ابن رشد کا پورا نام"ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن رشد القرطبی الاندلسی" ہے۔آپ 520 ہجری کو پیدا ہوئے۔آپ نے فلسفہ اور طبی علوم میں شہرت پائی۔آپ نہ صرف فلسفی اور طبیب تھے بلکہ قاضی القضاہ اور کمال کے محدث بھی تھے۔نحو اور لغت پر بھی دسترس رکھتے تھے ساتھ ہی متنبی اور حبیب کے شعر کے حافظ بھی تھے۔ آپ انتہائی با ادب، زبان کے میٹھے، راسخ العقیدہ اور حجت کے قوی شخص تھے۔آپ جس مجلس میں بھی شرکت کرتے تھے ان کے ماتھے پر وضو کے پانی کے آثار ہوتے تھے۔ان سے پہلے ان کے والد اور دادا قرطبہ کے قاضی رہ چکے تھے۔ انہیں قرطبہ سے بہت محبت تھی۔ ابنِ رشد نے عرب عقلیت پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں، اور یہ یقیناً ان کی اتاہ محنت کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی تلاش اور صفحات سیاہ کرنے میں گزاری۔ ان کے ہم عصر گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں سوائے دو راتوں کے کبھی بھی پڑھنا نہیں چھوڑا۔ پہلی رات وہ تھی جب ان کے والد کا انتقال ہوا، اور دوسری رات جب ان کی شادی ہوئی۔انہیں شہرت کی کبھی طلب نہیں رہی، وہ علم ومعرفت کے ذریعے کمالِ انسانی پر یقین رکھتے تھے، ان کے ہاں انسان نامی بولنے اور سمجھنے والی مخلوق کی پہچان اس کی ثقافتی اور علمی ما حاصل پر ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" ابن رشد وفلسفہ ابن رشد "موسیو رینان کی انگریزی تصنیف ہے، جس کا اردو ترجمہ محترم مولوی معشوق حسین خان(علیگ)نے کیا ہے۔اس کتاب میں مصنف نے ابن رشد اور اس کے فلسفے پر روشنی ڈالی ہے اور پھر ابن رشد کے فلسفے کی چند درسگاہوں کا تذکرہ کیا ہے۔(راسخ)
علم وعمل کے اعتبار سے برصغیر کی سرزمین ہمیشہ سرسبز وشادات رہی ہے ۔ اس میں مختلف اوقات میں بے شماراصحاب علم اور ارباب فضل پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے دور میں بے پناہ علمی خدمات سرانجام دیں اور عملی میدان میں بھی بے حد تگ وتاز کی ۔ تدریس وتصنیف ، تبلیغ واشاعت دین ، وعظ ونصیحت غرض ہر شعبۂ عمل ان کا سلسلہ جدوجہد جاری رہا۔انہی شخصیات کی فہرست میں تحریک پاکستان اور تحریک ختم نبوت میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنےوالے عظیم مجاہد علامہ یوسف کلکتوی کا نام گرامی بھی شامل ہے ۔ موصوف سن 1900ء میں گوداس پور کے ایک قصبہ بھٹویہ تحصیل دینا نگر میں پیدا ہوئے او راپنے عہد کے متعدد جلیل القدر علمائے کرام سےاستفادہ کیا ۔پھر ایک وقت آیا کہ خود مسندِ تدریس پر فائز ہوئے اور خطابت وتقریر میں بھی بڑا نام پایا۔موصوف پُر جوش خطیب تھے کلکتہ میں خطابت کے ساتھ ساتھ سیاہی وعطریات کا کاروباربھی کرتے تھے ۔خود کماکر اپنی گھریلو ضروریات پوری کرتے تھے ۔انہوں نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور تحریک پاکستان کے سلسلے میں پورے بنگال میں سرگرم عمل رہے ۔قیام پاکستان کےبعد کراچی آگئے اور اسی شہر میں اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور اس کےساتھ ساتھ انہوں نےتدریس وخطابت کاسلسلہ بھی جاری رکھا ۔ان کےتلامذہ کا حلقہ بڑا وسیع ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ علامہ یوسف کلکتوی ‘‘ ملک بشیراحمد کی کاوش ہے ۔موصوف کو مولانا کلکتوی کے ساتھ دس سال رفاقت کا موقع ملا۔مصنف نےاپنے انداز میں مولانا کلکتوی کے علمی اور عملی کارناموں کو ضبط تحریر میں لانے کا اہتمام کیا ہےبے حد محنت سے ان کی زندگی کےمختلف کارناموں کو سپرد قلم کرنےکی کوشش کی ہے یہ کتاب اولاً جامعہ ابن تیمیہ ،لاہور کےترجمان مجلہ نداء الجامعہ میں قسط وار شائع ہوتی رہی بعد ازاں قارئین کےاصرار پر مصنف کے صاحبزادے مولانا شفیق الرحمٰن فرخ ﷾( فاضل جامعہ ابی بکر ،کراچی ،ایڈیٹر مجلہ نداء الجامعہ ،لاہور ) نے اسے مرتب کر کے مزید اضافہ جات کےساتھ اسے کتابی صورت میں شائع کیا ۔(م۔ا)
اورنگزیب عالمگیر3 نومبر ،1618ء کو مالوہ کی سرحد پر پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ارجمند بانو بیگم تھیں۔ جو ممتاز محل کے نام سے مشہور تھیں۔ اورنگ زیب کی عمر دو سال کی تھی کہ شاہجہان نے اپنے باپ جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی۔ اورنگزیب عالم گیر پہلے بادشاہ ہیں جنھوں نے قرآن شریف حفظ کیا اور فارسی مضمون نویسی میں نام پیدا کیا۔ اس کے علاوہ گھڑ سواری ، تیراندازی ، اور فنون سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا۔ سترہ برس کی عمر میں 1636ء دکن کے صوبیدار مقرر ہوے۔ اس دوران میں اس نے کئی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اور چند نئے علاقے فتح کیے۔ بلخ کے ازبکوں کی سرکوبی جس جوانمردی سے کی اس کی مثال تاریخ عالم میں مشکل سے ملے گی۔ان کا دورِ حکومت 1658ء تا 1707ء ہےاورنگزیب ابوالمظفر محی الدین کے لقب سے تخت پر بیٹھا اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال ، نجومی ، شاعر موقوف کر دئیے گئے۔ شراب ، افیون اور بھنگ بند کردی ۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹا دیے۔ 1665ء میں آسام ، کوچ بہار اور چٹاگانگ فتح کیے اور پرتگیزی اور فرنگی بحری قزاقوں کا خاتمہ کیا۔ عالمگیر احمد نگر میں بیمار ہوا اور 3 مارچ، 1707ء کو نوے برس کی عمر میں فوت ہوا۔ وصیت کے مطابق اسے خلد آباد میں دفن کیا گیا۔ ۔ اورنگ زیب بڑا متقی ، پرہیز گار ،مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھا۔ خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا۔ سلجھا ہوا ادیب تھا۔ اُس کے خطوط رقعات عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ اس کے حکم پر نظام سلطنت چلانے کیلیے ایک مجموعہ فتاوی تصنیف کیا گیا جسے تاریخ میں فتاوی عالمگیری کے نام سے یادکیا جاتا ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ حنفی میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’اورنگ زیب عالمگیر‘‘ علامہ شبلی نعمانی اور ڈاکٹر اوم پرکاش پرشادکے دومضامین کا مجموعہ ہے ۔علامہ شبلی نعمانی نے اپنے مضمون میں مضبوط دلائل کےذریعے اورنگ زیب کی شخصیت پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔اور ڈاکٹر اوم پرکاش ہے اورنگ زیب کوان کی مسلم شناخت سے ہٹ کر ایک ایسے حکمران کے روپ میں دکھایا ہے ۔ جو ہندو مسلم سب کا شہنشاہ تھا۔ جس نے اپنی رعایا کی بہتری کے لیےحتی المقدور کوشش کی ۔(م۔ا)
اسلام اپنے ماننے والوں سے مکمل سپردگی اور کامل اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔مسجد سے بازار تک، مدرسہ سے اسمبلی تک ہر جگہ شریعت کے احکام کی مخلصانہ پیروی اور اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا مطلوب ہے۔دین میں کسی کتر بیونت، کانٹ چھانٹ کی اجازت ہر گز نہیں ہے۔عبادات مشروعہ میں کامل انہماک، اخبات وانابت اور اخلاص وللہیت بدرجہ اولی ہر مومن پر واجب ہے۔اسلام، ایمان اور احسان کے ارتقائی مراحل طے کر کے ہی بندہ مومن خدا رسیدہ بنتا ہےاور اخروی انعامات کا مستحق قرار پاتا ہے۔بالکل اسی طرح دین کی دعوت واقامت، تجدید واصلاح، معاشرہ میں اسلام کے احیا وغلبہ کی منصوبہ بندی،منکر کو روکنے کی جدوجہد، طاغوت کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش اور اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف معرکہ آرائی بھی بندہ مومن کے فرائض میں شامل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" احیائے دین اور ہندوستانی علما، نظریاتی تفسیر اور عملی جد وجہد"علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر محترم ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے احیائے دین کے سلسلے میں نظریاتی تفسیر اور عملی میدان میں ہندوستانی علماء کی خدمات پر روشی ڈالی ہے۔(راسخ)
امام محمد ابو حامد الغزالی اسلام کے مشہور مفکر اور متکلم تھے۔ 450ھ میں طوس میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں حاصل کی ۔نیشا پور سے وزیر سلاجقہ نظام الملک طوسی کے دربار میں پہنچے اور 484ھ میں مدرسہ بغداد میں مدرس کی حیثیت سے مامور ہوئے۔ جب نظام الملک اور ملک شاہ کو باطنی فدائیوں نے قتل کردیا تو انہوں نے باطنیہ، اسماعیلیہ اور امامیہ مذاہب کے خلاف متعدد کتابیں لکھیں ۔ اس وقت وہ زیادہ تر فلسفہ کے مطالعہ میں مصروف رہے جس کی وجہ سے عقائد مذہبی سے بالکل منحرف ہو چکے تھے۔ ان کا یہ دور کئی سال تک قائم رہا۔ لیکن آخر کار جب علوم ظاہری سے ان کی تشفی نہ ہوئی تو تصوف کی طرف مائل ہوئے اور پھر خدا ،رسول ، حشر و نشر تمام باتوں کے قائل ہوگئے۔488ھ میں بغداد چھوڑ کر تلاش حق میں نکل پڑے اور مختلف ممالک کا دورہ کیے۔ یہاں تک کہ ان میں ایک کیفیت سکونی پیدا ہوگئی اور اشعری نے جس فلسفہ مذہب کی ابتدا کی تھی۔ انہوں نے اسے انجام تک پہنچا دیا۔ ان کی کتاب’’ المنقذ من الضلال‘‘ ان کے تجربات کی آئینہ دار ہے۔ اسی زمانہ میں سیاسی انقلابات نے ان کے ذہن کو بہت متاثر کیا اور یہ دو سال تک شام میں گوشہ نشین رہے۔ پھر حج کرنے چلے گئے ۔ اور آخر عمر طوس میں گوشہ نشینی میں گزاری۔امام غزالی نے بیسیوں کتب تصنیف کیں جن میں مشہور تصانیف احیاء العلوم، تحافتہ الفلاسفہ، کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب ہیں۔ ان کا انتقال 505ھ کو طوس میں ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب’’الغزالی ‘‘ہندوستان کے معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی کی تصنیف ہے انہوں اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں علم کلام کی ابتداء اس کی مختلف شاخیں، عہد بعہد کی تبدیلیاں اور ترقیاں۔ دوسرے حصے میں علم کلام نےاثبات اورابطال فلسلفہ کے متعلق کیا کیا اور کس حد تک کامیابی حاصل کی۔ اور تیسرے حصے میں ائمہ علام کلام کی سوانح عمریاں اس میں امام غزالی کے تفصیلی حالات قلم بند کیے ہیں ۔اور چوتھے حصے میں جدیدعلم کلام کو بیان کیا ہے ۔(م۔ا)
قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو تاقیامت انسانیت کے لیے ذریعہ ہدایت ہے ۔ اسی پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں سربلند ی او ر آخرت میں نجات کا حصول ممکن ہے لہذا ضروری ہے اس کے معانی ومفاہیم کوسمجھا جائے ،اس تفہیم کے لیے درس وتدریس کا اہتمام کیا جائے او راس کی تعلیم کے مراکز قائم کئے جائیں۔ قرٖآن فہمی کے لیے ترجمہ قرآن اساس کی حیثیت رکھتا ہے ۔آج دنیاکی کم وبیش 103 زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم شائع ہوچکے ہیں۔جن میں سے ایک اہم زبان اردو بھی ہے ۔اردو زبان میں اولین ترجمہ کرنے والے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دو فرزند شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری وساری ہے ۔تقسیم ہند سے قبل اور بعد میں قرآن مجید کے کئی تراجم ہوچکے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’پاکستان میں قرآن مجید کےتراجم وتفاسیر1947ءتا حال‘‘علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شبعہ قرآن وتفسیر کے چیئر مین پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر خان خاکوانی کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب انہوں نے اوپن یونیورسٹی کے ایم اے علوم اسلامیہ کے طلبہ کے لیے تصنیف کی ہے ۔اس میں انہوں نےعلم تفسیر کا مفہوم اور ارتقاء، ترجمہ کا مفہوم اور اقسام اور پاکستان میں ترجمہ نگاری کا ایک تاریخی جائزہ اور پاکستان میں تفسیر نگاری ، پنجابی ، پشتو، سندھی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں قرآن مجید کی تفاسیر اور تراجم کے بارے میں معلومات مہیا سپرد قلم کی ہیں۔(م۔ا)
قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے، او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہےکہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتب احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے ہیں ۔تاکہ خدمت قرآن کے عظیم الشان شرف سے مشر ف ہوں۔لیکن قرآن مجید کے مطالعہ سے پہلے اس کے اصول ومبادی کو دیکھنا ضروری ہے تاکہ انسان صحیح معنوں میں استفادہ کر سکے۔ زیرتبصرہ کتاب '' قرآن پاک کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟''پاکستان کے معروف عالم دین محتر م مولانا عبید اللہ سندھی صاحبکی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے مطالعہ قرآن کے اصول ومبادی کو بیان کیا ہے۔یہ رسالہ دراصل مولانا کا وہ خطبہ صدارت ہے جو 1914ء میں آپ نے غالبا آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس راولپنڈی میں پڑھا تھا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس عظیم خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ (آمین)(راسخ)
رمضان المبارک قرآن پاک کےنزول کا مہینہ ہے ۔ قرآن اسلامی تعلیمات کا ماخذ ِ اوّل اور رسول اللہﷺ کا ابدی معجزہ ہے۔رمضان المبارک میں جبریل امین آپ ﷺ کی پاس آتے اور آپ کے ساتھ قرآن کادور کرتے ۔ رسو ل اللہ ﷺ ماہ رمضان میں رات کی عبادت میں غیرمعمولی مشقت اٹھاتے اورگھر والوں اور صحابہ کرام کو قیام الیل کی ترغیب دلاتے ۔اور اپنی زبانِ رسالت سے رمضان میں قیام اللیل کی ان الفاظ میں’’من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ‘‘ فضیلت بھی بیان کی ۔سیدنا عمرفاروق کے عہد خلافت میں صحابہ کرام کے مشوورہ سے رمضان المبارک کی راتوں میں تراویح باجماعت پڑھنا مقرر ہوا ۔ جس میں امام جہری قراءت کرتا اور مقتدی سماعت سےمحظوظ ہوتے ۔ لیکن ارض ِپاک وہند میں ہماری مادری زبان عربی نہیں اس لیے ہم امام کی تلاو ت سنتے تو ہیں لیکن اکثر احباب قرآن کریم کے معنیٰ اور مفہوم سےنابلد ہیں جس کی وجہ سے اکثر لوگ اس مقدس کتاب کی تعلیمات اور احکامات سے محروم رہتے ہیں۔تو اس ضرورت کے پیش نظر بعض مساجد میں اس بات کا اہتمام کیاگیا کہ قراءت کی جانے والی آیات کا خلاصہ بھی اپنی زبان میں بیان کردیا جائے ۔اور بعض اہل علم نے اس کو تحریر ی صورت میں مختصراً مرتب کیا ۔ تاکہ ہر کوئی قرآن کریم سنے اور سمجھے اور اس کے دل میں قرآن مجید کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کاشوق پیدا ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ فہم مضامین قرآن ‘‘ محترم جناب سرفراز محمد بھٹی کی کاو ش ہے انہوں نے کلام اللہ کے تیس پاروں کا خلاصہ تحریری صورت میں مرتب کر کے افادۂ عام کےلیےنہایت آسان سلیس ارد ومیں پیش کیا ہے ۔قارئین کی دلچسپی اور افادۂ عام کے لیے ہررکوع کا الگ الگ خلاصہ تحریر کیا ہے ۔ رمضان المبارک میں تراویح سے قبل یا بعد اگرروزانہ نصف گھنٹہ میں یہ خلاصہ سنانے کااہتمام ہوجائے تو تعلیمات قرآن کو عام کرنے کی یہ نہایت کامیاب اور مؤثر صورت ہوگی۔(م۔ا)
قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے، او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہےکہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتب احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے ہیں ۔تاکہ خدمت قرآن کے عظیم الشان شرف سے مشر ف ہوں۔ پاکستانی تعلیمی اداروں میں باقاعدہ قرآن مجید کی تعلیم دی جاتی ہے اور کورسز کروائے جاتے ہیں اور ان کے نصاب کی مطبوعہ کتب موجود ہیں۔ کتاب وسنت ڈاٹ کام پر جہاں مذہبی ، دینی، اور علمی وتحقیقی کتب اپلوڈ کی جاتی ہیں ۔وہاں مدارس وسکولز اور کالجز ویونیورسٹیز کے طلباء کی سہولت کے لئے نصابی کتب کو بھی ترجیحی طور پر اپلوڈ کیا جاتا ہے، تاکہ طلباء بآسانی ان کتب کو حاصل کر سکیں اور علمی ونصابی تیار بھر پور طریقے سے کر سکیں ۔ زیرتبصرہ کتاب '' مطالعہ قرآن حکیم برائے ایم اے علوم اسلامیہ، کوڈ نمبر 971'' محترم پروفیسر محمد فضیل ہاشمی صاحب کی کاوش ہے، جس کی نظر ثانی محترم پروفیسر محمد طفیل ہاشمی صاحب نے کی ہے۔ اس کتاب کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد کے شعبہ قرآن وتفسیر نے بطور سلیبس کے شائع کیا ہے۔یہ کورس تین حصوں پر مشتمل ہے:1۔اصول تفسیر 2۔ تاریخ تفسیر اور3۔ مطالعہ متن قرآن۔امید واثق ہے کہ اگر کوئی طالب علم اس کتاب سے تیاری کر کے امتحان دیتا ہے تو وہ ضرور اچھے نمبروں سے پاس ہوگا۔ان شاء اللہ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور تمام مسلمانوں کو دنیوی واخروی تما م امتحانوں میں کامیاب فرمائے۔آمین(راسخ)
ہم اپنی روز مرہ زندگی میں جو تصدیقات قائم کرتے ہیں ان میں سے چند ایسی تصدیقات کو الگ کرنا نہایت آسان ہے جن کی صداقت سے اخلاقیات بلا شبہ سروکار رکھتی ہے۔جب کبھی ہم کہتے ہیں کہ"فلاں شخص اچھا ہے"یا"فلاں آدمی برا ہے"، جب کبھی ہم پوچھتے ہیں کہ "مجھے کیا کرنا چاہئے؟"یا"کیا ایسا کرنا میرے لئے نادرست ہے؟"جب کبھی ہم یہ کہنے کی جرات کرتے ہیں کہ "عفت فضیلت ہے اور مے نوشی رذالت ہے" تو بلا شبہ یہ اخلاقیات ہی کاکام ہے کہ وہ اس قسم کے سوالات اور بیانات پر بحث کرے۔علاوہ ازیں اخلاقیات کے ذمے یہ کام بھی ہے کہ وہ ہمارے ان بیانات کو جو افراد کے اخلاقسے یا ان کے افعال کے اخلاقی پہلو سے متعلق ہوتے ہیں، غلط یا صحیح ٹھہرانے کے اسباب بیان کرے۔اکثر حالتوں میں ہم"فضیلت، رذالت،فرائض، درست، خیر،شر"جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، جن میں ہم اخلاقی حکم لگا رہے ہوتے ہیں، اگر ہم ان احکام کی صداقت کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اخلاقیات کے کسی نہ کسی نکتے پر بحث کرنا ہوگی۔ زیر تبصرہ کتاب" اصول اخلاقیات "محترم جارج ایڈورڈمور کی انگریزی تصنیف ہے جس کا اردو ترجمہ محترم پروفیسر عبد القیوم صاحب نے کیا ہے۔مولف موصوف نے اس کتاب میں اخلاقیات کے اصول بیان کئے ہیں۔(راسخ)
مفتی محمد تقی احمد عثمانی تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کی پیدائش 1943ءمیں ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹراور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مشہور عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1980ء سے 1982ء تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002ء تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ متعدد اسلامی بینکوں میں بحیثیت مشیر کام کررہے ہیں ۔موصوف تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اسکے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے ہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ نیز تصنیف وتالیف اور مضمون نگار ی میں آپ کی نمایاں خدمات ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تبصرے‘‘ مولانا تقی عثمانی کے متعدد کتابوں پرتحریر کئے گئے ان علمی تبصرووں کا مجموعہ ہے جو محتلف اوقات میں دارالعلوم کراچی کے ترجمان ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ میں شائع ہوتے رہے ۔ان تمام مطبوعہ تبصروں کو مولانا محمد حنیف خالد(مدرس دار العلوم ،کراچی) نے یکجا کر کے بہ ترتیب حروف تہجی مرتب کیا ہے۔(م۔ا)
مستشرقین سے مراد وہ غیرمسلم دانشور حضرات ہیں جو چاہے مشرق سے تعلق رکھنے والے ہوں یا مغرب سے کہ جن کا مقصد مسلمانوں کے علوم وفنون حاصل کرکے ان پر قبضہ کرنا اور اسلام پر اعتراضات کرنا ہے اور مسلمانوں کے ہاتھوں صلیبی جنگوں میں ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینا ہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے قرآن وحدیث ،سیرت اور اسلامی تاریخ کو بطور خاص اپنا ہدف بنایا ہے وہ انہیں مشکوک بنانے کےلیے مختلف ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہیں ۔مستشرقین نے اپنے خاص اہداف اوراغراض ومقاصد کو مد نظر رکھ کر قرآن ،حدیث اورسیرت النبی ﷺ کے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایاتو مستشرقین کی غلط فہمیوں ،بدگمانیوں اور انکے شکوک وشبہات کے ردّ میں علماء اسلام نے بھی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’قرآن کریم اور مستشرقین‘‘ محترم ثناء اللہ حسین کی کاوش ہے جسے انہوں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایم اے علوم اسلامیہ کے طلبہ کےلیے مرتب کیا ہے اس میں انہوں نے مستشرقین اور قرآن کریم پر مستشرقین کےاعتراضات کاعلمی ، تنقیدی جائزہ ،علوم القرآن پر مستشرقین کے اعتراضات کا علمی وتنقیدی جائزہ، قرآن کریم کے متعلق بعض مستشرقین کی مثبت آراء اور ان کے اثرات مطالعہ قرآن کےحوالے مستشرقین کےاہم اسالیب اور قرآنیات پر مستشرقین کی مؤلفات کامختصر تعارف پیش کیا ہے۔ (م۔ا)
امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی کی شخصیت برصغیر پاک و ہند میں کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ 28 مارچ 1876ء بمطابق 12 محرم الحرام 1289ھ کو ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں چیلانوالی کے ایک سکھ خاندان میں پیدا ہوئے۔1884ء میں آپ نے اپنے ایک ہم جماعت سے مولانا عبیداللہ پائلی کی کتاب “تحفۃ الہند“ لے کر پڑھی۔ اس کے بعد شاہ اسماعیل شہید کی کتاب “تقویۃ الایمان“ پڑھی اور یوں اسلام سے رغبت پیدا ہوگئی۔ 15 برس کی عمر میں 19 اگست 1887ء کو مشرف با اسلام ہوئے۔اردو مڈل تک کی تعلیم آپ نے جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی۔ پھر قبول اسلام کے بعد 1888ء میں دیوبند گئے اور وہاں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور تفسیر و حدیث، فقہ و منطق و فلسفہ کی تکمیل کی۔1901ء میں گوٹھ پیر جھنڈو میں دالارشاد قائم کیا۔1909ء میں اسیر مالٹا محمود الحسن کے حکم کی تعمیل میں دارالعلوم دیوبند گئے اور وہاں طلباء کی تنظیم “جمیعت الانصار“ کے سلسلے میں اہم خدمات انجام دیں۔1912ء میں دلی نظارۃ المعارف کے نام سے ایک مدرسہ جاری کیا جس نے اسلامی تعلیمات کی اشاعت میں بڑا کام کیا ہے۔ترکی میں 1924ء میں اپنی ذمہ داری پر تحریک ولی اللہ کے تیسرے دور کا آغاز کیا۔ اس موقع پر آپ نے آزادئ ہند کا منشور استنبول سے شائع کیا۔ترکی سے حجاز پہنچے اور 1939ء تک مکہ معظمہ میں رہے۔ اسی عرصہ میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق اور دینی مسائل کو تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ عوام تک پہنچایا۔ساری زندگی قائد حریت کی حیثیت سے اسلامی اور سیاسی خدمات انجام دیتے رہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ خطبات ومقالات مولانا عبید اللہ سندھی ‘‘ مفتی عبد الخالق آزاد کی مرتب شدہ ہے ۔یہ کتاب مولانا سندھی کے تحریک آزادی کے تناظر میں تحریر کئے جانے والے سیاسی، اقتصادی، دستوری وتاریخی مقالات وخطبات کا مجموعہ ہے ۔ مولانا سندھی کے معرکۃ الاراء خطبات او رآئینی دفعات پر مشتمل دستوری خاکے اور جماعتوں کےاغراض ومقاصد بھی اس اس کتاب کا حصہ ہیں۔غرض یہ کتاب مولانا سندھی اور شیخ الہند کے افکار وخیالات کا ایک بہترین مرقع ہے۔مرتب نے تمام مقالات کو سالوں کی ترتیب کے مطابق مرتب کیا ہے۔(م۔ا)
پروفیسر عبد القیوم علمی دنیا خصوصاً حاملین علو م اسلامیہ و عربیہ کے حلقہ میں محتاج تعارف نہیں ۔ موصوف 1909ء کولاہور میں پیدا ہوئے۔پروفیسر مرحوم کےخاندان کی علمی اور دینی یادگاروں میں مسجد مبارک کی تاسیس اور اس کی تعمیر وترقی میں نمایاں حصہ لینابھی شامل ہے ۔ جس میں پروفیسر صاحب کے والد محترم او رنانا مولوی سلطان دونوں کابڑا حصہ ہے ۔آپ کےخاندان کی نیک شہرت کا اندازہ اس ا مر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کےہاں متعدد اہل علم ، مثلاً مولانا قاضی سلیمان سلمان منصورپوری، مولانا سید سلیمان ندوی ، شیخ الاسلام مولانانثاء اللہ امرتسریآمدورفت رکھتے تھے۔پروفیسر صاحب نے ابتدائی عمر میں قرآن مجیدناظرہ پڑھنے کےبعد اپنی تعلیم کا آغاز منشی فاضل کےامتحان سےکیا۔1934ء میں اوری اینٹل کالج سے ایم عربی کا امتحان پاس کیا۔اور پھرآپ نے1939ء سے لے کر1968ء تک تقریباتیس سال کا عرصہ مختلف کالجز میں عربی زبان وادب کی تدریس اور تحقیق میں صرف کیا ۔ لاہور میں نصف صدی سے زیادہ انہوں نےتعلیم وتعلم کی زندگی گزاری۔ ان کے سیکڑوں شاگرد تعلیم تدریس اورتحقیق کے میدان میں مصروف عمل ہیں ۔علمی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی توجہ محبت اور خدمت کا مرکز کالج کی سرگرمیاں ، مقالات نویسی اور مسجد مبارک تھی جس کی وہ بے لوث خدمت کرتے رہے ۔اور مختلف ادوار میں انہوں نے علمی وتحقیقی مقالات بھی تحریر کیے ۔پروفیسر صاحب تقریباً دس سال تک جامعہ پنجاب کی عربک اینڈ پرشین سوسائٹی کےسیکرٹری رہے اور انہوں نے متعد کانفرنسوں میں اعلیٰ تخلیقی وتحقیقی مقالات پیش کیے ۔اور لسان العرب کا ایسا اشاریہ تیار کیا جسے اندروں وبیرون ملک کے ماہرین نےبے حد سراہا۔ ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ مقالات پروفیسر عبدالقیوم ‘‘ پروفیسر عبدالقیوم کے تحریر کردہ علمی وتحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے ۔ان مضامین کو موصوف نے خودہی مرتب کرنے کا آغاز کیا تھا لیکن زندگی نے وفا نہ کی آپ چار ماہ بستر پر گزار کر 8ستمبر1989ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔بعد ازاں ان کےبیٹے میجر زبیرقیوم بٹ کے شوق وتعاون سے پرو فیسر موصوف کے شاگرد ڈاکٹر محمودالحسن عارف نے پروفیسر مرحوم کے بکھرے ہوئے مضامین اور بعض غیر مطبوعہ مقالات کو دو جلدو ں میں مرتب کیا۔ایک جلد علمی وتحقیقی مقالات اور دو سری جلد عام مضامین وخطبات پر مشتمل ہے۔(م۔ا)
دار المصنفین اعظم گڑھ کا شمار ہندوستان کے انتہائی اہم علمی اداروں میں ہوتا ہے، یہ ادارہ صرف علامہ شبلی مرحوم کے خوابوں کی تعبیر ہی نہیں بلکہ مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا عبد السلام ندوی کی علمی کاوشوں اور مولانا مسعود علی ندوی کی عملی جدوجہد کی زندہ تصویر بھی ہے۔1915ء میں جب اس کی تاسیس ہوئی تو مسلمانوں کا ایسا کوئی دوسرا ادارہ پورے ہندوستان میں موجود نہیں تھا ، اپنی تاسیس کے بعد اس ادارے نے جس طرح مصنفین کی متعدد نسلوں کی تربیت کی اس کو بھی اس کی انفرادیت اور اولیت میں شمار کرنا چاہئے۔دار المصنفین کے مصنفین کے متعدد اور متنوع موضوعات پر تصنیفات لکھی ہیں۔ ان میں سے ایک موضوع ادبی بھی ہے جس پر انہوں نے اپنی قلم آزمائی کی ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب" دار المصنفین کی تاریخی خدمات"محترم ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے دار المصنفین کی خدمات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس عظیم خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
خطوط لکھنے اورانہیں محفوظ رکھنے کاسلسلہ بہت قدیم ہے قرآن مجید میں حضرت سلیمان کا ملکہ سبا کو لکھے گئے خط کا تذکرہ موجود ہے کہ خط ملنے پر ملکہ سبا سیدنا سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوئی۔خطوط نگاری کا اصل سلسلہ اسلامی دور سے شروع ہوتا ہے خود نبیﷺ نے اس سلسلے کا آغاز فرمایا کہ جب آپ نے مختلف بادشاہوں اور قبائل کے سرداروں کو کو خطوط ارسال فرمائے پھر اس کے بعد خلفائے راشدین نے بھی بہت سے لوگوں کے نام خطوط لکھے یہ خطوط شائع ہوچکے ہیں اور اہل علم اپنی تحریروں اورتقریروں میں ان کے حوالے دیتے ہیں ۔برصغیرکے مشاہیر اصحاب علم میں سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، سید ندیر حسین محدث دہلوی، سیرسید ،مولانا ابو الکلام آزاد، علامہ اقبال ، مولانا غلام رسول مہر اور دیگر بے شمار حضرات کے خطوط چھپے اور نہایت دلچسپی سے پڑ ھےجاتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’خطوط ماجدی‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔جوکہ معروف ادیب ومفسر مولانا عبد الماجد دریاآبادی کے علمی وادبی خطوط کا مجموعہ ہے۔اس مجموعے میں کچھ خطوط مکتوبات ماجدی سے اور بیشتر خطوط اخبارات ورسائل سے محترم جناب ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہانپوری نےنےجمع کر کے مرتب کیے ہیں۔مولانا دریاآبادی کے خطوط کےمجموعہ ہذا کے علاوہ مکتوبات ماجدی اور رقعات ماجدی کے نام سےبھی دو مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ (م۔ا)
مولانا فیض الرحمان ثوری بہاولپور کے معروف تاریخی مقام "اچ" کے قریب آباد ہونے والے کسرانی یا قیصرانی بلوچ قبیلے کے ایک فرد تھے۔آپ اپنے وقت کے جلیل القدر عالم دین تھے۔آپ کو علم رجال پر خاص عبور حاصل تھا۔آپ ایک خاموش طبع اور انتہائی سادہ مزاج انسان تھے۔کسرانی قبیلے میں سب سے پہلے علم دین حاصل کرنے اور علم حدیث کی خدمت کرنے والی شخصیت" مولانا سلطان محمود محدث '' کی تھی۔آپ ان کے قریبی عزیز اور لائق شاگرد تھے۔مولانا فیض الرحمان ثوری نے تحقیق حدیث خصوصا علم الرجال کے میدان کو چنا اور زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی کے لئے وقف کر دیا۔ آپ نے جب اس میدان میں کام شروع کیا تو پورے برصغیر میں حدیث کے حوالے سے تحقیقی کام کی اشاعت کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ زیر تبصرہ کتاب " مولانا فیض الرحمان ثوری ، ماھر علم الرجال وممتاز نقاد " دار المعارف اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، لاہور کے سینئر ریسرچ سکالر حافظ محمد اسلم شاہدروی صاحب ﷾ کی کاوش ہے، جس میں انہوں نے مولانا فیض الرحمان ثوری صاح ب کی زندگی کے نمایاں پہلوؤں اور انکی علمی خدمات کو مرتب فرما دیا ہے۔ یہ کتاب دراصل ان کی ایم فل کی اسائنمنٹ تھی، جسے زیور طباعت سے آراستہ کر کے منظر عام پر لایا گیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مرتب موصو ف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام نے جہاں اعلی اخلاقیات کا حکم دیا ہے وہیں مجرموں اور قیدیوں کے حقوق بھی بیان کر دئیے ہیں تاکہ کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہو سکے۔ زیر تبصرہ کتاب" قیدیوں کے حقوق،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں "ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے اٹھارہویں فقہی سیمینار منعقدہ 28 فروری تا 2 مارچ 2009ء میں پیش کئے گئے علمی، فقہی اور تحقیقی مقالات ومناقشات کے مجموعے کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی جانے والی کتب سماویہ میں سے سب سے آخری کتاب ہے ۔جسےاللہ تعالی نے امت کی آسانی کے لئے سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں۔عہد تدوین علوم سے کر آج تک قراءات قرآنیہ کے موضوع پر بے شمار اہل علم اور قراء نے عربی و اردو میں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر نظر کتاب ''تنشیط المبتدی " قاری محمد اسماعیل صادق خورجوی خادم مدرسہ تعلیم القراءات خورجہ صاحب﷾ کی ایک منفرد اور شاندار تالیف ہے۔جس میں انہوں نے امام عاصم کوفی کے راوی امام شعبہ کی روایت کو انتہائی آسان اور سہل انداز میں پیش کیا ہے۔ مولف موصوف علم تجوید کے میدان میں بڑا بلند اور عظیم مقام ومرتبہ رکھتے ہیں۔آپ نے علم تجوید پر متعددعلمی وتحقیقی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ اللہ تعالی قراء ات قرآنیہ کے حوالے سے سر انجام دی گئی ان کی ان خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین(راسخ)
اسلام کے بڑے بڑے محاسن اور خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ دین، رواداری، عفوودرگذر، رحمت، آسانی اور انسانیت کا دین ہے۔ تمام بنی نوع انسان کے لیے یہ دین خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا ہے۔ اسلام کی خوبصورتی حسن اور تاثیر کی بنیاد عفوودرگذر، رحمت وعدل اور بلند ترین اخلاق پر قائم ہے۔ انہی اخلاقِ عالیہ ہی کی بدولت لوگ دینِ اسلام میں جوق در جوق داخل ہوئے۔ دین اسلام کی بلندترین بے مثال اخلاقی، عقدی اور ایمانی اقدار کی بناء پر یہ لوگوں میں مقبول ہوا۔ اسلام کی بلند ترین اور لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہونے کے لحاظ سے گہری ترین قدروں میں سے یہ بھی ہے کہ عفوودرگذر اور رواداری کو اپنایا جائے۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں بے شمار اور مسلسل نصوص شرعیہ بیان ہوئی ہیں جو انسان کو اس عظیم اسلامی خوبی سے متصف ہونے پر ابھارتی ہیں۔ نبی کریم ﷺکی حیات طیبہ میں اس کی عملی مثالیں ملتی ہیں تاکہ دین الٰہی کا روشن چہرہ لوگوں کے سامنے واضح ہو جائے۔ صحابہ کرام، تابعین عظام آج تک اور قیامت تک آنے والے لوگوں نے یہ خوبی آپﷺکی حیات طیبہ سے ہی سیکھی ہے۔ اسلام نے دوسرے مذھب کے پیرؤوں کے ساتھ رواداری کی بڑی فراخ دلی کے ساتھ تعلیم دی ہے ۔ خاص طورپر جو غیر مسلم کسی مسلمان ریاست کے باشندے ہوں ، ان کے جان ومال ، عزت وآبرو اور حقوق کے تحفظ کو اسلامی ریاست کی ذمہ داری قراردیا ہے ۔ اس بات کی پوری رعایت رکھی گئی ہے کہ انہیں نہ صرف اپنے مذھب پر عمل کرنے کی آزادی ہو ، بلکہ انہیں روزگار ، تعلیم اور حصولِ انصاف میں برابر کے مواقع حاصل ہوں ، اُن کے ساتھ حسن ِ سلوک کا معاملہ رکھا جائے اور ان کی دلآزاری سے مکمل پرہیز کیا جائے ۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلام میں مذہبی رواداری "انڈیا کے معروف عالم دین سید صباح الدین عبد الرحمن صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے اسلام کی مذہب رواداری پر گفتگو کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس عظیم خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ (آمین)(راسخ)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام معاشرتی زندگی کے حوالے سے پاکیزہ تعلیمات اور روشن احکامات دیتا ہے، اور نکاح پر مبنی پاکیزہ زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " نکاح میں شرط اور مشروط مہر،فقہ اسلامی کی روشنی میں " ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے آٹھویں فقہی سیمینار مؤرخہ 22 تا 24 اکتوبر 1995ء منعقدہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انڈیا میں پیش کئے گئے علمی، فقہی اور تحقیقی مقالات ومناقشات کے مجموعے کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
متوازن فکر اور معتدل سوچ اور پھر ان کے مطابق رویہ بنانا انسانی زندگی کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ معتدل سوچ اور معتدل رویہ انسان کے لیے کامیابی کی دلیل ہوتی ہے اور ضمانت بھی۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انساان بلاوجہ لوگوں کی دل آزاری اور فکری و ذہنی انتشار کا سبب نہیں بنتا ہے اور نئی الجھنیں اور پریشانیاں نہیں لاتا ہے۔ عدم توازان کی ایک نہایت سطحی شکل یہ ہے اور وہ بھی فساد عام کا نتیجہ ہے کہ انسان دین کے نام پر کسی معمولی سی بات کو اساسی اور اصولی مسئلہ بنا دے، یا ایک مباح شے کو عین اسلام یا عین کفر بتانا شروع کردے۔باہمی نزاعات کو عین دین بتانا شروع کردے، کفر سازی اور فتنہ سازی کو مہم جوئی بنا ڈالے۔ علم کی بو بھی سونگھنے کی صلاحیت نہ ہو لیکن علّامہ بننے کی کوشش کرے۔ دعوت و افتاء کا کاروبار کرنے لگے اور اس غیر ذمہ دارانہ عمل پر لوگ اچھلنا شروع کردیں۔بے اعتدالی کی یہ ساری شکلیں اس وقت علمی و دعوتی دائرے میں نظر آتی ہیں اور ان پر اتنا اصرار ہے کہ خارجیت شاداب ہورہی ہے اور اس کے علائم صاف نظر آرہے ہیں۔عالم اسلام ان دنوں بڑی ناگفتہ بہ صورت حال سے دوچار ہے ۔ قدم قدم پہ مسائل کا انبار اور خارجی سازشوں سے لے کر داخلی پریشانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے ۔ یوں تو بہت سارے زخم ہیں جو رس رہے ہيں لیکن بطور خاص عالم اسلام کو خارجی فکرو نظر کے سرطان نے جکڑ لیا ہے ۔ ہرچہار جانب تکفیر و تفریق اور بغاوت کی مسموم ہوائیں چل رہی ہیں اور سارا تانا بانا بکھرتا ہوا محسوس ہورہا ہے ۔ امت کے جسم کا ایک ایک عضو معطل، اجتماعیت اور وحدت کی دیواروں کی ایک ایک اینٹ ہلی ہوئی سی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اب تب امت کے شاندار عمارت کی کہنہ دیوار پاش پاش ہو جائےگی۔زیر تبصرہ کتاب "تکفیر اسباب، علامات اور حکم " محترم ابو سعد احسان الحق شہباز صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے اسی فکری عدم توازن اور خارجیت جدیدہ پر شاندار بحث کی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام معاشرتی زندگی کے حوالے سے پاکیزہ تعلیمات اور روشن احکامات دیتا ہے۔اللہ تعالی نے جہاں نکاح کرکےبندھن میں بندھنےکے احکام بیان کئے ہیں ، وہیں اگر یہ بندھن قائم رکھنا مشکل ہو جائے تو اسے طلاق کے ذریعے ختم کرنے کے احکام بھی تفصیل سے بیان کئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " غیر مسلم ممالک میں عدالتوں کی طلاق " ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں اس موضوع پر متعدد اہل علم کے مقالات جمع کر دئیے گئے ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اشتراکیت یا کمیونزم کے معاشی تصورات انتہا پسندانہ اور افراط وتفریط کا شکار ہیں ۔ ان کے خونیں پنجے میں انسانیت ابھی تک سسک رہی ہے ۔ ان سیکولر قوتوں نے چھوٹے اور غریب ملکوں کا استحصال کر کے انہیں ایک مستقل غریب اور پسماندگی کا شکار کردیا ہے ۔ان دونوں معاشی نظاموں کی افراط وتفریط کےمقابلے میں اسلام کا عادلانہ معاشی نظام عدل اجتماعی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کا ایک مستند تاریخی ریکارڈ رکھتا ہے۔ تمام معاشی نظاموں کا حقیقی ہدف انسانیت کو غربت سے نجات دلا کر ایک خوشحال زندگی کے وسائل وذرائع فراہم کرتا ہے مگر مادی سطح کے معاشی نظاموں میں کوئی بھی آج تک اس ہدف کے حتمی اور یقینی نتائج وثمرات حاصل نہیں کرسکا۔ مغرب کےان نظاموں میں فلاحی مملکت یامعاشرے کا تصور بھی حقیقی فلاح سے بہت بعید اور مواخات کی روح سے خالی دکھائی دیتا ہے۔اسلام کے معاشی نظام میں استحصال کی ہر شکل کو ممنوع اور مکروہ قرار دیا گیا ہے۔اسلام نےسود اور اس کی اساس پیدا ہونے والے فساد کوجڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے ۔ اور معاشی نظام میں شرکت ومضاربت وتجاتی زندگی کے توازن کو عادلانہ سطح برقرار رکھا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اسلام میں غریبی کا علاج‘‘ عالم اسلام کے نامور سکالر ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی ایک عربی تصنیف کا ترجمہ ہے ۔ڈاکٹر قرضاوی نےاپنی اس وقیع علمی کتاب کو نو مستقل ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔اور اس مختصر کتاب میں اسلامی اقتصادیات کے اس مخصوص حصے سے بحث کی ہے جس کا تعلق غریبی اور اس کے علاج سے ہے ۔جس میں غریبی کے حقوق اور خاص طور پر ان وسائل پر روشنی ڈالی گئی ہےجن کےسہارے سماج کایہ پسماندہ طبقہ چین کا سانس لے سکے اور اسلامی دستور کے زیر سایہ اپنی خودی اور عزت کرسکے۔علامہ قرضاوی نے غربت وافلاس کےعلاج کو کتاب وسنت اور فقہائے مجتہدین کے مسلمہ اصولوں سے گہرا تقابل کرلینے کے بعد اس کتاب میں درج کیا ہے۔کتاب کے مطالعے سے قارئین کو خود اندازہ ہوگا کہ اسلام شروع سے غربت اور اس کے علاج، غریبوں کے حقوق کی حمایت اور ان کی مادی اور بنیادی ضرورتوں میں تعاون کا قائل رہا ہے ۔اوریہ ایسا امتیاز ہے جس سے ان مذاہب اور ازموں کادامن سدا خالی رہا ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف ، مترجم اور ناشرین کی اس کاوش کوقبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
وقف کا لغوی معنی ٹھہرنا اور رُکنا ہے۔ جبکہ اہل فن قراء کرام کی اصطلاح میں وقف کے معنی ہیں کہ"کلمہ کے آخر پر اتنی دیر آواز کو منقطع کرنا جس میں بطور عادت سانس لیا جاسکے، اور قراء ت جاری رکھنے کا ارادہ بھی ہو، عام ہے کہ وقف کرنے کے بعد مابعد سے ابتداء کریں یا ماقبل سےاعادہ" (النشر:۱؍۲۴۰) معرفت وقف وابتداء کی اہمیت اور اس علم کی ضرورت کااحساس کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس طرح دلائل شرعیہ یعنی قرآن وحدیث اور اجماع اُمت سےقرآن مجید کا تجوید کے ساتھ پڑھنا واجب اور ضروری ہے، اسی طرح معرفت الوقف، یعنی قرآنی وقوف کو پہچاننا اور دورانِ تلاوت حسنِ وقف وابتداء کی رعایت رکھنا اور اس کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے اوراس میں کسی کااختلاف نہیں ۔اوروجہ اس کی یہ ہے کہ جس طرح تجوید کے ذریعہ حروف قرآن کی تصحیح ہوتی ہے اسی طرح معرفت الوقوف کے ذریعے معانی قرآن کی تفہیم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے :’’اورقرآن مجید کوترتیل کے ساتھ پڑھو ۔‘‘(المزمل:4) سیدنا علی ؓسے ترتیل کا معنی پوچھا گیا توآپ نے فرمایا:’’الترتیل ہو تجوید الحروف ومعرفۃ الوقوف‘‘(الإتقان فی علوم القرآ ن:۱؍۸۵) اس تفسیر میں ترتیل کے دوجز بیان کیے گئے ہیں 1۔تجوید الحروف 2۔معرفۃ الوقوف ۔پس تجوید الحروف کی طرح معرفۃ الوقوف بھی ترتیل کا ایک جزء اور اس کا ایک حصہ ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب" تعلیم الوقف (کامل) مع شرح تفھیم الوصف " محترم جناب قاری محمد اسماعیل صادق خورجوی مکی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں علم وقف کی علمی وفنی مباحث کو ایک جگہ جمع فرمادیا ہے۔ اللہ تعالی ان کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)