کتاب کا فارسی میں بھی ترجمہ ہوا ۔کتاب کی اہمیت کے پیش نظر خیال ہوا کہ اسے اردو قارئین تک بھی پہنچنا چاہئے۔چنانچہ ڈاکٹر محمد خالد مسعود نے اس کا اردو ترجمہ کر دیا اور ادارہ ثقافت اسلامیہ نے اسے شائع کر کے قارئین کی نذر کردیا ہے۔اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے غیر مسلم مستشرقین ایسے ہیں جنہوں نے قرآن مجید کا مطالعہ کر کے اس کے مختلف موضوعات پر قلم آزمائی بھی کی ہے۔یہ کتاب قرآن مجید کے معنویاتی مطالعہ کے حوالے سے ایک مفید کتاب ہے ،فلسفہ کے طالب علم کے لئے اس کا مطالعہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔(راسخ)
علم دين اہل اسلام کی بنیادی ضرورتوں میں سے سب سے زیادہ ضروری ہے اس لیے کہ یہ دنیا میں سعادت مندی اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ہر دور میں علم ِدین کی مشتاق رہی ہے اور علماء وشیوخ کے حلقاتِ دروس سے مستفید ہونے کے لیے اہل ایمان نے اپنے گھر بار چھوڑے، دوسرے شہروں اور ممالک کی طرف لمبے لمبے سفر کیے اور علم کی پیاس بجھانے کی خاطر طرح طرح کی صعوبتیں اٹھائی ہیں ۔حصو ل علم کاشوق اور رغبت پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ علم ایسی دولت ہے جوصرف اسے ملتی ہے جس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے ۔اس عظیم وپاکیزہ علم کو پانے کے لیے بہت سے احباب جب تیار ہوجاتے ہیں تو طرح طرح کے سوالات ان کےذہنوں میں تذبدب پیدا کرنے لگتے ہیں کہ میں کہاں سے تعلیم حاصل کروں؟ کو ن سا ادارہ اور کس ادارے کا نصاب میرے لیے مفید ہوگا؟ اور تعلیم کےبعد میرا مستقبل کیا ہوگا ؟ توایسی صورت حال میں ان سوالات کےجوابات مہیا کرنا اور اس کےبعد متلاشیانِ علم کو کامیاب اورمثالی شخصیات بننے کےلیے علم کے آداب ، حصول علم کے فوائد وثمرات اوراس کےاغراض ومقاصد سے متعارف کروانا بہت ضروری ہے ۔زیر تبصرہ کتاب’’اچھا عالم بننے کےلیے...! ‘‘ سعودی عرب کے جید عالم دین فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز السدحان کی ایک عربی کتاب کا سلیس ورواں اردو ترجمہ ہے ۔جوکہ طالبانِ علوم نبوت کےلیے ایک قابل قدر کاوش ہے جس میں مصنف موصوف نے طلباء کے تعلیمی مسائل وامور کے بارے میں آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ اور اسلاف کرام کےمفید پندو نصائح وران کی محنت ہائے شاقہ کے واقعات کے ذریعے بڑے احسن انداز میں طالبانِ علوم نبوت کی راہنمائی کی ہے۔دینی طلبہ وطالبات کے علاوہ عصری علوم کےحاملین بھی اس سے برابر استفادہ کرسکتے ہیں ۔حصولِ علم کے آداب ،مثالی طالب علم اور اچھا عالم بننے کے زریں اصولوں پر مشتمل اس کتاب کاترجمہ کرنے کی سعادت فضیلۃ الاخ محترم حافظ فیض اللہ ناصر ﷾(فاضل جامعہ لاہور اسلامیہ ،لاہور) نے حاصل کی ہے موصوف اس کتاب کے علاوہ بھی تقریبا نصف درجن کتب کےمترجم ومرتب ہیں۔تصنیف وتالیف وترجمہ کے میدان میں موصوف کی حسن کارکردگی کے اعتراف میں ان کی مادر علمی جامعہ لاہورالاسلامیہ،لاہور نے2014ء کے آغاز میں انہیں اعزازی شیلڈ وسند سے نوازاہے ۔اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل اور زورِ قلم میں اضافہ فرمائے (آمین) (م۔ا)
قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سینکڑوں موضوعات پرمشتمل ہے۔ مختلف اہل علم نے اس حوالے سے كئی کتب تصنیف کی ہیں علامہ وحید الزمان کی ’’تبویب القرآن فی مضامین الفرقان ‘‘، شمس العلماء مولانا سید ممتاز علی کی ’’ اشاریہ مضامین قرآن ‘‘ اور ’’مضامین قرآن‘‘از زاہد ملک قابل ذکر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اشاریہ مضامین قرآن؍تفصیل البیان فی مقاصد القرآن‘‘شمس العلماء مو لانا سید ممتاز علی کی قرآن میں بیان شدہ مضامین کو جاننے کے لیے ایک اہم کاوش ہے۔ موصوف 1860ء کو راولپنڈی میں ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنےکےبعددار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور وہاں ممتاز اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ۔آپ زندگی بھر تصنیف وتالیف کے کام سے منسلق رہے ۔آپ نے چار رسالوں کااجراء کیا اور تقریبا 14 کتب تصنیف کیں جن میں سےاہم ترین کتاب’’ تفصیل البیان فی مقاصد القرآن‘‘ ہے ۔یہ موصوف کا بڑا علمی کارنامہ ہے جس کو آپ نے پچیس برس کی محنت سے ترتیب دیا ۔یہ آیات قرآنی کا ایک مبسوط اشاریہ ہے جو معانی ومطالب کےاعتبار سے مرتب کیا گیا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک موضوع ایک ہی مقام پر بیان نہیں ہوا بلکہ ایک عنوان پر روشنی ڈالنے والی متعدد آیات مختلف مقامات پر ملتی ہیں ۔لٰہذا جوشخص کسی خاص موضوع کے ذیل میں آنے والی تمام آیات سے بیک وقت باخبر ہو نا چاہتا ہو اس کے لیے یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ پورا قرآن مجید شروع سے آخر تک نہ پڑھ لے اور یہ ایک دقت طلب مسئلہ ہے ضرورت اس امر کی تھی کہ قرآن میں بیان شدہ تمام موضوعات سےمتعلق آیات ایک ہی مقام پرجمع کردی جائیں۔تاکہ ان سے کما حقہ استفادہ کیاجاسکے ۔اس ضرروت کے پیش نظر مولانا سید ممتاز علی نے نہایت جانفشانی اور عرق ریزی سے پانچ ہزار سے زائد عنوانات کا تعین کیا جو قرآن مجید کی جملہ آیا ت سے قائم ہو سکتے ہیں اور پھر ان کےذیل میں آنے والی تمام آیات ایک مقام پر جمع کردیں اور ساتھ ساتھ ان کا ترجمہ بھی درج کردیا ہے۔یہ کتاب سات حصوں(کتاب العقائد،کتاب الاحکام، کتاب الرسالت،کتاب المعاد، کتاب الاخلاق، کتاب بدء الخلق، کتاب القصص) پر مشتمل ہے ۔ یہ کتاب قرآن مجید کے مضامین کو سمجھے او رجاننے کے لیے انتہائی مفید اور ہر لائبریری اور گھر میں رکھنے کے لائق ہے ۔ علماء واعظین ، مدرسین ، اورمناظرین کے لیے از بس مفید ہے۔ اللہ تعالی مصنف کی اس عظیم کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے۔ آمین ( م۔ا)
دنیا اپنی روانگی میں چل رہی ہوگی کہ اچانک ایک زوردار آواز سے سب کچھ فنا ہوجائے گا سوائے رب العالمین کے ۔ پھر دوسری بار آواز آئےگی اور ساری کائنات اپنی اپنی قبروں سے اٹھےکر ننگے بدن ،ننگے پاؤں میدان محشر کی طرف دوڑیں گے جو شام کے علاقے کی طرف سجایا جائے گا۔ سب میدان محشر میں پہنچے گے ۔ تو سب کےہاتوں میں نامۂ اعمال دے دیے جائیں گے ۔ اہل ایمان کےدائیں ہاتھ میں اور کفار ومشرکین کےبائیں ہاتھ میں،اہل ایمان تو خوش ہوکر دوسروں کواپنا نامۂ اعمال دکھائیں اور پڑھائیں گے جبکہ کفار ومشرکین پریشان ہوگے اور کہیں گے:کاش! ہمیں یہ نہ دیا جاتا اور ہمیں ہمارا حساب معلوم ہی نہ ہوتا ۔نامۂ اعمال کی تقسیم کے بعد سوال وجواب ہوں گے۔ مشرکوں اور کافروں سے سوال ہوں گے وہ ہر چیز کاانکار کردیں گے۔اور اسی طرح عمر ،جوانی ، رزق، علم، کے متعلق سوال ہوں گے۔ حقوق اللہ میں سب سے پہلے نماز اور حقوق العباد میں سے قتل خون اور جھگڑوں کے متعلق سوال ہوگا۔ اور ہر ایک کے متعلق عدالت الٰہی میں عدل سے فیصلہ ہوگا۔پھر اللہ تعالیٰ سب کے اعمال کاوزن کرے گا۔اعمال کےوزن کےبعد سب کوپل صراط سے گزرنا پڑے گا۔پھر سب سے پہلے جناب محمد ﷺ اپنی امت کولے کر جنت میں داخل ہوں گے۔مذکورہ سطور میں اس میدان محشر کامختصر خاکہ پیش کیا گیا ہے کہ جس سے ہر آدمی گو گزرنا ہے یہ دن اس قدر سخت ہے کہ بچے بوڑھے ہوجائیں گے او رمائیں اپنے حمل گرادیں گی اور اپنے بچوں کوبھول جائیں گی۔ اس دن کچھ اعمال ایسے بھی ہوں گے۔ جو بندوں کواس دن کی ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھیں گے اور کچھ اعمال ایسے بھی ہوں گے جو اس دن ذلت و رسوائی میں مبتلا کردیں گے۔زیر نظر کتابچہ ’’ میدان محشر میں عزت اور ذلت پانے ولے لوگ‘‘میں مولانا محمد عظیم حاصل پوری ﷾ (مدیرماہنامہ المحمدیہ،حاصل پور )نے انہی مفید اعمال کوشمار کرکےیہ تلقین کی ہے کہ ہم سب ایسے اعمال کریں جو میدان محشر میں عزت بخشیں اور ان اعمال سےبچیں جو ہمیں ذلت دسے سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے۔ آمین (م۔ا)
عورت کے لیے پردے کاشرعی حکم اسلامی شریعت کا طرہ امتیاز اور قابل فخر دینی روایت ہے ۔اسلام نے عورت کو پردےکا حکم دے کر عزت وتکریم کے اعلیٰ ترین مقام پر لاکھڑا کیا ۔پردہ کاشرعی حکم معاشرہ کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ مردکی تمام تر جنسی کمزوریوں کا کافی وشافی علاج ہے ۔اس لیے دخترانِ اسلام کو پردہ کے سلسلے میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی بجائے فخریہ انداز میں اس حکم کو عام کرنا چاہیے تاکہ پوری دنیا کی خواتین اس کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔اللہ تعالیٰ کے حکم کی رو سے عورت پر پردہ فرض ِعین ہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں ا یک سے زیادہ جگہ پر آیا ہے اور کتبِ احادیث میں اس کی صراحت موجو د ہے ۔کئی اہل علم نے عربی واردو زبان میں پردہ کے موضوع متعدد کتب تصنیف کی ہیں۔زیر کتابچہ’’ ستر وحجاب اور خواتین‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی کاوش ہے جسے انہوں جید علماء کرام کے فتاوی جات سے ستروحجاب کے متعلق فتا ویٰ کا انتخاب کرکے ان کا آسان فہم ترجمہ پیش کیا ہے ۔اللہ محترمہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور خواتینِ اسلام کو اس سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)(م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کے اندر نیکی اور بدی کے پہچاننے کی قابلیت اور نیکی کو اختیار کرنے اور بدی سے بچنے کی خواہش ودیعت کردی ہے ۔تمام انبیاء کرام نے دعوت کے ذریعے پیغام الٰہی کو لوگوں تک پہنچایا اوران کو شیطان سے بچنے اور رحمنٰ کے راستے پر چلنے کی دعوت دی ۔دعوتِ دین اور احکام شرعیہ کی تعلیم دینا شیوۂ پیغمبری ہے ۔تمام انبیاء و رسل کی بنیادی ذمہ داری تبلیغ دین اور دعوت وابلاغ ہی رہی ہے،امت مسلمہ کو دیگر امم سے فوقیت بھی اسی فریضہ دعوت کی وجہ سے ہے۔ اور دعوت دین ایک اہم دینی فریضہ ہے ،جو اہل اسلام کی اصلاح ، استحکام دین اور دوام شریعت کا مؤثر ذریعہ ہے۔لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اسے شریعت کا جتنا علم ہو ،شرعی احکام سے جتنی واقفیت ہو اوردین کے جس قدر احکام سے آگاہی ہو وہ دوسر وں تک پہنچائے۔علماو فضلا اور واعظین و مبلغین پر مزید ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فریضہ دعوت کو دینی وشرعی ذمہ داری سمجھیں اور دعوت دین کے کام کو مزید عمدہ طریقے سے سرانجام دیں۔دین کا پیغامِ حق ہر فرد تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ دعوت کے کام کو متحرک کیا جائے، منہج دعوت اور اصول دعوت کے حوالے سے اہل علم نے عربی اور اردو زبان میں کئی کتب تصنیف کی ہیں ۔ان میں سے ڈاکٹر فضل الٰہی ﷾ کی کتب قابل ذکر ہیں جوکہ آسان فہم او ردعوت دین کا ذوق ،شوق اور دعوتی بیداری پیدا کرنے میں ممد و معاون ہیں۔ زیر نظر کتابچہ’’دعوت ِ دین‘‘سماحۃ الشیخ ابن باز کے ایک عربی کتابچہ’’كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ‘‘ کا ترجمہ ہے جس میں شیخ نےفریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی اہمیت،اس فریضہ کے مراتب اور اس کے حکم کو بڑے احسن انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کتابچہ کا سلیس اردو ترجمہ کرنے کی سعادت ابو عبداللہ بن بشیر نے حاصل کی ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف ،مترجم اور ناشرین کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کے لیے نفع بخش اور لوگوں میں امربالمعروف امر ونہی عن المنکرکے فریضہ کو ادا کرنے کاشعور پیدا کرنے کا ذریعہ بنائے۔ آمین( م۔ ا)
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی کو بہترین نمونہ قرار دے کر اہل اسلام کو آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔جس کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ کے ایک ایک گوشے کو محفوظ کیا جائے۔اور امت مسلمہ نے اس عظیم الشان تقاضے کو بحسن وخوبی سر انجام دیا ہے۔سیرت نبوی پر ہر زمانے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور اہل علم نے اپنے لئےسعادت سمجھ کر یہ کام کیا ہے۔زیر تبصرہ کتاب " دلائل النبوۃ "بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،جوامام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی کی تصنیف ہے۔اس کا اردو ترجمہ مولانا محمد اسماعیل الجارودی ﷾نے کیا ہے۔مولف نے اس عظیم الشان تصنیف میں سیرت نبوی کے ساتھ ساتھ آپ کی نبوت کے دلائل بھی بڑے احسن اور منفرد انداز میں جمع فرما دیئے ہیں۔اصل کتاب عربی میں ہونے کے سبب اردو خواں طبقہ کے لئے اس سے استفادہ کرنا ایک مشکل امر تھا ۔ مولانا محمد اسماعیل الجارودی﷾ نے اردو ترجمہ کر کے اردو خواں طبقہ کی اس مشکل کو حل کر دیا ہے۔اللہ تعالی ان کی ان خدمت کو قبول فرمائے۔آمین۔(راسخ)
مسلمانوں کی بڑی اکثریت اس بات کو مانتی ہے کہ ہم دعا کے ذریعے سے اپنی نیکیوں کا اجر اپنے مرحوم اعزہ کو دے سکتے ہیں۔ چنانچہ اس تصور کے مطابق ایک شخص یا کچھ لوگ کوئی نیک عمل کرتے ہیں۔ پھر یہ دعا کی جاتی ہے کہ اس نیک عمل کا اجر فلاں مرحوم یا فلاں فلاں مرحوم کو عطا کیا جائے۔ ہمارے ہاں، اس کام کے لیے کچھ رسوم بھی رائج ہیں اور ان میں یہ عمل بڑے اہتمام سے کیا جاتا ہے۔یہ مسئلہ دور اول ہی سے موضوع بحث ہے۔ چنانچہ اس بات پر توسب متفق ہیں کہ میت کواخروی زندگی میں ہمارے دو طرح کے اعمال سے فائدہ پہنچتاہے۔ایک دعاے مغفرت، دوسرے وہ اعمال خیر جو میت کی نیابت میں کیے جائیں۔نیابت سے مراد یہ ہے کہ مرنے والااس عمل میں کسی نہ کسی نسبت سے شریک ہے۔ اس کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلاً یہ کہ مرنے والے نے کوئی کام شروع کیا ہوا تھا اور تکمیل نہیں کر سکا، کوئی نذر مانی ہوئی تھی پوری نہیں کر سکا یا کوئی قرض تھا جسے وہ ادا نہیں کر سکا وغیرہ۔البتہ، اس میں اختلاف ہے کہ مرنے والے کی نسبت کے بغیر عمل کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے یا نہیں۔مراد یہ ہے کہ میت کے اعزہ واقارب اپنے طور پر کوئی نیکی کا کام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اس عمل کا ثواب فلاں کو دے دیا جائے۔مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ دعا کرنا درست ہے اور کیا یہ دعا قبول بھی ہوتی ہے، یعنی میت کو یہ ثواب واقعی دے دیا جاتا ہے۔ایک گروہ کی راے میں ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے۔ دوسرے گروہ کی راے میں ان کا جواب نفی میں ہے۔اور ہمارے ہاں اسی نفی والے قول پر ہی عمل ہے۔زیر تبصرہ کتاب " ایصال ثواب اور اس کی حقیقت"محترم عادل سہیل ظفر صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے ایصال ثواب کے مروجہ طریقوں کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لیا ہےکہ کونسا طریقہ درست ہے اور کونسا طریقہ درست نہیں ہے۔موصوف نے اگرچہ بعض جگہ ایسا موقف بھی اختیار کیا ہے جو اہل حدیث کے معروف موقف کے خلاف ہے لیکن اسلاف سے اس موقف کی کچھ نہ کچھ تائید مل جاتی ہے ،اور چونکہ وہ موقف اجتہادی ہوتا ہے لہذا اسے سائٹ پر پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو ایک خاص مقام حاصل ہے او رتمام شرائع ومذاہب میں بھی دعا کا تصور موجود رہا ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے کہ جو تقدیر کو بدل سکتی ہے ۔دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے خالق ومالق اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اسے تب ہی فائدہ دیتی ہے جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کوبھی ملحوظ رکھے۔دعاؤں کے حوالے سے بہت سی کتابیں موجود ہیں جن میں علماء کرام نے مختلف انداز میں دعاؤں کو جمع کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’دعا کیجئے‘‘ محترمہ ام عبد اللہ صاحبہ کی کاوش ہے جس میں انہو ں نے مختلف قرآنی اور مسنون دعاؤں کو احسن انداز کےساتھ 40 مختلف عنوانات کے تحت جمع کردیا ہےکتاب کے شروع میں صرف عنوانات کی فہرست ہے اور تفصیلی فہرست کتاب کے آخر میں درج ہے ۔یہ کتاب کتبِ ادعیہ میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ جسے تعلیم وتربیت کے انٹر نیشنل ادارے ’’الہدیٰ‘‘ نے طباعت کے اعلیٰ معیار پر شائع کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مؤلفہ کتاب ہذا کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین( م۔ا)
اسلام دین فطرت ہے ،اس میں انسان کی روح اور جسم دونوں کے تقاضےپورے کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نےکافی وشافی احکامات دئیے ہیں۔ تعدّدِ ازواج کاقانون اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ عدل کی شرط کے ساتھ مرد کویہ اجازت دی گئی ہ کہ وہ بیک وقت چار بیویاں اپنے عقد میں رکھ سکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے مردکو دو تین چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دے کر اسے کوئی اضافی سہولت ،عیش وعشرت کا موقع یا کوئی اعزاز وانعام عطا نہیں کیا جیسا کہ غیر مسلموں یا اسلام کےاحکامات سے نابلد مسلمانوں کی اکثریت کاخیال ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو مرد ایک سے زائد شادیاں کرتا ہے وہ خود کو ذمے داریوں کے شکنجے میں دو بیویوں کی صورت دوگنا ،تین بیویوں کی صورت میں تین گناہ اور چار بیویوں کی صورت میں چار گنا جکڑ لیتاہے ۔اگر وہ اپنی بیویوں میں عدل وانصاف اور مساوات کا خیال نہیں رکھتا تو وہ گناہگار ٹھرتاہے ۔ جو شخص اپنی بیویوں کے حقوق ادا کرنے میں غفلت برتتا ہے یا جان بوجھ کر ان کے حقوق غصب کرتاہے ۔احادیث میں اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے شدید پکڑ کی وعید سنائی گئی ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس شخص کی دوبیویاں ہوں اوران کے درمیان عدل نہ کرے توقیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک حصہ گرا ہوا (فالج زدہ) ہوگا۔‘‘(سنن ابی داؤد) زیر نظر کتاب ’’ بیویوں کےدرمیان عدل ‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی کاوش ہے جس میں انہوں نے بیویوں کے درمیان تمام امور میں عدل کرنے کے حکم کو قرآن وحدیث کی روشنی میں آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اسے اہل ایمان کےلیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
اس دنیا میں انسان اپنی عارضی قوت اور زوال پذیر ودولت پر فخر کیے بیٹھا ہے ، وہ اپنے آپ کوسمجھتا ہےکہ وہ سب لوگوں سے زیادہ باعزت اور باوقار ہے لوگوں کوباتوں کے ذریعے سب سے بہتر قائل کرسکتاہے ،سب سےزیادہ ہاتھ پاؤں مارسکتاہے بڑے مضبوط دلائل کا مالک ہے اس کےبڑے دوست واحباب اور بڑے حواری ہیں اسے کسی کی محتاجی نہیں۔ لیکن نادان! اسے کیا معلوم کہ جب زمانےکی ہوامصیبتیں لے کر آتی ہے تو اسے بھی پہنچ کر رہتی ہیں اورہوسکتا ہے کہ اس کی سہولتیں اسی کے لیے مصائب کی آخری کڑی ثابت ہوں اسکی سربراہی چلی جائے ، اس کی عزت ختم ہوجائے اور وہ اس بچے کی طرح بے سہارا ہوجائے جو اپنے باپ کی تلاش میں دوڑتا پھرتا ہے ،لوگوں کی مدد کاطالب ہو ،بدحالی کےایسے مقام پرپہنچ جائے کہ لوگوں سےرحم وکرم کی بھیک مانگنے والا بن جائے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان جو اپنے خالق حقیقی رسے روگردانی کرنے والا ہے اللہ کی طرف نہیں آنے والا جو اللہ سے تعلق بنا کر نہیں رکھنے والا اور اسی رب کو اپنا ملجا وماویٰ نہیں سمجھنے والا وہ حیوان بن جاتا ہے۔اور مسلمان مرد اور مسلمان عورت کوامتیاز کا رتبہ تب ملتا ہے جب وہ اللہ کی ذات سے تعلق بناکر رکھتا ہے اپنی زندگی شریعت مطہرہ کے مطابق گزارتا ہے اورجن کواس کی بات پر عمل کرنے میں راحت اورسکون قلب نصیب ہوتا ہے۔دنیاوی زندگی پربھروسہ نہ ہونے کاعلم رکھتے ہوئے اورماحول ومعاشرہ اور وقت کے مصائب اور تکالیف کومدنظر رکھتے ہوئے یہ کسی انسان کےلیے مناسب نہیں کہ وہ غصے میں آکر آپے سے باہر ہوجائے یا کسی چیز کے نہ ملنے پرافسوس کرے کیونکہ یہ دنیا اس اخروی گھر کےبرابر نہیں ہوسکتی کہ جہاں ہر قسم کی ایسی نعمتیں موجود ہیں ۔جو نہ کسی آنکھ نےدیکھیں نہ کسی کان نےسنیں اور نہ ہی کسی سچے مسلمان کےدل میں کھٹکیں۔انسان کی حیاتی زندگی کامزہ ،اس کا حسن وجمال اوراس کی ترقی وکمال کواس وقت تک حاصل نہیں کیاجاسکتا جب تک اللہ تعالیٰ اوراس کےرسول ﷺ کی اطاعت نہ ہوجس کا انسان کومکلف بنایا گیا ہے کہ وہ اسے ہی مضبوطی سے پکڑ کر اس پر عمل کرے اسے ہی اپنا منہج اوراصول زندگی بنالے تاکہ اس پر عمل کر کے اپنے ضمیر کومطمئن کر سکے ۔ زیر تبصرہ کتابچہ’’مسلمان خواتین کےلیےپچاس پھول‘‘ شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ المقبل کی کاوش ہےجس میں انہوں نے خواتین کے لیے شریعت اسلامیہ سے ماخوذ پچاس نصیحتیں پیش کی ہیں اور انہوں نے اس میں خواتین کواس طرف توجہ دلائی ہےکہ جو وقت گزر چکا ہےاس پر نادم ہوتے ہوئے آئندہ زندگی کو ان پر عمل کرکے بہتر بنایا جاسکتاہے۔ اللہ کےحکم سے زندگی شقاوت سے راحت میں،بدبختی سے خوش بختی میں تبدیل ہوجائے گی۔ بلکہ آپ اپنی زندگی کا مزہ ہی پہلے سے مختلف پائیں گے ۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور خواتین اسلام کو ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔ آمین(م۔ا)
ہر دلعزیز سیرتِ سرورِ کائنات کا موضوع گلشنِ سدابہار کی طرح ہے ۔جسے شاعرِ اسلام سیدنا حسان بن ثابت سے لے کر آج تک پوری اسلامی تاریخ میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے جملہ گوشوں پر مسلسل کہااور لکھا گیا ہے او رمستقبل میں لکھا جاتا رہے گا۔اس کے باوجود یہ موضوع اتنا وسیع اور طویل ہے کہ اس پر مزید لکھنے کاتقاضا اور داعیہ موجود رہے گا۔ دنیا کی کئی زبانوں میں بالخصوص عربی اردو میں بے شمار سیرت نگار وں نے سیرت النبی ﷺ پر کتب تالیف کی ہیں۔ اردو زبان میں سرت النبی از شبلی نعمانی ، رحمۃللعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری اور مقابلہ سیرت نویسی میں دنیا بھر میں اول آنے والی کتاب الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کو بہت قبول عام حاصل ہوا۔زیر تبصرہ کتاب ’’محسن انسانیت‘‘جماعت اسلامی کی معروف ادبی شخصیت محترم نعیم صدیقی کی سیرت النبی ﷺ پر ہر دلعزیز کتاب ہےجس کی مقبولیت کا اس بات سے اندازہلگایاجاسکتاہےکہ بہت کم عرصہ میں اس کے اٹھائیس ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔محسنِ انسانیت کی تصنیف سے عالم گیر شہرت پانے والےمولانا نعیم صدیقی ٤جون 1914ء کوخطہ پوٹھوہارکی مردم خیز دھرتی ،چکوال کے گاؤں خانپور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم قاضی سراج الدین صاحب مرحوم کی نگرانی میں حاصل کرنے کے بعد قریب ہی کے ایک مدرسے سے فارسی میں سند فضیلت حاصل کی۔پھر منشی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد تحریک اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور سیدابوالاعلیٰ مودودی سے کسبِ فیض کیا۔ تحریر و تقریر ہر دو میدانوں میں آپ نمایاں مقام رکھتے تھے۔آپ کی صحافتی زندگی کا آغاز ملک نصر اللہ خاں عزیز کے اخبار ’’مسلمان‘‘سے ہوا ۔ہفت روزہ ایشیا، ترجمان القرآن، چراغِ راہ، شہاب، سیارہ میں ادارتی خدمات سرانجام دینے کے علاوہ روزنامہ تسنیم لاہور، قاصد لاہور اور جسارت کراچی اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کالم نویسی اور مضمون نگاری کرتے رہے۔آپ محسن انسانیت کے علاوہ تقریبا ٢٠ سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ سیرت رسول اللہﷺپر آپ کی تصنیف ’’محسن انسانیت‘‘کو سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ۔ نعیم صدیقی تقریبا اٹھاسی سال کی عمر میں٢٥ ستمبر ٢٠٠٢ء کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ ادارہ معارف اسلامی منصورہ نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں حیات و خدمات کے نام سے ایک مجموعہ شائع کیا ہےجس میں آپ کی حیات و خدمات پر تقریباً 28 مضامین، متعدد نظمیں شامل ہیں ۔اللہ تعالیٰ موصوف کی دینی خدمات کوشرف قبولیت سے نوازے (آمین) (م۔ا)