کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺدینِ اسلامی کے بنیادی مآخذ ہیں۔ احادیث رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اہل علم نے خدمات انجام دیں۔ تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی سے ہوا او ر صحابہ وتابعین کے دور میں پروان چڑھا ۔ ائمہ محدثین کےدور میں خوب پھلا پھولا ۔مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے۔ان ضخیم مجموعہ جات سے استفتادہ عامۃ الناس کےلیے انتہائی دشوار ہے ۔عامۃ الناس کی ضرورت کے پیش نظر کئی اہل علم نے مختصر مجموعات حدیث تیار کیے ہیں۔ زیر تبصرہ کتا ب’ گلدستہ احادیث مع سنہرے اقوال ‘ مصنف کتب مولانا محمد عظیم حاصلپوری﷾ کی کاوش ہے اس کتاب کو انہوں نے چھ فصلوں میں تقسیم کیا ہے اور کتب احادیث سے ان احادیث کو تلاش کرکے بمع ترجمہ اس کتاب میں جمع کردیا ہے کہ جن احادیث میں دو دو ، تین تین، چار چار، پانچ پانچ، چھ چھ ، سات سات چیزوں کا بیان ہے۔اور ہر فصل میں ایسے اقوال بھی درج کیے ہیں جن میں دو دو ، تین تین، چار چار، پانچ پانچ، چھ چھ ، سات سات چیزوں کا ذکرہے۔(م۔ا)
23 مارچ 1987 کو لاہور میں جلسہ سیرت النبی ﷺ میں مولانا حبیب الرحمن یزدانی کی تقریر کے بعد جناب علامہ شہید کا خطاب شروع ہوا ،آپ کا باطل شکن خطاب اپنے نقطہ عروج کو پہنچ رہا تھا، ابھی آپ 20منٹ کی تقریر کرپائے تھے کہ بم کا انتہائی خوفناک لرزہ خیز دھماکہ ہوا ،تمام جلسہ گاہ میں قیامت صغریٰ کا عالم تھا ،دور دور تک دروبام دھماکے سے لرز اٹھے، ماحول مہیبت تاریخی میں ڈوب گیا، دلدوز آہوں سے ایک کہرام سا مچ گیا۔ درندہ صفت، بزدل دشمن اپنے مزموم مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا ۔اس حادثہ میں مولانا حبیب الرحمٰن یزدانی ، مولانا عبد الخالق قدوسی، محمد خان نجیب، حافظ عمران ، شیخ احسان الحق، سلیم پردیسی نے جام شہادت نوش کیا اور تقریبا 90 سامعین نے زخمی ہوئے ۔ خطیب ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر، بھی اس دھماکہ میں شدید زخمی ہوئے میوہسپتال میں زیر علاج رہے ۔ 29 مارچ کو سعودی ائیر لائن کی خاص پرواز کے ذریعہ شاہ فہد کی دعوت پر سعودی عرب علاج کے لئے روانہ ہوئے آپ کو فیصل ملیٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا، ڈاکٹروں نے آپریشن کے لئے بے ہوش کیا لیکن آپ کا وقتِ موعود آچکا تھا۔علامہ صاحب 22 گھنٹے ریاض میں زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد قافلہ شہداء میں شامل ہوگئے .(انا للہ و انا الیہ راجعون)مفتی اعظم سعودیہ عرب سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز نے دیرہ ریاض کی مرکزی مسجد میں نماز جنازہ پڑھائی ۔ نمازِ جنازہ کے بعد آپ کے جسدِ خاکی کو شہرِ حبیب ﷺمدینہ منورہ لے جایا گیا، مسجدِ نبوی میں دنیا ئے اطراف سے آنے والے وفود و شیوخ،مفتیان، اساتذہ علماء اور طلباء کی وجہ سے مسجد نبوی میں انسانوں کا سیلاب نظر آتا تھا اور تا حد نگاہ سر ہی سر دیکھائی دیتے تھے اژدہام کا یہ عالم تھا کہ آپ کا آخری دیدار کرنا محال تھا ۔مدینہ طیبہ میں ڈاکٹر شمس الدین افغانی نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ مدینہ یونیورسٹی کے شیوخ و اساتذہ اور طلباء کے علاوہ سعودی عرب کے اطراف سے ہزاروں علماء کرام ، طلباء و عوام اشکبار آنکھوں سے جنازے میں شامل تھے ۔ آپ کے جسد خاکی کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔آپ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ آپ کی قبر امام مالک کی قبر کے پہلوں میں ہے جس کی دائیں طرف رسولِ رحمت ﷺ کی ازواجِ مطہرات مؤمنوں کی ماؤں ؓن اجمعین کی مبارک قبر یں ہیں اور تھوڑے فاصلے پر رسولِ اکرم ﷺ کے لخت جگر جناب ابراہیم کی قبرِ مبارک ہے ۔علامہ کی شہادت کے بعد ان کی حیات وخدمات پر مختلف اہل علم نے بیسیوں مضامین تحریر کیے اور ہر سال ماہ مارچ میں کوئی نیا مضمون اخبار ، رسائل وجرائد کی زینت بنتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’علامہ احسان الٰہی اور ان کے ر فقاکی دردناک شہادت حالات ووقعات ‘‘سید محمد اسماعیل کی مرتب شدہ ہےاس کتاب میں انہوں نے 1987ء کے اس خوفناک حادثہ کےسارے منظر کو بڑے دلسوز انداز میں بیان کیا ہے اور اس حادثہ میں شہادت کے رتبہ پانے والے علماء کرام و کارکنان کے سوانح حیات کواس میں قلم بند کیا ہے بالخصوص اس حادثہ میں شہادت کا رتبہ پانے قائد اہل حدیث خطیب ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدکے سوانح حیات ، حالات وواقعات اور ان کی شہادت پر ان کےبارے میں لوگوں کے تاثرات کو حوالہ قرطاس کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس حادثہ میں شہید ہونے والے تمام شہدا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔(آمین)
جادو کرنا اور کالے علم کے ذریعے جنات کاتعاون حاصل کر کے لوگوں کو تکالیف پہنچانا شریعتِ اسلامیہ کی رو سے محض کبیرہ گناہ ہی نہیں بلکہ ایسا مذموم فعل ہے جو انسان کو دائرۂ اسلام سے ہی خارح کردیتا ہے اور اسے واجب القتل بنادیتا ہے ۔جادو، جنات اور نظر بد سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کے علاج کےلیے کتاب و سنت کے بیان کردہ طریقوں سے ہٹ کر بے شمار لوگ شیطانی اور طلسماتی کرشموں کے ذریعے ایسے مریضوں کاعلاج کرتے نظر آتے ہیں جن کی اکثریت تو محض وہم وخیال کے زیر اثر خود کو مریض سمجھتی ہے جادو کا موضوع ان اہم موضوعات میں سے ہے جن کا بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے ذریعے تعاقب کرنا علماء کےلیے ضروری ہے کیونکہ جادو عملی طور پر ہمارے معاشروں میں بھر پور انداز سے موجود ہے اور جادوگرچند روپوں کے بدلے دن رات فساد پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں جنہیں وہ کمزور ایمان والے اور ان کینہ پرور لوگوں سے وصو ل کرتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے بغض رکھتے ہیں او رانہیں جادو کے عذاب میں مبتلا دیکھ کر خوشی محسوس کرتےہیں لہذا علماء کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظر بد ،جادو کے خطرے او راس کے نقصانات کے متعلق لوگوں کوخبر دار کریں اور اس کا شرعی طریقے سے علاج کریں تاکہ لوگ اس کے توڑ اور علاج کے لیے نام نہاد جادو گروں عاملوں کی طرف رخ نہ کریں۔ زیر تبصرہ کتاب’’فتاویٰ برائے نظر بد جادو‘‘ فتاوی کمیٹی کبار علماء حرمین شریفین کے نظربد، جادو، حسد کےمتعلق عربی فتاویٰ کا اردو ترجمہ ہے اس کتاب میں انسانی معاشرے کے لیے مہلک تین اسباب نظربد، جادو، حسد پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ تاکہ ہر شخص ان مہلک اسباب سے اجتناب کرے اور معاشرے کےلیے ایک مفید فردبن کرر ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر ان شیطانی جذبات اور اعمال کاسہارا لے کر گمراہی کا شکار ہو جا جائے ۔اس کے علاو ہ اس کتاب میں عالم اسلام کے کبار علماء کرام اور مفتیان کے فتویٰ جات اور تحریرات اور قرآن وحدیث کی روشنی میں حسد، روشنی، نظربد اور جادو کے متعلقہ مباحث بیان کیے گئے ہیں۔ (م۔ا)
ہر دور میں اہل علم نے مختلف موضوعات پر بڑی بڑی ضخیم کتابیں لکھی ہیں۔فقہ وحدیث اور تاریخ وفلسفہ اورطب وحکمت میں سے کوئی ایسا عنوان نہیں ہے ،جس پر ہمیں قدیم علمی سرمائے میں انفرادی کاوشوں کے حیرت انگیز مجموعے نہ ملتے ہوں۔مثلا امام سرخسی کی عظیم الشان کتاب المبسوط بارہ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور اسلامی فقہ کا ایک مکمل مجموعہ ہے۔اسی طرح امام قلقشندی کی کتاب صبح الاعشی متعدد علوم ومعارف کا ایک خزانہ ہے۔موجودہ اصطلاح میں آپ اسے انسائیکلوپیڈیا نہ بھی کہیں تو بھی اپنی جامعیت اور وسعت کے لحاظ سے ان سے وہی ضرورت پوری ہوتی ہے جو آج کے د ور میں انسائیکلو پیڈیاز پوری کرتے ہیں۔ عصر حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے چند مسلمان مفکرین اور بعض اسلامی اداروں نے اب انسائیکلوپیڈیاز کی تیاری کی طرف بھی اپنی توجہ مبذول کی ہے۔ایک انسائیکلو پیڈیا وزارت اوقاف کویت کے زیر اہتمام تیار کیا جا رہا ہے اور الموسوعہ الفقہیہ کے نام سے اب تک اس کی متعدد جلدیں چھپ چکی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" فقہی اختلافات حقیقت، اسباب اور آداب وضوابط" محترم حافظ خبیب الرحمن صاحب کی تصنیف ہے، جسے انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی شریعہ اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔اس کتاب میں مولف موصوف نے فقہی اختلافات کی حقیقت، اسباب اور اس کے آداب وضوابط پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے، او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہےکہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتب احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے ہیں ۔تاکہ خدمت قرآن کے عظیم الشان شرف سے مشر ف ہوں۔ پاکستانی تعلیمی اداروں میں باقاعدہ قرآن مجید کی تعلیم دی جاتی ہے اور کورسز کروائے جاتے ہیں اور ان کے نصاب کی مطبوعہ کتب موجود ہیں۔ کتاب وسنت ڈاٹ کام پر جہاں مذہبی ، دینی، اور علمی وتحقیقی کتب اپلوڈ کی جاتی ہیں ۔وہاں مدارس وسکولز اور کالجز ویونیورسٹیز کے طلباء کی سہولت کے لئے نصابی کتب کو بھی ترجیحی طور پر اپلوڈ کیا جاتا ہے، تاکہ طلباء بآسانی ان کتب کو حاصل کر سکیں اور علمی ونصابی تیار بھر پور طریقے سے کر سکیں ۔ زیرتبصرہ کتاب '' فقہ القرآن برائے ایم اے علوم اسلامیہ '' محترم مفتی منظور احمد صاحب کی کاوش ہے، جس کی نظر ثانی محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر خان خاکوانی صاحب نے کی ہے۔ اس کتاب کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد کے شعبہ قرآن وتفسیر کلیہ عربی وعلوم اسلامیہ نے بطور سلیبس کے شائع کیا ہے۔یہ کتاب ایم اے علوم اسلامیہ کے لئے تیار کی گئی ہے۔امید واثق ہے کہ اگر کوئی طالب علم اس کتاب سے تیاری کر کے امتحان دیتا ہے تو وہ ضرور اچھے نمبروں سے پاس ہوگا۔ان شاء اللہ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور تمام مسلمانوں کو دنیوی واخروی تما م امتحانوں میں کامیاب فرمائے۔آمین(راسخ)
محمد بن قاسم کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا جو کہ بنو امیہ کے ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کے بھتیجا تھا۔ محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں سندھ فتح کرکے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کرایا۔ ان کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک ہیرو کا اعزاز حاصل ہے اور اسی لئے سندھ کو "باب الاسلام" کہا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان پر اسلام کا دروازہ یہیں سے کھلا۔محمد بن قاسم 694ء میں طائف میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خاندان کے ممتاز افراد میں شمار کئے جاتے تھے۔ جب حجاج بن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا گیا تو اس نے ثقفی خاندان کے ممتاز لوگوں کو مختلف عہدوں پر مقرر کیا۔ ان میں محمد کے والد قاسم بھی تھے جو بصرہ کی گورنری پر فائز تھے۔ اسطرح محمد بن قاسم کی ابتدائی تربیت بصرہ میں ہوئی۔ بچپن ہی سے محمد مستقبل کا ذہین اور قابل شخص نظر آتا تھا۔ غربت کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پوری نہ کرسکے اس لئے ابتدائی تعلیم کے بعد فوج میں بھرتی ہوگئے۔ فنون سپہ گری کی تربیت انہوں نے دمشق میں حاصل کی اور انتہائی کم عمری میں اپنی قابلیت اور غیر معمولی صلاحیت کی بدولت فوج میں اعلی عہدہ حاصل کرکے امتیازی حیثیت حاصل کی۔ محمد بن قاسم کو 15 سال کی عمر میں 708ءکو ایران میں کردوں کی بغاوت کے خاتمے کے لئے سپہ سالاری کے فرائض سونپے گئے۔ اس وقت بنو امیہ کے حکمران ولید بن عبدالملک کا دور تھا اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا۔ اس مہم میں محمد بن قاسم نے کامیابی حاصل کی اور ایک معمولی چھاؤنی شیراز کو ایک خاص شہر بنادیا۔اس دوران محمد بن قاسم کو فارس کے دار الحکومت شیراز کا گورنر بنایا گیا،اس وقت اس کی عمر 17 برس تھی اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ حکومت کرکے اپنی قابلیت و ذہانت کا سکہ بٹھایااور 17 سال کی عمر میں ہی سندھ کی مہم پر سالار بنا کر بھیجا گیا۔ محمد بن قاسم کی فتوحات کا سلسلہ 711ء میں شروع ہوا اور 713ء تک جاری رہا۔ انہوں نے سندھ کے اہم علاقے فتح کئے اور ملتان کو فتح کرکے سندھ کی فتوحات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا لیکن شمالی ہند کی طرف بڑھنے کی خواہش حالات نے پوری نہ ہونے دی۔محمد بن قاسم کم سن تھے لیکن اس کم سنی میں بھی انہوں نے نہ صرف ایک عظیم فاتح کی حیثیت سے اپنا نام پیدا کیا بلکہ ایک کامیاب منتظم ہونے کا بھی ثبوت دیا۔ انہوں نے تقریباًً 4 سال سندھ میں گذارے لیکن اس مختصر عرصے میں انہوں نے فتوحات کے ساتھ ساتھ سلطنت کا اعلی انتظام کیا اور سندھ میں ایسے نظام حکومت کی بنیاد ڈالی جس نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔ زیر تبصرہ کتاب’’فاتح سندھ عظیم ‘‘ تاریخ اسلام کے عظیم سپہ سالار محمد بن قاسم پر کی لکھی ہوئی عربی کتاب ’’ بطل السند‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔اس کتاب کو عربی اردو قالب میں ڈھالنے کی ذمہ داری نے مولانا عبداللہ دانش (خطیب مسجدالبدر ۔نیویارک) نے انجام دی ہے۔اس کتاب میں محمد بن قاسم کےسندھ کوفتح کرکے یہاں اسلامی پر چم لہرانے اور ان کو معزول کرکے قید خانے میں ڈال دینےکے حالات وقعات کو بڑے دلنشیں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ (م۔ا) سیر
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اوراصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر عربی زبان میں بے شمار کتب موجود ہیں۔جن میں سے مقدمہ جزریہ ایک معروف اور مصدر کی حیثیت رکھنے والی عظیم الشان منظوم کتاب ہے،جو علم تجوید وقراءات کے امام علامہ جزری کی تصنیف ہے۔اس کتاب کی اہمیت وفضیلت کے پیش نظر متعدد اہل علم نے اس کی شاندار شروحات لکھی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " الفوائد التجویدیۃفی شرح المقدمۃ الجزریۃ "بھی مقدمہ جزریہ کی ایک مفصل شرح ہے جواستاذ القراء مولاناقاری ابو محمد سعید احمدصاحب ،صدر مدرس شعبہ تجوید وقراءات جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی کاوش ہے۔جو ان کی سالہا سال کی محنت وکوشش اور عرصہ دراز کی تحقیق وجستجو کا نتیجہ ہے۔اور شائقین علم تجوید کے لئے ایک نادر تحفہ ہے۔ تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اسلام میں فتویٰ نویسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بذات خود اسلام۔ فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سےمتعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کےجواب میں کوئی عالم دین اور احکامِ شریعت کےاندر بصیرت رکھنے والاشخص بیان کرے۔فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کاسلسلہ رسول ﷺکےمبارک دور سے چلا آرہا ہے برصغیر پاک وہند میں قرآن کی تفاسیر شروح حدیث، حواشی وتراجم کےساتھ فتویٰ نویسی میں بھی علمائے اہل حد یث کی کاوشیں لائق تحسین ہیں تقریبا چالیس کے قریب علمائے حدیث کے فتاویٰ جات کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ فتاویٰ افکار اسلامی ‘‘ ڈاکٹر حافظ محمد شبہاز حسن کاہلوں﷾(شعبہ علوم اسلامیہ یوای ٹی ،لاہور ) کی کاوش ہے یہ کتاب در اصل ان فتاوی ٰ جات پر مشتمل ہے جو موصوف کےتحریر کردہ فتاویٰ جات ماہنامہ دعوۃ التوحید ،اسلام آباد میں (جولائی2000ء تا نومبر2010ء) میں شائع ہوتے رہے ۔موصوف نےمطبوعہ فتاوی میں کچھ حک واضافہ کرکے اسے کتابی صورت میں مرتب کیا ہے ۔نیز اس میں مجلہ دعوۃ التوحید میں شائع ہونے والے دیگر علماء کے فتاوی جات بھی شامل ہیں۔فتاویٰ کا یہ مجموعہ 310 سوالات اوران کے جوابات پر مشتمل ہے ۔محترم جنا ب مولانا ارشد کمال ﷾ نے اس فتاویٰ میں موجود روایات کی تخریج وتحقیق کی ہے اور نظرثانی کرتے ہوئے بعض مقامات پر مفید اضافے بھی کیے ہیں جس سے اس فتاویٰ کی افادیت میں دو چند ہوگئی ہے۔(م۔ا)
محترم طاہر نقاش صاحب (مدیر ) دار الابلاغ ،لاہور کی شخصیت اہل علم کے ہاں محتاج تعارف نہیں آپ جامعہ محمد یہ ،گوجرانوالہ سے فارغ تحصیل ہیں اور ایک عرصہ جماعۃ الدعوۃ کے پلیٹ فارم سے گراں قدر صحافتی خدمات دیتے رہے ہیں ۔موصوف کا شمار وطن عزیز کے چند قلمکاروں میں ہوتا ہے جن کےقلم کو اللہ تعالیٰ نے تاثیر کی دولت سےنوازا ہے ۔ان کےمضامین میں چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی حکمت وعمل کی باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔وہ اپنے قلم کی تبلیغ سے تبلیغ کا اچھوتا انداز اپنائے ہوئے ہیں ۔موصوف نے دینی صحافت میں گراں قدر خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ ’’ دار الابلاغ‘‘ کے نام سے اشاعت کتب دینیہ کا ادارہ قائم کیا جو چند سالوں میں معاشرےکی ضرورت کے اہم موضوعات پر بیسیوں دینی کتابیں شائع کرچکا ہے ۔طاہر صاحب خودبھی کئی کتب کے مصنف ومترجم مرتب ہیں ۔8 نومبر 2012ء کو طاہر نقاش صاحب کا ہونہار بیٹا ابو بکر نقاش نواز شریف ہسپتال میں ڈاکٹر وں کی غفلت سے اچانک اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ جس سے بچے کے والدین ، بہن بھائی ، عزیز واقارب کو بہت صدمہ پہنچا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’بیٹا ہو توایسا! ‘‘ میں جناب طاہر نقاش صاحب نے اپنے بیٹے کی مظلومانہ موت اور اس پر انہیں پہنچنے والے گہرے صدمے ، اور اس ان کی والدہ ، استاتذہ ، بہن بھائیوں اور عزیز واقارب ودست واحباب کے تاثرات کوپیش کرنے ساتھ ساتھ انہوں نے اس کتاب میں والدین کے لیے انمول سنہری راہنمائی کے اصول پیش کیے کہ انہوں نےاپنے بچوں کی تربیت کیسے کرنی ہے اور اولاد کے لیے مشعل راہ وضابطہ عمل پیش کیا کہ انہوں نے کیسے مثالی بیٹے اور بیٹیاں بننا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ابو بکر نقاش کی بچپن کی موت کو ان کے والدین کے لیے ذریعہ نجات بنائے ۔(آمین)(م۔ا)
مسلک اہل حدیث کوئی نئی جماعت یا فرقہ نہیں ہے۔ تمام اہل علم اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت موجود ہے تب سے یہ جماعت موجود ہے۔اسی لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے۔یہ نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔پہلا لفظ"اہل"ہے۔جس کے معنی ہیں والے صاحب دوسرا لفظ"حدیث" ہے۔حدیث نام ہے کلام اللہ اور کلام رسولﷺ کا۔قرآن کو بھی حدیث فرمایا گیا ہے۔اور آپﷺ کے اقوال اور افعال کے مجموعہ کا نام بھی حدیث ہے۔پس اہل حدیث کے معنی ہوئے۔”قرآن و حدیث والے” جماعت اہل حدیث نے جس طریق پر حدیث کو اپنا پروگرام بنایا ہے اور کسی نے نہیں بنایا۔اسی لیے اسی جماعت کا حق ہے۔کہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہے۔مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہی جماعت حق ہے۔ اہل حدیث مروّجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں، نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے، بلکہ اہل حدیث ایک جماعت اور تحریک کا نام ہے۔ اور وہ تحریک ہے زندگی کے ہر شعبے میں قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنا اور دوسروں کو ان دونوں پر عمل کرنے کی ترغیب دلانا، یا یوں کہ لیجئے کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب وسنت کی دعوت اور اہل حدیث کا منشور قرآن وحدیث ہے۔اور اصلی اہل سنت یہی ہیں۔اہل حدیث ایک تحریک ہے، ایک فکر ہے، جو دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہے اور لوگوں کو سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے کہ قرآن وسنت ہی شریعت کے اصلی مصادر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " تاریخ اہل حدیث " محترم مولانا احمد الدہلوی کی عربی تصنیف"تعیین الفرقۃ الناجیۃ وانھا طائفۃ اھل الحدیث" کا اردو ترجمہ ہے ۔اردو ترجمہ محترم ڈاکٹر محمد منیر زبیر الراعی السلفی اور حماد ظہیر تفہیمی صاحبان نے کیا ہے۔مولف موصوف نے اس کتاب میں مسلک اہل حدیث کی تاریخ بیان کی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
عصر حاضر سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں کمپیوٹر کی ایجاد اور اس میں حیرت انگیز ترقی نے ناصرف انسانی فکر ونظر میں تبدیلی پیدا کی ہے، بلکہ سماجی زندگی پر بھی ایک حیرت انگیز انقلابی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔اس انقلابی تبدیلی کا سہرا انٹر نیٹ کی ایجاد کو جاتا ہے، جس نے کرہ ارض کو سکیڑ کر اور فاصلوں کی اہمیت کو ختم کر کے ایک نقطے میں سمیٹ دیا ہے اور دنیا کو ایک گلوبل ویلج کی شکل دے دی ہے۔عصر حاضر میں انٹرنیٹ پر معلومات کا ایک بے بہا خزانہ موجود ہےجو صرف ایک کلک سے آپ کے سامنے دستیاب ہوتا ہے۔اس وقت کروڑوں ویب سائٹس آن لائن کام کرہی ہیں، لیکن اس سمندر میں سے اپنے کام کی سائٹس کو تلاش کرنا اور ان سے استفادہ کرنا ایک مشکل امر ہے، چنانچہ اس مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسی ڈائریکٹری تیار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی جو انٹر نیٹ کو براؤز کرتے وقت آپ کی مدد کر سکے۔ زیر تبصرہ کتاب "عالمی انٹرنیٹ ڈائریکٹری "محترم محمد متین خالد اور محترم اعظم شیخ صاحبان کی مشترکہ کاوش ہے، جس میں انہوں نے متعدد اہم موضوعات پر دنیا کی بہترین اور دلکش ویب سائٹس کے لنکس جمع کر دئیے ہیں تاکہ انٹر نیٹ کا یوزر زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکے۔یہ کتاب انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کے لئے ایک بہترین تحفہ ہے۔(راسخ)
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ، خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار، اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کو حاصل کرتا ہے۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔ اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہےجسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس وتقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے ۔اس لیے خطبا حضرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح ، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت، معاملات میں درستگی، آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیرتبصرہ کتاب ’’خطبات ضیاء‘‘ مولانا عبدالرحمٰن ضیاء﷾ کے ایک آیت قرآنی لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ کی تشریح وتوضیح میں سیرت النبی ﷺ پر مشتمل 40خطبات کا مجموعہ ہے۔ ہر خطبہ اپنے موضوع کی جامعیت میں بیش بہادلائل وبراہین کاایک خزینہ ہے۔ یہ مجموعہ خطبات موجودہ دور کی خطیبانہ موشگافیوں سے مبرا اور پاک ہے۔ اس میں قاری کو مختلف مسائل دینیہ بالخصوص سیرت نبوی ﷺ کےکئی پہلوؤں پر دلائل و براہین کاانبار ملے گاروایتی انداز سے ہٹ کر خالص علمی منہج اختیارکیاگیا ہے اور کتاب وسنت کے منافی ضعاف ومناکیر اور بناوٹی قصوں اور کہانیوں سے اجتناب کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک طرف فن خطابت کی شاہکار ہے تودوسری طرف علمی روایت کاآئینہ دار ہے۔ اس میں منصب نبوت کی جامع توضیح بھی ہے اور اوصاف نبوی کی مفصل تشریح بھی ہے۔(م۔ا)
مسلک اہل حدیث ایک نکھرا ہوا اور نترا ہوا مسلک ہے۔جو حقیقتا خاصے کی شے اور پاسے کا سونا ہے۔اس کا منبع مصدر کتاب وسنت ہے۔مسلک اہل حدیث کوئی نئی جماعت یا فرقہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مکتب فکر اور تحریک کا نام ہے ۔ تمام اہل علم اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت موجود ہے تب سے یہ جماعت موجود ہے۔اسی لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے۔یہ نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔پہلا لفظ"اہل"ہے۔جس کے معنی ہیں والے صاحب دوسرا لفظ"حدیث" ہے۔حدیث نام ہے کلام اللہ اور کلام رسولﷺ کا۔قرآن کو بھی حدیث فرمایا گیا ہے۔اور آپﷺ کے اقوال اور افعال کے مجموعہ کا نام بھی حدیث ہے۔پس اہل حدیث کے معنی ہوئے۔”قرآن و حدیث والے” جماعت اہل حدیث نے جس طریق پر حدیث کو اپنا پروگرام بنایا ہے اور کسی نے نہیں بنایا۔اسی لیے اسی جماعت کا حق ہے۔کہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہے۔مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہی جماعت حق ہے۔ اہل حدیث مروّجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں، نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے، بلکہ اہل حدیث ایک جماعت اور تحریک کا نام ہے۔ اور وہ تحریک ہے زندگی کے ہر شعبے میں قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنا اور دوسروں کو ان دونوں پر عمل کرنے کی ترغیب دلانا، یا یوں کہ لیجئے کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب وسنت کی دعوت اور اہل حدیث کا منشور قرآن وحدیث ہے۔اور اصلی اہل سنت یہی ہیں۔اہل حدیث ایک تحریک ہے، ایک فکر ہے، جو دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہے اور لوگوں کو سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے کہ قرآن وسنت ہی شریعت کے اصلی مصادر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " لقب اہل حدیث "مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے راہنما رانا محمد شفیق خاں پسروری صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں اہل حدیث لقب اختیار کرنے کی وجہ بتائی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت ِشریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اورعمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور اہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘ رہی ہے موجودہ دور میں بھی عوام وخواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چندد ہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرےفروغ حاصل ہوا ہے۔ امت کا در د رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں ۔اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں۔لیکن تقلیدی افکار ونظریات پر تعب وعناد کی چڑھتی ہوئی دبیز چادر کے سامنے جتنی بھی ہوں وہ کم ہی ہیں۔ زیر نظر کتاب " تقلید اور علماء دیو بند "رئیس جامعہ لاہور الاسلامیہ ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب کے تایا جان شیخ الحدیث مولانا حافظ عبد اللہ محدث روپڑی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ، مولانا محمود الحسن، مولانا مرتضی حسن وغیرہ علماء دیو بند کی تحریرات(جو انہوں نے اثبات تقلید میں مختلف پیرایہ میں لکھی ہیں)کے محققانہ ومنصفانہ جوابات دئیے ہیں۔ مولف موصوف اس کتاب کے ذریعے لوگوں کو تقلید شخصی کے بدترین نتائج سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دلائی ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت پر زندہ رہنے اوراللہ ا ور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالی نے عورت کو معظم بنایا لیکن قدیم جاہلیت نے عورت کو جس پستی کے گھڑے میں پھینک دیا اور جدید جاہلیت نے اسے آزادی کا لالچ دے کر جس ذلت سے دو چار کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ایک طرف قدیم جاہلیت نے اسے زندگی کے حق سے محروم کیا تو جدید جاہلیت نے اسے زندگی کے ہر میدان میں دوش بدوش چلنے کی ترغیب دی اور اسے گھر کی چار دیواری سے نکال کر شمع محفل بنادیا۔ جاہل انسانوں نے اسے لہب و لعب کاکھلونا بنا دیا اس کی بدترین توہین کی اور اس پر ظلم وستم کی انتہا کردی تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتاہے کہ ہر عہد میں عورت کیسے کیسے مصائب و مکروہات جھیلتی رہی اور کتنی بے دردی سے کیسی کیسی پستیوں میں پھینک دی گئی اور عورت اپنی عزت و وقار کھو بیٹھی آزادی کے نام پر غلامی کا شکار ہوگئی۔ لیکن جب اسلام کا ابرِ رحمت برسا تو عورت کی حیثیت یکدم بدل گئی ۔محسن انسانیت جناب رسول اللہﷺ نے انسانی سماج پر احسان ِ عظیم فرمایا عورتوں کو ظلم ،بے حیائی، رسوائی اور تباہی کے گڑھے سے نکالا انہیں تحفظ بخشا ان کے حقوق اجاگر کیے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے ان کے فرائض بتلائے اورانہیں شمع خانہ بناکر عزت واحترام کی سب سےاونچی مسند پر فائز کردیااور عورت و مرد کے شرعی احکامات کو تفصیل سے بیان کردیا ۔آج مغربی اقوام بھی عورت کی غلام بنام آزادی سے تنگ آچکی ہیں ۔ کیونکہ مغربی تمدن میں اس بے جا آزادی کے نتائج، زنا کاری اور بے حیائی کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں افسو س اس بات کا ہے کہ مسلمان عورت بھی آج اسی آزادی کے حصول کی کوشش میں سرگرداں نظر آتی ہے جبکہ اسلام قرآن کے ذریعے اس کا قرآن وحدیث کے لیے اس کا مقام ، حیثیت اور حقوق وفرائض متعین کرتا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ’’خاتون اسلام‘‘ انڈیا کے نامور سکالر مولانا وحیدالدین کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے مستشرقین کے عورت کے متعلق نظریات خیالات کا جائزہ لیا ہے اور بتایا کہ اسلام نے ہی عورت کو ذلت سے نکال کر عزت وشرف کامقام بخشا ہے ۔اور انہوں نے اس بات کوواضح کیا کہ عورت کے بارہ میں اسلام کایہ کہنا یہ نہیں ہے کہ وہ مرد سے کم ہے اسلام کاکہنا صرف یہ ہے کہ عورت مرد سے مختلف ہے یہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں فرق کا معاملہ ہے نہ کہ ایک مقابلہ میں دوسرے کے بہتر ہونے کا ہے۔ مرد او رعورت کے درمیان تخلیقی فرق ہے یہی تخلیقی فر ق وہ اصل سبب ہے جس کی بناپر عورت کو زندگی کے شعبوں میں مرد کےبرابر درجہ نہ مل سکا۔جس کا اعتراف آج کے متجددین نےبھی کیا ہے۔ (م۔ا)
شیخ الاسلام فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری 1868ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے آپ نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں پائی۔ سات سال کی عمر میں والد اور چودہ برس کی عمر تک پہنچتے والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ بنیادی تعلیم مولانا احمد اللہ امرتسر سے حاصل کرنے کے بعد استاد پنجاب، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے علم حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ ۱۸۸۹ء میں سندفراغت حاصل کرصحیحین پڑھنے دہلی میں سید نذیرحسین دہلوی کے پاس پہنچے۔مولانا ثناءاللہ امرتسری وسیع المطالعہ، وسیع النظر، وسیع المعلومات اور باہمت عالم دین ہی نہیں دین اسلام کے داعی، محقق، متکلم، متعلم، مناظر مصنف، مفسر اور نامور صحافی بھی تھے۔ مولانا کے پیش نگاہ دفاعِ اسلام اور پیغمبر اعظم جناب محمد رسول اللہﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کا کام تھا۔ یہودونصاریٰ کی طرح ہندو بھی اسلام کے درپے تھے۔ مولانا کی اسلامی حمیت نے یہودونصاریٰ، ہندو اورقادیانیوں کو دندان شکن جواب دیے۔ عیسائیت اور ہند مت کے رد میں آپ نےمتعد دکتب لکھیں۔اور آپ نے جس سرگرمی و تندہی سے عقیدہ ختم نبوتﷺ کا دفاع کیا، ایسی سعادت کم ہی مسلمانوں کے حصے میں آئی ہے۔ آپ نے اسلام کی حقانیت کو ہر موڑ پر ہر حوالے سے ثابت کیا۔ ۱۸۹۱ء میں جب مرزا قادیانی نے دعویٰ مسیحیت کیا‘ آپ اس وقت طالب علم تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں آپ نے ردِ قادیانیت کو اختیار کر لیا۔ قادیانیت کی دیوار کو دھکا دینے میں مولانا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مرزا غلام احمد کے چیلنج پر اس کے گھر جا کر اسے مناظرے کے لیے للکاراکہ مرزا قادیانی اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گیا۔ ردِ قادیانیت میں مولانا ثناء اللہ امرتسری نے’’تاریخ مرزا، فیصلہ مرزا، الہامات مرزا، نکات مرزا، عجائبات مرزا، علم کلام مرزا، شہادت مرزا، شاہ انگلستان اور مرزا، تحفہ احمدیہ، مباحثہ قادیانی، مکالمہ احمدیہ، فتح ربانی، فاتح قادیان اور بہااللہ اور مرزا۔‘‘ جیسی کتب لکھیں۔اس کے علاوہ آپ نے لاتعداد مناظرے کیے اور ہر جگہ اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا۔الغرض شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ برصغیر پاک و ہند کی جامع الصفات علمی شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے پناہ خوبیوں اور محاسن سے نواز رکھا تھا۔آپ اسلام کی اشاعت اور اپنے مسلک کی ترویج کے لیے تمام زندگی کوشاں رہے۔ اخبار اہل حدیث جاری کیا۔ قادیانیت ،عیسائیت اور ہند مت کے رد کے علاوہ بھی بہت سی کتب لکھیں ۔ تفسیر القرآن بکلام الرحمن (عربی) اور ’’تفسیرِ ثنائی ‘‘ (اردو) قابل ذکر ہیں ۔مولانا کی حیات خدمات کے سلسلے میں معروف قلماران او رمضمون نگاران نے بیسیوں مضامین لکھے ہیں جو پاک وہند کے رسائل کی کی زینت بنتے رہتے ہیں اور بعض اہل علم نے مستقل کتب بھی تصنیف کی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ سیرت ثنائی سوانح حیات شیخ الاسلام مولانا نثاء اللہ امرتسری‘‘ مولانا عبد المجید خادم سوہدروی کی تصنیف ہے ۔اس کتاب میں فاضل مصنف نے حضرت مولانا امرتسری کو ملتِ اسلامیہ کے سامنے بطور آئیڈیل پیش کیا ہے جس کی روشنی میں میں افراد ِ قوم نہ صرف یہ کہ اپنی اصلاح کرسکتے ےہیں بلکہ ہمدوشِ ثریا ہوسکتے ہیں اورکھوئی ہوئی عظمت حاصل کرسکتےے ہیں۔نیز اس کتاب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ علمی، ادبی، سوانحی تاریخی ہونے کےساتھ ساتھ سلیس ، رواں اوردلچسپ ہے ۔کتاب ایک دفعہ شروع کردیں تو ختم کیے بغیر چھوڑنے کوجی نہیں چاہتا ہے ۔یہ کتاب تاریخ ، سیرت ، علم ادب کاحسین مرقع ہے ۔’’سیرت ثنائی‘‘ کا یہ دوسرا ایڈیشن ہے ا س ایڈیشن میں مناسب تخریج، تزئین اور حک واضافہ کیا گیا اور جا بجا خوبصورت عنوانات قائم کیے ہیں۔(م۔ا)
مسلک اہل حدیث کوئی نئی جماعت یا فرقہ نہیں ہے۔ تمام اہل علم اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت موجود ہے تب سے یہ جماعت موجود ہے۔اسی لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے۔یہ نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔پہلا لفظ"اہل"ہے۔جس کے معنی ہیں والے صاحب دوسرا لفظ"حدیث" ہے۔حدیث نام ہے کلام اللہ اور کلام رسولﷺ کا۔قرآن کو بھی حدیث فرمایا گیا ہے۔اور آپﷺ کے اقوال اور افعال کے مجموعہ کا نام بھی حدیث ہے۔پس اہل حدیث کے معنی ہوئے۔”قرآن و حدیث والے” جماعت اہل حدیث نے جس طریق پر حدیث کو اپنا پروگرام بنایا ہے اور کسی نے نہیں بنایا۔اسی لیے اسی جماعت کا حق ہے۔کہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہے۔مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہی جماعت حق ہے۔ اہل حدیث مروّجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں، نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے، بلکہ اہل حدیث ایک جماعت اور تحریک کا نام ہے۔ اور وہ تحریک ہے زندگی کے ہر شعبے میں قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنا اور دوسروں کو ان دونوں پر عمل کرنے کی ترغیب دلانا، یا یوں کہ لیجئے کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب وسنت کی دعوت اور اہل حدیث کا منشور قرآن وحدیث ہے۔اور اصلی اہل سنت یہی ہیں۔اہل حدیث ایک تحریک ہے، ایک فکر ہے، جو دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہے اور لوگوں کو سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے کہ قرآن وسنت ہی شریعت کے اصلی مصادر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " فضائل اھلحدیث "امام احمد بن علی المعروف علامہ خطیب البغدادی کی عربی تصنیف"شرف اصحاب الحدیث" کا اردو ترجمہ ہے ۔اردو ترجمہ محترم مولانا عبد اللہ سلیم صاحب نے کیا ہے۔جبکہ تحقیق وتخریج محترم مولانا غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب نے کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
صحیح عقیدہ ہی ملت اسلامیہ کی بنیاد اوردین اسلام کی اساس ہے کیونکہ اعمال صالحہ کی قبولیت کامدار عقائد صحیحہ پر ہے۔ اور یہ بات کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے واضح اور مسلم ہے کہ بارگاہ الٰہی میں انسان کے وہی اعمال مقبول ہوگے جن کی اساس صحیح عقیدے پر ہوگئی۔ صحیح عقیدے کے بغیر ہر عمل بیکار ہے اوراللہ کے ہاں اس کا کوئی درجہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل کو عام انسانوں کی فوز وفلاح اور رشد وہدایت کے لیے مبعوث فرمایا تو انہوں نے بھی سب سےپہلے عقیدۂ توحید کی دعوت پیش کی کیونکہ اسلام کی اولین اساس و بنیاد توحید ہی ہے عقیدہ کاحسن ہی جو انسان کو کامیاب و کامران بناکر اللہ کی رضا مندی او رخوشی کاسرٹیفکیٹ فراہم کرتا ہے۔ اگر عقیدہ قرآن وحدیث کے مطابق ہوگا تو قیامت کے دن کامیاب ہوکر حضرت انسان جنت کا حقدار کہلائے گا، اور اگر عقیدہ خراب ہوگا تو جہنم میں جانے سے اسے کوئی چیز نہ روک سکے گی۔ (االا من رحم ربی) زیر تبصرہ کتاب ’’حراست توحید‘‘ عالم اسلام کے نامور عالم دین مفتی اعظم سعودی عرب فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز کے اصلاح عقیدہ کے متعلق تحریر کیے گیے تین رسائل العقیدۃ الصحیحۃ و مایضادہا(صحیح اسلامی عقیدہ اور اس کے منافی امو ر) ،اقامۃ البراہین علی من استغاث بغیر اللہ(غیر اللہ سے فریاد.... شرعی دلائل کی روشنی میں)، حکم السحر والکہانۃ (جادو اور کہانت کی حیثیت) کامجموعہ ہے۔ اس میں شیخ موصو ف نے مسائل عقیدہ کو بڑے آسان فہم انداز میں کتاب وسنت کے دلائل کی روشنی میں پیش کیا ہے اللہ تعالیٰ اسے عامۃالناس کے لیے نفع بخش بنائے۔ (آمین)
تقویٰ کا مطلب ہے پیرہیز گاری ، نیکی اور ہدایت کی راہ۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بے تاہانہ تڑپ ہوتی ہے۔ ۔ اللہ تعالیٰ کو تقوی پسند ہے۔ ذات پات یا قومیت وغیرہ کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے قابل عزت و احترام وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ ۔ تقویٰ دینداری اور راہ ہدایت پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بزرگانِ دین کا اولین وصف تقویٰ رہا ہے۔ قرآن پاک متقی لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے۔افعال و اقوال کے عواقب پر غوروخوض کرنا تقویٰ کو فروغ دیتا ہے۔اور روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ روزے، خدا ترسی کی طاقت انسان کے اندر محکم کر دیتے ہیں۔ جس کے باعث انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آتا اور یہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان اللہ کے حکم کی وجہ سے حرام ناجائزاور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی کبھی جرات نہ کرے گا۔ تقویٰ اصل میں وہ صفت عالیہ ہے جو تعمیر سیرت و کردار میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ عبادات ہوں یا اعمال و معاملات۔ اسلام کی ہر تعلیم کا مقصود و فلسفہ، روحِ تقویٰ کے مرہون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر تقویٰ اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ خوفِ الٰہی کی بنیاد پر حضرت انسان کا اپنے دامن کا صغائر و کبائر گناہوں کی آلودگی سے پاک صاف رکھنے کا نام تقویٰ ہے۔اور اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کی نافرمانی کاہر کام گناہ کہلاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تقویٰ کے ثمرات اور سعادت مند زندگی کےاسباب ‘‘ عربی کےدو مختلف رسالوں کااردو ترجمہ ہے پہلا رسالہ ’’من ثمرات التقویٰ شیخ صالح العثمین کا ہے۔ اس میں انہوں نےپہلے تقویٰ کی اہمیت بیان کی تقویٰ، کےمتعلق سلف صالحین کی وصیتوں کا تذکرہ کیا اور علمائے سلف کے اقوال کی روشنی میں تقویٰ کامفہوم واضح کیا ہے۔ اس کےبعد انہوں نےزیادہ ترقرآنی آیات کی روشنی میں تقویٰ کے معاشی، معاشرتی، اخلاقی، دینی دنیا وی اوراخروی چھیالیس ثمرات ذکر کیے ہیں۔اس کتاب کا دوسرا حصہ شیخ عبدالرحمٰن ناصر السعدی کے تحریر کردہ عربی رسالہ ’’ الوسائل المفیدہ للحیاۃ السعیدۃ‘‘ کاترجمہ ہے۔ ا اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عوام الناس کی اصلاح کاذریعہ بنائے اور ہمیں تقوی ٰ اختیار کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق دے (آمین) (م۔ ا)
علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف،قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی ،بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء (بمطابق 3 ذیقعد 1294ھ) کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے۔اقبال کے آبا ؤ اجداد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔علامہ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ زمانہ طالبعلمی میں انھیں میر حسن جیسے استاد ملے جنہوں نے آپ کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ اور ان کے اوصاف خیالات کے مطابق آپ کی صحیح رہنمائی کی۔ زیر تبصرہ کتاب" اقبال سے ایک انٹرویو "محترم پروفیسر محمد رفیق چودھری صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے ایک منفرد انداز اختیار کرتے ہوئے علامہ اقبال کے سوانح حیات کو جمع فرما دیا ہے ۔کتاب کا انداز یہ ہے کہ پہلے مولف خود ایک سوال کرتے ہیں اور پھر علامہ اقبال کی شاعری میں سے اس سوال سے متعلقہ کوئی شعر لکھ کر اس کا جواب دیتے ہیں۔(راسخ)
جادو اور جنات سےمتعلق موضوع نہایت حساس ہے ۔ آج اس بنیاد پر بے شمار لوگوں نےاپنی مسندیں سجا رکھی ہیں۔ جادو کا توڑ کرنے اور جن نکالنے کے نام پر وہ سادہ عوام کا دین، عزت، مال سب کچھ لوٹ رہے ہیں۔ بڑے بڑے نیکو کار لوگ بھی اس دھندے میں پڑ چکے ہیں۔ جادو کرنا او رکالے علم کے ذریعے جنات کاتعاون حاصل کر کے لوگوں کو تکالیف پہنچانا شریعتِ اسلامیہ کی رو سےمحض کبیرہ گناہ ہی نہیں بلکہ ایسا مذموم فعل ہے جو انسان کو دائرۂ اسلام سے ہی خارح کردیتا ہے اور اسے واجب القتل بنادیتا ہے۔ جادو اور جنات سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کے علاج کےل یے کتاب وسنت کے بیان کردہ طریقوں سے ہٹ کر بے شمار لوگ شیطانی اور طلسماتی کرشموں کے ذریعے ایسے مریضوں کاعلاج کرتے نظر آتے ہیں جن کی اکثریت تو محض وہم وخیال کے زیر اثر خود کو مریض سمجھتی ہے۔ جادوکا موضوع ان اہم موضوعات میں سے ہے جن کا بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے ذریعے تعاقب کرنا علماء کے لیے ضروری ہے کیونکہ جادو عملی طور پر ہمارے معاشروں میں بھر پور انداز سے موجود ہے اور جادوگر چند روپوں کے بدلے دن رات فساد پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں جنہیں وہ کمزور ایمان والے اور ان کینہ پرور لوگوں سے وصو ل کرتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے بغض رکھتے ہیں او رانہیں جادو کے عذاب میں مبتلا دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں لہذا علماء کے لیے ضروری ہے کہ جادو کے خطرے او راس کے نقصانات کے متعلق لوگوں کوخبر دارکریں اور جادو کا شرعی طریقے سے علاج کریں تاکہ لوگ اس کے توڑ اور علاج کے لیے نام نہادجادوگروں عاملوں کی طرف رخ نہ کریں۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ جادو کا علاج قرآن وسنت کی روشنی میں‘‘ جادو وغیرہ کے علاج ومعالجہ کے موضوع پر دو بے حد مفید کتابوں کامجموعہ ہے۔ اس میں قرآنی آیات اور ماثور دعاؤں کے ذریعہ تمام خطرناک ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی امراض کا صحیح طریقۂ علاج بتلایا گیا ہے کاکہ مسلمان اپنے دین وایمان کی حفاظت کرتے ہوئے ان امراض کا علاج کرسکیں جادو گروں کے شرورو فتن سے اپنی اور اپنی اولاد کی حفاظت کا سامان کرسکیں۔ یہ کتاب اپنی افادیت کی بنا پر ہر اردو خواں گھرانے کی شدید ضرورت ہے تاکہ ان کاہر فرد اپنے عقیدہ وایمان کی حفاظت کرتے ہوئے جادو، نظر بد اوران سے پیدا شدہ امراض کا علاج قرآن کریم اور ماثور دعاؤں کے ذریعے کرسکے۔ (م۔ا)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اورانبیاء ورسل کےذریعے اپنےاحکامات ان تک پہنچائے۔اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کی پابندی کرنا عین عبادت ہے ۔ منہیات سے بچنا اور حرام سے اجتناب کرنا ایک حدیث کی رو سے عبادت ہی ہے۔ حرام کےاختیار کرنے سے عبادات ضائع ہوجاتی ہیں اورایک شخص کو مومن ومتقی بننے کے لیے حرام کردہ چیزوں سےبچنا ضروری ہوتا ہےاور اسلام نےبہت سی اشیاء کوحرام قرار دیا ہے جن کی تفصیل قرآن وحدیث کے صفحات پربکھری پڑی ہے۔ بعض علما ء نےاس پر مستقل کتب تصنیف کی ہیں ۔ زيرتبصره كتاب ’’حلال وحرام کاروبار شریعت کی نظر میں ‘‘ جامعۃ الدعو ۃ الاسلامیہ مریدکے شیخ الحدیث مفسر قرآن محترم جناب حافظ عبد السلام بن محمد ﷾ کی حلال وحرام کےموضوع پر مختصر اور جامع تحریر ہے جس میں انہوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں انسان کی بنیادی ضروریات اشیائے خوردونوش کے حصول اور ان کےاستعمال کےسلسلہ میں حلال وحرام کےاحکامات کو آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عامۃ الناس کی اصلاح کاذریعہ بنائے۔(آمین)(م۔ا)
واقعات جہاں انسان کے لیے خاصی دلچسپی کا سامان ہوتے ہیں وہیں یہ انسان کے دل پر بہت سارے پیغام اوراثرات نقش کر دیتے ہیں۔ اسی لیے قرآن مبین میں اللہ تعالیٰ نے جا بجا سابقہ اقوام کے قصص و واقعات بیان کیے ہیں تاکہ لوگ ان سے عبرت و نصیحت حاصل کریں اور اپنی زندگی میں وہ غلطیاں نہ کریں جو ان سے سرزد ہوئیں۔دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہر موڑ پر مکمل راہ نمائی کرتا ہے خوشی ہو یاغمی ہواسلام ہر ایک کی حدود وقیوم کو بیان کرتا ہے تاکہ کو ئی شخص خوشی یا تکلیف کے موقع پر بھی اسلام کی حدود سےتجاوز نہ کرے فرمان نبوی ہے ’’ مومن کامعاملہ بھی عجیب ہے اس کا ہر معاملہ اس کے لیے باعث خیر ہےاور یہ چیز مومن کے لیے خاص ہے ۔ اگر اسے کوئی نعمت میسر آتی ہے تووہ شکرکرتا ہے اور یہ اس کےلیے بہترہے اور اگراسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کےلیے بہتر ہے۔‘‘ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام وتابعین کی سیرت وسوانح میں ہمیں جابجا پاکیزہ مزاح او رہنسی خوشی کے واقعات او رنصیت آموز آثار وقصص ملتے ہیں کہ جن میں ہمارے لیے مکمل راہ نمائی موجود ہے ۔ لہذا اہمیں چاہیے کہ خوش طبعی اور پند نصیحت کےلیے جھوٹے ،من گھڑت اور افسانوی واقعات ولطائف کےبجائے ان مقدس شخصیات کی سیرت اور حالات کا مطالعہ کریں تاکہ ان کی روشنی میں ہم اپنے اخلاق وکردار اور ذہن وفکر کی اصلاح کرسکیں۔ زیر نظر کتاب ’’حرارت ایمان یعنی ایمان کو کو گرما دینے واقعات‘‘ مولانا ابو یاسر﷾ کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے مکمل حوالہ جات کےساتھ واقعات پیش کیے ہیں تاکہ اپنی تسلی اور حوالہ دریافت کرنے والوں کومطمئن کیا جاسکے اور خطباء حضرات اپنے خطبات ودروس میں ان کوصحیح واقعات کو بیان کرسکیں۔فاضل مصنف نےاس کتاب کا ابتدائی عنوان اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق قائم کیا ہے او روہ صحیح بخاری کےمنتخب واقعات سے لیا گیا ہے۔ تاکہ ابتداء میں قاری اللہ تعالیٰ کے جاہ وجلال کا نقش ذہن میں رکھے ۔(م۔ا)
جادو اور جنات سےمتعلق موضوع نہایت حساس ہے۔ آج اس بنیاد پر بے شمار لوگوں نےاپنی مسندیں سجا رکھی ہیں۔ جادو کا توڑ کرنے اور جن نکالنے کے نام پر وہ سادہ عوام کا دین، عزت، مال سب کچھ لوٹ رہے ہیں ۔ بڑے بڑے نیکوکار لوگ بھی اس دھندے میں پڑ چکے ہیں۔جادو کرنا او رکالے علم کے ذریعے جنات کاتعاون حاصل کر کے لوگوں کو تکالیف پہنچانا شریعتِ اسلامیہ کی رو سے محض کبیرہ گناہ ہی نہیں بلکہ ایسا مذموم فعل ہےجو انسان کو دائرۂ اسلام سے ہی خارح کردیتا ہے اور اسے واجب القتل بنادیتا ہے ۔جادو اور جنات سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کے علاج کےلیے کتاب وسنت کے بیان کردہ طریقوں سے ہٹ کر بے شمار لوگ شیطانی اور طلسماتی کرشموں کے ذریعے ایسے مریضوں کاعلاج کرتے نظر آتے ہیں جن کی اکثریت تو محض وہم وخیال کے زیر اثر خود کو مریض سمجھتی ہے۔ جادوکا موضوع ان اہم موضوعات میں سے ہے جن کا بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے ذریعے تعاقب کرنا علماء کے لیے ضروری ہے کیونکہ جادو عملی طور پر ہمارے معاشروں میں بھر پور انداز سے موجود ہے اور جادوگر چند روپوں کے بدلے دن رات فساد پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں جنہیں وہ کمزور ایمان والے اور ان کینہ پرور لوگوں سے وصو ل کرتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے بغض رکھتے ہیں او رانہیں جادو کے عذاب میں مبتلا دیکھ کر خوشی محسوس کرتےہیں لہذا علماء کے لیے ضروری ہے کہ جادو کے خطرے او راس کے نقصانات کے متعلق لوگوں کوخبر دارکریں اور جادو کا شرعی طریقے سے علاج کریں تاکہ لوگ اس کے توڑ اور علاج کے لیے نام نہاد جادوگروں عاملوں کی طرف رخ نہ کریں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’جادو ٹونے، مرگی اور نظر بد کاعلاج ‘‘ عالم عرب کےممتاز علماء ڈاکٹر عبد اللہ بن محمد بن احمد الطیار﷾ اورالشیخ سامی بن سلمان المبارک﷾ کی مرتب شدہ کتاب ’’ فتح الحق المبين في الصرع و السحر والعين‘‘ کا اردو ترجمہ واختصار ہے۔ یہ کتاب شیخین نے شیخ ابن باز کے ایما اوران کی نگرانی میں مرتب کی ہے۔ جوکہ اپنے موضوع پر نہایت جامع کتاب ہے جس میں موضو ع سے متعلق تمام امور کا شریعت کی روشنی میں احاطہ کیا گیا ہے۔اس کتاب پر مفسر قرآن حافظ عبدالسلام بن محمد ﷾ کی نظرثانی سے اس کی ثقاہت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتا ب کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے اور مصنفین ،مترجم وناشرین کی مساعی حسنہ کو قبول فرمائے۔ (آمین) (م۔ا)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے ،جس میں زندگی کے ہر ہر گوشے سے متعلق راہنمائی موجود ہے۔اس کی ایک اپنی ثقافت ،اپنی تہذیب اور اپنا کلچر ہے ،جو اسے دیگر مذاہب سے نمایاں اور ممتاز کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص اسلام لاتا ہے تواس میں متعدد تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔اس کی دوستی اور دشمنی کے معیارات بدل جاتے ہیں۔وہ دنیوی مفادات اور لالچ سے بالا تر ہو کر صرف اللہ کی رضا کے لئے دوستی رکھتا ہے اور اللہ کی رضا کے لئے ہی دشمنی کرتا ہے۔جس کے نتیجے میں کل تک جو اس کے دوست ہوتے ہیں ،وہ دشمن قرار پاتے ہیں اور جو دشمن ہوتے ہیں وہ دوست بن جاتے ہیں اور اس کی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔اسلام کی اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنےرہنے سہنے کے طور طریقے اور اپنے تہوار ہیں ،جو دیگر مذاہب سے یکسر مختلف ہیں۔تہوار یاجشن کسی بھی قوم کی پہچان ہوتے ہیں،اور ان کے مخصوص افعال کسی قوم کو دوسری اقوام سے جدا کرتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب " ففروا الی اللہ "محترم ابو حفص سندھو، حمید پور گوجرانوالہ خطیب جامع مسجد توحید اھلحدیث طارق آباد کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے اسلام کے انہی محاسن اور امتیازات کو بکھرے ہوئے غیر مرتب انداز میں جمع فرما دیا ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)