محسنِ ا نسانیت محمد رسول اللہﷺ نے مرکزِ زمین مکہ مکرمہ میں جب اسلام کی صدائے جاں فزا بلند کی تو سلیم فطرت اور شریف نفس انسان یکے بعد دیگرے اس صدا پر لبیک کہنے لگے۔ اس صدائے توحید پر دورِ اول میں لبیک کہنے والوں کی خوشی نصیبی اور بلند بختی کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ.... کے الفاظ سے کیا ہے۔ اتبعوا کے زمرے میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو اس سبقت واوّلیت کا شرف تو حاصل نہ کرسکے البتہ صحبت رسول کے اعزاز سے سرفراز کیے گئے۔ اور وہ لوگ بھی اس زمرے میں شامل ہیں جو نہ سبقت واوّلیت کا اعزاز پا سکے، نہ صحبت رسو لﷺ سے فیض یاب ہوسکے۔ البتہ سابقون الاولوں اور دوسرے صحابہ کرام کی صحبت میں بیٹھے، ا ن کے سامنے زانوے تلمذ تہ کئے۔ ان کی سیرت کو اپنایا اور ان کے علم قرآن و فہم سنت سے خوب سیراب ہوئے۔ یہ لوگ اپنے اساتذہ کےنقش قدم پر یوں چلے کہ ان اساتذہ سے دادا پائی ۔ان کی موجودگی میں افتاء وارشاد کی مسند پر جلوہ آرا ہوئے اور کتاب وسنت کی تشریح کی گراں بار ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوتے رہے۔ تاریخ نےاس دوسرے طبقے کے ان ہدایت یافتگان کو تابعی کا نام دیا ہے۔ مکہ ومدینہ اور بصرہ و شام کے علاوہ دیگر کئی شہر علم و عرفان اور عبادت ا وریاضت کی ان بے مثال نشانیوں سے جگمگاتے رہے۔ یہ انہی لوگوں کی علمی محنتوں اور ریاضتوں کاثمر ہے کہ دین توحید کاعلم روئے زمین پر اس شرح وبسط کے ساتھ موجود ہے کہ دنیا کے کسی اور دین کی تعلیمات اس قدر مستند اور بااعتماد حیثیت میں موجود نہیں جس قدر اسلام کی تشریح و تعبیر اپنے پورے متن کے ساتھ موجود ہے۔ ائمہ محدثین جن کی شہرت چہاردانگ عالم میں پھیلی اسی طبقہ تابعین کے حلقہ درس کے فیض یافتہ تھے۔ جس اصحاب رسولﷺ کی تعداد لاکھوں میں تھی یقیناً صحابہ کے شاگردوں اور زائرین کی تعداد بھی لاکھوں میں ہوگی۔ تاریخ ان سب کی زندگیوں کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے تاہم یہ شہادت موجود ہے کہ لاکھوں اصحاب و علم وفضل کے تذکرے تفصیل سے تاریخ کےصفحات پر محفوظ ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ’’زندگیاں تابعین کی‘‘ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت پاشا کی کتاب ’’صور من حیاۃ التابعین‘‘ کا ترجمہ ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں 29 جلیل القدر تابعین کرام کے روح افزا اورایمان افروز تذکرے ایک منفرد اسلوب کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ محترم جناب مولانا افتخار الحسن ندوی صاحب نے اس کتاب کا اردو دان طبقہ کے لیے سلیس اردو ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ یہ کتاب تابعین کرام کی ذوات مقدسہ کے درخشاں پہلوؤں پر ایک مختصر اورمنفرد کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ،مترجم او رناشرین کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور امت مسلمہ کو صحابہ و تابعین جیسی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین( م۔ا)
انسانی تخلیق میں اللہ تعالی کی جو حکمت، قدرت، تدبیر اور مناسبت کار فرما ہے سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی نئی نئی جہتیں سامنے آ رہی ہیں۔ایسے ہی مظاہر قدرت میں جنیٹک سائنس سے حاصل ہونے والی معلومات بھی ہیں۔انسان کے جسم کا بے شمار خلیات سے مرکب ہونا، ہر خلیہ پر جین کی ایک بہت بڑی تعداد کا قیام پذیر ہونا اور ان جینوں کا انسان کی مختلف صلاحیتوں اور قوتوں پر اثر انداز ہونا کارخانہ قدرت کا ایسا اعجاز ہے کہ جس کا رمز آشنا ایک مسلمان ڈاکٹر کے بہ قول دو ہی صورتوں میں ایمان سے محروم رہ سکتا ہے، یا تو اس کے دماغ میں خلل ہو یا وہ توفیق خداوندی سے محروم ہو۔جنیٹک سائنس جہاں خدا کی بے پناہ قدرت اور اس کی حکمت و تدبیر سے پردہ اٹھاتی ہےاور علاج کے باب میں ایک چراغ امید بن کر آئی ہے، وہاں بہت سارے شرعی مسائل بھی ان تحقیقات کے پس منظر میں پیدا ہو گئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" ڈی این اے ٹسٹ اور جنیٹک سائنس سے متعلق شرعی مسائل" ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں انہوں نے پندرہویں فقہی سیمینار منعقدہ میسور مؤرخہ 11 تا 13 مارچ 2006ء میں ڈی این اے ٹسٹ اور جنیٹک سائنس سے متعلق شرعی مسائل کے موضوع پر اہل علم کی طرف سے پیش کئے گئے تحقیقی مقالات جمع کر دئیے گئے ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ایفا پبلیکیشنز والوں کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)آمین(راسخ)
شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی (1703-1762) برصغیر پاک و ہند کے ان عظیم ترین علماء ربانیین میں سے ہیں جو غیر متنازع شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ہر مسلک کے مسلمانوں کے ہاں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں ان کی شہرت صرف ہندوستان گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر ہے ۔وہ بلاشبہ اٹھارہویں صدی کے مجدد تھے اور تاریخ کے ایک ایسے دورا ہے پر پیدا ہوئے جب زمانہ ایک نئی کروٹ لے رہا تھا، مسلم اقتدار کی سیاسی بساط لپیٹی جا رہی تھی، عقلیت پرستی اور استدلالیت کا غلبہ ہو رہا تھا۔آپ نے حجۃ اﷲ البالغہ جیسی شہرہ آفاق کتاب اور موطا امام مالک کی شرح لکھی اورقرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ دوران ترجمہ شاہ صاحب کے سامنے بہت سے علوم و معارف اور مسائل و مشکلات واشگاف ہوئے ۔ شاہ صاحب نے ان کو حل کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے متعدد کتابیں اور رسالے لکھے ۔ترجمہ کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے "مقدمہ در قوانین ترجمہ" کی تصنیف فرمائی۔اس کے علاوہ شاہ صاحب نے تصوف وسلوک ، فقہ واصول فقہ ، اجتہاد وتقلید کے حوالے سے کئی رسائل تالیف فرمائے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ مجموعہ رسائل امام شاہ ولی اللہ ‘‘ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تصوف وسلوک کا فلسلفہ ، تاریخ تصوف اوراحکام شریعت کےاسرارورموز، فقہ ،تاریخ فقہ، اجتہاد، وتقلید، تفسیر، و اصول تفسیر، تاریخ علوم وفنون، نظریہ تعلیم اور وصیت نامہ پر مشتمل متعدد نادر ونایاب رسائل وکتب کا گرانقدر مجموعہ ہے۔ شاہ صاحب کے یہ سارے رسائل فارسی یا عربی زبان میں ہیں اور نایاب تھے تو شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ ) دہلی نے ان رسائل کا اردو تراجمہ کرواکر انہیں آٹھ ضحیم مجلدات میں شائع کیا ہے ۔ان رسائل میں تصوف کے حوالے سے بعض ایسے رسائل بھی ہیں کہ ان میں بیان کیےگئے شاہ صاحب کے نظریات سے ادارہ کا اتفاق نہیں ہے محض تحقیق وتنقید کرنے والے ریسرچ سکالرز کی سہولت کے لیے انہیں سائٹ پر پبلش کردیاگیا ہے کیونکہ عموماً شاہ صاحب کے یہ رسائل یکجا دستیاب نہیں ہوتے ۔(م۔ا)اس مجموعہ میں شامل رسائل کی فہرست حسب ذیل ہے : ہمعات، سطعات، لمعات،الطاف القدس، الخیر الکثیر، عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید، الانصاف فی سبب الاختلاف، الفوز الکبیر فی اصول تفسیر، فتح الخیر بما لابد من حفظہ فی علم التفسیر، فیوض الحرمین، السرالمکتوم فی اسباب تدوین العلوم، چہل حدیث، شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوب، انفاس العارفین، مقدمہ در قوانین ترجمہ ، حجۃ اللہ البالغہ،الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین، مکتوب مدنی ، القول الجمیل فی بیان سواء السبیل، انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ ، البلاغ المبین، العقیدہ الحسنۃ، التفہیمات الالٰہیہ، البدور البازغہ وغیرہ ۔
اسلام ایک کامل اور اکمل دین ہے جواپنے ماننے والوں کوصرف مخصوص عقائد ونظریات کو اپنانے ہی کی دعوت نہیں دیتا بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر یہ دین مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کی یہ روشن اور واضح تعلیمات اللہ تعالیٰ کی عظیم کتاب قرآن مجید او رنبی کریم ﷺ کی صحیح احادیث کی شکل میں مسلمانوں کے پاس محفوظ ہیں۔ انہی دوچشموں سے قیامت تک مسلمان سیراب ہوتے رہے ہیں گے اور اپنے علم کی پیاس بجھاتے رہیں گے۔ انسان کے روزہ مرہ کے معمولات میں سے ایک اہم امر جانور کو ذبج کرنا ہے۔ اس کے بارے میں نبی کریمﷺ کے واضح ارشادات موجود ہیں۔ فقہاء نےبھی ذبائح کا مستقل عنوان قائم کر کے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ احادیث مبارکہ کے مطالعہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ جس جانور کو ذبح کرنا مقصود ہو‘ تو وہ اس آلے کو نہ دیکھ رہا ہو جس سے اسے ذبح کرنا ہے‘ نیز ذبیحہ کو دوسرے جانوروں سے چھپا کر رکھنا چاہئے کیونکہ مسند امام احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ چھری کو تیز کر لیا جائے اور اسے جانوروں سے چھپایا جائے اور معجم طبرانی کبیرو اوسط میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہﷺ کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جس نے بکری کی گردن پر پاؤں رکھا ہوا تھا‘ وہ چھری تیز کر رہا تھا اور بکری اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی‘ آپ نے فرمایا: ’’یہ کام اس سے پہلے کیوں نہ کر لیا‘ کیا تو اسے دو دفعہ مارنا چاہتا ہے‘‘۔ جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کر لیا جائے۔ اونٹ نحر کے وقت کھڑا کر لیا جائے اور اس کے بائیں پاؤں کو باندھ لیا جائے اور بکری اور گائے وغیرہ کو ذبح کرنے کے لیے بائیں پہلو پرلٹا نا چاہیے۔اور اسی طرح جانور کے ٹھنڈا ہونے یعنی اس کی روح نکلنے کے بعد اس کی گردن توڑی اور کھال اتاری جائے۔ عصر حاضر اختراعات و انکشافات کا دور ہے جس میں انسان کا کام مشینوں سےلیا جارہا ہے۔ چنانچہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح جانور کو ذبح کرنے اور ذبح کے بعد کے ضروری امور انجام دینے کے لیے بھی تیز رفتار مشینیں وجود میں آگئی ہیں۔ بعض ملکوں میں تو گورنمنٹ کی طرف سے بنے ہوئے مذبح میں جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور مذبح میں حکومت کی طرف سے مشین کے ذریعے ذبح کا باضابطہ انتظام کیاجاتاہے۔ دور جدید میں جانوروں کو ذبح کرنے کے جدید سے جدید طریقوں کے پیش نظر اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا ) نے دسمبر 1995ء میں اسی موضوع پر ایک سیمنیار کا انعقاد کیا یہ ان کا ساتواں سیمینار تھا اس سیمینار میں بحث ومناقشہ میں بڑی تعداد نے حصہ لیا اور اسی موضوع پر پانچ صد مقالات پیش کیے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ذبیحہ کے شرعی احکام‘‘ انہی فقہی وعلمی و تحقیقی مقالات پر مشمل ہے۔ ان مقالات کو جناب مولانامحمد فہیم اختر ندوی نے تلخیص کر کے بڑی محنت سے مرتب کیا ہے۔ ان مقالات میں حلال وحرام جانور، ذبح کرنے کے طریقے اورآداب، ذبح سے پہلے بے ہوشی اور مشینی ذبح سے متعلق احکامات کو بیان کیا گیا ہے۔(م۔ا)
اُردو برصغیر کی زبانِ رابطۂ عامہ ہے۔ اس کا اُبھار 11 ویں صدی عیسوی کے لگ بھگ شروع ہو چکا تھا۔ اُردو ، ہند-یورپی لسانی خاندان کے ہند-ایرانی شاخ کی ایک ہند-آریائی زبان ہے. اِس کا اِرتقاء جنوبی ایشیاء میں سلطنتِ دہلی کے عہد میں ہوا اور مغلیہ سلطنت کے دوران فارسی، عربی اور ترکی کے اثر سے اس کی ترقّی ہوئی۔ اُردو (بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے) دُنیا کی تمام زبانوں میں بیسویں نمبر پر ہے. یہ پاکستان کی قومی زبان جبکہ بھارت کی 23 سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے. اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے. اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے. جبکہ ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے. کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں. تاہم، دوسرے اِن کو معاش اللسانی تفرّقات کی بنیاد پر الگ سمجھتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندی ، اُردو سے نکلی۔ ہر زبان کے لئے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں، جن سے اس زبان کو صحیح طور سے سیکھا اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زبان کی درستی اور اس کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لئے ان قوانین پر عمل درآمد کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اردو زبان کے بھی کچھ اصول ہیں، جنہیں قواعد یا گرامر کہا جاتا ہے۔ ان کے جاننے سے اردو زبان کو ٹھیک طریقے سے بولا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" اردو قواعد وانشاء پردازی "محترمہ ماہ لقا رفیق صاحبہ کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے اردو زبان کے قواعد اور انشاء پردازی کے اصول بیان فرمائے ہیں۔(راسخ)
سیدنا حضرت ابراہیم اللہ تعالی کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ قرآن مجید میں وضاحت سے حضرت ابراہیم کا تذکرہ موجود ہے۔ قرآن مجید کی 25 سورتوں میں 69 دفعہ حضرت ابراہیم کا اسم گرامی آیا ہے۔ اور ایک سورۃ کا نام بھی ابراہیم ہے۔ حضرت ابراہیم نے یک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جو شرک خرافات میں غرق اور جس گھر میں جنم لیا وہ بھی شرک وخرافات کا مرکز تھا بلکہ ان ساری خرافات کو حکومتِ وقت اورآپ کے والد کی معاونت اور سرپرستی حاصل تھی۔ جب حضرت ابراہیم پربتوں کا باطل ہونا اور اللہ کی واحدانیت آشکار ہوگی تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے والد آزر کو اسلام کی تلقین کی اس کے بعد عوام کے سامنے اس دعوت کو عام کیا اور پھر بادشاہ وقت نمرود سےمناظرہ کیا اور وہ لاجواب ہوگیا۔ اس کے باجود قوم قبولِ حق سے منحرف رہی حتیٰ کہ بادشاہ نے انہیں آگ میں جلانے کا حکم صادر کیا مگر اللہ نے آگ کو ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بنا دیا اور دشمن اپنے ناپاک اردادوں کے ساتھ ذلیل و رسوار ہوئے اور اللہ نے حضرت ابراہیم کو کامیاب کیا۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں انبیائے کرامکے واقعات بیان کرنے کامقصد خودان الفاظ میں واضح اور نمایا ں فرمایا ’’اے نبیﷺ جونبیوں کے واقعات ہم آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں ان سے ہمارا مقصد آپ کے دل کو ڈھارس دینا ہے اور آپ کے پاس حق پہنچ چکا ہے اس میں مومنوں کے لیے بھی نصیحت وعبرت ہے۔‘‘ زیر تبصرہ کتاب ’’حضرت ابراہیم امام انسانیت‘‘ سہ ماہی علی گڑھ کے مدیر معاون جناب ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی﷾ مصنف ومرتب کتب کثیرہ کی کاوش ہے ۔ اس کتاب کا بیشتر حصہ سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ اور دیگر مجلات میں شائع ہو چکا ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں حضرت ابراہیم کی شخصیت کا محض تاریخی مطالعہ نہیں کیا بلکہ اس میں آپ کی دعوت اور پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی تالیف میں سب سے زیادہ استفادہ قرآن وحدیث سے کیا گیا ہے۔ بائبل، کتب تاریخ و سیرت اور کتب قصص الانبیاء وغیرہ سے بھی ضروری حد تک فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ سیدنا ابراہیم کے حوالے سے یہ ایک مستند اور جامع کتاب ہے۔ اللہ تعالی اس کتاب کو لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین)(م۔ا)
علوم ِنقلیہ کی جلالت وعظمت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر یہ بھی حقیقت کہ ان کے اسرار ورموز اور معانی ومفاہیم تک رسائی علم نحو کے بغیر ممکن نہیں کلام الٰہی ،دقیق تفسیر ی نکات،احادیث رسول ﷺ ،اصول وقواعد ،اصولی وفقہی احکام ومسائل کا فہم وادراک اس علم کے بغیر حاصل نہیں کرسکتے یہی وہ عظیم فن ہےکہ جس کی بدولت انسان ائمہ کےمرتبے اور مجتہدین کی منزلت تک پہنچ جاتاہے ۔جوبھی شخص اپنی تقریر وتریر میں عربی دانی کو اپنانا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے نحو کےاصول وقواعد کی معرفت کا محتاج ہوتاہے ۔عربی مقولہ ہے : النحو فی الکلام کالملح فی الطعام یعنی کلام میں نحو کا وہی مقام ہے جو کھانے میں نمک ہے ۔سلف وخلف کے تمام ائمہ کرام کااس بات پراجماع ہے کہ مرتبۂ اجتہاد تک پہنچنے کے لیے علم نحو کا حصول شرط لازم ہے قرآن وسنت اور دیگر عربی علوم سمجھنےکے لیے’’ علم نحو‘‘کلیدی حیثیت رکھتاہے اس کے بغیر علومِ اسلامیہ میں رسوخ وپختگی اور پیش قدمی کاکوئی امکان نہیں ۔ قرن ِ اول سے لے کر اب تک نحو وصرف پرکئی کتب ان کی شروح لکھی کی جاچکی ہیں ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ رفۃ العوامل شرح اردو شرح مائۃ عامل‘‘ علم نحو کےامام علامہ عبد القاہر جرجانی کی علم نحو پر مائہ ناز کتاب ’’ مائۃ عامل ‘‘کی مفصل اردو شرح ہے فاضل مصنف مفتی عطاء الرحمان نے اس میں نحوی ضوابط اور فوائد ، ترکیبی ترجمہ اور ترکیب کوتفصیلاً ذکر کیا ہے ۔ (م۔ا)
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب " اشرف الانشاء اردو شرح معلم الانشاء "دو جلدوں پر مشتمل محترم مولانا ابو حمزہ محمد شریف صاحب کی کاوش ہے ، جس میں انہوں نے عربی گرائمر کی مشہور ترین کتاب " معلم الانشاء" کا اردو ترجمہ اور شرح پیش کی ہے۔عربی زبان وادب سیکھنے کے حوالے سے یہ ایک مقبول ترین کتاب ہے ،جو متعدد دینی مدارس اور سکولوں وکالجوں کے ایم اے عربی اور فاضل عربی کے نصاب میں داخل ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے ۔آمین(راسخ)
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب " تسہیل القرآن "محترم میر محمد حسین، ایم اے،فاضل دیو بند کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے عربی زبان کے اصول وقواعد کی روشنی میں قرآن مجید کو سمجھنے کے اصول بیان فرمائے ہیں، جن کو سیکھ کر قرآن سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
تفریح فارغ وقت میں دل چسپ سرگرمی اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ اردو عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں مستعمل ہے۔ دور جدید میں تفریح انسانی زندگی کے معمولات کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔ تیز مشینی دو راور مقابلے کی فضا میں کام کرنے سے انسان تھک کر چور ہو جاتا ہے اس کا حل اس نے تفریح میں ڈھونڈا ہے۔ مگر بہت سی تفریحی سرگرمیاں انسان کو دوبارہ کام کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ اس سے دین بھی چھین لیتی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تفریح وسیاحت کا اس کے جائز وسائل و شرعی ضوابط ‘‘ اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا کے زیر اہتمام مارچ 2011ء میں منعقد کیے گئے بیسویں فقہی سیمنار میں مختلف اصحاب علم و دانش و مفتیان کرام کی کرطرف سے پیش گئے علمی، فقہی اور تحقیقی مقالات ومناقشات کامجموعہ ہے جس میں مزاح، لطیف گوئی، مزاحیہ کہانیاں اور ڈرامے، سیر و سیاحت پر زرِ کثیر خرچ کرنا، مختلف کھیل اس کے اصول، کھلاڑیوں کے لباس و پوشاک کھیلوں پر سٹہ لگانا، تاریخی اور تعلیمی مقاصد کے لیے فلمیں اور کارٹون بنانا وغیرہ جیسی ابحاث شامل ہیں۔ (م۔ا )
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب " المؤنث واحکامہ فی اللغۃ العربیۃ " علامہ ارشد حسن ثاقب صاحب کی ایک شاندار تصنیف ہے ،جو اپنے موضوع پر انتہائی مفید کتاب ہے۔ جس میں انہوں نے مونث قیاسی وسماعی اور مونث حقیقی ومجازی کے حوالے سے نہایت جامع بحث کی ہے۔ نیز اس میں انہوں نے سینکڑوں عربی اسماء کو ابجدی ترتیب سے جمع کر کے ان کی تذکیر وتانیث کا حکم بھی بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب " الصرف العزیز "محترم مولانا مفتی محمد حسن صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے علم الصرف کے تمام ضروری مسائل کو جمع فرما دیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن یا قرآن مجید (عربی میں القرآن الكريم) اسلام کی بنیادی کتاب ہے۔ اسلامی عقیدے کے مطابق قرآن عربی زبان میں تقریباً 23 برس کے عرصے میں محمدﷺ پر نازل ہوا۔ قرآن کے نازل ہونے کے عمل کو وحی کہا جاتا ہے۔ اور یہ کتاب مشہور فرشتے حضرت جبرائیل کے ذریعےامام الانبیاء سیدنا محمدﷺ پر نازل ہوئی۔ مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے کہ قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے با وجود اس کا متن ایک جیسا ہے۔ اس کی ترتیب نزولی نہیں بلکہ محمدﷺ کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تاریخ نزول قرآن‘‘ وطن عزیز پاکستان کے معروف سیرت نگار و مؤرخ، کالم نگار مصنف کتب کثیرہ جناب مولانا عبد الرشید عراقی ﷾ کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے قرآن مجید کے نزول کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے اور نزول قرآن کے متعلق تمام معلومات کو یکجا کردیا ہے۔ یہ کتاب سکول اور مدارس کے طلبہ و طالبات اور عام قارئین کے لیے بڑی اہم اور مفید ہے۔ (م۔ا)
آج عالم اسلام بہت کثرت کے ساتھ فرقہ بندی، گروہ بندی اور جماعتی انتشار کا شکار ہے۔ہر فرقہ وگروہ دوسرے سے ہٹ کر اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے۔ اور یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کی فتح ونصرت کا فریضہ صرف اسی کے ہاتھوں سر انجام پانے والا ہے۔بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس جماعت کا حق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ نبوی منہج اور سلف صالحین کے طریقے کو اختیار کرنے والی ہوتی ہے۔مختلف جماعتوں کے وجود نے عام لوگوں کے ذہن میں تمام جماعتوں کے بارے میں شک وشبہ کا بیج بو دیا ہے۔حالانکہ جھوٹی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سچی جماعتیں اور گروہ بھی موجود ہیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ عام سوچ اور فکر رکھنے والے لوگ جماعتوں اور گروہوں سے اس فرق کے بغیر ہی جدا ہو گئے کہ کونسی جماعت حق پر ہونے کی وجہ سے ان کی دوستی کی مستحق ہے اور کونسی جماعت باطل پر ہونے کی وجہ سے براءت کی مستحق ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "طائفہ منصورہ کی صفات "محترم عبد المنعم مصطفی حلیمہ ابو بصیر الطرطوسی صاحب کی تصنیف ہے، جس کی تلخیص محترم ڈاکٹر شفیق الرحمن صاحب نے کی ہے۔مولف نے اس کتاب میں قرآن وسنت کی روشنی میں طائفہ منصورہ اور جماعت حق کی صفات بیان کی ہیں کہ جن جن لوگوں میں یہ صفات ہوں گی وہ حق پر ہونگے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ا ن کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔(راسخ)
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب " افعال القرآن"محترم پروفیسر عاشق حسین بن متاب علی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے قرآن مجید میں مستعمل افعال کو جمع کرتے ہوئے ان کی لغوی و صرفی تشریح فرما دی ہے۔اس کتاب کو پڑھنے سے قرآن مجید کا ترجمہ کرنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
عصر حاضر کی تہذیب نے انسان اور اس کے گردوپیش کے عروج و ارتقاء کی لمبی مسافت طے کر لی ہے اور اس کی آسائش اور آسودگی کے لئے بہت سے مادی وسائل مہیا کر دئیے ہیں، لیکن نئی ایجادات وانکشافات کے سبب انسان پریشانی میں مبتلاء ہو گیا ہے اور مشرق کا مغلوب اور شکست خوردہ انسان مغرب کے غالب انسان کی تقلید میں اور نقالی کا دلدادہ اور عاشق ہو گیا ہے، اور باشندگان مشرق ومغرب دونوں کی انسانیت و شرافت ضعف و اضمحلال کا شکار ہو چکی ہے۔ اس لئے کہ جسم کی آسودگی کا انتظام کیا گیا ہے اور روح کے تقاضوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ انسان اپنے ارد گرد کی چیزوں کا تو مالک بن گیا ہے لیکن اس کے ہاتھ خود اپنے نفس کا لگام چھوٹ گیا ہے اوروہ خود اپنا دشمن بن گیا ہے۔انسان کی روح اور اخلاق کی آسودگی کاکام اللہ تعالی کی عبادات میں مخفی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" انسان کی روح اور اخلاق پر عبادات کے تربیتی اثرات "محترم داکٹر صلاح الدین سلطان کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے انسان کی روح اور اخلاق پر عبادات کے تربیتی اثر جیسے اہم موضوع کو بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
وقوع قیامت کا عقیدہ اسلام کےبنیادی عقائد میں سےہے اور ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے ۔ قیامت آثار قیامت کو نبی کریم ﷺ نے احادیث میں وضاحت کےساتھ بیان کیا ہے جیساکہ احادیث میں ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسیٰ بن مریم نازل نہ ہوں گے ۔ وہ دجال اورخنزیہ کو قتل کریں گے ۔ صلیب کو توڑیں گے۔ مال عام ہو جائے گا اور جزیہ کو ساقط کر دیں گے اور اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قبول نہ کیا جائے گا، یا پھر تلوار ہوگی۔ آپ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کے سوا سب ادیان کو ختم کر دے گا اور سجدہ صرف وحدہ کے لیے ہوگا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عیسٰی کے زمانہ میں تمام روئے زمین پر اسلام کی حکمرانی ہوگی اور اس کے علاوہ کوئی دین باقی نہ رہے گا۔قیامت پر ایمان ویقین سےانسان کی دینوی زندگی خوشگوار ہوجاتی ہے اور آخرت سنور جاتی ہے۔ اسی لیے اسلام میں ایمان بالآخرۃ اور روز قیامت پر ایمان لانا فرض ہےاوراس کےبغیر بندہ کاایمان صحیح نہیں ہوسکتا۔علامات قیامت کے حوالے سے ائمہ محدثین نے کتب احادیث میں ابواب بندی بھی کی ہے اور بعض اہل علم نے اس موضوع پر کتب لکھی ہیں ۔ زیرتبصرہ کتا ب’’قیامت قریب آرہی ہے ‘‘ شاہ سعود یونیورسٹی ، الریاض کے پروفیسر جناب محمد بن عبد الرحمٰن العریفی کی احوال قیامت ، علامات قیامت کے متعلق لکھی جانے والی عربی تصنیف ’’ نہایۃ العالم ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔یہ کتاب اپنے موضوع میں نہایت جامع ہے اور علامات قیامت کےمتعلق بہترین تصویری کتاب ہے ۔اس کے عنوانات پر نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہےکہ کوئی اہم مبحث نہیں جو اس میں زیر بحث نہ آئی ہو۔ (م۔ا)
سورۃ الحشر مدنی سورت ہے۔اس میں اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے مدینہ منورہ کے یہودی قبیلہ بنی نضیر کے رسوا کن انجام سے عبرت دلائی گئی ہے اور اہل ایمان کو ان مسائل میں جو بنی نضیر سے جنگ کے تعلق سے پیش آئے تھے ہدایت دی گئی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ’’اصلاح اور آزادی کا طریقہ کارسورۃ الحشر کی روشنی میں‘‘ مصر کے ڈاکٹر صلاح الدین سلطان کی عربی تصنیف کا اردو ترجمہ ہے انہوں نے اس کتاب میں سورۃ الحشر کی روشنی میں ارض فلسطین کی موجود صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سورۃ الحشرکی آیات پر یقین رکھتے اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے نبرد آزمائی کےلیے تیار ہوجائے۔ اللہ کے نادار، کمزرو اور مظلوم بندوں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔جس طرح اللہ تعالیٰ نےنبی کریمﷺ اور صحابہ کرام کی یہود مدینہ کے خلاف مدد کی تھی اسی طرح آج ان شاء اللہ ارض فلسطین کو آزاد کرانےمیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی ضرور مدد کرے گا۔ (م۔ا)
جنت اللہ کےمحبوب بندوں کا آخری مقام ہے اور اطاعت گزروں کےلیے اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے ۔ یہ ایسا حسین اور خوبصورت باغ ہے جس کی مثال کوئی نہیں ۔یہ مقام مرنے کے بعد قیامت کے دن ان لوگوں کو ملے گا جنہوں نے دنیا میں ایمان لا کر نیک اور اچھے کام کیے ہیں۔ قرآن مجید نے جنت کی یہ تعریف کی ہے کہ اس میں نہریں بہتی ہوں گی، عالیشان عمارتیں ہوں گی،خدمت کے لیے حور و غلمان ملیں گے، انسان کی تمام جائز خواہشیں پوری ہوں گی، اور لوگ امن اور چین سے ابدی زندگی بسر کریں گے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ:’’جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں جنھیں کسی آنکھ نے دیکھا نہیں نہ کسی کان نے ان کی تعریف سنی ہے نہ ہی ان کا تصور کسی آدمی کے دل میں پیدا ہوا ہے۔‘‘(صحیح مسلم: 2825) اور ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ ابدی جنتوں میں جتنی لوگ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباؤاجداد، ان کی بیویوں اور اولادوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے، جنت کے ہر دروازے سے فرشتے اہل جنت کے پاس آئیں گے اور کہیں گے تم پر سلامتی ہو یہ جنت تمہارے صبر کا نتیجہ ہے آخرت کا گھر تمھیں مبارک ہو‘‘۔(سورۂ الرعدآیت نمبر: 23،24) حصول جنت کےلیے انسان کو کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے تو اسے ادا کرکے اس کامالک ضرور بنے۔جنت کاحصول بہت آسان ہے یہ ہر اس شخص کومل سکتی ہے جو صدق نیت سے اس کےحصول کے لیے کوشش کرے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے بندوں کے لیے ہی بنایا ہے اور یقیناً اس نے اپنے بندوں کوہی عطا کرنی ہے ۔لیکن ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہمیں کماحقہ اس کا بندہ بننا پڑےگا۔ زیر تبصرہ کتاب’’اللہ کے محبوب بندوں کی آخری جنت ترجمہ حادی الارواح ‘‘ملت اسلامیہ کے عظیم مصلح ومحدث ،مجتہد امام ابن قیم الجوزیہ کی کتاب ’’ مختصرحادی الارواح الی بلاد الافراح ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔اس کتاب میں امام موصوف نے تفصیل کےساتھ جنت کی چابی ، جنت کی وسعت ، اس کی تعداد ، اہل جنت کے اوصاف ، وہاں کےعیش وآرام، جنت کی خوش نصیب خواتین، جنت کے بیش بہا محلات ، حوریں ، خدام ، جنت کے بازار،اللہ تعالیٰ کادیدار، اللہ تعالیٰ کےعرش وکرسی کا ذکر وغیرہ کا ایسا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ جس کوپڑھ کر جنت کی ایک ایسی تصویر ذہن میں آتی ہے جسے اللہ اور اس کے رسولﷺ نےذکر فرمایا ہے ۔ ورنہ جنت تو حقیقت میں ہمارے وہم وخیال سے بالاتر ہے ۔نیز اس کتاب میں ان خوش نصیب مومنوں کا بھی ذکر ہے جن کےلیے بطور انعام جنت بنائی اور سنواری گئی ہے اور ان اعمال کابھی تفصیل کےساتھ ذکر کیاگیا ہے جن کی وجہ سے یہ جنت ان عاملین اور محبین کےلیے مخصوص کی گئی ہے کہ جنہیں قرآن مجید نے انبیاء صدیقین، شہداء اور صالحین کہہ کر پکارا ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف کتاب ، مترجم وناشرین کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اور اسے امت مسلمہ کے لیے نفع بخش بنائے ۔ (آمین) (م ۔ا)
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس سےدوچار ہونا اوراس کا تلخ جام پینا ضروری ہے یہ یقین ہر قسم کےکھٹکے وشبہے سے بالا تر ہے کیونکہ جب سے دنیا قائم ہے کسی نفس وجان نے موت سے چھٹکارا نہیں پایا ہے۔کسی بھی جاندار کے جسم سے روح نکلنے اور جداہونے کا نام موت ہے۔ہر انسان خواہ کسی مذہب سے وابستہ ہو یا نہ ہو اللہ یا غیر اللہ کو معبود مانتا ہو یا نہ مانتا ہو اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرتا ہےکہ اس کی دنیا وی زندگی عارضی وفانی ہےایک روز سب کو کچھ چھوڑ کر اس کو موت کا تلخ جام پینا ہے گویا موت زندگی کی ایسی ریٹائرمنٹ ہےجس کےلیے کسی عمر کی قید نہیں ہے اور اس کےلیے ماہ وسال کی جو مدت مقرر ہے وہ غیر معلوم ہے۔یہ دنیاوی زندگی ایک سفر ہے جوعالم بقا کی طرف رواں دواں ہے ۔ ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے ۔ عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں ، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہماری اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت ہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ داری سونپ کر ایک محدود وقت کیلئے اس سفر پر روانہ کیا ہے ۔ عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم اپنے ہی گھر واپس جائیں کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جانے والوں کو کوئی بھی دانا نہیں کہتا۔انسان کوسونپی گئی ذمہ داری اورانسانی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔موت کے وقت ایمان پر ثابت قدمی ہی ایک مومن بندے کی کامیابی ہے ۔ لیکن اس وقت موحد ومومن بندہ کے خلاف انسان کا ازلی دشمن شیطان اسے راہ راست سے ہٹانے اسلام سے برگشتہ اور عقیدہ توحید سے اس کے دامن کوخالی کرنے کےلیے حملہ آور ہوتاہے اور مختلف فریبانہ انداز میں دھوکے دیتاہے ۔ ایسےموقع پر صرف وہ انسان اسکے وار سےبچتے ہیں جن پر اللہ کریم کے خاص رحمت ہو ۔موت انسان کےاپنے اصل گھر کی طرف روانگی کی پہلی منزل ہے ۔ دنیا میں رہتے ایک اچھا مسلمان چاہتا کہ اس کاہر قول،عمل اور طرز زندگی اللہ کےحکم کےمطابق ہو اوررسول اللہ ﷺ کی سنت کےموافق ہو ۔ اسے کےچلے جانے کے بعد اس کےلواحقین کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ اس کی آخری رسومات بھی اسی طرح شرعی طریقے سے پوری کرنے کاحق ادا کریں۔ زیرتبصرہ کتابچہ ’’جب میں مرجاؤں ‘‘ محترمہ ام دانش صاحبہ کا تحریری کردہ ہے جس میں انہوں نے وصیت کے انداز میں وفات سے لے کر دفن کرنے تک کے تمام کاموں کےبارے میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کے احکامات کو اختصار کےساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے ۔کہ مرنے والے کےلیے اس کے عزیز واقارب ،لواحقین کیا تحفہ بھیج سکتے ہیں اورکن غیر شرعی اوربدعی امور سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مصنفہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے لوگوں کےلیے نفع بخش بنائے اور تما م اہل اسلام کوخاتمہ بالایمان نصیب فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام نے تمام انسانوں کے فرائض بیان کرتے ہوئے ان کے حقوق بھی بیان کر دئیے ہیں۔ گھر یا خاندان ہی قوم کا خشت اول ہے۔ خاندان ہی وہ گہوارا ہے جہاں قوم کے آنے والے کل کے معمار‘ پاسبان پرورش پاتے ہیں۔ گھر ہی وہ ابتدائی مدرسہ ہے جہاں اخلاق و کردار کی جو قدریں (خواہ) اچھی ہوں یا بری‘ بلند ہوں یا پست دل و دماغ پر نقش ہوجاتی ہیں اور ان کے نقوش کبھی مدھم نہیں پڑتے۔ اس لئے اسلام گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لئے مبہم نصیحتوں پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کے لئے واضح اور غیر مبہم قاعدوں اور ضابطوں کا یقین بھی کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "اسلام کے عائلی قوانین"مولانا سید احمد عروج قادری صاحب کی تصنیف ہے، جسے ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے مرتب فرمایا ہے۔ اس کتاب میں مولف نے ازدواجی زندگی کے راہنما اصول بیان کئے ہیں، جن پر عمل کر کے گھر کو جنت کا باغیچہ بنایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
اس دنیا میں سب سے قیمتی دولت ایمان ہے ۔ اس کی حفاظت کے لیے ہجرت تک کو مشروع قرار دیا گیا ہے ۔ یعنی اگر گھر بار ، جائیداد ، رشتہ داری ، دوست واحباب، کاروبار، بیوی ، بچے سب کچھ چھوڑنا پڑے تو چھوڑدیا جائے مگر ایمان کو نہ چھوڑا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بہت سے مقامات پر کامیابی کامعیار ایمان اور عمل صالح کو قرار دیا۔ ایمان کی حقیقت کوسمجھنا ہر مسلمان کے لیے انتہائی ضروری ہے اس لیے کہ جب تک ایمان کی حقیقت کو نہیں سمجھا جائے گا اس وقت تک اس کی بنیاد پر حاصل ہونے والی کامیابیوں کا ادراک نہیں ہو سکتا۔اور جس طرح قرآن مجید پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح حدیث رسول ﷺ پر بھی ایمان لانا فرض ہے کیونکہ حدیث رسول ﷺ کے بغیر ہم قرآن کو بھی کما حقہ نہیں سمجھ سکتے۔ اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مومن کا ایمان کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ خود صحابہ کا بیان ہے کہ جب ہم رسول اکرم ﷺ کی مبارک محفل میں ہوتے تو ایمان میں اضافہ ہوتا جبکہ بیوی بچوں کے درمیان وہ کیفیت نہ ہوتی ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ایمان کے درجات او رشاخیں‘‘ نوجوان عالم دین مولانا ابو عکاشہ عبداللطیف حلیم کی کاوش ہے اس کتاب میں انہوں نے لفظ ایمان کی تفصیل اور تشریح حدیث رسول ﷺ کی روشنی میں کی ہے اور ایمان کے تمام شعبہ جات کو بڑے اختصار اورانتہائی جامع انداز میں نہایت احسن انداز میں بیان کرتے ہوئے ایک قاری پر رموز اور عقد کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔اورایمان پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے بھی بڑے مدلل اور مسکت جوابات دیے ہیں ۔فاضل مؤلف کی یہ کاوش انتہائی قابل تحسین ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کے زورِ قلم میں مزید اضافہ فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)
عصرحاضر میں مسلمانوں کے اندر بہت سی خرافات ورسومات نےجنم لے لیا ہے جن میں سے کسی آدمی کے فوت ہوجانے کے بعد ایصالِ ثواب کا مسئلہ بہت غلط رنگ اختیار کرچکا ہے بالخصوص قرآن خوانی کے ذریعے مردوں کوثواب پہنچانے کارواج عام ہے ۔ قرآن خوانی اورگٹھلیوں وغیرہ پر کثرت سے تسبیحات پڑھ کر مرنے والے کو اس کا ثواب بخشا جاتاہے ۔حتی کہ قرآنی اور اایصال ثواب توایک پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پڑھنے کا میت کوثواب نہیں پہنچتا۔ البتہ قرآن پڑھنےکے بعد میت کے لیے دعا کرنے سے میت کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ہمارے ہاں جو اجتماعی طور قرآن خوانی ایک رواج ہے جس کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ احادیث کی رو سے چند ایک چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
1۔کسی مسلمان کا مردہ کےلیے دعا کرنا بشرطیکہ دعا آداب وشروط قبولیت دعا کے مطابق ہو۔2 میت کے ذمے نذرکے روزے ہوں جو وہ ادا نہ کرسکا تو اس کی طرف سے روزے رکھنا بھی باعث ثواب ہے ۔3 نیک بچہ جوبھی اچھے کام کرے گا والدین اس کے ثواب میں شریک ہوں گے۔4مرنے کے بعد اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑجانے سےبھی میت کو ثواب ملتا ہے،صدقہ جاریہ بھی اس میں شامل ہے ۔ زیرتبصرہ رسالہ ’’ایصال ثواب کی جائز وناجائز صورتیں ‘‘ ادارہ دار السلام کے ریسرچ فیلو حافظ شبیر صدیق کی کاوش ہے۔یہ رسالہ پہلے ماہنامہ ’’ضیاء حدیث ‘‘ میں شائع ہوا ۔ بعد ازاں اسے افادۂ عام کی غرض سے مسلم پبلی کیشنز، لاہور کےمدیر جناب مولانانعمان فاروقی ﷾ نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا ہے ۔فاضل مصنف نےاس میں رسومات غیرشرعیہ کا جائزہ لے کر ان کا بےثبوت ہونا اور غیروں کی نقالی پر مبنی ہونے کا اثبات کیا ہے اور اس کے ساتھ تصویر کا دوسراپہلو یعنی ایصال ثواب کی جائز صورتوں کی تفصیل بھی بیان کردی ہے تاکہ ناجائز صورتوں کو چھوڑ کر ایصال ثواب کی صرف جائز صورتیں ہی اختیار کی جائیں کیونکہ فوت شدگان کوایصال ثواب جائزہ صورتوں ہی کےذریعے سے ممکن ہے ناجائز صورتیں تو صرف زندوں کی لذت اندوزی کا سامان ہے اور بس مردوں کے نفع اور انکی مغفرت کاان میں کوئی پہلو نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس رسالہ کو عوا م الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔(م ۔ا)
تاریخ کے نامعلوم دور سے لیکر آج تک یہ سوالات ہر انسان کے سامنے رہے ہیں کہ یہ کائنات کیا ہے اور کس طرح وجود میں آئی ہے۔بلکہ خود انسان کس طرح پیدا ہوا ہے اور اس کا نجام کیا ہونا چاہئے۔کائنات میں موجود اشیاء کا باہمی رشتہ کیا ہے اور ان اشیاء سے انسان کا تعلق کیا ہے۔نیز اس تعلق کے تقاضے کیا ہیں۔ان گتھیوں کو سلجھانے کے لئے ہر دور کا انسان غور وفکر میں مصروف رہا ہے اور ہر دور نے ان سوالات کے جوابات کے لئے ایک مکمل فلسفہ حیات وضع کیا ہے جس کے نتیجے میں مختلف نظام ہائے زندگی ظہور میں آئے ہیں۔ہمارے موجودہ دور میں بھی زندگی کے مختلف فلسفے اور نظام موجود ہیں اور ان میں اعتقاد رکھنے والے اپنے اپنے مخصوص طرز زندگی کو صحیح اور بہتر ثابت کرنے میں کوشاں ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" ایمان اور اخلاق"محترم پروفیسر عبد الحمید صدیقی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے کائنات کے نظام کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور اس میں ڈارون کی خام خیالیاں، وجودخالق کائنات، اسلام میں خدا کا تصور،خدا اور رسولﷺ کی محبت کے تقاضے، انسان کا مقصد حیات، انسان اور رائج الوقت تہذیبیں،مادی ترقی اور انسان،انسان کا متاع دنیا سے تعلق، صبر وتوکل اور عورت کا مقام جیسے ابواب قائم کئے ہیں۔(راسخ)
دین اسلام کے بنیادی عقائد تین ہیں۔اللہ پر ایمان، رسول اللہ ﷺ پر ایمان اور آخرت پر ایمان۔اللہ اور آخرت پر ایمان بھی نبی کریم ﷺ کی وساطت سے ہی ممکن ہوا ہے۔اللہ تعالی کی ذات کیسی ہے؟ اس کی صفات کیا کیا ہیں؟ وہ کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور کن سے ناراض؟اس کو خالق ومالک اور حاکم ورازق مان لینے کے تقاضے کیا ہیں؟آخرت کیوں ہو گی؟ کیسے ہو گی؟ جزا وسزا کے پیمانے کیا ہوں گے؟جزا کے حقداروں کو کیا انعام ملیں گے؟ اور سزا کے مستحقین کو کس انجام سے دوچار ہونا پڑے گا؟ان سب سوالوں کے جواب نبی کریمﷺ کی لائی ہوئی شریعت اور آپ کی تعلیمات ہی سے مل سکتا ہے۔ اسلام اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانے کا نام ہے اور اس ایمان کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبت ہو اللہ کی محبت ایسی محبت کہ اس کے ساتھ کوئی بڑ ے سے بڑ ا انسان بھی اس محبت میں شریک نہیں ہو سکتا۔اور اس محبت کا تقاضا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ زیر تبصرہ کتاب" ایمان بالرسول اور اس کے تقاضے "محترم غلام سرور چٹھہ صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ سے محبت کے تقاضے بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ہمیں آپﷺ سے محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق دے۔آمین(راسخ)