صادق پور انڈیا پٹنہ کاایک معروف قصبہ ہے اس قبصے کے علماء ومجاہدین کی سید ین شہیدین کی تحریک جہاد کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ مولانا ولایت علی ، مولانا عنایت علی ، مولانا عبد اللہ ، مولانا عبد الکریم وغیرہم جماعت مجاہدین کے امیر بنے۔انگریز دشمنی میں یہ خاندان خصوصی شہرت رکھتا تھا۔ سیّد احمد شہید کے شہادت کے بعد اسی خاندان کے معزز اراکین نے تحریک جہاد کی باگ دوڑ سنبھالی۔ اندرونِ ہند بھی اسی خاندان کے دیگر اراکین نے تحریک کی قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ مولانا یحیٰ علی ، مولانا احمد اللہ ، مولانا عبد الرحیم عظیم آبادی کو اسی پاداش میں کالا پانی کی سزا ہوئی۔ انگریزوں نے ان پر سازش کے مقدمات قائم کیے۔معروف مقدمہ انبالہ بھی مجاہدین کے ساتھ تعاون کرنے پر مولانا عبد الرحیم عظیم آبادی کے خلاف کیا گیا۔ جائیدادوں کی ضبطی ہوئی۔ حتیٰ کہ خاندانی قبرستان تک کو مسمار کر دیا گیا۔ ان کی مجاہدانہ ترکتازیوں کا اعتراف ہر طبقہ فکر نے کیا۔مولانا عبدالرحیم عظیم آبادی مسلک اہل حدیث کے عظیم سرخیل قائد جید عالم دین اور عظیم مجاہد تھے۔آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہےآپ نےہندوستان کی تحریک آزادی میں نمایاں خدمات سرانجام دیں ۔آپ نےہندوستان کی سرزمین سےبرطانوی سامران کو نکالنے کےلیےگراں قدر خدمات سرانجام دیں۔آپ مجاہدین ہندوستان کے قائد رہے اور جماعت المجاہدین کےاعلیٰ عہدوں پر بھی سرفراز رہے ۔ان کے مجاہدانہ کارناموں کے جرم میں گورنمنٹ برطانیہ نے انہیں جزائرانڈیمان (کالاپانی ) کی سزا سنائی۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ الدر المنثور فی تراجم اہل صادق فور المعروف تذکرۂ اہل صادق پور ‘‘صادق پور پٹنہ کےعلماء ومجاہدین کے تذکروں پر مشتمل مولانا عبدالرحیم زبیر الہاشمی عظیم آبادی کی عظیم کتاب ہے۔ آپ نےاس کتاب میں علماء صادق پور کے متعلق قلم اٹھاکر ایک گراں قدر کام سرانجا م دیا ہے ۔ علماء صادق پور نے اشاعت دین کےلیے جو قربانیاں دیں آپ نے وہ تمام کی تمام اس کتاب میں رقم کردی ہیں۔اس کتاب میں آپ نے بتایا ہے کہ علماء صادق پور نے مسلک اہل حدیث کی ترویج واشاعت کے لیے انتہائی سادہ اورموثر طریقہ کا ر کواپنا کر دین کی تبلیغ کی ہے۔اس کتاب میں مصنف نے علماء اہل حدیث اور علماء احناف کے درمیان ہونے والے چند مناظروں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔اس کتاب پر مولانا ابو الکلام آزاد کی تقریظ سے کتاب کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ 1924ءمیں ہوئی۔(م۔ا)
کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺدینِ اسلامی کے بنیادی مآخذ ہیں۔ احادیث رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اہل علم نے خدمات انجام دیں۔ تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی سے ہوا صحابہ وتابعین کے دور میں پروان چڑھا او ر ائمہ محدثین کے دور میں خوب پھلا پھولا۔ مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے او رپھر بعدمیں اہل علم نے ان مجموعات کے اختصار اور شروح ،تحقیق وتخریج او رحواشی کا کام کیا۔ او ربعض محدثین نے احوال ظروف کے مطابق مختلف عناوین کےتحت احادیث کوجمع کیا۔ انہی عناوین میں سے ایک موضوع ’’احادیثِ احکام‘‘ کوجمع کرنا ہے۔ اس سلسلے میں امام عبد الحق اشبیلی کی کتاب ’’احکام الکبریٰ‘‘امام عبد الغنی المقدسی کی ’’عمدۃ الاحکام ‘‘علامہ ابن دقیق العید کی ’’الالمام فی احادیث الاحکام ‘‘او رحافظ ابن احجر عسقلانی کی ’’بلوغ المرام من الاحادیث الاحکام ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ آخر الذکر کتاب مختصر اور ایک جامع مجموعۂ احادیث ہے۔ جس میں طہارت، نماز، روزہ، حج، زکاۃ، خرید و فروخت، جہاد و قتال غرض تمام ضروری احکام و مسائل پر احادیث کو فقہی انداز پر جمع کر دیا گیا ہے۔ مسائل واحکام کا یہ نہایت اہم او ر گرانقدر مجموعہ علماء او رطلباء کےلیے یکساں مفید ہے۔ اپنی اہمیت وافادیت اور جامعیت کے پیش نظر یہ کتاب دنیا بھر کے مدارسِ اسلامیہ میں داخل نصاب ہے۔ اور کئی اہل علم نے اس کی شروحات لکھیں اور ترجمے بھی کیے ہیں۔ شروحات میں بدر التمام،سبل السلام، فتح العلام وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اردو زبان میں علامہ عبد التواب ملتانی ،مولانا محمد سلیمان کیلانی کا ترجمہ وحاشیہ بھی اہل علم کے ہاں متعارف ہیں اور اسی طرح ماضی قریب کے معروف سیرت نگار اور نامور عالم دین مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے بھی نے اس کی عربی میں ا’تحاف الکرام ‘‘کے نام سے مختصر شرح لکھی اور پھر خود اس کا ترجمہ بھی کیا۔ دارالسلام نےاسے طباعت کےعمدہ معیار پر شائع کیا ہے اور اسے بڑا قبول عام حاصل ہے۔ اور شیخ الحدیث حافظ عبدالسلام بھٹوی ﷾ کی کتاب الجامع کی شرح بھی بڑی اہم ہے یہ تینوں کتب کتاب وسنت ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تنویر الافہام فی حل عربیۃ بلوغ المرام ‘‘ محترم مولانا جاوید اقبال سیالکوٹی ﷾ کی کاوش ہے۔ انہوں نےاس میں بلوغ المرام کی تراکیب کو حل کیا ہے۔ جس سے بلوغ المرام پڑہنے والے طلباء کے لیے آسانی ہوگئی ہے۔ تنویر الافہام محض بلوغ المرام کی چند احادیث کی ترکیب ہی نہیں بلکہ یہ عربی قواعد وانشا کا ایک مجموعہ بھی ہے تحریر وتفہیم کا انداز بالکل سہل ہے جسے گرائمر سے معمولی دلچسپی رکھنے والا بھی آسانی کے ساتھ سمجھ لیتا ہے اور پھر ترکیب کےان اصول وقواعد کو یاد کرلینے اور سمجھ لینے اوران کے استعمال میں مہارت حاصل ہوجانے کے بعد طالب علم عربی زبان میں لکھی ہوئی کسی بھی کتاب کو پڑھنے کی اپنے اندر استعداد پائے گا اور بآسانی اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس کاوش کو طالبان علوم نبوت کے لیے نافع بنائے اور مصنف کے لیے اسے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین(م۔ا)
حقوق العباد میں سے سب سے مقدم حق والدین کا ہے ۔ اور یہ اتنا اہم حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق ِعبادت کے بعد جس حق ذکر کیا ہے وہ والدین کا حق ہے ۔والدین کا حق یہ کہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے ان کا مکمل ادب واحترم کیا جائے ،نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ان کی اطاعت وفرنبرداری کی جائے اور ہمیشہ ان کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے ۔ قرآن وحدیث سے یہ بات بہت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ والدین سے حسنِ سلوک سے رزق میں فراوانی اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے ۔ جب کہ والدین کی نافرمانی کرنے والا او ران کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہ آنے والا اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے اور بالآخر جہنم کا ایندھن بن جاتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت کے ساتھ ،والدین سے حسن سلوک نہ کرنے والے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور یہ ناراضگی اس کی دنیا اور آخرت دونوں برباد کردیتی ہے ۔ اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم والدین کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھیں ۔اس معاملے میں قرآن وسنت سے ہمیں جو رہنمائی ملتی ہے اس کی روشنی میں اپنے رویوں کودرست اور کردار کی تعمیر کریں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ عظمت والدین اور خدمت والدین‘‘ امام المحدثین امام محمد بن اسماعیل بخاری کی کتاب’’ بر الر والدین ‘‘ کی تحقیق و تخریج اور ترجمہ وشرح ہے ۔اس کتا ب کا ترجمہ حافظ ابو سفیان نے کیا ہے اور محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے اس کی عمدہ اورجامع شرح کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔ کتاب میں متون و اسانید کی تصحیح اور احادیث وروایات کی تخریج وتحقیق، عربی عبارات پر اعراب سے کتاب کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔ اور ہمیں اپنے والدین کی عزت واحترم کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے والابنائے (آمین) (م۔ا)
امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی کی شخصیت برصغیر پاک و ہند میں کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ 28 مارچ 1876ء بمطابق 12 محرم الحرام 1289ھ کو ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں چیلانوالی کے ایک سکھ خاندان میں پیدا ہوئے۔1884ء میں آپ نے اپنے ایک ہم جماعت سے مولانا عبیداللہ پائلی کی کتاب “تحفۃ الہند“ لے کر پڑھی۔ اس کے بعد شاہ اسماعیل شہید کی کتاب “تقویۃ الایمان“ پڑھی اور یوں اسلام سے رغبت پیدا ہوگئی۔ 15 برس کی عمر میں 19 اگست 1887ء کو مشرف با اسلام ہوئے۔اردو مڈل تک کی تعلیم آپ نے جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی۔ پھر قبول اسلام کے بعد 1888ء میں دیوبند گئے اور وہاں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور تفسیر و حدیث، فقہ و منطق و فلسفہ کی تکمیل کی۔1901ء میں گوٹھ پیر جھنڈو میں دالارشاد قائم کیا۔1909ء میں اسیر مالٹا محمود الحسن کے حکم کی تعمیل میں دارالعلوم دیوبند گئے اور وہاں طلباء کی تنظیم “جمیعت الانصار“ کے سلسلے میں اہم خدمات انجام دیں۔1912ء میں دلی نظارۃ المعارف کے نام سے ایک مدرسہ جاری کیا جس نے اسلامی تعلیمات کی اشاعت میں بڑا کام کیا ہے۔ترکی میں 1924ء میں اپنی ذمہ داری پر تحریک ولی اللہ کے تیسرے دور کا آغاز کیا۔ اس موقع پر آپ نے آزادئ ہند کا منشور استنبول سے شائع کیا۔ترکی سے حجاز پہنچے اور 1939ء تک مکہ معظمہ میں رہے۔ اسی عرصہ میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق اور دینی مسائل کو تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ عوام تک پہنچایا۔ساری زندگی قائد حریت کی حیثیت سے اسلامی اور سیاسی خدمات انجام دیتے رہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تفسیرالمقام محمود ‘‘ قرآن مجید کےآخرے پارہ عم کی تفسیر ہے مفسرمولانا عبید اللہ سندھی ہیں۔یہ تفسیر بڑے بڑے علمی مباحث اور نکات ورموز سے پُر ہے۔ اس میں جدید فلسفہ اور سائنس کےاصول، سیاسیات او ر تمدن وارتقاء ملل کی تعلیمات وغیرہ سبھی کی اثر اندازی موجود ہے۔اس تفسیر میں یہ خصوصیت ہے کہ طبعیات اور جدید سائنس اور علوم کو بھی قرآنی مسائل کے سمجھنے کا ذریعہ بتایا گیا ہے اور ساتھی ہی ساتھ قرآنی نقظۂ نظر سے ان کی اصلیت کا اندازہ لگانے کی راستے بھی دکھائے گئے ہیں۔عصر حاضر میں جو مختلف حالات اور رجحانات پیدا ہورہے ہیں ان سب میں قرآن پاک ہی سے ہدایت حاصل کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس تفسیر میں بعض جگہ بہت بڑے بڑے مضامین،اعلیٰ افکار اور دقیق مسائل بھی زیر بحث آئے ہیں۔(م۔)
ارشاد ربانی کےمطابق دین اسلام ایک ایسا دین ہے کہ جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرتا ہے تو اس سے ہر گزقبول نہیں کیا جائے گا۔ او روہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔اور نبی کریمﷺ کا فرمان ہے ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں جو شخص بھی میری بابت سن لے کہ وہ یہودی ہویا عیسائی پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘ اس اعتبار سے امت مسلمہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلا م کا پیغام ہر جگہ پہنچائیں اور کراہتی سسکتی انسانیت کو امن وسکون اور نجات سے ہمکنار کریں جیسے پیغمبر اسلام سید نا حضرت محمدﷺً اوران کے اولین پیروکاروں نے دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ کر کے عدل وانصاف کا نظام قائم کیا، کفر وشرک کی تاریکیوں کو مٹاکر توحید و سنت کی شمعیں روشن کیں اور اخلاقی زوال کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر انسانیت کوسیرت و کردار کی بلندیوں سے آشنا کیا۔ ٖآج انسانیت پھر سے ظلم وستم کا شکار ہے وہ دوبارہ کفر وشرک کی تاریکیوں میں گھری ہوئی اور اخلاقی پستی میں پھنسی ہوئی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ،لیکن افسوس کہ آج تک کسی بھی حکومت نے پاکستان میں اسلام نافذ کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔جبکہ قیام پاکستان کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا کہ ہندوستان کے مسلمان ایک طرف تو ہندی تہذیب اور ہندی صنم پرستی سے بچ کر اپنی اسلامی تہذیب کو اپنائیں گے اور ایک اللہ کی عبادت کریں گے وہاں دوسری طرف پاکستان میں مکمل طور پر شریعت کو نافذ کر کے اور ہر شعبۂ زندگی میں اسلامی تعلیمات کی ترویج کر کےپاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ اوراس کے حسن وجمال کی جلوہ گاہ بنائیں گے۔ تاکہ دنیا کے سامنے صحیح فکر وعمل ا ور امن و سکون سے آشنا زندگی کا ایک بہترین نمونہ آسکے جسے دنیائے انسانیت اپنانے ا ور اختیار کرنے کی لیے لپکے اور اس کی طرف پلٹے۔ تحریک پاکستان کےلیڈروں نے بھی قوم سے یہی وعدہ کیاتھا اور بابار اسی کا اعادہ کیاتھا ،بانی پاکستان نےبھی یہ کہاتھا جسے وہ قیام پاکستان کے بعد بھی دہراتے رہے۔ اللہ تعالیٰ اوراس کی مخلوق سے کئے ہوئے اس عہد کا تقاضا ہےکہ پاکستان میں اسلام کی علم برداری قائم ہو اور اسلامی شریعت کا سکہ یہاں چلےجس طرح پاکستان کا قیام اس وعدے کا مرہون منت ہے اس کااستحکام وبقاء بھی اس عہد کی تکمیل اور اس وعدے کے ایفاء میں مضمر ہے لیکن وطن عزیز پاکستان کو ’’لاالہ ...‘‘ کی بنیاد پر قائم ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے جس میں اسلام کو نافذ کرنے کے وعدہ کوپوراکرنے کی سنجیدہ کوشش ابھی تک نہیں کی گئی۔ زیر نظر کتاب ’’پاکستان میں نفاذ شریعت اہمیت، ضرورت اور طریق کار ‘‘ مولانا قدرت اللہ فوق کی کاوش ہے۔ انہوں نے اپنی قیمتی تدریسی اوقات میں مصروف ومشغول رہنے کے باوجود بڑی محنت سے پاکستان میں نفاذ شریعت، اہمیت وضرورت اور طریق کار کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اس وطن عزیز میں نفاذ اسلام کی راہ میں کونسی چیزیں حائل ہیں اورانہیں کیسے دور کیا جاسکتا ہے اور اس حقیقی ہدف ومقصد کو کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا حکمران عطا فرمائے جو قیام پاکستان کے مقصد کو پورا کرے۔ (آمین) (م۔ا)
دعا عبادت کا مغز ہے یا عین عبادت ہے۔ دعا کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے اور اللہ تعالی سے اس کی مدد مانگی جا سکتی ہے۔لیکن فرض نمازوں کے بعد دعا مانگنے کے حوالے سے اہل علم کے درمیان دو رائے چلی آ رہی ہیں اور دونوں ہی غلو،مبالغے اور تشدد پر مبنی ہیں۔کچھ لوگ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کو بدعت قرار دیتے ہیں تو کچھ لوگ فرض نماز کے بعد دعا مانگنے کو ضروری اور فرض قرار دیتے ہیں۔یہ دونوں موقف ہی غلو اور تشدد پر مبنی ہیں۔دعا کرنا بھی اللہ تعالی کی عبادت کرنا ہے۔جس پر کوئی بھی کسی قسم کی پابندی لگانا جائز نہیں ہے۔جس وقت کوئی چاہے، جب چاہے،جس طرح چاہے دعا کرے۔انفرادی دعا یا اجتماعی دعا اس پر کوئی مثبت یا منفی پابندی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" نماز کے بعد اجتماعی دعا کی شرعی حیثیت "محترم ڈاکٹر رانا محمد اسحاق صاحب کی تصنیف ہے، جس کی تحقیق وتخریج محترم مولانا خالد مدنی صاحب نے فرمائی ہے۔مولف موصوف نے اس کتاب میں دعا کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ بارگاہ الہی میں دعا ہے کہ وہ مولف کی اس جدوجہد کو قبول فرماتے ہوئے ان کے میزان حسنات میں اضافے کا باعث بنائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ کاکلام اور نبی کریم ﷺکی احادیث مبارکہ عربی زبان میں ہیں اسی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں سے عربی کا رشتہ مضبوط ومستحکم ہے عربی اسلام کی سرکاری زبان ہے ۔شریعتِ اسلامی کے بنیادی مآخد اسی زبان میں ہیں لہذا قرآن وسنت اور شریعت اسلامیہ پر عبور حاصل کرنےکا واحد ذریعہ عربی زبان ہے اس لحاظ سے عربی سیکھنا اور سکھانا امت مسلمہ کا اولین فریضہ ہے ۔فن صرف علم نحو ہی کی ایک شاخ ہے شروع میں اس کے مسائل نحو کے تحت ہی بیان کیےجاتے تھے معاذ بن مسلم ہرّاء یاابو عثمان بکر بن محمدمزنی نے علم صرف کو علم النحو سے الگ کرکے مستقل فن کی حیثیت سے مرتب ومدون کیا۔صرف ونحوکی کتابوں کی تدوین وتصنیف میں علماء عرب کےساتھ ساتھ عجمی علماء بھی پیش پیش رہے ۔جب یہ تسلیم کرلیا گیا کہ تعلیم وتدریس میں علم وفن کاپہلا تعارف طالب علم کی مادری زبان میں ہی ہوناچاہیے تو مختلف علاقوں کے اہل علم نے اپنی اپنی مقامی زبان میں اس فن پر کئی کتب تصنیف کیں ۔تاریخ اسلام کا یہ باب کس قد ر عظیم ہے کہ عربی زبان کی صحیح تدوین وترویج کا اعزاز عجمی علماء اور بالخصوص کبار علمائے ہندکے حصے میں آیا ہندوستان اور مغل حکمرانوں کی سرکاری زبان فارسی ہونےکی وجہ سے ہندی علماء نے صرف ونحو کی کتب فارسی زبان میں ہی تصنیف کیں پھر رفتہ رفتہ برصغیر کے باشندوں کے لیے فارسی زبان بھی اجنبی ہونے لگی توبرصغیر کے فضلا ءنےاردو میں نحووصرف کے موضوع پرکتاب النحو، کتاب الصرف،عربی کا معلم کے علاوہ متعدد کتب لکھیں ان علماء کرام کااردو زبان میں صر ف ونحو پر کتابیں لکھنےکا مقصد عربی وزبان وادب کی تفہیم وتسہیل اور اشاعت وترویج ہی تھا کیوں کہ اگر ابتدائی طور پرکوئی مضمون مادری زبان میں ذہن نشین ہوجائے تو پھر اس زبان میں تفصیل واضافہ کو بخوبی پڑھا اورسمجھا جاسکتاہے ۔
زیر تبصرہ کتاب’’انوار الصرف شرح ارشاد الصرف‘‘ محترم جناب مولانا محمد عدنان کلیانوی صاحب (مدرس جامعہ انوار القرآن،کراچی ) کی کاوش ہے موصوف نے ارشاد الصرف کو ایک مخصوص اسلوب میں عام فہم طرز پر ترتیب دےکر طلباء میں متعارف کرایا۔تو بعض احباب کے اصرار پرانہوں نےاپنے تدریسی افادات کو ’’انوار الصرف شرح ارشاد الصرف‘‘ کے نام سے افادۂ عام کےلیے تیار کیا ہے ۔فاضل مصنف نے اس شرح میں باب ضرب یضرب کی مکمل گردانیں وترجمہ ، ارشاد الصرف کے تمام ابواب کی صرف صغیر، قوانین کے جامع ومانع عبارات میں خلاصے اور مشکل مقامات کاحل بذریعہ مقدمات ، تمہیدات اور فوائد کی صورت میں پیش کیا ہے ۔(م۔ا)
امانت داری ایک اعلی اخلاق ہے ۔ دین کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔ یہ ایک نادر اور بیش بہا صفت ہے۔ انسانی معاشرہ کے لیے جزء لا ینفک ہے۔ اس صفت میں حاکم و محکوم کے ما بین کوئی فرق نہیں ہے‘ تاجر وکاریگر ‘مزدور وکاشت کار ‘ امیر و فقیر ‘ بڑا اور نہ چھوٹا اور نہ ہی شاگرد و استاذ بلکہ ہر ایک کے لیے باعث شرف ومنزلت ہے۔انسان کا اصل سرمایاہے۔اور اس کے کامیابی وکامرانی کا ضامن ہے۔اور ترقی وارتقاء کی چابی ہے۔ہر ایک کے لیے باعث سعادت ہے۔امانت کا معنی بہت وسیع وعریض ہے اور جو لوگ امانت کے معنی کو صرف اس معنی میں محصور کردیتے ہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے پاس کوئی چیز(سونا‘چاندی‘ روپیے پیسے وغیرہ ) ایک معین مدت تک جمع رکھے۔تو اس جمع شدہ چیز کو صاحب مال تک واپس کر دینا ہی امانت داری ہے تو ایک بہت بڑی کج فہمی ہے لیکن حقیقت یہ کہ امانت داری بہت وسیع معنی پر دلالت کرتاہے۔ زیر تبصرہ کتاب"" محترم مولانا ابو اسعد محمد صدیق صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے امانت کے اسی وسیع مفہوم کو بیان کرتے ہوئے امانت کی مختلف اقسام کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
شیخ الاسلام و المسلمین امام ابن تیمیہ(661۔728ھ) کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے، آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی، آپ نے جس طر ح اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا۔ او رباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعد رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب و تاب سے موجود ہیں۔ آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت، کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت کی تردید وتوضیح میں بسرکی۔ امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔ آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر و قیمت کا صحیح تعین کیا۔ آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔ آپ کا فتاوی 37 ضخیم جلد وں میں مشتمل ہے۔ امام ابن تیمیہ کی حیات و خدمات کےحوالے سے عربی زبان میں کئی کتب اور یونیورسٹیوں میں ایم فل، پی ایچ ڈی کے مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں۔ اردو زبان میں امام صاحب کے حوالے سے کئی کتب اور رسائل و جرائد میں سیکڑوں مضامین و مقالات شائع ہوچکے ہیں۔ چند کتب قابل ذکر ہیں۔ ابو زہرہ کی کتاب جس کاعربی سے اردو میں ترجمہ رئیس احمد جعفری ندوی نے کیاہے حضرت امام پر تحقیق کا حق ادا رکردیا۔ مولانا ابو الحسن ندوی نے اپنی مشہور تصنیف ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ کی جلد دوم امام ابن تیمیہ کے لیے وقف کردی اورڈاکٹر غلام جیلانی برق نے ان پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ زیر تبصرہ کتاب ’’امام ابن تیمیہ‘‘ علامہ محمد یوسف کوکن عمری کی تصنیف ہے جسے انہوں نے 1937ء میں علامہ سید سلیمان ندوی کی خواہش پر لکھنا شروع کیا لیکن جلداس کام کو مکمل نہ کرسکے بالآخر 1960ء میں اس کو مکمل کرکے شائع کیا۔ موصوف نے اس کتاب کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ کی زندگی کے اہم واقعات کے ساتھ ساتھ ان کے اہم اختلافی مسائل کاپس منظر بھی اچھی طرح قارئین کی سمجھ میں آجائے۔ اس کتاب میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ک حالات او ران کے کارناموں کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ یہ کتاب اس موضوع پر لکھی جانے والی دیگرکتب میں نمایاں او رممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ موجودہ ایڈیشن اس کتاب کا جدید ایڈیشن ہے جسے نعمان پبلی کیشنز، لاہور نے تخریج کےساتھ 2014ء میں شائع کیا ہے تخریج کا کام کرنے کی ذمہ داری جناب ابو احمد عمردراز خان نے انجام ہے۔ (م۔ا)
فتنہ انکار حدیث تاریخ اسلام میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے پیدا کیا۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں سنت رسول ﷺ حائل تھی۔ لہذا نہوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کا مسئلہ یہ تھا کہ یونانی فلسفے نے اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے جو شکوک و شبہات عقل انسانی میں پیدا کر دیے تھے، وہ انہیں سمجھنے سے پہلے ہی حل کر دینا چاہتے تھے لہذا انہوں نے فلسفہ کے نام سے منقول ہر بات کو عقل کا لازمی تقاضا سمجھا اور اسلامی عقائد اور اصول و احکام کی ایسی تعبیر کرنا شروع کر دی جو ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو۔ اس راہ میں پھر حدیث و سنت حائل ہوئی تو انہوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھہرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ فتنہ درمیان میں کئی صدیوں تک اپنی شمشان بھومی میں پڑا رہا یہاں تک کہ تیرہویں صدی ہجری میں وہ دوبارہ زندہ ہوا۔ پہلے یہ مصر و عراق میں پیدا ہوا اور اس نے دوسرا جنم برصغیر پاک و ہند میں لیا۔ برصغیر میں اس کی ابتدا کرنے والے سرسید احمد خان اور مولوی چراغ علی تھے۔ ان کے بعد مولوی عبد اللہ چکڑالوی اس کے علمبردار بنے۔ ان کے بعد مولوی احمد دین امرتسری نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور پھر اسلم جیرجپوری اسے آگے لے کر بڑھے۔ اور آخر کار اس فتنہ انکار حدیث و سنت کی ریاست و چودہراہٹ غلام احمد پرویز صاحب کے حصے میں آئی اور انہوں نے اس فتنے کو ضلالت کی انتہا تک پہنچا دیا۔ اس فکر کے حاملین اسلام کو موم کا ایک ایسا گولہ بنانا چاہتے ہیں جسے بدلتی دنیا کے ہر نئے فلسفے کے مطابق روزانہ ایک نئی صورت دی جا سکے۔ زیر تبصرہ کتاب" قول فیصل"محترم مولانا محمد طیب مدنی صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے منکرین حدیث مدھو پور کے انکار حدیث پر مبنی کتابچے" ایمان وعمل ومخزن علم وبصیرت" کا مسکت جواب دیا ہے اورمستند دلائل کے ذریعے حجیت حدیث پر استدلال کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام او راس کی آخری کتاب ہدایت ہے ۔اس عظیم الشان کتاب نے تاریخ انسانی کا رخ موڑ دیا ہے۔ یہ واحد آسمانی کتاب ہے جو قریبا ڈیڑھ ہزار سال سے اب تک اپنی اصل زبان میں محفوظ ہے۔ اس پر ایمان لانامسلمان ہونے کی ایک ضروری شرط اوراس کا انکار کفر کے مترادف ہے اس کی تلاوت باعث برکت وثواب ہے، اس کا فہم رشد وہدایت اوراس کے مطابق عمل فلاح و کامرانی کی ضمانت ہے۔ کتاب اللہ کی اسی اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے ہر مسلمان اسے زیادہ سے زیادہ سمجھنے کی کوشش کرے ۔ اگر چہ آج الحمد للہ اردو میں قرآن مجید کے بہت سے تراجم وتفاسیر ہیں، تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کو قرآن کی زبان میں سمجھنے کا جو مقام ومرتبہ ہے وہ محض ترجموں سے حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔ عربی زبان اور قرآن مجید کی تعلیم وتفہیم کےلیے مختلف اہل علم نے تعلیم وتدریس اور تصنیف وتالیف کے ذریعے کوششیں کی ہیں۔ جن سے متفید ہوکر قرآن مجیدمیں موجود احکام الٰہی کو سمجھا جاسکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اعراب القرآن وتفسیر (تیسواں پارہ سوالنامہ )‘‘ محترم عثمان علی، حافظ ابو بکر عثمان ، حافظ احسان اللہ نے شیخ الحدیث حافظ محمد شریف﷾ اور جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد کے مایہ ناز مدرس مولانانجیب اللہ طارق﷾ کی زیرنگرانی اہم تفاسیر کوسامنے رکھ کر صرف سوالنامہ مرتب کیا ہے جس میں جدید شکوک وشبہات کا ازالہ ،قرآن کریم کی صرفی ونحوی ابحاث، لغوی، سبب نزول، تظم بین السور، سورت کاموضوع و مضمون نظم بین الآیات، مختلف فیہ مسائل میں تطبیق، اعراب، وجہ اعراب، محل اعراب و اصطلاحی مطالب کے علاوہ اہم تفسیری نکات کوبھی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ استاد العلماء حافظ عبد العزیز علوی﷾ (شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد) کی نظر ثانی سے اس کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ کتاب طالبان ِعلوم نبوت کے لیے ایک گراں قدر علمی تحفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی تیاری میں شامل ہونے والے تمام اہل علم کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور انہیں اس نہج پر قرآن مجید کےباقی پاروں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) یہ 94 صفحات پر مشتمل صرف سوالنامہ ہے ان سوالات کے جوابات بھی الگ سے شائع کردئیے گئے ہیں۔ جو تین صد سے زائدصفحات پر مشتمل ہے اور وہ بھی کتاب وسنت سائٹ پر موجود ہے۔ (م۔ا)
برصغیر پاک وہند میں علم حدیث کا آغاز پہلی صدی ہجری سے ہوا اور دوسری صدی ہجری میں حضرت ربیع بن صبیح بصری(م160ھ) برصغیر میں وارد ہوئے اور اس کے بعد ہرصدی میں کوئی نہ کوئی محدث برصغیر میں تشریف لاتے رہے ۔برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیاعلمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
زیر تبصرہ کتا ب’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث ‘‘ وطن عزیز کے معروف قلمکاروسوانح نگار مولانا عبد الرشید عراقی کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے برصغیر پاک وہند کے علمائے اہل حدیث کی حدیثی خدمات کاتذکرہ کیا ہے ۔نیز علماء اہل حدیث نے خدمت حدیث کے سلسلے میں جو کتابیں تصنیف کیں کی ان کا اس کتاب میں ذکر کیا ہے بقول مصنف اس کتاب میں 436 کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔اور اس کے علاوہ چند مشہور علمائے کرام کے مختصر حالات بھی قلم بند کیے ہیں۔ علاوہ ازیں عراقی صاحب نےان کتابوں کا بھی ذکر کیا ہے جو حدیث کی حمایت وتائید اورنصرت ومدافعت میں لکھی گئی ہیں۔اللہ تعالیٰ عراقی صاحب کی تمام تصنیفی خدمات کو قبول فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)
آج سے چودہ صدیاں قبل جب لوگ ظلمت وکفر اور شرک میں پھنسے ہوئے تھے۔بیت اللہ میں تین سوساٹھ بتوں کو پوجا جاتا تھا۔ قتل وغارت ، عصمت فروشی، شراب نوشی، قماربازی اور چاروں طرف بدامنی کا دوردورہ تھا۔تومولائے کریم کی رحمت کاملہ جوش میں آئی اوراس بگھڑے ہوئےعرب معاشرے کی اصلاح کے لیے خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمائے ۔آپ کی بعثت نبوت کے شروع میں ہی ایک مختصر سی جماعت آپﷺ پر ایمان لائی۔ جوآہستہ آہستہ بڑھ کر ایک عظیم طاقت اور حزب اللہ ،خدائی لشکر کی صورت اختیار کر گئی۔ اس جماعت نے آپﷺ کے مشن کی تکمیل کی خاطر تن من دھن کی بازی لگادی ۔چنانچہ رسول کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کی مدد اور سرفروش جماعت کی معیت سے جزیرۃ العرب کی کایا پلٹ کررکھ دی ۔اس جماعت کو اصحاب النبیﷺ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ان کے بعد میں آنے والی ساری امت مجموعی طور پر تقویٰ اور اتباع کے مراتب عالیہ طے کرنے کے باوجود بھی ان اصحاب رسول ؐ کے مرتبے کو ہر گز نہیں پہنچ سکتی ۔ صحابہ کرام کی جماعت انبیاء ورسل کے بعد سب مخلوق سے افضل ترین جماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ نبوت سے صحابہ کے فضائل و مناقب کو بیان کیا۔ صحابہ کرام کے ایمان افروز تذکرے سوانح حیا ت کے حوالے سے ائمہ محدثین او راہل علم کئی کتب تصنیف کی ہیں عربی زبان میں الاصابہ اور اسد الغابہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔اور اسی طرح اردو زبان میں کئی مو جو د کتب موحود ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’ اسوۂ صحابہ ‘‘مولانا عبد السلام ندوی کی مرتب شدہ کا جدید ایڈیشن ہے ۔اس کتاب میں انہوں نے صحابہ کرام کی حیات طیبہ، علم وعمل،امن وآشتی، عدل وانصاف، شفقت ورافت ، عزم وہمت جرات وشجات صدق وصفا اوراخلاق وتمدن کے دلنشیں تذکروں کو بڑے آسان اندا ز میں پیش کیا ہے۔ (م۔ا)
ادب و آداب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرہ امتیاز ہے گو کہ دیگر اقوام یا مذاہب نے اخلاق و کردار اور ادب و آداب کو فروغ دینے میں ہی اپنی عافیت جانی مگر اس کا تمام تر سہرا اسلام ہی کے سر جاتا ہے جس نے ادب و آداب اور حسن اخلاق کو باقاعدہ رائج کیا اور اسے انسانیت کا اولین درجہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بات کی جاتی ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں زبان (یعنی اخلاق) سے پھیلا۔ حسنِ اخلاق اور ادب پر لاتعداد احادیث مبارکہ ہیں کہ چھوٹے ہوں یا بڑے‘ سب کے ساتھ کس طرح ادب سے پیش آنے کی تلقین اور ہدایت فرمائی گئی ادب اور اخلاق کسی معاشرے کی بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے جو معاشرے کو بلند تر کر دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ادب سے عاری انسان اپنا مقام نہیں بنا سکتا۔ باادب بامراد اور بے ادب بے مراد ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ادب کس کاکیوں اور کیسے ‘‘ماہنامہ ضیا حدیث کے ایڈیٹر جنا ب نعمان فاروقی ﷾ کے والد گرامی محترم مولانا حکیم محمد ادریس فاروقی کے ماہنامہ ضیائے حدیث میں لکھے گئے قسط وار کالم ’’ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں‘‘ کی کتابی صورت ہے۔ اس کالم میں موصوف نے ادب الٰہی اور رسول اللہ ﷺ کے ادب پر لکھا یہی مضمون مولانا ادریس فاروقی کی زندگی کا آخری مضمون بن گیا۔ بعد ازاں موصوف کے صاحبزادے مولانا محترم نعمان فاروقی نے ان مضامین کوجمع کرکے انہیں مرتب کیا اوران پر مزید کام کیا، بہت سے مقامات پر اضافے کیے اور اسے ایک خوبصورت کتاب کی صورت میں عوام الناس کے استفادے کے لیے شائع کیا ہے۔ (م۔ا)
خطابت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے، جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات کودوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں ،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اوراپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کرسکتا ہے۔خطابت صرف فن ہی نہیں ہے بلکہ اسلام میں خطابت اعلیٰ درجہ کی عبادت اورعظیم الشان سعادت ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کومیدانِ خطابت کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کادھارا بدل دیتے ہیں،ہواؤں کےرخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے ہیں ۔تاریخ کےہر دورمیں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اقوام وملل او رقبائل کے امراء وزعما کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امرتھا۔قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی ہمیں کئی معروف ِ زمانہ فصیح اللسان اور سحر بیان خطباء اس فن کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظرآتے ہیں۔دورِ اسلام میں فنِ خطابت اپنے اوج کمال تک پہنچ گیا تھا ۔نبی کریم ﷺ خود سحرآفرین اور دلنشیں اندازِ خطابت اور حسنِ خطابت کی تمام خوبیوں سے متصف تھے۔ اور اگرخطابت کے انہی شہہ پاروں کو تحریری شکل دے کر شائع کردیاجائے تو یہ ایک گراں قدر خدمت ہے۔ زیرتبصرہ کتاب" مواعظ طارق" محترم مولانا عطاء اللہ طارق صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے خطباء اور واعظین کے لئے ایک گرانقدر ذخیرہ جمع فرما دیا ہے۔ یہ کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے اور خطباء وواعظین میں بہت معروف ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور پھر ماں اپنے جگر کا ٹکڑا استاد کے حوالے کر دیتی ہے اور استاد اس کے لئے پوری دنیا کو ایک درسگاہ بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔ باپ بچے کو زمین پر قدم قدم چلنا سکھاتا ہے ، استاد اسے دنیا میں آگے بڑھنا سکھا تاہے۔ استاد کا کردار معاشرے میں بہت اہم ہے۔معلّمی وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام میں نہیں بلکہ ہر مذب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس، ملائیشیا، اٹلی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں جو عزت اور مرتبہ استاد کو حاصل ہے، وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتا کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ استاد مینار نور ہے، جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے، جو ہمیں بلندی پر پہنچا دیتی ہے۔ یک انمول تحفہ ہے، جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریم ﷺنے بھی ارشاد فرمایا کہ ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے” امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپ نے فرمایا کہ ”کاش میں ایک معلم ہوتا’۔ استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کہتے ہیں کہ استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے”۔علامہ محمداقبال کے یہ الفاظ معلم کی عظمت و اہمیت کے عکاس ہیں۔”استاد در اصل قوم کے محافظ ہیں۔زیر تبصرہ کتاب" خود شناس وخود آگاہ قابل رشک ٹیچر ، جس کا سب احترام کریں!" محترم اختر عباس صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے استاد کے مقام ومرتبے کو بیان کرتے ہوئے اس کی ذمہ داریوں اور صفات پر روشنی ڈالی ہے کہ ایک استاد کو کیسا ہونا چاہئے۔(راسخ)
برصغیر پاک و ہند میں بہت سی ایسی نابغہ روزگار شخصیات نے جنم لیا جنہیں عالمِ اسلام اور پاک و ہند کی عوام عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہے عالمِ اسلام کی ان ہردلعزیز شخصیات میں سے فن مناظرہ کے امام ، نامور خطیب و ادیب اور ایک کامیاب سیاستدان مولانا حافظ عبدالقادرروپڑی بھی ہیں جو کتاب اللہ اور علوم اسلامی کے ممتاز عالمِ دین تھے۔ آپ نے 1920ءمیں میاں رحیم بخش کے گھر میں جنم لیا آپ کا گھرانہ دینی، علمی، ادبی اور روحانیت کے اعتبار سے بلند مقام رکھتا تھا آپ کو قدرتِ الٰہی نے اعلیٰ ذہانت و فطانت سے نواز رکھا تھا آپ نے ابتدائی عصری تعلیم کے بعد اپنے چچا محدث زماں حضرت العلام حافظ عبداللہ روپڑی کی نگرانی میں درس نظامی کی تکمیل میں غالباً سات سال صرف کئے۔ حافظ روپڑی جس دور میں حصول تعلیم میں مصروف و مشغول تھے وہ دور مناظروں کا دور کہلاتا ہے آپ کا طبعی میلان فن مناظرہ اور تقاریر کی طرف طالب علمی کے زمانے ہی سے تھا دوران تعلیم ہی انہوں نے مناظرے کرنے شروع کر دیئے تھے جو کہ تاحیات جاری رہے۔ آپ نے عیسائیوں، ہندوں، سکھوں، آریہ سماج، مرزائیوں، چکڑالوی اور مختلف مذاہب کے بڑے بڑے رہنماؤں کو شکست دی۔ حافظ صاحب میدان مناظرہ میں سلطان المناظرین کےنام سے پہنچانے جاتے اور خطابت کے میدان میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھے یعنی فن مناظرہ کےساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خطیبانہ صلاحیتوں سے بھی خوب نوازاتھامشکل سے مشکل بات کو لوگوں کے سامنے ایسے آسان اور عام فہم انداز میں پیش کرتے کہ عام آدمی بھی ان کابیان سن کر علم کے موتیوں سے آراستہ ہوجاتا وہ اپنے خطابات میں عقائد کی اصلاح پر زیادہ زور دیا کرتے تاکہ لوگ عقیدہ توحید میں پختہ ہوجائیں یہی وجہ تھی کہ آپ کےخطبات کو سن کو بہت زیادہ لوگوں یعنی ہندؤوں ، عیسائیوں، آریہ ، سکھوں، قادیانیوں نے اپنے مذاہب چھوڑ کر دین اسلام کوقبول کیا اوربعض ضعیف العقیدہ مسلمان جو شرک ، رسومات اور بدعات کے عادی سنت نبویہ سے نفرت کرنے والے بھی آپ کےخطابات سن کر بدعات ورسومات اور خرافات کوچھوڑ کر سنت نبویﷺ کواپنے لیےمشعل راہ سمجھنے والے ہوگئے ۔مناظرہ اور خطابت کےساتھ ساتھ آپ نے مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا یہاں تک کہ محنت شاقہ اور ممتاز کارکردگی کی بنا پر ان کو روپڑ کی مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ موصوف تحریک آزادی کی سرگرمیوں کی بنا پر قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہوئے چنانچہ 35 رفقاءسمیت ان کو انبالہ جیل میں پابندِ سلاسل کیا گیا ۔ تقسیم ملک کے موقع پر ان کے خاندان سے سترہ افراد دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے ان کی خاندان کی ملکیت بہت بڑی اسلامی لائبریری کو اسلام دشمنوں نے آگ لگا کر خاکستر کر دیا تھا، ۔جتنی تحریکیں پاکستان میں اٹھتی رہیں ان میں آپ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ بالخصوص تحریک ختم نبوت میں مولانا مفتی محمود، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستارخان نیازی اور نوابزادہ نصراللہ خاں وغیرہ کے ہمراہ حضرت روپڑی نے بھی جاندار اور شاندار کردار ادا کیا تھا۔ 1964ءمیں مولانا عبداللہ محدث روپڑی کی وفات کے بعد آپ جامعہ اہلحدیث اور ہفت روزہ ”تنظیم اہلحدیث“ لاہور کے نگران مقرر ہوئے انہوں نے تاحیات بخوبی یہ ذمہ داری نبھائی دن کو جامعہ میں تدریس اور رات کومختلف مقامات پر کانفرنسوں سے خطاب کرتے اس دوران آپ کو امریکہ، برطانیہ، امارات اور دیگر کئی ممالک میں آپ کو خطابات کےلئے خصوصی دعوت دی جاتی رہی۔ آخری عمرمیں چھ سال تک آپ بیمار رہے اس دوران بیرون ممالک سے پاکستان میں آنے والی شخصیات میں سے الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل امامِ کعبہ اور قائم مقام ولی عہد شہزادہ عبداللہ کے نمائندہ اور دیگر کئی رہنما آپ کی عیادت کےلئے رہائش گاہ پر تشریف لائے۔ 6 دسمبر 1999ء بروز سوموار شام کاسورج غروب ہونے کے ساتھ ہی سلطان المناظرین حافظ عبدالقادر روپڑی اپنے خالق حقیقی سے جاملے اگلے روز بروز منگل بعد نماز ظہر ان کے شاگرد رشید جامعہ لاہور الاسلامیہ کےشیخ االحدیث محدث العصر حافظ ثناء اللہ مدنی ﷾ نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ گارڈن ٹاؤن لاہور میں خاندانی قبرستان میں دفن ہوئے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’خطبات سلطان المناظرین‘‘ حافظ عبدالقادر روپڑی کے بعض خطبات کا مجموعہ ہے ۔آپ نے تقریباً 70 سال تک توحید وسنت کو بیان کیا۔ان کے جو خطابات کی کیسٹیں مل سکیں حافظ عبد الوہاب روپڑی ﷾ ناظم محدث روپڑی اکیڈمی نے انہیں نقل کر وا کر اس مجموعہ کو بڑے شاندار طریقے سے شائع کیا ہے ۔کیسٹوں سے تقاریر کو نقل کرنے کام محترم جناب مولانا عبداللطیف حلیم نے اپنی شب وروز کی محنت شاقہ سے انجام دیا ہے۔ان خطبات کو منظر عام تک لانے میں شامل تمام افراد کی کاوشوں کوشرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین) (م۔ا)
سیرت نبوی ﷺ کامو ضوع ہر دور میں مسلم علماء ومفکرین کی فکر وتوجہ کا مرکز رہا ہے،اور ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وتوفیق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی بھی ہے۔قرآن مجید نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔ اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے، جو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔ اللہ تعالی نے نبی کریمﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں، بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر، ارفع واعلی اور اچھے وخوبصورت نمونہ وکردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،اور لکھی جا رہی ہیں،جو ان مولفین کی طرف سے آپ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "رسول کاملﷺ "تنظیم اسلامی پاکستان کے بانی محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے نبی کریمﷺ کی سیرت طیبہ کو بیان فرمایا ہے۔ یہ کتاب دراصل ان 12 تقاریر پر مشتمل ہے جو محترم ڈاکٹر صاحب نے پاکستان ٹیلی ویژن پر یکم تا 12 ربیع الاول 1401ھ ارشاد فرمائے، جنہیں احباب کے اصرار پر تحریری شکل میں شائع کر دیا گیا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
ٖ اہل اسلام میں یہ بات روز اول ہی سے متفق علیہ رہی ہے کہ شرعی علم کے حصول کے قابل اعتماد ذرائع صرف دو ہیں: ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا اللہ کے آخری رسول ﷺ کی حدیث وسنت ۔امت میں جب بھی کوئی گمراہی رونما ہوتی ہے اس کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں ماخذوں میں سے کسی ایک ماخذ کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگوں نے ’حسبنا کتاب اللہ ‘کے قول حق کو اس گمراہ کن تصور کے ساتھ پیش کیا کہ کتاب اللہ کے بعد سنت رسول ﷺ کی ضرورت ہی نہیں رہی۔اس طرح بعض افراد رسول مقبول ﷺ کے بارے میں یہ تصور پیش کرتے رہے ہیں کہ ان کا کام محض ہرکارے کا تھا۔معاذ اللہ فتنہ انکار حدیث کی تاریخ کے سرسری مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث نبوی کی حجیت و اہمیت کے منکرین دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو کھلم کھلا حدیث کا انکار کرتے ہیں اور اسے کسی بھی حیثیت سے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صراحتاً حدیث کے منکرین، بلکہ زبانی طور پر اس کو قابل اعتماد تسلیم کرتے ہیں لیکن انہوں نے تاویل و تشریح کے ایسے اصول وضع کر رکھے ہیں جن سے حدیث کی حیثیت مجروح ہوتی ہے اور لوگوں پر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ سنت نبوی کو تشریعی اعتبار سے کوئی اہم مقام حاصل نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "راہ سنت" محترم مولانا ابو السلام محمد صدیق صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے سنت نبوی کی اہمیت و ضرورت اور حجیت پر تفصیلی بحث کی ہے اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا کافی وشافی جواب دیا ہے۔ اللہ تعالی دفاع سنت نبوی کی ان کی اس کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے ۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہےجسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس وتقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے ۔اس لیے خطبا حضرات کے لیےضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح ، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت،معاملات میں درستگی،آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ خطبات الہ آبادی ‘‘الہ آباد (ٹھینگ موڑ) ضلع قصور کے نامور دلنشیں پنچابی زبان کے ہردلعزیز خطیب مولانا شریف آبادی کے خطبات کا مجموعہ ہے ۔مولانا موصوف کی تقایر بلاشبہ کوزے میں سمندر بند کرنے کےمترادف ہیں جن میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کونہایت حسین وددلکش انداز میں بیان فرماتے تھے۔آپ الہ آباد کی مرکزی مسجد میں طویل عرصہ خطیب رہے جہاں دور دور سے احباب آپ کاخطبہ سننے کےلیے تشریف لاتے۔ مولانا جوانی کی عمر میں قضائے الٰہی سے چند سال قبل اپنےخالق حقیقی کو جاملے۔ (انا للہ واناالیہ راجعون)اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ مولانا مرحوم کا ایک صاحبزادہ جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور میں زیر تعلیم ہے اور ماشاء اللہ اپنے والد گرامی کی طرح خطابت کا بھی اچھا ذوق شوق رکھتا ہے اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل میں برکت فرمائے اور دین کا عالم اور مبلغ بنائے (آمین) خطبات الہ آباد کی ان دو جلدوں میں24 خطبات ہیں ۔ ان خطبات میں اصلاح معاشرہ کا ایک نہایت ہی روشن پہلو موجود ہے ۔(م۔ا)
مسلک اہل حدیث کوئی نئی جماعت نہیں ہے۔ تمام اہل علم اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اہل حدیث کا نصب العین قرآن وحدیث ہے اور جب سے قرآن وحدیث موجود ہے تب سے یہ جماعت موجود ہے۔ اسی لیے ان کا انتساب قرآن وحدیث کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے۔ یہ نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔ پہلا لفظ "اہل" ہے۔ جس کے معنی ہیں والے صاحب دوسرا لفظ"حدیث" ہے۔حدیث نام ہے کلام اللہ اور کلام رسولﷺ کا۔قرآن کو بھی حدیث فرمایا گیا ہے۔اور آپﷺ کے اقوال اور افعال کے مجموعہ کا نام بھی حدیث ہے۔پس اہل حدیث کے معنی ہوئے۔”قرآن و حدیث والے” جماعت اہل حدیث نے جس طریق پر حدیث کو اپنا پروگرام بنایا ہے اور کسی نے نہیں بنایا۔ اسی لیے اسی جماعت کا حق ہے۔کہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہے۔ مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہی جماعت حق ہے۔ اہل حدیث مروّجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں، نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے، بلکہ اہل حدیث ایک جماعت اور تحریک کا نام ہے۔ اور وہ تحریک ہے زندگی کے ہر شعبے میں قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنا اور دوسروں کو ان دونوں پر عمل کرنے کی ترغیب دلانا، یا یوں کہ لیجئے کہ اہل حدیث کا نصب العین قرآن وحدیث کی دعوت اور اہل حدیث کا منشور قرآن وحدیث ہے۔ اور اصلی اہل سنت والجماعت یہی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "دعوت قرآن وحدیث، منہج اہل حدیث اور تحریک اہل حدیث کا مختصر تاریخی جائزہ " محترم مولانا حافظ جلال الدین قاسمی صاحب کی تصنیف ہے، جس پر تخریج و تحقیق مولانا ابن شیر محمد ہوشیار پوری صاحب کی جبکہ ابتدائی، نظر ثانی اور تعلیقات محترم ابن الحسن امرتسری صاحب کی ہیں۔ مولف موصوف نے اس کتاب منہج اہل حدیث اور تحریک اہل حدیث کا مختصر تاریخی جائزہ پیش کیا ہے اور اسے قرآن وحدیث کی دعوت سے منسوب کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے ۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہےجسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس وتقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے ۔اس لیے خطبا حضرات کے لیےضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح ، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت،معاملات میں درستگی،آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’خطبات اہل حدیث‘‘عوامی اجتماعات میں عوامی انداز میں علمی گفتگو کرنے والے عصر حاضر کے نامور خطیب سید سبطین شاہ نقوی﷾ کے19 علمی خطبات کا مجموعہ ہےسید صاحب کے خطبات میں دلائل کا سمند ر موجزن ہے۔جو ایمان کو تازگی روح کو پاکیزگی، عقائد کوپختگی اور عمل کوبیدار بخشتا ہے۔ جس کی موجیں عقائد باطلہ اور نظریات فاسدہ کوبہالے جاتی ہیں۔ شاہ صاحب کےخطبات خالصتاً علمی ، اصلاحی اور دعوتی حقائق پر مبنی ہیں۔کتاب کےمرتب جناب محمد طیب محمدی ﷾ مصنف ومرتب کتب کثیرہ نے سبطین شاہ نقوی صاحب کے تقریباً تیس خطبات کی کیسٹیں سن کر انہیں مرتب کیا ہے ۔شاہ صاحب نےتقریر میں جس حدیث سےاستنباط کیا ہے مرتب نے اس حدیث کو اصل کتاب سے دیکھ کر مکمل لکھ دیا ہےتاکہ پڑھنے والا کسی قسم کی تشنگی محسوس نہ کرے اوراستنباط کی حقیقت تک پہنچ جائے ۔اس کتاب میں تقریر کی چاشنی کے ساتھ ساتھ تحریر کالطف بھی موجود ہے۔(م۔ا)
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔اس زبان کی نشر و اشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج و اشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ اور متعدد اہل علم نے اس پر قلم آزمائی کی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "تمرین النحو" محترم مولانا محمد مصطفی ندوی صاحب کی تصنیف ہے، جس پر اضافہ وتکمیل محترم مولانا عبد الماجد ندوی صاحب نے فرمایا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف ومرتب کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
تصوف کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوب اس عمل کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی عمل پیرا ہو۔ اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ : تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں۔ تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے افراد تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں۔ اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علماء کرام بھی یہی مراد مراد لیتے رہے۔ پھر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے کہ جن پر شریعت و فقہ پر قائم علماء نے نہ صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کا رد بھی کیا۔امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم اوران کےبعد جید علمائے امت نے اپنی پوری قوت کے ساتھ غیراسلامی تصوف کےخلاف علم جہاد بلند کیا اورمسلمانوں کواس کےمفاسد سے آگاہ کر کے اپنا فرضِ منصبی انجام دیا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نےبھی اپنے اردو فارسی کلام میں جگہ جگہ غیر اسلامی تصوف کی مذمت کی ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ تصوف کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ شیخ محمد جمیل زینو کی تصوف کےموضوع پر جامع کتاب ’’الصوفیہ فی میزان الکتاب والسنۃ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔ مولانا عبد الجبار صاحب نےاردو ترجمہ کرنےکی سعادت حاصل کی ہے ۔موصوف مترجم ایک اچھا علمی ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ فرق ضالہ پر بھی اچھا مطالعہ رکھتے ہیں۔شیخ جمیل زینو نےاس کتاب میں تصوف کی ابتدا، صوفیت کتاب وسنت کے میزان میں ، صوفیوں کے اقوال، صوفیوں کی کرامات، صوفیوں کانظریہ جہاد،صوفیوں کے پیراور مشائخ صوفیہ کےنزدیک تقلیدِ شیخ، صوفیہ کےنزدیک ولی کامفہوم جیسے عنوانات قائم کرکے انہیں بڑے عام فہم انداز میں قرآن وسنت کی روشنی میں پیش کرتے ہوئے تصوف کی حقیقت کو واضح کیا ہے ۔(م۔ا)