اسلام کی بنیادی تعلیمات کا مقصد انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی کوسکو ن اور مسرتِ دوام سے ہمکنار کرنا ہے ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق اشیائے ضرورت صرف اس حد تک اختیار کرنی چاہییں کہ جہاں پہنچ کر انسان خروی زندگی کی فلاح کے مقصد سے غفلت کاشکار نہ ہو۔جس موڑ پر آکر اشیائے ضرورت انسان کو اپنے پنجے میں جکڑ کر فرائض سے غافل کردیں ان سے رُک جانا بہتر ہے ۔اشیائے ضرورت کی اہمیت اگر ہے تو اتنی ہی کہ جتنی ہمیں ہمارے نبی اکر م ﷺ کی حیات طیبہ سے ملتی ہے جس کے نقوش صحابہ کرام ؓ اجمعین کے گھروں اوررہن سہن میں ملتے ہیں۔انہی کی مختصر جھلک محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے کتابچہ ہذا میں پیش کی ہے۔اس کتاب کے تمام مندرجات کاتعلق حلال وحرام یا جائز وناجائز کے نقطۂ نظر سے نہیں بلکہ اسے دنیاوی ساز وسامان کے بے لگام رجحان کوصحیح رخ دینے کےلیے لکھا گیا ہے۔لہذا اسے اسی خیال سے پڑھا اور سمجھا جائے۔حقیقت یہی ہے کہ موت کے بعد ہر انسان نے اپنےہر لمحے اور ہر چیز کاحساب اللہ رب العزت کے حضور پیش کرناہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کی توفیق عطا فرمائے اور اس کتابچہ کو عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
اسلام کے نظام معیشت کی بنیادی خصوصیت انفرادی ملکیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ دولت کی زیادہ سے زیادہ تقسیم اور اس کو ارتکاز سے بچانا ہے،اس کی ایک عملی مثال زکوۃ کا نظام ہے۔زکوۃ کو واجب قرار دیا جانا ایک طرف اس بات کی دلیل ہے کہ سرمایہ دار خود اپنی دولت کا مالک ہےاور وہ جائز راستوں میں اسے خرچ کر سکتا ہے۔دوسری طرف اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان کی دولت میں سماج کے غریب لوگوں کا بھی حق ہے ۔یہ حق متعین طور پر اڑھائی فیصد سے لیکر بیس فیصد تک ہے،جو مختلف اموال میں زکوۃ کی مقررہ شرح ہے،اور بطور نفل اپنی ضروریات کے بعد غرباء پر جتنا کرچ کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل مسلمان اس عظیم الشان فریضے کی ادائیگی سے سے بالکل لا پرواہ ہو چکے ہیں۔اور زکوۃ نکالنے کا اہتمام مفقود نظر آتا ہے۔زکوۃ کے متعدد ایسے جدید مسائل ہیں ،اہل علم اور طلباء کے لئے ان سے آگاہی انتہائی ضروری تھی۔چنانچہ انڈیا کی اسلامک فقہ اکیڈمی نے دیگر موضوعات کی طرح اس پر بھی ایک سیمینار کا انعقاد کیا اور اس میں مختلف اہل علم نے مقالات پیش کئے اور اپنے موقف کا اظہار کیا۔یہ کتاب " جدید فقہی تحقیقات(زکوۃ کے نئے مسائل)" اس سیمینار میں پیش کئے گئے مقالات کے مجموعے پر مشتمل ہے،جسے محترم مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے مرتب کیا ہے اور کتب خانہ نعیمیہ دیو بند نے طبع کیا ہے۔یہ اہل علم اور طلباء کے لئے ایک گرانقدر علمی وتحقیقی تحفہ ہے۔تمام طالبان علم کو چاہئے کہ وہ زکوۃ کے جدید مسائل کے حل کے لئے اس کتاب کو ضرور پڑھیں۔(راسخ)
موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ موثر اور وسیع ترین ہتھیار ہے ۔ میڈیا پر قابض قوتیں اس کے ذریعے اچھے کو برااور برے کو اچھا ثابت کردیتی ہیں ۔یورپ اورامریکہ کےتمام نشریاتی اداروں،اخبارات ،رسائل اور دیگر تمام ذرائع ابلاغ پر قابض یہود نصاریٰ جہاں اپنے باطل اور فرسودہ عقائد نظریات کی اشاعت کررہے ہیں۔ وہاں اسلامی عقائد وتعلیمات ،پیغمبر اسلام ﷺ کی ہدایات وشخصیت اوراسلامی شعائر پر مسلسل حملے کررہے ہیں۔مغربی ذرائع ابلاغ مؤثر انداز میں پوری دنیا میں یہودیت ،عیسائیت ،لادینیت ،قادیانیت اور دوسرے مذاہب باطلہ کی تبلیغ کررہا ہے ۔اور اسلام کے بارے میں لوگوں کےدلوں میں طرح طرح کےشکوک وشبہات پیدا کر کے اسے قبول کرنے سے انہیں روک رہا ہے ۔عقائد کا موضوع فلسفہ اور منطق کی طرح نہایت بوریت کا حامل ہے ،اس کی مشکل اور پچیدہ ابحاث سے عموما طبیعت اُچاٹ ہوجاتی ہے کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو عقائد کواپنا موضوع بحث بناتے ہیں اور اسی کواوڑھنا بچھونا بنا کر ہر دم مشقت طلب ابحاث کی کھود کرید میں لگے ہوں۔خصوصا پاکستان اور ہندوستان میں ۔ہاں عالمِ عرب میں عقائد کا موضوع نہایت اہمیت ہے پی ایچ ڈی کے اکثر مقالات کا دائرہ موضوع عقائد کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے ۔مکالمہ بین المذاہب کو بین الاقوامی اور عالم گیرت کے اس پر فتن دور میں مختلف فورموں پر اٹھایا جارہا ہے جس سے وحدت ِ ادیان کی طرح مضر اور نقصان دہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش ہور ہی ہے اس لیے علماء کواس سے پہلوتہی نہیں کرنی چاہیے اوراس عنوان سےاپنی کوششوں اور مساعی کو مرتب کرنا چاہیے،تاکہ احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ بحسن وخوبی انجام پذیر ہو۔ زیر نظر کتاب’’مکالمہ بین المذاہب ‘‘ مولانا ولی خان المظفر(مدرس جامعہ فاروقیہ،کراچی) کی ان محاضرات پر مشتمل ہےجو انہوں نے جامعہ فاروقیہ ،کراچی میں مناظر ہ کورس کے کےطلبا کے لیے بیان کیے ۔اس میں انہوں نےادیان ومذاہب ہی نہیں تقریبا قدیم وجدید فرقوں ،مسالک ،افکار ونظریات پر بھی خوب نظر ڈالی ہے او ران کااچھا خاصا استقصاء واحاطہ کیا ہے،اس جہت سے اگر دیکھا جائے تویہ ایک مستقل مذاہب وفرق اور نظریات وفلسفوں کے انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتاہے۔اللہ تعالیٰ اسے طالبانِ علوم نبو ت کےلیے نفع بخش بنائے۔ آمین(م۔ا )
اسلام کے نظام معیشت کی بنیادی خصوصیت انفرادی ملکیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ دولت کی زیادہ سے زیادہ تقسیم اور اس کو ارتکاز سے بچانا ہے،اس کی ایک عملی مثال زکوۃ کا نظام ہے۔زکوۃ کو واجب قرار دیا جانا ایک طرف اس بات کی دلیل ہے کہ سرمایہ دار خود اپنی دولت کا مالک ہےاور وہ جائز راستوں میں اسے خرچ کر سکتا ہے۔دوسری طرف اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان کی دولت میں سماج کے غریب لوگوں کا بھی حق ہے ۔یہ حق متعین طور پر اڑھائی فیصد سے لیکر بیس فیصد تک ہے،جو مختلف اموال میں زکوۃ کی مقررہ شرح ہے،اور بطور نفل اپنی ضروریات کے بعد غرباء پر جتنا کرچ کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل مسلمان اس عظیم الشان فریضے کی ادائیگی سے سے بالکل لا پرواہ ہو چکے ہیں۔اور زکوۃ نکالنے کا اہتمام مفقود نظر آتا ہے۔اس پس منظر میں ایک رجحان یہ بھی ہے کہ اموال زکوۃ کی سرمایہ کاری کی جائے تاکہ زیادہ عرصہ تک اور زیادہ سے زیادہ فقراء کو اس سے استفادہ کرنے کا موقع مل سکے۔موضوع کی اہمیت کے پیش نظر انڈیا کی اسلامک فقہ اکیڈمی نے دیگر موضوعات کی طرح اس پر بھی ایک سیمینار کا انعقاد کیا اور اس میں مختلف اہل علم نے مقالات پیش کئے اور اپنے موقف کا اظہار کیا۔یہ کتاب " اموال زکوۃ کی سرمایہ کاری " اس سیمینار میں پیش کئے گئے مقالات کے مجموعے پر مشتمل ہے،جسے ایفا پبلیکیشنز نئی دہلی نے طبع کیا ہے۔یہ اہل علم اور طلباء کے لئے ایک گرانقدر علمی وتحقیقی تحفہ ہے۔تمام طالبان علم کو چاہئے کہ وہ اس خاص موضوع پر مطالعہ کے لئے اس کتاب کو ضرور پڑھیں۔(راسخ)
خطوط لکھنے اورانہیں محفوظ رکھنے کاسلسلہ بہت قدیم ہے قرآن مجید میں حضرت سلیمان ؑ کا ملکہ سبا کو لکھے گئے خط کا تذکرہ موجود ہے کہ خط ملنے پر ملکہ سبا حضرت سلیمان ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔خطوط نگاری کا اصل سلسلہ اسلامی دور سے شروع ہوتا ہے خود نبیﷺ نے اس سلسلے کا آغاز فرمایا کہ جب آپ نے مختلف بادشاہوں اور قبائل کے سرداروں کو کو خطوط ارسال فرمائے پھر اس کے بعد خلفائے راشدین نے بھی بہت سے لوگوں کے نام خطوط لکھے یہ خطوط شائع ہوچکے ہیں اور اہل علم اپنی تحریروں او رتقریروں میں ان کے حوالے دیتے ہیں ۔برصغیرکے مشاہیر اصحاب علم میں سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، سید ندیر حسین محدث دہلوی، سیرسید ،مولانا ابو الکلام آزاد، علامہ اقبال ، مولانا غلام رسول مہر اور دیگر بے شمار حضرات کے خطوط چھپے اور نہایت دلچسپی سے پڑ ھےجاتے ہیں۔ زیر تبصرہ ’’مکاتیب سلمان ‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔جوکہ معروف سیرت نگار کتاب ’’رحمۃ للعالمین کے مصنف علامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری کے علمی اور تبلیغی 33 خطوط کا مجموعہ ہے جسے المکتبۃ الاثریۃ ،سانگلہ ہل نے افادۂ عام کےلیے شائع کیا۔(م۔ا)
امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی بغیر کسی اختلاف کے معروف ائمہ اربعہ میں شمار کئے جاتے ہیں، تمام اہل علم کا آپکی جلالتِ قدر، اور امامت پر اتفاق ہے۔ علی بن عاصم کہتے ہیں: ’’ اگر ابو حنیفہ کے علم کا انکے زمانے کے لوگوں کے علم سےوزن کیا جائے تو ان پر بھاری ہو جائے گا ‘‘ آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسلاً عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80ہجری بمطابق 699ء میں ہوئی سن وفات 150ہجری ہے۔ ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا، لٰہذا تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس سال کی عمر میں اعلٰی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔اس مقام ومرتبے کے باوجود محدثین کرام نے بیان حق کے لئے آپ پر جرح اور تعدیل بھی کی ہے۔زیر تبصرہ کتاب’’ الصحیفۃ من کلام ائمۃ الجرح والتعدیل علی ابی حنیفۃ ‘‘ محترم ابو محمد خرم شہزاد کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے محدثین کرام کی طرف سے امام ابو حنیفہ پر کی گئی جرح اور تعدیل کو حوالوں کے ساتھ نقل کردیا ہے۔اور تمام مصادر سے اصل عبارتوں کو بھی ترجمہ کے ساتھ ساتھ نقل کر دیا ہے۔تاکہ اہل علم کے لئے اس استفادہ کرنا آسان ہو جائے(راسخ)
دور ِحاضر میں مسلمانوں کے اندر بہت سی خرافات ورسومات نےجنم لے لیا ہے جن میں سے کسی آدمی کے فوت ہوجانے کے بعد ایصالِ ثواب کا مسئلہ بہت غلط رنگ اختیار کرچکا ہے بالخصوص قرآن خوانی کے ذریعے مردوں کوثواب پہنچانے کارواج عام ہے ۔ قرآن خوانی اورگٹھلیوں وغیرہ پر کثرت سے تسبیحات پڑھ کر مرنے والے کو اس کا ثواب بخشا جاتاہے ۔حتی کہ قرآنی اور اایصال ثواب توایک پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پڑھنے کا میت کوثواب نہیں پہنچتا۔ البتہ قرآن پڑھنےکے بعد میت کے لیے دعا کرنے سے میت کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ہمارے ہاں جو اجتماعی طور قرآن خوانی ایک رواج ہے جس کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ احادیث کی رو سے چند ایک چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ 1۔کسی مسلمان کا مردہ کےلیے دعا کرنا بشرطیکہ دعا آداب وشروط قبولیت دعا کے مطابق ہو۔2 میت کے ذمے نذرکے روزے ہوں جو وہ ادا نہ کرسکا تو اس کی طرف سے روزے رکھنا بھی باعث ثواب ہے ۔3 نیک بچہ جوبھی اچھے کام کرے گا والدین اس کے ثواب میں شریک ہوں گے۔4مرنے کے بعد اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑجانے سےبھی میت کو ثواب ملتا ہے،صدقہ جاریہ بھی اس میں شامل ہے۔ زیر نظر کتابچہ’’زندہ کامردہ کے لیے ہدیہ اور ایصال ثواب ‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کا مرتب شد ہ ہے۔جس میں انہوں نے مختلف اہل علم اور فتاویٰ جات سے استفادہ کرکے مذکورہ مسئلہ کی شرعی حیثیت کوواضح کیا ہے۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے اصلاحی موضوعا ت پر بیسیوں کتابچہ جات تحریر کیے ہیں جن میں سے بعض تو کتاب وسنت ویب سائٹ پر موجود ہیں باقی بھی عنقریب اپلوڈ کردئیے جائیں گے۔ محتر م عبد منیب صاحب (مدیر مشربہ علم وحکمت،لاہور) نے اپنے ادارے کی تقریبا تمام مطبوعات ویب سائٹ کے لیے ہدیۃً عنایت کی ہیں اللہ تعالی اصلاح م معاشرہ کے لیے ان کی تمام مساعی کو قبول فرمائے،آمین۔ (م ۔ا)
سالگرہ کااصل نام برتھ ڈئے ہے ۔جس کامطلب ہے پیدائش کا دن ۔ یہ ایک رسم ہے جو تقریب کے شکل میں ادا کی جاتی ہے ،سالگرہ کام کا مطلب ہے زندگی کے گزشتہ سالوں میں ایک اور گرہ لگ گئی یعنی موصوف ایک سال زندگی کا مزید گزار چکے ہیں۔ برتھ ڈے کو عربی میں یوم المیلاد،ہندی میں جنم دن اور اردو میں سالگرہ کہتے ہیں ۔كتاب و سنت كے شرعى دلائل سے معلوم ہوتا ہے كہ سالگرہ منانا بدعت ہے، خواہ وہ نبی کریمﷺ کی ہو یا کسی عام آدمی کی ہو،جو چیز نبی کریمﷺ کے لئے منانا جائز نہیں ہے وہ کسی دوسرے کے لئے کیسے جائز ہو سکتی ہے۔ یہ دين ميں نيا كام ايجاد كر ليا گيا ہے شريعت اسلاميہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں، اور نہ ہى اس طرح كى دعوت قبول كرنى جائز ہے، كيونكہ اس ميں شريک ہونا اور دعوت قبول كرنا بدعت كى تائيد اور اسے ابھارنے كا باعث ہوگا۔زیر نظر کتابچہ’’سالگرہ‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں ایک اہم کاوش ہے جس میں انہو ں نے سالگرہ منانے کا آغاز اوراس تقریب میں کی جانے والی خرافات کو بیان کرتے ہوئے اس کاشرعی جائزہ بھی پیش کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
زکاۃ اسلام کابنیادی رکن ہے ، جس کےبغیر اسلام اور ایمان مکمل نہیں ہوتا ۔زکاۃ نماز ،روزے اورحج کی طرح فرض عبادت ہے۔عربی زبان میں لفظ ’’زکاۃ‘‘ پاکیزگی ،بڑھوتری اور برکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔جبکہ شریعت میں زکاۃ ایک مخصوص مال کے مخصوص حصہ کو کہا جاتا ہے جو مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے ۔اور اسے زکاۃ اس لیے کہاجاتا ہے کہ اس سے دینے والے کا تزکیہ نفس ہوتا ہے اور اس کا مال پاک اور بابرکت ہوجاتا ہے۔ نماز کے بعد دین اسلام کا ہم ترین حکم ادائیگی زکاۃ ہے اس کی ادائیگی فر ض ہے اور دین اسلام کے ان پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جن پر دین قائم ہے۔زکاۃ ادا کرنےکے بے شمار فوائد اور ادا نہ کرنے کے نقصانات ہیں ۔قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں تفصیل سے اس کے احکام ومسائل بیان ہوئے ۔جو شخص اس کی فرضیت سےانکار کرے وہ یقینا کافر اور واجب القتل ہے ۔یہی وجہ کہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ﷺ نے مانعین زکاۃ کے خلاف اعلان جنگ کیا۔اور جو شخص زکاۃ کی فرضیت کا تو قائل ہو لیکن اسے ادا نہ کرتا ہو اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔جس کی وضاحت سورہ توبہ کی ایت 34۔35 اور صحیح بخاری شریف کی حدیث نمبر1403 میں موجود ہے ۔ جس طرح نماز، روزے اور حج کا وقت مشروع ہے اوران کا طریقہ بھی شریعت نے طے کردیا ہے اسی طرح کتنے مال پر کتنی مدت بعد،کس شرح سے زکاۃ عائد ہوتی ہے اور زکاۃ کےمال کےمستحق کون ہیں ان سب امورکو شریعت نے طے کردیا ہے۔زکاۃ ادا کرنا اپنی جگہ اہم عبادت ہےلیکن اس کےحق دار کون ہیں اور کن لوگوں کا اس پر حق نہیں ہے ۔یہ جاننا اس عبادت کی ادائیگی کےلیے بھی ضروری ہے۔ زیر نظر کتابچہ ’’زکاۃ کےحق دار کون؟‘‘ محترمہ ام عبد منیب کی اہم کاوش ہے جس میں انہوں نےزکوٰۃ کی اہمیت وفضیلت بیان کرنےکے بعد مصارف زکوٰۃ اورزکاۃ کے جملہ احکام مسائل کو عام فہم انداز سے قرآن حدیث کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ جس سے عام قارئین بھی مستفید ہو سکتے ہی۔اللہ تعالیٰ محترمہ کی تمام تحریری کاوشوں کو قبول فرمائے۔ (آمین) م۔ا)
سہو بھول جانے کو کہتے ہیں، جب کبھی نماز میں بھولے سے ایسی کمی یا زیادتی ہو جائے جس سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی لیکن ایسا نقصان آ جاتا ہے جس کی تلافی نماز میں ہی ہو سکتی ہے اس نقصان کی تلافی کے لئے شریعت نے یہ طریقہ بتایا کہ کہ آخری قعدے کے تشہد کے بعد سلام پھیرنے سے قبل یا بعد میں دوسجدے کیے جائیں ۔ سجدۂ سہو رب کریم کی مسلمانوں پر مہربانی،نرمی اور آسانی کامظہر ہے۔اگر نماز میں کسی کمی و بیشی یا بھول چوک کی وجہ سے پوری نماز ہی باطل قرار دے دی جاتی توپھر از سر نو نماز پڑھنا پڑتی۔زیر تبصرہ کتابچہ ’’سجدہ سہو‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے ترتیب دیا ہے جس میں انہو ں جن امور کی وجہ سےسجدہ سہو کیا جاسکتاہے ان کو بیان کرنے کےساتھ ساتھ سجدہ سہو کےطریقوں کو احادیث نبویﷺ اور علمائے اسلام کےفتاوی کی روشنی میں بڑے آسان انداز میں بیا ن کیا اللہ تعالیٰ اسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے او رمرتبہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے (آمین) م۔ا)
اللہ تعالی کا امت محمدیہ پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے امت پر آسانی کرتے ہوئے قرآن مجید کو سات مختلف لہجات میں نازل فرمایا ہے۔یہ تمام لہجات عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان کے قرآن ہونے پر ایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اور ان کا انکار کرنا باعث کفر اور قرآن کا انکار ہے۔دشمنان اسلام اور مستشرقین کا سب سے بڑا حملہ قرآن مجید پر یہی ہوتا ہے کہ وہ اس کی قراءات متواترہ کا انکار کرتے ہوئے اس میں تحریف وتصحیف کا شوشہ چھوڑتے ہیں،تاکہ مسلمان اپنے اس بنیادی مصدر شریعت سے محروم ہو جائیں اور اس میں شکوک وشبہات کا شکار ہو جائیں۔ زیر تبصرہ کتاب "دفاع قراءات"پاکستان کے معروف قاری المقری ابو عبد القادر محمد طاہر رحیمی مدنی کی دفاع قراءات پر ایک منفر داور عظیم الشان تصنیف ہے۔آپ نے اس کتاب میں قراءات قرآنیہ پر اٹھائے گئے متعدد اعتراضات اور شبہات کا مدلل ،مستند اوردندان شکن جواب دیا ہے۔انہوں نے اپنی اس کتاب میں قراءات قرآنیہ کی صحت کے ثبوت کے لئے،قراء کرام کے تعامل اور امت کے اجماع کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ان کے مطابق اگر قراءات قرآنیہ من گھڑت اورغیر ثابت شدہ ہوتیں تو دنیا میں کسی بھی جگہ پڑھی پڑھائی نہ جاتیں۔حالانکہ عہد نبوی سے لیکر آج تک انہیں پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے، اور صورتحال یہ ہے کہ عصر حاضر میں بھی روایت حفص کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں تین دیگر روایات متداول اور رائج ہیں۔اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہ روایات بھی قرآن ہی ہیں ۔اگر یہ قرآن نہ ہوتیں تو ضرور ختم ہو جاتیں،کیونکہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے اٹھایا ہوا ہے۔اللہ تعالی حفاظت قرآن کے سلسلے میں کی جانے والی ان کی ان شاندار خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
ہر انسان جب کلمہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے ایمان کی شہادت دیتا ہے اور جنت کے بدلے اپنی جان ومال کا سودا کرتا ہے، اس وقت سے وہ اللہ تعالیٰ کا غلام ہے اور اس کی جان ومال اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اب اس پر زندگی کے آخری سانس تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔ اس معاہدہ کے بعد جو سب سے پہلا حکم اللہ تعالیٰ کا اس پر عائد ہوتا ہے، وہ پانچ وقت کی نماز قائم کرنا ہے۔ ایک عاجز اور محتاج بندے کی اس سے بڑی اور کیا خوش نصیبی ہوسکتی ہے کہ اذان کے ذریعے شہنشاہ کی طرف سے پکار آئے اور مالک کائنات اس کو اپنے گھر میں آنے کا شرف بخشیں اور اس کو اپنا قرب وتعلق عطا فرمائیں۔اسلام خدا کا آخری اور مکمل دین ہے۔ اس کے سارے احکامات بہت گہری حکمتوں اور بے شمار فوائد پر مبنی ہیں، اس کا ایک حکم بھی بے مقصد اور فضول نہیں ہے۔ پھر نماز تو اسلام کا اتنا اہم فریضہ ہے کہ اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا نہایت ضروری ہے، بغیر عذرِ شرعی کے جماعت کو ترک کرنا سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سینکڑوں آیات میں اور نبی کریم ﷺ نے بے شمار احادیث میں اس کی ادائیگی اور پابندی کا حکم دیا ہے اور جماعت کا اہتمام نہ کرنے والوں کے لئے بڑی سخت وعیدیں قرآن پاک واحادیث میں صراحت کے ساتھ مذکور ہیں۔زیر تبصرہ کتاب ’’ نماز اور جدید سائنس‘‘ ہندوستان کے معروف مبلغ اور سکالر محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک ﷾کی تصنیف ہے۔یہ کتاب انگریزی میں ہے جس کا اردو ترجمہ محترم انجم سلطان شہباز نے کیا ہے۔آپ اپنے خطبات اور لیکچرز میں اسلام اور سائنس کے حوالے سے بہت زیادہ گفتگو کرتے ہیں ،اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو کچھ بتا دیا تھا ،آج کی جدید سائنس اس کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔اور یہ کام وہ زیادہ تر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت کرتے ہیں ،تاکہ ان کی عقل اسلام کی حقانیت اور عالمگیریت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔اسلام اگرچہ سائنس کی تائید کا محتاج نہیں ہے ،اور اس کا پیغام امن وسلامتی اتنا معروف اور عالمگیر ہے کہ اسے مسلم ہو یا غیر مسلم دنیا کا ہر آدمی تسلیم کرتا ہے۔تاہم اس کتاب میں بھی انہوں نے نماز کو سائنسی انداز میں پیش کیا ہے کہ نماز کے کون کونسے سائنسی فوائد ہیں۔اللہ ان کی ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
خریدیں اور جیتیں آج کل اشتہاری دنیا کا مقبولِ عام بول ہےجس کے اندر اس قدر کشش ہےکہ ہر بچہ اور بوڑھا ، مرد عورت اس کی طرف بے تابانہ کھنچا چلا آتاہے جیسے ہی ٹی وی سے یہ آواز سنائی دیتی ہے تمام ناظرین ہمہ تہ دید ہوجاتے ہیں۔بڑے بڑے عقل مند تعلیم یافتہ صارفین بھی ان اشتہاری بولوں کو سن کر اپنی عقل ودانش سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔روزانہ ہزاروں اشتہار سکرین پر بار بار نمودار ہوتے ہیں ۔ اخبارات ورسائل کےپورے پورے صفحے پر قبضہ کیے صارفین کامال ہتھیانے کےلیے انعامات کی دوڑ میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہے ہوتے ہیں ۔مصنوعات تیار رنے والی کمپنیاں انعامات اور جیتنےکے جو اشتہارات دیتی ہیں ۔ انہیں انعامی سکیمیں کہاجاتا ہے۔لیکن اگر غور کیا جائے توانعامات کی اس دوڑ کے بہت سے شرعی ،معاشرتی،معاشی اورنفسیاتی نقصانات ہیں۔ زیر نظر کتابچہ میں محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے مختلف کمپنیوں کی طرف سے اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے جو ناجائز ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں ان کےنقصانات اور ان کا شرعی دلائل کی روشنی میں جائز ہ پیش کیاہے۔ اللہ تعالیٰ محترمہ کی اس کاوش کو عوام النا س کےلیے نفع بخش بنائے، آمین۔ (م۔ا)
اللہ تعالی نے انسان کو خوب صورت اور احسن سیرت وعادات پر پید اکیا ہے۔اس کی فطرت میں حیا،خود داری ،غیرت ،تحفظ ذات،تحفظ مال، اور تحفظ ناموس کا جذبہ رکھ دیا ہے۔لیکن جب انسان شرف وامتیاز کی ان خوبیوں کا گلا اپنے ہاتھوں گھونٹ دیتا ہے تو وہ ذلت وحقارت کی ایسی پستی میں گر جاتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اس سے گھن کھا تی ہے اور اس کے نام پر نفرین بھیجتی ہے۔قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ایسی تمام بد عادات کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے،انہی قبیح عادات میں سے ایک گدا گری بھی ہے۔ اسلام گدا گری کی مذمت کرتا ہے اور محنت کر کے کمائی کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔محنت میں عظمت ہےجو شخص اپنے ہاتھ سے کما کر اپنی ضروریات پوری کرتا ہے ،وہ دراصل ایک خود دار ،غیرت مند انسان ہے اور اسی کو صالح اعمال کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔انبیاء کرام اپنے ہاتھ کی محنت سے کماتے تھے۔۔۔ زیر تبصرہ کتاب " گدا گری"معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ رحمھا اللہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے گدا گری کی مذمت ،اس کے انسانی معاشرے پر برے اثرات،غیرت وخودی کی موت اور دیگر نقصانات وغیرہ پر گفتگو فرمائی ہے۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو صرف ایک ہی دین اختیار کرنے کا حکم دیا توہ سلامتی اور امن کادین اسلام ہے ۔ تمام انبیاء اوران کی امتوں کادین یہی تھا ۔ مگر ہر نبی کی امت نے ان کے تشریف لے جانے کے بعد اپنے اپنے دین کوبدل ڈالا اورایسا مسخ کیا کہ ان کا دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہ رہا۔سورت آل عمران کی ایت 83تا85 میں وضاحت سے بتا دیاگیا ہے کہ دین اسلام ہی واحد دین ہےجو اللہ تعالیٰ کےہاں قابل قبول ہے ۔ کیوکہ اس کی تعلیمات صاف ستھری ہر قسم شبہ سے بالاتر ہیں۔ان کے علاوہ اگر کوئی قوم کوئی اورمذہب یا دین اختیار کرتی ہوتو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں کیوں کہ نبی ﷺ کی آمد سے تمام سابقہ آسمانی مذہب منسوخ اور ختم ہوگئے۔ زیر نظر کتاب ’’دین فطر ت اسلام ہی کیوں؟‘‘نور الحق صدیقی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ اگر تمام غیرمسلم قومیں راہ نجات چاہتی ہیں تو ان کو دین فطرت اسلام کو اپنا لینا چاہیے تاکہ ان کی دنیا اور آخرت بہتر ہوسکے۔ مصنف موصوف نے اس کتاب میں قرآن مجید کے علاوہ ہندو ازم ،بدھ ازم ، چین وجاپان کے مذاہب اور بائبل سےاستفادہ کرتے ہوئے ان کی تعلیمات اور عقائد کا ذکر کیا ہے او ردین اسلام کی تعلیمات کی روشنی اور علوم فنون کے دور جدید کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر ان کااحسن طریقے سےجائزہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کواسلام کی بلندی اور غلبےکا ذریعہ بنائے (آمین) ( م۔ا)
جیسے جیسے قیامت کا وقت قریب آرہا ہے گمراہ فرقے جنگل میں آگ کی طرح پھیلتے جارہے ہیں۔اور اپنے دام ہم رنگ زمانہ میں ناسمجھ مسلمین کو پھنسا رہے ہیں۔قدیم زمانے میں نجد عراق میں کوفہ کا شہر گمراہ فرقوں کی جنم بھومی اور آماجگاہ تھا۔مثلا خوارج ،روافض ،جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ وغیرہ ۔عصر جدید میں کراچی کا شہر خود رو فرقوں کا مرکز ہے۔پہلے ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے ’’برزخی فرقہ‘‘کی بنیاد رکھی اور امام احمد بن حنبل سمیت متعدد ائمہ اسلام کی تکفیر کی ۔چنانچہ کراچی ہی میں رہنے والی ایک عالم وفاضل شخصیت محترم ابو جابر عبد اللہ دامانوی ﷾نے اس کے رد میں ’’ الدین الخالص‘‘ نامی کتاب لکھی ،جس کا آج تک جواب نہیں آ سکا۔برزخی فرقہ کی بیخ کنی کے بعد محترم ابو جابر عبد اللہ دامانوی ﷾نے ایک دوسرے فرقے فرقہ مسعودیہ کے خلاف قلم اٹھایا اور زیر تبصرہ یہ کتاب’’ الفرقۃ الجدیدۃ ‘‘ تحریر فرمائی۔یہ فرقہ بھی کراچی ہی کی پیداوار ہے ۔اس فرقے کے بانی مبانی مسعود احمد صاحب بی ایس سی ہیں۔اس فرقے نے ’’جماعت المسلمین ‘‘ کا خوبصورت لقب اختیار کر رکھا ہے جس طرح لبنان میں رافضیوں نے ’’ حزب اللہ ‘‘ کا نام اختیار کر رکھا ہے۔یہ فرقہ اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو گمراہ سمجھتا ہے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا قائل نہیں ہے۔جو شخص ا س کے بانی مسعود احمد صاحب کی بیعت نہیں کرتا وہ ان کے نزدیک مسلمان نہیں ہے،چاہے وہ قرآن وحدیث کا جتنا بڑا عالم وعامل ہی کیوں نہ ہو۔انہوں نے امام ابن حجرسمیت متعدد محدثین کی تکفیر کی ہے۔اس کتاب میں مولف موصوف نے جماعت المسلمین کے تمام باطل نظریات کا مدلل رد کیا ہے اور ان کی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔اللہ تعالی مولف﷾ کی ان کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔آمین(راسخ)
اللہ رب العزت نے قرآن کریم ہمیں یہودیوں اور عیسائیوں کی اسلام دشمن سازشوں سے بچنے کا حکم دیا ہے اور یہودیوں اور نصاریٰ کی دوستی سے منع کرتے ہوئے واضح طور پر فرمادیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی تمہارے خیر خواہ نہیں ہوسکتے ۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ یہود تمہاری دشمنی میں بہت شدید ہیں ۔ یوں حضورﷺ کی تشریف آوری سےہی یہودیوں کا طرز اور طریقہ یہ رہا کہ وہ چھپ کر وار کرنےاور خفیہ سازشوں کے ذریعہ اسلام کو ختم کرنے کےدرپے ہیں ۔ یہودیوں کی سازشوں سے ہمیشہ اسلام کو نقصان پہنچا۔ان کی سازشوں کی وجہ سے نبی ﷺ نےان کو مدینہ منورہ سے اور خلیفہ ثانی سید نا عمر فاروق ﷺ نے ان کو خیبر سے نکال دیاتھا۔اس وقت سے اب تک ذلت کی چادر اوڑھے یہ یہود اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں ۔ ساٹھ سال قبل یہودیوں نے سازش کے ذریعہ ارضِ فلسطین پر قبضہ کیا اور پھر بیت المقدس پر قابض ہو کر سر زمین عرب میں ایک ناسور کی حیثیت سے اپنا ایک ملک ’’اسرائیل ‘‘ قائم کردیا جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے اورآئے روز فلسطینی مسلمانوں کےخون کی ہولی کھیلی جاتی ہے ۔اور بربریت ووحشت کا وہ طوفان برپا کیا جاتاہے ۔ کہ خود یہودی اس پر شرمسار ہوجاتے ہیں ۔مگر امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی روس ،چین کی سردمہری اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور برغیرتی سے یہودیوں کا ارض فلسطین کے مسلمانوں پر مظالم کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جار ہا ہے ۔ان کے ظالمانہ اقدامات کو ختم کرنے اور مظالم کوروکنے کی بجائے اقوام متحدہ اورامریکہ کا اصرار ہے کہ ان کی اس ناجائز اولاد اسرائیل کو تمام مسلم ممالک تسلیم کرلیں اور دوستی کے ہاتھ بھی دراز کریں۔حکامِ پاکستان کی جانب سے کچھ ایسے اشارے ملے کہ پاکستان بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر غور کررہا تھا اس سلسلے میں پاکستانی علماء اور عوام نے ایک مہم کے ذریعے حکومتی اقدامات کی مزامت کی اور یہ مسئلہ سردست سردخانے میں چلاگیا لیکن ایک بحث کا آغاز کردیا گیا ہےکہ ’’اسرائیل کو تسلیم ‘‘کرنے میں کیا حرج ہے۔ زیر نظر کتاب’’اسرائیل کوکیوں تسلیم کیاجائے ‘‘ مولانا محمدشریف ہزاروی کی کاوش ہے۔جس میں انہوں نے اس مسئلہ کے شرعی پہلوؤں کواجاگر کرنے اور مذہبی نقطہ نگاہ سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے کے لیے ایک گراں قدر فریضہ سرانجام دیاہے۔ اور اس کتاب میں انہوں نے اسرائیل کوتسلیم کرنے کےمضراثرات او ر تسلیم نہ کرنے کی شرعی وجوہات بیان کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف موصوف کی خدمات کو قبول فرمائے (آمین) م۔ا)
قرآن مجید بے شمار علوم وفنون کا خزینہ ہے۔اس کے متعدد مضامین میں سے ایک اہم ترین مضمون اس کے احکام ہیں۔جو پورے قرآن مجید میں جابجا موجود ہیں ۔احکام القرآن پر مبنی آیات کی تعداد پانچ سو یا اس کے لگ بھگ ہے۔مفسرین کرام نے جہاں پورے قرآن کی تفاسیر لکھی ہیں ،وہیں احکام پر مبنی آیات کو جمع کر کے الگ سے احکام القرآن پر مشتمل تفسیری مجموعے مرتب کئے ہیں۔احکام القرآن پر مشتمل کتب میں قرآن مجید کی صرف انہی آیات کی تفسیر کی جاتی ہے جو اپنے اندر کوئی شرعی حکم لئے ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ قصص ،اخبار وغیرہ پر مبنی آیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔زیر تبصرہ کتاب ’’ احکام القرآن‘‘ بھی اسی طرز بھی لکھی گئی چوہدری نذر محمد کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نے تین سو کے قریب موضوعات کے تحت ان موضوعات سے متعلقہ آیات قرآنیہ کو جمع کر دیا ہے۔انہوں نے آیت قرآنی کا متن اور الفاظ لکھنے کی بجائے اختصار کی غرض سے فقط اس کا ترجمہ دینے پر ہی اکتفاء کیا ہے،اور ساتھ سورۃ اور آیت نمبر لکھ دیا ہے،لیکن اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ آیات کے متن کے بغیر اسے پڑھنا ذرا بوجھل محسوس ہوتا ہے۔چوہدری نذر محمد صاحب بنیادی طور پر ایک تاجر پیشہ آدمی تھے ،لیکن حوادثات زمانہ نے انہیں قرآن مجید کے مطالعہ پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے اپنے مطالعہ سے جو کچھ اخذ کیا اسے اپنے جیسے دیگر تاجر حضرات کے لئے جمع کردیا تاکہ وہ بھی قلت وقت کے باوجود قرآن مجید کے احکام سے واقف ہو سکیں اور اسی کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔یہ کوئی علمی یا تحقیقی کتاب نہیں ہے،بلکہ احکام قرآن پر مبنی معلومات کا ایک مجموعہ ہے۔جو تاجروں جیسے مصروف زندگی گزارنے والے لوگوں کے لئے روشنی کی ایک کرن ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے درجات حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)(احکام القرآن)
قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔قرآن واحادیث میں قرآن اور حاملین قرآن کے بہت فضائل بیان کے گئے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ رسالت سے ارشاد فرمایا:«خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ» صحیح بخاری:5027) اور ایک حدیث مبارکہ میں قوموں کی ترقی اور تنزلی کو بھی قرآن مجید پر عمل کرنے کےساتھ مشروط کیا ہے ۔ارشاد نبو ی ہے :«إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ»صحیح مسلم :817)تاریخ گواہ کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن وحدیث کو مقدم رکھااور اس پر عمل پیرا رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو غالب رکھا اور جب قرآن سے دوری کا راستہ اختیار کیا تو مسلمان تنزلی کاشکار ہوگئے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا :
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
زیرتبصرہ کتاب ’’فضائل قرآن ‘‘ حدیث کی معروف کتاب مشکاۃ المصابیح کے کتاب فضائل قرآن سے منتخب احادیث کے عام فہم مطالب ومفاہیم اور تشریح پر مشتمل ہے ۔ جو کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ہفتہ وار دورس حدیث کے سلسلے بیان کیے تھےاس کو مرتب نے ٹیپ ریکارڈر سے سن کر مرتب کر کے کتابی صورت میں شائع کیا۔اللہ تعالیٰ تمام اہل اسلام کو قرآن پر عمل کرنےاور اس کو پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عنائیت فرمائے (آمین) م۔ا)
بیماری اور شفاء کا نظام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔وہ جسے چاہتا ہے بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صحت جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرما دیتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہی اس نے بیماری کے وقت ادویات استعمال کرنے اور ظاہری اسباب کو بروئے کار لانے کی ترغیب دی ہے۔نبی کریمﷺنے متعدد اشیاء کو بطور علاج استعما ل کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپﷺ نے اپنی حیات میں جہاں روحانی اور باطنی بیماریوں کے حل تجویز فرمائے وہیں جسمانی اور ظاہری امراض کے لیے بھی اس قدر آسان اور نفع بخش ہدایات دیں کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کر لے لیکن ان سے سرمو انحراف نہیں کر سکتی۔زیر تبصرہ کتاب’’ اسلام کا ہمہ گیر نظام صحت اور فطری طریقہ علاج ‘‘پاکستان کے معروف اٹامک سائنسدان جناب سلطان بشیر محمود (ستارہ امتیاز)کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے طب نبوی کے چند شہہ پارے تقریبا 236 نسخے جمع فرما دیئے ہیں،جن پر عمل پیرا ہو کر آپ بڑی حد تک بیماریوں سے محفوظ ہو سکتے ہیں ،اور اگر بیمار ہو بھیجائیں تو مناسب پر ہیز ،سادہ غذا دعا اور ان قدرتی اشیاء کے استعمال سے صحت پا سکتے ہیں۔اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
یہ دنیا تکالیف اور مصائب کی آماج گاہ ہے جس میں ہر انسان کسی نہ کسی تکلیف اور پریشانی کاسامنا کرتاہے ۔جادو اور جنات سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کے علاج کےلیے کتاب وسنت کے بیان کردہ طریقوں سے ہٹ کر بے شمار لوگ شیطانی اور طلسماتی کرشموں کے ذریعے ایسے مریضوں کاعلاج کرتے نظر آتے ہیں جن کی اکثریت تو محض وہم وخیال کے زیر اثر خود کو مریض سمجھتی ہے ۔جادوکا موضوع ان اہم موضوعات میں سے ہے جن کا بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے ذریعے تعاقب کرنا علماء کےلیے ضروری ہے کیونکہ جادو عملی طور پر ہمارے معاشروں میں بھر پور انداز سے موجود ہے اور جادوگرچند روپوں کے بدلے دن رات فساد پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں جنہیں وہ کمزور ایمان والے اور ان کینہ پرور لوگوں سے وصو ل کرتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے بغض رکھتے ہیں او رانہیں جادو کے عذاب میں مبتلا دیکھ کر خوشی محسوس کرتےہیں لہذا علماء کے لیے ضروری ہے کہ جادو کے خطرے او راس کے نقصانات کے متعلق لوگوں کوخبر دارکریں اور جادو کا شرعی طریقے سے علاج کریں تاکہ لوگ اس کے توڑ اور علاج کے لیے نام نہادجادوگروں عاملوں کی طرف رخ نہ کریں۔ زیر نظر کتاب ’’500 سوال وجواب برائے جادووجنات‘‘ڈاکٹر رضا عبد اللہ پاشا ﷾ کی عربی کتاب’’ 500 سوال وجواب فی الجن‘‘کا سلیس اردو ترجمہ ہے ۔ترجمہ کے فرائض شیخ سعید الرحمن ہزاروی﷾ (مدرس جامعہ محمدیہ ،گوجرانوالہ) نے انجام دئیے ہیں ۔مصنف موصوف نے اس کتاب میں قرآن وسنت کی روشنی میں صحیح منہج اور طریقے کے مطابق جادو اور جنات وغیرہ کے بارے میں بنیادی معلومات اوران کا سد ّباب کرنے کے طرق و وسائل تحریر کیے ہیں۔اللہ تعالیٰ مصنف ،مترجم،ناشرین کی تمام کاوشوں کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے (آمین) م۔ا)
حیا ایک ایسی صفت ہے جو کسی شخص میں جتنی زیادہ ہوگی اس کو وہ اتنا ہی فحش ومنکر سے درو رکھے گی ۔ارشاد نبوی ہے :’’جب تم میں حیا نہ رہے تو جوجی چاہے کر‘‘ کچھ کیفیاتِ قلبی ایسی ہیں جو اسلام میں پسندیدہ ہیں ان میں جتنا زیادہ مبالغہ کیا جائے اتنا ہی زیادہ ایمان اور اسلام میں نکھار آتاہے حیاان میں سے ایک اہم صفت ہے نبی اکرمﷺ کے حیا کےبارے میں ایک صحابی کہتے ہیں :’’رسول اللہ ﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے ‘‘اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؓ واقعہ کےضمن میں شیخ کبیر کی لڑکی کے حیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاء ’’ان دولڑکیوں میں سے ایک شرماتی ہوئی ان کے پاس آئی‘‘اس سے معلوم ہوا کہ حیا خواتین کی سیرت کا لازمی حصہ ہے ۔اس لیے اگر مرد اور عورت میں حیا کی کثرت ہے تویہ اس کےلیےخیر وبرکت کا باعث ہے ۔لیکن آج دور ِحاضر میں حیا کا جذبہ دم توڑ تا جارہا ہے ،معاشرہ کھلم کھلا بے حیائی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ محرم رشتوں کے درمیان شرم وحیا اور لحاظ کی جو مضبوط دیوار تھی وہ اب عام گھرانوں میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔با پ بھائی خود اپنی بیٹی اور بہنوں کو ہر قسم کی زیب وزینت خود کرواتے اور دیکھ کر انہیں داد دیتے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔زیر نظر کتاب ’’ حفظِ حیا اور محرم رشتہ دار ‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں اہم کاوش ہے جس میں انہوں نے حیا کی تعریف اور اس سلسلے معاشرے میں پائی جانے والی کتاہیوں سے اگاہ کرتے ہوئے محرم مرد اور عورتوں کی ذمہ داریوں کو بڑے احسن اندا ز میں شرعی دلائل کی روشنی میں واضح کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
صحیح مسلم امام مسلم کی وہ مہتم بالشان تصنیف ہے ،جو صحاح ستہ میں سے ایک اور صحیح بخاری کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب ہے۔اس کی تمام روایات صحیح درجہ کی ہیں اور اس میں کوئی بھی روایت ضعیف یا موضوع نہیں ہے۔امام مسلم نے اس کتاب کو کئی لاکھ احادیث نبویہ کے مجموعہ سے منتخب فرما کر بڑی جانفشانی اور محنت سے مرتب فرمایا ہے۔اس کے بارے میں وہ خود فرماتے ہیں کہ میں نے ہر صحیح حدیث اپنی کتاب میں بیان نہیں کی بلکہ میں نےاس کتاب میں صرف وہ حدیث بیان کی ہے کہ جس کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج چہار دانگ عالم میں ’صحیح مسلم‘ پوری آب وتاب کے کےساتھ جلوہ گر ہے۔ صحیح مسلم کا یہ طبع کمپیوٹرائزڈچھ جلدوں اور علامہ وحید الزماں کے ترجمے پر مشتمل ہے،جسے خالد احسان پبلشرز لاہور نے شائع کیا ہے۔اس نسخے میں تمام احادیث کو نئے سرے سے کمپوز کیا گیا ہے اور راوی حدیث کے متن حدیث کا مرکزی حصہ الگ فونٹ میں لکھا گیا ہے تاکہ فرمان نبوی کا حصہ نمایاں ہو جائے۔تمام احادیث کی عالمی معیار کے مطابق نمبرنگ کی گئی ہےتاکہ قارئین کو حوالہ تلاش کرنے میں آسانی رہے۔عربی اعراب کی درستگی کے ساتھ ساتھ بعض جگہوں پر اردو زبان کے پرانے الفاظ کو جدید الفاظ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔بارگاہ الہی میں دعا ہے کہ وہ مولف ،مترجم ،اورناشر کی ان خدمات کو قبول فرمائے اور تمام مسلمانوں کو احادیث نبویہ پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین(راسخ)
اسلامی معاشیات شرعی تجارت کی بنیاد پر قائم ہے جس میں اللہ تعالیٰ کےحلال کردہ کاموں میں ،معاملات کے شرعی قواعد وضوابط کے مطابق سرمایہ کاری اورتجارت کی جاتی ہے ۔ان قواعد کی بنیاد اس قانون پر قائم ہے کہ معاملات میں اباحت اور حلال ہونا اصل قانون ہے اور ہر قسم کی حرام کردہ اشیاء جیسے : سود وغیرہ سے اجتناب لازمی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا(سورۃ البقرۃ:257)’’ اللہ نے بیع کو حلا ل اور سودکوحرام کیا‘‘ لہذا ہرمسلمان کے لیے اپنے دنیوی واخروی تمام معاملات میں شرعی احکام اور دینی تعلیمات کی پابندی از بس ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :َا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ(سورۃ البقرۃ:208)’’اے اہل ایمان اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو ،یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ‘‘ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ عبادات میں تو کتاب وسنت پر عمل پیرا ہو او رمعاملات او رمعاشرتی مسائل میں اپنی من مانی کرے او راپنے آپ کوشرعی پابندیوں سے آزاد تصور کرے۔ ہمارے دین کی وسعت وجامعیت ہےکہ اس میں ہر طرح کے تعبدی امور اور کاروباری معاملات ومسائل کا مکمل بیان موجود ہے او ہر مسلمان بہ آسانی انہیں سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہوسکتاہے۔ زیر نظر کتاب ’’500 سوال وجواب برائے خرید وفروخت ‘‘تجارتی معاملات اور خریدوفروخت کےمتعلق عالم اسلام کے کبار علمائے دین کے 500 فتاوی جات پر مشتمل ہے ۔تاکہ ہر مسلمان ان کی روشنی میں اپنے کاروباری معاملات سنوار سکے اورانہیں شریعت کے منشا ےمطابق انجام دے سکے ۔محترم پروفیسر عبدالجبار ﷾ نے نہایت جان فشانی سےعربی کتاب ’’500 جواب فی البیوع والمعاملات‘‘کو اردوداں قارئین کے لیے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر کے برادرخور محترم عابد الٰہی ﷾ نے اپنے ادارے (مکتبہ بیت السلام ) کی طرف سے طباعت کے اعلی معیار پر شائع کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو تیار کرنے والے اور ناشرین کے لیے ان کی دنیوی واخروی فوز وفلاح کاضامن اور جنت میں بلندیِ درجات کا باعث بنائے (آمین) م۔ا)
مسلمانوں کے اندر بہت سی خرافات ورسومات نےجنم لے لیا ہے جن میں سے کسی آدمی کے فوت شدگان کو ثواب کو پہنچانے کامسئلہ بہت غلط رنگ اختیار کرچکا ہے بالخصوص قرآن خوانی کے ذریعے مردوں کوثواب پہنچانے کارواج عام ہے ۔ قرآن خوانی اورگٹھلیوں وغیرہ پر کثرت سے تسبیحات پڑھ کر مرنے والے کو اس کا ثواب بخشا جاتاہے ۔حتی کہ قرآنی خوانی اور اایصال ثواب توایک پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پڑھنے کا میت کوثواب نہیں پہنچتا۔ البتہ قرآن پڑھنےکے بعد میت کے لیے دعا کرنے سے میت کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ہمارے ہاں جو اجتماعی طور قرآن خوانی ایک رواج ہے جس کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ احادیث کی رو سے چند ایک چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔1۔کسی مسلمان کا مردہ کےلیے دعا کرنا بشرطیکہ دعا آداب وشروط قبولیت دعا کے مطابق ہو۔2 میت کے ذمے نذرکے روزے ہوں جو وہ ادا نہ کرسکا تو اس کی طرف سے روزے رکھنا بھی باعث ثواب ہے ۔3 نیک بچہ جوبھی اچھے کام کرے گا والدین اس کے ثواب میں شریک ہوں گے۔4مرنے کے بعد اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑجانے سےبھی میت کو ثواب ملتا ہے،صدقہ جاریہ بھی اس میں شامل ہے ۔زیر نظر کتابچہ ’’فوت شدگان کوثواب کیسے پہنچائیں؟‘‘شیخ خالد بن یعقوب الشطی کے ایک عربی رسالے کا سلیس اردو ترجمہ ہے ۔ ترجمہ کی سعادت جامعہ لاہور الاسلامیہ(بیت العتیق) کےایک قابل استاذ مولانا عبد الرشید تونسوی (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور ) نےحاصل کی ہے۔ کتابچہ ہذا کے مصنف موصوف نے اس کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ باب اول میں دوسروں کے عمل سے میت کونفع پہنچانے والے کام ذکر کیے گئے ہیں۔باب دوم میں میت کو اس کےاعمال سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر ہےاور باب ثالث میں وہ امور بیان کیے ہیں جو میت کےلیے بے فائدہ ہیں۔اور وہ بے اس لیے ہیں کہ شریعت میں ان کی کوئی دلیل نہیں۔اللہ اس کتابچہ کو لوگوں کےعقائدکی اصلاح کا ذریعہ بنائے اور اس کے مصنف ،مترجم ،ناشرین کی تمام مساعی حسنہ کو قبول فرمائے (آمین)( م۔ا)