خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے ۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہےجسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس وتقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے ۔اس لیے خطبا حضرات کے لیےضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح ، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت،معاملات میں درستگی،آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ انبار نگینہ المعروف مواعظ چیمہ ‘‘ ہردلعزیز عوامی خطیب جناب مولانا محمد نواز چیمہ﷾ کےدرج ذیل اہم موضوعات پر خطبات کا مجموعہ ہے ۔ اعوذ بااللہ، شیطانی چالیں،شیطانی حملے ،پناہ کیسے اور کن چیزوں سے ، فضائل بسم اللہ، فوائد ذکر الٰہی،اقسام ذکر الٰہی ،ذکر الٰہی سے غفلت کے نقصانات، توبہ،بخشش کےبہانے ، قرآءت قرآن ، سماعت قرآن تاثیر قرآن ،قرآن اور صاحب قرآن، فوائد قرآن، فضائل قرآن، تعلیم قرآن کی اجرت،فضائل ماہ رمضان ، فضائل روزہ ، احکام روزہ ، آداب روزہ ،نفلی روزے ، مسنون تراویح،اعتکاف کے فضائل ومسائل، لیلۃ القدر ، صدقہ فطر۔موصوف نے ان خطبات میں دلچسپ اور غیرمشہور واقعات کو باحوالہ درج کیا ہے اور ہرموضوع میں اشعاربھی درج کیے ہیں ۔اور حتی الوسع موضوع اور ضعیف روایات کی نشاندہی کی ہے اور صحیح احادیث وروایات سے عنوان بیان کیے ہیں۔آیات واحادیث اور واقعات کے مستند کتب سے حوالہ جات بھی نقل کیے ۔(م۔ا)
اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے،اسلام کاجس طرح اپنانظامِ معیشت ہے اوراپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنانظامِ سیاست وحکومت ہے،اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " ملکیت زمین اور اس کی تحدید "مسلک دیو بند کے معروف عالم دین محترم جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے ملکیت زمین اور اس کی تحدید کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
شراب اور نشہ آور اشیاء معاشرتی آفت ہیں جو صحت کو خراب خاندان کو برباد،خاص وعام بجٹ کو تباہ اور قوت پیداوار کو کمزور کرڈالتی ہے۔ان کے استعمال کی تاریخ بھی کم وبیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تہذیب کی تاریخ یہ اندازہ لگانا تو بہت مشکل ہے کہ انسان نے ام الخبائث کا استعمال کب شروع کیا اوراس کی نامسعود ایجاد کاسہرہ کس کے سر ہے ؟ تاہم اس برائی نے جتنی تیزی سے اور جتنی گہرائی تک اپنی جڑیں پھیلائی ہیں اس کا ندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ تمام عالمی مذاہب نے اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے۔دین ِ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے شراب کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نےاس کے استعمال کرنے والے پر حد مقرر کی ہے یہ سب اس مقصد کے تحت کیا گیا کہ مسکرات یعنی نشہ آور چیزوں سے پیدا شدہ خرابیوں کو روکا جائے ا ن کے مفاسد کی بیخ کنی اور ان کےمضمرات کا خاتمہ کیا جائے ۔کتب احادیث وفقہ میں حرمت شرات اور دیگر منشیات اور اس کے استعمال کرنے پر حدود وتعزیرات کی تفصیلات موجود ہیں ۔ اور بعض اہل علم نے شراب اور نشہ اور اشیا ء پر مستقل کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’منشیات اوراسلام ‘‘ کیلانی خاندان کی معروف شخصیت اورتلمیذ رشید حافظ عبد اللہ محدث روپڑی مولاناعبدالسلام کیلانی (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کی تصنیف ہے۔یہ کتاب ایک مقدمہ اور چھ ابواب پرمشتمل ہے ۔دس صفحات پر مشتمل اس کے مقدمے میں فاضل مصنف نےاس کتاب کے موضوع کے متعلق بنیادی باتیں تحریر کی ہیں ۔ نیز کتاب کے مصادر ومراجع کے متعلق گفتگو کی ہےاور دماغ پر منشیات کےاثر کابھی ذکر کیا ہے جس میں ضمناً مغرب کی اسلام کےخلاف سازش کو بھی آشکار کیا ہے ۔(م۔ا)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،جس میں معاشرت ومعیشت سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے مکمل راہنمائی موجود ہے۔ اسلام کا نظریہ معیشت فطرت سے ہم آہنگ اور تمام معاشی مشکلات کا واحد حل ہے، اس لئے کہ یہ نظام نہ تجربات کا مرہون منت ہے اور نہ اقتصادی ماہرین کی ذہنی کاوش کا نتیجہ،بلکہ یہ معاشی نظام پروردگار نے تجویز کیا اور پیغمبر اسلام نے پیش کیا، اس لئے یہ نظام ہی وہ واحد نظام معیشت ہے جو اگر تمام عالم پر چھا جائے تو دنیا میں صرف معاشی سکون ہی سکون ہو، اس لئے کہ یہ مالک حقیقی نے بنایا ہے وہ ہم سب کا رب ہے، لہٰذا اس کی ربوبیت کا سایہ بھی سب پر یکساں ہے، اس میں اجتماعی مفاد ہی ملحوظ ہے، شخصی یا گروہی مفاد کا شائبہ تک نہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے حقیقی مالک صرف اللہ ہے، ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز اور بڑی سے بڑی چیز اس کی ملکیت میں داخل ہے، چنانچہ اُس نے مال کی نسبت اپنی ذات کی طرف دیتے ہوئے فرمایا:”خدا کے مال میں سے جو اُس نے تمہیں دیا ہے، اُن کو بھی دو“۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلام کا نظام معیشت، شیئرز اور کمپنی "محترم مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کی مرتب کردہ ہے، جسےایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔اس کتاب میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے نویں فقہی سیمینار منعقدہ11 تا 14 اکتوبر1996ء میں پیش کئے گئے علمی، فقہی اور تحقیقی مقالات ومناقشات کے مجموعے کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت نیک اولاد کا ہونا ہے ۔جسے اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کی ٹھنڈک کہا ہے اس لئے اولاد کا ہونا خوش بختی تصور کیا جاتا ہے۔جنہیں یہ نعمت میسر آتی ہے ۔وہ بہت خوش و خرم رہتے ہیں ،اور جن کے ہاں اولاد نہیں ہوتی ،وہ ہمیشہ اولاد کی محرومیت کے صدمے میں پڑے رہتے ہیں ۔مگر جب انہیں اولاد مل جاتی ہے تو گویا وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہر نعمت مل گئی ۔اولاد کا فطری حق ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے کیونکہ بچے کی پیدائش کا اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ذریعہ بنا رکھا ہے اس لیے اس پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ اپنی اولاد کی حفاظت کرے۔ اسلام سے پہلے اولاد کو جینے کا حق حاصل نہ تھا بلکہ اولاد کی زندگی کو مختلف صورتوں سے ختم کر دیا جاتا تھا ۔اسی طرح اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ جب وہ بالغ ہو جائے تو والدین اس کے لئے مناسب رشتے کا بندوبست کریں، اور رشتے کے انتخاب میں ان پر جبر کرنے کی بجائے ان کی رضامندی کا خیال رکھیں۔ زیر تبصرہ کتاب" جبری شادی کا شرعی حکم" اسلامک فقہ اکیڈمی کے تیرہویں سیمینار منعقدہ 13 تا 16 اپریل 2001ء جامعہ سید احمد شہید کٹولی میں پیش کئے جانے والے مقالات پر مشتمل ہے۔جن میں عورتوں کی شادی میں ان کی رضا اور پسند کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے توبہ واستغفار کا دروازہ کھلا رکھا ہے جب تک انسان کاآخری وقت نہیں آجاتا وہ توبہ کرسکتا ہے اوراس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے لیکن جب آخری لمحات آجائیں موت سامنے نظر آنے لگے جب انسان کو یقین ہوجائے کہ بس اب وقت آگیا ہے اس وقت اگر وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے تو اس کی اس توبہ کا کوئی اعتبار نہیں یا اس وقت کی توبہ قابل قبول نہیں۔انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کے تحت وہ دانستہ یا نادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے ۔ بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے ۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تویہ غلطی اس کے خالق ومالک کو اس سے ناراض کردے گی۔ اس سےاپنے معبود ومالک کی ناراضگی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ فوری طور پر اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہوکر گڑگڑاتا ہے اور استغفار کرتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتےہوئے توبہ کرتا ہے کہ اے مالک الملک اس مرتبہ معاف کردے آئندہ میں ایسا کبھی نہ کروں گا۔گناہ کے بعد ایسے احساسات اور پھر توبہ کے لیے پشیمانی وندامت پر مبنی یہ عمل ایک خوش نصیب انسان کےحصہ میں آتا ہے۔ جب کہ اس جہاںمیں کئی ایسے بدنصیب سیاہ کار بھی ہیں جن کوزندگی بھر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کا مالک ان سے ناراض ہوچکا ہے اور وہ ہیں کہ دن رات گناہ کرتے چلےجاتےہیں اور رات کوگہری نیند سوتے ہیں یا مزید گناہوں پر مبنی اعمال میں مصروف رہ کر گزار دیتے ہیں۔جبکہ اللہ کریم اس وقت پہلے آسمان پر آکر دنیا والوں کوآواز دیتا ہے کہ: اے دنیاوالو! ہےکوئی جو مجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے ... ہے کوئی توبہ کرنے والا میں اسے ا پنی رحمت سے بخش دوں۔ نبی کریمﷺ خو د ایک دن سو سے زائد مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے ۔استغفار کرنے سے انسان کے تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں جن کو انسان شمار بھی نہیں کر سکتا،لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس ان گناہوں کا پورا پورا ریکارڈ ہوتا ہے،جبکہ انسان بھول جاتا ہے۔استغفار کرنا نبی کریمﷺ کی اقتداء اور پیروی کا اظہار ،کیونکہ نبی کریمﷺ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے۔اور استغفار گناہوں سے بچنے اور اطاعت کرنے میں کوتاہی کا اعتراف ہے،کیونکہ جب انسان اپنی کوتاہی کا اعتراف کر لیتا ہے تب وہ زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرتا ہے اورنیک اعمال کر کے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کوشش کرتا ہے۔ استغفار دل کی سلامتی اور صفائی کا ذریعہ ہے۔کیونکہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ان العبد اذا أخطا خطیئۃ نکتت فی قلبہ نکتۃ سوداء ،فان ھو نزع واستغفر وتاب،صقل قلبہ‘‘(رواہ الترمذی)’’جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے،اگر انسان اس گناہ کو چھوڑ دے اور اس پر توبہ واستغفار کرے تو اس کے دل کودھو کر چمکا دیا جاتا ہے۔‘‘ حضرت شداد بن اوس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص یقین کامل کے ساتھ صبح کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا ،اگر اسی دن شام سے پہلے پہلے مر گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا،اسی طرح جو شخص یقین کامل کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا ،اگر اسی رات صبح سے پہلے پہلے مر گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔سید الاستغفار یہ ہے:((اللھم أنت ربی لاالہ الا أنت،خلقتنی وأنا عبدک ،وأنا علی عھدک ووعدک مااستطعت،أعوذبک من شر ما صنعت ، أبوء لک بنعمتک علی وأبوء بذنبی ،فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا أنت))[رواہ مسلم] ’’اے اللہ تو ہی میرا رب ہے ، تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں،تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوںجس قدرطاقت رکھتا ہوں،میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوںاور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں،پس مجھے بخش دے کیونکہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔‘‘ زیر تبصرہ کتاب ’’ عذاب سے بچنے کا دوسرا سبب استغفار‘‘ ڈاکٹر فیصل بن مشعل بن سعود آل سعود کے ایک عربی رسالہ کا ترجمہ ہے ۔اس میں انہوں نے استغفار کی تعریف، ثمرات،شرائط وآداب، درجات، فضلیت اور استغفار کےکلمات اور گناہوں کے مٹانے والے انیس اعمال کو آسان فہم انداز میں قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کیا ہے۔(م۔ا)
جس طرح انسان کا بدن مختلف اعضاء سے مل کر بناہے اوران اعضاء کے درمیان فطری رابطہ موجود ہے اسی طرح معاشرہ بھی چھوٹے بڑے خاندانوں سے مل کر بنتاہے ۔جب کسی خاندان کے افراد میں اتحاد اور یگانگت ہوتی ہے تو اس سے ایک مضبوط اور سالم معاشرہ بنتا ہے ۔اس کے بر خلاف اگر ان افرادمیں اختلاف ہو تو معاشرے کا پہیہ پورا نہیں گھومتا اورتشتت و پراگندگی کا شکار ہوجاتا ہے ۔ گھر یا خاندان ہی قوم کا خشت اول ہے۔ خاندان ہی وہ گہوارا ہے جہاں قوم کے آنے والے کل کے معمار‘ پاسبان پرورش پاتے ہیں۔ گھر ہی وہ ابتدائی مدرسہ ہے جہاں اخلاق و کردار کی جو قدریں (خواہ) اچھی ہوں یا بری‘ بلند ہوں یا پست دل و دماغ پر نقش ہوجاتی ہیں اور ان کے نقوش کبھی مدھم نہیں پڑتے۔ اس لئے اسلام گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لئے مبہم نصیحتوں پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کے لئے واضح اور غیر مبہم قاعدوں اور ضابطوں کا یقین بھی کرتا ہے۔ عورت خاندانی نظام کی وہ اکائی ہے جس کے بغیر خاندان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔لیکن افسوس کہ آج کی عورت بے شمار ایسے مسائل کی شکار ہو چکی ہے جو اس کے گھر کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" گھر برباد کیوں ہوتے ہیں؟"جماعت اہل حدیث کے معروف خطیب مولانا عبد المنان راسخ صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے ازدواجی زندگی سے تنگ، گھریلو حالات سے پریشان، خاوند کی شفقتوں سے محروم ناکام عورت کے راہنما اصول بیان کئے ہیں، جن پر عمل کر کے وہ اپنے گھر کو جنت کا باغیچہ بنا سکتی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
اسلام امن وسلامتی اور باہمی اخوت ومحبت کا دین ہے۔انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ اسلامی شریعت کے اہم ترین مقاصد اور اولین فرائض میں سے ہے۔ کسی انسان کی جان لینا، اس کا ناحق خون بہانا اور اسے اذیت دینا شرعا حرام ہے۔کسی مسلمان کے خلاف ہتھیار اٹھانا ایک سنگین جرم ہے اور اس کی سزاجہنم ہے۔ عصر حاضر میں مسلم حکمرانوں اور مسلم معاشروں کے افراد کے خلاف ہتھیار اٹھانے ، اغوا برائے تاوان، خود کش دھماکوں اور قتل وغارت گری نے ایک خطرناک فتنے کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سارے جرائم اسلام اور جہاد کے نام پر کئے جارہے ہیں۔یوں تو بہت سارے زخم ہیں جو رس رہے ہيں لیکن بطور خاص عالم اسلام کو خارجی فکرو نظر کے سرطان نے جکڑ لیا ہے ۔ ہرچہار جانب تکفیر و تفریق اور بغاوت کی مسموم ہوائیں چل رہی ہیں اور سارا تانا بانا بکھرتا ہوا محسوس ہورہا ہے ۔ امت کے جسم کا ایک ایک عضو معطل، اجتماعیت اور وحدت کی دیواروں کی ایک ایک اینٹ ہلی ہوئی سی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اب تب امت کے شاندار عمارت کی کہنہ دیوار پاش پاش ہو جائےگی۔ زیر تبصرہ کتاب" خوارج کی حقیقت " محترم فیصل بن قزار الجاسم کی تصنیف ہے، جس کا اردو ترجمہ محترم مولانا حفظ الرحمن لکھوی صاحب نے کیا ہے۔مولف موصوف نے اس کتاب میں خوارج کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے اور تمام مسلمانوں کو خارجی فتنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین(راسخ)
اسلام امن وسلامتی اور باہمی اخوت ومحبت کا دین ہے۔انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ اسلامی شریعت کے اہم ترین مقاصد اور اولین فرائض میں سے ہے۔کسی انسان کی جان لینا، اس کا ناحق خون بہانا اور اسے اذیت دینا شرعا حرام ہے۔ کسی مسلمان کے خلاف ہتھیار اٹھانا ایک سنگین جرم ہے اور اس کی سزاجہنم ہے۔ عصر حاضر میں مسلم حکمرانوں اور مسلم معاشروں کے افراد کے خلاف ہتھیار اٹھانے ، اغوا برائے تاوان، خود کش دھماکوں اور قتل وغارت گری نے ایک خطرناک فتنے کی صورت اختیار کر لی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سارے جرائم اسلام اور جہاد کے نام پر کئے جارہے ہیں۔یوں تو بہت سارے زخم ہیں جو رس رہے ہيں لیکن بطور خاص عالم اسلام کو خارجی فکرو نظر کے سرطان نے جکڑ لیا ہے۔ ہرچہار جانب تکفیر و تفریق اور بغاوت کی مسموم ہوائیں چل رہی ہیں اور سارا تانا بانا بکھرتا ہوا محسوس ہورہا ہے ۔ امت کے جسم کا ایک ایک عضو معطل، اجتماعیت اور وحدت کی دیواروں کی ایک ایک اینٹ ہلی ہوئی سی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اب تب امت کے شاندار عمارت کی کہنہ دیوار پاش پاش ہو جائےگی۔ زیر تبصرہ کتاب" حرمت مسلم اور مسئلہ تکفیر "معروف داعی محترم مولانا محمد یوسف ربانی صاحب کی تصنیف ہے، جس کی نظر ثانی محترم مولانا مبشر احمد ربانی صاحب نے کی ہے۔مولف موصوف نے اس کتاب میں قرآن وسنت کی روشنی میں حرمت خون مسلم کی عظمت اور فتنہ تکفیر کی سنگینی اور نقصانات کو بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے اور تمام مسلمانوں کو متحد ومتفق فرمائے۔ آمین(راسخ)
عورت اور مرد فطری طور پر ایک دوسرے کے بہترین محل ہیں،اور ان کے درمیان قربت یا ملاپ کی خواہش فطری عمل ہے۔جسے شرعی نکاح کی حدود میں لا کر مرد وزن کو محصن اور محصنہ کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔نکاح ایک شرعی اور انتظامی سلیقہ ہے،لیکن زوجیت کا اصل مقصد باہمی سکون کا حصول ہے۔اور اگر زوجین کے درمیان سکون حاصل کرنے یا سکون فراہم کرنے کی تگ ودو نہیں کی جاتی تو اللہ تعالی کو ایسی زوجیت ہر گز پسند نہیں ہے۔ اسلام معاشرتی زندگی کے حوالے سے پاکیزہ تعلیمات اور روشن احکامات دیتا ہے، اور نکاح پر مبنی پاکیزہ زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" نکاح کوئیز " محترمہ مریم خنساء صاحبہ کی تصنیف ہے جس میں انہوں نکاح کے مسائل کو سوالا جوابا مرتب کر کے ایک خوبصورت مجموعہ تیار کر دیا ہے۔اس کتاب میں انہوں نے اہمیت نکاح، پیغام نکاح، صحت نکاح کے لئے ضروری امور، حرام اقسام نکاح، عورت کی شرائط کا جواز، مسنون رسومات نکاح، غیر مسنون رسومات نکاح، نکاح میں شامل افراد کے فرائض، دلہا کے فرائض، دلہن کے فرائض اور حقوق الزوجین جیسے مسائل تفصیل سے بیان کئے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
نبی کریم ﷺنے فرمایا: "دعا عبادت کا مغز ہے۔"یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کو یہ ہر گز پسند نہیں کہ دعا جیسی اہم اور خالص عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کیا جائے۔دعا کے لئے معیار ،نبی کریم ﷺکا اسوہ حسنہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ نبی کریم ﷺدعا کیسے کیا کرتے تھے اور کن الفاظ سے کرتے تھے۔ہماری پیدائش سے لیکر موت تک جو بھی الجھنیں ،پریشانیاں یا ضرورتیں ہمیں پیش آ سکتی ہیں ،اس کے لئے نبی کریم ﷺکی دعاؤں پر مشتمل الفاظ موجود ہیں۔آپ بعض دعائیں ایک ایک دفعہ پڑھتے تھے تو بعض ایک سے زائد بھی پڑھا کرتےتھے،جس کی گنتی کے لئے وہ ہاتھوں کی انگلیوں کو استعمال میں لاتے تھے۔۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ حرز اعظم منزل ‘‘محترم پروفیسر مزمل احسن شیخ صاحب کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے مسنون دعائیں جمع فرما دی ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
قرآن کی رو سے عبادت وہ اصل مقصد ہے جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔انبیاء کرام کو بھی دنیا میں اسی لئے بھیجا گیا تاکہ وہ انسان کو اللہ کی عبادت کی دعوت دیں اور طاغوت سے دور رہنے کی تلقین کریں۔عبادات کے ذریعے انسان میں اطاعت اور فرماں برداری کا ایک مزاج تشکیل پاتا ہے۔ اور انسانی شخصیت کی ساخت پر داخت ایسے زاویوں پر ہونے لگتی ہے جو اس کی پوری زندگی کو حسن عمل میں ڈھال دیتے ہیں ۔اسلام کی نگاہ میں انسان اللہ تعالی کا بندہ ہے۔اس کا خالق، اس کا مالک، اس کا رازق، اس کا حاکم صرف اور صرف اللہ تعالی ہے۔اللہ نے اس کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے، کچھ ذمہ داریاں اور کچھ خدمتیں اس کے سپرد کی ہیں۔اس کا کام اپنے مالک کے مقصد کو پورا کرنا ہے اور جس طرح وہ چاہتا ہے اس کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر " جماعت اسلامی پاکستان کے بانی مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے اسلامی عبادات کا پس منظر اور اس کے مقاسد کو بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ و ہ مولف موصوف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے،اور قراء کرام کا تجربہ گواہ ہے کہ اگر بچپن میں ہی تلفظ کے ساتھ قاعدہ پڑھا دیا جائے تو بڑی عمر میں تلفظ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" تیسیر التجوید(کامل) بحاشیہ مفیدہ فیض السعید "محترم مولانا عبد الخالق صاحب سہارنپوری کی تصنیف ہے جس پر قاری محمد اسماعیل صادق خورجوی خادم مدرسہ تعلیم القراءات خورجہ صاحب﷾ نے مفید حاشیے (فیض السعید)کا اضافہ کرتے ہوئے اسے شائع کر دیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
امام مہدی کا تصور اسلام میں احادیث کی بنیادوں پر امت مسلمہ اور تمام دنیا کے نجات دہندہ کی حیثیت سے پایا جاتا ہے؛ اور سنیوں میں ان کے آخرت یا قرب قیامت کے نزدیک نازل ہونے کے بارے میں ایک سے زیادہ روایات پائی جاتی ہیں جبکہ شعیوں کے نزدیک حضرت امام مہدی علیہ السلام، امام حسن عسکری کے فرزند اور اہلِ تشیع کے آخری امام ہیں۔ حضرت امام مہدی ؑ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادات تمام مستند کتب مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم وغیرہ میں ملتے ہیں۔ حدیث کے مطابق ان کا ظہور قیامت کے نزدیک ہوگا۔ ان کے وجود کے بارے میں مسلمان متفق ہیں اگرچہ اس بات میں اختلاف ہےکہ وہ پیدا ہو چکے ہیں یا نہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک امام مہدی ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ قیامت کے نزدیک اسلامی حکومت قائم کر کے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں عقائد تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں ملتے ہیں جو آخرِ دنیا میں خدا کی سچی حکومت قائم کرے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ ایسے شخص کے بارے میں متعدد مذاہب میں پیشین گوئیاں ملتی ہیں اور الہامی کتب میں بھی یہ ذکر شامل ہے۔ مسلمانوں کے عقائد کے مطابق یہ شخص امام مہدی ؑ ہوں گے اور ان کے ساتھ حضرت عیسیٰ ؑ کا ظہور بھی ہوگا اور یہ دونوں علیحدہ شخصیات ہیں۔ ان کی آمد اور ان کی نشانیوں کی حدیث میں تفصیل موجود ہے پھر بھی اب تک مہدویت کے کئی جھوٹے دعویدار پیدا ہوئے اور فنا ہو گئے۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلام میں امام مہدی کاتصور"مولانا حافظ محمد ظفر اقبال فاضل جامعہ اشرفیہ کی مرتب کردہ ہے جو انہوں نے اپنے استاد محترم مولانا محمد یوسف خان صاحب استاد الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور کے دروس سے حاصل کئے۔اس کتاب میں انہوں نے امام مہدی کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ، نام ونسب، سیرت وحلیہ،علامات ظہور مہدی،صحیحین میں ظہور مہدی سے متعلق احادیث بیان کی ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ و ہ مولف موصوف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالی کی ذات اقدس، اس کے اسماء حسنی وصفات مبارکہ،اس کی طرف سے مبعوث کردہ رسولوں، فرشتوں، کتابوں، یوم آخرت،حساب ومیزان اور جنت وجہنم کو صدق دل سے تسلیم کرنے کانام ایمان ہے اور ایسے مخلص اہل ایمان کو اللہ تعالی نے "حزب اللہ" قرار دیا ہے اور انہیں دنیا میں امن وسکون اور آخرت میں کامیابی وکامرانی کی خوشخبری سنائی ہے۔اس کے برعکس ان تمام کی تمام ایمانیات یا ان میں سے کسی ایک کے صریح انکار کا نام کفر ہے۔اہل کفر کو اللہ تعالی نے "حزب الشیطان"قرار دیا ہے۔دنیا میں یہ گروہ بدامنی وبے سکونی کا شکار رہے گا اور آخرت میں عذاب الہی اور دائمی وابدی جہنم ان کا ٹھکانہ ہوگا۔حقیقت میں کرہ ارضی پر یہی دو گروہ پائے جاتے ہیں۔البتہ دنیا میں منافق لوگوں کا ایک تیسرا گروہ بھی نظر آتا ہے جو درحقیقت "حزب الشیطان" کا ہی حصہ ہے۔یہ گروہ بظاہر اہل اسلام والا جامہ پہن لیتا ہے لیکن وہ پکا کافر ہونے کے ساتھ ساتھ بزدل، کینہ پرور، مفادپرست اور خود غرض ہوتا ہے اور یہ ہے منافقون کا گروہ۔یہ لوگ کافر تو ہیں ہی،اس پر مستزاد اللہ تعالی اور اہل ایمان کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی لئے ان کی سزا کافروں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" نفاق کی نشانیاں " سعودی عرب کے معروف خطیب اور عالم دین شیخ عائض عبد اللہ القرنی صاحب کے عربی خطاب"ثلاثون علامۃ للمنافقین" کا اردو ترجمہ ہے۔اردو ترجمہ محترم ابو عبد الرحمن شبیر بن نور صاحب نے کیا ہے۔مولف موصوف نے اپنے اس خطاب میں منافقین کی تیس علامات ذکر کی ہیں جنہیں کتابی شکل میں طبع کر کے ہدیہ قارئین کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ خطیب صاحب اور مترجم کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
وقوع قیامت کا عقیدہ اسلام کےبنیادی عقائد میں سےہے اور ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے ۔ قیامت آثار قیامت کو نبی کریم ﷺ نے احادیث میں وضاحت کےساتھ بیان کیا ہے جیساکہ احادیث میں میں ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تک عیسیٰ بن مریم نازل نہ ہوں گے ۔ وہ دجال اورخنزیہ کو قتل کریں گے ۔ صلیب کو توڑیں گے۔ مال عام ہو جائے گا اور جزیہ کو ساقط کر دیں گے اور اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قبول نہ کیا جائے گا، یا پھر تلوار ہوگی۔ آپ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کے سوا سب ادیان کو ختم کر دے گا اور سجدہ صرف وحدہ کے لیے ہوگا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عیسٰی کے زمانہ میں تمام روئے زمین پر اسلام کی حکمرانی ہوگی اور اس کے علاوہ کوئی دین باقی نہ رہے گا۔قیامت پر ایمان ویقین سےانسان کی دینوی زندگی خوشگوار ہوجاتی ہے اور آخرت سنور جاتی ہے۔ اسی لیے اسلام میں ایمان بالآخرۃ اور روز قیامت پر ایمان لانا فرض ہےاوراس کےبغیر بندہ کاایمان صحیح نہیں ہوسکتا۔علامات قیامت کے حوالے سے ائمہ محدثین نے کتب احادیث میں ابواب بندی بھی کی ہے اور بعض اہل علم نے اس موضوع پر کتب لکھی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ قیامت کب آئے گئی؟‘‘شیخ یوسف بن عبد اللہ الوابل کی عربی کتاب ’’ اشراط الساعۃ‘‘ کااردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر نہایت ہی جامع اور محقق ومدلل ہے اس میں قیامت کی نشانیوں کے علاوہ اس پر ایمان لانے کے فوائد اورانسانی زندگی پر اس کے بہتر ثمرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔(م۔ا)
منجملہ علوم قرآنی میں سے ایک علم الفواصل ہے ،جس سے مراد ایک ایسا فن ہے جس میں قرآن مجید کی سورتیں اور ان کی آیتوں کا شمار اور ان کے ابتدائی اور آخری سرے بتائے جاتے ہیں۔علم الفواصل کاموضوع بھی قرآن کی سورتیں اورآیات ہیں، کیونکہ اس علم میں انہی کے حالات سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔علم الفواصل توقیفی ہے، کیونکہ رسول اللہﷺنے صحابہ کرام ؓ کو رؤوس آیات پر وقف کرتے ہوئے آیات کا علم سکھایا ہے۔ بعض آیات ایسی ہیں جہاں نبی کریمﷺنے ہمیشہ وقف کیا اور وصل نہیں کیا۔ایسی آیات تمام شماروں میں بالاتفاق معدود ہیں۔بعض مقامات ایسے ہیں جہاں نبی کریمﷺنے ہمیشہ وصل کیا اور وقف نہیں کیا، ایسے مقامات بالاتفاق تمام شماروں میں متروک ہیں۔بعض مقامات ایسے ہیں جہاں نبی کریمﷺنے کبھی وقف کیا اور کبھی وصل کیا۔اوراہل فن کے لئے یہی مقامِ اختلاف ہے، کیونکہ آپ ﷺ کے وقف کرنے میں اس مقام کے رؤوس آیات میں سے ہونے کا احتما ل ہے اوریہ بھی احتمال ہے کہ آپ نے راحت کے لئے یا تعریف وقف کے لئے وقف کیا ہو اورآپ ﷺ کے وصل کرنے میں اس مقام (جہاں پہلے وقف کیا تھا)کے عدم رؤوس آیات میں سے ہونے کا احتمال ہے اور رأس الآیۃ ہونے کا بھی احتمال رہتا ہے۔ان احتمالات کی موجودگی میں کسی مقام پر آیت ہونے یا نہ ہونے کافیصلہ کرنا اجتہاد کے بغیر نا ممکن تھااور یہی محتمل فیہ مقامات صحابہ کرام کے اجتہاد کرنے کاسبب بنے۔جو در اصل نبی کریمﷺسے ہی ثابت تھے۔ زیر نظر کتاب '' ھدایات الرحیم فی آیات الکتاب الحکیم "شیخ القراء والمقرئین قاری رحیم بخش صاحب پانی پتی کی تالیف ہے۔جس میں انہوں نے قرآن مجید کی آیات کے تمام شماروں کو ایک جگہ جمع فرما دیا ہے۔قاری رحیم بخش صاحب پانی پتی علوم قرآن و قراءات قرآنیہ کے میدان میں بڑا بلند اور عظیم مقام ومرتبہ رکھتے ہیں۔آپ نے علم قراءات پر بیسیوں علمی وتحقیقی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ اللہ تعالی قراء ات قرآنیہ کے حوالے سے سر انجام دی گئی ان کی ان خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
برصغیر پاک وہند کے معروف سیرت نگار اور مؤرخ مولانا سید سلیمان ندوی اردو ادب کے نامور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور چند قابل قدر کتابوں کے مصنف تھے جن میں سیرت النبی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔مولانا سید سیلمان ندوی ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ دیسنہ میں 22 نومبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔تعلیم کا آغاز خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود علی سے کیا۔ اپنے بڑے بھائی حکیم سید ابو حبیب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1899ء میں پھلواری شریف (بہار (بھارت)) چلے گئے جہاں خانقاہ مجیبیہ کے مولانا محی الدین اور شاہ سلیمان پھلواری سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں سے وہ دربانگا چلے گئے اور مدرسہ امدادیہ میں چند ماہ رہے۔1901ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں داخل ہوئے جہاں سات سال تک تعلیم حاصل کی۔ 1913ء میں دکن کالج پونا میں معلم السنۂ مشرقیہ مقرر ہوئے۔1940ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی۔ عالمِ اسلام کو جن علماء پر ناز ہے ان میں سید سلیمان ندوی بھی شامل ہیں۔ انکی علمی اور ادبی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی کی پہلی دو جلدیں لکھ کر 18 نومبر 1914ء کو انتقال کر گئے تو باقی چار جلدیں سید سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔ اپنے شفیق استاد کی وصیت پر ہی دار المصنفین، اعظم گڑھ قائم کیا اور ایک ماہنامہ معارف جاری کیا جو آج بھی جاری وساری ہے ۔ زیرتبصرہ کتاب ’’ حیات سلیمان‘‘ مدارس دینیہ کے نصاب میں شامل کتاب ’’تاریخ اسلام ‘‘ کے مصنف شاہ معین الدین احمد ندوی کی تصنیف ہے ۔ فاضل مصنف نے اس کتا ب کو نو ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔جس میں انہوں نے سید صاحب کے وطن ، خاندان او رتعلیم، دار المصنفین کاقیام اور اس کے کاموں کا آغاز ، قیام بھوپال ، ہجرت اور قیام پاکستان اور ان کے ذاتی حالات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے سید سلیمان ندوی کی زندگی بھر کے احوال و آثار ، حیات وخدمات کو جاننے کے لیےایک جامع کتاب ہے ۔(م۔ا)
تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے ۔ اس کےلیے امانت ودیانت او رصداقت کاہونا از بس ضروری ہے۔مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ تعصب ،حسد بغض، سے کوسوں دور ہو ۔تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہو ۔ذہین وفطین ہو اپنے حافظےپر کامل اعتماد رکھتا ہو۔حالات وواقعات کوحوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو ۔اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتاہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگار ی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور یہ اس کے امتیازات میں سے ہے ۔بے شمارمسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کےعلمی عملی،تصنیفی،تبلیغی اورسائنسی کارناموں کوبڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب’’یادرفتگان‘‘ برصغیر پاک وہند کے معروف سیرت نگار اور مؤرخ مولانا سید سلیمان ندوی کی ان تحریروں اور مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں نےاپنی زندگی میں 1914 ءسے 1953 تک مختلف شخصیات کی وفات پر ان تذکرہ وسوانح کے متعلق تحریر کیے ۔اس کتاب میں 135 شخصیات کی سیرت وسوانح کو جمع کیا گیا ہے یہ مضامین اولاً مختلف رسائل میں شائع ہوئے بعد ازاں کو مرتب کر کے کتابی صورت میں شائع کیاگیا ہے ۔(م۔ا)
علامہ عبدالعزیز میمن 23 اکتوبر، 1888ء کو پڑدھری، راجکوٹ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔راجکوٹ اور جوناگڑھ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دہلی پہنچے جہاں سید نذیر حسین محدث دہلوی سے شرف تلمذ حاصل کرنے کےعلاوہ ڈپٹی نذیر احمد اور دیگر علماء سے اکتساب علم کا موقع ملا۔ 1913ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور پوری یونیورسٹی میں اول آئے۔ ایڈورڈ کالج پشاور، اورینٹل کالج لاہور اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی سے بطور استاد وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں شعبہ تحقیقات اسلامی اور کراچی یونیورسٹی میں شعبۂ عربی قائم کیا پھر 1964ء سے 1966ء تک پنجاب یونیورسٹی میں صدر شعبہ عربی کے فرائض انجام دیے۔پروفیسر علامہ عبدالعزیز میمن پاکستان سے تعلق رکھنے والے عربی زبان و ادب کے نامور عالم، استاد اور 30 سے زیادہ کتابوں کے مصنف، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے صدر تھے۔موصوف عربی لغت کی باریکیوں سے واقفیت کی بناپر دنیا پر چھاگئے اور کی عربی دانی کا پوری دنیا میں ڈنکا پیٹا اور عربوں نے کھل کر نہ صرف یہ کہ ان کا اعتراف کیا بلکہ اس میں ان کی استاذیت تسلیم کی ۔آپ سرعام عرب ادیبوں کوان کی لسانی غلطیوں پر ٹوکنےکی جرءت رکھتے تھے اورعرب ان کو شکریے کےساتھ قبول کرتےتھے۔حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کےطور پر انہیں14 اگست، 1965ء کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔موصوف نے 17اکتوبر 1978 ءکو کراچی میں وفات پائی ۔ زیرتبصرہ کتاب ’’علامہ عبد العزیز میمن سوانح اور علمی خدمات ‘‘ محمد راشد شیخ کی تصنیف ہے یہ کتاب علامہ میمن کے حالات زندگی اور علمی خدمات پر اردو زبان میں اولین کتاب ہے فاضل مصنف یہ کتاب کسی یونیورسٹی سے حصول ڈگر ی کےلیے نہیں لکھی بلکہ عربی زبان سے محبت اور عربی زبان وادب کی ایک عبقری شخصیت سے اردو قارئین کوآگاہ کرنے کےلیے مرتب کی ہے ۔(م۔ا)
علامہ شبلی نعمانی اردو کے مایہ ناز علمی و ادبی شخصیات میں سے ہیں۔ خصوصاً اردو سوانح نگاروں کی صف میں ان کی شخصیت سب سے قدآور ہے۔ مولانا شبلی نے مستقل تصنیفات کے علاوہ مختلف عنوانات پر سیکڑوں علمی و تاریخی و ادبی و سیاسی مضامین لکھے جو اخبارات و رسائل کے صفحات میں منتشر ہیں ۔شبلی نعمانی 1857ء اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ۔۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد شیخ حبیب اللہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی سے ریاضی، فلسفہ اور عربی کا مطالعہ کیا۔ اس طرح انیس برس میں علم متدادلہ میں مہارت پیدا کر لی۔ 25 سال کی عمر میں شاعری، ملازمت، مولویت کے ساتھ ہر طرف کوشش جاری رہی،1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ وہاں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1882 میں شبلی نے ’’علی گڑھ کالج‘‘ سے تعلق جوڑ لیا۔ یہاں وہ عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہاں سر سید سے ملے ان کا کتب خانہ ملا، یہاں تصانیف کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے اردو ادب کے دامن کو تاریخ، سیرت نگاری، فلسفہ ادب تنقید اور شاعری سے مالا مال کردیا، سیرت نگاری، مورخ، محقق کی حیثیت سے کامیابی کے سکے جمائے 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ چلے گئے۔ 1913ء میں دارالمصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ حیات شبلی‘‘ علامہ شبلی نعمانی کے نامور شاگرد اور کی رفاقت میں 8برس گزارنے والے مولانا سید سلیمان ندوی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی کے سوانح حیات اور ان کےعلمی وعملی کارنوں کو بڑی تفصیل سے پیش کیا ہے ۔مولانا شبلی کی حیات وخدمات پر یہ ایک مستند کتاب ہے ۔(م۔ا)
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار، اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت و بیان کے ذریعے انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل و براہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔ اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہے جسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس و تقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے ۔اس لیے خطبا حضرات کے لیےضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت،معاملات میں درستگی،آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیرتبصرہ کتاب ’’ خطبات رحمٰن‘‘ مولانا فضل الرحمٰن ہزاروی کےخطبات کا مجموعہ ہے ۔ انہوں نے اس میں قرآن وسنت کی روشنی میں 29 مضامین شامل کیے ہیں۔ ان میں کچھ تقاریر ، خطبات جمعہ اور کچھ دروس قرآن ہیں۔ یہ مجموعہ طلباء وخطباءاور عوام الناس کے لیے بھی مفید ہے۔ (م۔ا)
فلسفہ یونانی لفظ فلوسوفی یعنی حکمت سے محبت سے نکلا ہے۔ فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں، لہذا ازمنہ قدیم سے اس کی تعریف متعین نہ ہوسکی۔فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اغراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ افلاطون کے مطابق فلسفہ اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے۔ جبکہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہیں۔ کانٹ اسے ادراک و تعقل کے انتقاد کا علم قرار دیتا ہے۔فلسفہ کو ان معنوں میں ’’ام العلوم‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ یہ موجودہ دور کے تقریباً تمام علوم کا منبع و ماخذ ہے۔ ریاضی، علم طبیعیات، علم کیمیا، علم منطق، علم نفسیات، معاشرتی علوم سب اسی فلسفہ کے عطایا ہیں۔ پانی کے اجزائے ترکیبی عناصر (آکسیجن ، ہائیڈروجن) معلوم کرنا سائنس ہے اور یہ دریافت کرنا کہ کیا اس ترکیب اور نظام کے پیچھے کوئی دماغ مصروف عمل ہے ؟ فلسفہ ہے ۔ اقوام عالم کے عروج و زوال پر بحث کرنا تاریخ ہے اور وہ قوانین اخذ کرنا جو عروج و زوال کا باعث بنتے ہیں ۔ فلسفہ ہے ۔ فلسفی کائناتی مسائل کی حقیقت تلاش کرتا اور اقدار و معانی کا مطالعہ کرتا ہے ۔ افلاطون کہتا ہے کہ فلسفہ تلاش حقیقت کا نام ہے ۔ رواقیہ کے ہاں علم ، نیکی ، فضیلت اور ایسی دانش حاصل کرنے کا نام فلسفہ ہے جو خدائی مشیت سے ہم آہنگ کر دے ۔ زیر تبصرہ کتاب" فلسفیوں کا انسائیکلوپیڈیا، فلسفے اور فلسفیوں کی اڑھائی ہزار سالہ تاریخ"محترم یاسر جواد صاحب کی تصنیف ہے جواسی فلسفے اور فلسفیوں کی اڑھائی ہزار سالہ تاریخ پر مبنی ہے۔(راسخ)
امام احمد بن حنبل( 164ھ -241) بغداد میں پیدا ہوئے ۔ آپ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 179ھ میں علم حدیث کے حصول میں مشغول ہوئے جبکہ اُن کی عمر محض 15 سال تھی۔ 183ھ میں کوفہ کا سفر اختیار کیا اور اپنے استاد ہثیم کی وفات تک وہاں مقیم رہے، اِس کے بعد دیگر شہروں اور ملکوں میں علم حدیث کے حصول کی خاطر سفر کرتے رہے۔امام احمد جس درجہ کے محدث تھے اسی درجہ کے فقیہ اورمجتہد بھی تھے۔ حنبلی مسلک کی نسبت امام صاحب ہی کی جانب ہے۔ اس مسلک کا اصل دار و مدار نقل و روایت اور احادیث و آثار پر ہے۔ آپ امام شافعیکے شاگرد ہیں۔ اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیثمیں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ مسئلہ خلق قرآن میں خلیفہ معتصم کی رائے سے اختلاف کی پاداش میں آپ نے کوڑے کھائے لیکن غلط بات کی طرف رجوع نہ کیا۔ آپ کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتے لیکن غلط بات کی تصدیق سے انکار کر دیتے۔ انہوں نے حق کی پاداش میں جس طرح صعوبتیں اٹھائیں اُس کی بنا پر اتنی ہردلعزیزی پائی کہ وہ لوگوں کے دلوں کے حکمران بن گئے۔ آپ کی عمر کا ایک طویل حصہ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں بسر ہوا۔ پاؤں میں بیڑیاں پڑی رہتیں، طرح طرح کی اذیتیں دی جاتیں تاکہ آپ کسی طرح خلق قرآنکے قائل ہو جائیں لیکن وہ عزم و ایمان کا ہمالہ ایک انچ اپنے مقام سے نہ سرکا۔ حق پہ جیا اور حق پہ وفات پائی۔ امام صاحب نے 77سال کی عمر میں 12 ربیع الاول214ھ کوانتقال فرمایا۔ اس پر سارا شہر امنڈ آیا۔ کسی کے جنازے میں خلقت کا ایسا ہجوم دیکھنے میں کبھی نہیں آیا تھا ۔ جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد محتاط اندازہ کے مطابق تیرا لاکھ مرد اور ساٹھ ہزار خواتین تھیں۔(وفیات الاعیان : 1؍48) حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام صاحب کایہ قول اللہ تعالیٰ نےبرحق ثابت کردیا کہ : ’’ان اہل بدع ،مخالفین سے کہہ دوکہ ہمارے اور تمہارے درمیان فرق جنازے کے دن کا ہے (سیراعلام النبلاء:11؍343)امام صاحب نے کئی تصنیفات یادگار چھوڑیں۔ ان کی سب سے مشہوراور حدیث کی مہتم بالشان کتاب ’’مسنداحمد‘‘ ہے ۔ اس سے پہلےاور اس کے بعد مسانید کے کئی مجموعے مرتب کیے گئے مگر ان میں سے کسی کو بھی مسند احمد جیسی شہرت، مقبولیت نہیں ملی ۔ ۔ مسنداحمد کی اہمیت کی بنا پر ہر زمانہ کے علما نے اس کے ساتھ اعتنا کیا ہےاور یہ نصاب درس میں بھی شامل رہی ہے۔ بہت سے علماء نے مسند احمد کی احادیث کی شرح لکھی بعض نے اختصار کیا بعض نےاس کی غریب احادیث پر کام کیا۔ بعض نے اس کے خصائص پر لکھا اوربعض نےاطراف الحدیث کا کام کیا ۔ مصر کے مشہور محدث احمد بن عبدالرحمن البنا الساعاتی نے الفتح الربانى بترتيب مسند الامام احمد بن حنبل الشيباني کے نام سے مسند احمد کی فقہی ترتیب لگائی اور بلوغ الامانى من اسرار الفتح الربانى کے نام سے مسند احمد پر علمی حواشی لکھے ۔اور شیخ شعیب الارناؤوط نے علماء محققین کی ایک جماعت کے ساتھ مل کر الموسوعة الحديثية کے نام سے مسند کی علمی تخریج او رحواشی مرتب کیے جوکہ بیروت سے 50 جلدوںمیں شائع ہوئے ہیں۔مسند احمد کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اسے اردو قالب میں بھی ڈھالا جاچکا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ حیات امام احمد بن حنبل ‘‘ مصر کے معروف مصنف کتب کثیرہ اور سوانح نگار شیخ محمد ابو زہرہ مصری کی عربی تصنیف کا اردو ترجمہ ہے اس کتاب میں فاضل مصنف نے امام احمد بن حنبل کی حیات خدمات، مسلک وعقیدہ ،امام احمد بن حنبل کا منہج، بیان کرنے کے علاوہ فقہ حنبلی کی اہمیت، امام موصوف کا ائمہ ثلاثہ کے نظریات ومسالک سے اختلافات اور اس کے اسباب، عہد حاضر میں حنبلی مذہب، سعودی حکومت او رحنبلی مذہب جیسے عنوانات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ کتاب ہذا میں ’’ مصالح‘‘ کےعنوان پر بحث کرتے ہوئے مصنف نے فقہ حنبلی کی جس وسعت کاذکر کیا ہے ۔ اس کامطلب شریعت اور قانون اسلامی کو کھیل بنانا نہیں بلکہ فقہ حنبلی میں مصالح اور سد ذرائع دونوں اصول ساتھ ساتھ چلتے ہیں اوردرحقیقت دونوں ہی کو ضابطے کےطور پر نافذ کرنے سے اعتدال قائم رہتا اور شریعت کامقصود قیام امن وعدل وانصاف پورا ہوتا ہے۔ یہ کتاب اگرچہ بہت سے محاسن کی حامل ہے مگر اس میں بعض جگہ مصنف سے فاش غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں او ر امام احمد بن حنبل اور محدثین کے بنیادی مسلک کے خلاف بعض مسائل میں انہوں نے اپنی رائے ظاہر کی ہے مثلاً مسئلہ خلق قرآن میں۔ لیکن کتاب کے ناشر شیخ الحدیث مولانا محمدعطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے ایسے مقامات کی حواشی مین نشان دہی کردی ہے او رمدلل طور پر ثابت کیا ہے کہ اس مذکورہ مسئلہ میں مسلک امام احمد اور محدثین کاہی حق تھا۔ اور معتزلہ کا سراسر باطل تھا۔ ان حواشی سے کتاب کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ (م۔ا)
علماء علوم نبوت کے وارثوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہماری اسلامی درسگاہیں انہی علوم ِنبوت کی درس وتدریس، تعلیم وتعلم اوراس حوالے سے تزکیۂ نفوس کے ادارے ہیں۔برصغیر میں اسلامی درسگاہوں کی ایک مستقل اورمسلسل روایت رہی ہے۔ اٹھارویں صدی میں شاہ ولی اللہ کےخاندان نے اس روایت کا سب سےروشن مرکز تشکیل دیا۔ اس خاندان کےایک چشم وچراغ شاہ محمداسحاق دہلوی سے سید نذیر حسین محدث دہلوی نے تیرہ سال تک تعلیم حاصل کی ۔شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی نے کامل 63 سال تک درس وتدریس کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ برصغیر میں علم حدیث کی تدریس کا سب سے مضبوط مرکز اور قلعہ انہیں کی قائم کردہ درسگاہ تھی ۔جس میں شبہ قارہ کے ہر حصے سےطلبہ استفادے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ایسے ہی تلامذہ میں ایک تلمیذ الرشید حافظ عبد المنان وزیرآبادی ہیں۔بیسویں صدی میں علوم حدیث کی روایت کومستحکم کرنے میں حافظ عبد المنان وزیر آبادی نےپنجاب میں سب سے زیاد فیض رسانی کےاسباب پیدا کیے ۔ حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی اپنےعہد میں پنجاب میں حدیث کے سب سے ممتاز استاد تھےجن کے تلامذہ پنجاب کےہر حصے میں بالعموم اوراس علمی اور سلفی روایت کے چراغ روشن کرتے رہے۔ مولانا حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی کو اللہ تعالیٰ نے اگرچہ ظاہری آنکھوں سے محروم کردیا تھا مگر ان کی دل کی آنکھیں روشن فرمادی تھیں۔ آپ کا شمار ممتاز محدثین میں ہوتا ہے شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محددہلوی نےاپنے اس شاگرد کو جوعمامہ عطا فرمایا تھا اس عظیم شاگرد نے اس عمامے کاحق ادا فرمادیا۔ پوری زندگی درس حدیث دیا ۔ مسند حدیث پر فائز ہونے کے بعد آپ نے اپنی زندگی میں 100 مرتبہ درس بخاری دیا۔ ایسی مثالیں اسلامی تاریخ میں نظر نہیں آتیں۔ زیرتبصرہ کتاب’’ حافظ عبدالمنان وزیرآبادی ‘‘ مولانامنیر احمد السلفی کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے استاد پنجاب سید نذیر حسین محدث دہلوی کے نامور شاگرد حافظ المنان وزیر آبادی کے ابتدائی حالات،تعلیم، تحصیل علم کے لیے دوردراز کے اسفار، تحصیل علم سے فراغت کے بعد تعلیم وتدریس، ان کی زندگی کے حالات وواقعات، مسجدمدرسہ او رکتب خانہ اور محدث پنجاب کے سانحہ ارتحال کوحوالہ قرطاس کیا ہے۔ (م۔ا)