احادیث کی حجیت اور اس کے ماخذ دین ہونے سے انکار کرنے والے منکرین حدیث جو انکار حدیث کی آڑ میں اصل اسلام ہی سے انحراف کرنا چاہتے ہیں، کے پیش کردہ اصولوں کے رد میں اس کتاب میں بطور مثال ان سے چار سوالات کیے گئے ہیں کہ اگر حدیث بھی قراان کی طرح وحی الٰہی اور قرآن کی تفسیر و توضیح اور اس کے مجملات کی تفصیل نہیں ہے تو قرآن میں مذکور چار مجمل باتوں کی وضاحت کی جائے کہ قرآن حکیم میں ان چار باتوں کا ذکر کہاں ہے جن کی طرف قرآن نے فقط اشارہ کیا ہے؟ اس اعتبار سے یہ کتاب نہایت فاضلانہ اور منکرین حدیث کے لیے ایک زبردست چیلنج ہے۔
قرآ ن ِ مجید کے بعد حدیث نبویﷺ اسلامی احکام اور تعلیمات کا دوسرا بڑا ماخذ ہے۔ بلکہ حقیقت تویہ کہ خود قرآن کریم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا ،اس سے احکام اخذ کرنا اور رضائے الٰہی کے مطابق اس پر عمل کرنا بھی حدیث وسنت کی راہنمائی کے بغیر ممکن نہیں ۔لیکن اس کے باوجود بعض گمراہ ا و رگمراہ گر حضرا ت حدیث کی حجیت واہمیت کومشکوک بنانے کی ناکام کوششوں میں دن رات مصروف ہیں او رآئے دن حدیث کے متعلق طرح طرح کے شکوک شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن الحمد للہ ہر دور میں علماء نے ان گمراہوں کاخوب تعاقب کیا اور ان کے بودے اور تارِعنکبوت سےبھی کمزور اعتراضات کے خوب مدلل ومسکت جوابات دیے ہیں ۔منکرین کےرد میں کئی کتب اور بعض مجلات کے خاص نمبر ز موجود ہیں ۔ ان کتب میں سے دوام حدیث ،مقالات حدیث، آئینہ پرویزیت ، حجیت حدیث ،انکا ر حدیث کا نیا روپ وغیرہ اور ماہنامہ محدث ،لاہور ،الاعتصام ، ماہنامہ دعوت اہل حدیث ،سندھ ،صحیفہ اہل حدیث ،کراچی کے خاص نمبر بڑے اہم ہیں ۔ زیر نظر کتاب ''منکرین حدیث کے شبہاب اور ان کارد '' معروف مصنف ومترجم کتب کثیرہ جناب پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی...
فلسفہ اور سائینٹیفک نظریات نیز مغربی مادی ترقی سے مرعوبیت زدہ ذہن لئے ہوئے اور اتباع نفس کے تحت قرآنی آیات کی من مانی تحریف نما تاویل کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے موجودہ دور کے نام نہاد اہل قرآن (منکرین حدیث) رسول اکرم ﷺ کی ثابت شدہ سنتوں میں تشکیک پیدا کرکے سنت کو ناقابل اعتبار قرار دینے کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں منکرین حدیث کی طرف سے بتکرار و شدت پیش کئے جانے والے بنیادی نوعیت کے چار اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہے۔ وہ سوالات یہ ہیں:
1۔ کیا "ظن" دین بن سکتا ہے۔
2۔ کیا واقعی حدیث اور تاریخ ایک ہی سطح پر ہیں یا ان میں کچھ فرق ہے؟ (تقابلی جائزہ)
3۔ کثرت احادیث مثلاً یہ اعتراض کہ امام بخاری ؒ کو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں۔ وہ آ کہاں سے گئیں اور پھر گئیں کدھر؟
4۔ طلوع اسلام والوں کے ہاں معیار حدیث کیا ہے؟
یہ کتاب دراصل منکرین حدیث کے خلاف لکھی گئی مبسوط کتاب "آئینہ پرویزیت" کا ایک باب ہے۔ جسے اس کی اہمیت کے پیش نظر علیحدہ سے شائع کیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺاللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ ﷺکو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ ﷺکے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم ﷺکی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی متعدد آیت میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ما كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا(الاحزاب، 33 : 40) ترجمہ:’’ محمد ﷺتمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہ...
اقامت صلوٰۃ سے مراد اور مقصود ادائے صلوٰۃ کے تربیتی ، اثرات اپنی عملی زندگی میں رائج اور نافذ کرنا ہیں لیکن اہل قرآن (منکرین حدیث ) کے نزدیک صلاۃ کا معنیٰ’’فلاحی نظام حکومت کا قیام‘‘، یا درس و اجتماع یا دعا ء وغیرہ ہے منکرین حدیث کی طرف سے لفظ صلوۃ کی یہ فرضی تشریح عربی لغت اور قرآن و حدیث کے صریحاً خلاف ہے۔ زیر نظر کتاب’’منکرین صلوٰۃ پر دہریت کے اثرات ‘‘ جناب ظفر اقبال خان صاحب کی تصینف ہے ۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کر کے اس میں اہل قرآن کے تمثیلی او روحدۃ الوجودی الحاد’’فتنہ انکار صلاۃ‘‘ کو نمایاں کیا ہے۔ابواب کےعنوانات حسب ذیل ہیں۔ باب اول :منکرین صلوٰۃ پر دہریت کے اثرات ،باب دوم:منکرین صلاۃ کے اعتراضات کے جوابات،باب سوئم :منکرین اطاعت واتباع رسول پر داہریت کے اثرات، باب چہارم:اراکین مرکز اسلامیہ پر اہل قرآن کے اثرات ،باب پنجم: اہل قرآن کے تصور رسالت وصلاۃ پر ارسطو اور ابن عربی کے اثرات۔(م ۔ا)
منگیتر منگنی سے ماخوذ ہے ۔ یہ لفظ مذکر اور مؤنث دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔نکاح سے قبل لڑکے اور لڑکی کے والدین باہم یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ ان دونوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کردیں گے ۔ اس عہد کا نام ہمارے معاشرے میں منگنی ہے او رایسے لڑکے یا لڑکی کو ایک دوسرے کا منگیتر کہا جاتاہے ۔منگنی کابظاہر مقصد تو صرف اتنا ہے کہ لوگوں پریہ عیاں ہو جائے کہ فلاں کے بیٹے کی فلاں کی بیٹی سے نکاح کی بات ٹھر گئی ہے ۔لہذا کوئی دوسرا پیغام بھیجنے یاایسا وعدہ لینے کی غلطی نہ کرے ۔لیکن دور حاضر میں اتنی پر تکلف ،مہنگی اور مشکل رسومات کا کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا سوائے ریا کاری یا نمود ونمائش کے۔ زیرنظر کتابچہ ’’ منگنی اور منگیتر ‘‘محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کا مرتب شد ہ ہے۔جس میں انہوں نے منگنی کےسلسلے میں ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی ہندوانہ رسومات کا ذکر تے ہو ئے اس کے متعلق شرعی احکام ومسائل کودلائل کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ جس کے مطالعہ سے مروجہ رسوم ور...
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں ،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اوراپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کرسکتا ہے۔خطابت صرف فن ہی نہیں ہے بلکہ اسلام میں خطابت اعلیٰ درجہ کی عبادت اورعظیم الشان سعادت ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کومیدانِ خطابت کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کادھارا بدل دیتے ہیں،ہواؤں کےرخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے ہیں ۔تاریخ کےہر دورمیں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اقوام وملل او رقبائل کے امراء وزعما کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امرتھا۔قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی ہمیں کئی معروف...
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ اورباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعدر رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت ،کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت اور مذاہب باطلہ کی تردید وتوضیح میں بسر کردی ۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیا۔آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔ آپ کا فتاوی ٰ 37 ضخیم جلد وں میں مشتمل ہے زیرنظر کتاب '' مختصر منہاج السنۃ'' شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی ایک شہرۂ آفاق کتاب’’ منہاج السنۃ‘‘ کا اختصار و اردو ترجمہ ہے۔ منہاج ا...
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ اورباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعدر رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت ،کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت اور مذاہب باطلہ کی تردید وتوضیح میں بسر کردی ۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیا۔آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔ آپ کا فتاوی ٰ 37 ضخیم جلد وں میں مشتمل ہے زیرنظر کتاب ’’ منہاج السنۃ النبویہ‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی شہرۂ آفاق کتاب’’ منہاج الاعتدال فی...
منہاج القاصدین شہرہ آفاق مصنف ابن جوزی ؒ تعالی کی تالیف بےمثل ہے اور اس کی تلخیص ابن قدامہ مقدسی ؒ تعالی نے فرمائی ہے اور بعد میں اردو زبان میں ترجمہ مولانا محمد سلیمان کیلانی ؒ تعالی نے کیا ہے ۔تاریخی اعتبار سے کتاب جس دور میں لکھی گئی ہے وہ دور اور آج کا دور آپ س میں بڑی گہری مماثلت رکھتا ہے۔عقیدے کی خرابی کی انتہا اور بدعملی اپنے عروج پر تھی تو اس وقت ابن قیم الجوزی ؒ نے منہاج القاصدین کے ذریعے اصلاح معاشرہ کی کوشش کی۔مصنف نے اپنی کتاب میں بےشمار موضوعات کو قلمبند فرمایا ہے جن کا تعلق اخلاقیات،اصلاح معاشرہ،اسلام میں داخل کی گئیں غیر شرعی اور غیر اسلامی مندرجات اور تصوف کے نام سے پھیلی ہوئی گمراہی اور بد اعتقادی کی وضاحت فرمائی ہے۔مصنف نے اپنی کتاب میں عبادات اور اسرار عبادات،اخلاقیات،معاش،حلال معاش کی فضیلت،ریا کاری،سود،رشتہ داری اور ہمسائیگی،تزکہ نفس اور سفر کے احکامات کے ساتھ ساتھ بے شمار اصلاحی موضوعات کو شامل کیا ہے۔
محترم ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ایک عظیم داعی قرآن تھے جن کی شبانہ روز محنت سے نہ صرف وطن عزیز بلکہ بے شمار دیگر ممالک میں بھی قرآن کریم کی دعوت پھیلی اور لوگ مطالعہ قرآن کی جانب راغب ہوئے محترم ڈاکٹر صاحب قرآن حکیم کی تجدید ایمان کا وسیلہ قرار دیتے تھے اور ایمان وعمل کی تجدید سے قیام خلافت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کےلیے سرگرم عمل تھے اس سلسلہ میں انہوں نے انقلاب بپا کرنے کا ایک مفصل پروگرام بھی تشکیل دے رکھا تھا جو ان کے بقول قرآن مجید اور سیرت نبوی ﷺ سے ماخوذ تھازیر نظر کتاب ''منہج انقلاب نبوی ﷺ''بھی اسی موضوع پرہے ا س میں محترم ڈاکٹر صاحب ؒ نے سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں اولاً مراحل انقلاب کی تعیین فرمائی او راو ربعدازاں رسول معظم ﷺ کی سیرت کو مراحل انقلاب کی توضیح وتفصیل کے پہلو سے بیان کیا ہے کتاب مذکور میں مندرجہ جزئی تفصیلات سے تو بلاشبہ کسی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ ان کا ثبوت کتب سیرت میں موجود ہے تاہم محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کے استدلال اوراستنباط و استنتاج پربحث ونظر کی گنجائش موجود ہے خصوصاً یہ نکتہ تجزیہ ومناقشہ...
اہل حدیث نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔پہلا لفظ"اہل"ہے۔جس کے معنی ہیں والے صاحب دوسرا لفظ"حدیث" ہے۔حدیث نام ہے کلام اللہ اور کلام رسولﷺ کا۔قرآن کو بھی حدیث فرمایا گیا ہے۔اور آپﷺ کے اقوال اور افعال کے مجموعہ کا نام بھی حدیث ہے۔پس اہل حدیث کے معنی ہوئے۔”قرآن و حدیث والے” جماعت اہل حدیث نے جس طریق پر حدیث کو اپنا پروگرام بنایا ہے اور کسی نے نہیں بنایا۔اسی لیے اسی جماعت کا حق ہے۔کہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہے۔مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہی جماعت حق ہے۔ اصحاب اہل حدیث، اہل حدیث، اہل سنت یہ سب مترادف لفظ ہیں، اہل یا اصحاب کے معنی " والے" اب اس کے نسبت حدیث کی طرف کردیں تو معنی ہونگے، " حدیث والے" اور قرآن کو بھی اللہ نے حدیث کہا ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے۔اب یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اسلام سے مراد"قرآن و حدیث" ہے اور قرآن و حدیث سے مراد اسلام ہے۔اور مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہی جماعت حق ہے۔اہل حدیث مروّجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں، نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرق...
اسلام کی فلک بوس عمارت عقیدہ کی اسا س پر قائم ہے ۔ اگر اس بنیاد میں ضعف یا کجی پیدا ہو جائے تو دین کی عظیم عمارت کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ عقائد کی تصحیح اخروی فوز و فلاح کے لیے اولین شرط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی طرف سے بھیجی جانے والی برگزیدہ شخصیات سب سے پہلے توحید کا علم بلند کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ عقائد کے باب میں اب تک بہت سی کتب ہر زبان میں شائع ہو چکی ہیں اردو زبان میں بھی اس موضوع پر قابل قدر تصانیف اور تراجم سامنے آ چکے ہیں ۔ زیر نظر کتا ب ’’ منہج اہل حدیث‘‘ چوتھی صدی ہجری کے عظیم امام اہل السنۃ و الجماعۃ ابو محمد حسن بن علی بن خلف البر بہاری کی عقیدہ کے اہم ابواب پر مشتمل انتہائی جامع کتاب بعنوان ’’ شرح السنۃ‘‘ کی شرح کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب (شرح السنۃ)72 فرقوں کی تشریح و توضیح پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر عصر حاضر کے ایک جید عالم دین فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن صالح العبیلان﷾ نے شرح السنۃ کے بعض اہم نکات کا انتخاب کر کے بڑی عمدگی سے اس کی شرح کی۔شیخ العبیلان کی شرح کو جناب حافظ عثما...
اسلامی نقطہ نظر سے تعلیم محض حصول معلومات کا نام نہیں ،بلکہ عملی تربیت بھی اس کا جزو لاینفک ہے۔اسلام ایسا نظام تعلیم وتربیت قائم کرنا چاہتا ہے جو نہ صرف طالب علم کو دین اور دنیا کے بارے میں صحیح علم دے بلکہ اس صحیح علم کے مطابق اس کے شخصیت کی تعمیر بھی کرے۔یہ بات اس وقت بھی نمایاں ہو سامنے آتی ہے جب ہم اسلامی نظام تعلیم کے اہداف ومقاصد پر غور کرتے ہیں۔اسلامی نظام تعلیم کا بنیادی ہدف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ایسا مسلمان تیار کرنا چاہتا ہے،جو اپنے مقصد حیات سے آگاہ ہو،زندگی اللہ کے احکام کے مطابق گزارے اور آخرت میں حصول رضائے الہی اس کا پہلا اور آخری مقصد ہو۔اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا میں ایک فعال ،متحرک اور با عزم زندگی گزارے ۔ایسی شخصیت کی تعمیر اسی وقت ممکن ہے جب تعلیم کے مفہوم میں حصول علم ہی نہیں ،بلکہ کردار سازی پر مبنی تربیت اور تخلیقی تحقیق بھی شامل ہو۔لیکن افسوس کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں معلومات تو دے دی جاتی ہیں ،مگر ایک مسلمان اور کارآمد بندہ تیار نہیں ہوپاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " منہج تربیت، کارکنان ومسؤلین کے لئے اصلاحی تحاریر " جما...
دعوت وتبلیغ کی اہمیت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے بے شمار انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا ہے۔چونکہ یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر مکمل ہو چکا ہے اس لیے اب یہ ذمہ داری امت مسلمہ پر ہے۔ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ کہ وہ دعوت وتبلیع او راشاعتِ دین کا کام اسی طرح انتہائی محنت اور جان فشانی سے کرے جس طرح خود خاتم النبین ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کرتے رہے ہیں ۔ تبلیغ کے موثر او رنتیجہ خیز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ اور انبیا کا اسوہ اور دیگر شرعی اصول مبلغ کے پیش نظر رہیں ۔ کیونکہ انبیاء کرام کی زندگیاں ہی اپنے اپنے دور اورعلاقے کے لوگوں کے لیے مشعل راہ تھیں جبکہ عالمگیر اور دائمی نمونۂ عمل صرف سید الاولین وسید الآخرین ،رحمۃ للعالمین کی حیات طیبہ ہے ۔ یہ بات واضح رہے کہ دعوت وتبلیغ سے پہلے عمل کی ضرورت ہوتی اور عمل سے پہلے علم کی ۔ زیرنظر کتاب’’ منہج دعوت ِ نبویﷺ‘‘مولانا شوکت علی شوکانی صاحب (پی ایچ ڈی سکالر) مزید مطالعہ۔۔۔
اس پر فتن دور میں اگر اللہ تعالی کسی کو منہج سلف صالحین جو اللہ کی وحی سے مستفاد وماخوذ ہے، کے فہم کی توفیق فرما دے تو یہ یقینا ایک عظیم سعادت و بصیرت ہے، جو اخروی کامیابی کے لئے مطلوب ومقصود ہے۔عقیدہ توقیفی ہوتا ہے یعنی یہ شارع (شریعت نازل کرنے والے) کی دلیل سے ہی ثابت ہوسکتا ہے ، جس میں اپنی رائے اور اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ لہذا عقیدہ کے ماخذ ومصادر صرف کتاب وسنت سے ثابت شدہ دلائل پر موقوف ہوتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالی سے زیادہ کوئی علم نہیں رکھتا کہ کیا بات اللہ تعالی کے شایان شان ہے اور کیا نہیں ، اور اللہ تعالی کے بعد اللہ تعالی کے بارے میں اللہ کے رسول (ﷺ)سے زیادہ کوئی علم نہیں رکھتا ۔ چناچہ سلف صالحین اور ان کی پیروی کرنے والوں کا عقیدہ اپنانے کے بارے میں یہی منہج رہا ہے کہ وہ اس بارے میں محض قرآن اور سنت پر ہی اقتصار کرتے تھے۔ اللہ تعالی کے بارے میں جو بات قرآن اور سنت سے ثابت ہوتی ہے وہ اس پر ایمان لاتے ، اس کا اعتقاد رکھتے اور اس کے مطابق عمل کرتے تھے ، اور جو بات اللہ تعالی کی کتاب اور اللہ کے رسول (ﷺ)کی سنت سے ثابت نہیں ہوتی اس کی...
منہج عربی زبان میں اس راستے کو کہا جاتا ہے کہ جس کی روشن صفات واضح ہوں یعنی وہ طریقہ جوظاہرواضح اور مستقیم ہو۔اور سلف کا معنی ہےگزرے ہوئے نیک لوگ۔ہر پہلے آنے والابعد میں آنے والے کے لحاظ سے سلف ہے،لیکن جب سلف مطلق طور پر بولا جاتا ہےتواس سے مراد بہترین تین زمانے کے لوگ ہیں،جن کی گواہی نبی کریمﷺنےدی ہے،لہذا سلف سے مراد صحابہ،تابعین اور تبع تابعین ہیں یہی سلف صالحین ہیں۔ان کے بعد آنے والےجو ان کے منہج کو اختیار کریں وہ سلفی کہلاتے ہیں اگرچہ ان کا زمانہ بعد میں ہےیعنی سلفی سلف صالحین کے طریقے اور منہج کو اختیار کرنے والے کو کہا جاتا ہے۔اور منہج سلف سے مراددین کو سمجھنے کا وہ منہج ہے جو صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین کے ہاں پایا گیا ۔جسے ائمہ اہل سنت نے اپنی کتب میں محفوظ کرتے ہوئے ہم تک منتقل کیا ۔اس منہج پر چلنے والوں کو کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور اس کو ترک کرنے والے اہل بدعت کہلاتے ہیں۔اہل سنت والجماعت سے مراد پاک وہند میں موجود اہل سنت واالجماعت(بریلوی) نہیں ہے۔بلکہ وہ جماعت ہے جو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کےطریقے&...
شریعت اسلامی کا بہترین اور مختصر قانون یہ ہے کہ جو رسول اللہ ﷺ فرمان جاری فرمائیں اس کو مان لو اور جس سے روکنے کا حکم سنائیں اس سے رک جاؤ۔ آپ ﷺ اطاعت و فرمانبرداری ہی فقط وہ چیز ہے جس کی بدولت آدمی راہ راست پر چل کر جنت تک پہنچ سکتا ہے ورنہ ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جائے گی۔ اس کتاب میں وہ تمام منہیات جو قرآن میں یا صحیح احادیث میں آئی ہیں، یعنی وہ تمام امور جن سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہم مسلمانوں کو روکا ہے، کو جمع کر دیا گیا ہے۔ یہ بلاشبہ نہایت ہی عظیم ذخیرہ ہے۔ آج اگر ہم خود سے وعدہ کر لیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جس جس چیز سے منع کیا ہے، ہم اسے اپنی زندگی سے نکال باہر کریں گے، تو صرف اس کتاب کا مطالعہ ہی ان شاء اللہ کافی رہے گا۔
معرکہ حق وباطل ہمیشہ سے جاری اور قیامت تک جاری رہے گا۔کچھ لوگ شیطان کی پوجا کرتے ہیں تو کچھ رحمن کے پرستار ہیں۔علماء کی بھی دو اقسام ہیں ۔بعض اہل علم خالصتا شریعت کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں تو بعض نام نہاد علماء سوء نے اپنی خواہشات نفس کو دین بنا رکھا ہے اور لوگوں میں شرک وبدعات اور تفرقہ بازی کو عام کر ہے ہیں۔ان فرقہ پرست علماء کا اصل دشمن وہ ہے جو لوگوں کو قرآن وحدیث کی صحیح باتیں بتائے اور طاغوت کی نشان دہی کرائے۔ زیر تبصرہ کتابچہ "موازنہ" محترم برکت اللہ پانی پتی آف گوجرانوالہ کی کاوش ہے جس میں انہی علماء سوء کے افکار ونظریات کا قرآن وحدیث کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے کہ کہاں کہاں ان کے نظریات اسلامی شریعت اور قرآن وحدیث سے متصادم ہیں۔مولف نے اس کتابچے میں ایک منفرد انداز اختیار کرتے ہوئے ٹیبل بنا دئیے ہیں جس میں ایک طرف قرآن وحدیث کا موقف پیش کرتے ہیں اور پھر اس کے سامنے ہی دوسرے ٹیبل میں ان علماء سوء کا قرآن وحدیث سے متصادم موقف پیش کر دیتے ہیں تاکہ ہر صاحب دانش شخص ان کے غیر شرعی افکار ونظریات سے بخوبی آگا ہ ہوجائے اور دون...
مولانا زکریا روپڑی خاندان روپڑیہ کےفیض یافتہ منجھے ہوئے عالم دین، صاحب فکر ودانش ، دینی ودنیاوی علم سےبہرہ ور اور روشن فکر کےحامل تھے ۔انہوں نےاپنے حلقۂ اثر میں مسلسل 30 خطابت کی ۔مولانا اپنی خطابتی ذمہ داریاں ادار کرتے ہوئے اپنے بیان کیے گئے خطابات کو اپنی خاص ڈائری میں
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ، خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار، اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔ اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہے جسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس وتقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے۔ اس لیے خطبا حضرات کے لیےضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت، معاملات میں درستگی، آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’مواعظ حسنہ&l...
خطابت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے، جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات کودوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں ،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اوراپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کرسکتا ہے۔خطابت صرف فن ہی نہیں ہے بلکہ اسلام میں خطابت اعلیٰ درجہ کی عبادت اورعظیم الشان سعادت ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کومیدانِ خطابت کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کادھارا بدل دیتے ہیں،ہواؤں کےرخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے ہیں ۔تاریخ کےہر دورمیں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اقوام وملل او رقبائل کے امراء وزعما کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امرتھا۔قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی ہمیں کئی معروف ِ زمانہ فصیح اللسان اور سحر بیان خطباء اس فن کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظرآتے ہیں۔دورِ...
مسلمان روزانہ پانچ نمازوں میں بہ تکرار بارگاہ ایزدی میں یہ دعا کرتے ہیں کہ یااللہ ہمیں سیدھا راستہ دیکھا لیکن اس کے باوجود بے شمار مسلمان سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور بعض خود یہ کہتے ہیں کہ ہمیں دین ومذہب سے لگاؤ کوئی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان رکاوٹوں کو دور نہیں کرتے جو ہدایت کی راہ میں حائل ہیں ظاہر ہے انہیں دور کیے بغیر سیدھے راستے تک رسائی ممکن نہیں ہے زیر نظر کتاب میں انہی موانع ہدایت کاذکر کیا گیا ہے تاکہ انہیں پہچان کر ان کےخاتمے کی فکر کی جائے اور صراط مستقیم پر گامزن ہواجاسکے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان پر بے شمار انعامات کئے ہیں۔ انعاماتِ ربانیہ میں سے سرفہرست عقل کی نعمت ہے انسان نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس عظیم نعمت کے ذریعے نوع انسانی کو بے شمار سہولیات فراہم کی ہیں ان میں سے انٹر نیٹ موبائل فون اور دیگر ذرائع ابلاغ سے انسان کو بے شمار فوائد حاصل ہوئے ہیں۔موبائل فون موجودہ دور کی ایک اہم ٹیکنالوجی اور ضرورت بن کر سامنے آیا ہے جس نے چند برسوں میں ہی انسانی زندگیوں پر اپنا تسلط یوں قائم کر لیا کہ ہر چھوٹے سے بڑے تک، خواتین سے مرد تک سبھی موبائل کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں۔ مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ان نعمتوں کا غلط استعمال نوع انسانیت کے لیے مہلک نتائج دے رہا ہے۔ ایک مسلمان کو بحیثیت مسلمان جس طرح کسی بھی چیز کا استعمال اسلامی اصول وقوانین کی روشنی میں کرنا چاہیے اسی طرح موبائل کےاستعمال کے لیے بھی اسلامی اصول وقوانین ان کےپیش نظر رہنے چاہییں۔ زیر تبصرہ کتاب’’موبائل فون کے ضروری مسائل ‘‘ محمد طفیل احمد مصباحی (سب ایڈیٹر ماہنامہ اشرفیہ،اعظم گڑھ یوپی) کی ک...
عقیدہ توحید ایک مسلمان کی سب سے بڑی میراث ہےاگر اسی میں خلل واقع ہو جائے تو نجات کا راستہ مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب برگزیدہ پیغمبر اپنی پوری زندگی اسی کے پرچارک رہے ۔ سلسلہ نبوت کے اختتام کے بعد ان کے وارثین علماء کرام بڑی جانفشانی کے ساتھ عقیدہ توحیدکا علم بلند کرتے ہوئے استحقاق حق اور ابطال باطل کر رہے ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب حافظ زبیر علی زئی اور دیوبندی مکتبہ فکر کے حامل عالم حافظ نثار احمد الحسینی کے مابین ہونے والی خط و کتابت پر مشتمل ہے۔ حافظ زبیر علی زئی نے اپنے خطوط میں بیسیوں جید علمائے دیوبند کی ایسی عبارتیں نقل کی ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ دیوبند مکتبہ فکر عقیدہ وحدت الوجود کا قائل ہے۔ حافظ نثار احمد الحسینی نے ان خطوط کا جواب دینے کی اپنی سی کوشش کی ہےلیکن حافظ زبیر علی زئی کے ٹھوس اعتراضات اور دلائل کے سامنے حافظ نثار کے جوابات دلائل سے عاری نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں کتاب میں بدعتی کے پیچھے نمازپڑھنے کے حکم کے ساتھ ساتھ دیگر علمی فوائد کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا گیا ہے۔