مشہور دیوبندی عالم یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب "اختلاف امت اور صراط مستقیم" کے جواب میں فاضل مؤلف نے نہایت محنت اور دیدہ ریزی سے مدلل اور محققانہ جواب لکھا ہے۔ چونکہ اس کتاب میں فریقین کے موقف سامنے آ گئے ہیں لہٰذا گم گشتان بادہ تقلید کیلئے یہ کتاب اب ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرمسلکی تعصب کی عینک اتار کر للّٰہیت اور خلوص قلب سے اصلاح نفس کی خاطر مطالعہ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلکی موشگافیوں میں صراط مستقیم کو کھو دینے والا شخص دوبارہ اس شاہراہ روشن کا مسافر بن جائے۔ مسلکی اختلافات پر ایک چشم کشا اور عمدہ ترین تصنیف
تقلید اور عمل بالحدیث کے اختلافی مباحث صدیوں پرانے ہیں،تقلید جامد کے رسیا اور قرآن وحدیث کے علمبردار علماء ومصلحین اس موضوع پر سیر حاصل بحث کر کے خو ب خوب داد تحقیق دے چکے ہیں۔خیر القرون کے سیدھے سادھے دور کے مدتوں بعد ایجاد ہونے والے مذاہب اربعہ کے جامد مقلد فقہاء نے اپنے اپنے مذہب کی ترجیح میں کیا کیا گل نہیں کھلائے ۔حتی کہ اپنے مذہب کے جنون میں اپنے مخالف امام تک کو نیچا دکھانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا جیسا کہ اہل علم اس سے بخوبی واقف ہیں۔ایسا ہی کچھ طرز عمل ماہنامہ "بینات"کراچی کے مدیر مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے اختیار کیا ہے۔موصوف سے کسی صاحب نے چند سوالات پوچھے ،جن کا جواب مولانا نے بڑی تفصیل سے دیا ۔حتی کہ اسے "بینات" کا ایک خاص نمبر بعنوان "اختلاف امت اور صراط مستقیم "شائع کر دیا۔مگر افسوس کہ اس میں اہل حدیث کو بھی خوا ہ مخواہ گھسیٹ لیا گیا۔اس رسالے کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے مولانا نے "اختلاف امت اور صراط مستقیم " کا نمبر دوم بھی شائع کر دیا۔یہ دونوں نمبر پہلے پاکستان میں چھپے اور پھ...