کسی کام کے خیر یا شر ہونے کا حقیقی علم اسی ذاتِ حق کو ہے جو خیراور شرکا خالق ہے جس نے مختلف امور اور محتلف چیزوں کے مختلف اثرات بھی پیدا کیے ہیں ،خیر بعض حالات میں تو محسوس صورت میں ہوتاہے اور بعض حالات میں غیر محسوس۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان امور کوواضح کردیا ہے جن کو اختیار کرنا اہل ایمان کے لیے بہتر ہے ۔زیر نظر کتابچہ ’’خیرلکم‘‘ محترمہ ام عبدمنیب صاحبہ کی بیٹی ام شریک صاحبہ کی کاوش ہے جس میں انہوں نے قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں ان امور کی نشاندہی کردی ہے جو اہل ایما ن کے لیے بہتر ہیں ۔اللہ تعالی ٰ اسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
اسلامی نظام حیات میں زکوۃ ایک اہم ترین فرض ہے کہ جس کی ادائیگی پر شریعت نے بہت سختی سے حکم دیا ہے اور صاحب نصاب ہونے کے باوجود اگر کوئی زکوۃ ادا نہ کرے تو قاضی اس سے زبردستی بھی زکوۃ وصول کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔لیکن ان سب احکامات کے باوجود ایک اور چیز جو بڑی حساس ہے کہ زکوۃ کا مستحق کون ہے ؟ کون زکوۃ لے سکتا ہے اور کون نہیں؟محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نےشریعت کی روشنی میں اس پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ شریعت نے جو مصارف زکوۃ بیان کیے ہیں ان کو عملی شکل میں کس انداز سے دیکھا جاسکتا ہے۔ جس طریقے سے زکوۃ دینے والے کے لیے کچھ شرائط ہیں اسی طرح زکوۃ لینے والے کے لیے بھی کچھ حدود و قیود کا تعین کیا گیا ہے۔اس مختصر کتابچہ میں مصنفہ نے مصارف زکوۃ اور زکوۃ کے مستحقین کو شرعی راہنمائی مہیا کی ہے کہ وہ کب دوسروں سے صدقات و زکوۃ وصول کر سکتے ہیں اور کس انداز میں اس کو خرچ کریں تاکہ وہ لوگوں پر بوجھ بننے کی بجائے خودداری والی زندگی بسر کر سکیں۔(م۔ا)
چندہ یا فنڈز ایسی رقم کو کہا جاتا ہے جو انفرادی یا اجتماعی رفاہی کاموں پر خرچ کرنے کے لیے دی جائے یا لی جائے۔پوری دنیا میں پائی جانے والی بہت ساری تنظیمیں جن کا تعلق ویلفیئر یا انسانی حقوق سے متعلقہ ہے وہ اپنی اور تنظیمی ضروریات کے ساتھ ساتھ لوگوں کو وسائل پہنچانے کے لیے چندہ یا فنڈز اکٹھا کرنے کی مہم پر زور دیتے ہیں ۔مختلف مذاہب میں مختلف تہواروں کے موقع پر اس کام کو بڑے ذوق شوق اور اعلیٰ جذبات کے ساتھ توجہ مرکوز کی جاتی ہے جس میں خاص طور پر مذہبی تنظیموں کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی تنظیمیں بھی میدان میں اتر آتی ہیں۔محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے اس حساس موضوع پر قلم اٹھایا اور اس حوالے سے شرعی راہنمائی پیش کی ہے کہ ہمارے ہاں پایا جانے والا چندہ یا فنڈز اکٹھا کرنے کا نظام کن حالات کا شکار ہے اور شرعی اعتبار سے یہ کام کن لوگوں کے لیے جائز اور کس حد تک اور کس طریقے سے جائز بنتا ہے اس کو بڑی عمدہ وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔کیونکہ ہمارے ملک میں چندہ اور فنڈز کے ساتھ چلنے والے اداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا سلسلہ معاش چندہ اور فنڈز پر چلتا ہے۔فنڈز اور چندہ پر چلنے والی ان تنظیموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ بات واضح ہو سکے۔1۔خالص دینی تنظیمیں:یہ وہ تنظیمیں ہیں جو دین کی دعوت کے ساتھ ساتھ رفاہ عامہ کا کام بھی سنبھالے ہوئے ہیں2۔بے دین رفاہی تنظیمیں:یہ عام طور پر غیرملکی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے مختلف این جی اوز کی شکل میں موجود ہیں جن کو اتحادی ممالک امداد مہیا کرتے ہیں3۔غیر ملکی رفاہی تنظیمیں:جو کہ کسی ملک میں بذات خود مداخلت کر کے اس کے کسی نہ کسی نظام کو متاثر کرنا چاہتے ہوتے ہیں جیسے کہ مختلف ملٹی نیشنل کمپنیاں مختلف عریاں اور فحش اشتہارات کے ذریعے،مختلف ثقافتی فنکشن اور طائفوں کے ذریعے کرتے ہیں۔مصنفہ نے اس حوالے سے سیر حاصل بحث کی ہے کہ آیا اس چندہ اور فنڈ کے نظام کو شریعت کے اصولوں کی روشنی میں کس حد تک اور کس طریقے استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ اس ذریعے سے حاصل ہونے والے تعاون کو درست سمت دی جا سکے۔(م۔ا)
انسان کی زندگی اس دنیا کی ہویا آخرت کی دونوں کےآغاز میں عجیب وغریب مماثلت پائی جاتی ہے ۔اگردنیا کے سفر کا نقظۂ آغاز 9 ماہ تہ بہ تہ اندھیرے ہیں تو آخرت کےسفر کا نقطۂ آغازبھی قبر کے تہ بہ تہ اندھیرے ہیں ۔اگر دینا میں قدم رکھتے ہی انسان کو غسل دیا جاتا ہے تو آخرت کے سفر میں قبر میں قدم رکھنے سے پہلے غسل کا اہتمام کیاجاتا ہے۔دنیا کے سفر کےمرحلہ میں اگر انسان کے کانوں میں اذان واقامت کے ذریعہ اس کی روح کو تسکین پہنچائی جاتی ہے تو آخرت کے اس مرحلہ میں صلاۃ جنازہ اور مغفرت کی دعاؤں سے انسان کی روح کومسرت پہنچائی جاتی ہے ۔بحر حال انسان کی فلاح اسی میں ہے کہ دنیا کاسفر ہویا آخرت کا تمام مراحل کو قرآن وسنت کی ہدایات کےمطابق سرانجام دیا جائے ۔زیرنظر کتابچہ’’عورت وفات سے غسل وتکفین تک‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کا مرتب شدہ ہے ۔جس میں انہوں نے عورت میت کانزع سے لے کر غسل ،تکفین وتدفین اور تعزیت وغیرہ کے احکام ومسائل کو احادیث رسول ﷺ کی روشنی میں پیش کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
گھر وہ مرکز ہے جہاں نسلِ انسانی اپنی پیدائش کے پہلے مرحلے سے لے کر مکمل شباب کے پہنچنے تک تربیت ِ جسم اور تربیبت فکر حاصل کرتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نےگھر میں ہر بچے اور باپ کوجسمانی اورفکری تربیت کا ذمہ دار ٹھرایا ہے اور انہی کو گھر میں رکنِ اعظم کی حیثیت حاصل ہے ۔ یہی اس ادارے کےسربراہ اور ناظم ہیں ۔انہی دو کے کندھوں پر دیگراہل خانہ کی مسؤلیت کا بوجھ ڈاگیا ہے ۔ اگر اس دار العمل میں دی گئی مہلت ِعمل کو ہم نےاسلامی ہدایت کی روشنی میں اختیار نہ کیا تو انجام رسوائی اور عذاب ِ الیم ہوگا۔اوراگر اسلامی ہدایات کےمطابق فکر وعمل کوپابند کر دیا تو انجام کامیابی،مسرت او ر انعام پر منتج ہوگا۔فرمان نبویﷺ ہے :’’ ۔ کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا۔ امام نگران ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہو گا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ ابن عمر ؓنے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔‘‘صحیح بخاری:893) اس حدیث میں مذکورہ ذمہ داری اپنے عموم میں زندگی کے تمام شعبہ جات پر مشتمل ہے ۔ مرد کی ذمہ داری مادی وسائل کے فراہم کرنے تک محدود نہیں اور نہ ہی عورت کا فریضہ گھریلو کام کرنے ،صفائی کرنے اور کھانا وغیرہ تیار کرنے تک محدود ہے بلکہ مرد اور عورت دونوں اپنا اپنا دائرہ کار الگ الگ ہونے کے باوجود اجتماعی طور پر ایمانی اور معاشرتی تربیت کے ذمہ دار ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب ’’عورت اورگھر میں دعوت دین‘‘ محترمہ ام عبدمنیب صاحبہ کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے عورت کی ذمہ داریاں(دعوت دین ) اسلامی سلطنت کے ذیلی ادارے گھریلو ریاست کے حوالے سے بیان کی گئی ہیں۔ کہ عورت اپنے گھر میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ دعوت ِدین کی ذمہ داری کیسے ادا کرسکتی ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو خواتین ِاسلام کے لیے نفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
مشکوٰۃ المصابیح حدیث کی ایک معروف کتاب ہے۔ جسے اس کی تالیف کے دور سے ہی اس قدرشرفِ قبولیت حاصل ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس کی شروحات ،تعلیقات اور حواشی لکھے حتی خود مصنف کے استاذ محترم نے بھی اپنے لائق شاگرد کی تالیف کی ایک جامع شرح قلمبند فرمائی۔ یہ اعزاز بہت ہی کم لوگوں حاصل ہوا ہوگا۔’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ دراصل دوکتابوں کا مجموعہ ہے ایک کا نام مصابیح السنہ اور دوسری کا نام مشکوٰۃ ہے۔کتبِ حدیث کےمجموعات میں اس کا نام سر فہرست ہے او ربہت سے دینی مدارس میں یہ کتاب شاملِ نصاب ہے ۔اس لیے بہت سے اہل علم نے اس کی عربی ،اردو زبان میں شروحات اور حواشی لکھے ہیں ۔ صاحب مشکوٰۃ نے احادیث مشکوٰۃ کے راویوں اورمخرجین کے علاوہ ااحادیث کےضمن میں آنے والی شخصیات کا بھی ایک الگ کتاب میں بالاختصار تذکرہ کیا ہے جس کا نام ’’ الاکمال فی اسماء الرجال‘‘ہے مدارسِ اسلامیہ میں پڑھائے جانے والے درسی نسخہ کےآخر میں یہ کتاب مطبوع ہے ۔مشکوٰۃ پڑھنے والے ہر شخص کےلیے ’’الاکمال فی اسماء الرجال‘‘ کاپڑھنا از حد ضروری ہے۔زیر تبصرہ ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کے ترجمہ کے فرائض پروفیسر ابوانس محمد سرور گوہر نے سرانجام دئیے ہیں۔اور انتہائی سلیس اور رواں ترجمہ پوری احیتاط کےساتھ کیاہے۔اس ترجمہ کی نظر ثانی شارح صحیح بخاری ،مفتی جماعت شیخ الحدیث حافظ عبدالستار حماد نے انتہائی ذمہ داری سے ادا کی ہے۔ اور احادیث کی تخریج وتحقیق کا فریضہ عصر ِحاضر کےعظیم محقق علامہ حافظ زبیر علی زئی نے عرق ریزی سے سرانجام دیا ہے ۔اوراس میں شامل اشاعت الاکمال کاترجمہ معروف اسلامی سکالر ومضمون نگار ،مترجم کتب کثیرہ پروفیسر ابو حمزہ سعیدمجتبیٰ السعیدی (سابق استاذ حدیث جامعہ لاہورالاسلامیہ ،ورکن مجلس ادارت ماہنامہ محدث،لاہور) کےقلم ہوا ہے ۔کتاب ہذا پر مذکورہ معروف علمی شخصیات کے کام کی وجہ سے زیر تبصرہ ایڈیشن منفرد خصوصیات کا حامل ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کےمصنف،مترجم، محقق ،ناشرین اور کتاب کو تیار کرنے والے دیگر اہل علم کی کاوشوں کو شرفِ قبولیت سے نوازے (آمین)(م۔ا)
سلیم رؤف صاحب﷾ ایک معروف مبلغ اور داعی ہیں۔آپ نے تبلیغ دین کے لئےایک منفرد طریقہ اختیار کرتے ہوئے ہر موضوع کو کہانی کی شکل میں پیش کیا ہے اور بے شمار موضوعات پر لکھا ہے۔آپ نے کتابچوں کے نام بڑے پرکشش او ر جاذب نظر ہوتے ہیں،عنوان کو دیکھ کر انہیں پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔مثلا’’ ننھا مبلغ‘‘ ،’’ واہ رے مسلمان‘‘ ،’’ نایاب ہیرا‘‘ ،’’ شیطان سے انٹرویو‘‘ ،’’ بازار ضرور جاوں گی‘‘ اور ’’ اور میں مر گیا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔آپ کے یہ چھوٹے چھوٹے کتابچے عامۃ الناس میں انتہائی مقبول اور معروف ہیں۔ یہ چھوٹا سا کتابچہ’’ بھوک اور جھوٹ ‘‘ بھی محترم سلیم رؤف صاحب﷾ کے دیگر اصلاحی کتابچوں کی طرح روز مرّہ زندگی میں سرزد ہونے والی عملی کوتاہیوں، دین سے دوری، مغربیت اور مادہ پرستانہ ذہن کی اصلاح کیلئے نہایت سادہ، شستہ اور رواں واقعاتی اسلوب میں تحریر کی گئی ایک عمدہ کاوش ہے۔ چند صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ ہماری معاشرتی کوتاہیوں کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے۔اور ہمیں اپنی اور اپنی اولاد کی اصلاح اور اسلام کے مطابق ان کی تربیت کرنے کی ترغیب دیتا ہے ،تاکہ ہماری دنیا بھی سنور جائے اور ہماری آخرت بھی بن جائے۔اس کتابچے میں انہوں نے بھوک کے ساتھ جھوٹ بولنے جیسی قبیح عادت کو ترک کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے بڑے ہی دل نشین اور منفرد انداز میں گفتگو کی ہے،اور اس جھوٹ کی مذمت کی ہے۔اللہ تعالی مولف کی ان کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
’’ ماں ‘‘ محض ایک لفظ نہیں بلکہ محبتوں کا مجموعہ ہے۔ ’’ ماں ‘‘کا لفظ سنتے ہی ایک ٹھنڈی چھاوں اور ایک تحفظ کا احساس اجاگر ہوتا ہے ۔ ایک عظمت کی دیوی اور سب کچھ قربان کردینے والی ہستی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ ’’ ماں ‘‘ کے لفظ میں مٹھاس ہے۔ انسانی رشتوں میں سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی ماں کی ہے۔ ماں خدا کی عطا کردہ نعمتوں میں افضل ترین نعمت ہے۔ تہذیبی روایات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے ہر دن کو ہماری ماں کی دعاوں کے سائے میں طلوع ہونا چاہیے۔ قرآن حکیم اور دوسرے تمام الہامی صحیفوں میں ’’ماں ‘‘ کا تقدس سب کی مشترکہ میراث ہے۔لیکن یہ ماں جب اللہ کے اٹل فیصلے کے مطابق اس دنیا سے رخصت ہوجاتی ہے تو بچے کی دنیا اجڑ جاتی ہے ۔انسان ایک دم لٹا پتا سا،بے سہارا ،بکھرا بکھرا سا اپنے آپ کو خالی خالی سا محسوس کرتا ہے۔اللہ تعالی نے اس کا متبادل رشتہ سوتیلی ماں کا رکھا ہے۔سوتیلا یا سوتیلی کا لفظ ہی ایسا ہے کہ جسے سن کر کسی بھی ذہن میں کبھی اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔مگر بعض سچائیاں ایسی ہیں کہ انہیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " سوتیلی ماں اور اولاد "معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں سوتیلی ماں کے اپنی سوتیلی اولاد کے ساتھ اچھے رشتے کے حوالے سے گفتگو کی ہے،ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ معاشرے میں یہ کوئی اچھا رشتہ نہیں سمجھا جاتا ہے لیکن اگر شریعت کے مطابق اس کو بسر کیا جائے تو اولاد کو حقیقی ماں کا پیار بھی مل سکتا ہے۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’ مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
تقلید اور عمل بالحدیث کے اختلافی مباحث صدیوں پرانے ہیں،تقلید جامد کے رسیا اور قرآن وحدیث کے علمبردار علماء ومصلحین اس موضوع پر سیر حاصل بحث کر کے خو ب خوب داد تحقیق دے چکے ہیں۔خیر القرون کے سیدھے سادھے دور کے مدتوں بعد ایجاد ہونے والے مذاہب اربعہ کے جامد مقلد فقہاء نے اپنے اپنے مذہب کی ترجیح میں کیا کیا گل نہیں کھلائے ۔حتی کہ اپنے مذہب کے جنون میں اپنے مخالف امام تک کو نیچا دکھانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا جیسا کہ اہل علم اس سے بخوبی واقف ہیں۔ایسا ہی کچھ طرز عمل ماہنامہ "بینات"کراچی کے مدیر مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے اختیار کیا ہے۔موصوف سے کسی صاحب نے چند سوالات پوچھے ،جن کا جواب مولانا نے بڑی تفصیل سے دیا ۔حتی کہ اسے "بینات" کا ایک خاص نمبر بعنوان "اختلاف امت اور صراط مستقیم "شائع کر دیا۔مگر افسوس کہ اس میں اہل حدیث کو بھی خوا ہ مخواہ گھسیٹ لیا گیا۔اس رسالے کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے مولانا نے "اختلاف امت اور صراط مستقیم " کا نمبر دوم بھی شائع کر دیا۔یہ دونوں نمبر پہلے پاکستان میں چھپے اور پھر دیو بند ہندوستان سے شائع کئے گئے۔جب یہ دونوں رسالے معروف اہل حدیث عالم دین مولانا صغیر احمد بہاری ﷾کی نظر سے گزرے تو انہوں نے ایک مفصل تنقیدی مضمون لکھ کر "الاعتصام" میں اشاعت کے لئے بھج دیا۔جو اس میں 34 قسطوں میں شائع ہوا۔احباب کا اصرار تھا کہ اسے کتابی شکل میں شائع کیا جائے تاکہ "بینات" کا تریاق ہو سکے۔چنانچہ اسے کتابی شکل میں چھاپ دیا گیا ۔اس پر محترم الاستاذ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی نظر ثانی اور اس زمانے کے مدیر الاعتصام مولانا صلاح الدین یوسف ﷾کی تقدیم موجود ہے۔اللہ تعالی ان بزرگوں کی تمام خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ جو مال اس کے ہاتھ آیا ہے وہ حلا ل ہے یا حرام(بخاری:2059) دور حاضر میں مال حرام کمانے کی بہت سی ناجائز شکلیں عام ہو چکی ہیں اور لوگ ان کے حرام یا حلال ہونے کے متعلق جانے بغیر انہیں جائز سمجھ کر اختیار کرتے جا رہے ہیں۔جن میں انعامی سکیمیں ،لاٹری،انشورنس،اور مکان گروی رکھنے کی مروجہ صورت وغیرہ ہیں۔۔ زیر تبصرہ کتاب " لاٹری"معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے لاٹری کی حرمت،لاٹری کی مختلف شکلیں ،لاٹری کی ابتداء ،مسلم ممالک میں لاٹری کی آمد ،پاکستان میں لاٹری اور لاٹری سے متعلق متعدد دیگر موضوعات پر گفتگو فرمائی ہے۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے ،جس میں زندگی کے ہر ہر گوشے سے متعلق راہنمائی موجود ہے۔اس کی ایک اپنی ثقافت ،اپنی تہذیب اور اپنا کلچر ہے ،جو اسے دیگر مذاہب سے نمایاں اور ممتاز کرتا ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی اور ہندوستانی معاشرے میں ہندوانہ رسوم ورواجات کا چلن عام ہے۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگ ہندو مذہب سے مسلمان ہوئے ہیں اور ہمیشہ سے ہندووں کے ساتھ رہتے بستے چلے آ رہے ہیں۔وہ مسلمان تو ہو گئے لیکن ان کے عام رسم ورواج ہندوانہ ہی رہے۔بعض ہندوانہ رسمیں اسلامی پیوندکاری کے ساتھ جاری وساری ہیں۔انہی ہندوانہ رسول ورواجات میں سے ایک میت کے تیسرے دن کھانے کا اہتمام کرنا ،مولوی صاحب سے ختم پڑھوانا اور تبرکا چنے اور پھل مکھانے تقسیم کرنے کا عمل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " سوگ اور تعزیت "معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں سوگ اور تعزیت کرنے کے مسنون طریقے پر گفتگو فرمائی ہے۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے مختلف اہل علم نے اس حوالے سے كئی کتب تصنیف کی ہیں علامہ وحید الزمان کی ’’تبویب القرآن فی مضامین الفرقان ‘‘ اور شمس العلماء مولانا سید ممتاز علی کی ’’ اشاریہ مضامین قرآن ‘‘ قابل ذکر ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب ’’تبویب القرآن فی مضامین الفرقان‘‘ کتب صحاح ستہ اور دیگر کتب کے معروف مترجم علامہ وحیدالزماں کی قرآن مجید کے مضامین کےمتعلق دو جلدوں پر مشتمل اہم کاوش ہے۔ جس میں انہوں نے پورے قرآن مجیدکے مضامین کے ایک سو ایک عنوان بناکر ہر عنوان کے متعلقہ جس قدر آیات کریمہ متفرق مقامات پر آئی ہیں ۔ان کوعمدہ ترتیب سےموضوع وار ایک جگہ جمع کردیا ہے اوران کےساتھ ان کاترجمہ بھی لکھ دیا ہے ۔یہ کتاب خطباء اور واعظین کےلیے انتہائی مفید ہے کہ وہ قرآن مجیدکی ایک موضوع کےمتعلقہ آیات کو ایک جگہ دیکھ کر ان سے استفاہ کرسکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو اصحاب ذوق،ارباب تذکیر وتبلیغ اور عام مسلمانوں کےلیے مفید بنائے (آمین) (م۔ا)
کسی شخص کی ذاتی ضرورت کےوقت اس کاکام کردینا یا معاشرے کی اجتماعی ضرورتوں اور سہولتوں کو فراہم کرنے کی کوشش کرنا چاہے وہ کوشش مال کے ذریعے ہو۔ چاہے خدمت او رمحنت کےذریعے چاہے معاشرے کو اس کی ضرورتوں اوراس سہولتوں کےشعور کو عام کرنے کےلیے معلوماتی تحریریں فراہم کی جائیں، ان سب کا نام رفاہی کام ہے جسے خدمت خلق بھی کہا جاتاہے ۔اورانسان اپنی فطری ،طبعی، جسمانی اور روحانی ساخت کے لحاظ سے سماجی اور معاشرتی مخلوق ہے ۔یہ اپنی پرورش،نشو ونما،تعلیم وتربیت،خوراک ولباس اور دیگر معاشرتی ومعاشی ضروریات پور ی کرنے کے لیے دوسرے انسانوں کا لازماً محتاج ہوتا ہے ۔یہ محتاجی قدم قدم پر اسے محسوس ہوتی او رپیش آتی ہے۔ اسلام ایک دین فطرت ہے اس لیے اس نے اس کی تمام ضروریات اور حاجات کی تکمیل کاپورا بندوبست کیا ہے۔ یہ بندو بست اس کےتمام احکام واوامر میں نمایا ں ہے ۔ اسلام نے روزِ اول سے انبیاء کرام کے اہم فرائض میں اللہ کی مخلوق پر شفقت ورحمت او ران کی خدمت کی ذمہ داری عائد کی ۔اس ذمہ داری کو انہوں نے نہایت عمدہ طریقہ سے سرانجام دیا ۔اور نبی کریم ﷺ نے بھی مدینہ منورہ میں رفاہی، اصلاحی اور عوامی بہبود کی ریاست کی قائم کی۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’اسلام اور رفاہی کام ‘‘ محرمہ ام عبد منیب صاحبہ کی کاوش ہے جس میں انہوں نے رفاہی کام کی تعریف اور سابقہ شریعتوں میں رفاہی کاموں کا تصور بیان کرنےکے بعد شریعت محمدیہ میں رفاہی کا م کے تصور کو احادیث کی روشنی میں پیش کیاہے اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے (آمین) م۔ا)
قرآن خوانی فارسی زبان کا لفظ ہےجس کامطلب ہےقرآن پڑھنا ۔ہمارے معاشرے میں اس سے مراد کسی حاجت برآری یا مردے کوثواب پہنچانےکے لیے لوگوں کاجمع ہو کر قرآن مجید پڑھنا۔ قرآنی خوانی کےلیے لوگوں کوکسی مخصوص وقت پر بلایا جاتا ہے جس جس میں یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ فلاں مقصد کےلیے قرآنی خوانی ،یٰسین خوانی یا آیت کریمہ وغیرہ پڑھوانا ہے ۔ ساتھ حسبِ مقدور دعوت کابھی اہتمام کیا جاتاہے ۔لوگ اس میں باقاعدہ تقریب کےانداز میں آتے ہیں،حاضرین میں علیحدہ علیحدہ تیس پارے بانٹ دیے جاتے ہیں ۔پڑھنے کےبعد دعوت اڑائی جاتی ہے ۔ بعض لوگ ختم بھی پڑھواتے ہیں اور بعض لوگ رشتہ داروں کی بجائے مدارس کےبچوں کوگھر میں بلالیتے ہیں اور بعض مدرسہ میں ہی بیٹھ کر قرآن خوانی کرنے کا کہہ دیتے ہیں ۔اور بعض لوگ گھروں میں سیپارے بھیج دیتے ہیں۔ مردوں کو ثواب پہنچانے والے اس طرح کےتمام امور شریعت کےخلاف ہیں اور محض رسم ورواج کی حیثیت رکھتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس قرآن خوانی کا میت کوثواب نہیں پہنچتا۔ البتہ قرآن پڑھنےکے بعد میت کے لیے دعا کرنے سے میت کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ہمارے ہاں جو اجتماعی طور قرآن خوانی ایک رواج ہے جس کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ احادیث کی رو سے چند ایک چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔1۔کسی مسلمان کا مردہ کےلیے دعا کرنا بشرطیکہ دعا آداب وشروط قبولیت دعا کے مطابق ہو۔2 میت کے ذمے نذرکے روزے ہوں جو وہ ادا نہ کرسکا تو اس کی طرف سے روزے رکھنا بھی باعث ثواب ہے ۔3 نیک بچہ جوبھی اچھے کام کرے گا والدین اس کے ثواب میں شریک ہوں گے۔4مرنے کے بعد اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑجانے سےبھی میت کو ثواب ملتا ہے،صدقہ جاریہ بھی اس میں شامل ہے ۔زیر تبصرہ کتابچہ ’’ قرآن خوانی ‘‘ محترم ام عبد منیب صاحبہ کی اصلاح عقائد کےسلسلے میں اہم کاوش ہے جس میں انہو ں نے قرآن واحادیث اور علماء کرام کے فتویٰ کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ جو شخص قرآن خوانی یا مختلف قسم کےاوراد وظائف پڑھ کرکسی دوسرے کے لیے ایصالِ ثواب کرتا ہے یا غیر مسنون طریقے سے ان سب کاذکر اور تلاوت کرتا ہے تویہ سب امور رسول اللہ ﷺکی سنت سے انحرف ہے۔اللہ تعالی ٰ اس کتابچہ کو عوام الناس کی اصلاح ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
روزے کی فضیلت و اہمیت دیگر عبادات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اور بے حساب ہے ۔ روزہ کا اجر خود اﷲتعالیٰ عطا کرے گا۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے : ’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے۔ پس یہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔‘‘(بخاری:1805) روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا اجرو ثواب کے ساتھ ساتھ کئی دیگر خوشیاں بھی ملیں گی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے اسے فرحت ہوتی ہے : افطار کرے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو روزہ کے باعث خوش ہوگا۔ ‘‘(بخاری:1805) زیر تبصرہ کتاب "رمضان کی احادیث اور سنتیں" بھی رمضان المبارک کے انہی فضائل ومسائل پر مشتمل ہے۔ جو پروفیسرمفتی عروج قادری کی تصنیف ہے۔اس میں انہوں نے رمضان المبارک کے روزوں ،تراویح،اعتکاف،شب قدر،عید الفطر،زکوۃ اور عمرہ کے حوالے سے تقریبا 600 کے قریب احادیث نبویہ کو موضوعات کے اعتبار سے جمع کر دیا ہے۔ اختلاف امت سے بچنے اور امت مسلمہ کی یکجہتی کی کوشش کے لیے کتاب کھولتے ہی اس کے پہلے صفحہ پر اس کی صحت اور علمیت کی تصدیق کے لیے دیوبندی،بریلوی اور اہل حدیث تینوں مکاتب فکر کے جید علما اور مدرسوں کی اسناد کی نقول نظر آتی ہیں ۔جبکہ مصنف خود بھی جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں اور ایم ایس سی اور ایم اے ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی مدرسے کی سب سے بڑی سند شہادۃ العالمیہ کے حامل اور باقاعدہ سند یافتہ مفتی بھی ہیں۔۔اللہ تعالی مولف کی ان خدمات کو قبول فرمائے اور ہمیں رمضان کی مبارک ساعتوں سے بھر پور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ( ر ا سخ )
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے اچھائی اور برائی ،خیر وشر،نفع ونقصان میں امتیاز کرنے اور اس میں صحیح فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے ۔اچھے کام کرنے اور راہِ ہدایت کو اختیار کرنے کی صورت میں اس کے بدلے میں جنت کی نوید سنائی ہے ۔ شیطان اور گمراہی کا راستہ اختیار کرنے کی صورت میں اس کے لیے جہنم کی وعید سنائی ہے۔اللہ تعالیٰ نے راہ ہدایت اختیار کرنے کےلیے اپنے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا تاکہ انسانوں کو شیطان کے راستے سے ہٹا کر رحمٰن کے راستے پر چلائیں۔تاکہ لوگ اپنے آپ کو جہنم سے بچا کر جنت کا حق دار بنالیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ(سورۃ التحریم :6)’’اے ایمان والوں اپنے آپ کوجہنم کی آگ سے بچاؤ جس کاایدھن لوگ اورپھتر ہیں ‘‘اس لیے گھر کے ذمہ دار کی یہ ذمہ داری ہےکہ وہ اپنے گھر والوں کو ایسے اعمال کرنے کا کہےکہ جن کے کرنے سے جہنم کی آگ سے بچا جاسکے۔ زیرنظر کتاب ’’ بچاؤ اپنے آپ کو اور گھر والوں کوجہنم کی آگ سے ‘‘ میں محترمہ ام عب منیب صاحبہ نے یہ واضح کیاہے کہ اہل میں کون لوگ شامل ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ نے اہل کو بچانے کا حکم کیوں دیا؟انبیاء کرام نے اپنے اہل وعیال کو جہنم سے بچانے کا فریضہ کس طر ح ادا کیا اور ہمیں یہ فریضہ کس طرح ادا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ محترمہ کی اس کاوش کو اہل ایمان کےلیے جہنم سے آزادی کے ذریعہ بنائے ( آمین) م۔ا)
آخرت کی یاد سے دنیوی زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا احساس ہوتا ہے اور آخرت کی حقیقی زندگی کے لئے حسنِ عمل کا جذبہ اور رغبت پیدا ہوتی ہے۔ یادِ آخرت کا اہم ذریعہ زیارتِ قبور ہے۔ شہرِ خاموشاں میں جاکر ہی بدرجۂ اتم یہ احساس ہوتا ہے کہ موت کتنی بڑی حقیقت ہے جس کا مزہ ہر شخص چکھے گا۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔ جلیل القدر انبیاء ؑ مبعوث ہوئے اور باری باری موت کا مزہ چکھتے رہے۔ اسی طرح بزعمِ خویش خدائی کا دعویٰ کرنے والے بھی آئے، دارا و سکندر جیسے بادشاہ بھی گزرے لیکن موت کی آہنی گرفت سے کوئی بھی بچ نہ سکا۔ اگر اتنے نامور لوگوں کو بھی موت نے نہ چھوڑا تو ہم اور تم اس کے تصرف سے کیسے چھوٹ سکتے ہیں۔موت کی یاد تازہ کرنے کے لئے قبروں کی زیارت کرنا تو درست ہے لیکن قبر والوں سے جا کرمدد مانگنا ،قبروں پر چڑھاوے چڑھانا اور وہاں نذر ونیاز تقسیم کرنا وغیرہ ایسے اعمال جو شرک کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب" قبر پرستی (ایک حقیقت پسندانہ جائزہ)" جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین مفسر قرآن محترم مولانا حافظ صلاح الدین﷾ کی تصنیف ہے۔یہ کتاب درحقیقت رد قبر پرستی کے موضوع پر لکھے گئے ان کے متعدد مضامین کا مجموعہ ہے۔جو مختلف اوقات میں معروف اہل حدیث مجلے الاعتصام میں چھپتے رہے اور احباب کے اصرار پر بعد میں انہیں ایک کتاب کی شکل میں طبع کر دیا گیا ہے۔موصوف کی اس کے علاوہ بھی بے شمار مفید اور علمی کتب ہیں،جن میں سے تفسیر احسن البیان سب سے زیادہ قابل ذکر ہے۔اللہ تعالی مولف کی فروغ دین کی ان تمام خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اسلام کی آمد سے قبل اہل عرب کی ایک اہم خوبی زبان و ادب پر ان کی غیر معمولی قدرت و دسترس اور اس سے خاصی دلچسپی تھی۔ انہیں اپنی اس صفت پر اس قدر فخر تھا کہ وہ ساری دنیا کو بے زبان، صرف خود کو اہل زبان تصور کیا کرتے تھے، وہ ماسوائے عرب کو عجمی کہتے تھے۔یہ دعویٰ گوکہ صحیح نہیں، لیکن بالکل غلط بھی نہیں تھا۔یہ حقیقت ہے کہ اہل عرب کی زبان و بیان اور فصاحت و بلاغت پر قدرت اور غیر عرب کی قدرت میں زمین و آسمان کا تناسب تھا۔ یہ بات صرف اس زمانے کی نہیں، آج بھی عربی زبان دنیا کی عظیم ترین ترقی یافتہ زبانوں سے ایک ہے اور غیر عربی کو عربی سے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔جب اسلام آیا تو اہل عرب بلکہ دنیائے انسانیت کو اخلاقی پستیوں اور توہمات کی زنجیروں سے نجات دلانے کا عظیم مقصد لے کر آیا، اس لئے ضروری تھا کہ ان کی راہنمائی ایسے ذرائع سے ہو جو بلند اقدار کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی زبان و ادب کے متعلق مذکورہ نظریے کی تردید کرتا ہو۔چنانچہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا جو ایک طرف دنیائے ادب کا سب سے عظیم شاہکار ہے تو دوسری طرف دین و دنیا کی فلاح و بہبود اور کامیابی و کامرانی کا علم بردار۔جن کے اندر ذرا بھی احساس کا مادہ، غور وفکر کی قوت اور حق قبول کرنے کی لیاقت تھی، انہوں نے حق قبول کیا، قرآن سے مستفید ہوئے اور جنت کی راہ پائی، لیکن جن کے قلوب و اذہان شخصی تعصب و عناد ذاتی نخوتوں اور ابدی گمراہیوں سے بھرے ہوئے تھے، اور جن کے سروں پر ضلالت و گمراہی ناچ رہی تھی، انہوں نے اسے کلام بشر، پاگل پنے کی بات، اگلوں کی حکایات اور شعر و سحر سے موسوم کیا۔زیر تبصرہ کتاب "قرآن ایک معجزہ عظیم"محترم ابو محمد مخدوم زادہ کی تصنیف ہے ۔جس میں انہوں قرآن مجید کے انہی معجزات پر گفتگو کی ہے اور معترضین کے اعتراضات کا مدلل اور مسکت جواب دیا ہے۔یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد اور عظیم کاوش ہے ۔اللہ تعالی سے دعا ہےکہ مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے ۔آمین(راسخ)
اپنے اسلاف کے حالات او ران کے کارناموں سے واقفیت حاصل کرنا اس لیے ضروری کہ بعد میں آنے والے ان کے نقوشِ قدم پر چل سکیں اور زندگی میں ان سے راہنمائی حاصل کی جاسکے اوراسلاف کے کارناموں کو زندہ رکھا جا سکے ۔ اس سلسلے میں برصغیر کے کئی سیرت نگاروں نے ائمہ محدثین اور دیگر ائمہ اسلاف کی حیات وخدمات کے حوالے کتب لکھی ہیں۔اور اردو زبان میں عام فہم انداز میں صوفیا کرام اور نام نہادبزرگوں پر تو بہت کچھ لکھا جاتاہے لیکن اسلام کے اصل محسن اور سنت رسولﷺ کے امین اور محافظ ہستیوں کے حالات لکھنے کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے۔جس کی وجہ سے ہماری نئی نسل اور بڑے بھی محدثین کے نام اور ان کے حالات وخدمات سے واقف نہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’حدیث نبوی کے محافظ‘‘ محترمہ ام منیب صاحبہ کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں نے بچوں کے رسالہ نور کے لیے عام فہم انداز میں محدثین کی حیات وخدمات پر لکھے تھے۔ جسے قارئین کے اصرار پر اس سلسلےکو کتابی صورت میں شائع کیا گیاہے۔جس میں گیارہ محدثین کے حالات ِزندگی اور آخر میں فنِ حدیث کی اصطلاحات کااشاریہ بھی شامل ہے ۔اللہ تعالیٰ اس مجموعے کو عوام الناس کےلیےمفید بنائے (آمین)
یہ نوجوان نسل ہی ہے کہ جنہوں نے ملک وملت کی باگ ڈور سبنھالنی ہوتی ہے اور اس کو دنیا میں بامِ عروج پر پہنچا کر باعزت مقام عطاء کرنا ہوتا ہے باہمت باحیاء باصلاحیت ،غیور بہادر ،جرأت مند نوجوان ہی قوموں کو جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں ۔ اپنی قوم کودشمن کےعسکری تہذیبی وثقافتی حملوں سے بچاتے ہیں اور دشمن پر کا ری ضرب لگا کر اپنی ملت کی کشتی ڈوبنے سے بچاتے ہیں۔لیکن آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ فکری اورعملی اعتبار سے بہت نازک ہے نوجوان کہ جنہوں نے ملت کی نیا کو ڈوبنے سےبچانا تھا وہ خود کفار کی سازشوں کاشکار ہو کر کفر ضلالت کے اندھیروں میں ڈوب چکے ہیں۔ نوجوان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ اس نے اپنی زندگی کیسے گزار نی ہے؟ تو وہ قوم وملت کی زندگیوں کوتباہی سے کیسے بچا سکتا ہے؟ وہ ہر وقت ڈش کیبل اور انٹرنیٹ پر بیٹھار رہتا ہے اور اپنی بہنوں کا پردہ اور دوپٹہ کھینچتا ہے ، عشق ومحبت کے نام سے عفت مآب بہنوں کے آنچل تارتار کرتاہے۔ والدین کےلیے ہمیشہ پریشانی کا باعث بنا رہتا ہے۔تونوجوانوں کے ایسے اعمال سے پوری قوم ایک دردناک عذاب میں مبتلا ہے۔زیر نظر کتاب ’’نوجوان لڑکوں کے نام...‘‘شیخ سلمان بن فہد العودہ کی عربی کتاب کا ترجمہ ہے جس میں انہوں نے مسلم نوجوان کو بتایا ہے کہ وہ کیا کررہا ہےاوراسے کیا کرنا چاہیے۔ اس کی زندگی کا رخ کس طرف ہوناچاہیے۔اسے کن کےخلاف کام کرنا چاہیے اورکن سے محبت کرنی چاہیے محبت کیا ہے ۔کیو ں کی جاتی ہے او رکن سے کی جاتی ہے ؟نیز آج کے نوجوان نے اپنے شب روزکس طرح گزرانے ہیں کہ جس کی بنا پر وہ دنیا میں بھی بلند مقام حاصل کرسکے اورمرنے کے بعد آخرت میں بھی کامیاب وکامران ہوسکے ۔یہ کتاب نوجوانوں کےلیے ایک انمول تحفہ ہے۔اللہ تعالی ٰ مصنف ،ناشر ،مترجم کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے نوجوانوں کےلیے مفید بنائے (آمین) (م۔ا)
سلیم رؤف صاحب﷾ ایک معروف مبلغ اور داعی ہیں۔آپ نے تبلیغ دین کے لئےایک منفرد طریقہ اختیار کرتے ہوئے ہر موضوع کو کہانی کی شکل میں پیش کیا ہے اور بے شمار موضوعات پر لکھا ہے۔آپ نے کتابچوں کے نام بڑے پرکشش او ر جاذب نظر ہوتے ہیں،عنوان کو دیکھ کر انہیں پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔مثلا’’ننھا مبلغ‘‘،’’واہ رے مسلمان‘‘،’’نایاب ہیرا‘‘،’’شیطان سے انٹرویو‘‘،’’بازار ضرور جاوں گی‘‘۔’’اور میں مر گیا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔آپ کے یہ چھوٹے چھوٹے کتابچے عامۃ الناس میں انتہائی مقبول اور معروف ہیں۔ یہ چھوٹا سا کتابچہ’’ پہلے آئیے پہلے پائیے ‘‘ بھی محترم سلیم رؤف صاحب﷾ کے دیگر اصلاحی کتابچوں کی طرح روز مرّہ زندگی میں سرزد ہونے والی عملی کوتاہیوں، دین سے دوری، مغربیت اور مادہ پرستانہ ذہن کی اصلاح کیلئے نہایت سادہ، شستہ اور رواں واقعاتی اسلوب میں تحریر کی گئی ایک عمدہ کاوش ہے۔ چند صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ ہماری معاشرتی کوتاہیوں کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے۔اور ہمیں اپنی اور اپنی اولاد کی اصلاح اور اسلام کے مطابق ان کی تربیت کرنے کی ترغیب دیتا ہے ،تاکہ ہماری دنیا بھی سنور جائے اور ہماری آخرت بھی بن جائے۔اس کتابچے میں انہوں دنیا کی ہاوسنگ سوسائٹیوں اور اللہ تعالی کی جنت کی مثال دیتے ہوئے یہ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ تو سب دھوکہ ہی دھوکہ ہے ،جب اللہ کا وعدہ سچا اور بے مثال ہے۔اللہ تعالی مولف کی ان کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
بے شک جھوٹ برے اخلاق میں سے ہے ,جس سے سب ہی شریعتوں نے ڈرایا ہے ،جھوٹ نفاق کی نشانی ہے اور اللہ کے رسولﷺنے اس کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے۔ آپ ﷺکے فرمان کے مطابق جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ ہمیشہ سچ بولے یا خاموش رہے، مزید براں اللہ کے رسول ﷺنے اس شخص پرخصوصی طور پر لعنت فرمائی ہے جو جھوٹ بول کر لوگوں کو ہنساتا ہے۔ آج کل لوگ مزاح کے نام پر انتہائی جھوٹ گھڑتے ہیں اور لوگوں کو جھوٹے لطائف سنا کر ہنساتے ہیں ۔ آپ ﷺکے اقوال مبارکہ کی روشنی میں اپریل فول جیسی باطل رسوم وروایات کو اپنانے اور ان کا حصہ بن کر لمحاتی مسرت حاصل کرنے والے مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ ایسا کر کے وہ غیر مسلم مغربی معاشرے کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں جس کی رو سے لوگوں کو ہنسانے،گدگدانے اور انکی تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کے لیے جھوٹ بولناانکے نزدیک جائز ہے جبکہ آپ ﷺکے فرمان کے مطابق جھوٹ کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دینا اور انہیں تفریح فراہم کرنااور ہنسانا سخت موجبِ گناہ ہے۔کتاب وسنت میں جھوٹ کی شدید ممانعت آئی ہے.اوراس کی حرمت پراجماع ہے.اورجھوٹے شخص کیلئے دنیا وآخرت میں برا انجام ہے۔ اپریل فول منانے کی روایت کو بدقسمتی سے اغیار کی اندھی تقلید میں مسلمانوں نے بھی اپنا لیا ہے،اور ہر سال نہایت ہی جوش وخروش کے ساتھ مناتے ہیں اور پھر اپنی کامیابیوں پر فخرکرتے ہوئے اور اپنے شکار کی بے بسی کو یاد کرکے اپنی محفلوں کو گرماتے رہتے ہیں۔آج اپریل فول کا یہ فتنہ امت مسلمہ کی نوجوان نسل کے اخلاق کی پامالی کا سبب بن رہا ہے جسے وہ یہود و نصاریٰ کی پیروی کرتے ہوئے جھوٹ بول کر اپنے احباب واقرباء کو بے وقوف بنانے کے لیے مناتے ہیں۔ اپریل فول کا جھوٹ اور مذاق بےشمار لوگوں کی زندگیوں میں طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ اپریل فول کاشکار ہونے والے کئی لوگ ان واقعات کے نتیجے میں شدید صدمے میں مبتلا ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، کئی مستقل معذوری کا شکار ہوکرہمیشہ کے لیے گھر کی چہار دیواری تک محدود ہوجاتے ہیں ، کتنے گھروں میں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور کتنے خوش وخرم جوڑے مستقلًا ایک دوسرے سے متعلق شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں اور مذاق کرنے والے ان سارے ناقابل تلافی صدمات اور نقصانات کا کسی طور پر بھی کفارہ ادا نہیں کر سکتے۔مسلمانوں کے لیے ان غیر شرعی اور غیر اسلامی رسوم و رواج کو منانے کے حوالے سے یہ بات یقینا سخت تشویشناک ہونی چاہیے کہ یہ غیر اسلامی ہیں اور اسلام کی عظیم تعلیمات اور اخلاقی اقدار کے منافی ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’اپریل فول‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی بگھڑے ہوئے معاشرے کے لیے ایک اصلاحی تحریری کاوش ہے جس میں نے انہوں نے اپریل کی تاریخ اور حقیقت کو کواضح کرتے ہوئے قرآن واحادیث اور علمائےکرام کے فتاویٰ کی روشنی میں اس کا شرعی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اللہ تعالی ٰ موصوفہ کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے ۔(آمین)
توحید کا معنی ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ حق باری تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور جُملہ اوصاف و کمال میں یکتا و بے مثال ہے۔ اس کا کوئی ساتھی یا شریک نہیں۔ کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔ صرف وہی با اختیار ہے۔ اس کے کاموں میں نہ کوئی دخل دے سکتا ہے، نہ اسے کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نہ اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہواہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ ڏ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ کہو کہ وہ (ذات پاک ہے جس کا نام) اللہ (ہے) ایک ہے۔معبود برحق جو بےنیاز ہے۔نہ کسی کا باپ ہے۔ اور نہ کسی کا بیٹا۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔(سورۃالاخلاص)علامہ جرجانی ؒ توحید کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں :توحید تین چیزوں کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی پہچان اس کی وحدانیت کا اقرار اور اس سے تمام شریکوں کی نفی کرنا۔ (التعریفات73) توحید کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق صرف اللہ تعالیٰ ہی کیلئے خاص رکھے جائیں۔زیر تبصرہ کتاب"مختصر ہدایۃ المستفید" فتح المجید (عربی) کا اردو ترجمہ ہے جوعلامہ شیخ عبد الرحمن بن حسن آل شیخ کی تصنیف ہے۔اور فتح المجید مجدد الدعوۃ الاسلامیۃ شیخ الاسلام امام محمد بن عبد الوھاب کی کتاب التوحید کی شرح ہے۔یہ کتاب توحید کی بنیادی اقسام اور اس کی تفصیلات پر مشتمل ہے،اور اپنے موضوع پر ایک شاندار اور مفید ترین کتاب ہے۔کتاب التوحید اہل علم اور طلباء کے ہاں ایک معروف کتاب ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔اس کتاب نے شرک وبدعات کے ایوانوں میں ایک زلزلہ برپا کر رکھا ہے،اور شرک کی جڑیں اکھاڑ دی ہیں۔اللہ تعالی مولف کی اس خدمت کو قبول فرمائے،اور تمام مسلمانوں کو عقیدہ توحید اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(راسخ)
نوجوان لڑکیاں جہاں ماں ،بہن ،بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں وہاں ہی وہ ایک مضبوط صالح باکردار طاقتور وتوانا اورروشن خیال،اور اسلام کی مخافظ پاسدار وعلمبردار نسل کو جنم دینے کی اہم ذمہ داریوں اور اپنے منصب کو فراموش کر کے کفار کی تہذیب وثقافت اورگمراہ کن اندھی راہوں پر چل پڑی ہیں۔ ا ن کے شب وروز ڈراموں فلموں کودیکھتے اور بیہودہ رسائل وجرائد اور ڈائجسٹوں کا زہر اپنی رگوں میں اتارنے میں صرف ہوتے ہیں۔وہ مغربی میڈیا او رگندی فلموں کے اثرات قبول کرتے ہوئے غلط قسم کی شہوانی اور غیر شرعی محبتوں کےچکروں میں پھنسی ہوئی ہیں۔ عبادات سے دور شرم حیاء سے عاری بہیودگیوں اور لچر افکار کا شکار ہوکر وہ اپنی زندگی کے عظیم مقصد اور نئی نسل کی تعمیر میں اپنے مثبت کردار کو یکسر بھول گئی ہیں۔ان کو یادہی نہیں رہا کہ انہوں نے اس زندگی میں بھی باعزت مقام حاصل کرکے اسکو کامیاب کیسے بنانا ہے اور پھر مرنے کے بعد کی زندگی کو کیسے پھولوں کی سیج بنانا ہے ؟زیر تبصرہ کتاب ’’نوجوان لڑکیوں کے نام ‘‘ محترمہ بنت سلام کی تصنیف ہے جوکہ اسلامی معاشرے کی ایسی بھولی بھٹکی نوجوان بہنوں اور بیٹیوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے او ران کوبتاتی ہے کہ انہوں نے شریعت مطہرہ کی حدودومیں رہتے ہوئے ہر ایک کی آنکھوں کاتارا کیسے بننا ہے اور کامیاب وکامران خوش گوار زندگی کیسے گزارنی ہے؟ جوکہ ان کےلیے بھی اور ان کی آنےوالی نسلوں کے لیے بھی قابل فخر اورباعث صد افتخار ہو۔نوجوان لڑکیوں کےلیے یہ کتاب ایک قیمتی تحفہ ہے۔اللہ تعالیٰ ا س کتاب کو عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
قرآن کریم کی تفسیرکی طرح رسو ل اللہ ﷺ کی سیرت کا موضوع بھی ایسا متنوع اور سد ابہار ہے کہ ہر دور کے اصحاب علم وتحقیق اور اہل قرطاس وقلم اپنے اپنے انداز اور اسلوب میں شانِ رسالت میں خراجِ محبت اور گل ہائے عقیدت پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔ شاعرِ اسلام سیدنا حسان بن ثابت سے لے کر آج تک پوری اسلامی تاریخ میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے جملہ گوشوں پر مسلسل کہااور لکھا گیا ہے او رمستقبل میں لکھا جاتا رہے گا۔اس کے باوجود یہ موضوع اتنا وسیع اور طویل ہے کہ اس پر مزید لکھنے کاتقاضا اور داعیہ موجود رہے گا۔ دنیا کی کئی زبانوں میں بالخصوص عربی اردو میں بے شمار سیرت نگار وں نے سیرت النبی ﷺ پر کتب تالیف کی ہیں۔ ماضی قریب میں اردو زبان میں سرت النبی از شبلی نعمانی ، رحمۃللعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری اور مقابلہ سیرت نویسی میں دنیا بھر میں اول آنے والی کتاب الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کو بہت قبول عام حاصل ہوا۔ موسوعۃ نضرۃ النعیم فی اخلاق الرسول الکریم بھی اس سی سلسلہ کی کڑی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’موسوعۃ نضرۃ النعیم فی مکارم اخلاق الرسول الکریم ‘‘ سیرت کے موضوع پرعربی زبان میں 12 مجلدات پر مشتمل ضخیم کتاب ہے ۔ جسے امام وخطیب حرمِ مکی الشیخ صالح بن حمید ﷾ کی نگرانی میں دیگر 31 جید علمائے کرام نے مدون کیا ہے۔ سیرت النبی ﷺ کا یہ انکسائیکلوپیڈیا نبی ﷺ کے ان اخلاق حمیدہ اور خصائل کریمہ کابیان ہے جس میں آپ ﷺ کی ذات گرامی ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے اور جس کی شہادت اللہ تعالیٰ نےبھی قرآن مجید میں دی ہے اور سیدہ عائشہ ؓ عنہا نے آپ کے اخلاقِ حسنہ کی بابت فرمایا: کان خلقه القرآن اسی خُلقِ عظیم یا خُلق قرآن یاخُلق الرسول الکریم ﷺ کی مفصل تفسیر وتوضیح یہ کتاب ’’نضرۃ النعیم ‘‘ ہےاس کتاب کی 8جلدوں میں مختلف اخلاق حسنہ اور2 جلدوں میں اخلاق رزیلہ اور عادات قبیحہ کا تذکرہ ہے ۔جلداول مقدمہ اور جلدنمبر 12 فہارس پر مشتمل ہے ۔اس کتاب کی اہمیت اور افادییت کے پیش نظر بیس سال قبل ڈاکٹر مرتضیٰ ملک نے اس کا ترجمہ کرنے کا آغاز کیا لیکن یہ کام اشاعت پذیر نہ ہوسکا۔ زیر تبصرہ کتاب اسی موسوعہ کی پہلی جلد کا اردو ترجمہ ہے جسے کراچی کے ایک ادارے’’ المرکز الاسلامی للبحوث العلمیۃ‘‘ نےترجمہ کرکے شائع کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس ادارے کو اس کتاب کامکمل ترجمہ شائع کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) بحر حال سیرت النبیﷺ کے اس انسائیکلوپیڈیا کا ترجمہ کروا کر شائع کرنا ملک کے معروف اشاعتی اداروں کے ذمے قرض ہے۔اللہ اداروں کے ذمہ داران کو اس قرض کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔ (م۔ا)