والدین پر بچوں کےحقوق میں سے اہم ترین یہ ہےکہ والدین اپنے بچوں کی دینی واسلامی ،اخلاقی وجسمانی اورمعاشرتی تربیت کریں۔ جیسے والدین پر ضروری ہے کہ وہ بچےکی پیدائش کے بعد اس کےحقوق مثلاً بچے کے کان میں اذان کہنا ، اسے گھٹی دینا ،ساتویں دن اچھا نام رکھنا ،سر منڈوانا ،عقیقہ کرنا او رختنہ کرنا وغیرہ لازم ہیں ۔ اسی طرح والدین پر ضروی ہے کہ کہ وہ اپنے بچوں کوبچپن میں ہی قرآن کریم کی تعلیم دلوائیں اور اسے ارکان اسلام کی تعلیم دے کر انہیں اس کاپابند بنائیں۔اور انہیں شریعت کے تمام احکام وآداب کی تعلیم دیں یعنی کھانے پینے،سونے ،جاگنے ،اٹھنے بیٹھنے ،چلنے پھرنے اور ملنے جلنے کےاسلوب وسلیقے سکھائیں اوراس کا خصوصی اہتمام کریں جیسا کہ حضرت جابر نے کیا تھا کہ بچوں کی تربیت کے لیے تجربہ کار ایک بیوہ سے نکاح کرلیا۔ زیر نظر کتابچہ ’’ بچوں کےلیے 40 نصیحتیں‘‘مولانا محمد عظیم حاصل پوری ﷾ (مدیرماہنامہ المحمدیہ،حاصل پور )کی کاوش ہےجس میں انہوں نے بچوں کےلیے وہ 40 نصیحتیں اکٹھی کی ہیں جو مختلف موقعوں پر انبیاء ، نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام ،تابعین اور سلف صالحین نے اپنے بچوں کوکیں۔اور اس میں خصوصا تربیت اولاد کے سلسلہ میں جو اللہ تعالیٰ نےاور نبی کریم ﷺ نے حکیم لقمان کی نصیحتیں اپنے بیٹے کے لیے ذکر کیں ہیں ان کاذکر کیاہے ۔تاکہ ہمارے بچے اپنے بزرگوں کی نصیحتوں پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کےمعزز فرد کہلائیں اور دنیا وآخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں کوسمیٹ سکیں۔اللہ تعالیٰ مصنف موصوف کی تمام تدریسی ،تبلیغی واصلاحی اور تصنیفی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور کتابچہ ہذا کو عوام الناس کے نفع بخش بنائے ( آمین)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے جس میں ہماری ہدایت اور راہنمائی کی تما م تفصیلات موجود ہیں۔ یہ کتاب قیامت تک آنے والے لوگوں کےلئے ذریعۂ ہدایت و رُشد اور راہ نجات ہے۔ یہ کتاب ایک ایسی گائیڈ بک ہے ،جو کسی بھی انسان کے لئے ہرقسم کے حالات وواقعات میں شاندار اور کامیاب رہنمائی کرتی ہے۔ یہ کتاب آسمانی وزمینی علوم کا احاطہ کرنے والی ہے۔ اس کائنات میں کیاہوا، کیا ہوچکا اورکیا ہونے والاہے،اس کے بارے میں تمام معلومات اس کتاب میں موجودہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ اس کتاب میں دنیا میں رونما ہونے والے کسی بھی قسم کے حالات وواقعات کے اسباب اور وجوہات کا تذکرہ تفصیلی طور پر گیا ہے۔ اللہ کی نازل کردہ اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے،جس کا احاطہ کرنا کسی انسان کے لئے ناممکن ہے۔اس کتاب میں انسان جتنا غور وفکر کرکے پڑھے گا، اتنا ہی اس کتاب سے استفادہ کرکے اس کے اسرار ورموز اور معلومات سے آگاہ ہوسکے گا۔ اس آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے جس کا مواد تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے۔قرآن مجید کی اسی شان اور مقام ومرتبے کے پیش نظر اہل علم نے اس کی خدمت میں اپنی زندگیاں کھپا ئی ہیں اور اس کے مختلف علوم وفنون کو مدون فرمایا ہے۔قرآن مجید کے مختلف علوم وفنون میں سے ایک علم متشابہات القرآن ہے۔زیر تبصرہ کتاب "متشابہات القرآن"جماعت اہل حدیث کے معروف قاری المقری الاستاذ محمد ادریس العاصم کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے حفاظ کرام کے لئے قرآن مجید میں آنے والے متشابہات کو جمع فرما دیا ہے تاکہ دوران تلاوت متشابہات کی بناء پر تلاوت نہ ہو جائے۔اللہ تعالی ان کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے سب سے آخری کتاب ہے ۔جسےاللہ تعالی نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں،عالم اسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، جبکہ مغرب ،الجزائر ،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت امام نافع بروایت ورش ، لیبیا ،تیونس اور متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع ،مصر، صومالیہ، سوڈان اور حضر موت میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج اور متداول ہے۔ہمارے ہاں مجلس التحقیق الاسلامی میں ان چاروں متداول روایات(اور مزید روایت شعبہ) میں مجمع ملک فہد کے مطبوعہ قرآن مجید بھی موجود ہیں۔عہد تدوین علوم سے کر آج تک قراءات قرآنیہ کے موضوع پر بے شمار اہل علم اور قراء نے کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔شاطبیہ امام شاطبی کی قراءات سبعہ پر لکھی گئی اہم ترین اساسی اور نصابی کتاب ہے ۔ اللہ تعالی نے اسے بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے۔بڑے بڑے مشائخ اور علماء نے اس قصیدہ کی تشریح کو اپنے لیے اعزاز سمجھا اور اس کی شروحات لکھیں۔ شاطبیہ کے شارحین کی ایک بڑی طویل فہرست ہے ۔زیر نظر کتاب ''عنایات رحمانی '' بھی شاطبیہ کی منجملہ شروحات میں سے ایک ہے۔جو پاکستان میں علم قراءات کے میدان کی معروف شخصیت استاذ القراء والمجودین قاری فتح محمد پانی پتی کی تصنیف ہے۔یہ ایک جامع ،مفصل اور تمام امور کا احاطہ کرنے والی بڑی شاندار اور علمی تالیف ہے جو بڑے سائز کی تین جلدوں پر مشتمل ہےاور علم قراءات کے میدان میں ایک بلند پایہ کاوش ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ رب العزت نےجہاں آپ ﷺ کوتمام انسانیت سے افضل اوراعلیٰ مقام ومرتبہ عطا فرمایا ہے وہاں آپ کو بہت سےایسی خوبیاں اور خصوصیات بھی عطا فرمائی ہیں۔ جو تمام انبیاء اور کل کائنات سے آپ کوممتاز کرتیں ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی عظمت ورفعت کے بیان میں اللہ تعالیٰ نے سیکڑوں خصوصیات آپ کودے رکھیں ہیں ۔کتب وحدیث وسیرت میں جن کاتفصیلی ذکر موجود ہے اور باقاعدہ اس موضوع پر الگ سے کتب بھی موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’40 خصوصیات محمد ﷺ ‘‘مولانا محمد عظیم حاصل پوری ﷾ (مدیرماہنامہ المحمدیہ،حاصل پور )کی کاوش ہے جس میں انہوں نےاختصار کے ساتھ آپﷺکی 40خصوصیات کاذکرکیا ہے۔تاکہ ہم اپنے نبی جناب محمد ﷺ کی عظمت ورفعت کوپہنچان کر ان کی سچی اتباع کریں اور دنیا وآخرت کی فوزوفلاح کےحقدار بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف موصوف کے علم علم اور زورِ قلم میں اضافہ فرمائے۔ اور ہمیں اپنے نبی ﷺ کی سچی اتباع،روز قیامت آپ کا دیدار،آپ کی رفاقت اور آپ کی سفارش نصیب فرمائے (آمین) (م۔ا)
اسلامی کلینڈر میں سن ہجری کو بنیاد بنا کر قمری تقویم بنائی گئی جو کہ عین فطرتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے مہینوں کی تعداد کو بھی چاند کے ساتھ منسلک کیا ہے نا کہ سورج کے ساتھ ۔اس لیے شرعی احکامات پر جب طائرانہ نظر دوڑائی جاتی ہے تو تمام شرعی معاملات جن کا تعلق تاریخ بندی سے ہوتا ہے ان کی ادائیگی قمری کلینڈر سے ہی ممکن ہے عیسوی سے ناممکن ہے۔جیسے رمضان کے روزے ہوں یا عید الفطرو عیدالاضحیٰ،ادائیگی زکوۃ کا مسئلہ ہو یا ایام حج کا گویا کہ بہت ساری فرضی اور نفلی عبادات قمری کلینڈر کے بغیر ناممکن ہیں۔لیکن بنیادی مشکل جو آج کے دور میں نظر آتی ہے وہ اختلاف مطالع کی وجہ سے لوگوں کا متذبذب اور مشکوک ذہن ہے کہ یہ کیا سلسلہ ہے کہ ایک ہی اسلامی تہوار میں اسلامی دنیا میں یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے اپنے اس کتابچہ میں اس حساسیت کو شریعت کی روشنی میں پیش کیا ہے کہ اختلاف مطالع کی باقاعدہ شرعی حیثیت ہے،رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور صحابہ کے دور میں بھی کئی مطالع کا ثبوت پایا جاتا ہے اور اس کے مطابق لوگ احکامات الہٰیہ کی ادائیگی کے پابند ہوں گے۔اسی طریقے سے رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت ،ان کے کیے ہوئے فیصلے کو تسلیم کرنا اور ان کی تحقیق کےمطابق کیے گئے اعلان کوقبول کرتے ہوئے اپنے اپنے مطلع کا اعتبار کرتے ہوئے شرعی احکامات کی بجا آوری کی جائے اسی میں ہی امت مسلمہ کی خیر ہے۔(راسخ)
کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺدینِ اسلامی کے بنیادی مآخذ ہیں۔ احادیث رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اہل علم نے خدمات انجام دیں۔ تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی سے ہوا صحابہ وتابعین کے دور میں پروان چڑھا او ر ائمہ محدثین کےدور میں خوب پھلا پھولا ۔مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے او رپھر بعدمیں اہل علم نے ان مجموعات کے اختصار اور شروح ،تحقیق وتخریج او رحواشی کا کام کیا۔ او ربعض محدثین نے احوال ظروف کے مطابق مختلف عناوین کےتحت احادیث کوجمع کیا۔انہی عناوین میں سے ایک موضوع ’’احادیثِ احکام‘‘ کوجمع کرنا ہے۔اس سلسلے میں امام عبد الحق اشبیلی کی کتاب ’’احکام الکبریٰ‘‘امام عبد الغنی المقدسی کی ’’عمدۃ الاحکام ‘‘علامہ ابن دقیق العید کی ’’الالمام فی احادیث الاحکام ‘‘او رحافظ ابن احجر عسقلانی کی ’’بلوغ المرام من الاحادیث الاحکام ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ آخر الذکر کتاب کی اہمیت وافادیت اور جامعیت کے پیش نظر کئی اہل علم نے اس کی شروحات لکھیں اور ترجمے بھی کیے ۔ شروحات میں بدر التمام،سبل السلام ،فتح العلام وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اور اسی طرح عصرکے معروف سیرت نگار اور نامور عالم دین مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے بھی نے اس کی عربی میں ا’تحاف الکرام ‘‘کے نام سے مختصر شرح لکھی اور پھر خود اس کا ترجمہ بھی کیا۔دارالسلام نےاسے طباعت کےعمدہ معیار پر شائع کیا ہے اور اسے بڑا قبول عام حاصل ہے۔ کتاب وسنت ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ تلخیص سبل السلام فی شرح بلوغ المرام‘‘ مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی کے بھائی محترم مولانا سلیمان کیلانی کی کاوش ہے جو کہ دراصل سبل السلام شرح بلوغ المرام کی تلخیص کرکے اس کاآسان ترجمہ کیا گیاہے ۔مترجم موصوف نے اس میں کتاب کےاجتہادات اورمشکل مقامات ،مغلق الفاظ کواچھی طرح واضح کیا ہے۔ اور ضعیف حدیثوں کےوجہ ضعف پر اچھی طرح تبصرہ کیا ہے او ر کوئی ایسا مقام جوحل طلب ہونظر انداز نہیں کیا گیا۔یہ شرح دو اجزاء پر مشتمل ہے۔موصوف نے جز اول کا آغاز کتاب الطہارہ اور جز ثانی کا آغاز کتاب البیوع سےکیا ہے ۔موصوف نے یہ تلخیص، ترجمہ وحواشی کام 1935ء میں کیا تھا جوکہ اس کےکچھ عرصہ بعد طبع ہوا ۔موجودہ طبع تقریبا 1963ء کی ہے۔اس کے آخر میں حکیم محمد یوسف خادم کی طرف سے ’’الاعلام لاسماء الرجال الذین ذکرہم فی بلوغ المرام‘‘ کے نام سےاضافہ بھی لائق مطالعہ ہے جس میں انہوں نے بلوغ المرام میں مذکور رجال کا تعارف پیش کیاہے ۔اللہ تعالیٰ کتاب ہذاکےمترجم وشارح کی تمام کاوشوں کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
گزشتہ چودہ سو برس میں علمائے امت نے قرآن مجید کی مختلف انداز سے، زمانے کے مخصوص احوال و ظروف کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ جہاں ایک طرف ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے وہیں قرآن حکیم کا ایک علمی اور فکری اعجاز بھی ہے۔ ’لغات القرآن‘ کے موضوع پر عربی زبان کے علاوہ اردو میں بھی قابل قدر کام ہوا ہے۔ عربی میں امام راغب اصفہانیؒ کی مفردات القرآن ایک منفرد تصنیف ہےجس کا اردو ترجمہ کتاب و سنت ڈاٹ کام پرموجود ہے۔ پیش نظر لغت" شرح الفاظ القرآن " کے مرتب مسلک دیو بند کے معروف عالم دین مولانا عبد الرشید گجراتی ہیں ۔اور اس پر تقدیم شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے لکھی ہے۔مولف موصوف نے یہ کتاب ان حضرات کے لیے مرتب کی ہے جو عربی زبان پر دسترس نہیں رکھتے اور ہر لفظ کے مادہ کو تلاش کرنا ان کے لیے دشواری کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے مادہ کے بجائے الفاظِ قرآن کو ان کی اپنی ہی ترتیب کے مطابق مرتب کر دیا گیا ہے۔ اور قرآنی ترتیب کے مطابق پورے قرآن کی لغوی تشریح کر دی گئی ہے۔یہ کتاب اردو خوان طبقہ کے لئے ایک انتہائی مفید اور شاندار کتاب ہے،جس سے ہر مسلمان کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
اعمال ِ صالحہ کی قبولیت کامدار عقائد صحیحہ پر ہے اگر عقیدہ کتاب وسنت کے عین مطابق ہے تو دیگر اعمال درجۂ قبولیت تک پہنچ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل کو عام انسانوں کی فوز وفلاح اور رشد وہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ۔تو انہوں نے سب سےپہلے عقیدۂتوحید کی دعوت پیش کی کیونکہ اسلام کی اولین اساس و بنیاد توحید ہی ہے عقیدہ کاحسن ہی جو انسان کو کامیاب و کامران بناکر اللہ کی رضامندی او رخوشی کاسرٹیفکیٹ فراہم کرتا ہے ۔اگر عقیدہ قرآن وحدیث کے مطابق ہوگا تو قیامت کے دن کامیاب ہوکر حضرت انسان جنت کا حقدار کہلائےگا،اوراگر عقیدہ خراب ہوگا تو جہنم میں جانے سے اسے کوئی چیز نہ روک سکے گی۔ عقیدے کی سلامتی ایک اہم چیز اور زبردست فریضہ ہے دوسرے فرائض کا درجہ اس کے بعد ہے ۔اسلامی عقیدے میں بعض لوگوں کی طرف سے کچھ ایسی خرابیاں اور علطیاں واقع ہوئی ہیں جواسے ختم کردیتی ہیں ۔ زیر نظر کتابچہ ’’ عقیدہ کی خرابیاں اور ان سے بچنے کے طریقے ‘‘ سماحۃ الشیخ ابن باز کی ایک تقریر بعنوان’’ القوادح فی لعقیدۃ ووسائل السلامۃ منہا‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ کی سعات محترم اسرار الحق عبید اللہ صاحب نے حاصل کی ہے ۔شیخ نے اس میں عقیدہ کےسلسلے میں دو قسم کی خرابیوں کو بیان کیا ہے ۔اول: ایسی قسم جو عقیدے کوبرباد اور ختم کردیتی ہے جس کا مرتکب۔ نعوذ بااللہ کافر ہوجاتاہے ۔ اور دوسری قسم وہ ہے جو اس عقیدے میں کمی اور کمزوری پیدا کر دیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کتابچہ کو اہل ایمان کےعقائد کی اصلاح کاذریعہ بنائے (آمین)(م۔ا)
دور حاضر میں نعرہ بازی کسی انجمن،جماعت یا ادارے کے نظریات ومقاصد کی تشہیر کا سب سے آسان ،پرکشش اور عمومی ذریعہ بن چکا ہے۔یہ ایک ایسا ذریعہ تشہیر ہے کہ جس پر زیادہ لاگت یا خاص محنت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔گو یہ کام اکیلا آدمی بھی کر سکتا ہے،لیکن دو چار ہم نوا مل جائیں تو پھر کیا ہی کہنے !نعرے بازی کے لئے کسی پڑھے لکھے اور سمجھدار انسان کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔مطلوبہ نعرہ کسی بچے کو سکھلا کر اس سے بھی یہ کام لیا جاسکتا ہے۔نعروں کے الفاظ ترتیب دیتے وقت اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہےکہ اس کے الفاظ کم سے کم اور پر کشش ہوں،جو عوام کے دلوں میں تیر کی طرح اتر جائیں اور لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آئیں۔لیکن اگر اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل سراسر طلب شہرت ، جھوٹ اور انا خیر منہ جیسے متکبرانہ طرز عمل پر مبنی ہوتا ہے ،جس سے نبی کریم نے سختی سے منع فرمایا ہے۔اور ایسا کرنے والوں کے سخت وعیدیں سنائی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " نعرہ بازی "معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے نعرہ بازی کی حقیقت کو منکشف کرتے ہوئے اس سے بچنے کی ترغیب دی ہے،کیونکہ یہ کام سراسر شریعت کے منافی ہے۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
شادی کی تقریبات میں ولیمہ ایک ایسا عمل ہے جو مسنون ہے۔یعنی نبی کریم ﷺ نے اس کاحکم دیا ہے ۔اور آپ نے خودبھی اپنی شادیوں کا ولیمہ کیا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا مقصد اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ اللہ نے زندگی کےایک نہایت اہم اور نئے موڑ پر مدد فرمائی اور اسے ایک ایسا رفیق حیات اور رفیق سفر دیا جو اس کے لیے تفریح طبع اور تسکین خاطر کاباعث بھی ہوگا او رزندگی کے نشیب وفراز میں اس کاہم دم اورہم درد اور مددگار بھی۔دعوت ولیمہ جب سنت ہے دنیاوی رسم نہیں تو اسے کرنا بھی اسی طرح چاہیے جس میں اسلامی ہدایات سے انحراف نہ ہو جب کہ ہمارے ہاں اس کےبرعکس ولیمہ بھی اس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ بھی شادی بیاہ کی دیگر رسموں کی طرح بہت سی خرابیوں کامجموعہ بن کر رہ گیا۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’شادی بیاہ‘‘ نامور عالم دین مفسر قران مولانا حافظ صلاح الدین یوسف﷾ کی ایک اہم تحریری کاوش ہے جس میں انہوں نےولیمہ کامسنون طریقے کو بیان کر کے غیرمسنون طریقوں کی بھی نشاندہی کی ہے اور اسی طرح شادی کے سلسلے میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے بعض غیر ضروری امور اور رسومات کو بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کتابچہ کو عوام الناس کی اصلاح کاذریعہ بنائے۔ آمین (م۔ا)
اسلامی شریعت میں نذر ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب ہےکسی خیر کے کام کا عہد کرلینا۔یعنی نذریا منت ایک وعد ہ ہے جو اللہ تعالیٰ سےکیا جاتا ہے ۔ لہذا تمام وعدوں کے نسبت اس وعدے کو پورا کرنا زیادہ اہم اور قابل ترجیح ہے ۔ اگرچہ عہد کوئی بھی ہو اسے پورا کرنا مسلمان پر لازم ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا(الاسراء:34) ’’اور عہد پورا کرو بے شک عہد کے متعلق سوال کیاجائے گا‘‘۔ نذرماننے میں قسم کھانے کامفہوم خود بخود شامل ہے لہذا یہ ایک وعدہ ہے کہ جس کے متعلق قسم کھائی جاتی ہے کہ اسے ضرور پورا کروں گا۔نذ ر ماننا فرض نہیں لیکن جب کوئی نذر مان لے توپھر اسے پورا کرنا فرض ہے ہوجاتا ہے اور نذرپوری نہ کرنا سخت گناہ ہے ۔زیرنظر کتابچہ ’’نذر(منت) ماننا‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کا مرتب شدہ ہے ۔جس میں انہوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں کی نذر کی مشروعیت اور اس کی شرائط،جائز وناجائز نذر اور اس کے جملہ احکام ومسائل کوبڑے احسن انداز میں بیان کیا ہے ۔اللہ تعالی اس کتابچہ کو ہمارے معاشرے میں نذر یا منت کے متعلق جو بہت سے غلط عقائداور غلط انداز پائے جاتے ہیں ان کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین)(م۔ا)
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں،برکتوں، کامیابیوں اور کامرانیوں کا مہینہ ہے۔ اپنی عظمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے دیگر مہینوں سے ممتاز ہے ۔رمضان المبارک وہی مہینہ ہےکہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالی جنت کے دروازے کھول دیتا ہے او رجہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کوجکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندے کو اس طر ح گمراہ نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیاد ہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت لیلۃ القدر وغیرہ )کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔روزہ کے احکام ومسائل سے ا گاہی ہر روزہ دار کے لیے ضروری ہے ۔لیکن افسوس روزہ رکھنے والے بیشتر لوگ ان احکام ومسائل سےلا علم ہوتے ہیں،بلکہ بہت سے افراد تو ایسے بھی ہیں جو بدعات وخرافات کی آمیزش سے یہ عظیم عمل برباد کرلینے تک پہنچ جاتے ہیں ۔ کتبِ احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے ۔ اور کئی علماء اور اہل علم نے رمضان المبارک کے احکام ومسائل وفضائل کے حوالے سے کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’رمضان المبارک احکام ومسائل‘‘ مفسر قرآن مصنف کتب کثیرہ مولانا عبد الرحمن کیلانی کے صاحبزادے پروفیسر نجیب الرحمٰن کیلانی ﷾ کی کاوش ہے ۔ جس میں انہوں نے اختصار کے ساتھ رمضان المباک کی فضیلت اور صوم رمضان کے جملہ احکام ومسائل کے ساتھ ساتھ سال بھر کے دیگر نفلی روزوں اور زکوٰۃ وغیرہ کے مسائل کو بھی قرآن واحادیث کی روشنی میں بیان کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے (آمین)
یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کویاد کرنا ہے ۔یوم مئی کا آغاز 1886ء میں محنت کشوں کی طرف سے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کے مطالبے سے ہوا ۔اس دن امریکہ کے محنت کشوں نے مکمل ہڑتال کی ۔تین مئی کو اس سلسلے میں شکاگو میں منعقد مزدوروں کے احتجاجی جلسے پر حملہ ہوا جس میں چار مزدور شہید ہوئے۔اس بر بریت کے خلاف محنت کش احتجاجی مظاہرے کے لئےمیں جمع ہوئے پولیس نے مظاہرہ روکنے کے لئے محنت کشوں پر تشدد کیا اسی دوران بم دھماکے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوا تو پولیس نے مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں بے شمار مزدور شہید ہوئے اور درجنوں کی تعداد میں زخمی ،اس موقعے پر سرمایہ داروں نے مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے پھانسیاں دی حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہیں ۔انہوں نے مزدور تحریک کے لئے شہادت دے کر سرمایہ دارانہ نظام کا انصاف اور بر بریت واضح کر دی ۔ان شہید ہونے والے رہنماؤں نے کہا ۔ ’’تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دباسکتے ‘‘ اس جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر میں محنت کشوں نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار حاصل کئے ۔ہر سال دنیا بھر میں یکم مئی کو یوم مزدور منایا جاتا ہے ۔زیرتبصرہ کتابچہ ’’ یوم مزدور‘‘ میں محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے یوم مزدور کی تاریخی حیثیت کو بیان کر نے کےبعد اس کاشریعت میں کی روشنی میں جائزہ لیا ہے ۔(م۔ا)
امام بخاریکی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ان کی تمام تصانیف میں سے سب سے زیادہ مقبولیت اور شہرت الجامع الصحیح المعروف صحیح بخاری کو حاصل ہوئی ۔ جو بیک وقت حدیثِ رسول ﷺ کا سب سے جامع اور صحیح ترین مجموعہ ہے اور فقہ اسلامی کا بھی عظیم الشان ذخیرہ ہے ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے صحت کے اعتبار سےامت محمدیہ میں’’ اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ کادرجہ عطا کیا او ر ندرتِ استباط اور قوتِ استدلال کے حوالے سے اسے کتابِ اسلام ہونے کاشرف بخشاہے صحیح بخاری کا درس طلبۂ علم حدیث اور اس کی تدریس اساتذہ حدیث کے لیے پورے عالم ِاسلام میں شرف وفضیلت اور تکمیل ِ علم کا نشان قرار پا چکا ہے ۔ صحیح بخاری کی کئی مختلف اہل علم نے شروحات ،ترجمے اور حواشی وغیرہ کا کام کیا ہے شروح صحیح بخاری میں فتح الباری کو ایک امتیازی مقام اور قبولِ عام حاصل ہے ۔اور بعض اہل علم نے صحیح بخاری کے بعض خاص حصوں کی شرح بھی کی ہے جیسے کتاب التوحید از احافظ عبد الستار حماد ﷾،کتاب الجہاد از مولاناداؤد راز اسی طرح زیر تبصرہ کتاب ’’کتاب العلم من الصحیح البخاری مع علمی نکات‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی کاوش ہے جس میں انہوں نےہر حدیث کا ترجمہ پیش کرنے کےبعد اس حدیث میں موجود مشکل الفاظ کے معانی کالم کی صورت میں تحریر کیے ہیں او ر ہر حدیث سے حاصل شدہ علمی نکات کو نمبروار اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے جس سے طالبانِ علومِ حدیث آسانی سے استفادہ کرسکتے ہیں ۔تفہیم حدیث کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے (آمین)(م۔ا)
پاکستانی تاریخ کے ایک معروف ڈکٹیٹر اور آمر صدر پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے دل شہر لاہور میں ایک میرا تھن ریس کا انعقاد کیا گیا ۔جس میں مردوں اور لڑکوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور لڑکیوں نے بھی حصہ لیا۔شرم وحیا کا جامہ اتار کر اس ریس میں شریک ہونے والی خواتین کو دیوث حکمرانوں نے سڑکوں پر ہزاروں ملکی وغیر ملکی تماشائیوں کے سامنے دوڑا کر اپنی بے غیرتی کا ثبوت دیا اور یہ باور کروایا کہ وہ اسلام کے نظام ستر وحجاب پر یورپ کے غلیظ،گندے ،ماں بہن کی تمیز سے عاری گلی سڑی تہذیب کو ترجیح دیتے ہیں۔حالانکہ اسلام خواتین اسلام کو گھر میں ٹک کر بیٹھنے کی تلقین کرتا ہے اور انہیں اپنی زیب وزینت کو غیر محرم مردوں کے سامنے منکشف کرنے سے منع کرتا ہے۔غیر محرم مردوں کے سامنے اپنی زیب وزینت کا اظہار کرنے والی عورتوں کو زانیہ قرار دیا گیا ہے اور جب تک وہ اپنےگھر واپس نہیں لوٹ آتی اللہ کی رحمت کے فرشتے اس پر لعنتیں بھیجتے رہتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ میرا تھن ریس‘‘ معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے جہاں بے غیرت حکمرانوں کی مذمت کی ہے وہیں مسلمان ماوں اور بہنوں سے شرم وحیا کے پیکر بننے کی بھی درخواست کی ہے۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
سحری اور افطاری یہ دونوں کھانے روزے جیسی اہم عبادت کالازمی جزو ہیں۔شریعت نے روزے کے ساتھ یہ دوکھانے مقرر کر کے یہ باور کرا دیا کہ راہبوں اور جوگیوں کایہ خیال کہ جتنا زیادہ طویل فاقہ کیا جائے اتنا ہی زیادہ نفس پاک ہوتا ہے یہ قطعی غلط ہے۔سحری کا وقت طلوع فجر سے قبل فجر کی اذان ہونے تک ہے ۔ جان بوجھ کر سحری ترک کرنا رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی ہے۔اور افطاری روزہ ختم ہونے کی علامت ہے ۔چاہے ایک گھونٹ پانی یا ایک رمق برابر کھانے کی چیز ہی سے افطار کیا جائے ۔افطاری کا وقت سورج غروب ہونے پر ہے ۔جیسے کہ حدیث نبوی ہے ’’ جب رات آجائے دن چلا جائے اور سورج غروب ہوجائے تو روزہ دار روزہ افطار کرلے ‘‘(صحیح بخاری)اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ جب تک لوگ روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہے ہیں گے ۔ تب تک یہ دین غالب رہے گا کیوں کہ یہود اور نصاریٰ افطار کرنے میں تاخیر کرتےہیں‘‘۔(سنن ابوداؤد) زیر تبصرہ کتابچہ’’ سحری ،افطاری اور افطاریاں‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کا ہے جس میں انہوں نے سحری کی اہمیت وضرورت اور اس کے احکام ومسائل اور افطاری کےاحکام ومسائل اور روزہ افطار کروانے کی فضیلت اور عصر حاضر میں افطار پارٹیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس سلسلے میں معاشرے میں پائی جانے والی کتاہیوں اور فضول خرچیوں کی نشاندہی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو عوام الناس کےلیے فائد ہ مند بنائے۔ آمین (م۔ا)
اللہ تعالیٰ نےدنیاکی ہر نعمت ہر انسان کوعطا نہیں کی بلکہ اس نے فرق رکھا ہے اور یہ فرق بھی اس کی تخلیق کا کمال ہے کسی کو اس نے صحت قابلِ رشک عطا کی کسی کو علم دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا،کسی کودولت کم دی کسی کوزیادہ دی ،کسی کو بولنے کی صلاحیت غیرمعمولی عطا کی ، کسی کو کسی ہنر میں طاق بنایا، کسی کودین کی رغبت وشوق دوسروں کی نسبت زیادہ دیا کسی کو بیٹے دئیے، کسی کو بیٹیاں ، کسی کو بیٹے بیٹیاں، کسی کو اولاد زیادہ دی ، کسی کوکم اور کسی کو دی ہی نہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر اولاد کی محبت اور خواہش رکھ دی ہے ۔ زندگی کی گہما گہمی اور رونق اولاد ہی کےذریعے قائم ہے ۔ یہ اولاد ہی ہےجس کےلیے انسان نکاح کرتا ہے ،گھر بساتا ہے اور سامانِ زندگی حاصل کرتا ہے لیکن اولاد کے حصول میں انسان بے بس اور بے اختیار ہے ۔ اللہ تعالیٰ نےاس نعمت کی عطا کا مکمل اختیار اپنےہاتھ میں رکھا۔اس اولاد سےمحروم والدین کوجان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کےلیے جومناسب جانا وہی اسے دیا۔ لہذا اولاد کی محرومی کی صورت میں انہیں شکوہ شکایت یا ناشکری کرنے کی بجائے قناعت اور شکر سے کا م لینا چاہیے ۔اگر علاج معالجہ کا مسئلہ ہو تو اس کے لیے کوشش وکاوش جاری رکھی جاسکتی ہے ۔لیکن غیرشرعی طریقوں سے حصول اولاد کی کوشش کرنا جائز نہیں۔دنیا کے قدیم جاہلی معاشروں سے لے کر دور ِ حاضر کے ہر معاشرے میں بے اولاد والدین نے اپنی محرومی کا ازالہ کرنے کےلیے مختلف صورتیں ایجاد کیں جن میں بعض درج ذیل ہیں۔کسی مفلس والدین کے ہاں بچہ پیدا ہوتے ہی یا پیدا ہونے سے پہلے ہی خرید لیا اور ہمیشہ کے لیے اس کی ولدیت اور نام ونسب کا حق محفوظ کرلیا۔بعض لوگ کسی رشتہ دار یا غیر آدمی کا بچہ لے کر اس کی ولدیت اپنے نام سے جوڑ لیتے ہیں اوراس بناوٹی بیٹے یا بیٹی کووہ تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں جو سگی اولاد کو حاصل ہوتے ہیں۔بعض مرد اپنے سگے بھائی یا اپنے چچا زاد بھائی کا بیٹا یا بیٹی گود لے کر اس کی ولدیت اپنے نام کے ساتھ نتھی کرلیتے ہیں ۔ ہندوؤں میں بھی اس کی مختلف صورتیں موجود ہیں۔اور اہل عرب کےہاں جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ کسی دوسرے کابچہ بڑی عمر کاہوتا یا چھوٹی عمر کا اس کے اصل والدین سے معاہدہ کر کے اس کاحق ولدیت اپنے نام کرالیتے اور معاہدے کا اعلان کعبہ میں یا معتبر افراد کی موجودگی میں کیاجاتا ۔ لیکن اسلام نے ان تمام طریقوں کو ختم کردیا اور اللہ تعالیٰ نے حکم دیا:کہ لے پالک بچوں کی نسبت ان کے حقیقی باپوں ہی کی طرف کی جائے ، جن کی پشت سے وہ پیدا ہوئے ہیں ۔ اور اگر ان کےحقیقی باپوں کاعلم نہ ہو تو وہ پھر وہ دینی بھائی اور متبنی بنانے والے اور دیگر مسلمانوں کے دوست ہیں ۔ اللہ تعالینے اس بات کو حرام قرار دے دیاکہ بچے کی لے پالک بنانےوالے کی طرف حقیقی نسبت کی جائےبلکہ بچے کے لیے بھی اس بات کو حرام قرار دے دیا کہ وہ اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے ، البتہ اگر زبان کی کسی غلطی کی وجہ سے ایسا ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، اللہ سبحانہ و تعالی نے واضح فرمایا ہے کہ یہ حکم عین عدل و انصاف پر مبنی ہے ، یہی سچی بات ہے ، اس میں انساب اور عزتوں کی حفاظت بھی ہے اور ان لوگوں کےمالی حقوق کی حفاظت بھی ، جو ان کے زیادہ حق دار ہیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے :﴿وَما جَعَلَ أَدعِياءَكُم أَبناءَكُم ۚ ذٰلِكُم قَولُكُم بِأَفوٰهِكُم ۖ وَاللَّهُ يَقولُ الحَقَّ وَهُوَ يَهدِى السَّبيلَ ﴿٤﴾ ادعوهُم لِءابائِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَم تَعلَموا ءاباءَهُم فَإِخوٰنُكُم فِى الدّينِ وَمَوٰليكُم ۚ وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ۚ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥﴾... سورةالاحزاب"اورنہ تمہارے لے پالکوں کوتمہارے بیٹے بنایا ، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ تعالی توسچی بات فرماتا ہے اور وہ سیدھا راستہ دکھاتا ہے ۔ مومنو! لے پالکوں کو ان کے( اصلی ) باپوں کےنام سے پکارا کرو کہ اللہ کےنزدیک یہ بات درست ہے۔ اگر تم کو ان سےباپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سےغلطی سےہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو ( اس پر مؤاخذہ ہے )اوراللہ بڑا بخشنے ولا نہایت مہربان ہے ۔‘‘نبی ﷺ نے فرمایاہے :مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ الْمُتَتَابِعَةُ، (سنن ابی داؤد: 5115)’’جو شخص اپنےباپ کے علاوہ کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعو ی کرے یا (کوئی غلام ) اپنے آقاؤں کی بجائےدوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر اللہ تعالی کی مسلسل لعنت ہو ۔‘‘اللہ سبحانہ وتعالی نے منہ لولے بیٹے کے دعوے کو ،جس کو کوئی حقیقت نہیں ہوتی ، مسترد کردیا ، اس لیے اس سے متعلق وہ تمام احکام بھی ختم ہوگئے ، جن پر زمانہ جاہلیت میں عمل ہوتا تھا اور پھر اسلام کے ابتدائی دور تک ہوتا رہا ۔ زیر نظرکتابچہ ’’ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی کاوش ہے جس میں انہوں نے کسی دوسرےکا بچہ گود لینے کی شرعی حیثیت اور اسے کے احکام ومسائل اور اس سلسلے میں پیش آنے مفاسد کا آسان فہم میں ذکر کیا ہے اوراولاد سے محروم والدین کےلیے اس کی متبادل صورتیں بھی پیش کی ہیں۔اللہ تعالیٰ مصنفہ کی اس کاوش کو عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
آگ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے جس کے چلنے سے حرارت اور روشنی پیدا ہوتی ہے ۔آگ جب جل رہی ہواس کی زد میں جو چیز آئے وہ جل کر بھسم ہو جاتی ہے ۔آگ کی ایک چنگاری پورے شہر یا جنگل کوجلانے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ انسان کے ازلی دشمن شیطان کواللہ تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا ۔اور شیطان روزِ اول ہی سے آگ اور آگ سے منسوب چیزوں کو اپنے آلۂکار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جہنم جو آگ کاسب سے بڑا مرکز ومنبع ہے اس کاسب سے بڑا جہنمی خود شیطان ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی نافرمانی کرنے والوں کے لیے عذاب کا اصل گھر آگ ہی کو قرار دیا ہے ۔نیز ا س نے اس عذاب کے دینے میں کسی اورکو اپنا شریک بنانا گوارا نہیں کیا ۔آگ ہماری دشمن ہے اس آگ ہی سے ڈرانے اور بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور رسول بھیجے ۔گو آگ ہماری ضرورت بھی ہے اور ضرورت کے وقت آگ سے کام لینا انسان کا حق ہے ۔ لیکن اسے بغیر ضرورت جلائے رکھنا اس سے پیا ر کرنا، کافروں کی طرح اپنی رسومات اور عادات کا حصہ بنانا کسی صورت بھی زیب نہیں دیتاہے۔ کیونکہ آگ بنیادی طور پرہماری دشمن ہے اور ہمارے دشمن شیطان کی پسندیدہ چیز ہے ۔نبی کریم ﷺ نے ہمیں دنیاوی آگ کی دشمنی کابھی احساس دلایا اور اس سے محتاط رہنے کی تاکید کی ہے ۔ زیر نظر کتابچہ ’’آتش بازی اور لائیٹنگ صرف آرائش اور کھیل یا؟‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کا مرتب شدہ ہے جس میں انہوں نے اختصار کے ساتھ آگ کی تاریخ اور مختلف مذاہب میں اس کی کیا حیثیت ہے؟کو پیش کرکے اس کےجائز اور ناجائز استعمال کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کوبھی بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کتابچہ کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے۔آمین ( م۔ا)
نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کا ایک ایک پہلو ہمارے لئے اسوہ حسنہ اور بہترین نمونہ ہے۔آپ ﷺ کی زندگی کا اہم ترین حصہ دشمنان اسلام ،کفار،یہودونصاری اور منافقین سے معرکہ آرائی میں گزرا۔جس میں آپ ﷺ کو ابتداءً دفاعی اور مشروط قتال کی اجازت ملی اور پھر اقدامی جہاد کی بھی اجازت بلکہ حکم فرما دیا گیا۔نبی کریم ﷺکی یہ جنگی مہمات تاریخ اسلام کا ایک روشن اور زریں باب ہیں۔جس نے امت کو یہ بتلایا کہ دین کی دعوت میں ایک مرحلہ وہ بھی آتا ہے جب داعی دین کو اپنے ہاتھوں میں اسلحہ تھامنا پڑتا ہے اور دین کی دعوت میں رکاوٹ کھڑی کرنے والے عناصر اور طاغوتی طاقتوں کو بزور طاقت روکنا پڑتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ستائیس غزوات میں بنفس نفیس شرکت فرمائی اور تقریبا سینتالیس مرتبہ صحابہ کرام کو فوجی مہمات پر روانہ فرمایا۔زیر تبصرہ کتاب ’’ غزوات النبی ﷺ ’’علامہ علی بن برھان الدین حلبی کی عربی تصنیف‘‘ انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون المعروف بسیرۃ الحلبیۃ‘‘کا اردو ترجمہ ہے ، ترجمہ کرنے کی سعادت محترم مولانا محمد اسلم قاسمی صاحب نے حاصل کی ہے۔مولف موصوف نے اس کتاب میں ان تمام غزوات کی تفصیلات جمع فرما دی ہیں جن میں نبی کریم بنفس نفیس شریک ہوئے۔اور اس کے ساتھ ہی جہاد سے متعلقہ مسائل فقہیہ اور احکام شرعیہ کو بھی بیان کر دیا ہے۔یوں تو اس موضوع پر بے شمار کتب موجود ہیں لیکن اس کتاب کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہر غزوے سے متعلق تمام جزئیات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف ،مترجم،مرتب اور ناشر کی ان کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
سیرت النبی ﷺ بنی نوعِ انسان کےلیے ہدایت اور روشنی کا وہ مینار ہے ، جس سے گم گشتہ راہ انسانوں کو ہدایت ملتی ہے خاتم الانبیاء کی سیرت پاک ہمارے لیے اسوۂ حسنہ قرار دی گئی ہے ۔حضور پاک ﷺ کی پاکیزہ اور مقدس سیرت اس وقت بھی ان انسانوں کے لیے ہدایت کاباعث بنی جو انسانیت سے دور زندگی اور حیوانیت کے دلدادہ ہو چکے تھے۔ آج بھی اس پڑھے لکھے،علم وآگہی اور سائنس کے زمانے میں رشد وہدایت کے متلاشیوں کے لیے تسکین وطمانیت ِ قلب کا سامان مہیا کرتی اور ان کی علمی تشنگیوں کو بھجاتی ہے ۔حضور اکرمﷺ کی سیرت ِ پاک کی جامعیت کایہ پہلو کس قدر تابناک ہے کہ آنحضرتﷺ کی سیرت پاک نے5 لاکھ انسانوں کی سیرتوں کو ہمیشہ کےلیے محفوظ کردیا ۔اسماء الرجال کا فن اس کے ثبوت کےلیے کافی ہے۔اس عظیم ترقی کے دور میں کسی نبی کی ولادت اور وفات کی تاریخ وثوق اور قطعیت سےنہیں بتائی جاسکتی لیکن نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحہ کو نہ صرف بیان کیا جاسکتا ہے بلکہ آپﷺ کی ہر بات کےلیے سلسلۂ اسناد بھی پیش کیا جا سکتاہے ۔امام الانبیاء ﷺ کی سیرت پاک کے موضوع پر دنیا بھر کی زبانوں میں بے شمار کتابیں لکھیں گئیں ہیں اور لکھی جارہی ہیں اور لکھی جائیں گی۔یہ بھی حضور ِاکرمﷺ کی سیرت کااعجاز ہے کہ اگر دنیابھر کےجمیع قسم کے انسانوں کی سوانح عمریاں اکٹھی کی جائیں توبھی حضورِ اکرمﷺ کی سوانح حیات ان سب پر بھاری ہوگی۔حضور پاکﷺ کی سیرت کا یہ وہ کمال ہے جواس آسمان کےنیچے کسی بھی انسان کو حاصل نہیں۔اسی کمال کی طرف’’ورفعنا لک ذکر‘‘ کہہ کر اللہ تعالیٰ نےاشارہ فرمایا! زیرتبصرہ کتاب ’’مختصر سیرۃ الرسولﷺ‘‘ اسی مذکو رہ سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو کہ شیخ الاسلام امام محمدبن عبد الوہاب کے صاحبزادے شیخ عبد اللہ کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب نبی کریم ﷺ کی سیرت پاک پر ایجاز واختصار کےساتھ نہایت جامع اورمدلل کتاب ہے ۔1979ء میں شیخ ابراہیم بن علی الناصر کےتعاون سے پاکستان میں پہلی بار جامعہ علوم اثریہ، جہلم نے اس کتاب کو عربی میں شائع کیا اور پاکستان بھر کےعلماء اور طلباء میں مفت تقسیم کیا گیا ۔اس کی جامعیت وافادیت کا تقاضہ تھا کہ اردو دان حضرات کوبھی اس سےروشناش کرایا جائے ۔چنانچہ افادۂ عام اور اردودان حضرات کے علم ومطالعہ کےپیش نظر استاذ الاستاتذہ شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد اسحاقنےاس کا سلیس اردو ترجمہ کیا اور اس کی تسوید وتصحیح کا فریضہ مولانا اکرام اللہ ساجد کیلانی (سابق مدیر معاون ماہنامہ محدث،لاہور ) نےانجام دیا ہے ۔25 سال قبل اس اردو ایڈیشن کو بھی شیخ ابراہیم بن علی الناصر کے خرچ پر جامعہ علوم اثریہ ،جہلم نے شائع کرکے مفت تقسیم کیا ۔اللہ تعالیٰ اس کو قارئین کےلیے رشد وہدایت اور مصنف ،مترجم،ناشر اور انتظام کنندگان کے لیے اس کوآخرت میں ذریعۂ نجات بنائے (آمین)م۔ا
جب سے اللہ نے زمین وآسمان پیدا فرمائے ہیں مہینوں کی کل تعداد بارہ ہے اور ان میں سے چار حرمت والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حرمت والے مہینوں کا ذکرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو‘‘سورہ توبہ :36) حدیث میں ان حرمت والے مہینوں کی وضاحت نبی کریم ﷺ نے یوں بیان فرمائی کہ :’’ زمانہ گھوم گھما کر اپنی ہئیت پر آگیا ہےجس پر اس دن تھا جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی تھی۔سال کےبارہ مہینے ہیں جن میں چارمہینے والے حرمت والے ہیں ۔تین اکٹھے ہیں یعنی ذو القعدہ ذو الحجہ اور محرم اور چوتھا مہینہ رجب کا ہے جو جمادى ثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے‘‘(بخاری مسلم)زیر نظر کتابچہ’’ حرمت والے مہینے‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی کاوش ہے جس میں انہوں حرمت والے چاروں مہینوں کے احکام وفضائل کو مختصرا آسان اندازمیں بیا ن کیا ہے ۔(م۔ا)
اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے، اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرام وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضہ ہے ۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انہوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انہوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انہوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انہوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرمائے (آمین)(م۔ا)
آج سے تقریبا تین سو برس قبل پورپ میں جدید تحریک نسواں کا آغاز ہوا۔ جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ مرد اور عورت میں سماجی ذمہ داریوں اور تخلیقی صلاحیتوں کےلحاظ سے کوئی فرق نہیں ۔اگر مرد صدر یا وزیر اعظم بن سکتا ہے تو عورت بھی بن سکتی ہے ۔اگر مرد پر معاشی بوجھ ڈالا گیا ہے تو عورت بھی یہ بوجھ اٹھا سکتی ہے ۔اگر مرد جہاز اڑا سکتا ہے ،غوطہ زنی کر سکتا ہے ، مشینیں ٹھیک کر سکتا ہے ،کرکٹ ،اسکوائش ،پولو،ہاکی ،جوڈو کراٹے کھیل سکتاہے ،اگر مرد کار چلانے ،گھوڑے دوڑانے اور خود اپنی ٹانگوں کے بل دوڑنے کا مقابلہ کر سکتا ہے توپھر عورت پر ان تمام پیشوں اور مشغلوں کےدروازے بند کیوں؟اور جب عورت بھی مردکی طرح انسان ہے توپھر اس پر ایسی معاشرتی پابندیاں کیوں عائد کی گئی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گومرد اور عورت کو ایک ہی نوع قرار دیا ہے لیکن صنفی لحاظ سے دونوں میں فرق رکھا ہے۔ یہ فرق طبی،طبعی ،سماجی نفسیاتی ،جذباتی غرض ہر لحاظ سے ہے اور اس فرق کو دنیا کاکوئی انسا ن ختم نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد:’’َلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَى‘‘اس کی واضح دلیل ہے۔ زیر نظر کتاب محترمہ ام عبدمنیب صاحبہ نے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اس تخلیقی فرق ہی کی تائید میں مرتب کی ہے ۔کتاب کے پہلے حصے میں مغربی معاشرے کے دانشووروں ،فلسفیوں، ڈاکٹروں، سائنس دانوں اور ماہر نفسیات کی آراء پیش کی گئی ہیں۔ نیز عورت اور مرد میں جسمانی اور عادات کے لحاظ سے جس نوعیت کابھی فرق پایا جاتا ہے اسے بیان کیا گیا ہے ، اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ قرآن وسنت میں تخلیقی فرق کہاں کہاں ہے او ر اس تخلیقی فرق کی وجہ سے دونوں کی ذمہ داریوں میں بھی فرق ہے اور ذمہ داریوں کے فرق کی وجہ سے دونوں کے لیے شرعی احکام میں بھی فرق رکھا گیا ہے۔اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عام انسانی حقوق کے لحاظ سے دونوں کوبرابر کی سطح پررکھا ہے۔ نیز ایمان وعمل او رجزا وسزا کے لحاظ سےبھی دونوں کے لیے برابری رکھی ہے لیکن دونوں کی ذمہ داریاں ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔اللہ تعالیٰ مصنفہ کی اس کاوش کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔ اور ہمارا مسلمان معاشرہ اس حقیقت سے اگاہ ہو جائے کہ مرد اور عورت کی ذمہ داریاں مختلف ہیں، انہیں ایک جیسی ذمہ داریاں نہیں دی جاسکتیں۔(م۔ا)
حیا ایمان کاشعبہ ہے اور ایمان سب سے زیادہ مقدم ومحبوب نعمت ہے لہذا ایمان کی نگہداشت اور حیا کےلیے ضروری ہے کہ حیا کی بارش سےاسے مسلسل سینچنے کا عمل جاری رکھا جائے۔ جب کسی انسان کےاندر حیا کا آبِ حیات کم ہوجائے تو یہ خطرےکی علامت ہے کہ اس کا ایمان کم ہوگیا ہےرسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الْحَيَاءُ وَالْإِيمَانُ قُرِنَا جَمِيعًا، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُهُمَا رُفِعَ الْآخَرُ(مستدرکحاکم)’’حیا اور ایمان باہم جڑے ہوئے ہیں جب ان میں سے ایک اٹھتا ہے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے‘‘موجودہ معاشرے میں یہ خیال پایا جاتاہے کہ نکاح کےبعد حیا کی ضرورت نہیں رہتی جو جی چاہے کرو جیسا چاہو پہنو، جیسی چاہو باتیں کرو یہ خیال سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ نکاح تو حیا اور عفت کوبرقرار رکھنے کا محفوظ ترین قلعہ ہے اور حیا توکنوار پنے اور ازدواجی زندگی دونوں حالتوں میں عمر بھر کی عادت کےطور پر اپنائے رکھنا ضروری ہے۔رسول اللہ ﷺ کےبارے میں صحابہ کرام بیان کرتے ہیں کہ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَشَدَّ حَيَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا وَكَانَ إِذَا كَرِهَ شَيْئًا عَرَفْنَاهُ فِي وَجْهِهِ (صحيح بخاري ومسلم) ’’آپ ﷺ کنواری دوشیزہ سے بڑھ حیا دار تھے۔ آپ ﷺ کو اگر کوئی کام ناگوار گزرتا تو(حیا کےباعث اس کا نام نہ لیتے) بلکہ آپﷺ کے چہرے سے پتا چل جاتا(کہ آپ ﷺ کو فلاں کام ناگوار گزرا ہے‘‘ حیا کےبارے میں رسول اللہﷺ کے جتنے بھی ارشادات ہیں وہ ہر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ مرد اور عورت کےلیے ہیں ۔زیر تبصرہ کتابچہ’’ حفظِ حیا اور ازدواجی زندگی ‘‘ محترمہ ام عبد منیب کا مرتب شدہ ہے جس میں ا نہوں حیاکی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ایک لڑکی کی شادی کے بعد اسے کس قدر حیادار رہنا چاہیے اسے بڑے آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے ۔اللہ ان کی اس کاوش کوعامۃ الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ ا)
بننے سنورنے کا رجحان دور حاضر میں ایک وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔اور کاسمیٹکس سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو جسم کو فطری حسن کی بجائے اضافی حسن،دل کشی،رنگ ،جاذبیت وغیرہ کے لئے یا من مانا انداز اور رنگ وروپ دینے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔مثلا اسکن کئیر کریمیں ،لوشن،پاؤڈرز ،اسپرے پرفیوم ،لپ سٹک وغیرہ وغیرہ اور ان کے علاوہ بے شمار چیزیں اس میں شامل ہیں۔لیکن ان میں سے متعدد چیزیں ایسی ہیں جو شرعی تقاضوں پر پورا نہیں اترتی ہیں ،مثلا نیل پالش لگا لینے سے ناخنوں تک پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے وضو اور غسل مکمل نہیں ہوتا ہے اور طہارت حاصل نہیں ہوتی ہے۔لہذا ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان چیزوں کے استعمال میں شرعی تقاضوں کا بھی خیال رکھے اور فضول خرچی جیسے معاملات سے اجتناب کرے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ کاسمیٹکس ‘‘ معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے جسمانی زیب وزینت کے استعمال کی چیزوں کے حوالے سے شرعی تقاضوں کا لحاظ رکھنے کی ترغیب دی ہے۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)