ارشاد ربانی کےمطابق دین اسلام ایک ایسا دین ہے کہ جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرتا ہے تو اس سے ہر گزقبول نہیں کیا جائے گا۔ او روہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔اور نبی کریمﷺ کا فرمان ہے ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں جو شخص بھی میری بابت سن لے کہ وہ یہودی ہویا عیسائی پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘ اس اعتبار سے امت مسلمہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلا م کا پیغام ہر جگہ پہنچائیں اور کراہتی سسکتی انسانیت کو امن وسکون اور نجات سے ہمکنار کریں جیسے پیغمبر اسلام سید نا حضرت محمدﷺً اوران کے اولین پیروکاروں نے دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ کر کے عدل وانصاف کا نظام قائم کیا، کفر وشرک کی تاریکیوں کو مٹاکر توحید و سنت کی شمعیں روشن کیں اور اخلاقی زوال کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر انسانیت کوسیرت و کردار کی بلندیوں سے آشنا کیا۔ ٖآج انسانیت پھر سے ظلم وستم کا شکار ہے وہ دوبارہ کفر وشرک کی تاریکیوں میں گھری ہوئی اور اخلاقی پستی میں پھنسی ہوئی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ،لیکن افسوس کہ آج تک کسی بھی حکومت نے پاکستان میں اسلام نافذ کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔جبکہ قیام پاکستان کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا کہ ہندوستان کے مسلمان ایک طرف تو ہندی تہذیب اور ہندی صنم پرستی سے بچ کر اپنی اسلامی تہذیب کو اپنائیں گے اور ایک اللہ کی عبادت کریں گے وہاں دوسری طرف پاکستان میں مکمل طور پر شریعت کو نافذ کر کے اور ہر شعبۂ زندگی میں اسلامی تعلیمات کی ترویج کر کےپاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ اوراس کے حسن وجمال کی جلوہ گاہ بنائیں گے۔ تاکہ دنیا کے سامنے صحیح فکر وعمل ا ور امن و سکون سے آشنا زندگی کا ایک بہترین نمونہ آسکے جسے دنیائے انسانیت اپنانے ا ور اختیار کرنے کی لیے لپکے اور اس کی طرف پلٹے۔ تحریک پاکستان کےلیڈروں نے بھی قوم سے یہی وعدہ کیاتھا اور بابار اسی کا اعادہ کیاتھا ،بانی پاکستان نےبھی یہ کہاتھا جسے وہ قیام پاکستان کے بعد بھی دہراتے رہے۔ اللہ تعالیٰ اوراس کی مخلوق سے کئے ہوئے اس عہد کا تقاضا ہےکہ پاکستان میں اسلام کی علم برداری قائم ہو اور اسلامی شریعت کا سکہ یہاں چلےجس طرح پاکستان کا قیام اس وعدے کا مرہون منت ہے اس کااستحکام وبقاء بھی اس عہد کی تکمیل اور اس وعدے کے ایفاء میں مضمر ہے لیکن وطن عزیز پاکستان کو ’’لاالہ ...‘‘ کی بنیاد پر قائم ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے جس میں اسلام کو نافذ کرنے کے وعدہ کوپوراکرنے کی سنجیدہ کوشش ابھی تک نہیں کی گئی۔ زیر نظر کتاب ’’پاکستان میں نفاذ شریعت اہمیت، ضرورت اور طریق کار ‘‘ مولانا قدرت اللہ فوق کی کاوش ہے۔ انہوں نے اپنی قیمتی تدریسی اوقات میں مصروف ومشغول رہنے کے باوجود بڑی محنت سے پاکستان میں نفاذ شریعت، اہمیت وضرورت اور طریق کار کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اس وطن عزیز میں نفاذ اسلام کی راہ میں کونسی چیزیں حائل ہیں اورانہیں کیسے دور کیا جاسکتا ہے اور اس حقیقی ہدف ومقصد کو کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا حکمران عطا فرمائے جو قیام پاکستان کے مقصد کو پورا کرے۔ (آمین) (م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
اہداف |
12 |
تقریظ از شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ ثناء اللہ عیسیٰ خان صاحب مدنی |
13 |
پیش لفظ از مؤلف |
15 |
پاکستان میں اسلامی قانون سازی، شریعت بل کی تاریخ |
19 |
1965ء کا شریعت بل اور بیانات |
20 |
تقابلی جائزہ، اغراض و مقاصد |
21 |
دفعہ 2، بل۔ 85ء، دفعہ2 الف جزء ب سابقہ بل 90ء کی تشریح |
21 |
دفعہ 3 شریعت بل کی بالا دستی، دفعہ 3 قومی اسمبلی بل |
22 |
شق ن مبر 8 بین الاقوامی مالیاتی فرائض (موجودہ بل) |
22 |
اسلامی نظام کے لیے آئین میں 15 ترامیم کا مکمل متن |
22 |
بیان اغراض وجوہ |
24 |
پندرھویں ترمیم کی شرعی حیثیت |
25 |
اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ |
26 |
قرآن کا فیصلہ، راجح قول کا فیصلہ |
27 |
سیاسی ترامیم |
28 |
فہرست نا مکمل |
|