امام احمد بن حنبل( 164ھ -241) بغداد میں پیدا ہوئے۔ آپ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 179ھ میں علم حدیث کے حصول میں مشغول ہوئے جبکہ اُن کی عمر محض 15 سال تھی۔ 183ھ میں کوفہ کا سفر اختیار کیا اور اپنے استاد ہثیم کی وفات تک وہاں مقیم رہے، اِس کے بعد دیگر شہروں اور ملکوں میں علم حدیث کے حصول کی خاطر سفر کرتے رہے۔ امام احمد جس درجہ کے محدث تھے اسی درجہ کے فقیہ اورمجتہد بھی تھے۔ حنبلی مسلک کی نسبت امام صاحب ہی کی جانب ہے۔ اس مسلک کا اصل دار و مدار نقل و روایت اور احادیث و آثار پر ہے۔ آپ امام شافعی کے شاگرد ہیں۔ اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیث میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ مسئلہ خلق قرآن میں خلیفہ معتصم کی رائے سے اختلاف کی پاداش میں آپ نے کوڑے کھائے لیکن غلط بات کی طرف رجوع نہ کیا۔ آپ کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتے لیکن غلط بات کی تصدیق سے انکار کر دیتے۔ انہوں نے حق کی پاداش میں جس طرح صعوبتیں اٹھائیں اُس کی بنا پر اتنی ہردلعزیزی پائی کہ وہ لوگوں کے دلوں کے حکمران بن گئے۔ آپ کی عمر کا ایک طویل حصہ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں بسر ہوا۔ پاؤں میں بیڑیاں پڑی رہتیں، طرح طرح کی اذیتیں دی جاتیں تاکہ آپ کسی طرح خلق قرآن کے قائل ہو جائیں لیکن وہ عزم و ایمان کا ہمالہ ایک انچ اپنے مقام سے نہ سرکا۔ حق پہ جیا اور حق پہ وفات پائی۔ امام صاحب نے 77 سال کی عمر میں 12 ربیع الاول214ھ کوانتقال فرمایا۔ اس پر سارا شہر امنڈ آیا۔ کسی کے جنازے میں خلقت کا ایسا ہجوم دیکھنے میں کبھی نہیں آیا تھا۔ جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد محتاط اندازہ کے مطابق تیرا لاکھ مرد اور ساٹھ ہزار خواتین تھیں۔ (وفیات الاعیان: 1؍48) حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام صاحب کایہ قول اللہ تعالیٰ نےبرحق ثابت کردیا کہ: ’’ان اہل بدع ،مخالفین سے کہہ دوکہ ہمارے اور تمہارے درمیان فرق جنازے کے دن کا ہے (سیراعلام النبلاء:11؍343) امام صاحب نے کئی تصنیفات یادگار چھوڑیں۔ ان کی سب سے مشہوراور حدیث کی مہتم بالشان کتاب ’’مسنداحمد‘‘ ہے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد مسانید کے کئی مجموعے مرتب کیے گئے مگر ان میں سے کسی کو بھی مسند احمد جیسی شہرت، مقبولیت نہیں ملی۔ مسنداحمد کی اہمیت کی بنا پر ہر زمانہ کے علما نے اس کے ساتھ اعتنا کیا ہےاور یہ نصاب درس میں بھی شامل رہی ہے۔ بہت سے علماء نے مسند احمد کی احادیث کی شرح لکھی بعض نے اختصار کیا بعض نےاس کی غریب احادیث پر کام کیا۔بعض نے اس کے خصائص پر لکھا اوربعض نےاطراف الحدیث کا کام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’نماز‘‘ امام احمدبن حنبل کی نماز کے موضوع پر کتاب ’’الصلاۃ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ شیخ محمد حامد الفقی نے اس کتاب کی تحقیق کی اور اس پر جامع مقدمہ تحریرکیا ہے۔ اور اس میں امام احمد کےعقیدہ کے متعلق کچھ مواد کا اضافہ کردیا ہے۔ وزارت اسلامی و اوقاف سعودی عرب نےاسے 20 سال قبل کثیر تعداد میں فی سبیل اللہ تقسیم کی غرض سے شائع کیا۔ (م۔ا)
دورِجدید میں بعض تعلیم یافتہ حضرات کے ذہنوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی احادیثِ مبارکہ اپنے اولین دور میں ضبطِ تحریر میں نہیں لائیں گئیں بلکہ صرف زبانی نقل وروایت پر اکتفاء کیاگیا۔اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دروخلافت میں کم از کم ایک صدی گزرجانے کے بعد احادیث کے لکھے جانے اور ان کو مدون کئے جانے کے کام کا آغاز ہوا۔ یہ خیال بالکل غلط ہے اورعلمی وتاریخی حقائق کے خلاف ہے ۔ صحابہ کرام کے نزدیک علم سے مراد علم ِنبوت تھا (یعنی قرآن وحدیث) انہوں اپنی تمام زندگیاں قرآن وحدیث کے علم کے حصول میں لگا دیں۔ حضرت ابو ھریرہ نےزندگی میں کوئی مشغلہ اختیارنہیں کیا سوائے احادیث رسول اللہ ﷺ کے حفظ کرنے اوران کی تعلیم دینے کے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر و العاص، حضرت انس ، حضرت علی کے پاس احادیث کے تحریر ی مجموعے موجود تھے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ کتابت حدیث عہد رسالت وعہد صحابہ میں ‘‘مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی تصنیف ہے ۔اس کتاب میں انہوں نے جاہلیت عرب میں کتابت کی ابتداء، مکہ مدینہ کے اہل قلم حضرات، عہد رسالت میں کتابت ، کتابت کےبارے میں اسلام کی روش اوراس کے اجتماعی زندگی پر اثرات، عہد رسالت میں کتابتِ حدیث، احادیث کے تحریری مجموعے، تبلیغی خطوط، انتطام مملکت کے مختلف شعبوں کے لیے قوانین وہدایات کی تحریری نقول، اوراس ضمن میں اسلوب واندازِ تحریر پر مفصل ومدلل مباحث پیش کیے ہیں ۔ نیز عہد صحابہ وتابعین میں کتابتِ حدیث، احادیث لکھنے والے صحابہ کرام ، تابعین عظام اور دوسری صدی ہجری میں تدوین حدیث اور احادیث کے مجموعات وغیرہ کا تعارف پیش کیا ہے ۔کتاب کےابتدائی صفحات میں حجیت حدیث ، منکرین حدیث اور مستشرقین کی اعتراضات کی حقیقت اوران کے جوابات اور حفاظت حدیث کے طریقوں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔یہ کتاب حفاظت حدیث کے طریقۂ کتابت اوراس کے متعلق امور کی وضاحت کے موضوع پر اردو زبان میں مفید کتاب ہے ۔(م۔ا)
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے ۔ اس طرح اصول تحقیق ، تحقیق نگاری، فن تحقیق یا تحقیق کا علم جامعات اورمزید علمی اداروں میں بہت زیادہ اہمیت حاصل کرچکا ہے۔تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’مبادیات تحقیق‘‘ عبدالرزاق قریشی کی تصنیف ہے اس کتاب کو انہوں نے چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے اور ان ابواب میں انہوں نے تحقیق کی مبادیات سے بحث کی ہے اورعملی نقظۂ نگاہ اختیار کیا ہے ۔ایم اے ، ایم فل اورپی ایچ ڈی کے طلبہ وطالبات کے لیے اس کتاب سےاستفادہ ان کے تحقیقی مقالہ جات کے سلسلے میں موضوع کے انتخاب اور مقالہ کی تکمیل تک کے تمام مراحل کے لیے مفید ہے ۔(م۔ا)
صحابہ نام ہے ان نفوس ِ قدسیہ کا جنہوں نے محبوب ومصدوق رسول ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا اور اس خیر القرون کی تجلیات ِایمانی کو اپنے ایمان وعمل میں پوری طرح سمونے کی کوشش کی ۔ صحابی کا مطلب ہے دوست یاساتھی شرعی اصطلاح میں صحابی سے مراد رسول اکرم ﷺکا وہ ساتھی ہے جو آ پ پر ایمان لایا،آپ ﷺ کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا ۔ صحابی کالفظ رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ کے خاص ہے لہذاب یہ لفظ کوئی دوسراا شخص اپنے ساتھیوں کےلیے استعمال نہیں کرسکتا۔ انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔ صحابہ کرام کے ایمان ووفا کا انداز اللہ کو اس قدر پسند آیا کہ اسے بعد میں آنے والے ہر ایمان لانے والے کے لیے کسوٹی قرار دے دیا۔ صحابہ کرام کےایمان افروز تذکرے سوانح حیا ت کے حوالے سے ائمہ محدثین او راہل علم کئی کتب تصنیف کی ہیں عربی زبان میں الاصابہ اور اسد الغابہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔اور اسی طرح اردو زبان میں کئی مو جو د کتب موحود ہیں ۔صحابہ کرام میں دس ایسے خوش نصیب جلیل القدر صحابہ ہیں جن کو نبی کریم ﷺ نےدنیا میں جنت کی بشارت دی ان صحابہ کرام کو عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے ۔جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں ان دس صحابہ کرام کے اسماء گرامی موجود ہیں ۔ان دس صحابہ کرام سےمراد سید نا ابوبکر صدیق، سید نا عمرفاروق، سیدنا عثمان غنی ، سیدناعلی المرتضیٰ، سیدنا سعید بن زید، سیدنا سعد بن وقاص، سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف، سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح،سیدنا زبیر بن العوام ، سیدنا طلحہ بن عبید اللہ ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ عشرہ مبشرہ‘‘ میں ماہنامہ محدث کے معروف کالم نگار محترم مولانا محمد رفیق چودھری ﷾ نے انہی دس صحابہ کرام کا دلنشیں تذکرہ ، فضائل ومناقب اور ان کے حالات زندگی بیان کیے ہیں۔مو صوف کتاب ہذا کے علاوہ کئی دینی کتب کے مصنف ومترجم ہیں جن میں قرآن کریم کا اردو وانگلش ترجمہ اور تفسیر البلاغ بھی شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی تدریسی وتعلیمی اور تحقیقی وتصنیفی خدمات کو قبول فر ما ئے(آمین) (م۔ ا)
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے ۔ اس طرح اصول تحقیق ، تحقیق نگاری، فن تحقیق یا تحقیق کا علم جامعات اورمزید علمی اداروں میں بہت زیادہ اہمیت حاصل کرچکا ہے۔تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’تحقیق وتدوین کا طریقۂ کار‘‘ پروفیسرڈاکٹر خالددادملک (چیئرمین شعبہ عربی پنجاب یونیورسٹی ،لاہور) کی تصنیف ہے اس کتاب کو انہوں نے دو ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ باب اول میں مقالہ نگاری کے قواعد ومناہج بیان کیے ہیں اور با ب دوم میں مخطوطات کی تحقیق وتدوین کےقواعد ومناہج کو پیش کیا ہے ۔ان دونوں ابواب میں بیان کے گئے موضوعات وعنوانات عصر حاضر میں تحقیق نگاری کے اساس اور جوہر ہیں۔فاضل مصنف نے تحقیق وتدوین نگاری کے تمام مناہج وقواعد کوسہل اور آسان طریقے سےمکمل او رعملی انداز میں پیش کیا ہے ۔انتخاب موضوع سے لے کر مقالہ کی کی جلد بندی تک تمام مراحل کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔اسی طرح مخطوطات کی تدوین کے تمام قواعد شروع سے آخر تک پوری تفصیل کےساتھ بیان کیے ہیں ۔اور چونکہ نظری علوم کی تحقیق میں زیادہ تر کام لائبریری میں ہوتا ہے لہذا لائبریری کے استعمال اور طریقۂکار کی تفصیلات بھی بیان کردی ہیں۔نیزعربی واسلامی تحقیق کے جدید ذرائع کے عنوان سے چند اہم عربی و اسلامی سافٹ ویئرز ، سرچ انجنزا ور ویب سائٹس کا تعارف او رطریقہ استعمال اور بلاد مشرق ومغرب میں واقع مخطوطات ونوادرات کی اہم لائبریریوں کی ویب سائٹ کے ایڈریس بھی تحریرکردئیے ہیں ۔تاکہ عربی واسلامیات کے اساتذہ ومحققین اپنی تحقیقات میں ان جدید ذرائع ووسائل سے کما حقہ استفادہ کرسکیں۔مذکور ہ خصوصیات کی باعث یہ کتاب انسانی علوم کے اساتذہ ومحققین کے لیے بالعموم اور عربی واسلامی علوم میں تحقیق کرنے والے اساتذہ کرام اور ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کے لیے بالخصوص بہترین راہنما کتاب ہے ۔(م۔ا)
جادو کرنا او رکالے علم کےذریعے جنات کاتعاون حاصل کر کے لوگوں کو تکالیف پہنچانا شریعتِ اسلامیہ کی رو سےمحض کبیرہ گناہ ہی نہیں بلکہ ایسا مذموم فعل ہےجو انسان کو دائرۂ اسلام سے ہی خارح کردیتا ہے اور اسے واجب القتل بنادیتا ہے ۔جادو، جنات اور نظر بد سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کے علاج کےلیے کتاب وسنت کے بیان کردہ طریقوں سے ہٹ کر بے شمار لوگ شیطانی اور طلسماتی کرشموں کے ذریعے ایسے مریضوں کاعلاج کرتے نظر آتے ہیں جن کی اکثریت تو محض وہم وخیال کے زیر اثر خود کو مریض سمجھتی ہے ۔جادوکا موضوع ان اہم موضوعات میں سے ہے جن کا بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے ذریعے تعاقب کرنا علماء کےلیے ضروری ہے کیونکہ جادو عملی طور پر ہمارے معاشروں میں بھر پور انداز سے موجود ہے اور جادوگرچند روپوں کے بدلے دن رات فساد پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں جنہیں وہ کمزور ایمان والے اور ان کینہ پرور لوگوں سے وصو ل کرتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے بغض رکھتے ہیں او رانہیں جادو کے عذاب میں مبتلا دیکھ کر خوشی محسوس کرتےہیں لہذا علماء کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظر بد ،جادو کے خطرے او راس کے نقصانات کے متعلق لوگوں کوخبر دارکریں اور اس کا شرعی طریقے سے علاج کریں تاکہ لوگ اس کے توڑ اور علاج کے لیے نام نہادجادوگروں عاملوں کی طرف رخ نہ کریں۔ زیرتبصرہ کتاب’’نظر بد، جادو اورنفسیاتی بیماریوں کاقرآنی علاج‘‘ شیخ عبداللہ بن عبدالعزیز العیدان کی تصنیف ہےاس کتاب میں انہوں نے نفسیانی وروحانی بیماریوں کے کےبچاؤں کےلیے شرعی رقیہ (دم) کی حقیقت واہمیت کو واضح کیا ہے اورکتاب کے آخر میں کچھ ایسے واقعات بیان کیے ہیں جو بہت ساری بیماریوں میں شرعی رقیہ کی منفعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔(آمین)
شیخ الاسلام ،مجدد العصر محمد بن عبد الوہاب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ ایک متبحر عالم دین،قرآن وحدیث اور متعدد علوم وفنون میں یگانہ روز گار تھے۔آپ نے اپنی ذہانت وفطانت اور دینی علوم پر استدراک کے باعث اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء دین کو متاثر کیا اور انہیں اپنا ہم خیال بنایا۔آپ نے قرآن وسنت کی توضیحات کے ساتھ ساتھ شرک وبدعات کے خلاف علمی وعملی دونوں میدانوں میں زبر دست جہاد کیا۔شیخ نے اپنی دعوت پر عقائدکی اصلاح پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور اس سلسلے میں کئی کتب تصنیف کی ہیں ۔شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی تصنیفات کاجائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نےاجتہاد او راستنباط کے ہر علم اور فن میں طبع آزمائی کی ہے ۔ آپ نے قرآن کی فضیلت اور قرآنی علوم پر بھی قلم اٹھایا ۔ قرآن کے بعض مقامات کی تفسیر بھی کی اور کسی حد تک اجتہاد کو ترجیح دی ۔شیخ محمد بن عبدالوہاب نے علم فقہ کے ابواب کے مطابق احادیث نبوی کو پانچ جلدوں میں جمع کیا اور فقہ کی کتابوں کا بڑا عمیق مطالعہ کیا اور اس موضوع پر چند کتابیں مرتب کیں۔علم فقہ کی بعض آراء کاتنقیدی جائزہ بھی لیا اور چند مسائل میں اپنا اجتہاد پیش کیا اور بنیادی اصولوں کے بارے میں بھی قلم اٹھایا۔ سیرت ابن ہشام کو مختصر کیا اور اس میں دعوت اور جہاد کے موضوع پر تھوڑا بہت اضافہ کیاا ور زاد المعاد کی تلخیص بھی کی ۔ زیر تبصرہ کتاب شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کی مؤلفات کے انتخاب کا اردو ترجمہ ہے ۔ یہ انتخاب ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبد الرحمٰن السعید نے ’’ مختارات من مؤلفات الشیخ محمد بن عبد الوہاب‘‘ کے نام سے مرتب کیا ۔یہ کتاب اپنے اندر بہت سارے موضوعات لیے ہوئے ہے ۔ ان میں قرآن وحدیث، توحید ، سیرت نبوی، حق وصداقت پر مبنی واقعات، تاریخ فقہ اورخطوط ورسائل سے متعلق جامع انتخاب ہے ۔اس انتخاب سے شیخ محمد بن عبد الوہاب کی تعلیمات اور ان کے تبلیغی مقاصد پر گہری روشنی پڑتی ہے ۔اس کتاب کو عربی سے اردو قالب میں ڈھالنے کے فرائض جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ،الریاض کے استاد ڈاکٹر سمیر عبدالحمید ابراہیم نے انجام دئیے ہیں ۔(م۔ا)
سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ سن 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’دولت عثمانیہ ‘‘دار المصنفین شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ ہند کے رفیق خاص جناب ڈاکٹر محمد عزیر کی تصنیف ہے ۔ بقول سید سلیمان ندوی (سابق ناظم دارالمصنفین)یہ کتاب اپنی تصنیف کے وقت دولت عثمانیہ کے تاریخ کے متعلق تحریری کی جانی والی اردو زبان میں پہلی کتاب تھی ۔اس سے پہلے دولت عثمانیہ کے متعلق جوکچھ لکھا گیا وہ محض پورپین مصنفین کے تراجم اورخیالات تھے ۔ لیکن مصنف کتاب ہذا نے سات برس کی محنت ومطالعہ کے بعد اسے تصنیف کیا ۔ اس میں عثمانی ترکوں کی تاریخ سے متعلق انگریزی، عربی، اور فارسی کی مستند کتابوں نیز بعض منتخب ترکی اور فرانسیسی تاریخوں کے ترجموں سے مدد لے کرسلطنت کے عروج وزوال کی تاریخ اور جمہوریہ ترکیہ کے کارناموں کی دو جلدوں میں مکمل تفصیل پیش کردی ہے۔کتاب کے دیباچہ سے معلوم ہوتا کہ یہ کتاب پہلی دفعہ 1939ء میں طبع ہوئی ۔ زیر تبصرہ ایڈیشن 2009ء طبع ہونے والا جدید ایڈیشن ہے ۔(م۔ا)
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے ۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہےجسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس وتقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے ۔اس لیے خطبا حضرات کے لیےضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح ، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت،معاملات میں درستگی،آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ خطبات‘‘ مولانا مودودی کے ان کا خطبات کا مجموعہ ہے جو انہوں نے 1938ء میں دارالسلام (نزد پٹھان کوٹ مشرق پنجاب) کی مسجد میں خطبات جمعہ ارشاد فرمائے تھے ۔ ان خطبات کی پہلی مرتبہ اشاعت 1940ء میں ہوئی ۔ان خطبات میں مولانا مودودی نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے ۔(م۔)
قرآن کی سورۃ کہف میں ہے کہ حضرت موسی اپنے خادم ’’جسے مفسرین نے یوشع لکھا ہے‘‘ کے ساتھ مجمع البحرین جارہے تھے کہ راستے میں آپ کی ملاقات اللہ کے بندے سے ہوئی۔ حضرت موسی نے اس سے کہا کہ آپ اپنےعلم میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیں تو میں چند روز آپ کے ساتھ رہوں۔ بندے نے کہا کہ آپ جو واقعات دیکھیں گے ان پر صبر نہ کر سکیں گے۔ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو مجھ سے کسی چیز کی بابت سوال نہ کرنا۔ اس قول و قرار کے بعد دونوں سفر پر روانہ ہوگئے۔ راستے میں اللہ کے بندے نے چند عجیب و غریب باتیں کیں۔ کشتی میں سوراخ ، ایک لڑکے کا قتل اور بغیر معاوضہ ایک گرتی ہوئی دیوار کو سیدھا کرنا، جس پر حضرت موسی سے صبر نہ ہو سکا اور آپ ان باتوں کا سبب پوچھ بیٹھے۔ اللہ کے بندے نے سبب تو بتا دیا ۔ لیکن حضرت موسی کا ساتھ چھوڑ دیا۔احادیث مبارکہ میں اس خاص بندےکا نام’’ خضر ‘‘آیا ہے اور مفسرین کی اکثریت کے نزدیک اس سے مرادحضرت خضر ہیں۔مفسرین نے حضرت خضر کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔انہوں نے واقعات وروایات کی چھان بین کرکے ان کے احوال زندگی معلوم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔مورخین نے حضرت خضر کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے اورعلماء نے ان کی وفات وحیات پر کتابیں تحریر کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’ حضرت خضر تحقیق کی روشنی میں ‘‘ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب نے بڑی عرق ریزی اور محنت شاقہ سے تحریرکی ہے اور مستند حوالوں اور حواشی کی روشنی میں حضرت خضرت خضر کا نام ونسب اور حالات زندگی ، حضرت خضر اور موحضرت موسیٰ کا واقعہ اور ان کے متعلق دیگر کے معلومات کو تحقیقی انداز میں مرتب کیا ہے ۔اورآخر میں مختصراً حضرت الیاس کابھی تذکرہ کیا ہے ۔(م۔ا)
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ، خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار، اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔ اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہے جسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس وتقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے۔ اس لیے خطبا حضرات کے لیےضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت، معاملات میں درستگی، آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’مواعظ حسنہ‘‘ مولانا عبد الرب گونڈوی﷾ ضلع گونڈہ ،بھارت کے خطبات وتقاریر کا مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ ان تین جلدوں میں فاضل مصنف نے بیسیوں عنوانات پر قرآن وحدیث کی روشنی میں علمی مواد جمع کردیا ہے۔ مواعظ حسنہ کا یہ مجموعہ طلباء، خطباء ائمہ مساجد اور مبلغین کے لیے بہت کارآمد اورمفید ہے۔ فاضل مصنف انڈیا کے ایک جید عالم دین کے صاحبزادے ہیں اور خود بھی ایک ابھرتے ہونہار خطیب ہیں۔ آپ کا طرز خطابت منفرد اور جدگانہ ہے آپ کی تقریر انتہائی مربوط ہوتی ہے زبان عام فہم ، سلیس اور اندازِ بیان بہت دلکش ہے۔ نیزاس کتاب کے علاوہ بھی متعد د کتب کے مصنف ہیں۔ (م۔ا)
مسلمان کی اصل کامیابی قرآن مجیداور احادیث نبویہ میں اللہ اور رسول اکرم ﷺ کی جو تعلیمات ہیں ان کی پیروی کرنے اوران کی خلاف ورزی یا نافرمانی نہ کرنے میں ہے مسلمانوں کوعملی زندگی میں اپنے سامنے قرآن وحدیث ہی کو سامنے رکھنا چاہیے اس سلسلے میں صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے راہنمائی لینے چاہیے کہ انہوں نے قرآن وحدیث پر کیسے عمل کیا کیونکہ انہی شخصیات کو اللہ تعالی نے معیار حق قرار دیا ہے۔ اورنبی ﷺنے بھی اختلافات کی صورت میں سنتِ نبویہ اور سنت خلفائے راشدین کو تھام نے کی تلقین کی ہےمتازعہ مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ بارہ ربیع الاول کو میلاد النبی ﷺ منانےکاہے بہت سارے مسلمان ہرسال بارہ ربیع الاول کو عید میلادالنبی ﷺ او رجشن مناتے ہیں ۔عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا ہے ، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، نعت خوانی کےلیے محفلیں منعقدکی جاتی ہیں اور بعض ملکوں میں سرکاری طور پر چھٹی کی جاتی ہے۔ لیکن اگر قرآن وحدیث اور قرون اولیٰ کی تاریخ کا پوری دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہےکہ قرآن وحدیث میں جشن عید یا عید میلاد کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ نبی کریم ﷺ نے اپنا میلاد منایا او رنہ ہی اسکی ترغیب دلائی ، قرونِ اولیٰ یعنی صحابہ کرام ﷺ ،تابعین،تبع تابعین کا زمانہ جنھیں نبی کریم ﷺ نے بہترین لوگ قرار دیا ان کے ہاں بھی اس عید کا کوئی تصور نہ تھا اورنہ وہ جشن مناتے تھے اور اسی طرح بعد میں معتبر ائمہ دین کےہاں بھی نہ اس عید کا کو ئی تصور تھا اور نہ وہ اسے مناتے تھے او ر نہ ہی وہ اپنے شاگردوں کو اس کی تلقین کرتےتھے بلکہ نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے جشن منعقد کرنے کا آغاز نبی ﷺ کی وفات سے تقریبا چھ سو سال بعد کیا گیا ۔ہمارے ہاں ہر سال ماہ ربیع الاول کی آمد یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ عیدِ میلاد النبی ﷺ پر جشن وغیرہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ او ر نبی اکرم ﷺکی ولادت باسعادت کس تاریخ کو ہوئی۔ زیر تبصرہ کتابچہ’’محفل میلاد اسلام کی نظر میں ‘‘ معروف عالم دین شیخ ابوبکر جابر الجزائری کے میلاد کے متعلق لکھے گئے عربی رسالہ ’’ الانصاف فیما قیل فی المولد من الغلو والاحجاف ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔شیخ موصوف نے حقیقت پسندی سے قرآن وحدیث کی روشنی میں محفل میلاد کاجائزہ لیا ہے۔ جناب سیدمحمد غیاث الدین مظاہری نے اس کتابچہ کا اردو دان طبقہ کےسلیس ترجمہ کیا ۔اس کتابچہ کو بیس سال قبل 1416ھ میں وزات اسلامی امور واوقاف ودعوت وارشاد نے کثیر تعداد میں فی سبیل اللہ تقسیم کی غرض سے شائع کیا ۔ اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو بدعات وخرافات میں گھرے مسلمانوں کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ (م۔ا)
قرآنِ مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر عصر حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے۔اور مختلف ائمہ نے عربی زبان میں مستقل بیسیوں تفاسیر لکھیں ہیں ۔جن میں سے کئی تفسیروں کے اردو زبان میں تراجم بھی ہوچکے ہیں ۔اور ماضی قریب میں برصغیرِ پاک وہند کے تمام مکتب فکر کےعلماء نے قرآن مجید کی اردو تفاسیر لکھنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔ زیر تبصرہ ’’تفسیر البلاغ‘‘ماہنامہ محدث کے معروف کالم نگار اور کئی کتب کے مصنف ومترجم محترم مولانا محمد رفیق چودھری ﷾ کی تصنیف ہے۔یہ تفسیر موجود ہ دور میں قرآن حکیم کو صحیح طور پر سمجھنے سمجھانے کے لیے ایک اہم کاوش ہے۔اس کے مخاطبین میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ اور دینی حلقہ دونوں شامل ہیں۔اس کی زبان او ر اندازِ بیان کو حتیٰ الوسع مربوط اورآسان بنانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ قاری کو بات سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔نیز اس میں قرآنی مشکل الفاظ کے معانی اور ان کی تشریح الگ سے کی گئی ہے ،صحیح احادیث کے مکمل حوالے درج کیے گئے ہیں۔اورمتجدِّدین ، منکرین حدیث اور دوسرے گمراہ طبقوں کی غلط تاویلوں کا محاسبہ بھی کیا گیا ہے۔مفسرموصوف کی زندگی کا طویل حصہ قرآن مجید سمجھنے سمجھانے اور اس کی نحوی وتفسیری مشکلات حل کرنے میں گزرا ہے۔ تفسیر ہذا کے علاوہ آپ کئی دینی کتب کے مصنف ومترجم ہیں جن میں قرآن کریم کا اردو وانگلش ترجمہ بھی شامل ہے ۔تفسیر البلاغ کی ابھی جلد اول و دوم طبع ہوئی ہیں ان میں سورۃ النساء تک تفسیر مکمل ہوچکی ہے مزید کام جاری ہے ۔مزید جلدیں طبع ہونے پر انہیں بھی سائٹ پر پبلش کردیاجائے گا۔(ان شاء اللہ ) اللہ تعالیٰ ان کی تدریسی وتعلیمی اور تحقیقی وتصنیفی خدمات کو قبول فر ما ئے(آمین) (م۔ ا)
آخری نبی حضرت محمد ﷺ کو قیامت کے تک لیے زند ہ معجزہ قرآن مجید عطا فرمایا اور اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا بھی بندوبست فرمایا اور اس کے لیے ایسے رجال کار پید ا فرمائے جنہوں نے علوم قرآن سے متعلق تفاصیل اور تفاسیر مرتب کرتے ہوئے اپنی جانیں کھپادیں۔انہی میں سے ایک شعبہ علوم تفسیر،کتب تفسیر ،اور مفسرین کے حالات کا جاننا بھی ہے اپنے اپنے ادوار میں علماء کرام نے اس میدان میں خوب کام کیا او رخدمات انجام دیں۔ہندوستان صدیوں تک اسلامی تہذیب وثقافت کا مرکز رہ چکا ہے جس کے آثار ونقوش اس کے ذرہ ذرہ پر ثبت ہیں ، یہاں کے علماء اور اصحاب کمال کے علمی ،دینی او رتہذیبی کارنامے اسلامی ملکوں سے کم نہیں ہیں ۔ علم وفن کی ہر شاخ خصوصاً دینی علوم میں ہندوستان میں جو علماء پیدا ہوئے ان کی علمی عظمت اسلامی اور عرب ملکوں میں بھی مسلم تھی۔تفسیر کی جانب بھی ہندوستانی مفسرین کی خدمات بڑی نمایاں ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ تذکرۂ مفسرین ہند‘‘ دار المصنفین شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ(ہند)کے ایک رفیق جناب محمد عارف اعظمی عمری کی تصنیف ہے ۔ اس میں انہوں نے ہندوستان میں تیرہویں صدی عیسوی کے آخرسے اٹھاریوں صدی کی ابتدا تک کےسولہ صاحب تصنیف ہندوستانی مفسرین کا تذکرہ او ران کی تفسیروں کا تعارف کرایا ہے۔ہر مفسر کے عام حالات زندگی اور علمی ومذہبی خدمات بھی بیان کی ہیں تاہم اصل توجہ ان کے تفسیری کارناموں کو پیش کرنے پر مبذول کی ہے ۔اسی طرح اس میں کتب تفسیر پر تبصرہ کر کے ان کی اہم خصوصیات نمایاں کی گئی ہیں اور ان کے تفسیری درجہ ومرتبہ کا تعین بھی کیا ہے ۔یہ تذکرۃ المفسرین ہند کی پہلی جلد ہے دوسری جلد دستیاب ہونے پر اسے بھی پبلش کردیا جائے گا۔ ان شاء اللہ (م۔ا)
اسلامی تاریخ کے لحاظ سے مدینہ منورہ دوسرا بڑا اسلامی مرکز اور تاریخی شہر ہے ۔نبی ﷺ کی ہجرت سے قبل اس کا نام یثرب تھا اورغیر معروف تھا لیکن آپ ﷺ کی آمد ،مہاجرین کی ہجرت اور اہل مدینہ کی قربانیوں نے اس غیر معروف شہر کو اتنی شہرت و عزت بخشی کہ اس شہر مقدس سے قلبی لگاؤ اور عقیدت ہر مسلمان کا جزو ایمان بن چکی ہے ۔اس شہر میں بہت سے تاریخی مقامات , اور بکثرت اسلامی آثار وعلامات پائے جاتے ہیں جن سے شہر کی عظمت ورفعت شان کا پتہ چلتا ہے.اس شہر مقدس کی فضیلت میں بہت سی احادیث شریفہ وارد ہوئی ہیں۔سیدنا عبد اللہ بن زید نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: سیدناابراہیم نے مکہ کو حرم قرار دیا اور اس کے لئے دعا کی، میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں جس طرح ابراہیم نے مکہ حرم قرار دیا، میں مدینہ کے لئے دعا کرتا ہوں یہاں کے مُد میں اس کے صاع میں (برکت ہو) جس طرح ابراہیم نے مکہ کے لئے دعاکی۔(صحیح بخاری)مدینہ منورہ کی فضیلت پر مبنی متعدد صحیح روایات موجود ہیں اور مدینہ منورہ کی تاریخ کے سلسلے میں الگ سے عربی واردو زبان میں کئی کتب موجود ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’تاریخ مدینۃ المنورۃ‘‘ محمد عبد المعبود کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے مدینہ منورہ کا محل وقوع،اسماء مدینہ منورہ، مدینۃ النبیﷺ کے فضائل وخصوصیات ، یہاں کے قدیم اور عصر حاضر کےقبائل،تہذیب وتمدن،مسجد نبوی کا تعمیری ارتقاء، مساجد مدینہ،تاریخی کنویں وغیرہ عنوانا ت قائم کرکے مسجد نبوی اور روضۂ رسول کی چودہ سوسالہ مکمل تاریخ ا س کتاب میں درج کردی ہے ۔(م۔ا)
سیداحمدشہید 1786ء بھارت کے صوبہ اترپردیش کے ضلع رائے بریلی کے ایک قصبہ دائرہ شاہ علم اللہ میں پیداہوئے۔ بچپن سے ہی گھڑ سواری، مردانہ و سپاہیانہ کھیلوں اور ورزشوں سے خاصا شغف تھا۔ والد کے انتقال کے بعد تلاشِ معاش کے سلسلے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ لکھنؤ اور وہاں سے دہلی روانہ ہوئے، جہاں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور شاہ عبد القادر دہلوی سے ملاقات ہوئی، ان دونوں حضرات کی صحبت میں سلوک و ارشاد کی منزلیں طے کی۔ خیالات میں انقلاب آگیا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تحریک اور انکے تجدیدی کام کو لے کر میدانِ عمل میں آگئے۔یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت فنا ہو رہی تھی، مشرکانہ رسوم و بدعات اسلامی معاشرہ میں زور پکڑ رہے تھے، سارے پنجاب پر سکھ اور بقیہ ہندوستان پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔ سید احمد شہید نے اسلام کے پرچم تلے فرزندانِ توحید کو جمع کرنا شروع کیا اور جہاد کی صدا بلند کی، جس کی بازگشت ہمالیہ کی چوٹیوں اور نیپال کی ترائیوں سے لیکر خلیج بنگال کے کناروں تک سنائی دی جانے لگی، اور نتیجتاً تحریک مجاہدین وجود میں آئی ۔سید صاحب نے اپنی مہم کا آغاز ہندوستان کی شمال مغربی سرحد سے کیا۔ سکھوں سے جنگ کر کے مفتوحہ علاقوں میں اسلامی قوانین نافذ کیے۔ لیکن بالآخر ١۸۳١ میں رنجیت سنگھ کی کوششوں کے نتیجے میں بعض مقامی پٹھانوں نے بے وفائی کی اور بالاکوٹ کے میدان میں سید صاحب اور انکے بعض رفقاء نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ سید احمدشہید کی تحریک مجاہدین اور ان کے جانثار رفقاء کے حوالے سے متعد ر سوانح نگار ورں نے مطول اور مختصر کتب تحریر کی ہیں۔ کتاب ہذا ’’سید احمد شہید‘‘ از مولاناغلام رسول مہر بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔موصوف نے تقریبا آج 75 سال قبل اس وقت سید احمد شہید پر موجود کتب سے استفادہ کر کے یہ ضخیم کتاب مرتب کی اور اس میں انہوں نےسید صاحب کے مکمل حالات اور ان کی قائم کردہ عظیم جہادی تحریک کی روداد اور سرگزشت کو قلم بند کیا ہے۔(م۔ا)
علوم ِنقلیہ کی جلالت وعظمت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر یہ بھی حقیقت کہ ان کے اسرار ورموز اور معانی ومفاہیم تک رسائی علم نحو کے بغیر ممکن نہیں کلام الٰہی ،دقیق تفسیر ی نکات،احادیث رسول ﷺ ،اصول وقواعد ،اصولی وفقہی احکام ومسائل کا فہم وادراک اس علم کے بغیر حاصل نہیں کرسکتے یہی وہ عظیم فن ہےکہ جس کی بدولت انسان ائمہ کےمرتبے اور مجتہدین کی منزلت تک پہنچ جاتاہے ۔جوبھی شخص اپنی تقریر وتریر میں عربی دانی کو اپنانا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے نحو کےاصول وقواعد کی معرفت کا محتاج ہوتاہے ۔عربی مقولہ ہے : النحو فی الکلام کالملح فی الطعام یعنی کلام میں نحو کا وہی مقام ہے جو کھانے میں نمک ہے ۔سلف وخلف کے تمام ائمہ کرام کااس بات پراجماع ہے کہ مرتبۂ اجتہاد تک پہنچنے کے لیے علم نحو کا حصول شرط لازم ہے قرآن وسنت اور دیگر عربی علوم سمجھنےکے لیے’’ علم نحو‘‘کلیدی حیثیت رکھتاہے اس کے بغیر علومِ اسلامیہ میں رسوخ وپختگی اور پیش قدمی کاکوئی امکان نہیں ۔ قرن ِ اول سے ل کر اب تک نحو وصرف پرکئی کتب اور ان کی شروح لکھی کی جاچکی ہیں ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ عربی گرائمر (نحو وصرف)کی سب سے مربوط اور مستند کتاب امام ابن مالک اندلسی کی "الفیہ ابن مالک"ہے۔اہل عرب میں یہ کتاب بڑی مشہور اور معروف ہےاہل علم کے ہاں اسے مقبولیت حاصل ہے۔اس کی تصنیف کے بعد علماء نحو نے اس کی متعدد شروحات لکھیں۔ان شروحات میں سے سب سے مقبول ترین شرح "شرح ابن عقیل "ہے۔جس میں انہوں نے انتہائی آسان انداز میں الفیہ کو حل کر دیا ہے۔الفیہ کی شروح میں شرح ابن عقیل نحو کی نصابی کتابوں میں ام الکتاب کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ تقریباً تمام مکتبہ فکر کے مدارس میں نحو کی آخری کتاب کی حیثیت سے پڑہائی جاتی ہے۔اس کا انداز انتہائی سہل اور آسان ہے۔ اس میں نحو کے اصول وضوابط کو بڑی خاص ترتیب کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کتاب کی ایک خوبی یہ ہےکہ اس میں نحویوں کے مختلف مذاہب بیان کیے گئے ہیں جن کو پڑھنے سےانسان کا ذہن وسیع اور جمود ختم ہوجاتا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ تبصیر شرح ابن عقیل‘‘ مولانا مختار احمد سلفی﷾ کی کاوش ہے ۔ یہ کتاب مدارس دینیہ میں شامل نصاب او رنحو کی معروف درسی کتاب شرح ابن عقیل کی آسان اور عام فہم تشریح ہے ۔اس کتاب میں الفیہ کے اشعار مع اعراب وترجمہ کے ساتھ درج کر کے ان کے مشکل الفاظ کےمعانی اور ان کی صرفی نحوی تحلیل بھی کردی گئی ہے ۔نیز شرح ابن عقیل کا آسان اور عام فہم مکمل خلاصہ،شرح میں آنے والی اہم باتوں کی سرخیوں سے نشاندہی ، شرح میں آنے والے اشعار کا مکمل ترجمہ اور ان اشعار میں سے محل استشہاد کی وضاحت ،پیچیدہ ابحاث کے آخر میں نقشہ کی صورت میں خلاصہ کلام اور فائدہ و
حجر اسود کے بارے میں سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ خانہ کعبہ میں لگا ہوا وہ مبارک پتھر ہے جسے چومنا یا ہاہاتھ لگانا ہر مسلمان اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہے لیکن یہ حجر اسود ہے کیا ؟ اس کی تاریخ کیا ہے ؟اس بارے میں مستند معلومات کی کمی ہے ۔اسلامی عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے جب خانہ کعبہ تعمیر کیا تو حضرت جبرائیل ؑ جنت سے لائے تھے اور بعد میں تعمیر قریش کے دوران نبی کریم ﷺنے اپنے دست مبارک سے اس جگہ نسب کیا۔اس وقت یہ پتھر دودھ کی طرح سفید تھاجو بنی آدم کے گناہوں کے سبب سیاہ ہوگیا ۔حجاج بن یوسف کے کعبہ پر حملے میں یہ مقدس پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا جسے بعد میں چاندی میں مڑھ دیا گیا ۔ اس مقدس پتھر نے کئی ادوار دیکھے ۔ اس کتاب میں جناب علی شبیر صاحب حجر اسود کی مکمل اور مستند تاریخ تفصیل کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے۔(م۔ا)
دین اسلام کی اساس عقیدہ توحید پر مبنی ہےلیکن صد افسوس کہ امت محمد یہ میں سے بہت سے لوگ مختلف انداز میں شرک جیسے قبیح فعل میں مبتلا ہیں- سماع موتٰی یعنی مُردوں کے سننے کا مسئلہ شرک کا سب سے بڑا چور دروازہ ہے۔ موجودہ دور میں یہ مسئلہ اس قدر سنگینی اختیار کر گیا ہے کہ قائلین سماع موتٰی نہ صرف مردوں کے سننے کے قائل ہیں بلکہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ مردے سن کر جواب بھی دیتے ہیں اور حاجات بھی پوری کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: ( فَاِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ )[30:الروم:52] ’’اے نبی! اور تو کوئی مردے کو کیا سنائے گا۔ آپ بھی مردوں کو نہیں سنا سکتے جیسا کہ بہروں کو نہیں سنا سکتے۔‘‘ بہرے کے کان تو ہوتے ہیں‘ لیکن سننے کی طاقت نہیں ہوتی۔ جب وہ نہیں سن سکتا تو مردہ کیا سنے گا جس میں نہ سننے کی طاقت رہی اور نہ سننے کا آلہ۔ ہاں اﷲ تعالیٰ اس حالت میں بھی اس کے ذرات کو سنا سکتا ہے۔ کسی اور کی طاقت نہیں کہ ایسا کر سکے۔ چنانچہ فرمایا: ( اِنَّ ﷲَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُج وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ)[35:الفاطر:22]’’ اﷲ تو جسے چاہے سنا دے‘ کان ہوں‘ یا نہ ہوں ‘ لیکن اے پیغمبر! آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں‘‘یعنی مردہ ہیں۔ اب اس قدر وضاحت کے بعد کوئی کہہ سکتا ہے کہ مردے سنتے ہیں؟زیر تبصرہ کتاب"سماع موتی"جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے رئیس ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب کے تایا جان شیخ الاسلام حافظ عبد اللہ محدث روپڑی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے مستند دلائل کے ساتھ سماع موتی کے مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔کتاب کی تبویب وتخریج حافظ عبد الوھاب روپڑی صاحب نے فرمائی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا کہ وہ مولف موصوف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے ۔ اس طرح اصول تحقیق ، تحقیق نگاری، فن تحقیق یا تحقیق کا علم جامعات اورمزید علمی اداروں میں بہت زیادہ اہمیت حاصل کرچکا ہے۔تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ اصول تحقیق‘‘ پروفیسر ڈاکٹر عبد الحمید خان عباسی کی تصنیف ہے انہوں نے اس کتا ب میں اصول تحقیق کے عمومی مباحث تفصیل سے بیان کرتے ہوئے علوم اسلامیہ کے تمام پہلوؤں مثلاُ تفسیر، حدیث ، فقہ، تاریخ ، وسیر ، معاشرتی ، معاشی اور سیاسی علوم پر خصوصی طور پر بحث کی ہے۔ اور ان علوم کے حوالے سے موضوعات پر تحقیق کرتے ہوئے جن راہنما اصولوں کی پاسداری ضروری ہے ان کو مثالوں سے واضح کیا ہے ۔ زبان آسان اورانداز واسلوب محققانہ ہے فاضل مصنف عبد الحمید خاں عباسی نے اپنی علمی وتحقیقی تجربات ومشاہدات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کتاب کواس انداز سے مرتب کیا ہے کہ اس کتاب کی حیثیت فنی سے بڑھ کر عملی ہوگئی ہے یہ کتاب علوم شرقیہ اور علوم اسلامیہ کے محققین کے لیے بہترین رہنمائی کا ذریعہ ہے ۔ اور اپنی منفرد افادیت کے باعث ا س کتاب کو متعدد یونیورسٹیوں کے ایم اے) ایم فل اورپی ایچ ڈی سطح کے تحقیق کے پرچہ کے لیے لازمی امدادی مواد کے طور پر منظور کیا گیا ۔یہ کتاب اگرچہ پہلے بھی ویب سائٹ موجود ہے لیکن اس جدیدایڈیشن میں کچھ ترامیم واضافہ جات کیے گئے اس لیے اسے بھی پبلش کردیا گیا ہے۔(م۔ا)
قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت وہی ہے جو کہ ایک فرد کی زندگی میں اس کی یادداشت کی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد واحد کی سوچ، شخصیت، کردار اور نظریات پر سب سے بڑا اثر اس کی یادداشت کا ہوتا ہے اسی طرح ایک قوم کے مجموعی طرزعمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز اس کی تاریخ ہوتی ہے ۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک اپنی اصلاح نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے اسلاف کی تاریخ اور ان کی خدمات کو محفوظ نہ رکھے۔اسلامی تاریخ مسلمانوں کی روشن اور تابندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان اپنی اس تاریخ سے کٹ چکا ہے۔اپنی بد اعمالیوں اور شریعت سے دوری کے سبب مسلمان آج پوری دنیا میں ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں۔اور ہر میدان میں انہیں شکست وہزیمت کا سامنا ہے ۔آج 57 آزاد ممالک کی شکل میں قوت ،عددی اکثریت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ذلت ،عاجزی اور درماندگی میں اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں سوسال پہلے کھڑی تھی۔اس کا سب سے برا سبب مسلمانوں کا دین سے دور ہونا اور غیروں کے قریب ہونا ہے۔کافر ہمیں اس لئے مارتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور ہم اس لئے مار کھا رہے ہیں کہ ہم صحیح معنوں میں مسلمان نہیں ہیں۔تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات، اسلام کے انسانیت نواز پیغام اور اپنی روشن تہذیبی اَقدار کو پوری قوت اور خود اعتماد ی کے ساتھ دنیا پر آشکارا کریں،اور خود بھی اسی کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ زیر تبصرہ کتاب " تاریخ الخلفاء "علامہ جلال الدین سیوطی کی تصنیف ہے، جس کا اردو ترجمہ محترم مولانا محمد عبد الاحد قادری صاحب نے کیا ہے۔اس کتاب میں مولف موصوف نے سیدنا ابو بکر صدیق سے لیکر دولت طبرستان تک کی ایک تاریخ بیان کر دی ہے۔ مولف نے اسلامی تاریخ کو جمع فرما کر مسلمانوں کو اپنے اسلاف سے جوڑنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
واقعات جہاں انسان کے لیے خاصی دلچسپی کا سامان ہوتے ہیں وہیں یہ انسان کے دل پر بہت سارے پیغام اوراثرات نقش کر دیتے ہیں۔ اسی لیے قرآن مبین میں اللہ تعالیٰ نے جا بجا سابقہ اقوام کے قصص و واقعات بیان کیے ہیں تاکہ لوگ ان سے عبرت و نصیحت حاصل کریں اور اپنی زندگی میں وہ غلطیاں نہ کریں جو ان سے سرزد ہوئیں۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہر موڑ پر مکمل راہ نمائی کرتا ہے خوشی ہو یاغمی ہواسلام ہر ایک کی حدود وقیوم کو بیان کرتا ہے تاکہ کو ئی شخص خوشی یا تکلیف کے موقع پر بھی اسلام کی حدود سےتجاوز نہ کرے فرمان نبوی ہے ’’ مومن کامعاملہ بھی عجیب ہے اس کا ہر معاملہ اس کے لیے باعث خیر ہےاور یہ چیز مومن کے لیے خاص ہے ۔ اگر اسے کوئی نعمت میسر آتی ہے تووہ شکرکرتا ہے اور یہ اس کےلیے بہترہے اور اگراسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کےلیے بہتر ہے۔‘‘ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام وتابعین کی سیرت وسوانح میں ہمیں جابجا پاکیزہ مزاح او رہنسی خوشی کے واقعات او رنصیت آموز آثار وقصص ملتے ہیں کہ جن میں ہمارے لیے مکمل راہ نمائی موجود ہے۔ لہذا اہمیں چاہیے کہ خوش طبعی اور پند نصیحت کےلیے جھوٹے ،من گھڑت اور افسانوی واقعات ولطائف کےبجائے ان مقدس شخصیات کی سیرت اور حالات کا مطالعہ کریں تاکہ ان کی روشنی میں ہم اپنے اخلاق وکردار اور ذہن وفکر کی اصلاح کرسکیں۔ زیر تبصرہ کتا ب’’نصیحت آموز اور عبرت انگیز سچے واقعات‘‘شیخ ابو عمار محمود المصری کی تصنیف ہے اس کتا ب میں فاضل مصنف نے قرآن وحدیث اور صحابہ وتابعین کی سیرت کی روشنی میں قارئین کرام کے لیے ہنسی مذاق کےاسلامی آداب واحکام بیان کیے ہیں اور اخلاق وکردار کی اصلاح کے لیے انتہائی سبق آموز اور نصیحت خیز واقعات ذکر کیے ہیں۔اس دلچسپ کتاب کو محترم جناب مولانا یاسر عرفات ﷾ نے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ، مترجم ،اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے عوام الناس کی اصلاح کاذریعہ بنائے۔ (آمین)(م۔ا)
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے ۔ اس طرح اصول تحقیق ، تحقیق نگاری، فن تحقیق یا تحقیق کا علم جامعات اورمزید علمی اداروں میں بہت زیادہ اہمیت حاصل کرچکا ہے۔تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ اسلامی اصول تحقیق‘‘علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی شعبہ عربی وعلوم اسلامیہ کے ڈین جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر خان خاکوانی کی تصنیف ہے ۔فاضل مصنف نے اس کی ابواب بندی کو اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں ترتیب دیتے ہوئے اس کتاب میں اسلامی تحقیق کے مختلف نظریاتی پہلو بیان کرنے کے بعد دورِ حاضر میں برصغیر کے طلبہ کے لیے تحقیقی مقالہ تحریر کرنے کے متعدد تحقیقی مراحل کے اہم حصوں کے بارے میں مختصر مگر جامع ہدایات پیش کی ہیں ۔اس کتاب میں پوری طرح کوشش کی گئی کہ الفاظ کی سادگی کےساتھ ایسا آسان طرز تحریر اختیار کیا جائے کہ عام طالب علم بھی آسانی سے اس سے استفادہ کرسکے ۔(م۔ا)
مولانا ابو الکلام11نومبر1888ء کو پیدا ہوئے اور 22 فروری1958ءکو وفات پائی۔مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔آپ کے والد بزرگوارمحمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا ۔سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا ۔ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہرمصر چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔آپ ایک سنی المسلک انسان تھے ۔آپ کا قادیانیت یا مرزائیت سے کوئی تعلق نہ تھا۔لیکن اس کا باوجود بعض لوگوں نے آپ پر مرزا قادیانی کا جنازہ پڑھنے کا بہتان لگا کر آپ کو قادیانیت کی طرف میلان رکھنے والا ظاہر کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" نقوش ابو الکلام ومقالات آزاد "جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین مولانا عبد المجید سوہدروی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے مولانا آزاد کے مسلک اور عقیدے پر گفتگو کی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس عظیم خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ (آمین)(راسخ)
دنیا کی زندگی ایک کھیل کود سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا :”دنیا سے میرا بھلا کیا ناطہ! میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کی چھاؤں میں گرمیوں کی کوئی دوپہر گزارنے بیٹھ جائے۔ وہ کوئی پل آرام کر ے گا تو پھر اٹھ کر چل دے گا ترمذی میں سہل بن عبداللہ کی روایت میں رسول اللہ فرماتے ہیں: ”یہ دنیا اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر برابر بھی وزن رکھتی تو کافرکوا س دنیا سے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہونے دیتا“صحیح مسلم میں مستورد بن شداد کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”دنیا آخرت کے مقابلے میں بس اتنی ہے جتنا کوئی شخص بھرے سمندر میں انگلی ڈال کر دیکھے کہ اس کی انگلی نے سمندر میں کیا کمی کی “ تب آپ نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا۔ زیر تبصرہ کتاب "رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت" محترم مولاناشاہ حکیم محمد اختر صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے مشکوۃ کتاب الرقاق سے دنیا کی حقیقت کے بارے میں منتخب احادیث کو ترجمہ وتشریح کے ساتھ ایک جگہ جمع فرما دیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولف موصوف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے، اور تمام مسلمانوں کو دنیا کی حقیقت کو سمجھ کر آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین (راسخ)