سیدنا حسن دماد ِ رسول حضرت علی کے بڑے بیٹے اور نبی کریم ﷺ بڑے نواسے تھے۔حدیث نبوی ہےآپ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔نبیﷺ نے ان کا نام حسن رکھا تھا۔ یہ نام اس سے پہلے کسی کا نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ آپ 15 رمضان المبارک 3ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت حسن کو تقریباً آٹھ برس اپنے نانا رسول اللہ ﷺکے سایہ عاطفت میں رہنے کا موقع ملا۔ رسالت مآب اپنے اس نواسے سے جتنی محبت فرماتے تھے اس کے واقعات دیکھنے والوں نے ہمیشہ یا درکھے۔ اکثر حدیثیں محبت اور فضیلت کی حسن وحسین دونوں صاحبزادوں میں مشترک ہیں۔سیدنا حسن نےاپنی زندگی میں ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا جس نےامت کےاتحاد میں زبردست کردار ادا کیا۔ امتِ اسلامیہ اس جلیل القدر سردار کی قرض دار رہے گی جس نے وحدت اوالفت ، خونریزی سے روکنے اور لوگوں کے مابین صلح کرانے میں زبردست کردار اداکیا ۔ اپنے عمدہ جہاد اور صبرِِ جمیل کے ذریعے ایسی مثال قائم کی جس کی ہمیشہ اقتدا کی جائےگی۔ زیر تبصرہ کتاب’’ سیدنا حسن بن علی شخصیت اورکارنامے ‘‘ حضرت حسن کی ولادت سےخلافت اور وفات کے تک کے حالات پرمشتمل مستند کتاب ہے ۔دکتور صلابی نے اس کتاب میں دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ سیدناحسن کی خلافت حقیقت میں خلافت راشدہ تھی ۔اور آپ کی مدت حکومت خلافت راشدہ کی مدت کا تتمہ تھی۔اور سیدنا حسن کی طرف کچھ غلط منسوب خطبات کی حقیقت کوبھی واضح کیا ہے۔ نیز مصنف نے اس کتاب میں حضرت حسن کی اہم صفات اورا ن کی معاشرتی زندگی کو ذکرکیا ہے او رثابت کیا ہےکہ آپ نرالی قائدانہ شخصیت کےمالک تھے آپ کے اندر ربانی قائد کے اوصاف موجود تھے آپ دوربینی ،حالات پر گہری نظر ، جمہور کی قیادت کی صلاحیت، مقرر منصوبوں کی تنفیذ کے لیے عزم مصمم جیسے اوصاف سے متصف تھے۔الغرض سیدنا حسن کی سیرت ، حیات وخدمات خلافت وامارت اور کارناموں پر جامع اور مستند کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے اور کتاب ہذا کے مصنف ،مترجم اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اور سلام کا دوسرا رکن ِ عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ نماز دین کاستون ہے جس نے اسے قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے اسے ترک کردیا ہے اس نے دین کی عمارت کوڈھادیا۔ نماز مسلمان کے افضل اعمال میں سے ہے۔نماز ایک ایسا صاف ستھرا سرچشمہ ہے جس کےشفاف پانی سے نمازی اپنے گناہوں اور خطاؤں کودھوتا ہے ۔کلمہ توحید کے اقرار کےبعد سب سے پہلے جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہی ہے۔ اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے۔ بے نماز کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ قیامت کےدن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا۔ فرد ومعاشرہ کی اصلاح کے لیے نماز ازحد ضروری ہے۔ نماز فواحش ومنکرات سےانسان کو روکتی ہے ۔بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سےنماز کا پابند بنایا جائے۔ قرآن وحدیث میں نماز کو بر وقت اور باجماعت اداکرنے کی بہت زیاد ہ تلقین کی گئی ہے۔ اور نمازکی عدم ادائیگی پر وعید کی گئی ہے۔ نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قد ر اہم ہے کہ سفر وحضر اور میدان ِجنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ نماز کی اہمیت وفضیلت کے متعلق بے شمار احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں او ر بیسیوں اہل علم نے مختلف انداز میں اس موضوع پر کتب تالیف کی ہیں۔ نماز کی ادائیگی کا طریقہ جاننا ہر مسلمان مرد وزن کےلیے ازحد ضروری ہے کیونکہ اللہ عزوجل کے ہاں وہی نماز قابل قبول ہوگی جو رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی۔ او ر ہمارے لیے نبی اکرم ﷺکی ذات گرامی ہی اسوۂ حسنہ ہے۔ انہیں کے طریقے کےمطابق نماز ادا کی جائے گئی تو اللہ کے ہاں مقبول ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا صلو كما رأيتموني اصلي لہذا ہر مسلمان کےلیے رسول للہ ﷺ کے طریقۂ نماز کو جاننا بہت ضروری ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب’’صلوٰۃ النبی ﷺ‘‘ امام العصر مولانا حافظ محمدابراہیم سیالکوٹی کی نماز کے موضوع پر ایک مختصر مگر جامع کتاب ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے فلسفہ واسرار نماز کے سلسلے میں بہت ہی مفید باتیں جمع کردی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی مرقد کو جنت کا باغ بنائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)
موجودہ دور میں اسلام او رامت مسلمہ کوجس طرح الزام تراشی اور معاندانہ پراپیگنڈہ کانشانہ بنایا گیا ہےاس سے ہر حساس مسلمان کا دل زخمی ہے ۔اور یہ ضرورت ماضی سے کہیں بڑھ کر محسوس کی جار ہی ہے کہ ان الزامات واتہامات کا مناسب اور شافی جواب دیا جائے ۔ کیونکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگراس دنیا میں انسانوں کے مختلف طبقات میں چھوٹے سے لیکر بڑے تک ،بچے سے لیکر بوڑھے تک،ان پڑھ جاہل سے لیکر ایک ماہر عالم اور بڑے سے بڑے فلاسفر تک،ہر شخص کی جد وجہد اور محنت وکوشش میں اگر غور سے کام لیا جائے تو ثابت ہو گا کہ اگرچہ محنت اور کوشش کی راہیں مختلف ہیں مگر آخری مقصد سب کا قدرے مشترک ایک ہی ہے ،اور وہ ہے "امن وسکون کی زندگی"اور نبی کریم اسی امن وسلامتی کا علم بردارمذہب لے کر آئے۔ اسلام ایک امن وسلامتی والا مذہب ہے ،جو نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں کے ساتھ بھی نرمی کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس عظیم دین کا حسن دیکھئے کہ اسلام ’’سلامتی‘‘ اور ایمان ’’امن‘‘ سے عبارت ہے اور اس کا نام ہی ہمیں امن و سلامتی اور احترام انسانیت کا درس دینے کیلئے واضح اشارہ ہے۔نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ ، صبر و برداشت، عفو و درگزر اور رواداری سے عبارت ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’پیغمبر امن ‘‘مرکزی جمعیت اہل حدیث ،سیالکوٹ کے زیر اہتمام امام بخاری انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ’’ پیغمبر امن ... حضرت محمد ﷺ‘‘ کے عنوان پر آل پاکستان سیرت نگار ی کے مقابلے میں ملک بھر سےپیش گئے 27 مقالات میں سے اول آنے والے مقالہ کی کتابی صورت ہے ۔ فاضل مصنف اہم ، مستند اورمسلمہ مآخذ سے استفادہ کیا۔علامہ شبلی، قاضی محمد سلیمان منصورپوری، ڈاکٹر حمید اللہ ، مولاناابوالکلام آزاد ، مولانا غلام رسول مہر اور مولانا صفی الرحمٰن مبارپوری کے علاوہ قابل مغربی سکالرز سے بھی استفادہ کیا ہے ۔اور بڑی تحقیق وجستجو کے بعد وضاحت سےبتایا ہے کہ جب عالم انسانیت کی سب سے بڑی شخصیت حضرت محمدﷺ پیدا ہوئے تو اس دنیا کی کیا حالت تھی۔ یہ مذہبی ، سماجی اور اخلاقی لحاظ سے کتنی تاریکیوں میں گم اور کتنی مہلک پستیوں میں گری ہوئی تھی اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو یہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی تھی۔اور انہوں نے اس کتاب میں مسلمانوں کو بیدار کرنے کےساتھ ساتھ عیسائیوں اور یہودیوں کو یہ بات باور رکروانے کی کوشش کی ہے کہ دین اسلام تشدد اور تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ یہ دین پیغمبر امنﷺ کے اخلاق، اسوہ حسنہ اور بہترین تعلیمات سے پھیلا ہے ۔یہی وجہ کہ چودہ سوسال گزرنے کےباوجود دین اسلام کےنظام کو زوال نہیں ہوا اورنہ ہوگا۔کیونکہ اس دین کو رب کائنات نےنازل فرمایا ہے ۔ انسانوں کےبنائے ہونظام خودبخود اپنی مدت سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔ مگریہ آفاقی دین ہمیشہ سے انسانیت کی راہنمائی کررہا ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو شرف ِقبولیت سےنوازے ۔(آمین) (م۔ا)
صحابہ کرام اس امت کے سب سے افضل واعلی لوگ تھے ،انہوں نے نبی کریم ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا،ان کے ساتھ مل کر کفار سے لڑائیاں کیں ، اسلام کی سر بلندی اور اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا۔پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام تمام کے تمام عدول ہیں یعنی دیانتدار،عدل اور انصاف کرنے والے ،حق پر ڈٹ جانے والے اور خواہشات کی طرف مائل نہ ہونے والے ہیں۔صحابہ کرام کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ اعلان ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام ہسیتوں کو جنت کا تحفہ عنایت کیا ہے۔ دس صحابہ تو ایسے ہیں جن کو دنیا ہی میں زبان نبوتﷺ سے جنت کی ضمانت مل گئی۔تمام صحابہ کرام خواہ وہ اہل بیت سے ہوں یا غیر اہل بیت سے ہوں ان سے والہانہ وابستگی دین وایمان کا تقاضا ہے۔کیونکہ وہ آسمان ہدایت کے درخشندہ ستارے اور دین وایمان کی منزل تک پہنچنے کے لئے راہنما ہیں۔صحابہ کرام کے باہمی طور پر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی شاندار اور مضبوط تعلقات قائم تھے۔ زیر تبصرہ کتاب "قرآن اور صحابہ" محترم مولانا ابو القاسم رانا محمد جمیل خاں صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے قرآن مجید کی روشنی میں صحابہ کرام کے مقام و مرتبہ اور فضیلت کو بیان فرمایا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور تما م مسلمانوں کو صحابہ کرام سے محبت کرنے کی بھی توفیق دے۔آمین(راسخ)
نسلی و قومی امتیاز کے تصورات دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی قوم، اپنے رنگ، اپنی نسل اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ برتری صرف اس کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر ہیں۔ یہی تفاخر اور غرورآگے چل کر نفرتوں، چپقلشوں ، مقابلوں اور جنگوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے جن کے نتیجے میں دنیا کا امن برباد ہوتا ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیے، ابھی پچاس سال پہلے ہی اسی نسلی غرور کے نتیجے میں ہونے والی جنگ کو یاد کیجئے جس کے نتیجے میں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔ صرف یہ خیال نہ کیجئے کہ یہ غرور صرف غیرمسلموں کے ہاں ہی پایا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بھی اس باطل تصور کا اتنا ہی شکار ہوئے ہیں جتنا کہ دوسری اقوام۔ ایسا کیوں ہے؟حالانکہ اسلام نے ان امتیازات کا خاتمہ کیا ہے اور تمام مسلمانوں کو مساوات کا درس دیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے اپنے مشہور خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: ’’تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔ اے لوگو! سنو تمہارا رب ایک رب ہے، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ کوئی کالا کسی گورے سے بہتر ہے اور نہ گورا کالے سے۔ فضیلت صرف اور صرف تقویٰ کے سبب ہے۔‘‘ زیر تبصرہ کتاب "اسلام اور نسلی امتیاز" پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی صاحب کی تصنیف ہے، جسے انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی دعوہ اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے نسلی امتیاز کو فروغ اسلام کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیا ہے اور اسے خلاف اسلام ثابت کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس عظیم خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
کرامت لغوی اعتبار سے عزت اور شرافت کو کہتے ہیں اور اصطلاحی طور پر اس کا اطلاق اس عمل پر ہوتا ہے جو کسی نیک بندے کے ہاتھ سے خلاف عادت ظہور پذیر ہو۔معجزے اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ معجزے کا ظہور نبی کے ذریعے ہوتا ہے اور کرامت ولی کے ذریعے ظہور پذیر ہوتی ہے۔صحابہ کرام اس امت کے سب سے افضل واعلی لوگ تھے ،انہوں نے نبی کریم ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا،ان کے ساتھ مل کر کفار سے لڑائیاں کیں ، اسلام کی سر بلندی اور اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا۔پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام تمام کے تمام عدول ہیں یعنی دیانتدار،عدل اور انصاف کرنے والے ،حق پر ڈٹ جانے والے اور خواہشات کی طرف مائل نہ ہونے والے ہیں۔صحابہ کرام کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ اعلان ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔صحابہ کرام کے ہاتھوں بھی بے شمار کرامات کا ظہور ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب" کرامات صحابہ " محترم مولانا اسعد محمد الطیب صاحب کی تصنیف ہے، جس کا ترجمہ وتخریج محترم ابو القاسم حافظ محمود احمد نے کیا ہے جبکہ نظرثانی محترم مولانا ابو ضیاء محمود احمد غضنفر صاحب کی ہے۔اس کتاب میں مولف موصوف نے صحابہ کرام کے ہاتھوں ظہور پذیر ہونے والی کرامات کو جمع فرما دیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور مترجم کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
مولانا محمد اسحاق بھٹی کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں آپ برصغیر پا ک وہند کے اہل علم طبقہ میں او رخصوصا جماعت اہل میں ایک معروف شخصیت ہیں آپ صحافی ،مقرر، دانش ور وادیب اور وسیع المطالعہ شخصیت ہیں ۔ ان کا شمارعصر حاضر کے ان گنتی کےچند مصنفین میں کیا جاتا ہے جن کے قلم کی روانی کاتذکرہ زبان زدِعام وخاص رہتا ہے تاریخ وسیر و سوانح ان کا پسندیدہ موضوع تھا او ر ان کا یہ بڑا کارنامہ ہے کے انہوں نے برصغیر کے جلیل القدر علمائے اہل حدیث کے حالاتِ زندگی او ر ان کےعلمی وادبی کارناموں کو کتابوں میں محفوظ کردیا ہے مولانا محمداسحاق بھٹی تاریخ وسیر کے ساتھ ساتھ مسائل فقہ میں بھی نظر رکھتے تھے مولانا صاحب نے تقریبا 30 سے زائدکتب تصنیف کیں ہیں جن میں سے 26 کتابیں سیر واسوانح سے تعلق رکھتی ہیں مولانا تصنیف وتالیف کےساتھ ساتھ 15 سال ہفت روزہ الاعصتام کے ایڈیٹر بھی رہے الاعتصام میں ان کےاداریے،شذرات،مضامین ومقالات ان کے انداز ِفکر او روسیع معلومات کے آئینہ دار ہیں الاعتصام نے علمی وادبی دنیا میں جو مقام حاصل کیا ہے اس کی ایک وجہ محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی کی انتھک مساعی اور کوششیں تھیں ۔مولانا مرحوم نے تحریر وتصنیف کے میدان میں بھرپور زندگی بسر کی ۔آپ اپنی زندگی کی 91برس کی بہاریں دیکھ کر مختصر علالت میں مبتلا رہ کر 22 دسمبر 2015ء بروز منگل لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔(انا للہ وانا الیہ راجعون ) محترم جناب ڈاکٹر حماد لکھوی ﷾ نے ناصر باغ لاہور میں ان کانماز جنازہ کی امامت کی اور پھر انکے آبائی گاؤں ڈھیسیاں فیصل آباد میں میں بعد نماز عشاء شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم ﷾ نے نماز جنازہ پڑہائی۔ہرجگہ ایک جم غفیر نماز جنازہ میں شریک ہوا اور ہر جگہ اہل علم اوردیندار طبقہ کی کثرت تھی۔ اللہ تعالیٰ مولانامرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی وارفع مقام عطافرمائے ۔(آمین) زیر تبصرہ مجلہ ’’ترجمان الحدیث اپریل تا جون 2016ء‘‘ مورخ اہل حدیث کی حیات وخدمات کے متعلق 356 صفحات پر مشتمل اشاعت خاص ہے۔اس مجلہ میں مولانا اسحاق بھٹی کی حیات وخدمات کے متعلق ملک بھر کے نامور مضمون نگاروں کے قیمتی 45 مضامین شامل ہیں ۔ا ن مضامین میں مولانا کی پیدائش سے لے کر موت تک کے مکمل حالات و واقعات ، تعلیم، ملازمت،صحافتی وتصنیفی خدمات کا تفصیلی تذکرہ ہے۔جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے ذمہ دران کی یہ کاوش انتہائی لائق تحسین ہے کہ انہوں نے مورخ اہل کی حیات وخدمات کو جمع کرکے اسے خوبصورت ضخیم کتابی صورت میں شائع کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم سے نوازے ۔(م۔ا)
علم حدیث کی اصطلاح میں ’حدیث قدسی رسول اللہﷺ سے منسوب اس روایت کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہﷺ روایت کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کرتے ہیں، یعنی اس کی سند اللہ تعالیٰ تک بیان کی جاتی ہے۔ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ کے لیے ”متکلّم“ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ملا علی قاری حدیث قدسی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حدیث قدسی اسے کہتے ہیں جس کی روایت رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے فرمائی ہے کبھی حضرت جبریل کےواسطہ سے اور کبھی وحی الہام یا خواب کے ذریعہ سے اور آپﷺ نے اپنے الفاظ میں وہ مفہوم ادا فرمایا ہے۔ احادیث قدسیہ کو جمع کر کے الگ مؤلفات تیار کرنے کے لیے مختلف زمانوں میں مختلف عُلماء کرام نے حسب معمول بہت جان ریزی سے کام لیا ہے، اور مختلف کتابیں مرتب کی ہیں، اُن میں سے کچھ تو ایسی ہیں جن میں صرف روایات مذکور ہیں، اور کچھ ایسی ہیں جن میں روایات اپنے اصل مصادر کے حوالہ جات کے ساتھ مذکور ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’احادیث قدسی‘‘ علماء کی ایک کمیٹی کا احادیث کی مشہور ترین مجموعوں موطا امام اور صحاح ستہ سے قدسی روایات اخذ کے جمع کردہ ہے جسے دارالکتب العلمیہ، بیروت نے شائع کیا ہے اسلامک بک فاؤنڈیشن دہلی نے اس مجموعہ کو مولانا ابو مسعود ندوی کے ترجمہ کے ساتھ بمع عر بی متن شائع کیا۔ بعد ازاں منشورات، لاہور نے اس مجموعہ کا صرف اردو ترجمہ شائع کیا ہے لیکن اس میں احادیث کے حوالہ جات درج کردئیے ہیں تاکہ اہل علم کو عربی متن کی تلاش میں دقت نہ ہو۔ (م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے سب سے آخری کتاب ہے ۔جسےاللہ تعالی نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں۔عہد تدوین علوم سے کر آج تک قراءات قرآنیہ کے موضوع پر بے شمار اہل علم اور قراء نے کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔لیکن مستشرقین اور ملحدین قراءات قرآنیہ میں شکوک وشبہات پیدا کر کے مسلمانوں کو قرآن سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" قراءات قرآنیہ، مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں " شیخ القراء عبد الفتاح عبد الغنی القاضی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے قراءات قرآنیہ کی حجیت اور مستشرقین کے اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیا ہے۔اس کتاب کا اردو ترجمہ محترم ڈاکٹر محمد اسلم صدیق صاحب نے کیا ہے جبکہ نظرثانی محترم ڈاکٹر حافظ محمد زبیر تیمی صاحب نے فرمائی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ قراء ات قرآنیہ کے حوالے سے سر انجام دی گئی مولف موصوف کی ان خدمات جلیلہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ ۱۸؍ مارچ ۱۹۲۰ء بمطابق ۲۶/جمادی الثانی ۱۳۳۸ھ بروز جمعرات، سرگودھا کی تحصیل بھلوال کے نواحی گاؤں چک نمبر ۱۶ جنوبی میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد گرامی مولانا عبدالرحمن نے آپ کا نام محمد عبداللہ رکھا۔ بعدازاں آپ ’شیخ الحدیث‘ کے لقب کے ساتھ مشہور ہوئے۔ اکثر و بیشتر علماء و طلباء آپ کو شیخ الحدیث کے نام سے ہی یادکیا کرتے تھے۔مولانا موصوف نے ۱۹۳۳ء میں مقامی گورنمنٹ سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا، پھردینی تعلیم کی طرف رغبت کی وجہ سے ۱۹۳۴ء میں مدرسہ محمدیہ، چوک اہلحدیث، گوجرانوالہ میں داخلہ لیا۔ اسی مدرسہ سے دینی تعلیم عرصہ آٹھ سال میں مکمل کرکے ۱۹۴۱ء میں سند ِفراغت حاصل کی۔ مدرسہٴ محمدیہ کے جن اساتذہ سے آپ نے اکتسابِ فیض کیا، ان میں سرفہرست اُستاذ الاساتذہ حضرت مولانا حافظ محمد گوندلوی، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی کے اسماء گرامی شامل ہیں۔آپ دورانِ تعلیم سے ہی خطابت میں دلچسپی رکھتے تھے اور گاہے بگاہے منبر خطابت پر اپنے جوہر دکھاتے رہتے تھے۔لیکن ۱۹۴۲ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد مستقلاً تدریس اور خطابت اور مدرسہ محمدیہ چوک اہلحدیث میں تدریس کا آغاز کیا۔ حضرت مولانا اسماعیل سلفی کی وفات بعد کے گوجرانوالہ کی جماعت اہلحدیث نے انہیں مولانا اسماعیل سلفی کا جانشین مقرر کردیا ۔ آپ نے نے 1968 ء سے اپنی وفات تک جامعہ محمدیہ کے مہتمم کے منصب کی ذمہ داری نبھائی ۔ آپ تقریباً دس سال تک مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر رہے۔حضرت مولانا محمد عبداللہ جماعت اہلحدیث کی صف ِاول کے ایک نامور رہنما، کہنہ مشق مدرّس، ممتاز اور قدآور علمی شخصیت تھے۔ اللہ نے آپ کو ذہن رسا اور کمال استحضارِ علمی سے نوازا تھا، علمی دسترس کی وجہ سے آپ علمی مکالمہ میں خصوصی ملکہ رکھتے تھے۔ مولاناموصوف کو تدریس وخطابت کا فن اپنے اساتذہ خصوصاً مولانا اسماعیل سلفی سے ملا تھا۔ آپ نے عرصہ ۳۱ سال تک اپنے استادِ گرامی کے جاری کردہ درسِ قرآن اور خطبہ جمعہ کو بالاہتمام نبھایا۔ منفرد اور اعلیٰ تدریسی مہارت کے ساتھ ساتھ آپ ایک بلند پایہ خطیب بھی تھے۔ بیان کرنے کا انداز عام فہم، پرمغز، مدلل، موٴثر اور دلنشین ہوتا تھا۔ مولانا عبداللہ مرحوم کو جب علامہ احسان الٰہی ظہیرشہید نے اپنی جمعیت اہلحدیث کا امیر بنایا جبکہ اس وقت مرکزی جمعیت اہلحدیث موجود تھی تو ان کا تعارف گوجرانوالہ ضلع سے باہر بھی پھیلنے لگا، لیکن مولانا ہمیشہ کی طرح اپنے دورِ امارت میں بھی مثبت اور تعمیری رویہ کے حامل رہے، اور باہم اتفاق و اتحاد کے لئے کوششیں جاری رکھیں۔ چنانچہ علامہ ظہیر کی وفات کے بعد جب دونوں جمعیتیں، مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان اور جمعیت اہلحدیث پاکستان باہم ضم ہوگئیں اور متفقہ نام "مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان" ہی قرار پایا تو متفقہ طورپر آخری لمحات تک اس کی سرپرستی فرماتے رہے۔ مولانا کی علمی اور جماعتی خدمات کی وجہ سے آپ کو انگلستان، سعودی عرب، کویت، عراق، متحدہ عرب امارات، اردن، شام اور دوسرے ممالک کے تبلیغی دورے بھی کروائے گئے چنانچہ ہر جگہ پر علم و فضل کے ساتھ فصیح و بلیغ خطابت کا لوہا بھی منوایا۔مولانا مرحوم زہد و تقویٰ، تہجد گزاری، دیانتدارانہ اور کریمانہ اخلا ق واوصاف کے حامل تھے۔ زیر تبصرہ مجلہ ’’ہفت روزہ اہل حدیث ‘‘ کی شیخ الحدیث مولانا عبد اللہ کی وفات پر ان کی حیات وخدمات کےمتعلق اشاعت خاص ہے ۔اس مجلہ میں مولانا موصوف کی پیدائش ، تعلیم ، خطابت ، اساتذہ ،تلامذہ ،جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں تدریسی و انتطامی خدمات ،جماعت اہل حدیث کی امارت وسرپرستی ، اور ان کی زند گی کےحالات واقعات کےمتعلق وطن عزیز کے معروف سوانح نگار وں اور قلماکاروں کے مضامین اس اشاعت خاص میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی مرقد پراپنی رحمت کی برکھا برسائے اور اسے جنت کا باغیچہ بنائے ۔(آمین)
دین اسلام میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه (سورہ نساء:80) جس نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اور سورۂ محمد میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ(سورہ محمد:33) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کرو (اور اطاعت سے انحراف کر کے) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔ اطاعت رسولﷺ کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ رسو ل اکرمﷺ کی اطاعت صرف آپﷺ کی زندگی تک محدود نہیں بلکہ آپﷺ کی وفات کے بعد بھی قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے فرض قرار دی گئی ہے۔ اطاعت رسولﷺ کے بارے میں صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث بڑی اہم ہے۔ کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’میر ی امت کے سب لوگ جنت میں جائیں گے سوائے اس شخص کے جس نے انکار کیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا انکار کس نے کیا؟ تو آپﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا او رجس نے میر ی نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔ (صحیح بخاری:7280) گویا اطاعتِ رسولﷺ اورایمان لازم وملزوم ہیں اطاعت ہے تو ایمان بھی ہے اطاعت نہیں تو ایمان بھی نہیں۔ اطاعت ِ رسولﷺ کے بارے میں قرآنی آیات واحادیث شریفہ کے مطالعہ کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ دین میں اتباع سنت کی حیثیت کسی فروعی مسئلہ کی سی نہیں بلکہ بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے ۔اتباع سنت کی دعوت کو چند عبادات کے مسائل تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ یہ دعوت ساری زندگی پر محیط ہونی چاہیے۔ جس طر ح عبادات(نماز، روزہ، حج وغیرہ) میں اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق وکردار، کاروبار، حقوق العباد اور دیگر معاملات میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔ گویا اپنی پوری زندگی میں خواہ انفرادی ہویا اجتماعی، مسجد کے اندر ہویا مسجدکے باہر، بیوی بچوں کے ساتھ ہو یا دوست احباب کے ساتھ ،ہر وقت، ہرجگہ سنت کی پیروی مطلوب ہے ۔محض عبادات کے چند مسائل پرتوجہ دینا اور زندگی کے باقی معاملات میں سنت کی پیروی کو نظر انداز کردینا کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں کہلا سکتا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اتباع سنت‘‘ محترم جناب عمرفاروق سلفی کی مرتب شدہ ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے سنت، معنی ومفہوم اور تعریف، اتباع سنت کے لیے بنیادی شرط، اتباع سنت کی ضرورت واہمیت، اتباع سنت کے تقاضے، فتنہ انکار حدیث، بدعت.... اتباع سنت کی راہ میں حائل رکاوٹ، عصر حاضر میں اتباع سنت جیسے عنوانات قائم کر کے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کی دنیا اور اُخروی نجات کا معیار صرف اور صرف قرآن وسنت ہے۔ اور ان دونوں کے علاوہ کو ئی تیسری چیز ہے ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اور تمام مسلمانوں کو قرآن وحدیث کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ (م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اوراصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر اب تک عربی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی بہت سارے رسائل و کتب لکھی جا چکی ہیں۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب " معارف التجوید " دار العلوم دیو بند میں علم تجوید وقراءات کے استاد مولانا قاری محمد یوسف صاحب سہارنپوری کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے علم تجوید کے مسائل کو انتہائی آسان اور مختصر انداز میں بیان کردیا ہے۔ شائقین علم تجوید کے لئے یہ ایک مفید اور شاندار کتاب ہے،جس کا تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
تفسیر کا معنیٰ بیان کرنا یا کھولنا یا کسی تحریر کےمطالب کوسامعین کےقریب ِفہم کردینا ہے ۔قرآن مجید ایک کامل ومکمل کتاب ہے مگر اس کوسمجھنے کےلیے مختلف علوم کی ضرورت ہے ۔قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ کرنا اور ان کامطلب بیان کرنا علم تفسیر ہے اور علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظِ قرآن کی کیفیت ،نطق،اور الفاظ کے معانی اور ان کےافرادی ترکیبی حالات اور ان کے تتمات کا بیان ہوتاہے ۔اور اصول تفسیر سے مراد وہ علوم ہیں جن کے ذریعے قرآن کی تشریح کی جاتی ہے۔ قرآن کلام الٰہی ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ میں ایسی قابلیت پیدا کردی تھی کہ آپ منشاء الٰہی کو سمجھ جاتے تھے اور آپ کو وحی جلی اور وحی خفی کے ذریعہ سےاحکام سے آگاہ بھی کردیاجاتا تھا ۔جو سورت یاآیت نازل ہوتی آپ مسلمانوں کو اس کامطلب سمجھاتےدیتے تھے ۔اس لیے قرٖٖآن مجید کےمفسر اول حضور ﷺ اور پہلی تفسیر حدیث ِرسول ﷺہے ۔آپ ﷺ نے قرآن کی جو تفسیر بیان کی اس کا کچھ حصہ آپ کی حیات ِمبارکہ میں ہی ضبط تحریر میں آیا او رکچھ حصہ صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ رہا جو اس عہد کے بعد ضبطِ تحریر میں آیا ۔عہد خلافت راشد ہ میں مسلمانوں کی زیادہ توجہ حفظ قرآن اور تدوین حدیث اور ملکی معاملات پر رہی اس لیے تفسیر کے نام سے سوائے تفسیر ابی بن کعب اور تفسیر ابن عباس کےاورکوئی تفسیر کی کتاب مرتب نہیں ہوئی۔ اس کے بعد عصر حاضر تک قرآن کریم کی ہزاروں تفاسیر لکھی جا چکی ہیں اور ہر صدی میں متعدد کتب تفسیر کی کئی لکھی گئیں ۔اس کے علاوہ قرآن کریم کےمتعدد پہلوؤں پر علمی و تحقیقی کام موجود ہے ۔زیر تبصرہ کتاب" مختصر تفسیر سورہ فاتحہ، آیت الکرسی، آخری پارہ "سعودی عرب کے معروف عالم دین ڈاکٹر صالح بن فوزان الفوزان کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے تفسیر ابن کثیر سے انتخاب کرتے ہوئے سورہ فاتحہ، آیت الکرسی اور تیسویں پارے کے مختصر تفسیر بیان فرمائی ہے۔اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر غلام محمد قمر ازہری اور عبد النذیر خان ازہر ی نے کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالی اور نبی کریمﷺ نے ایک پاکیزہ مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لئے اس کے جملہ خدوخال کو بیان فرمایا،ان خوبیوں کو بیان فرمایاجو کسی بھی کامیاب معاشرے کا حسن ہوتی ہیں اور ان مفاسد اور گمراہیوں کو بھی کھول کھول کر بیان فرمایا جو معاشرتی حسن کو دیمک کی طرح کاٹ لیتی ہیں اور پورا معاشرہ شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید نے اوامر ونواہی کے ساتھ ساتھ جو ماضی کی اقوام وملل کے قصص بیان فرمائے ہیں ان کا مقصد محض واقعات بیان کرنا نہیں بلکہ ان اقدار عالیہ اور اوصاف حمیدہ کو بیان کرنا مقصد ہے جنہیں اپنا کر مختلف اقوام کی تقدیر کا ستارہ کمال بلندی پر چمکا۔ دعوہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد اقدار اسلامیہ کو پروان چڑھانے اور اخلاقی برائیوں کے تدارک کے لئے جہاں مختلف ٹریننگ پروگرامز کا اہتمام کرتی ہے وہیں مختلف طبقات کے لئے آسان اور سلیس زبان میں قرآن وسنت کی روشنی میں ضخیم کتب کے ساتھ ساتھ کتابچہ جات کی طباعت کا بھی اہتمام کرتی رہتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" وفا کی خوشبو" بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں دعوہ اکیڈمی کی جانب سے شائع کئے جانے والے مجلے ماہنامہ "دعوۃ" کے مدیر جناب زبیر طارق نے سیرت نبویﷺ پر چند واقعات کو قلمبند کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
مولانا زکریا روپڑی خاندان روپڑیہ کےفیض یافتہ منجھے ہوئے عالم دین، صاحب فکر ودانش ، دینی ودنیاوی علم سےبہرہ ور اور روشن فکر کےحامل تھے ۔انہوں نےاپنے حلقۂ اثر میں مسلسل 30 خطابت کی ۔مولانا اپنی خطابتی ذمہ داریاں ادار کرتے ہوئے اپنے بیان کیے گئے خطابات کو اپنی خاص ڈائری میں
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے،اور قراء کرام کا تجربہ گواہ ہے کہ اگر بچپن میں ہی تلفظ کے ساتھ قاعدہ پڑھا دیا جائے تو بڑی عمر میں تلفظ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔انہی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے متعدد قراء کرام نے بچوں کے لئے متنوع اقسام کے قاعدے تیار کئے ہیں تاکہ شروع میں ہی بچوں کا تلفظ بہتر ہو جائے۔انہی میں سے ایک کاوش محترم قاری محمد اسماعیل خورجوی صاحب ، مدرس تحفیظ القرآن مکہ معظمہ کا مرتب کردہ "مکی قاعدہ"ہے۔اس میں انہوں نے حروف مفردہ اور حرکات کی پہچان کے ساتھ ساتھ حروف مستعلیہ، متشا بہ الصوت حروف،حروف قلقلہ اورحروف مدہ وغیرہ کی ادائیگی کی انتہائی آسان اور سہل انداز میں پہچان کروائی گئی ہے۔ اگرچہ یہ قاعدہ بچوں کے لئے لکھا گیا ہے ،مگر بچوں اور بڑوں سب کے انتہائی مفید اور شاندار ثابت ہوا ہے۔اللہ تعالی مولف کی ان خدمات کو قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
ہر بادشاہ اپنے مرکز کے تحت صوبوں اور علاقوں کی اس وقت تک مدد کرتا ہے جب تک وہ مرکز سے منسلک رہیں اور اس کے قانون کے فرمانبردار رہیں۔ اگر بغاوت کر کے دشمن سے جا ملیں یا اپنی خواہش سے قانون بنا کر جاری کر دیں اور نیابت سے انکار کر کے خود مختار بادشاہ بن بیٹھیں تو وہ بجائے امداد کے بغاوت کی سزا پاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح آسمانی بادشاہت کا قانون ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو اپنی زمین کا انتظام سپرد کر کے زمین میں اپنا نائب قرار دیا ہے۔ جب تک انسان خدا کا نائب بن کر آسمانی قانون کے تحت زمین کا نتظام کرتا ہے اور قانون فطرت یعنی شریعت کا پابند رہتا ہے، اللہ تعالی اپنے نائب کے طور پر اس کی ہر قسم کی مدد کرتا ہے۔اور جب آسمان سے مدد مانگنے کی بجائے غیر اللہ سے مدد مانگتا ہے تو باوجود افرادی قوت کے خدائی مدد سے محروم ہو جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "مقام آدمیت، نیابت الہی" محترم مولانا قدرت اللہ لکھوی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے انسان کی اسی حقیقت کو آشکارہ کیا ہے کہ اگر انسان دنیا وآخرت دونوں جہانوں کی بھائی چاہتا ہے تو اسے اللہ کا نائب بن کر اس کے احکامات کی پابندی کرنا ہو گی اور اپنی خواہشات نفس کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
اسلام کے نظام معیشت کی بنیادی خصوصیت انفرادی ملکیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ دولت کی زیادہ سے زیادہ تقسیم اور اس کو ارتکاز سے بچانا ہے،اس کی ایک عملی مثال زکوۃ کا نظام ہے۔زکوۃ کو واجب قرار دیا جانا ایک طرف اس بات کی دلیل ہے کہ سرمایہ دار خود اپنی دولت کا مالک ہےاور وہ جائز راستوں میں اسے خرچ کر سکتا ہے۔دوسری طرف اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان کی دولت میں سماج کے غریب لوگوں کا بھی حق ہے ۔یہ حق متعین طور پر اڑھائی فیصد سے لیکر بیس فیصد تک ہے،جو مختلف اموال میں زکوۃ کی مقررہ شرح ہے،اور بطور نفل اپنی ضروریات کے بعد غرباء پر جتنا کرچ کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔نبی کریم ﷺ کے زمانے میں سونا اور چاندی بطور کرنسی کے استعمال ہوتے تھے اور ان کی قیمت میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سونے اور چاندی کی قیمت میں بہت زیادہ فرق آ گیا۔آج جب کاغذی
اللہ رب العالمین ہر چیز کا خالق ہے، وہ ہر شے کی حاجات وضروریات، طبائع اور مصالح کا خوب خوب علم رکھتا ہے۔ اس نے اپنے بندوں کی طبائع کو ملحوظ رکھ کر کمال مہربانی کرتے ہوئے اعمال کے فضائل اور جزا کو بیان فرمایا ہے۔ اگر فضائل اور جزاء کو نہ بھی بیان کیا جاتا تو تب بھی ہم اللہ تعالی کے ارشاد کو ماننے کے مکلف ہوتے۔ تاہم ترغیب وتحریض سے اعمال کی بجا آوری میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔نیک اعمال کرنے پر لوگوں کو ابھارنے اور شوق دلانے کی تلقین خود رب کائنات نے کی ہے۔ اعمال صالحہ کی جزاء اور ثواب کا تذکرہ کرنے سے بھی یہی مقصود ہے کہ لوگ عملی زندگی اپنائیں اور نیک کام کرنے میں تندہی دکھائیں کہ ان کے اعمال رائیگاں نہیں جائیں گے۔ بلکہ انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی۔ بے شمار آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ میں اعمال صالحہ کی جزاء اور ثواب کا تذکرہ موجود ہے،جنہیں پڑھ کر انسان کا شوق عمل بڑھ جاتا ہے، لیکن جب یہی ترغیب اصل بنیادوں سے ہٹ جاتی ہے اور ضعیف روایات کو پیش کیا جاتا ہے تو بہت ساری قباحتوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "قرآن مجید اور صحیح احادیث کی روشنی میں شوق عمل" محترم ڈاکٹر حافظ محمد شہباز حسن صاحب، شعبہ علوم اسلامیہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے قرآن مجید اور صحیح احادیث کی روشنی میں متعدد نیک اعمال کا اجر وثواب بیان فرمایا ہے تاکہ شوق عمل پیدا ہو سکے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
انسانی حقو ق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام و قار اور مساوات پر مبنی ہے ۔قرآن حکیم کی روسے اللہ رب العزت نے نوع انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔قرآن کریم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کیاگیاہے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سیدنا آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوق پر فضلیت عطاکی گئی ۔مغرب نے حقوقِ انسانی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ انتہائی ناقص اور فرسودہ ہے، اس کے اندر اتنی وسعت نہیں کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں کا احاطہ کرسکے اس کے باوجود مغرب حقوق انسانی کی رٹ لگائے تھکتا نہیں، لیکن محمد عربی ﷺنے جو مربوط نظام، انسانی حقوق کا پیش کیا وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، جن میں احترام انسانیت، بشری نفسیات ورجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اورمعاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیاگیا ہے اور حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اس کو ادا کرنا پڑے گا ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی، حتیٰ کہ جانوروں کے آپسی ظلم وستم کا انتقام بھی لیا جائے گا۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: حق والوں کو ان کے حقوق تمہیں ضرور بالضرور قیامت کے روز ادا کرنے پڑیں گے، حتیٰ کہ بے سنگھے بکرے کو سینگھ والی بکری سے بدلہ دیا جائے گا۔ زیر تبصرہ کتاب" حقوق انسانیت اسلام کی نظر میں " محترم ابو الفداء حافظ راشد علی محمدی صاحب کی تصنیف ہے، جس کی نظر ثانی ابو الحسن عرفان الحسن محمدی صاحب کی فرمائی ہے۔مولف موصوف نے اس کتاب میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانی حقوق کا جائزہ لیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اسلامی معاشیات ایک ایسا مضمون ہے جس میں معاشیات کے اصولوں اور نظریات کا اسلامی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں معیشت کس طرح چل سکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس مضمون کے بنیادی موضوعات میں یہ بات شامل ہے کہ موجودہ معاشی قوتوں اور اداروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق کس طرح چلایا جا سکتا ہے ۔ اسلامی معیشت کے بنیادی ستونوں میں زکوٰۃ، خمس، جزیہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں یہ تصور بھی موجود ہے کہ اگر صارف یا پیداکاراسلامی ذہن رکھتے ہوں تو ان کا بنیادی مقصد صرف اس دنیا میں منافع کمانا نہیں ہوگا بلکہ وہ اپنے فیصلوں اور رویوں میں آخرت کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ اس سے صارف اور پیداکار کا رویہ ایک مادی مغربی معاشرہ کے رویوں سے مختلف ہوگا اور معاشی امکانات کے مختلف نتائج برآمد ہوں گے۔ اسلامی مالیات اور کاروبار کے بنیادی اصول قرآن وسنت میں بیان کردیے گئے ہیں۔ اور قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے امت نے اجتماعی کاوشوں سے جو حل تجویز کیے ہیں وہ سب کے لیے قابل قبول ہونے چاہئیں۔کیونکہ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کے بنیادی مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات میں اختلافی مسائل کےحوالے سے علماء وفقہاء کی اجتماعی سوچ ہی جدید دور کے نت نئے مسائل سے عہدہ برآہونے کے لیے ایک کامیاب کلید فراہم کرسکتی ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’اسلام کا معاشی نظام اور اسلامی ریاست کا نظام محاصل‘‘ تنظم اسلامی پاکستان کے بانی جناب ڈاکٹر اسراراحمد کی اسلام کے معاشی نظام پر کی گئی زرعی یونیورسٹی ،فیصل آبا،اور محکمہ محنت پنجاب کے زیر اہتمام مل مالک اور مزدور لیڈروں کےایک مشترک اجتماع میں کئی گئی دو تقریروں کی کتابی صورت ہے جسے انہوں نےسامعین کےاصرار پر شائع کیا اور اس میں انہو ں اسلام کا نظام محاصل کےعنوان اپناایک مقالہ بھی شامل کیا ہے۔(م۔ا)
مناظر اسلام حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری اہل حدیث کے نامور مناظر اور مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے نائب امیر تھے۔ وہ اپنے خطابات میں مسلک اور جماعت کی ترجمانی کا حق ادا کر دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ان کی وعظ و تبلیغ سے بے شمار لوگ مسلک اہلحدیث سے وابستہ ہو گئے۔ توحید، سیرۃ النبیﷺاور شان صحابہ ان کے خاص موضوع تھے۔انہوں نے اپنی پوری زندگی مسلک اور جماعت کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ حافظ صاحب مرحوم یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جب تک زندہ رہوں گا مرکزی جمعیت اہلحدیث کا خادم رہوں گا اور اس کا پیغام قریہ قریہ اور بستی بستی پہنچاتا رہوں گا۔ افسوس کہ وہ بعارضہ دل کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے اور اور 23فروری 2004ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ شیخوپورہ میں مرحوم کی نماز جنازہ امیر محترم پروفیسر ساجد میر نے بڑے حزن و ملال کی حالت میں پڑھائی۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ کمپنی باغ پہنچ گئے۔ اخبارات کے مطابق یہ شیخوپورہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ لوگوں نے بادیدہ نم مرحوم کو سپرد رحمت باری کیا۔ان کی وفات پر وطن عزیز کے کئی نامور مضمون نگاروں اور سوانح نگاروں نے حافظ عبد اللہ شیخوپوری کے متعلق مضامین تحریر کیے جو اخبارات، رسائل وجرائد کی زینت بنے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’حافظ محمد عبد اللہ شیخوپوری حیات وخدمات‘‘ حافظ صاحب مرحوم پر لکھے گئے مختلف اہل علم کے رشحات قلم کا مجموعہ ہے جسے محترم جناب حافظ محمد اسلم شاہدروی﷾ (مصنف ومترجم کتب کثیرہ ،مرکزی رہنما مرکزی جمعیت اہل پاکستان) نے بڑی حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ فاضل مرتب نے اس کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے باب اول حافظ عبد اللہ شیخوپوری مرحوم کی حیات و خدمات کے متعلق مختلف شخصیات کے تحریر شدہ 13 مضامین پر مشتمل ہے۔ مضمون اول فاضل مرتب کا تحریر کردہ ہے جو اولاً ہفت روزہ ہل حدیث میں تین اقساط میں شائع ہوا تھا۔مذکور مجلہ میں اس مضمون کی اشاعت پر مضمون نگار جناب مولانا حافظ محمد اسلم شاہدروی﷾ کو حافظ صاحب مرحوم کی اہلیہ محترمہ نے مختلف تحائف سے نوازا۔ دوسرا باب میں مختلف اہل علم کے حافظ صاحب مرحوم کے بارے میں تاثرات کے متعلق ہے۔ تیسرا باب حافظ عبد اللہ مرحوم کے متعلق شائع شدہ اخباری کالموں اور ادارتی صفحات کےمضامین پر مشتمل ہے۔ چوتھے باب میں حافظ صاحب مرحوم کا نظموں او راشعار کی صورت میں تعارف و تذکرہ پیش کیاگیا ہے۔ اس باب میں محدث العصر مولانا حافظ عبد المنان نورپوری کی عربی زبان میں تحریر شدہ نظم بالخصوص قابل ذکر ہے جس میں انہوں نےعربی اشعار کی صورت میں حافظ عبد اللہ شیخوپوری کا مکمل تعارف پیش کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حافظ صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی وارفع مقام عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ اجر عظیم سے نوازے(آمین) فاضل مرتب کہ انہوں نے اپنی قیمتی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر بڑی محنت سے کتاب ہذا کو مرتب کیا ہے۔ مرتب موصوف اس کتاب کے علاوہ بھی کئی کتب کے مصنف ومترجم ہیں۔ اور طویل عرصہ سے مرکزی جمعیت اہل حدیث ،پاکستان سے وابستہ ہیں اور دار المعارف مبارک مسجد ،لاہور میں ریسرچ کےشعبہ میں بطور مدیر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ (م۔ا)
شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو اایک خاص مقام حاصل ہے ۔او رتمام شرائع ومذاہب میں بھی دعا کا تصور موجود رہا ہے مگر موجود ہ شریعت میں اسے مستقل عبادت کادرجہ حاصل ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے کہ جو تقدیر کو بدل سکتی ہے ۔دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالق اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اسے تب ہی فائدہ دیتی ہے جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کوبھی ملحوظ رکھے۔ بہت سارے اہل علم نے قرآن وحدیث سے مسنون ادعیہ پر مشتمل بڑی وچھوٹی کئی کتب تالیف کی ہیں تاکہ قارئین ان سے اٹھاتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے تعلق مضبوط کرسکیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’منتخب دعائیں‘‘ شیخ محمد بن عبدالعزیز المسند کامرتب کردہ دعاؤں کامجموعہ ہے ۔ یہ مجموعہ شیخ موصوف نے ائمہ مساجد اور دیگر حضرات کے لیے جمع کیا ہے ۔تاکہ وہ رمضان وغیر رمضان ، سجدوں ،نماز وتر میں اور ختم قرآن کےموقعہ پر ان ادعیہ مبارکہ سے استفادہ کرسکیں۔(م۔ا)
جادو، جنات کاموضوع سرزمین پاک وہند میں ہمیشہ سےعوام وخواص کی دلچسپی اور توجہ کاموضوع رہا ہے۔جادو کرنا او رکالے علم کےذریعے جنات کاتعاون حاصل کر کے لوگوں کو تکالیف پہنچانا شریعتِ اسلامیہ کی رو سےمحض کبیرہ گناہ ہی نہیں بلکہ ایسا مذموم فعل ہےجو انسان کو دائرۂ اسلام سے ہی خارح کردیتا ہے اور اسے واجب القتل بنادیتا ہے ۔جادو اور جنات سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کے علاج کےلیے کتاب وسنت کے بیان کردہ طریقوں سے ہٹ کر بے شمار لوگ شیطانی اور طلسماتی کرشموں کے ذریعے ایسے مریضوں کاعلاج کرتے نظر آتے ہیں جن کی اکثریت تو محض وہم وخیال کے زیر اثر خود کو مریض سمجھتی ہے ۔جادوکا موضوع ان اہم موضوعات میں سے ہے جن کا بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے ذریعے تعاقب کرنا علماء کےلیے ضروری ہے کیونکہ جادو عملی طور پر ہمارے معاشروں میں بھر پور انداز سے موجود ہے اور جادوگرچند روپوں کے بدلے دن رات فساد پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں جنہیں وہ کمزور ایمان والے اور ان کینہ پرور لوگوں سے وصو ل کرتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے بغض رکھتے ہیں او رانہیں جادو کے عذاب میں مبتلا دیکھ کر خوشی محسوس کرتےہیں لہذا علماء کے لیے ضروری ہے کہ جادو کے خطرے او راس کے نقصانات کے متعلق لوگوں کوخبر دارکریں اور جادو کا شرعی طریقے سے علاج کریں تاکہ لوگ اس کے توڑ اور علاج کے لیے نام نہادجادوگروں عاملوں کی طرف رخ نہ کریں۔ زیر تبصرہ کتاب’’انسان اور جادو جنات‘‘ ڈاکٹر حافظ مبشرحسین﷾ کی تصنیف ہے اس کتاب میں انہوں نے جادو ،جنات کے موضوع کا قرآن وسنت او رواقعاتی تجربات کی روشنی میں جائزہ لیتے ہوئے ان مباحث پر خاص طور توجہ دی ہے جو ایک مسلمان کے عقائد سے تعلق رکھتے ہیں اور جہاں جہاں موصوف نےیہ محسوس کیا کہ فلاں چیز خرابی عقائد کا ذریعہ بن سکتی ہے اس سے متنبہ کرنےکی پوری کوشش کی ہے ۔اور پاک وہند میں جادو کےحوالے سے جو اعتراضات کیے جاتے ہیں کتاب ہذا میں ان کےتشفی بخش جواب دئیے گئے ہیں ۔جادو ، جنات کے توڑ کے علاوہ روحانی علاج معالجہ کے حوالے سے بھی قرآن وسنت کی روشنی میں تفصیلات اس کتا ب میں پیش کردی گئی ہیں اور بہت سے جسمانی بیماریوں کے روحانی علاج پیش کیے ہیں۔(م۔ا)
وہ علم جس میں احکام کے مصادر ،ان کے دلائل کے، استدلال کے مراتب اور استدلال کی شرائط سے بحث کی جائے او راستنباط کے طریقوں کووضع کر کے معین قواعد کا استخراج کیا جائے کہ جن قواعد کی پابندی کرتے ہوئے مجتہد تفصیلی دلائل سے احکام معلوم کرے، اس علم کا نام اصول فقہ ہے۔ علامہ ابن خلدون کے بقول اس وجہ سے یہ علم علوم شریعت میں سے سب سے عظیم، مرتبے میں سب سے بلند اور فائدے کے اعتبار سے سب سے زیادہ معتبرہے (مقدمہ ابن خلدون ص: 452) جس طرح کسی بھی زبان کو جاننے کےلیے اس زبان کے قواعد و اصول کو سمجھنا ضروری ہے اسی طر ح فقہ میں مہارت حاصل کرنےکے لیے اصول فقہ میں دسترس اور اس پر عبور حاصل کرناضروری ہے اس علم کی اہمیت کے پیش نظر ائمہ فقہاء و محدثین نے اس موضوع پر کئی کتب تصنیف کی ہیں اولاً امام شافعی نے الرسالہ کے نام سے کتاب تحریرکی پھر اس کی روشنی میں دیگر اہل علم نے کتب مرتب کیں۔ اصول فقہ کی تاریخ میں بیسویں صدی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس دور میں علم اصول فقہ نےایک نئی اٹھان لی اوراس پر کئی جہتوں سے کام کاآغاز ہوا: مثلاً اصول کاتقابلی مطالعہ، راجح مرجوح کاتعین اور مختلف کتب میں بکھری مباحث کو یک جا پیش کرنےکے ساتھ ساتھ موجودہ قانونی اسلوب اور سہل زبان میں پیش کرناوغیرہ ۔اس میدان میں کام کرنے والے اہل علم میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر عبد الکریم زیدان کا بھی ہے۔ اصول فقہ پران کی مایۂ کتاب ’’الوجیز فی اصول الفقہ‘‘ اسی اسلوب کی نمائندہ کتاب ہے اور اکثر مدارس دینیہ میں شامل نصاب ہے۔ زیر نظر کتاب ’’الوجیز فی اصول الفقہ‘‘ سید عبدالکریم زیدا ن کی اصول فقہ کے موضوع پر جامع عربی کتاب کا ترجمہ ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کو چارابو اب میں تقسیم کرکے مثالوں کے ساتھ تفصیلی مباحث پیش کی ہیں۔ باب اول :حکم کی مباحث۔ باب دوم: احکام کے دلائل کی بحث میں۔ باب ثالث: احکام کے استنباط کے طریقہ اور قواعد اور ان کے ساتھ ملحق قواعد ترجیح اور ناسخ ومنسوخ۔ باب چہارم: اجتہاد او راس کی شرائط ،مجتہد،تقلید اور اس کے تعریف کے متعلق ہے۔ مصنف نے اس میں ہر مسئلے کے بارے میں بنیادی اوراہم اصول اختصار و جامعیت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ اس کتاب کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ مؤلف نے کسی ایک مکتب فکر کے اصول پیش نہیں کیے اور نہ کسی خاص مکتب فقہ کی تقلید وحمایت کی ہے۔ اختلافی مسائل میں مصنف نے مختلف آراء کا محاکمہ کیا ہے اور آخر میں اپنی رائے پیش کی ہے۔ عربی کتاب کو اردو قالب میں ڈھالنے کا کام محترم جناب حافظ شعیب مدنی﷾ (فاضل مدینہ یونیورسٹی) اور مولانا حافظ اسلم شاہدروی﷾ کی مشترکہ کاوش ہے۔ اس ترجمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مصنف کتاب کی طرف سے اضافہ کی گئی فصل کا ترجمہ بھی شامل کردیاگیا ہے۔ جبکہ دیگر تراجم میں یہ اضافہ شامل نہیں ہے نیز مترجمین نے چند مقامات پر توضیحی