اسلام کی آمد سے قبل اہل عرب کی ایک اہم خوبی زبان و ادب پر ان کی غیر معمولی قدرت و دسترس اور اس سے خاصی دلچسپی تھی۔ انہیں اپنی اس صفت پر اس قدر فخر تھا کہ وہ ساری دنیا کو بے زبان، صرف خود کو اہل زبان تصور کیا کرتے تھے، وہ ماسوائے عرب کو عجمی کہتے تھے۔یہ دعویٰ گوکہ صحیح نہیں، لیکن بالکل غلط بھی نہیں تھا۔یہ حقیقت ہے کہ اہل عرب کی زبان و بیان اور فصاحت و بلاغت پر قدرت اور غیر عرب کی قدرت میں زمین و آسمان کا تناسب تھا۔ یہ بات صرف اس زمانے کی نہیں، آج بھی عربی زبان دنیا کی عظیم ترین ترقی یافتہ زبانوں سے ایک ہے اور غیر عربی کو عربی سے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔جب اسلام آیا تو اہل عرب بلکہ دنیائے انسانیت کو اخلاقی پستیوں اور توہمات کی زنجیروں سے نجات دلانے کا عظیم مقصد لے کر آیا، اس لئے ضروری تھا کہ ان کی راہنمائی ایسے ذرائع سے ہو جو بلند اقدار کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی زبان و ادب کے متعلق مذکورہ نظریے کی تردید کرتا ہو۔چنانچہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا جو ایک طرف دنیائے ادب کا سب سے عظیم شاہکار ہے تو دوسری طرف دین و دنیا کی فلاح و بہبود اور کامی...