ہندوپاک اور بنگلہ دیش کے اکثر مدارس میں مروج نصاب تعلیم ’’درس نظامی‘‘ کے نام سے معروف ومشہور ہے۔ اس کو بارہویں صدی کے مشہور عالم اور مقدس بزرگ مولانا نظام الدین سہالویؒ نے اپنی فکراور دور اندیشی کے ذریعہ مرتب کیا تھا۔ مولانا کا مرتب کردہ نصاب تعلیم اتنا کامل ومکمل تھا کہ اس کی تکمیل کرنے والے فضلاء جس طرح علوم دینیہ کے ماہر ہوتے تھے اسی طرح دفتری ضروریات اور ملکی خدمات کے انجام دینے میں بھی ماہر سمجھے جاتے تھے۔ اس زمانے میں فارسی زبان ملکی اور سرکاری زبان تھی اور منطق وفلسفہ کو یہ اہمیت حاصل تھی کہ یہ فنون معیار فضیلت تھے اسی طرح علم ریاضی (علم حساب) کی بھی بڑی اہمیت تھی ،چنانچہ مولانا نے اپنی ترتیب میں حالات کے تقاضے کے مطابق قرآن حدیث فقہ اور ان کے متعلقات کے ساتھ ساتھ اس زمانے کے عصری علوم کو شامل کیا اور حالات سے ہم آہنگ اور میل کھانے والا نصاب مرتب کیا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ نصاب اس وقت بہت ہی مقبول ہوا اور اس وقت کے تقریباً تمام مدارس میں رائج ہوگیا۔ اب حالات ماضی سے بالکل بدل چکے ہیں۔ منطق وفلسفہ کے اکثر نظریات کی دنیا میں مانگ ب...
دار المصنفین اعظم گڑھ کا شمار ہندوستان کے انتہائی اہم علمی اداروں میں ہوتا ہے، یہ ادارہ صرف علامہ شبلی مرحوم کے خوابوں کی تعبیر ہی نہیں بلکہ مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا عبد السلام ندوی کی علمی کاوشوں اور مولانا مسعود علی ندوی کی عملی جدوجہد کی زندہ تصویر بھی ہے۔1915ء میں جب اس کی تاسیس ہوئی تو مسلمانوں کا ایسا کوئی دوسرا ادارہ پورے ہندوستان میں موجود نہیں تھا ، اپنی تاسیس کے بعد اس ادارے نے جس طرح مصنفین کی متعدد نسلوں کی تربیت کی اس کو بھی اس کی انفرادیت اور اولیت میں شمار کرنا چاہئے۔دار المصنفین کے مصنفین کے متعدد اور متنوع موضوعات پر تصنیفات لکھی ہیں۔ ان میں سے ایک موضوع ادبی بھی ہے جس پر انہوں نے اپنی قلم آزمائی کی ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب" دار المصنفین کی تاریخی خدمات"محترم ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے دار المصنفین کی خدمات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس عظیم خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(را...
یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں ابھر نہیں سکے۔ وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک جس قدر مسائل سے ہندوستانی مسلمان دوچار رہے ہیں، کوئی اور قوم ان حالات سے گزرتی تو ممکن تھا کہ وہ اپنا وجود ہی خطرہ میں ڈال چکی ہوتی۔ اُس کی شناخت ختم ہو جاتی اور اس کے عقائد بگڑ جاتے۔ لیکن غالباً یہ مسلمانوں کی خود کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خدا برحق کی مصلحت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں نہ صرف باقی رہیں بلکہ اپنی مکمل شناخت اور عقائد و افکار میں بھی وہ نمایاں حیثیت برقرار رکھیں۔۱۸۵۷ء کے بعد کے ہندوستانی مسلمانوں کی، اس وقت کی کسی حد تک تصویر کشی ڈاکٹر سرولیم ہنٹر کی کتاب’ ’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ میں تلاش کی جاسکتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ڈاکٹر سرولیم ہنٹر کی انگریزی کتاب OUR INDIAN MUSLMANS کا اردو ترجمہ ہے۔ 1944ء میں جب مترجم کتاب جناب صادق حسین نے اس کتاب کاترجمہ کیا تو اس وقت ہندوستان میں تحریک آزادی پورے شباب پر تھی۔ڈاکٹر سرولیم ہنٹر نےکتاب کے چوتھے باب میں مسلمانوں کی اقتصادی حالت او...