مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے اپنی کتاب میں قرآن کریم میں بار بار ذکر ہونے والی چار اصطلاحات کو موضوع سخن بنایا ہے-وہ چار اصطلاحات یہ ہیں:1-الہ2-رب3-عبادت4-دین-مصنف نے اپنی کتاب میں ان چار اصطلاحات کی اہمیت اور ان کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم کا مقصد اور مختلف امم سابقہ کے حالات کو پیش کر کے مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے-قرآن کریم میں ان اصطلاحات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس لیے ان میں سے ہر ایک لغوی اور شرعی وضاحت کو آیات قرآنی سے واضح کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان چار اصطلاحات کو سمجھے بغیر قرآن کریم کو سمجھنا ناممکن ہے-ان اصطلاحات سے ناواقفیت یہ نقصان ہو گا کہ نہ تو توحید وشرک کا پتہ چلے گا اور نہ عبادت اللہ کے لیے خاص ہو سکے گی اور نہ ہی دین اللہ کے لیے خالص رہے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ایمان لانے کے باوجود عقیدہ اور عمل دونوں نامکمل ہو جائیں گے-
ظہور اسلام سے قبل کتاب ہستی کے ہر صفحے پر عورت کا نام حقارت اور ذلت سے لکھا گیا ہے ۔اقوام عالم اور ان کے ادیان نے عورت کی خاطر خواہ قدر ومنزلت نہ کی اور عورت کا وجود تمام عالم پر ایک مکروہ دھبہ تصور کیا جاتا تھا ہر جگہ صنف نازک مردوں کے ظلم وستم کا شکار رہیں۔انسانی تمدن کی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی متمدن ترین اقوام نے بھی عورت کو ایک غیر مفید بلکہ مخل تمدن عنصر سمجھ کر میدان عمل سے ہٹا دیا تھا ۔یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو عزت واحترام دیا اور اس کے حقوق کی نگہداشت پر زور دیا۔زیر نظر کتاب میں قدیم وجدید مذاہب اور تہذیبوں میں عورت کی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اسلام نے عورت کو کس قدر اعلی مرتبے پر فائز کیا ہے ۔اسلامی معاشرہ میں عورت کے حقیقی دائرہ کار،عورت کی تعلیم وتربیت اور مختلف اقتصادی ومعاشی امور کے حوالے سے عورت کے کردار کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔علاو ہ ازیں عورت سے متعلقہ اسلامی احکام کی وضاحت اور ان کی حکمتوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے ۔اپنے موضوع پر یہ ایک منفرد کتاب ہے ۔(ط۔ا)
انکار سنت کا فتنہ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے پیدا کیا۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں سنت رسول ﷺ حائل تھی لہذا نہوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کا مسئلہ یہ تھا کہ یونانی فلسفے نے اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے جو شکوک و شبہات عقل انسانی میں پیدا کر دیے تھے، وہ انہیں سمجھنے سے پہلے ہی حل کر دینا چاہتے تھے لہذا انہوں نے فلسفہ کے نام سے منقول ہر بات کو عقل کا لازمی تقاضا سمجھا اور اسلامی عقائد اور اصول و احکام کی ایسی تعبیر کرنا شروع کر دی جو ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو۔ اس راہ میں پھر حدیث و سنت حائل ہوئی تو انہوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھہرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کر دیا۔ انکار سنت کا یہ فتنہ درمیان میں کئی صدیوں تک اپنی شمشان بھومی میں پڑا رہا یہاں تک کہ تیرہویں صدی ہجری میں وہ دوبارہ زندہ ہوا۔ پہلے یہ مصر و عراق میں پیدا ہوا اور اس نے دوسرا...
زندگی سے بھرپور فائدہ اٹھانا،خاطر خواہ لطف اندوز ہونا اور فی الواقع کامیاب زندگی گزارنا یقینا آپ کا حق ہے،لیکن یہ اسی وقت ہی ممکن ہو سکتا ہے جب آپ زندگی گزارنے کا سلیقہ جانتے ہوں،کامیاب زندگی کے اصول وآداب سے واقف ہوں ،اور نہ صرف واقف ہوں بلکہ عملاً ان سے اپنی زندگی کو آراستہ و شائستہ بنانے کی کوشش میں پیہم سرگرم بھی ہوں۔ پیش نظر کتاب آداب زندگی فاضل مولف محمد یوسف اصلاحی کی کاوش ہے جس میں انہوں نے اسلامی تہذیب کے انہی اصول وآداب کو معروف تصنیفی ترتیب کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ،اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی لائی ہوئی شریعت کی روشنی میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھانے والا ایک گرانقدر مجموعہ تیار ہو گیا ہے۔یہ کتاب اصول زندگی کے پانچ معروف ابواب پر مشتمل ہے۔جن میں زندگی گزارنے کے متعلق تمام اہم امور آجاتے ہیں۔بارگاہ الہی میں دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اپنی زندگی شریعت کے عظیم اصولوں کے مطابق گزارنے کی توفیق دے۔آمین(راسخ)
اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے، اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرام وقت کی...
شرکت اور مضاربت کاروباری معاہدوں کی وہ شکلیں ہیں جو نبی کریم ﷺ کی بعثت کےوقت رائج تھیں۔شرکت ومضاربت کے طریقے نبیﷺ کے زمانے میں رائج رہے اور رسول اللہ ﷺ کی نظروں کے سامنے آپ کے تربیت یافتہ صحابہ نے یہ طریقےاختیار بھی کیے ۔آپ نے ان طریقوں سے روکا نہیں بلکہ ان پر اظہار پسندیدگی فرمایا اور ان میں بعض طریقے آپ ﷺ نے خود بھی اختیار کیے تھے ۔شرکت سے مراد یہ ہے کہ دویا دو سے زائد افراد کسی کاروبار میں متعین سرمایوں کے ساتھ اس معاہدے کے تحت شریک ہوں کہ سب مل کر کاروبار کریں گے ۔مضاربت یہ ہے کہ ایک فریق سرمایہ فراہم کرے اور دوسرا اس سرمایے سے کاروبار کرے ۔ اس معاہدے کےتحت کے اسے کاروبار کے نفع میں ایک متعین نسبت سے حصہ ملے گا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’شرکت ومضاربت کے شرعی اصول ‘‘ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ شعبۂ معاشیات کے پروفیسر جنا ب ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے شرکت اور مضاربت کے شرعی احکام بیان کیے ہیں ۔ا س کتاب میں شرکت اور مضاربت کے تمام فقہی احکام کا احاطہ نہیں کیاگیا ہے بلکہ ان امور پر بحث کی گئی ہے ۔جن کابنکوں کی تنظیم ن...