کسی بھی علم کی اہمیت کا اندازہ اس کے موضوع سے لگایاجاتاہے۔ علم اصول حدیث کا موضوع "سندومتن "یعنی حدیث ہے۔ اورحدیث کی اہمیت سے کوئی بھی مسلمان انکار نہیں کرسکتا،کیونکہ قرآن مجید کے بعد حدیث احکام شرعیہ کا ایک اہم ترین اور دوسرا بڑا ماخذہے۔یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام نے اس ضمن میں نہایت ہی احتیاط برتی ہے۔ اور نبی کریمﷺ کی طرف منسوب احادیث کی چھان بین کے لئے اصول وضع کیے ہیں۔ان میں سے کچھ اصولوں کا تعلق حدیث کی سند سے ہے،اور کچھ کا حدیث کے متن سے ہے۔حدیث کی سند کی تحقیق کے عمل کو "روایت حدیث" کہا جاتا ہے۔جبکہ متن کی تحقیق کے عمل کو "درایت حدیث" کہا جاتا ہے۔ احادیث کو جب روایت کے اصولوں کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے تو احادیث کی غالب تعداد کے بارے میں نہایت ہی اطمینان کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان احادیث کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف درست ہے یا نہیں۔ بسا اوقات کوئی حدیث روایت کے اصولوں کے مطابق صحیح قرار پاتی ہے لیکن اس کے متن میں کوئی ایسی بات ہوتی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی درست نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک ثقہ سے ثقہ اور محتاط سے محتاط شخص بھی بھول چوک یا غلطی سے پاک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایت کے اصولوں پر پرکھنے کے بعد بعض احادیث کو درایت کے اصولوں پر پرکھنے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے تاکہ حدیث کی سند کے ساتھ ساتھ اس کے متن کی تحقیق بھی کر لی جائے کہ آیا یہ بات واقعتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے درست طور پرثابت ہے یا نہیں ہے۔زیر تبصرہ کتاب" سنت رسول ﷺ کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟"جماعت اہل حدیث کے معروف اصولی اور عالم دین محترم مولانا محمد عاصم الحداد ﷾کی تصنیف ہے ۔جس میں انہوں نے محدثین کے ان اصولوں کو بیان کیا ہے جو انہوں نے حدیث کی چھان بین کے لئے وضع فرمائے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بعض فقہاء کے ان اصولوں کا بھی جائزہ لیا ہے جو انہوں نے اپنی فقہی مسالک کی تایید میں گھڑے ہیں۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اوراصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر اب تک عربی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی بہت سارے رسائل و کتب لکھی جا چکی ہیں۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ پیشِ نظر کتاب بھی انہی کتب میں ایک اضافہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " الاجراء فی قواعد التجوید "محترم قاری نجم الصبیح تھانوی صاحب کی تصنیف ہے،اور اس پر تقریظ استاذ القراء والمجودین قاری محمد ادریس العاصم ﷾کی رقم کردہ ہے۔اس کتاب میں مولف نے علم تجوید کے ابتدائی مسائل کو بیان کیا ہے۔ شائقین علم تجوید کے لئے یہ ایک مفید اور شاندار کتاب ہے،جس کا تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
کلمات قرآنیہ کی کتابت کا ایک بڑا حصہ تلفظ کے موافق یعنی قیاسی ہے،لیکن چند کلمات تلفظ کے خلاف لکھے جاتے ہیں اور رسم کے خلاف اس معروف کتاب کو رسم عثمانی یا رسم الخط کہا جاتا ہے۔تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کو رسم عثمانی کے مطابق لکھنا واجب اور ضروری ہے ،اور اس کے خلاف لکھنا ناجائز اور حرام ہے۔لہذا کسی دوسرے رسم الخط جیسے ہندی، گجراتی، مراٹھی، ملیالم، تمل، پنجابی، بنگالی، تلگو، سندھی، فرانسیسی، انگریزی ،حتی کہ معروف وقیاسی عربی رسم میں بھی لکھنا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ درحقیقت کتاب اللہ کے عموم و اطلاق، نبوی فرمودات، اور اجماع صحابہ و اجماعِ امت سے انحراف ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب " التحفۃ الجمیلۃ شرح قصیدۃ العقیلۃ "استاذ القراءقاری ابو الحسن علی اعظمی کی تصنیف ہے ،جو علم قراءات کے امام علامہ شاطبی کی علم الرسم پر لکھے منظوم قصیدے "عقیلۃ اتراب القصائد فی اسنی المقاصد"کی عظیم الشان اردو شرح ہے۔امام شاطبی کی اس کتاب کے دو سو اٹھانوے اشعار ہیں جن میں انہوں نے امام دانی کی کتاب" المقنع "کے مضامین کو نظم کر دیا ہے۔اس میں انہوں نے رسم عثمانی کے قواعد وضوابط کو بیان کیا ہے۔یہ کلمات قرآنیہ کے رسم الخط پر مبنی ایک منفرد کتاب ہے۔ جس میں حذف، زیادت، ہمزہ، بدل اور قطع ووصل وغیرہ جیسی مباحث کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اگرچہ طلباءکے لیے لکھی گئی ہے ،لیکن اپنی سہولت اور سلیس عبارت کے پیش نظر طلباء اور عوام الناس سب کے لیے یکساں مفید ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے ان کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے انسان کواشرف المخلوقات بناکر فطری خوبیوں سے مالامال کیا ہے۔ان خوبیوں میں سے ایک اہم ترین خوبی شرم وحیا ہے۔شرعی نقطہٴ نظرسے شرم وحیا اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتاہے۔ دین اسلام نے حیاء کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے تاکہ مومن باحیاء بن کر معاشرے میں امن وسکون پھیلانے کا ذریعہ بنے۔نبی کریم ﷺ نے ایک صحابی کو دیکھا جو اپنے بھائی کوسمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم نہ کیا کرو آپ ﷺ نے سنا تو ارشاد فرمایا:اس کو چھوڑدو کیونکہ حیاء ایمان کا جز ء ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا :حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا ءدوزخ میں جانے کا سبب ہے ۔حیاء کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے لہٰذا باحیاء انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگار عالم کے ہاں بھی مقبول ہوتا ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کا ثبوت ملتاہے۔سیدنا شعیب ؑ کی بیٹی جب سیدنا موسیٰ ؑ کو بلانے کے لئے آئیں تو ان کی چال وڈھال میں بڑی شائستگی اور میانہ روی تھی۔ اللہ رب العزت کو یہ شرمیلا پن اتنا اچھا لگا کہ قرآن مجید میں باقاعدہ اس کا تذکرہ فرمادیا۔ جو شخص حیاء جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں محروم القسمت بن جاتا ہے ایسے انسان سے خیر کی توقع رکھنا بھی فضول ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جب شرم وحیا ء نہ رہے تو پھر جو مرضی کر۔ زیر تبصرہ کتاب " حفظ حیا اور کنواری لڑکیاں "معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے عورتوں کو شرم وحیاء کا پیکر بننے کی ترغیب دی ہے اور انہیں سادگی اپنانے کا سبق دیا ہے۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی مقدس اور محترم کتاب ہے۔ جو جن وانس کی ہدایت ورہنمائی کے لیے نازل کی گئی ہے ۔ اس کا پڑھنا باعث اجراوثواب ہے اوراس پر عمل کرنا تقرب الی اللہ او رنجاتِ اخروی کا ذریعہ ہے ۔ یہ قرآن باعث اجروثواب اسی وقت ہوگا کہ جب اس کی تلاوت آدابِ تلاوت کو ملحوظ ِخاطر رکھ کر کی جائے ۔آداب تلاوِت میں سے یہ ہے کہ قرآ ن مجید کی تعلیم اور تلاوت خالصۃً اللہ کی رضا کیلئے ہو جس میں ریا کاری کا دخل نہ ہو ۔تلاوت قرآن مجیدکی تلاوت پر مداومت (ہمیشگی) کی جائے تا کہ بھولنے نہ پائے ۔تلاوت کئے ہوئے حصہ کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہے ۔قرآن مجید طہارت کی حالت میں با وضوء ہو کر پڑھا جائے ۔تلاوت شروع کرنے سے پہلے تعوذ اور بسملہ پڑھنا واجب ہے ۔ دورانِ تلاوت اللہ کے عذاب سے ڈر کر رونا مستحب عمل ہے ۔ ۔اونگھ آجانے پر تلاوت بند کر دینا مستحب ہے ۔عذاب والی آیا ت پر اللہ کی پناہ مانگنا اور رحمت والی آیات پر اللہ سے دعاء کرنا مستحب ہے ۔سجدہ والی آیات کی تلات کرتے وقت سجدہ تلاوت کر نا مسنون ہے ۔جب کوئی تلاوت کررہا ہو تو کامل خاموشی او رغور سے سننا چاہیے۔اور جب خود تلاوت کریں تودل میں خیال ہوکہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہیں ۔ اس لیے نہایت ادب ،سلیقے اور ترتیل سے ٹھر ٹھر کر قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تاکہ اللہ تعالیٰ تلاوت کرنے والے پر خوش ہو ۔ زیر تبصرہ کتاب’’آداب ِتلاوت مع طریقۂ حفظ قرآن وحفظ قراءات‘‘پاک وہند میں تجوید وقراءات کو فروغ دینے والی معروف شخصیت قاری المقری قاری رحیم بخش پانی پتی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے فضائل قرآن ،آداب تلاوت، قرآن مجید اور قراءات کو حفظ کرنے کےطریقہ کو بیان کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو نہایت مقبولیت ونافعیت سے نوازا۔ ہزاروں طالبانِ قرآن کے علاوہ بےشمار عامۃ المسلمین بھی اس سے مستفید ہوئے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کرنے اور اسے پڑھنے ،سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)(م۔ا)
دار العلوم دیو بند اور اس کے فیض یافتگان کی علمی ودینی خدمات برصغیر پاک وہند کی تاریخ کا ایک اہم باب ہےاور ان دوائر میں اپنے مخصوص فقہی نقطہ نظر کے مطابق انہوں نے جو کام کئے ہیں،اختلاف کے باوجود ان سے مجال انکار نہیں ہے۔لیکن تعلیمی ،تدریسی،تبلیغی اور تصنیفی خدمات کا دائرہ قومی وسیاسی خدمات سے مختلف ہے۔ضروری نہیں کہ تعلیم وتدریس اور تبلیغ سے شغف اور وابستگی رکھنے والا سیاست کا مرد میدان بھی ہو۔افسوسناک بات یہ ہے کہ وابستگان دیو بند نے اپنے اکابر کی سوانح وخدمات بیان کرنے میں اسی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جن تک وہ اپنے اکابر کو میدان سیاست کا رستم وسہراب ثابت نہ کر دیں ،ان کی علمی عظمت اور تاریخی اہمیت ثابت نہیں ہو سکتی ہے۔لہذا انہوں نے تاریخ نگاری کی بجائے تاریخ سازی کا راستہ اختیار کیا اور متعدد ایسے فضائل اپنے نام کرنے کی کوشش کی جن کا ان کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " تحریک جہاد ،جماعت اہل حدیث اور علمائے احناف " جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین، عظیم مفسر قرآن اور انٹر نیشنل مکتبہ دار السلام کے شعبہ تحقیق کے مدیر محترم مولانا حافظ صلاح الدین یوسف﷾ کی تصنیف ہے ۔جس میں انہوں نے دیوبندی اہل قلم کے افتراءات والزامات اور ان کی تاریخ سازی کی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اور دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ تحریک جہاد میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والے اہل حدیث علماء کرام تھے ،جنہوں نے سب سے زیادہ قربانیاں پیش کیں اور تختہ دار پر جھول گئے۔(راسخ)
ابو طالب بن عبد المطلب نبی کریم ﷺ کے چچا اور سیدنا علی ؓکے والد تھے۔ ان کا نام عمران اور کنیت ابوطالب تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی والدہ آمنہ بنت وہب اور دادا عبدالمطلب کی وفات کے بعد آٹھ سال کی عمر سے آپ کے زیر کفالت رہے۔ آپ نے ایک بار شام اور بصرہ کا تجارتی سفر کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی ہمراہ لے گئے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر بارہ برس کے لگ بھگ تھی۔بحیرا راہب کا مشہور واقعہ، جس میں راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نبوت کی نشانیاں دیکھ کر پہچان لیا تھا، اسی سفر کے دوران میں پیش آیا تھا۔آپ کے والد کا نام عبدالمطلب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت عمرو تھا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب کے واحد سگے بھائی تھے جبکہ دیگر کی والدہ مختلف تھیں۔تاریخ کی معروف کتب میں تو یہی مکتوب ہے کہ نبی کریم ﷺ کی کفالت آپ کے چچا ابو طالب نے کی ۔لیکن زیر تبصرہ کتاب" کفیل محمد ﷺ " میں مولف نے اس کے برعکس آپ ﷺ کے تایا ابو طاہر زبیر بن عبد المطلب کو آپ کا کفیل بتلایا ہے۔یہ اگرچہ ایک نیا اور اجنبی موقف محسوس ہو رہا ہے ،لیکن مولف نے دلائل کے ساتھ اسے ثابت کیاہے۔اہل علم سے گزارش ہے کہ وہ اس موقف پر ضرور اپنی آراء کا اظہار کریں تاکہ حقیقت حال کھل کر سامنے آ سکے۔اور اس تاریخی واقعہ کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی اصلاح کی جا سکے۔(راسخ)
نظام قدرت کی یہ عجیب نیرنگی اور حکمت ومصلحت ہےکہ یہاں ہر طرف اور ہر شے کے ساتھ اس کی ضد اور مقابل بھی پوری طرح سے کارفرما اور سر گرم نظر آتا ہے۔حق وباطل،خیر وشر،نوروظلمت،اور شب وروز کی طرح متضاد اشیاء کے بے شمار سلسلے کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں۔اور تضادات کا یہ سلسلہ مذاہب ،ادیان اور افکار واقدار تک پھیلا ہوا ہے،اور ان میں بھی حق وباطل کا معرکہ برپا ہے۔تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام کو خارجی حملوں سے کہیں زیادہ نقصان اس کے داخلی فتنوں ،تحریف وتاویل کے نظریوں ،بدعت وتشیع ،شعوبیت وعجمیت اور منافقانہ تحریکوں سے پہنچا ہے،جو اس سدا بہار وثمر بار درخت کو گھن کی طرح کھوکھلا کرتی رہی ہیں ،جن میں سر فہرست باطنیت اور اسماعیلیت کی خطرناک اور فتنہ پرور تحریک ہے،اور جن کا سر چشمہ رفض وتشیع ہے۔جس نے ایک طویل عرصے سے اسلام کے بالمقابل اور متوازی ایک مستقل دین ومذہب کی شکل اختیار کر لی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " اسمٰعیلیہ اور عقیدہ امامت کا تعارف ،تاریخی نقطہ نظر سے " محترم سید تنظیم حسین کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نے عقیدہ امامت اور اسماعیلیت وباطنیت کے متعلق بڑی اچھی بحث کی ہے اور بڑی جامعیت کے ساتھ اسماعیلیہ کی شاخوں ،،عقائد،ان کی تحریفات وتاویلات،تاریخ اسلام میں ان کے منفی وظالمانہ،تقیہ کے تحت ان کے مخفی خیالات سے حقیقت پسندانہ انداز میں پردہ اٹھایا ہے۔یہ کتاب اس اہم موضوع پر بڑی جامع اور شاندار کتاب ہے اور اردو کے دینی وتاریخی لٹریچر کے ایک خلا کی بڑی حد تک تکمیل کرتی ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اس قدیم فتنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(راسخ)
اردو ادب میں سفرناموں کو ایک مخصوص صنف کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ سفرنامے دنیا کے تمام ممالک کااحاطہ کرتے ہیں۔اِن کی طرزِ نوشت بھی دوسری تحریروں سے مختلف ہوتی ہے۔یہ سفرنامے کچھ تاثراتی ہیں تو کچھ معلوماتی۔ کچھ میں تاریخی معلومات پر زور دیا گیا ہے تو کچھ ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت کو نمایاں کرتے ہیں جہاں کا سفر کیا گیا تھا۔ جزیرۃالعرب کے سفرنامے زیادہ تر حج و عمرہ کے حوالے سے منظر عام پر آئے ہیں، ان میں بھی بعض کیفیاتی طرز کے ہیں، جب کہ بعض میں علمی اور ادبی پہلو نمایاں ہے۔تاریخی پہلو سے جزیرۃالعرب کے سفرناموں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں تین سفرنامے خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ ان میں سے اہم سفرنامہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا زیر تبصرہ ’’سفرنامہ ارض القرآن‘‘ ہے، جسے جناب مولانامحمد عاصم الحدّادنے مرتب کیا ہے۔ یہ حج و عمرہ کا سفرنامہ نہیں، بلکہ آثار و مقاماتِ قرآنی کی تحقیق و زیارت کے لیے کیے گئے ایک سفر کی روداد ہے۔ یہ سفرنامہ علومِ قرآنی کے شائقین اور محققین کے لیے ایک گنجینہ علم ہے۔ اس میں سرزمینِ انبیائے کرام کی تفصیل، اقوامِ قدیمہ کی سرگزشت اور ان کے مساکن کے آثار وغیرہ کا تعارف کرایا گیا ہے۔ یہ سفرنامہ دینی اور تاریخی لٹریچر میں یہ ایک اہم اور مفید اضافہ ہے۔ تفہیم القرآن کی تالیف کا آغاز مولانا مودودی ؒ نے محرم ۱۳۶۱ھ؍ فروری ۱۹۴۲ ءسے کیا اور یہ کام تیس سال کے بعدجون ۱۹۷۲ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ دورانِ تالیف انھوں نے محسوس کیا کہ جن مقامات و آثار کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے یا رسول اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے ان کا تعلق ہے انھیں بہ چشم خود دیکھ لینا بہتر ہوگا۔ اس کے لیے انھوں نے ۱۹۵۹کے اواخر اور ۱۹۶۰کے اوائل میں یہ سفر کیا تھا۔ اس سفر میں جماعت اسلامی پاکستان کی دو شخصیات چودھری غلام محمد اور مولانامحمد عاصم الحدّاد ۔ مولانا مودودی کے ہمراہ تھیں۔ یہ سفر ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۵۹ءکو لاہور سے شروع ہوا اور ۶؍ فروری ۱۹۶۰کو واپسی پر اختتام کو پہنچا۔ لاہور سے کراچی تک کا سفر بذریعہ ٹرین ہوا، وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے مسقط، دبئی، قطر اور بحرین ہوتے ہوئے سعودی عرب میں داخلہ ہوا۔ اس سفر کا اصل مقصد آثار و مقامات قرآنی کا بہ راہ راست مشاہدہ تھا۔ یہ چیز اس سفرنامہ کو جزیرۃالعرب کے دیگر سفرناموں سے ممتاز کرتی ہے۔ مولانا مودودی نے سب سے پہلے سعودی عرب کے آثار کا مشاہدہ کیا۔پھر اردن و فلسطین اور مصر کے تاریخی آثار کی بھی زیارت کی تھی۔ اس سفر کے ذریعہ مولانا مودودیؒ نے قرآن کریم میں مذکور آثار و مقامات کے مشاہدہ سے جو بلا واسطہ معلومات حاصل کیں انھیں اپنی تفسیر” تفہیم القرآن” میں استعمال کیا۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو تفہیم القرآن کو دیگر معاصر تفسیروں سے ممتاز کرتی ہے۔(م۔ا)
اسلام میں فتویٰ نویسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بذات خود اسلام۔ فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سےمتعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کےجواب میں کوئی عالم دین اور احکام شریعت کےاندر بصیرت رکھنے والاشخص بیان کرے۔فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کاسلسلہ رسول ﷺکےمبارک دور سے چلا آرہا ہے ۔فتاوی ٰکے باب میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے 37 جلدوں پر مشتمل فتاویٰ کو بڑی شہر ت حاصل ہے۔ ماضی قریب میں عرب وعجم میں ہر مکتب فکر کے جید مجتہد علمائے کرام کے فتاوی پر مشتمل ضخیم کتب مرتب کرکے شائع کی گئی ہیں ۔سعودی عرب میں فتاویٰ شیخ ابن باز ،فتاویٰ شیخ صالح العثیمین اور لجنۃ العلماء کے فتاوی ٰ جات قابل ذکر ہیں اور اسی طرحبرصغیر پاک وہند میں فتویٰ نویسی میں بھی علمائے کرام کی کی کاوشیں لائق تحسین ہیں ۔ تقریبا چالیس کے قریب علمائے حدیث کے فتاویٰ جات کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ اسلامی طرزِفکر‘‘ جو کہ تین جلدوں پر مشتمل ہے ۔جودراصل ’’عرب نیوز‘‘جدہ میں جناب عادل صلاحی ادارت میں شائع ہونے والے سوالات کے جوابات ہیں۔پہلی جلد عبدالسلام سلامی صاحب او ردوسری وتیسری جلد کلیم چتائی صاحب کی ترتیب وترجمہ ہے ۔مرتبین نے قارئین کی سہولت کے پیش نظر کتاب کو تین عنوانات،عقائد،عبادات اور معاملات میں تقسیم کرکے ہر عنوان کےذیلی عنوانات (مثلاً عبادات میں نماز ،روزہ،زکوٰۃ،حج) کےتحت سوالات مرتب کیے ہیں۔اللہ تعالیٰ مرتبین وناشرین کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کےنفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
ہمارا نظام تعلیم اور نصابی صلیبیں"1997ء کی پہلی جماعت سے لے کر بی اے تک کے لازمی نصاب کے اس تجزئیے اور تبصرے پر مشتمل مقالے کا نام ہے جسے بی اے کی طالبہ محترمہ مریم خنساءرحمھا اللہ نے بی اے کے پیپرز کی تیاری کے دوران مرتب کیا۔اس مقالے کو مرتب کرنے والی بہن کے دل کو اللہ تعالی نے غیرت دینی سے نواز ا تھا ،جو بر وقت اسلام کے خلاف کی جانے والی ہر سازش ،ہر حرکت اور ہر لفظ کو بھسم کر دینے کا عزم رکھتی تھیں۔اور ایسا ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ ان کو یہ جذبہ موروثی طور پر ملا تھا۔ان کے والد محترم مولانا محمد مسعود عبدہ اور ان کی والدہ محترمہ ام عبد منیب رحمھا اللہ کے جذبات بھی اسی آتش سوزاں سے حرارت پذیر تھے۔اس کتاب سے پہلے بھی آپ کے متعدد مضامین ماہنامہ "بتول" اور ہفت روزہ "الاعتصام "میں چھپتے رہے ہیں۔یہ مقالہ مولفہ کی زندگی ہی میں دار الکتب السلفیہ نے 1999ء میں شائع کر دیا تھا،اور پھر ان کی وفات کے بعد تقریبا چودہ سال بعد اسے دوبارہ مشربہ علم وحکمت کے تحت شائع کیا گیا ۔اس مقالے میں موصوفہ نے پاکستان کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی خامیوں اور عیوب کی نشان دہی کی ہے،اور اس کی اصلاح کے لئے مفید اور کارآمد تجاویز پیش کی ہیں۔ان کا پیش کردہ یہ جائزہ 1997ء میں مرتب کیا گیا تھا،اب 2014ء میں آ کر نصاب میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں ،لیکن اب بھی بہت زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے۔موجودہ نصاب میں زیادہ زیادہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ اہالیان پاکستان کو اسلامی معلومات سے بے بہرہ ہی رکھا جائے اور انہیں جدید دنیوی علوم ہی پڑھانے پر اکتفاء کیا جائے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماری حکومتوں کو یہ توفیق دے کہ وہ صحیح اسلامی اور درست نصاب تیار کر سکیں اور اپنے بچوں کی بہترین راہنمائی کر سکیں۔آمین(راسخ)
نبی کر یم ﷺ کی پسند وناپسند ہر مسلمان کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اسی معیار پر اس کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ہے ۔اگر آپﷺ پر ایمان لانے والے آپ کے امتی آپﷺ کےپسندیدہ کام کریں گے تو اللہ ورسول ﷺ ان سے راضی اور خوش ہوں گے تو اللہ تعالی ٰ ان کو مزید نعمتوں اور بھلائیوں سے نوازے گا ۔لیکن اگر وہ اللہ ورسول کےناپسندیدہ کام کریں گے تو وہ ان سے ناراض ہوں گے اور اللہ تعالی انہیں سزا دےگا۔پہلی صورت میں بندوں کےلیے کامیابی اور فلاح ہے اور دوسری صورت میں ان کے لیے ناکامی اور خسارا ہے ۔لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم دنیا اور آخرت میں اپنی کامیابی اور فلاح کےلیے صرف وہی کام کریں جو اللہ تعالیٰ اور نبی ﷺ کوپسند ہیں اور جن کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے خواہ وہ حکم ہمیں قرآن مجید کے ذریعے سےدیا گیا ہے یا سنت کےذریعے سے ۔اسی طرح ہمیں دنیا اور آخرت میں ناکامی اور خسارے سےبچنے کے لیے ایسے کاموں سےباز رہنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور جن سے اس نے ہمیں منع فرمایا ہے خواہ وہ ممانعت قرآن میں کی گئی ہو یا سنت میں ۔اور ایمان کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ایسے کام کیے جائیں جن سے اللہ اور اس کا رسول ﷺ راضی ہو جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِين (سورۃ توبہ :62)’’اللہ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ حق دار ہیں کہ انہیں راضی کریں اگر وہ مومن ہیں ‘‘زیر نظر کتاب ’’نبی کریم ﷺ کی پسند اور ناپسند‘‘ شیخ عدنان الطرشہ کی عربی کتاب ماذا يحب النبي محمد وماذا يكره کا سلیس ترجمہ ہے ۔ مصنف موصوف نے اس کتاب کو چھ ابواب میں تقسیم کر کے نبی مکرم ﷺ کی ہر ہر پسند اور ناپسند کی اس طرح وضاحت کردی ہے کہ جس طرح صحیح احادیث مبارکہ میں ان کا ذکر آیا ہے ۔اور مصنف نے کوشش کی ہے کہ اس ضمن میں کوئی ضعیف اور منکر ،موضوع روایت کتاب ہذا میں شامل نہ ہونے پائے ۔انہو ں نے ان احادیث کی وضاحت کرنے اور ہر ہر موضوع کو باسلوب احسن واضح کرنے کےلیے انداز نہایت آسان اور دلکش اختیار کیا ہے۔اسی طرح ضرورت اس بات کی تھی کہ مصنف نے جس عرق ریزی سے کتاب ہذا کو مرتب کیا ہے اسی انداز میں اس کا اردو ترجمہ بھی شاندار ہو۔چنانچہ کئی ضخیم کتب کے مصنف ومترجم ابو یحیٰ محمد زکریا زاہد ﷾ نے اپنی فنی مہارت کے ساتھ کتاب ہذا کا ترجمہ اس انداز میں کیا ہے کہ یہ ترجمہ’’نبی کریم ﷺ کی پسند اور ناپسند‘‘ اصل تصنیف معلوم ہوتی ہے ۔ترجمہ بامحاورہ ہونے کے ساتھ ساتھ آسان فہم اوراردو ادب کی چاشنی سے یوں لبریز ہےکہ پڑھنے والے کا دل کرتا ہے کتاب شروع کرے تو مکمل کر کے ہی دم لے ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو اہل ایمان کی اصلاح کا ذریعہ بنائے اور مصنف،مترجم وناشرین کی خدمات کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
پلیدگی ،گندگی ا ور نجاست سے حاصل کی جانے والی ایسی صفائی وستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو، اسے طہارت کہتے ہیں۔نجاست خواہ حقیقی ہو، جیسے پیشاب اور پاخانہ، اسے خبث کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو، جیسے دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے حدث کہتے ہیں۔ دینِ اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے۔نبی ﷺنے طہارت کی فضیلت بیان کرتے ہوءے فرمایا:الطّھور شطر الایمان (صحیح مسلم 223) طہارت نصف ایمان ہے۔ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:’’وضو کرنے سے ہاتھ، منہ، اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہوجاتے ہیں‘‘۔(سنن النسائی،:103)طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبیﷺ سے مروی ہے: ’’ قبر میں زیادہ عذاب طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے‘‘۔ (صحیح الترغیب و الترھیب: 152)۔مذکورہ احایث کی روشنی میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے بدن، کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے- اللہ تعالی نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا : ’’ اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندکی سے دور رہیے‘‘ (المدثر:5،4) مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراھیم اور اسماعیل ؑ کو حکم دیا گیا: " میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں-" (البقرۃ:125)۔اللہ تعالی اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے- ارشاد باری تعالی ہے کہ: ’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (البقرۃ: 222)، نیز اہل قباء کے متعلق فرمایا: "اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالی پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘۔ (التوبہ:108)۔لہذا روح کی طہارت کے لیے تزکیہ نفس کے وہ تمام طریقے جن کی تفصیل قرآن وحدیث میں ملتی ہے ان کا اپنے نفس کو پابند بنانا ضروری ہے ۔جب کہ طہارتِ جسمانی کے لیے بھی ان تمام تفصیلات سے اگاہی ضروری ہے جو ہمیں کتاب وسنت مہیا کر تی ہے ۔جسمانی طہارت کے مسائل معلوم کرتے ہوئے خواتین جھجک محسوس کرتی ہیں ۔ لیکن ایسے ہی مسئلہ کےبارے میں ایک خاتو ن نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو سید ہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا : انصار کی عورتیں کیا ہی اچھی ہیں جو دین کےمسائل معلوم کرتے ہوئے شرم نہیں کرتیں۔(صحیح مسلم ) زیر نظر کتابچہ’’مسائل طہارت او رخواتین‘‘ سعودی دار الافتا کے خواتین سے متعلق مسائل طہارت پر مشتمل ہے ۔جسے مریم خنساء نے عربی سےاردو زبان میں منتقل کیا ہے تاکہ اس سے اردو دان خواتین بھی مستفید ہوکر طہارت کے مسائل سے اگاہ ہوسکیں۔اللہ تعالی مرحومہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے خواتین ِاسلام کےلیے نفع بخش بنائے ۔آمین( م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اوراصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر اب تک عربی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی بہت سارے رسائل و کتب لکھی جا چکی ہیں۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ پیشِ نظر کتاب بھی انہی کتب میں ایک اضافہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "جمال القرآن"محترم مولانا اشرف علی تھانوی صاحبکی تصنیف ہے،اور اس پر حاشیہ شیخ القراء قاری محمد شریف صاحب کا رقم کردہ ہے۔جس میں انہوں نے علم تجوید کے ابتدائی مسائل کو بیان کیا ہے۔ شائقین علم تجوید کے لئے یہ ایک مفید اور شاندار کتاب ہے،جس کا تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)(تجوید وقراءات)
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا اوراسلام کو بحیثیت دین بھی مکمل کردیا اور اسے تمام مسلمانوں کے لیے پسندیدہ قرار دیا ہے یہی وہ عقید ہ جس پر قرون اولیٰ سے آج تک تمام امت اسلامیہ کا اجماع ہے ۔ہر مسلمان کا بنیادی عقیدہ کہ کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں قرآن مجید سے یہ عقیدہ واضح طور سے ثابت ہے کہ کسی طرح کا کوئی نبی یا رسول اب قیامت تک نہیں آسکتا جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے ماکان محمد ابا احد من رجالکم وولکن رسول الله وخاتم النبین (الاحزاب:40) ’’محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں البتہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں‘‘ حضورﷺ کےبعد نبوت کے دروازے کو ہمیشہ کے لیے بند تسلیم کرنا ہر زمانے میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے اور اس میں مسلمانوں میں کوئی بھی اختلاف نہیں رہا کہ جو شخص حضرت محمدﷺ کے بعد رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کرے او رجو اس کے دعویٰ کو مانے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے آنحضرت ﷺ نے متعدد احادیث میں اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نہیں ۔برطانوی سامراج نے برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اور دین اسلام کے بنیادی اصول احکام کو مٹانے کے لیے قادیان سے مزرا احمد قادیانی کو اپنا آلہ کار بنایا مرزا قادیانی نے انگریزوں کی حمایت میں جہاد کو حرام قرار دیا اورانگریزوں کی حمایت اور وفاداری میں اتنا لٹریچر شائع کیا کہ اس نے خود لکھا کہ میں نے انگریزی حکومت کی حمایت اوروفاداری میں اس قدرلٹریچر شائع کیا ہے کہ اس سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں اس نے جنوری 1891ء میں اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان اور 1901ء میں نبوت ورسالت کا دعویٰ کردیا جس پر وہ اپنی وفات تک قائم رہا۔قادیانی فتنہ کی تردید میں پاک ہند کے علمائے اہل حدیث نے جو تحریری وتقریری خدمات سر انجام دی ہیں اور اس وقت بھی دے رہے ہیں وہ روزورشن کی طرح عیاں ہیں مرزا قادیانی نے جیسے ہی پر پرزے نکالنے شروع کیے اسی وقت سے اللہ تعالیٰ نے ایسے بندے کھڑے کردیئے جنہوں نے اسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیا۔ سب سے پہلے اس کا جھنڈ ا معروف سلفی عالم دین مولانا محمد حسین بٹالوی نے اٹھایا پھر مولانا ثناء اللہ امرتسری ،قاضی سلیمان منصورپور ی،مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ،حافظ عبد القادر روپڑی ، حافظ محمد گوندلوی ،علامہ احسان الٰہی ظہیر وغیرہ کے علاوہ بے شمار علماء ختم نبوت کی چوکیداری کےلیے اپنے اپنے وقت پر میدان عمل میں اترتے رہے ۔موجودین میں تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں ڈاکٹر بہاء الدین ﷾ کی خدمات سب سے نمایاں ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت فرمائے اور انہیں صحت وتندرستی سے نوازے ۔(آمین)اور اسی طرح اہل حدیث صحافت کی بھی نمایاں خدمات ہیں ۔دعوت اہل حدیث،سندھ، اور ضیائے حدیث،لاہور کی اشاعت خاص قابل ذکر ہیں۔ زیر تبصرہ ’’دعوت اہل حدیث ختم نبوت نمبر‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے جوکہ رد قادیانیت کے سلسلے میں جید علمائے اہل حدیث کے 30 علمی وتحقیقی مضامین ومقالات پر مشتمل ہے۔جس میں قرآن وحدیث کی روشنی میں قادیانیت کی حقیقت کو خوب واضح کیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ ماہنامہ دعوت اہل حدیث کےایڈیٹر حافظ عبد الحمید گوندل ﷾ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے بڑی محنت سے معروف علماءکرام سے مضامین حاصل کرکے ان کو گیارہ مختلف موضوعات میں تقسیم کیا اور حسن طباعت سے آراستہ کیا ۔(م۔ا)
مؤطا امام مالک حدیث کی ایک ابتدائی کتاب ہے ۔ جسے امام مالک بن انس نے تصنیف کیا۔ انہی کی وجہ سے مسلمانوں کا ایک طبقہ فقہ مالکی کہلاتا ہے جو اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروکا ر آج بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔امام مالک فقہ اورحدیث میں اہل حجاز بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے امام ہیں۔ آپ کی کتاب "الموطا" حدیث کے متداول اور معروف مجموعوں میں سب سے قدیم ترین مجموعہ ہے۔مؤطاسے پہلے بھی احادیث کے کی مجموعے تیار ہوئے اور ان میں سے کئی ایک آج موجود بھی ہیں لیکن وہ مقبول اورمتداول نہیں ہیں۔ مؤطاکے لفظی معنی ہے، وہ راستہ جس کو لوگوں نے پےدرپے چل کر اتناہموارکردیاہو کہ بعد میں آنے والوں کے لیےاسپرچلنااسان ہوگیاہو۔ جمہور علماء نے موطاکو طبقات کتب حدیث میں طبقہ اولیٰ میں شمار کیاہے امام شافعی فرماتے ہیں’’ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک‘‘کہ میں نے روئے زمین پر موطاامام مالک سے زیادہ کوئی صحیح کتاب (کتاب اللہ کے بعد)نہیں دیکھی۔ حضرت شاہ ولی اللہ موطاکے بارے میں لکھتے ہیں’’ فقہ میں موطا امام مالک سےزیادہ کوئی مضبوط کتاب موجود نہیں ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر کئی اہل علم نے اس کی شروح لکھیں۔امام ابن عبد البر کی ’’الاستذکار‘‘ مؤطا امام مالک کی ضخیم شرح ہے۔ اور اسی طر ح اردو زبان میں علامہ وحیدالزمان نے صحاح ستہ کی طرح اس کا بھی ترجمہ کیا طویل عرصہ سے یہی ترجمہ متداول تھا۔ لیکن چند سال قبل محدث عصر علامہ حافظ زبیر علی زئی حافظ عمران ایوب لاہور ی﷾ نے بھی اسے ترجمہ وتخریج کےساتھ پیش کیا۔ زیر تبصرہ مؤطا امام مالک کے ترجمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں احادیث کو مو ضوعاتی فہرست کے ساتھ لنک کیا گیاہے قارئین کی آسانی کے لیے اسے ویب سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے اگر چہ پہلے حافظ زبیر علی زئی والا ترجمہ بھی موجود ہے۔ (م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اوراصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر عربی زبان میں بے شمار کتب موجود ہیں۔جن میں سے مقدمہ جزریہ ایک معروف اور مصدر کی حیثیت رکھنے والی عظیم الشان منظوم کتاب ہے،جو علم تجوید وقراءات کے امام علامہ جزری کی تصنیف ہے۔اس کتاب کی اہمیت وفضیلت کے پیش نظر متعدد اہل علم نے اس کی شاندار شروحات لکھی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " الفوائد السلفیۃ علی المقدمۃ الجزریۃ"بھی مقدمہ جزریہ کی ایک مفصل شرح ہے جواستاذ القراء والمجودین قاری محمد ادریس العاصم﷾کی کاوش ہے۔جو ان کی سالہا سال کی محنت وکوشش اور عرصہ دراز کی تحقیق وجستجو کا نتیجہ ہے۔اور شائقین علم تجوید کے لئے ایک نادر تحفہ ہے۔ تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اوراصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر عربی زبان میں بے شمار کتب موجود ہیں۔جن میں سے مقدمہ جزریہ ایک معروف اور مصدر کی حیثیت رکھنے والی عظیم الشان منظوم کتاب ہے،جو علم تجوید وقراءات کے امام علامہ جزری کی تصنیف ہے۔اس کتاب کی اہمیت وفضیلت کے پیش نظر متعدد اہل علم نے اس کی شاندار شروحات لکھی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ النفحۃ العنبریۃ شرح المقدمۃ الجزریۃ ‘‘ بھی مقدمہ جزریہ کی ایک مفصل شرح ہے جواستاذ القراء والمجودین مولانا قاری ابو الحسن اعظمی کی کاوش ہے۔جو ان کی سالہا سال کی محنت وکوشش اور عرصہ دراز کی تحقیق وجستجو کا نتیجہ ہے۔اور شائقین علم تجوید کے لئے ایک نادر تحفہ ہے۔ تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن حکیم میں بیان شدہ واقعات وقصص تین اقسام مشتمل ہیں۔انبیاء ورسل کے واقعات کہ جو انہیں اہل ایمان کے ہمراہ کافروں کے ساتھ پیش آئے تھے۔اور دوسری قسم ان واقعات کی ہے جو عام لوگوں یا جماعتوں ،قوموں سے متعلق ہیں ۔تیسری قسم نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں پیش آمدہ واقعات اور قوموں کاذکر ہے ۔قرآنی واقعات بالکل سچے اور حقیقی قصص ہوتے ہیں یہ کوئی خیالی اور تمثیلی کہانیاں نہیں ہوتیں۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں انبیائے کرامکے واقعات بیان کرنے کامقصد خودان الفاظ میں واضح اور نمایا ں فرمایا ’’اے نبیﷺ جونبیوں کے واقعات ہم آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں ان سے ہمارا مقصد آپ کے دل کو ڈھارس دینا ہے اور آپ کے پاس حق پہنچ چکا ہے اس میں مومنوں کے لیے بھی نصیحت وعبرت ہے‘‘ ۔اور ان واقعات کا ایک بہت بڑا مقصد اہل ایمان کی ہمت کوبندھانا اور انہیں اللہ کی راہ میں جوغم ،دکھ اور مصیبتیں پہنچی ہیں ان کے بارے میں تسلی دلانا ہوتا ہے ۔قرآن حکیم میں مذکورہ واقعات وقصص میں سے بعض وہ ہیں جو ایک ہی بار ذکر ہوئے ہیں جیسے کہ سیدنا یوسف اور عزیز مصر کی بیوی اور ابو الہب کی بیو ی کا واقعہ ہے ۔ان میں سے بعض واقعات ایسے بھی ہیں جو باربار ذکر ہوئے ہیں ۔جیسے کہ : سیدنا موسیٰ کی والدہ ، ان کی بہن اور مریم بنت عمران کے واقعات ہیں۔ ایسا کسی مصلحت اور ضرورت کے مطابق ہوا ہے یہ تکرار کسی ایک سبب کی بنا پر نہیں ہوا ۔ اسی طرح ہر تکرار او رعدم تکرار کا کوئی نہ کوئی حکم حکمت ودانائی اور راز ضرور ہے۔ قرآن حکیم نے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے بھی واقعات بیان کیے ہیں ۔تاکہ مسلمان عورتیں اپنی اصلاح کے لیے ان واقعات سے نصیحت حاصل کریں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ قرآن میں خواتین کے واقعات ‘‘ مدینہ یونیورسٹی ایک فاضل استاد ڈاکٹر محمد بن ناصر الحمید﷾ کی عربی کتاب قصص النساء فی القرآن کا اردو ترجمہ ہے ۔مصنف موصوف نے اس کتاب میں اللہ تعالیٰ کی مومنہ وصالحہ بندیوں کے ساتھ ساتھ کچھ بد اخلاق وبدکردار اور بے وقوف کم عقل عورتوں کےواقعات بھی بیا ن کیے ہیں ۔ تاکہ مسلمان خواتین اپنے نہایت اجلے اسلامی سیرت والے لباس کو اس طرح کے اوچھے پن ،بے وقوقی وبدکرداری اور بد اخلاقی والے بد نما دھبوں سے بچا سکیں۔ٹیلی ویژن کےسامنے بیٹھ کر یا جھوٹے قصے کہانیاں پڑھ کر اپنا وقت برباد کرنے والے مسلم خواتین اور مومن ومسلم طالبات کے لیےا س کتاب میں دلچسپ واقعات بھی اور اردو ادب کےلیے بہترین عبارتیں اور اسباق ودروس بھی۔ اس لیے کہ اردو ترجمہ میں ادبی چاشنی کاخوب لحاظ رکھا گیا ہے ۔ اس اہم کتاب کا رواں اور سلیس ترجمہ کے فرائض محترم مولانا ابو یحییٰ محمد زکریا زاہد ﷾ نے انجام دئیے ہیں ۔اللہ تمام اہل ایمان کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسرکی توفیق عطافرمائے اور اس کتاب کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے (آمین) قصص القرآن
اللہ تعالیٰ ٰ ہی کی حکمت بالغہ ہے۔اس نے اپنی حکمت کے تحت سابقہ شریعتوں میں بھی اور ہمارے نبی کریمﷺ حضرت محمد ﷺ کی شریعت میں بھی مردوں کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرسکتے ہیں۔تعدد ازواج نبی ﷺ ہی کا خاصہ نہ تھا۔حضرت یعقوب کی دو بیویاں تھیں۔حضرت سلیمان بن دائود کی ننانوے بیویاں تھیں۔ایک بار اس اُمید سے کہ آپ ایک رات میں ان سب کے پاس گئے کہ ان میں سے ہر ایک ایک بچے کو جنم دے گی۔جو بڑے ہوکر اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے مردوں کے لیے ایک وقت میں چار بیویوں کورکھنے کی اجازت دی ہے ۔جس کےبہت فوائد اور اس میں کئی حکمتیں مضمر ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ بیویوں کے باہمی تعلقات‘‘ محترم ام عبدمنیب صاحبہ کی کاوش ہے جس میں انہوں نے تعدد ازدواج کے پس منظر اور اس کے فوائد،خدشات،سوکنوں کےباہمی تعلقات کو آسان فہم انداز میں بیان کرنے کے بعد ان کی آپس میں اصلاح کے حوالے قرآن وحدیث کی روشنی میں چند مفید نسخے پیش کیے ہیں ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
ہم پر صدیوں سے ایرانی زبان فارسی کی حکمرانی رہی ہے۔ہمارا ذریعہ تعلیم اور ذہن وفکر کی پرورش کا انحصار اسی زبان پر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم ہر لفظ خواہ وعلم یا غیر علم اس کا ترجمہ فارسی زبان میں کرنے عادی بن چکے ہیں۔متعدد اہل علم لفظ جلالہ ’’ اللہ ‘‘ کا فارسی ترجمہ’’ خدا ‘‘ کرتے ہیں،حالانکہ اسم جلالہ’’ اللہ ‘‘ ہی ذات باری تعالی کا اسم علم غیر مشتق ہے۔اللہ تعالی کی بے مثال شان،بے مثال ذات اور بے مثال لغوی ممیزات کا تقاضا ہے کہ اسے ’’ اللہ ‘‘ ہی لکھا ،پڑھا اوربولا جائے ۔اس کے علاوہ کوئی اسم بھی اس کا ہم پلہ،ہم معنی،ہم مفہوم اور ہم تصور نہیں ہو سکتا ہے۔لیکن اس کے مقابل ایک لفظ رائج ہو گیا ہے جسے ’’ خدا ‘‘کہتے ہیں۔لغت میں جب اس کی حیثیت پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ’’ خدا ‘‘ دو لفظوں سے مرکب ہے(خود+آ) یعنی خود ظہور کرنے والا (غیاث اللغات)اس کے علاوہ بھی یہ لفظ متعدد مفاہیم پر دلالت کرتا ہےمثلا:مالک،شوہر،ملاح،خدا جیساوغیرہ وغیرہ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ’’ خدا ‘‘ میں لاثانیت،یا بے مثال ہونے کی کوئی صفت موجود نہیں ہے۔اسے ہر شخص پر چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ لفظ اللہ کا ترجمہ خدا کیوں؟‘‘ معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کے خاوند مولانا محمد مسعود عبدہ صاحب کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے لفظ جلالہ ’’ اللہ ‘‘ کے ترجمہ ’’ خدا ‘‘ پر لغوی بحث فرمائی ہے۔محترم محمد مسعود عبدہ تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور 99۔جے ماڈل ٹاؤن میں بمع فیملی رہائش پذیر رہے ۔موصوف کے صاحبزادے محترم عبد منیب صاحب نے اپنے طباعتی ادارے ’’مشربہ علم وحکمت ‘‘ کی تقریبا تمام مطبوعا ت محدث لائبریری کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
صحیح مسلم امام کی مرتب کردہ شہرہ آفاق مجموعہء احادیث ہے جو کہ صحاح ستہ کی چھ مشہور کتابوں میں سے ایک ہے۔ امام بخاری کی صحیح بخاری کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے مستند کتاب ہے۔امام مسلم کا پورا نام ابوالحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری ہے۔ 202ھ میں ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے اور 261ھ میں نیشاپور میں ہی وفات پائی۔ انہوں نے مستند احادیث جمع کرنے کے لئے عرب علاقوں بشمول عراق، شام اور مصر کا سفر کیا۔ انہوں نے تقریباًتین لاکھ احادیث اکٹھی کیں لیکن ان میں سے صرف7563 احادیث صحیح مسلم میں شامل کیں کیونکہ انہوں نے حدیث کے مستند ہونےکی بہت سخت شرائط رکھی ہوئی تھیں تا کہ کتاب میں صرف اور صرف مستند ترین احادیث جمع ہو سکیں۔ صحیح مسلم کی اہمیت کے پیش نظر صحیح بخاری کی طرح اس کی بہت زیادہ شروحات لکھی گئیں۔ عربی زبان میں لکھی گئی شروحات ِ صحیح مسلم میں امام نوویکی شرح نووی کو امتیازی مقام حاصل ہے۔ پاک وہند میں بھی کئی اہل علم نے عربی واردو زبان میں اس کی شروحات وحواشی لکھے۔ عربی زبان میں نواب صدیق حسن خاںاور اردو میں علامہ وحید الزمان کا ترجمہ قابل ذکر ہے اورطویل عرصہ سے یہی ترجمہ متداول ہے۔لیکن اس قدیم اردو کی تسہیل و تھذیب اوراحادیث کی ترقیم کرکے اب کئی مکتبات نے بڑی عمدہ طباعت کے ساتھ صحیح مسلم کا ترجمہ شائع کیا ہے۔ او ر دار السلام تو نے نئے ترجمہ وحواشی کے ساتھ اسے طبع کیا ہے۔ زیر تبصرہ صحیح مسلم کا ترجمہ محترم عزیز الرحمن صاحب نے کیا ہے جو کہ تین مجلدات پر مشتمل ہے۔ اور تینوں جلدوں کی فہارس عناوین ابواب کےساتھ لنک شدہ ہیں۔ اسی لیے اسے ویب سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے تاکہ اس سے استفادہ کرنے میں آسانی ہوسکے۔(م۔ا)
قربانی وہ جانور ہے جو اللہ کی راہ میں قربان کیا جائے اور یہ وہ عمل ذبیحی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کیا جاتاہے ۔تخلیق ِانسانیت کے آغازہی سے قربانی کا جذبہ کار فرما ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت آدم کے دو بیٹوں کی قربانی کا واقعہ موجود ہے۔اور قربانی جد الانبیاء سیدنا حضرت ابراہیم کی عظیم ترین سنت ہے ۔یہ عمل اللہ تعالیٰ کواتنا پسند آیا کہ اس عمل کوقیامت تک کےلیے مسلمانوں کے لیے عظیم سنت قرار دیا گیا۔ قرآن مجید نے بھی حضر ت ابراہیم کی قربانی کے واقعہ کوتفصیل سے بیان کیا ہے ۔ پھر اہلِ اسلام کواس اہم عمل کی خاصی تاکید ہے اور نبی کریم ﷺ نے زندگی بھر قربانی کے اہم فریضہ کو ادا کیا اور قرآن احادیث میں اس کے واضح احکام ومسائل اور تعلیمات موجو د ہیں ۔ اللہ تعالی کےہاں کسی بھی عبادت کا عمل تب ہی قابل قبول ہوتا ہے کہ جب اسے نبی کریمﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کیا جائے ۔ کیوں کہ نبی کریم ﷺ کی ذات ِمبارکہ تمام اہل اسلام کے لیے اسوۂ حسنہ ہے ۔عبادات میں سے اہم عبادت عید الاضحیٰ کے دن جانوروں کواللہ تعالی کی رضا کے لیے ذبح کرنا ہے اس سلسلے میں ہمارے معاشرے میں بہت سی کتاہیاں پائی جاتی ہیں۔جن کی اصلاح کرنا ازحد ضروری ہے ۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’ عید الاضحیٰ عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت اور قربانی کے مسائل‘‘ڈاکٹرطارق ہمایوں شیخ صاحب کی کاو ش ہے ۔جس میں انہوں نے قرآن واحادیث کی روشنی میں عشرہ ذدوالحجہ کی اہمیت وفضیلت ، احکام ومسائل بیان کرنے کےساتھ ساتھ قربانی کے احکام ومسائل کو عام فہم اندا ز میں مختصرًا بیان کیا ہے اللہ اسے عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے (آمین) م۔ ا) عبادات
صلہ رحمی سے مراد ہے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا، آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنا، دکھ، درد، خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔ الغرض اپنے رشتہ کو اچھی طرح سے نبھانا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا، ان پر احسان کرنا، ان پر صدقہ و خیرات کرنا، اگر مالی حوالے سے تنگدست اور کمزور ہے تو اس کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔صلہ رحمی میں اپنے والدین، بہن بھائی، بیوی بچے، خالہ پھوپھی، چچا اور ان کی اولادیں وغیرہ یہ سارے رشتہ دار صلہ رحمی میں آتے ہیں۔ اپنے والدین کے دوست احباب جن کے ساتھ ان کے تعلقات ہوں، ان سب کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ جب ان رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، ان کے حقوق پورے نہیں کیے جائیں گے، ان کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہ قطع رحمی کہلاتی ہے۔ یعنی اپنے رشتہ داروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا۔ صلہ رحمی ہرطرح کی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کی وہ استطاعت رکھتا ہو، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مثلاً ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرے، ان کے ساتھ اچھی گفتگو کرے، ان کے گھر جا کر حال احوال دریافت کرے۔ ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے، غمی خوشی میں شریک ہو۔ یہ ساری باتیں صلہ رحمی میں آتی ہیں۔ اور قیامت کے دن صلہ رحمی کے متعلق پوچھا جائے گا کہ ہم نے ان رشتوں کے تقدس کا کتنا خیال رکھا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُّوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُولَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ(البقرة، 2 : 27)’’یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم دیا ہے، اگر اس کے خلاف کریں گے تو یقیناً دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہونگے۔ اسی طرح بے شمار آیات میں اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور حضور نبی اکرم ﷺنے بھی احادیث مبارکہ میں آپس میں صلہ رحمی کا حکم دیا ہےاور صلہ رحمی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا ہے اور قطع رحمی پر وعید سنائی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں، ایسا نہ ہو کہ جو رشتے دار غریب ہوں، غربت کی وجہ سے ان سے تعلقات ختم کر لیں، جیسا کہ آجکل رواج ہے کہ اگر بعض رشتہ دار غریب ہوں اور بعض امیر تو امیر لوگ ان غریب رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں، اور ان کو اپنا رشتہ دار سمجھنا اور کہنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اپنےدوست احباب کے سامنے اپنا رشتہ دار قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جیسے اولاد جب جوان ہوتی ہے تو اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی، یہ ساری چیزیں گناہ کبیرہ ہیں اور اس کی سزا قیامت کے دن ملے گی، نبی کریم ﷺنے فرمایا والدین اولاد کے لیے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی، جس نے ان کی خدمت کی اس نے جنت کو پا لیا ورنہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ زیر نظر کتابچہ’’صلہ رحمی اور اس کے عملی پہلو‘‘ محترمہ ام عبد منیب اور ان کی لخت جگر مریم خنسا کی مشترکہ کاوش ہے جس میں انہوں نے صلہ رحمی کے معنی ومفہوم اور عملی پہلوؤں ، قطع رحمی کی سزا اور اس کی صورتیں ، قطع رحمی کا سد باب اور اسلامی قانون کو عام فہم انداز میں بیان کیا ہے ۔ اللہ تعالی ٰ اسے عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے اور ہمیں صلہ رحمی کا صحیح مفہوم سمجھنے کی توفیق اور صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین ) کیونکہ اسی میں اتفاق و اتحاد ہے اور دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی ہے۔(م۔ا)
دینِ اسلام کاابلاغ او راس کی نشر واشاعت ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لہذا اس انعام الٰہی کی وجہ سےایک عام مسلمان کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں کہ اصلاحِ انسانیت کےلیے اللہ تعالیٰ نےامت مسلمہ کو ہی منتخب فرمایا ۔اور ہر دور میں مسلمانوں نےاپنی ذمہ داریوں کومحسوس کیا اور دین کی نشر واشاعت میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔دور حاضر میں ہر محاذ پر ملت کفر مسلمانوں پر حملہ آور ہے او راسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ اور نفرت انگیز رویہ اپنائے ہوئےہیں او ر آئے دن نعوذ باللہ پیغمبر اسلام کی ذات کوہدف تنقید کا نشانہ بنا کر انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے اس کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ تو یقینا ایسی صورت حال میں رحمت کائناتﷺ کےاخلاقِ عالیہ اور آپﷺ کےپاکیزہ کردار اور سیرت کے روشن ،چمکتے اور دمکتے واقعات کو دنیا میں عام کرنے کی شدید ضرورت ہے تاکہ اسے پڑھ کر امت مسلمہ اپنے پیارے نبیﷺ کے خلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ سے آگا ہ ہوسکے اور آپ کی سیرت وکردارکوروشنی میں اپنی آنے والی نسل کی تربیت کر سکے ۔انسانیت کے انفرادى معاملات سے لے کراجتماعى بلکہ بین الاقوامى معاملات اورتعلقات کا کوئی ایسا گوشہ نہیں کہ جس کے متعلق پیارے پیغمبرﷺ نے راہنمائی نہ فرمائی ہو، کتب احادیث میں انسانى زندگی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں ہے یعنى انفرادى اور اجتماعی سیرت واخلاق سے متعلق محدثین نے پیارے پیغمبر ﷺ کے فرامین کی روشنى میں ہر چیز جمع فرمادی ہے زیر نظر کتاب "شمائل ترمذی" بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس میں امام ترمذی نے نہایت محنت وکاوش وعرق ریزی سے سیّد کائنات ،سيد ولد آدم، جناب محمد رسول ﷺکی سیرت وکردار کوبہت ہی خوبصورت اسلوب میں مرتب کیا ہے اوررسول اللہﷺ کی زندگی کاتقریبا ہر پہلو موضوع بحث بنایاگیا۔اور آپ ﷺ کے عسرویسر، شب وروز اور سفر وحضرسے متعلقہ معلومات کو احادیث کی روشنى میں جمع کردیا ہے۔ زیر تبصرہ نسخہ کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ اس کی فہرست لنک شدہ ہے جس سے کتاب کا مطالعہ کرنا اور اس سے استفادہ کرنا شمائل ترمذی کے دوسرے ترجمہ نسخہ جات کی بنسبت آسان ہے ۔ اللہ تعالی کتاب کے مصنف ،مترجم اور ناشرین کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے اہل ایمان کو سیرت طیبہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے (آمین)(م۔ا)