اس عارضی دنیا میں مختلف ممالک میں مختلف قوموں میں خوش نصیبی کے معیار مختلف ہیں ۔ کوئی دولت کی فروانی کو خوش نصیبی کی علامت جانتا ہے تو کوئی سامان تعیش کوٹھی، کار، بنگلہ، زمینوں وغیرہ کو اورکوئی اونچےحسب ونسب کو تو کوئی اعلیٰ وممتاز کلیدی عہدوں کےمل جانے کو خوشی نصیبی کا باعث سمجھتا ہے ۔کوئی عورت خاوند کی محبوبہ بن جانے کو او رکوئی زیادہ تعداد میں بیٹوں کےملنے اورمستقبل میں اپنے دست وبازوں بننے کواپنی خوش قسمتی کی ضامن سمجھتی ہے۔کوئی اپنے عارضی اور چند روزہ حسن کواپنی خوش نصیبی کاباعث سمجھتی ہے او رکوئی اعلیٰ عصری تعلیم کی ڈگری کو اپنی خوش نصیبی کا سبب گردانتی ہے.... ایسے ہی اور بہت سے معیارات ہیں دنیا کےمختلف حصوں میں جن کو خوش نصیبی کا ضامن اور سبب جانا جاتا ہے۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’دنیا کی سب سے خوش نصیب عورت‘‘ ڈاکٹر عائض القرنی کی مشہور عربی کتاب ’’ اسعد المرأة فی العالم‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔یہ کتاب قرآن وحدیث کی روشی میں عورت کو دنیا کی سب سے خوش نصیب عورت بننے کے گن اور گر سکھاتی ہے۔ اسلام ، مرد وعورت دونوں کوایسی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس پر چل کر وہ دنیا وآخرت میں خوش وسلامتی کےساتھ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔اس کتاب میں مصنف نے عورتوں سے خطاب کیاہے اور بتایا ہے کہ کیسے دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کر کے ایک عورت خوش وخرم رہ سکتی ہے او راسی طرح اس عورت کے گھر کے لوگ بھی ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے عورت اپنے منفی پہلوؤں سے ابھر کر مثبت کواجاگر کر سکتی ہے۔ انسان کے سوچ اور جذبات کی بگاڑ کئی مصائب وپریشانیوں کو دعوت دیتی ہے ۔اس کتاب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں میں عورت کی سوچ کی اصلاح کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے جذبات کوایک صحیح سمت دکھائی گئی ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع میں اس قدر اہم ہےکہ اس کتاب کو ہرمدرسہ ، اکیڈمی ، کالج یونیورسٹی میں بطور نصاب شامل کیا جائے ۔اللہ تعالیٰ مصنف ،مترجم وناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے خواتین اسلام کےلیے نفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ،لیکن افسوس کہ آج تک کسی بھی حکومت نے پاکستان میں اسلام نافذ کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔نظریہ پاکستان کے بارے میں واضح رہنا چاہئے کہ قرار داد مقاصد 1949ء اور 1973ء کے متفقہ آئین میں واضح طورپر یہ قرار دیا جاچکا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں کتاب وسنّت کو فروغ دیا جائے گا۔ اس دستور کو عوام پاکستان کے منتخب نمائندے منظور کرچکے ہیں، عدالتیں اس کی بناپر فیصلہ کرتی ہیں اور یہ جمہوری اساسات پر ایک مسلمہ بن چکا ہے کہ پاکستان میں اسلام نظام کو قائم کیا جائے گا۔ایک اسلامی ریاست کا قیام ہندوستان کے مسلمانوں کا صدیوں پرانا خواب تھا۔جس کے شواہد مغلیہ خاندان کے زوال کے بعد ہماری پوری تاریخ میں پھیلے ہوئے ہیں۔اسی نفسیات اورمسلمانوں کے دیرینہ خواب کو سمجھتے ہوئے قائداعظم نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تو اسی روزمعرضِ وجود میں آگیا جس روز ہندوستان کی سرزمین پرپہلے مسلمان نے قدم رکھا۔ پھر کہا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں، میں نے فقط یہ کیاکہ جو بات آپ کے دلوں اور ذہنوں میں تھی، اسے طشت ازبام کردیا یعنی ببانگِ دہل کہہ دیا۔اگرپاکستان کا تصور نظریاتی نہیں تھا تو پھر وہ اسی دن کیوں معرضِ وجود میں آگیا جس دن ہندوستان میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا؟ زیر تبصرہ کتاب" نفاذ شریعت اور پاکستان"قائد تحریک نفاذ شریعت مولانا قاضی عبد الکریم کی کاوش ہے۔جس میں انہوں نے پاکستان میں نفاذ اسلام کے حوالے سے قانونی تجاویز دی ہیں، اور یہ واضح کیا ہے کہ ملک میں نفاذ شریعت کا عمل موجودہ دور میں بھی نہائت آسان ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ پاکستان میں نفاذ اسلام کی راہیں ہموار کرے اور ہمیں خلافت جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمائے۔آمین(راسخ)
کسی بھی نظام کو نافذ کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔انقلابی یا ارتقائی۔اگر کسی نظام کو انقلابی طریقوں سے نافذ کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اثرات کا ظہور فورا قبول کر لیا جاتا ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے نے اس نظام کو پوری طرح قبول کر لیا ہے۔حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ہے ، کیونکہ ہر وہ نظام جو معاشرے پر زبر دستی ٹھونسا جائے ، اس کے مخالفانہ جذبات وقتی طور پر دبے رہتے ہیں اور جوں ہی کوئی موقع ملتا ہے وہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ نمودار ہو جاتے ہیں۔اس کے برعکس ارتقائی طریقہ ذرا سست رفتار ہوتا ہے ، اس کے اثرات کا ظہور فوری طور پر نہیں ہوتا ہے۔لیکن اس طریقے میں نظام کی اقدار معاشرے کے باطن میں رس رس کر پیوست ہو جاتی ہیں، اور انسانی ضمیر کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہیں پھر انہیں نکالنا کسی طرح بھی ممکن نہیں رہتا ہے۔نظام اسلام کا طریقہ ابتدائے اسلام میں ارتقائی ہی رہا اور یہ بہت مفید اور موثر ثابت ہوا۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ یہ شدید خواہش رکھتے تھے کہ تمام لوگ اسلام قبول کر لیں ، لیکن آپ ﷺ نے کسی پر جبر نہیں کیا اورقرآن مجید نے تو صریح الفاظ کے ساتھ یہ اعلان کر دیا کہ"دین کو قبول کرنے کے سلسلے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ "زیر تبصرہ کتاب " نفاذ شریعت میں تدریج "محترم حافظ سعد اللہ صاحب ریسرچ اسسٹنٹ مرکز تحقیق دیال سنگھ لائبریری ٹرسٹ کی کاوش ہے ، جس میں انہوں نےنفاذ اسلام کے حوالے سے اسلام کےاسی تدریجی طرز عمل پر اپنی تحقیق پیش کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ پاکستان میں نفاذ اسلام کی راہیں ہموار کرے اور ہمیں خلافت جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآنِ مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اسے پڑھنے پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے۔اور مختلف ائمہ نے عربی زبان میں مستقل بیسیوں تفاسیر لکھیں ہیں۔ جن میں سے کئی تفسیروں کے اردو زبان میں تراجم بھی ہوچکے ہیں ۔اور ماضی قریب میں برصغیرِ پاک وہند کے تمام مکتب فکر کےعلماء نے قرآن مجید کی اردو تفاسیر لکھنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ان میں علماء اہل حدیث کی بھی تفسیری خدمات نمایاں ہیں۔ زیر تبصرہ ’’تفسیر القرآن الکریم ‘‘جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے جامعہ الدعوۃ الاسلامیہ،مرید کے ،شیخورہ کے شیخ الحدیث والتفسیر محترم جناب الشیخ حافظ عبد السلام بھٹوی ﷾ کی چار جلدوں پرمشتمل تفسیر ہے۔ اس تفسیر میں انہوں نے احادیث صحیحہ، آثار ِصحابہ اورمنہج سلف کی روشنی میں تفسیر بالماثور کاعمدہ نمونہ پیش کیاہےاور عام مفسرین کے برعکس انبیائے کرام اور سابقہ امتوں کےحالات وواقعات کی تفصیل بیان کرنے میں اسرائیلیات اور غیر مستند روایات سے مکمل اجتناب کیاہے۔ اوران کےحالات وواقعات کے بیان میں ثقاہت اورحقائق کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔اس کےعلاوہ انہوں نے قرآن کے مشکل اور تفصیل طلب اہم مقامات کی بڑی عمدہ اور مفید تشریح کی ہے جو متلاشیانِ حق وصداقت کےلیے متاعِ گمشدہ ہے۔ مزید برآں بعض مقامات پر قرآن کےمشکل الفاظ کےمعانی کی لغوی او رنحوی وضاحت بھی کی ہے۔مذکورہ بالا نمایاں اورامتیازی خصوصیات کی حامل یہ تفسیر حافظ صاحب کی 45 سال سے زائد عرصہ پر محیط تعلیمی خدمات ،تدریسی تجربے اور دقیق مطالعہ کا خلاصہ ہے۔ اس تفسیر کی نمایاں اور قابلِ ذکر خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ترجمۂ قرآن بھی محترم حافظ صاحب ہی کا ہے۔ جو لفظی اور بامحاورہ ترجمے کا حسین امتراج ہے جس میں انہوں نے عام فہم اسلوبِ نگارش اختیار کرتے ہوئےالفاظ کے معانی کےلیے اختصار اور جامعیت کو پیش ِنظررکھا ہے۔اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کی مساعی جمیلہ کوشرف قبولیت بخشے اور اسے قارئین کے لیے اصلاحِ عقائد،ترغیب اعمال صالحہ، تزکیۂ نفس اور تطہیر قلوب واذہان کا ذریعہ بنائے ۔آمین (م۔ا)
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔ معاشرتی علوم اور ادبیات میں علمی نوعیت کی جدید رسمیات پر مبنی کتابیں اور تحقیقی مجلے اس وقت عام ہونے لگے تھے جب رائل ایشیا ٹک سوسائٹی نے خصوصا تاریخ کے موضوعات پر اپنے مطالعات کو جدید اصولوں کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا اور یورپ کے دیگر ملکوں جیسے جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کے تحقیقی اور اشاعتی اداروں نے بھی اس جانب پیش قدمی کی اور اسی زمانے میں خصوصا تحقیق و ترتیب متن کی بہترین کوششیں سامنے آنے لگیں۔لیکن افسوس کہ آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفقہ طور پر نہ طے ہو سکیں۔ نہ ان کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی کوئی مناسب پیش رفت ہوسکی۔ چنانچہ ایک ہی جامعہ میں، بلکہ اس جامعہ کے ایک ہی شعبے میں لکھے جانے والے مقالات باہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک مقالے میں حواشی کسی طرح لکھے جاتے ہیں اور کتابیات کسی طرح مرتب کی جاتی ہے۔ دوسرے مقالے میں ان کے لکھنے اور مرتب کرنے کے اصول مختلف ہوسکتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" تحقیق وتدوین کا طریقہ کار "پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے چیئرمین محترم پروفیسر ڈاکٹر خالق داد ملک صاحب کی تصنیف ہے۔ جس میں انہوں نے اسی کمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ کتاب انہوں نے انسانی ومعاشرتی علوم میں بحث وتحقیق سے دلچسپی رکھنے والے اساتذہ کرام کے لئے بالعموم اور عربی واسلامی میں کے اساتذہ ومحققین کے لئے بالخصوص بحث وتحقیق کے مناہج سے متعلق تیار کی ہے۔اس کتاب کے دو ابواب ہیں۔پہلے باب میں مقالہ نگاری کے قواعد ومناہج بیان کئے گئے ہیں جبکہ دوسرا باب مخطوطات کی تحقیق وتدوین کے قواعد ومناہج کے متعلق ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن ِ مجید انسانوں کی راہنمائی کےلیے رب العالمین کی طرف سے نازل کی گئی آخری کتاب ہے ۔اور قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو تاقیامت انسانیت کے لیے رشد وہدایت کا سرچشمہ اور نوعِ انسانی کےلیے ایک کامل او رجامع ضابظۂ حیات ہے ۔ اسی پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں سربلند ی او ر آخرت میں نجات کا حصول ممکن ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کے معانی ومفاہیم کوسمجھا جائے ،اس کی تفہیم کے لیے درس وتدریس کا اہتمام کیا جائے او راس کی تعلیم کے مراکز قائم کئے جائیں۔ قرٖآن فہمی کے لیے ترجمہ قرآن اساس کی حیثیت رکھتا ہے ۔آج دنیاکی کم وبیش 103 زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم شائع ہوچکے ہیں۔جن میں سے ایک اہم زبان اردو بھی ہے ۔اردو زبان میں اولین ترجمہ کرنے والے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دو فرزند شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر ہیں ۔ اب تو اردو زبان میں سیکڑوں تراجم دستیاب ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری وساری ہے۔ زیر تبصرہ ترجمہ قرآن جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے جامعہ الدعوۃ الاسلامیہ،مرید کے ،شیخورہ کے شیخ الحدیث والتفسیر محترم جناب الشیخ حافظ عبد السلام بھٹوی ﷾ کا ہے یہ ترجمہ قرآن مجید کے اردو تراجم میں ایک نہایت عمدہ اور قابل تعریف اضافہ ہے۔ جس میں انہوں نے قرآن مجید کے دل نشیں اسلوب کا لحاظ رکھتے ہوئے لفظ بہ لفظ ترجمہ کرنے اوراسے اردو محاورہ کےمطابق بنانے کی بھر پور کوشش کی ہے اور ترجمہ کرتے وقت عربی الفاظ کے قریب تر اور موزوں ترین الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔ اور ترجمہ میں فصاحت وبلاغت کے اصولوں اورعربی زبان کے قواعد کا بھی لحاظ رکھا ہے۔ اس لیے یہ ترجمہ لفظی ہونے کےساتھ ساتھ حسن بیان،عبارت کی روانی اور سلاست کاآئینہ دار بھی ہے ۔اردو زبان میں یہ نادر الوجو اور شاہکار ترجمہ ہے۔ جس کے الفاظ کےانتحاب میں مترجم کے40 سال سے زائد عرصے پر محیط دینی علوم وفنون کےتدریسی تجربے اور نصوص کے گہرے اور وسیع مطالعے کی جھلک اورقدیم وجدید تراجم کا واضح عکس نظر آتا ہے۔ماء اللہ اس ترجمہ کوبڑا قبول عام حاصل ہے چند سالوں میں بیسیوں ہزار نسخے اندرون وبیرون ملک قارئین تک پہنچ چکے ہیں۔اور علماء وطلباء میں حافظ عبدالسلام بھٹوی ﷾ کی اس قابل قدر کاوش کو بہت پذیرائی ملی ہے۔ بالخصوص علمی حلقوں میں بھی اسے بہت سراہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کی علمی،تدریسی وتصنیفی خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین (م۔ا)
اللہ تعالیٰ کا ذکر اطمینانِ قلب اور راحت جاں کا سبب ہے ۔نبی کریم ﷺ نے بار بار اپنے ارشادات سے ذکر اللہ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ذکر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معانی یاد کرنا ،یاد تازہ کرنا ،کسی شئے کو بار بار ذہن میں لانا ،کسی چیز کو دہرانا اور دل و زبان سے یاد کرنا ہیں۔ذکر الہٰی یادِ الہٰی سے عبارت ہے ذکر الہٰی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اور ہر حالت میں۔ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے اپنے معبود حقیقی کو یاد رکھے اور اس کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو۔ ذکر الہٰی ہر عبادت کی اصل ہے تمام جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد عبادت الہٰی ہے اور تمام عبادات کا مقصودِ اصلی یادِ الہٰی ہے ۔کوئی عبادت اور کوئی نیکی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد سے خالی نہیں۔ سب سے پہلی فرض عبادت نماز کا بھی یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو دوام حاصل ہو اور وہ ہمہ وقت جاری رہے ۔نفسانی خواہشات کو مقررہ وقت کے لئے روکے رکھنے کا نام روزہ ہے۔ جس کا مقصد دل کو ذکر الہٰی کی طرف راغب کرنا ہے ۔روزہ نفس انسانی میں پاکیزگی پیدا کرتا ہے اور دل کی زمین کو ہموار کرتا ہے تاکہ اس میں یاد الہٰی کا ہی ظہور ہو ۔قرآن حکیم پڑھنا افضل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور سارے کا سارا اسی کے ذکر سے بھرا ہوا ہے، اس کی تلاوت اللہ تعالیٰ کے ذکر کو تر و تازہ رکھتی ہے۔ معلوم ہوا کہ تمام عبادات کی اصل ذکرِ الہٰی ہے اور ہر عبادت کسی نہ کسی صورت میں یادِ الہٰی کا ذریعہ ہے ۔مردِ مومن کی یہ پہچان ہے کہ وہ جب بھی کوئی نیک عمل کرے تو اس کا مطمعِ نظر اور نصب العین فقط رضائے الہٰی کا حصول ہو ۔یوں ذکرِ الہٰی رضائے الہٰی کا زینہ قرار پاتا ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر قرآن و سنت میں جابجا ذکر الہٰی کی تاکید کی گئی ہے۔ کثرت ذکر محبت الہٰی کا اولین تقاضا ہے :انسانی فطرت ہے کہ وہ اس چیز کو ہمیشہ یاد کرتا ہے جس کے ساتھ اس کا لگاؤ کی حدتک گہرا تعلق ہو ۔وہ کسی صورت میں بھی اسے بھلانے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ذکر اللہ قرآن وحدیث کی روشنی میں‘‘ مولانا عبد الرحمن عاجزم مالیر کوٹلوی کی تصنیف ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں فضائل ِ ذکر اور کلماتِ ذکر اور اقسام ذکر بیان کرنے کی کوشش ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے عامۃ الناس کےلیے نفع بخش بنائے۔ آمین(م۔ا)
ہرمسلمان کے لیے اپنے دنیوی واخروی تمام معاملات میں شرعی احکام اور دینی تعلیمات کی پابندی از بس ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :َیا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ(سورۃ البقرۃ:208)’’اے اہل ایمان اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو ،یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ‘‘۔کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ عبادات میں تو کتاب وسنت پر عمل پیرا ہو او رمعاملات او رمعاشرتی مسائل میں اپنی من مانی کرے او راپنے آپ کوشرعی پابندیوں سے آزاد تصور کرے۔ ہمارے دین کی وسعت وجامعیت ہےکہ اس میں ہر طرح کے تعبدی امور اور کاروباری معاملات ومسائل کا مکمل بیان موجود ہے۔ ان میں معاشی زندگی کے مسائل او ران کے حل کو خصوصی اہمیت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے ہر مسلمان بہ آسانی انہیں سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہوسکتاہے۔ تجارت، لین ،دین اورباہمی معاہدہ کی مختلف دور میں مختلف صورتیں رائج رہی ہیں ، بہت سے عقود اورمعاملات بنیادی طور پر قدیم زمانہ میں بھی رائج تھے او رعہد جدید میں ان کی ترقی یافتہ صورتیں رائج ہوگئیں ہیں۔ تجارتی مسائل میں ایک اہم مسئلہ یہ ہےکہ کیا خریدی ہوئی چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کو فروخت کیا جاسکتاہے یا نہیں اوراس کا منافع حاصل کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟ آج قبضہ کےعنوان سے بہت سارے مسائل پیدا ہورہے ہیں لہذا ان مسائل کے پیش نظر ’’مجمع الفقہ الاسلامی الہند ‘‘ نے ’’بیع قبل القبض ‘‘کےعنوان پر 14 ؍اکتوبر 1996ء جے پور(انڈیا) نواں فقہی سیمنار میں منعقد کروایا۔ زیر نظر کتاب’’ جدید تجارتی شکلیں شرعی نقطۂ نظر ‘‘مذکورہ سیمینار میں علماء اور ارباب افتاء کی طرف سے پیش گیے علمی مقالات کا مجموعہ ہے۔ مقالہ نگاروں نے قرآن وحدیث کی عبارات واشارات اور مذاہب اربعہ کے اجتہادات کو سامنے رکھ کر اپنا نقظہ نظر پیش کیا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اردو زبان میں اپنے موضوع پر منفرد کتاب ہے۔ موضوع کی اہمیت وضرورت اور افادیت کے پیش نظر اسلامک فقہ اکیڈمی نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ (م۔ا)
دور جدید کا انسان جن سیاسی ،معاشرتی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے اس پر زمانے کا ہر نقش فریادی ہے۔آج انسان اس رہنمائی کا شدید حاجت مند ہے کہ اسے بتلایا جائے ۔اسلام زندگی کے ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا وہ نقطہ اعتدال کیا ہے؟جس کی بناء پر وہ سیاسی ،معاشی اور معاشرتی دائرے میں استحکام اور سکون واطمینان سے انسان کو بہرہ ور کرتا ہے ۔اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام اپنی مصنوعی اور غیر فطری بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ایک مغرب کا سرمایہ داری نظام ہے ،جس پر آج کل انحطاط واضطراب کا رعشہ طاری ہے۔دوسرا مشرق کا اشتراکی نظام ہے، جو تمام کی مشترکہ ملکیت کا علمبردار ہے۔ایک مادہ پرستی میں جنون کی حد تک تمام انسانی اور اخلاقی قدروں کو پھلانگ چکا ہے تو دوسرا معاشرہ پرستی اور اجتماعی ملکیت کا دلدادہ ہے۔لیکن رحم دلی،انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی روح ان دونوں میں ہی مفقود ہے۔دونوں کا ہدف دنیوی مفاد اور مادی ترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس کے برعکس اسلام ایک متوسط اور منصفانہ معاشی نظریہ پیش کرتا ہے،وہ سب سے پہلے دلوں میں خدا پرستی،انسان دوستی اور رحم دلی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "معاشی مسائل اور قرآنی تعلیمات"انڈیا کے معروف عالم دین محترم اوصاف احمد صاحب اور محترم عبد العظیم اصلاحی صاحب کی مرتب کردہ تصنیف ہے،جس میں انہوں نے ادارہ علوم القرآن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے سیمینار بعنوان"معاشی مسائل اور قرآنی تعلیمات" میں مختلف اہل علم کی طرف سے پیش کئے جانے والے مقالات کو کتابی شکل میں شائع کر دیا ہے۔یہ کتاب اپنے موضوع ایک انتہائی مفید اور شاندار کتاب ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مقالات نگار اور مرتبین وناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
خاندان اسلامی معاشرے کی ایک بنیادی اکائی شمار ہوتا ہے۔ اگر خاندان کا ادارہ مضبوط ہو گا تو اس پر قائم اسلامی معاشرہ بھی قوی اورمستحکم ہو گا اور اگر خاندان کا ادارہ ہی کمزور ہو تو اس پر قائم معاشرہ بھی کمزور ہو گا۔نکاح وطلاق خاندان کے قیام و انتشار کے دو پہلو ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں نکاح وطلاق کے مسائل کو تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔ پاکستان میں فقہ حنفی اور اہل الحدیث کے نام سے دو مکاتب فکر پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ فقہ حنفی میں نکاح وطلاق کے اکثر مسائل شریعتِ اسلامیہ کی صریح نصوص کے خلاف تو ہیں ہی، علاوہ ازیں عقل ومنطق سے بھی بالاتر ہیں جیسا کہ بغیر ولی کے نکاح کو جائز قرار دینا، پہلے سے طے شدہ حلالہ کو جائز قرار دینا، مفقود الخبر کی بیوی کا تقریبا ایک صدی تک اپنے شوہر کا انتظار کرنا، عورت کا خاوند کے طلاق دیے بغیر خلع حاصل نہ کر سکنا اورایک مجلس کی تین طلاقوں کوتین شمار کرنا وغیرہ۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کا مسئلہ ایک معرکۃ الآراء مسئلہ ہے۔احناف کے نزدیک مجلس واحد میں تين مرتبہ کہا گیا لفظ طلاق موثر سمجھا جاتا ہے جس کے بعد زوجین کے درمیان مستقل علیحدگی کرا دی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد ان کو اکٹھا ہونے کے لیے ایک حل دیا جاتا ہے جس کا نام حلالہ ہے۔ ایک شرعی چیز کو غیر شرعی چیز کے ذریعے حلال کرنے کا ایک غیر شرعی اور ناجائز طریقہ ہے جس کو اب احناف بھی تسلیم کرنے سے عاری ہیں اور ایسے مسائل کے لیے پھر ایسے لوگوں کی طرف رجو ع کیا جاتا ہے جو اس غیر شرعی امر کو حرام سمجھتے ہیں۔اب تو اسلامی نظریاتی کونسل ، اور دعوہ اکیڈمی اسلام آباد نےبھی ایک مجلس میں تین طلاقوں کو ایک طلاق قراردینے کا فتویٰ صادر کیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ البیان المحکم بجواب ایک مجلس کی تین طلاق کی شرعی حیثیت‘‘ مولانا ابو معاویہ حافظ عبد الغفور کی کاوش ہے جو دراصل ایک حنفی عالم دین کی کتاب ’’ایک مجلس کی تین طلاق کا شرعی حکم کے جواب میں تحریر کی گئی ہے۔کتاب کا انداز عام فہم اور محققانہ ہے۔ طوالت وتفصیل کی بجائے اختصار وجامعیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے زیر بحث مسئلے پر اساسی دلائل پیش کیے ہیں۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاو ش کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
وقف اسلامی قانون کا ایک اہم جز اور مسلمانوں کی ملی زندگی کا ایک روشن رخ ہے۔مسلمانوں نے ہر دور میں اس کارِخیراورفلاحی پروگرام کورواج دیا ہے۔ وقف کی تعریف یہ ہے کہ ملکیت باقی رکھتے ہوئے جائداد کا نفع سب کے لیے یا کسی خاص طبقے کیلئے خاص کردیاجائے۔نہ اس کو بیچا جاسکتاہے اور نہ منتقل کیاجاسکتا ہے۔اسلام میں سب سے پہلا وقف پیغمبرحضرت محمدﷺنے کیا ۔آپ ﷺنے سات باغوں کووقف کیا جو اسلام میں پہلاوقف خیری تھا۔ دوسرا وقف اسلام میں خلیفہ دوم سید نا عمر فاروق نے کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے زمانہ ہی میں صحابہ کرام نے کئی وقف کیے۔جب پیغمبراسلام کے سامنے کوئی شوسل مسئلہ آتاتوآپﷺ صحابہ کرام کو ترغیب دیتے،صحابہ کرام فوراََ وہ چیز دے دیتے ۔اسلام کے مالیاتی نظام میں وقف کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اسلامی تاریخ کے ہردور میں غریبوں اورمسکینوں کی ضروریات کو پوراکرنے ،انہیں معاشی طورپر خود کفیل بنانے ،مسلمانوں کو علوم و فنون سے آراستہ کرنے ،مریضوں پریشان حالوں کی حاجت روائی کرنے اور اصحاب علم و فضل کی معاشی کفالت میں اسلامی وقف کا بہت اہم رول رہا ہے۔ کتب ِ فقہ میں اسکے تفصیلی احکامات موجود ہیں ۔ فقہ کی اکثر کتب چونکہ عربی زبان میں ہیں ۔اردو دان طبقہ جس سے مستفید نہیں ہوسکتا تھا ۔ جناب ڈاکٹر محمود الحسن عارف صاحب نے فقہ کی امہات الکتب سے استفادہ کر کے اردو دان حضرات کے لیے زیر تبصرہ کتاب ’’اسلام کا قانون وقف مع تاریخ مسلم اوقاف ‘‘ تیار کی ۔اس کتاب میں انہوں نے اسلام کے قانون وقف کاتعارف کروانے کی کوشش کی ہے ۔اس میں ’’وقف‘‘کے لغوی واصطلاحی پس منظر کے ساتھ اس کے قوانین پر بھی تفصیلاً بحث کرنے کے علاوہ عہد نبوی سے قیام پاکستان تک مسلم اوقاف کے مختلف ادوار کی تاریخ بھی پیش کردی ہے ۔اردو زبان میں اپنے موضوع پر یہ ایک تحقیقی نوعیت کی ایک اہم کتاب ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
دعاء کا مؤمن کاہتھیار ہے جس طرح ایک مجاہد اپنے ہتھیار کواستعمال کرکے دشمن سےاپنادفاع کرتا ہے اسی طرح مؤمن کوجب کسی پریشانی مصیبت اور آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تووہ فوراً اللہ کےحضو ر دعا گو ہوتا ہے دعا ہماری پریشانیوں کے ازالے کےلیے مؤثر ترین ہتھیارہے انسان اس دنیا کی زندگی میں جہاں ان گنت ولاتعداد نعمتوں سےفائدہ اٹھاتا ہے وہاں اپنی بے اعتدالیوں کی وجہ سے بیمار وسقیم ہو جاتاہے اس دنیاکی زندگی میں ہر آدمی کے مشاہدے میں ہےکہ بعض انسان فالج ،کینسر،یرقان،بخاروغیرہ اوراسی طرح کئی اقسام کی بیماریوں میں مبتلاہیں ان تمام بیماریوں سےنجات وشفا دینےوالا اللہ تعالی ہے ان بیماریوں کے لیے جہاں دواؤں سے کام لیا جاتا ہے دعائیں بھی بڑی مؤثر ہیں۔ حدیث نبوی کےمطابق دعا کرنے سے بری تقدیر ٹل جاتی ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ اس کے مبارک اور قبولیت کےاوقات بھی شمار فرمائے ہیں۔مثلاً رات کےپچھلے پہر میں ، اذان اور اقامت کے دوران ، میں ، نماز میں سجدے میں ،نمازوں کے بعد ، جمعہ کے دن کی خاص گھڑی میں ، یوم عرفہ میں ، لیلۃ القدر میں ، بارش برستے وقت میں وغیرہ۔ نیز آپ ﷺ نے چند ایسے حالات بھی ذکر کیے جن میں دعا کبھی بھی رد ّ نہیں کی جاتی ۔ مثلاً مظلوم ، مسافر ، باپ کی بیٹے کے حق میں ، حج وعمرہ کرنے والے کی ، غازی فی سبیل اللہ کی بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لیے ، عادل حکمران کی وغیرہ ۔بہت سارے اہل علم نے قرآن وحدیث سے مسنون ادعیہ پر مشتمل بڑی وچھوٹی کئی کتب تالیف کی ہیں تاکہ قارئین ان سے اٹھاتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے تعلق مضبوط کرسکیں۔زیر نظر رسالہ ’’ دکھوں کا علاج‘‘ مولانامحمد عظیم حاصل پوری ﷾ کی کاوش ہے ۔انہوں نے اس میں ایسی دعائیں جمع کی ہیں جو انسان کی جسمانی وروحانی بیماریوں اور دکھوں کا بہترین علاج ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو ذریعہ نجات بنائے (آمین) (م۔ا)
دور جدید کا انسان جن سیاسی ،معاشرتی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے اس پر زمانے کا ہر نقش فریادی ہے۔آج انسان اس رہنمائی کا شدید حاجت مند ہے کہ اسے بتلایا جائے ۔اسلام زندگی کے ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا وہ نقطہ اعتدال کیا ہے؟جس کی بناء پر وہ سیاسی ،معاشی اور معاشرتی دائرے میں استحکام اور سکون واطمینان سے انسان کو بہرہ ور کرتا ہے ۔اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام اپنی مصنوعی اور غیر فطری بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ایک مغرب کا سرمایہ داری نظام ہے ،جس پر آج کل انحطاط واضطراب کا رعشہ طاری ہے۔دوسرا مشرق کا اشتراکی نظام ہے، جو تمام کی مشترکہ ملکیت کا علمبردار ہے۔ایک مادہ پرستی میں جنون کی حد تک تمام انسانی اور اخلاقی قدروں کو پھلانگ چکا ہے تو دوسرا معاشرہ پرستی اور اجتماعی ملکیت کا دلدادہ ہے۔لیکن رحم دلی،انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی روح ان دونوں میں ہی مفقود ہے۔دونوں کا ہدف دنیوی مفاد اور مادی ترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس کے برعکس اسلام ایک متوسط اور منصفانہ معاشی نظریہ پیش کرتا ہے،وہ سب سے پہلے دلوں میں خدا پرستی،انسان دوستی اور رحم دلی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔عصر حاضر میں متعدد ایسے اقتصادی مسائل پیدا ہو چکے ہیں جن کے بارے میں شرعی راہنمائی کی اشد ضرورت تھی۔ زیر تبصرہ کتاب " جدید اقتصادی مسائل ، شریعت کی نظر میں"عالم اسلام کے جید علماء اور ماہرین معاشیات کی تحقیقات کا ماحصل ہے جو البرکہ انٹر نیشنل کے زیر اہتمام عالمی سیمینارز میں پیش کیا گیا۔یہ کتاب اپنے موضوع ایک انتہائی مفید اور شاندار کتاب ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مقالات نگار اور مرتبین وناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو اایک خاص مقام حاصل ہے ۔او رتمام شرائع ومذاہب میں بھی دعا کا تصور موجود رہا ہے مگر موجود ہ شریعت میں اسے مستقل عبادت کادرجہ حاصل ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے کہ جو تقدیر کو بدل سکتی ہے ۔دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالق اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اسے تب ہی فائدہ دیتی ہے جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کوبھی ملحوظ رکھے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ پیارے رسول کی پیاری دعائیں ‘‘ برصغیر پاک وہند کے ممتاز جید عالم دین شارح نسائی مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی مرتب شدہ نماز مسنون اور رسول اللہ ﷺ کی مبارک دعاؤں کا مختصر مجموعہ ہے ۔مولانا موصوف نے اس مجموعہ کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ اس میں تقریباً ہر نوع کی ادعیہ مسنونہ آگئی ہیں۔یہ کتاب اپنی افادیت کے باعث عوام الناس میں انتہائی مقبول ہوئی ۔ چند سالوں میں اس کی اشاعت ہزاروں تک پہنچ گئی ۔ کئی کاروباری ادارے اسے ایصال ِثواب کی خاطر فری بھی تقسیم کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی تدریسی ودعوتی ، تصنیفی وتحقیقی اور صحافتی خدمات کو قبول فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)
شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو اایک خاص مقام حاصل ہے او رتمام شرائع ومذاہب میں بھی دعا کا تصور موجود رہا ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے کہ جو تقدیر کو بدل سکتی ہے ۔دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالق اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اسے تب ہی فائدہ دیتی ہے جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کوبھی ملحوظ رکھے۔دعاؤں کے حوالے سے بہت سی کتابیں موجود ہیں جن میں علماء کرام نے مختلف انداز میں میں دعاؤں کو جمع کیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ماثور دعائیں‘‘ کتاب وسنت سے ثابت شدہ ماثور دعاؤں کا ایک مجموعہ ہے جسے مولانا وصی اللہ مدنی ﷾ نے طلبہ وطالبات اور عامۃ المسلمین کےلیے فقہی ترتیب سے مرتب کیا ہے ۔اس کتاب میں ساری دعائیں مستند حوالوں اورترجمہ کےساتھ درج ہیں اور ساتھ ہی حاشیہ میں بعض مقامات پر ضروری افادات بھی اہل علم کے لیے تحریر کیے گئے ہیں نیز بعض غیر ثابت مروج دعاؤں پر مختصر علمی تنقید بھی ہے جن سے مجموعہ کی علمی حیثیت میں اضافہ ہوگیاہے ۔اس مجموعہ ادعیہ کی ایک انفرادی خوبی یہ ہے کہ اسے مرتب نے سوال وجواب کی صورت میں مرتب کیا ہے ۔جس سے طلبہ وطالبات اور عامۃ المسلمین کے لیے استفادہ کرنا انتہائی آسان ہے۔اللہ تعالیٰ مرتب کی اس کوشش کوشرف قبولیت سے نوازے (آمین) (م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے او رعبادات کی مختلف اقسام ہیں ۔مثلاً قولی،فعلی ، مالی اور مالی عبادات میں ایک عبادت قربانی بھی ہے۔قربانی وہ جانور ہے جو اللہ کی راہ میں قربان کیا جائے اور یہ وہ عمل ذبیحی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کیا جاتا ہے ۔تخلیق انسانیت کے آغازہی سے قربانی کا جذبہ کار فرما ہے۔ قرآن مجید میں حضرت آدم کے دو بیٹوں کی قربانی کا واقعہ موجود ہے۔اور قربانی جد الانبیاء سیدنا حضرت ابراہیم کی عظیم ترین سنت ہے۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کواتنا پسند آیا کہ اس عمل کوقیامت تک کےلیے مسلمانوں کے لیے عظیم سنت قرار دیا گیا۔ قرآن مجید نے بھی حضر ت ابراہیم کی قربانی کے واقعہ کوتفصیل سے بیان کیا ہے۔ پھر اہلِ اسلام کواس اہم عمل کی خاصی تاکید ہے اور نبی کریم ﷺ نے زندگی بھر قربانی کے اہم فریضہ کو ادا کیا اور قرآن احادیث میں اس کے واضح احکام ومسائل اور تعلیمات موجو د ہیں ۔کتب احادیث وفقہ میں کتاب الاضاحی کے نام سے ائمہ محدثین فقہاء نے باقاعدہ ابواب بندی قائم کی ہے ۔ اور بعض اہل علم نے قربانی کےاحکام ومسائل اور فضائل کے سلسلے میں کتابیں تالیف کی ہیں۔ زیر نظر رسالہ ’’فلسفہ عید قربان‘‘ محترم پروفیسر حافظ محمد فاروق صاحب کی کاوش ہے ۔ اس کتاب میں انہو ں نے قرآن وحدیث کےآئینے میں قربانی کا لغوی واصطلاحی مفہوم، قربانی کاتاریخی پسِ منظر ، قربانی کی ابتداء، منکرین قربانی کےاعتراضات کاجواب، امتحاناتِ خلیل ،اسماعیل کے آداب ِ فرزندی اور عشرہ ذوالحجہ کے فضائل کے علاوہ قربانی وعید کے بارے میں پیش آنے والے تمام مسائل اور متعلقات کو مدلل انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور عوام الناس کےلیے اسے نفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
شریعتِ اسلامیہ میں نماز بہت بڑا اور اہم رکن ہے اور اس پر مواظبت لازم قرار دی گئی ہے بلکہ کفر وایمان کے درمیان نماز ایک امتیاز ہے۔عقیدہ توحید کے بعد کسی بھی عمل کی قبولیت کےلیے دو چیزوں کاہونا ضروری ہے۔ نیت اور طریقۂ رسول ﷺ ۔لہٰذا نماز کے بارے میں آپ کاﷺ واضح فرمان ہے ’’ نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘ (بخاری) رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑا ہوتے وقت ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا (یعنی رفع الیدین کرنا) نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس سنت پر عمل کیا ہے۔نماز میں رفع الیدین رسول اللہ ﷺ سے متواتر ثابت ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں کہ رفع الیدین کی حدیث کو صحابہ کرام کی اس قدر کثیر تعداد نے روایت کیا ہے کہ شاید اور کسی حدیث کواس سے زیادہ صحابہ نے روایت نہ کیا ہو۔ او رامام بخاری نے جزء رفع الیدین میں لکھا ہے ہے کہ رفع الیدین کی حدیث کوانیس صحابہ نے روایت کیا ہے ۔ لیکن صد افسوس اس مسئلہ کو مختلف فیہ بنا کر دیگر مسائل کی طرح تقلید اور مسلکی تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔اثبا ت رفع الیدین پر امام بخاری کی جزء رفع الیدین ،حافظ زبیر علی زئی کی نور العینین فی مسئلۃ رفع الیدین وغیرہ کتب قابل ذکر ہیں۔اثبات رفع الیدین پر کتا ب ہذا کے علاوہ تقریبا 10 کتابیں کتاب وسنت ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔زیر تبصرہ کتابچہ’’حقانیت رفع الیدین‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ یہ کتابچہ محمد اسلم ربانی (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ،لاہور) کی کاوش ہے انہوں نےاس مختصر رسالہ میں اثبات رفع الیدین کے متعلق اکثر حوالہ جات حنفیوں کی کتابوں سے پیش کیے ہیں۔اللہ تعالیٰ موصوف کی اس کاوش کوقبول فرمائے اوراسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے مختلف شعبوں میں جو بگاڑ پیدا کیا ہے اس کا سب سے بڑا سبب سود ہے ۔ ہماری معاشی زندگی میں سود کچھ اس طرح رچا بسا دیاگیا ہے کہ لوگ اس کو معاشی نظام کا ایک لازمی عنصر سجھنے لگے ہیں اور اس کےبغیر کسی معاشی سرگرمی کو ناممکن سمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ اب وہ امت مسلمہ جس کو اللہ تعالیٰ نےاپنی کتاب میں سود مٹانے کے لیے مامور کیا تھا جس کو سودخواروں اعلان جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب اپنی ہر معاشی اسکیم میں سود کوبنیاد بناکر سودخوری کےبڑے بڑے ادارے قائم کررکھے ہیں اور سودی نظام کو استحکام بخشا جار ہا ہے ۔جس کے نتیجے میں امت مسلمہ کو معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑھ رہا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سود‘‘ سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نےسود کے ہر پہلو پر تفصیل کے ساتھ ایسی مدلل بحث کی ہے کہ کسی معقول آدمی کواس کی حرمت وشناعت میں شبہ باقی نہ رہے ۔ اس کتاب میں سودپر نہ صرف اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی گئ ہے بلکہ معاشی نقطۂ نظر سےبھی یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ سود ہر پہلو سے انسانی معاشرہ کے لیے مضرت رساں او رتباہ کن ہے۔یہ کتاب معاشیات سےدل چسپی رکھنے والے حضرات عموماً کالجوں ،یونیورسٹیوں میں معاشیات کےطلباء اور کاروباری حضرات کےلیے انتہائی مفید ہے۔اللہ تعالیٰ مولانا مودودی کی تمام دینی خدمات کو قبول فرمائے (آمین)
سود کو عربی زبان میں ”ربا“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دینِ اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ شریعت ِاسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں۔" جولوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو ۔اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک جائے تو پہلے جو سود کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ دوزخی ہیں ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’سود کےخلاف وفاقی شرعی عدالت کافیصلہ‘‘ وفاقی شرعی عدالت پاکستان کےچیف جسٹس جناب ڈاکٹر تنزیل الرحمن کا سود کے خلاف وہ تاریخی فیصلہ جوانہوں نے 14 نومبر 1991ء میں صادر کیا ۔ یہ فیصلہ انگریزی زبان میں تھا۔ تو صدیقی ٹرسٹ کراچی نے اسے اردو زبان میں منتقل کروا کر اردو داں طبقہ کے لیے کتابی صورت میں شائع کیا ۔ تاکہ پاکستان کی عظیم اکثریت جو اردودان ہے وہ اس سےمستفید ہوسکے ۔ اللہ تعالیٰ اس کومرتب کرنے والے احباب اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہماری معیشت کو سود جیسی لعنت سے محفوظ فرمائے۔ آمین(م۔ا)
دعاء کا مؤمن کاہتھیار ہے جس طرح ایک مجاہد اپنے ہتھیار کواستعمال کرکے دشمن سےاپنادفاع کرتا ہے اسی طرح مؤمن کوجب کسی پریشانی مصیبت اور آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تووہ فوراً اللہ کےحضو ر دعا گو ہوتا ہے دعا ہماری پریشانیوں کے ازالے کےلیے مؤثر ترین ہتھیارہے انسان اس دنیا کی زندگی میں جہاں ان گنت ولاتعداد نعمتوں سےفائدہ اٹھاتا ہے وہاں اپنی بے اعتدالیوں کی وجہ سے بیمار وسقیم ہو جاتاہے اس دنیاکی زندگی میں ہر آدمی کے مشاہد ےمیں ہےکہ بعض انسان فالج ،کینسر،یرقان،بخاروغیرہ اوراسی طرح کئی اقسام کی بیماریوں میں مبتلاہیں ان تمام بیماریوں سےنجات وشفا دینےوالا اللہ تعالیٰ ہے ان بیماریوں کے لیے جہاں دواؤں سے کام لیا جاتا ہے دعائیں بھی بڑی مؤثر ہیں۔بہت سارے اہل علم نے قرآن وحدیث سے مسنون ادعیہ پر مشتمل بڑی وچھوٹی کئی کتب تالیف کی ہیں تاکہ قارئین ان سے اٹھاتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے تعلق مضبوط کرسکیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’ ریاض الحسنات ‘‘نامور اہل حدیث عالم دین مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی مرتب شدہ ہے اس میں انہوں نے پنجسورہ، واسماء حسنی ، اسم ااعظم اور بعض اذکار مسنونہ کو جمع کردیا ہے۔اگرچہ اب جدید اور نئی تحقیق شدہ اور خوب صورت بے شمار کتب اس موضوع پر موجود ہیں اور کافی ساری کتب ویب سائٹ پر بھی موجود بھی ہیں لیکن ان کبار علماء کی قدیم کتب کو محفوظ کرنے کی خاطر انہیں بھی ویب سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمار ے علماء اسلاف کی تمام دینی کاوش کو قبول فرمائے ۔ آمین( م۔ا)
خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے ۔ سیدنا عثمان ذوالنورین کی نانی نبی ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ ۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ سیدناعثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہرنبی کا ساتھی و رفیق ہوتاہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم نے کچھ عرصہ بعد اپنی بیٹی سیدہ رقیہ رضى الله عنها کا نکاح آپ سے کردیا۔ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کی اجازت اور حکم الٰہی کے مطابق ہجرت حبشہ کی تو سیدنا عثمان بھی مع اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضى الله عنها حبشہ ہجرت فرماگئے، جب حضرت رقیہ رضى الله عنها کا انتقال ہوا تو نبی ﷺ نے دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضى الله عنها کوآپ کی زوجیت میں دے دی۔ اس طرح آپ کا لقب ” ذوالنورین“ معروف ہوا۔مدینہ منورہ میں پانی کی قلت تھی جس پر سیدنا عثمان نے نبی پاک ا کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے ليے وقف فرمایا ۔اور اسی طرح غزوئہ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺنے مالی اعانت کی اپیل فرمائی تو سیدنا عثمان غنی نے تیس ہزار فوج کے ایک تہائی اخراجات کی ذمہ داری لے لی ۔جب رسول اکرم ﷺنے زیارت خانہ کعبہ کا ارادہ فرمایا تو حدیبیہ کے مقام پر یہ علم ہواکہ قریش مکہ آمادہ جنگ ہیں ۔ اس پر آپ ﷺنے سیدنا عثمان غنی کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ قریش مکہ نےآپ کو روکے رکھا تو افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمان کو شہید کردیا گیا ہے ۔ اس موقع پر چودہ سو صحابہ سے نبی ﷺنے بیعت لی کہ سیدنا عثمان غنی کا قصاص لیا جائے گا ۔ یہ بیعت تاریخ اسلام میں ” بیعت رضوان “ کے نام سے معروف ہے ۔ قریش مکہ کو جب صحیح صورت حال کا علم ہوا تو آمادۂ صلح ہوگئے اور سیدنا عثمان غنی واپس آگئے۔خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی مجلس مشاورت کے آپ اہم رکن تھے ۔ امیر المومنین سیدنا عمر کی خلافت کا وصیت نامہ آپ نے ہی تحریر فرمایا ۔ دینی معاملات پر آپ کی رہنمائی کو پوری اہمیت دی جاتی ۔ سیدنا عثمان غنی صرف کاتب وحی ہی نہیں تھے بلکہ قرآن مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا۔ آیات قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے ۔ بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ نرم خو تھے اور فکر آخرت ہر دم پیش نظر رکھتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے عثمان کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں ، تبلیغ و اشاعت اسلام کے ليے فراخ دلی سے دولت صرف فرماتے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اے عثمان اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے ، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں ۔ 35ھ میں ذی قعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اوراستقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کردیاگیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے82سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو جمعة المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوے شہید کردیا گیا۔سیدنا عمر فاروق کے بعد امت کی زمامِ اقتدار سنبھالی اور خلیفۂ ثالث مقرر ہوئے ۔ ان کا دورِ حکومت تاریخ اسلام کا ایک تابناک اور روشن باب ہے ۔ ان کے عہد زریں میں عظیم الشان فتوحات کی بدولت اسلامی سلطنت کی حدود اطراف ِ عالم تک پھیل گئیں اور انہوں نے اس دور کی بڑی بڑی حکومتیں روم ، فارس ، مصر کےبیشتر علاقوں میں پرچم اسلام بلند کرتے ہوئے عہد فاروقی کی عظمت وہیبت اور رعب ودبدبے کو برقرار رکھا اور باطل نظاموں کو ختم کر کے ایک مضبوط مستحکم اورعظیم الشان اسلامی مملکت کواستوار کیا ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سیرت عثمان غنی ‘‘ تفسیر دعوۃ القرآن کے مصنف مولانا سیف اللہ خالد ﷾ کی تصنیف ہے جو کہ سیدنا عثمان کےحالات زندگی ، طرز ِ حکومت اور کارناموں پر مشتمل ہے مصنف موصوف نے قرآن وحدیث اورمستند روایات کی روشنی میں عہد عثمان میں رونما ہونے والے واقعات کا تذکرہ کیا ہے اوران تاریخی حقائق کا ذکر کرتے ہوئے ثقاہت وصداقت کو ملحوظ خاطر رکھا ہے ۔ موضوع اور ضعیف روایات سے مکمل اجنتاب کیا ہے۔ موجودہ فتنوں کےدور میں کتاب وسنت پر مبنی صحیح موقف اور منہج سلف اور خلیفۂ ثالث کی شخصیت او ران کے دورِ حکومت کی حقیقی اور سچی تصویر پیش کی ہے ۔ تاکہ قارئین کے سامنے مستند اور قابل اعتماد تاریخی حقائق آنے کے بعد ان کےطرزِ حکمرانی پراٹھائے جانے والے اعتراضات واشکالات کا ازالہ ہوسکے۔کتاب ہذا کتب ِ سیرو وتواریخ میں ایک منفرد اور شاندار اضافہ ہےجسے دار الاندلس نے انتہائی خوبصورتی کےساتھ شائع کیا ہے ۔مصنف موصوف اس سے پہلے سیرت ابو بکر صدیق اور سیرت عمرفاروق قارئین کی نذر کر چکے ہیں ۔ ان کی قابل قدر تصنیفات اہل علم اور عام قارئین میں دادِ تحسین حاصل کرچکی ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے اور ان کی دینی خدمات کو قبول فرمائے ۔ اور اس کتاب کوقارئین کےلیے خلیفۂ راشد سیدنا عثمان کی سیرت وکردار کواپنانے کا ذریعہ بنائے ( آمین) (م۔ا)
دینِ اسلام کا دوسرا بڑا ماخذ حدیث رسول ﷺ ہے جو بذریعہ وحی آپﷺ کو عطا کیاگیا ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لیے وہی بڑے اسباب وذرائع پیدا فرمائے جوقرآن حکیم کے لیے پیدا کیے ۔ یعنی حفظ وکتابت۔ نبی کریم ﷺ سے دین اسلام کاسماع کرنے اور لکھنے والے صحابہ کرام نے دونوں طریقوں سے اس کو ضبط کیا اپنے سینوں میں بھی اور دفاتر میں بھی۔اور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو اپنی احادیث کو حفظ کرنے اور لکھنے کا حکم بھی دیا۔اور پھر صحابہ کرام کےبعد بھی احادیث کو زبانی یاد کرنے اور لکھنے کا عمل جاری رہا ۔اور اسی طرح صحابہ کرام سےلے کر تدوین حدیث کے دور تک بلکہ اس کے بعد اس کی اشاعت اورترویج کےلیے آج تک جتنے علماء محدثین پیدا ہوئے ان میں ہرایک کی زندگیوں کوبھی ضبط کیا کہ فلاں محدث کب اور کہاں پیدا ہوا۔ کتنی عمر میں قرآن مجید اورحدیث کےحفظ کرنے اور لکھنے کی طرف متوجہ ہوا ۔ حصول علم کےلیے کن کن بلادِ اسلامیہ کےسفر کیے اور کن کن استاتذہ کرام سے ملا اور کتنا عرصہ ان کے ہاں مقیم رہا ۔ اس کا قوت حافظہ کس قدر تھا .... یعنی جر ح و تعدیل کے تمام اوصاف وغیرہ ۔الغرض ایک ایک راوی حدیث کےحالات ضبط کیے گئے جس علم الرجال کانام دیا گیا اور یہ صرف امت محمدیہ کی خصوصیت ہے۔ اس امت سے پہلے کسی بھی نبی کی امت نےیہ کام سرانجام نہیں دیا ۔ ہر بات کی سند ضبط کی اور ہرر راوی کے حالات قلمبند کیے اور اس میں کمال دیانت داری کا مظاہر ہ کیا ۔بڑے بڑ ے ائمہ محدثین نے اس میں کارہائے نمایاں سر اانجام دیے اور بڑی بڑی ضخیم کتب اس فن میں مرتب کیں۔ان ہی آئمہ کےنقش قدم پر چلتے ہوئے برصغیر پاک وہند کے ایک معروف عالم دین ضیاء الدین اصلاحی نے زیر تبصرہ کتاب ’’تذکرۃ المحدثین‘‘ مرتب کی ہے۔جس میں اس پاک باز گروہ کی مثالی سیرت وکردار اور عظیم کارناموں پر مشتمل ایک علمی دستاویز تیارکر کے امت پراحسان کیا ہے ۔یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے ۔ پہلی جلد میں امام مالک سے امام طحاوی تک یعنی دوسری صدی ہجری سے لے کر چوتھی صدی کےشروع تک کے محدثین اور ان کی تصانیف کےحالات ہیں ۔ دوسری جلد اس کے بعد کے محدثین کے حالات پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب متلاشیان علم حدیث کےلیےگراں قدر تحفہ ہے جسے ہر طالب ِعلمِ حدیث او رمکتبہ ولائبریری کی زنیت ہونا چاہیے۔اللہ تعالیٰ اس کے مؤلف ،ناشر کوجزائےخیر عطا فرمائے اور ان کےلیے نجات کا وسیلہ وذریعہ بنائے۔(آمین) (م۔ا)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے، جو پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت اخلاق ہے، ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے، چنانچہ آپﷺ کی راز دار زندگی اور آپﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ عنہا فرماتی ہیں، ”آپﷺ کے اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہے“۔ آپﷺ نے اپنے ہر قول وفعل سے ثابت کیا کہ آپﷺ دنیا میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے تشریف لائے، چنانچہ ارشاد ہے: ”بعثت لاتتم مکارم الاخلاق“ یعنی ”میں (رسول اللہ ﷺ) اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیا ہوں“۔ پس جس نے جس قدر آپﷺ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاکر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا اسی قدر آپﷺ کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا، صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے، ”ان خیارکم احسن منکم اخلاقا“ یعنی ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ حضورﷺ کی ساری زندگی اخلاقِ حسنہ سے عبارت تھی، قرآن کریم نے خود گواہی دی ”انک لعلی خلق عظیم“ یعنی ”بلاشبہ آپﷺ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں“۔ آپ ﷺ لوگوں کوبھی ہمیشہ اچھے اخلاق کی تلقین کرتے آپ کے اس اندازِ تربیت کےبارے میں حضرت انس کہتے ہیں۔ رایتہ یامر بمکارم الاخلاق(صحیح مسلم :6362) میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ لوگوں کو عمدہ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔ انسانی زندگی میں حسن اخلاق کی اسی اہمیت کےپیش نظر زیر تبصر ہ کتا ب’’حسن اخلاق قرآن وحدیث کی روشنی میں ‘‘ الہدی ٰ انٹرنیشنل کے شعبہ تحقیق نے مرتب کی ہے ۔مرتبین نے اس میں اخلاق کے موضوع پر 256 احادیث جمع کی ہیں تاکہ ہم سب اپنی زندگیوں کو اسوۂ حسنہ اور تعلیمات ِ نبوی کی روشنی میں سنوار سکیں۔ یہ کتاب الہدیٰ انٹرنیشنل کے تدریسی نصاب میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو تمام پڑھنےوالوں کے لیے فائدہ مند بنائے (آمین) (م۔ا)
سیدنا فاروق اعظم کی مبارک زندگی اسلامی تاریخ کاوہ روشن باب ہے جس نےہر تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آپ نے حکومت کے انتظام وانصرام بے مثال عدل وانصاف ،عمال حکومت کی سخت نگرانی ،رعایا کے حقوق کی پاسداری ،اخلاص نیت وعمل ،جہاد فی سبیل اللہ ،زہد وعبادت ،تقویٰ او رخوف وخشیت الٰہی او ردعوت کے میدانوں میں ایسے ایسے کارہائےنمایاں انجام دیے کہ انسانی تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ انسانی رویوں کی گہری پہچان ،رعایا کے ہر فرد کے احوال سے بر وقت آگاہی او رحق وانصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کر نےکے اوصاف میں کوئی حکمران فاروق اعظم کا ثانی نہیں۔ آپ اپنے بے پناہ رعب وجلال اور دبدبہ کے باوصف نہایت درجہ سادگی فروتنی اورتواضع کا پیکر تھے ۔ آپ کا قول ہے کہ ہماری عزت اسلام کے باعث ہے دنیا کی چکا چوند کے باعث نہیں۔ سید ناعمر فاروق کے بعد آنے والے حکمرانوں میں سے جس نے بھی کامیاب حکمران بننے کی خواہش کی ،اسے فاروق اعظمؓ کے قائم کردہ ان زریں اصول کو مشعل راہ بنانا پڑا جنہوں نے اس عہد کے مسلمانوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔ سید نا عمر فاروق کے اسلام لانے اور بعد کے حالات احوال اور ان کی عدل انصاف پر مبنی حکمرانی سے اگاہی کے لیے مختلف اہل علم اور مؤرخین نے کتب تصنیف کی ہیں۔اردو زبان میں شبلی نعمانی ، ڈاکٹر صلابی ، محمد حسین ہیکل ،مولانا عبد المالک مجاہد(ڈائریکٹر دار السلام) وغیرہ کی کتب قابل ذکر ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب ’’سیرت عمر فاروق بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔جوکہ تفسیر دعوۃ القرآن کے مصنف مولانا سیف اللہ خالد ﷾ کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب خلیفۂ ثانی سیدنا عمر فاروق کی حیات مبارکہ کےحالات وواقعات اور کارناموں پر مشتمل ہے ۔ محترم ابو نعمان سیف اللہ خالد﷾ نےبڑی محنت اورعرق ریزی کے ساتھ اسے ترتیب دیا ہے او رحالات واقعات کوبیان کرنے میں ثقاہت و صداقت کوملحوظ خاطر رکھا ہے ۔ موضوع اور ضعیف روایات سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے اس عبقری شخصیت کی زندگی کی سچی تصویر پیش کی ہے ۔تاکہ قارئین کےسامنے مستند اور قابل اعتماد تاریخی حقائق آنے کے بعد ذہنوں میں پید ا ہونے والے شکوک وشبہات اور اعتراضات کاازالہ ہوسکے ۔اس کتاب میں مذکور احادیث ، روایات اور آثار واقوال کی تحقیق وتخریج ابوالحسن سید تنویر الحق شاہ ﷾ نے کی او ران کی اصل مآخذ کے ساتھ مراجعت اور تہذیب وتسہیل کا لائق تحسین کام ابو عمر محمد اشتیاق اصغر نے کیا ہے ۔یہ کتاب سیروتواریخ میں ایک منفرد اور شاندار اضافہ ہے ۔ جسے دارالاندلس نےحسنِ طباعت سے آراستہ کیا ہے۔موصوف کا یہ علمی اور تحقیقی کام قابل تعریف اور لائق تحسین ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے اور ان کی دینی خدمات کو قبول فرمائے ۔ اور تمام اہل اسلام کو صحابہ کرام کی طر ح زندگی بسر کرنے کی اور عالم اسلام کے حکمرانوں کو سیدنا عمر فاروق کے نقشے قدم پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین) (م۔ا)
شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو اایک خاص مقام حاصل ہے ۔او رتمام شرائع ومذاہب میں بھی دعا کا تصور موجود رہا ہے مگر موجود شریعت میں اسے مستقل عبادت کادرجہ حاصل ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے کہ جو تقدیر کو بدل سکتی ہے۔ دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالق اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اسے تب ہی فائدہ دیتی ہے جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کوبھی ملحوظ رکھے۔دعاؤں کے احکام وآداب کے حوالے سے کئی جید علماء کرام نے کتب مرتب کی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ’’ حزب الرسول ‘‘از مولانا محمد صادق سیالکوٹی بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔انہوں نے مسلمان بھائیوں اوربہنوں کی خیر خواہی کےلیے رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں وردوں اوروظیفوں کو ایک جگہ اکٹھا کردیا ہے اور اس کا مجموعہ کانام حزب الرسول ہے رکھا ہے۔ مرتب نے اس میں سب سے پہلے قرآنی دعائیں اور پھر رحمت عالم ﷺ کی فرمودہ دعائیں جمع کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف موصوف کی تمام دینی خدمات کو قبول فرمائے۔ (آمین)