تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے ۔ اس کےلیے امانت ودیانت او رصداقت کاہونا از بس ضروری ہے۔مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ تعصب ،حسد بغض، سے کوسوں دور ہو ۔تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہو ۔ذہین وفطین ہو اپنے حافظےپر کامل اعتماد رکھتا ہو۔حالات وواقعات کوحوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو ۔اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتاہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگار ی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔انسان انسان سے سیکھتا ہےاور اپنی زندگی کےلیے پیش رو کی زندگیوں سے فیض حاصل کرتا ہےاس لیے ہمیں اپنے اسلاف کے طور طریق کوجاننا چاہیے اور ان میں جو ہماری زندگی سنوارنے اور بنانے کے لیے مفید ہوں اس کواپنی زندگی کےلیے رہنما بناناچاہیے ۔بے شمارمسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کےعلمی عملی،تصنیفی،تبلیغی اورسائنسی کارناموں کوبڑی ع...
بے آب و گیا ہ صحرائے چولستان جو کسی زمانے میں بین الاقوامی تجارتی گزر گاہ تھا اور تجارتی قافلوں کی حفاظت کے لئے دریائے ہاکڑا کے کنارے جیسلمیر کے بھٹی راجاﺅں کے دور حکمرانی 834ہجری میں تعمیر ہونے والا قلعہ ڈیراور جو اپنے اندر کئی صدیوں کے مختلف ادوار کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ اس قلعہ کو نواب صادق محمد خاں اول نے والئی جیسلمیر راجہ راول رائے سنگھ سے فتح کیا جس وقت قلعہ ڈیراور عباسی خاندان کی ملکیت بنا تو عباسی حکمرانوں نے قلعہ کے تمام برج پختہ اینٹوں سے تعمیر کروا کر اس قلعہ کا ہر برج اپنے ڈیزائن میں دوسرے سے جدا ڈیزائن میں کیا ۔ قلعہ کے اندر شاہی محل ،اسلحہ خانہ ، فوج کی بیرکیں اور قید خانہ بھی بنایا گیا تھا ۔ قلعہ کے مشرقی جانب عباسی حکمرانو ں نے ایک محل بھی 2منزلہ تعمیر کرایاجہاں تاج پوشی کی رسم اد اکی جاتی تھی۔ اس وقت قلعہ اپنی شان و شوکت کے ساتھ موجود تھا ۔ ریاست بہاولپور کا پاکستان سے الحاق ہونے کے بعد اور والئی ریاست بہاولپورعباسیہ خاندان کے آخری فرمانروا نواب سر صادق محمد خاں خامس عباسی مرحوم کی وفا ت کے بعد چولستان کے وارثوں اور حکمرانوں کی عدم توجہی...
رسول اکرم ﷺ کی سیرت پربے شمارکتابیں لکھی جاچکی ہیں اورابھی یہ سلسلہ جاری ہے جوتاقیامت جاری رہے گا۔ان شاء اللہ ۔سیرت نگاروں نے متعدداورمتنوع اسالیب اختیارکیے ہیں ۔اس ضمن میں مولانا محمدحنیف ندوی ؒ نے قرآن شریف کی روشنی میں سیرت مرتب کرنے کاکام شروع کیاتھایعنی قرآن حکیم میں نبی کریم ﷺ کے نقوش سیرت کواجاگرکیاجائے’چہرہ نبوت‘اس کے نتیجے میں منصہ شہودپرآئی ۔تاہم افسوس مولانااس کام کومکمل نہ کرسکے۔اورمولانااسحاق بھٹی نے چندابواب کااضافہ کیا۔اس پرکام کی مزیدضرورت ہنوز باقی ہے تاہم جتناکام مولانانے کیاوہ لائق تحسین اورقابل قدرکاوش ہے ۔جس سے واضح ہوتاہے کہ قرآن مقدس میں بھی نبی پاک ﷺ کی سیرت طیبہ موجودہے۔
مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواسے رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص ڈاکٹر عبد القدیر خان کے حوالے سے ہی تصنیف کی گئی ہے کیونکہ وہ ملت اسلامیہ کی آنکھ کا تارا اور ہر مسلم کو اپنی جان سے پیارا ہے۔ پاکستانی قوم کی عظمت وغیرت جیتی جاگتی تصویر اور شاعر مشرق کے خواب کی تعبیر ہے۔ دشمنوں کے لیے سیل تند وتیز اور اپنوں کے لیے ایک جوئے نغمہ ریز ہے۔اس کتاب میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کے عظیم کارناموں اور ان کی سوانح حیات کا تذکرہ ہے اور عوام کو یہ سبق یاد...
ڈاکٹر حمید اللہ )9فروری 1908ء- 17 دسمبر 2002ء) ایک بلند پایا عالم دین ، مایہ ناز محقق، دانشور اور مصنف تھے جن کے قلم سے علوم قرآنیہ ، سیرت نبویہ اور فقہ اسلام پر 195 وقیع کتابیں اور 937 کے قریب مقالات نکلے ۔ڈاکٹر صاحب قانون دان اور اسلامی دانشور تھے اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ تاریخ ،حدیث پر اعلٰی تحقیق، فرانسیسی میں ترجمہ قرآن اور مغرب کے قلب میں ترویج اسلام کا اہم فریضہ نبھانے پر آپ کو عالمگیر شہرت ملی۔ آپ جامعہ عثمانیہ سے ایم۔اے، ایل ایل۔بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے یورپ پہنچے۔ بون یونیورسٹی (جرمنی) سے ڈی فل اور سوربون یونیورسٹی (پیرس)سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ ڈاکٹر صاحب کچھ عرصے تک جامعہ عثمانیہ حیدر آباد میں پروفیسررہے۔ یورپ جانے کے بعد جرمنی اور فرانس کی یونیورسٹیوں میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ فرانس کے نیشنل سنٹر آف سائینٹیفک ریسرچ سے تقریباً بیس سال تک وابستہ رہے۔ علاوہ ازیں یورپ اور...
ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ مرحوم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ایک معروف عالم، مبلغ اور مفسر قرآن کی حیثیت سےشہرت رکھتے تھے۔ موصوف مدینہ یونیورسٹی،مدینہ منورہ کے فاضل اور وہیں مدرس کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیتے رہے ۔علاوہ ازیں انہوں نے ایک عرصہ تک لاہور میں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور ریڈیو ، ٹی وی سمیت مختلف فورموں پر اسلامی تعلیمات کے روشنی میں خطبات اور تقاریر کے ذریعے دلوں کو سیراب کرتے رہے ہیں۔فہم قرآن کےسلسلے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔تقریباً 18 ؍سال قبل 7؍مئی 2002ء کو علامہ اقبال،ٹاؤن،لاہور میں انہیں شہید کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے ۔ڈاکٹر مرحوم کی حیات وخدمات کے متعلق کئی رسائل وجرائد اور اخبارات میں مختلف قلم کاروں کے مضامین شائع ہوئے اور مستقل کتابیں بھی لکھی گئیں۔جن میں سے ایک کتاب ڈاکٹر محمد اسلم خا ن نے ’’ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ۔۔۔ احوال و آثار‘‘ کے عنوان سے لکھی اس کتاب میں ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک کی ز...
زندگی ایک سفر ہے اورہر شخص مسافر ہے مگر زندگی اس سفر کےدوران کئی ملکوں اور شہروں کے بھی انسان کوبہت سفر کرنا پڑتے ہیں۔ یہ سفر بعض اوقات تعلیم کے لیےاور کبھی رزق کمانے یا تجارت کی غرض سے ہوتے ہیں۔ بعض لوگ سیروسیاحت کے لیے اور بعض اعزہ واقارب کی ملاقات کے لیے بھی ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی سفرکرنے اور دنیا کو دیکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔اردو ادب میں سفرناموں کو ایک مخصوص صنف کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ سفرنامے دنیا کے تمام ممالک کااحاطہ کرتے ہیں۔اِن کی طرزِ نوشت بھی دوسری تحریروں سے مختلف ہوتی ہے۔یہ سفرنامے کچھ تاثراتی ہیں تو کچھ معلوماتی۔ کچھ میں تاریخی معلومات پر زور دیا گیا ہے تو کچھ ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت کو نمایاں کرتے ہیں جہاں کا انسان سفر کرتاہے۔ سفرمیں انسان دوسرے علاقوں کےرہنے والے انسانوں سےبھی ملتا جلتا ہے۔ ان کےرسم ورواج ، قوانین رہن سہن ،لائف اسٹائل اور لین دین کے طریقوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آثار قدیمہ کے مطالعہ سے قدیم دور کے انسان کی زندگی کے انہی پہلوؤں سے آشنائی حاصل ہوتی ہے۔ اور...
احادیث کی جانچ پڑتال اور ترتیب دینے والے عالم کو محدث کہا جاتا ہے۔ محدثین کی تعداد تو بلا مبالغہ لاکھوں میں ہے لیکن ان میں سے بعض حضرات ایسے ہیں جنہوں نے اس فن میں اہم ترین کارنامے سر انجام دیے ہیں۔لاکھوں محدثین عظام کے سوانح ؍تذکرے اسماء الرجال کی کتب میں موجود ہیں جو کہ زیادہ عربی زبان میں ہیں ۔بعض اہل قلم نے اسماء الرجال کی امہات الکتب سے استفادہ کے منتخب محدثین کے سوانح کو اردو زبان میں قلمبند کیا ہے۔ معروف مؤرخ وسوانح نگار مولانا عبد الرشید عراقی حفظہ اللہ کی زیر نظر کتاب’’ کاروان حدیث ‘‘بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مولانا عراقی صاحب نےاس کتاب میں بیالیس (42) نامور محدثین عظام کے حالات او ران کی علمی خدمات کا تذکرہ پیش کیا ہے ۔شروع میں ایک جامع علمی مقدمہ بھی لکھا ہے جس میں حجیت حدیث، تدوین حدیث، اور کتابت حدیث پر مختصر روشنی ڈالی ہے ۔نیز ستاون(57) جامعین حدیث کی فہرست دی ہےجنہوں نے احادیث کےمجموعے مرتب فرمائے ہیں ۔اللہ تعالیٰ عراقی صاحب کو ایمان وسلامتی اور صحت وتندرستی والی زندگی دے اور ان کی تحقیقی وتصنیفی جہود ک...
ڈاکٹر لقمان سلفی ﷾ 1943ءکو بھارت میں پیدا ہوئے او ردار العلوم احمد سلفیہ دربھگنہ ،بہار میں دینی تعلیم حاصل کی اس دوران ہی آپ کا داخلہ مدینہ یونیورسٹی میں ہوگیا تو باقی تعلیم آپ نے مدینہ یونیورسٹی میں حاصل کی۔ مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرکے آپ مفتی دیار سعودیہ فضیلۃ الشیخ ابن باز کے سیکرٹری کے طور پر کام کرتے رہے ۔بلکہ ان کے معتمد خاص بنے۔ علماء کرام عموماً ان کی وساطت سے شیخ مرحوم سے رابطہ کیاکرتے تھے۔ شیخ بن باز کی خصوصی سفارش بلکہ حکم پر انہیں سعودی شہریت دی گئی اب ماشاء اللہ ان کے بیٹے بھی ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں ۔ماشاء اللہ بڑی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں ۔ شیخ لقمان صاحب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ منہج اسلاف اہل الحدیث کے بہت بڑے وکیل ہیں۔موصوف نے عربی اردو زبان میں کئی کتب تصنیف کیں ۔تفسیر ’’تیسیر الرحمن لبیان القرآن ‘‘آپ ہی کی تصنیف ہے۔اور آپ سرزمینِ ہند کے عظیم ادارہ جامعہ امام ابن تیمیہ، مدینۃالسلام، بہار کے مؤسس و رئیس بھی ہیں۔31؍ جنور...
سیدابو الحسن علی حسنی ندوی 24 مشہور بہ علی میاں ؍نومبر 1914ء کو رائے بریلی،بھارت میں ایک علمی خاندان میں پیدہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن تکیہ، رائے بریلی میں حاصل کی۔ علی میاں نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لکھنؤ میں واقع اسلامی درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا۔اور وہاں سے علوم اسلامی میں سند فضیلت حاصل کی ۔ علی میاں نے عربی اور اردو میں پچاس سے زائد متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ یہ تصانیف تاریخ، الہیات، سوانح موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سمیناوروں میں پیش کردہ ہزاروں مضامین مقالات اورتقاریر بھی موجود ہیں۔علی میاں کی ایک انتہائی مشہور عربی تصنیف’’ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين ‘‘ہے جس کے متعدد زبانوں میں تراجم ہوئے، اردو میں ا س کا ترجمہ’’ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔آپ کی تصانیف میں ایک ضخیم تصنیف ’’ تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ ہے جو کہ آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ موصوف بھر پورعلمی زندگی گزار کر 31؍1999ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے...
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ ، تفسیر قرآن کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیا ۔علمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺاور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔پنجاب میں تدریسی خدمت کے سلسلہ میں استاد پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان محدث و زیر آبادی (م1334ھ) کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔مولانا حافط عبدالمنان حضرت شیخ الکل کے نامورتلامذہ میں سے تھے اور فنّ حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ صحاح ستہ پڑھائی۔ آپ کے تلامذہ میں ملک کے ممتاز علمائے کرام کا نام آتاہے اورجن کی اپنی خدمات بھی اپنے اپنے وقت میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:’’علمائے...
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحیدِ خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل شہید تھے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 6 مئی 1831ء بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا &nb...
ایک ہمہ گیر شخصیت، علم ہیئت کا ماہر، فلسفی اور ایک ہی وقت میں سائنسی اور عمرانی علوم پر دسترس رکھنے والا شخص تاریخ میں ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی کے نام سے مشہور ہے۔ اس عبقری شخصیت نے ہندوستان اور ہندوؤں کے حالات پر مشتمل ’کتاب الہند‘ کے نام سے ایک جاندار کتاب لکھی، جس کا اردو ترجمہ آپ کے سامنے ہے۔ 1019ء میں البیرونی ہند کے حالات معلوم کرنے ہندوستان آیا۔ ہندوستان کی معاشرت، تہذیب و ثقافت، جغرافیہ، تمدن، یہاں کے مذاہب اور لوگوں کی اخلاقی حالت کا مطالعہ کرنے کے لیے اس نے سنسکرت زبان سیکھی۔ ہندوستان میں البیرونی نے کم و بیش دس سال گزارےاور اس دوران ہندو مذہب کے متعلق بہت سی معلومات حاصل کیں۔ یہ تمام معلومات زیر مطالعہ کتاب کا حصہ ہیں۔ ہندوؤں کے ہاں تصور خدا کیا ہے؟ دنیا سے نجات پانے کے کیا راستے ہیں؟ ہندوؤں کے دیگر مذاہب کے بارے میں کیا نظریات ہیں؟ اوربیوی کو خاوند کے ساتھ ستی کرنے کی کیا وجہ ہے؟ ہندو ازم سے متعلق یہ اور اس طرح کے دیگر بہت سے حقائق کو نہایت عرق ریزی کے ساتھ اس کتاب میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو ہندوؤں سے متعلق معلومات کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو...
اپنے وسیع تر مفہوم میں ہر وہ تحریر جو کسی شکل میں محفوظ کی گئی ہو کتاب کہلاتی ہے۔ گویا مٹی کی تختیاں، پیپرس کے رول، اور ہڈیاں جن پر تحریر محفوظ ہے کتاب ہے؛ یہ چمڑے یا جھلی پر بھی ہو سکتی ہے اور کاغذ پر بھی۔ کتاب لکھے اور چھاپے گئے کاغذوں کے مجموعہ کو کہتے ہیں ، جن کی جلد بندی کی گئی ہواور انھیں محفوظ کرنے کے لیے جلد موجود ہو۔موجودہ دور میں طرزیات اور سائنس کی ترقی کی بدولت کتاب صرف کاغذ پر چھپی تحریر ہی نہیں رہی، بلکہ اب کتاب ای بک کرئیٹر [انٹرنیٹ]] اور بک ریڈر کے ذریعے ڈیجیٹل ہو چکی ہے۔ کتابوں کے شوقین یا کتابیں زیادہ پڑھنے والے کو عموماً ، کتابوں کا رَسیا یا کتابوں کا کیڑا کہاجاتا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب ’’ کتاب المعارف ‘‘ابی محمد بن عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبہ الدینوری (213ھ۔ 276ھ)کی ہے جس کا اردو ترجمہ پروفیسر علی محسن صدیقی نے کیا ہے۔ جس میں تخلیق کائنات و تذکرہ انبیاء، انساب عرب، آپ ﷺ کی اہمیت و فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔اور آپﷺ کی پیدایش سے لے کر وفات تک کے تمام واقعات، غزوات ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کی جانثاری کو بیان کیا گی...
ایک ہمہ گیر شخصیت، علم ہیئت کا ماہر، فلسفی اور ایک ہی وقت میں سائنسی اور عمرانی علوم پر دسترس رکھنے والا شخص تاریخ میں ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی کے نام سے مشہور ہے۔ اس عبقری شخصیت نے ہندوستان اور ہندوؤں کے حالات پر مشتمل ’کتاب الہند‘ کے نام سے ایک جاندار کتاب لکھی، جس کا اردو ترجمہ آپ کے سامنے ہے۔ 1019ء میں البیرونی ہند کے حالات معلوم کرنے ہندوستان آیا۔ ہندوستان کی معاشرت، تہذیب و ثقافت، جغرافیہ، تمدن، یہاں کے مذاہب اور لوگوں کی اخلاقی حالت کا مطالعہ کرنے کے لیے اس نے سنسکرت زبان سیکھی۔ ہندوستان میں البیرونی نے کم و بیش دس سال گزارےاور اس دوران ہندو مذہب کے متعلق بہت سی معلومات حاصل کیں۔ یہ تمام معلومات زیر مطالعہ کتاب کا حصہ ہیں۔ ہندوؤں کے ہاں تصور خدا کیا ہے؟ دنیا سے نجات پانے کے کیا راستے ہیں؟ ہندوؤں کے دیگر مذاہب کے بارے میں کیا نظریات ہیں؟ اوربیوی کو خاوند کے ساتھ ستی کرنے کی کیا وجہ ہے؟ ہندو ازم سے متعلق یہ اور اس طرح کے دیگر بہت سے حقائق کو نہایت عرق ریزی کے ساتھ اس کتاب میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو ہندوؤں سے متعلق معلومات کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو...
کرامت لغوی اعتبار سے عزت اور شرافت کو کہتے ہیں اور اصطلاحی طور پر اس کا اطلاق اس عمل پر ہوتا ہے جو کسی نیک بندے کے ہاتھ سے خلاف عادت ظہور پذیر ہو۔معجزے اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ معجزے کا ظہور نبی کے ذریعے ہوتا ہے اور کرامت ولی کے ذریعے ظہور پذیر ہوتی ہے۔صحابہ کرام اس امت کے سب سے افضل واعلی لوگ تھے ،انہوں نے نبی کریم ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا،ان کے ساتھ مل کر کفار سے لڑائیاں کیں ، اسلام کی سر بلندی اور اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا۔پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام تمام کے تمام عدول ہیں یعنی دیانتدار،عدل اور انصاف کرنے والے ،حق پر ڈٹ جانے والے اور خواہشات کی طرف مائل نہ ہونے والے ہیں۔صحابہ کرام کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ اعلان ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔صحابہ کرام کے ہاتھوں بھی بے شمار کرامات کا ظہور ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب" کرامات صحابہ " محترم مولانا اسعد محمد الطیب صاحب کی تصنیف ہے، جس کا ترجمہ وتخریج محترم ابو القا...
اسلام دین فطرت ہے۔خدا کی عبادت اور اطاعت انسان کے خمیر میں شامل ،اور اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ پالنے پوسنے والے کی پوجا ،پرستش اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ہر انسانی بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے ۔ماں ،باپ ،ماحول اور سوسائٹی اگر اسے غلط راہوں پر نہ ڈال دے اور اسلام کی سادہ تعلیم اس کے سامنے آئے تو اس کی سادہ فطرت بہت آسانی سے اسے قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتی ہے۔ تاریخ میں کوئی گروہ ایسا نہیں گزرا جو کسی نہ کسی کو معبود مان کر اس کے آگے سر نیاز نہ جھکاتا ہو۔تاریخ اگر ایک طرف یہ ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ہر گروہ اور قوم نے کسی نہ کسی خدا کو مان کر اسے پوجا ہے تو دوسری طرف یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ خدا پرستی کے سلسلہ میں انسانی افراد اور جماعتوں نے بارہا ٹھوکریں کھائی ہیں ۔فکر وعمل کے میدانوں میں بھٹک کر انسان ضلالت اور گمراہی کے عمیق غاروں اور کھڈوں میں جا گرا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے جماعت انسان کی راہنمائی کے لئے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور نبی کریم ﷺ کے بعد بے شمار ایسے نیک اور مصلح پیدا کئے جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اللہ تعالی کے پیغام اور وحی...
تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے۔ اس کےلیے امانت ودیانت او رصداقت کاہونا از بس ضروری ہے۔ مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ تعصب، حسد بغض، سے کوسوں دور ہو۔ تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہو۔ ذہین وفطین ہو اپنے حافظےپر کامل اعتماد رکھتا ہو۔ حالات و واقعات کوحوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو۔ اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتاہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگار ی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور یہ اس کے امتیازات میں سے ہے۔ بے شمارمسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کےعلمی عملی، تصنیفی،تبلیغی اورسائنسی کارناموں کوبڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ اسلاف کے تذکروں میں توحید اور عظمت اسلام کی خاطرقربانیاں دینے والے جانثاروں، میدان جہاد میں شجاعت و بہادری دکھانے والے سالاروں اور عدل وانصاف کو قائم رکھنے والے امراء وسلاطین کے تذکروں کو بڑی مقبولیت حاصل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’کردار کے غازی‘‘ میں جناب ابو علی عبد الوکیل نے ایسی ہی ا...
تاریخی حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ جب قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے اسلامی اصولوں کو اپنا شعاربنا کر عملی میدان میں قدم رکھا تو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو زیر نگین کرلیا۔مسلمان دانشوروں ، سکالروں اور سائنسدانوں نے علم و حکمت کے خزانوں کو صرف اپنی قوم تک محدود نہیں رکھابلکہ دنیا کی پسماندہ قوموں کو بھی استفادہ کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔ چنانچہ اُس وقت کی پسماندہ قوموں نے جن میں یورپ قابل ذکر ہے مسلمان سکالروں سے سائنس اورفلسفہ کے علوم حاصل کئے۔یورپ کے سائنسدانوں نے اسلامی دانش گاہوں سے باقاعدہ تعلیم حاصل کرلی اور یورپ کو نئے علوم سے روشناس کیا۔حیرت کی بات ہے کہ وہی مسلم ملت جس نے دنیا کو ترقی اور عروج کا سبق پڑھایا آج انحطاط کا شکار ہے۔ جس قوم نے علم و حکمت کے دریا بہا دیئے آج ایک ایک قطرے کے لئے دوسرے اقوام کی محتاج ہے۔ وہی قوم جو دنیا کی عظیم طاقت بن کر ابھری تھی آج ظالم اور سفاک طاقتوں کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ یہ اتنا بڑا تاریخی سانحہ ہے جس کے مضمرات کاجاننا امت مس...
ابو طالب بن عبد المطلب نبی کریم ﷺ کے چچا اور سیدنا علی ؓکے والد تھے۔ ان کا نام عمران اور کنیت ابوطالب تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی والدہ آمنہ بنت وہب اور دادا عبدالمطلب کی وفات کے بعد آٹھ سال کی عمر سے آپ کے زیر کفالت رہے۔ آپ نے ایک بار شام اور بصرہ کا تجارتی سفر کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی ہمراہ لے گئے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر بارہ برس کے لگ بھگ تھی۔بحیرا راہب کا مشہور واقعہ، جس میں راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نبوت کی نشانیاں دیکھ کر پہچان لیا تھا، اسی سفر کے دوران میں پیش آیا تھا۔آپ کے والد کا نام عبدالمطلب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت عمرو تھا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب کے واحد سگے بھائی تھے جبکہ دیگر کی والدہ مختلف تھیں۔تاریخ کی معروف کتب میں تو یہی مکتوب ہے کہ نبی کریم ﷺ کی کفالت آپ کے چچا ابو طالب نے کی ۔لیکن زیر تبصرہ کتاب" کفیل محمد ﷺ " میں مولف نے اس کے برعکس آپ ﷺ کے تایا ابو طاہر زبیر بن عبد المطل...
اللہ رب العزت کے ہم پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں جن میں سے سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ہماری دنیا وآخرت کی ہر قسم کی اصلاح وفلاح اور نجات کے لیے نبوت ورسالت کا ایک مقدس اور پاکیزہ سلسلہ شروع کیا جس کی آخری کڑی جناب محمد کریمﷺ ہیں۔ جس نے نبیﷺ کی صحبت پائی‘ آپﷺ کو دیکھا‘ آپ کے ارشادات کو سنا اور آپﷺ کا کلام اس سے مس کر گیا‘ اس کی مشت خاک کو اس پارس نے سونے ہمالیہ بنا دیا۔ آپﷺ کی صحبت کے برابر کوئی درجہ نہیں لیکن آپﷺ کی براہ راست صحبت کی سعادت تو اب کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ آپﷺ کو دیکھنے والوں میں تو وہ بھی تھے جنہوں نے آپﷺ کا انکار کیا اور جہنم کے مستحق ہوئے مگر ہمیں اللہ نے آپﷺ پر ایمان کی عظیم نعمت سے نوازا فللہ الحمد...لیکن آپﷺ کے کلام کی صحبت میں اپنی زندگی کے لمحات بسر کر لینا آج بھی ممکن ہے اور ایک عظیم سعادت ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں بھی نبیﷺ کی مجلسوں کی تشریح وتعبیرات کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ان اسباق کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً عوام کو دیے گئے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہم اپنی عملی زندگ...
موجودہ مادی دور میں جہاں اور بہت سے مسائل باعث پریشانی ہیں وہاں ایک انتہائی پریشان کن مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کیونکر کی جائے معاشرے میں عمومی طورپر الحادولادینیت کا دور دورہ ہے درس گاہوں کی حالت بھی ابتر ہے اس کےلیے یقیناً بہت احیتاط کی ضرورت ہے لہذا ہمہ وقت بارگاہ ایزدی میں دست بدعا رہنا چاہئے کہ وہ نونہالان وطن کی صحیح تعلیم وتربیت کے لیے ذرائع وسائل مہیا فرمائے بچوں کی تربیت کاایک اہم طریقہ حکایات اور کہانیاں بھی ہیں بچوں میں طبعی طور پر کہانیوں سے ایک لگاؤ ہوتا ہے لیکن عموماً جنوں اور پریوں با بادشاہوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن میں کوئی اخلاقی سبق نہیں ہوتا بلکہ الٹا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں زیرنظر کتاب میں بچوں کےلیے اسلامی نقطہ نظر سے بہت ہی عمدہ کہانیاں تحریر کی گئی ہیں جن سے بچوں میں اسلامی عقائد وآداب مستحکم ہوں گے البتہ اس کایہ پہلو کھٹکتا ہے کہ یہ فرضی کہانیاں ہیں بہتر ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین عظام اور تاریخ کے سچے واقعات کو کہانی کے انداز میں بیان کیاجاتا۔
برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق منعدد امور توجہ طلب ہیں کیونکہ ان سے متعلق جو تفصیلات عام لوگوں کو معلوم ہیں وہ زیادہ تر غلط اور بہت کم صحیح ہیں۔ان امور میں بعض کا تعلق عقائد سے بعض کا عمل سے اور بعض کی حیثیت صرف علمی و نظری ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد اور اسلام کی اشاعت سے متعلق موضوع بھی بعض غلط فہمیوں یا غلط بیانیوں کا شکار ہوا ہے۔جس کی بنا پر تصوف کی تعظیم و تمجید کے لئے ایک بات یہ بھی مشہور کی گئی ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت میں صوفیاء کا کردار ہے بے حد عظیم ہے۔ تاریخی طور پر اگر یہ بات ثابت ہو جاتی تو اسے تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہ تھا، لیکن ایک خالص تاریخی و علمی مسئلہ کو عقیدت و احترام کے زور پر ثابت کرنا آج کے علمی معیار و مقام کے شایانِ شان نہیں۔خوشی کا مقام ہے کہ محترم غازی عُزیر صاحب نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب ’’ کیا اقلیم ہند میں اشاعتِ اسلام صوفیاء کی مرہونِ منت ہے؟ ‘‘ میں واضح کیا گیا ہے کہ ہندستان میں اسلام صوفیاء کے ذریعہ نہیں بلکہ فقط محدثین کرام اور علمائے حق کے ذریعہ آیا...
سیدنا خضر کے نبی یا ولی ہونے اور ان کے اب تک زندہ رہنے نیز بعض لوگوں کے خضر سے ملاقات کرنے اور خضر کے ان کی رہنمائی کرنے کا مسئلہ عرصہ دراز سے موضوع بحث بنا ہوا ہے،اور لوگوں کے درمیان سیدنا خضر کے حوالے سے بے شمار بے تکی،غیر مستند اور جھوٹی کہانیاں زیر گردش ہیں۔ اس سلسلے میں عربی زبان میں اگرچہ کچھ کتابیں موجود ہیں ،لیکن اردو زبان کا دامن اب تک اس سے خالی تھا،اور اس امر کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ اس نازک موضوع پر اردو میں بھی کچھ لکھا جائےتاکہ لوگوں کے عقائد کی اصلاح کی جاسکے۔مقام مسرت ہے کہ جامعہ عالیہ عربیہ مئو انڈیا کے ایک عالم دین محترم جناب مولانا عبد اللطیف اثری ﷾نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور صحیح بخاری کے شارح علامہ حافظ ابن حجر کی کتاب"الزھر النضر فی حال الخضر "کا اردو ترجمہ کر کے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ نے اس ترجمہ کا اردو نام " کیا خضر ابھی زندہ ہیں؟"رکھا ہے۔جس پر تحقیق ،تخریج اور تحشیہ کاکام شیخ صلاح الدین مقبول احمد (کویت) نے کیا ہے۔ مولف موصوف نے اس کتاب میں حدیث میں خضر کا قصہ،خضر کے بارے میں خل...
كيا حضرت عيسٰی ؑ بن باپ کے پیدا ہوئے؟ ایک طویل مدت تک تو امت مسلمہ کے ہاں یہ مسئلہ اجماعی رہا کہ حضرت عیسی ؑ خدا تعالی کی قدرت کاملہ سے معجزانہ طور پر باپ کے بغیر پیداہوئے – لیکن تقریبا ڈیڑھ صدی قبل برصغیر پاک وہند میں یہ بازگشت سنائی دی کہ حضرت عیسٰی ؑ عام بچوں کی طرح پیدا ہوئے-عصر حاضر میں غلام احمد پرویز ، مرزا غلام احمد قادیانی ، جاوید احمد غامدی اور ان کی فکر کے علمبردار لوگ اسی قسم کے نظریات کی ترویج واشاعت میں مگن ہیں- زیر نظر کتاب میں ابو القاسم محب اللہ شاہ راشدی نے اسی مسئلے کو زیر بحث لاتے ہوئے اس ضمن میں متعدد علمی مباحث پر دلائل کی روشنی میں گفتگو کی ہے-حضرت جبرائیل ؑ کی بشارت اور حضرت ابراہیم و زکریا علیہ السلام کی بشارت کا تذکرہ کرتےہوئے حضرت عیسی ؑ کی معبودیت کا رد کیا ہے- کتاب کے آخر میں ولادت سیدنا عیسی ؑ کے متعلق مولانا ثناء اللہ امر تسری کے خیالات کو سپردقلم کیا گیاہے-