کسی بھی نظام کو نافذ کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔انقلابی یا ارتقائی۔اگر کسی نظام کو انقلابی طریقوں سے نافذ کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اثرات کا ظہور فورا قبول کر لیا جاتا ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے نے اس نظام کو پوری طرح قبول کر لیا ہے۔حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ہے ، کیونکہ ہر وہ نظام جو معاشرے پر زبر دستی ٹھونسا جائے ، اس کے مخالفانہ جذبات وقتی طور پر دبے رہتے ہیں اور جوں ہی کوئی موقع ملتا ہے وہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ نمودار ہو جاتے ہیں۔اس کے برعکس ارتقائی طریقہ ذرا سست رفتار ہوتا ہے ، اس کے اثرات کا ظہور فوری طور پر نہیں ہوتا ہے۔لیکن اس طریقے میں نظام کی اقدار معاشرے کے باطن میں رس رس کر پیوست ہو جاتی ہیں، اور انسانی ضمیر کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہیں پھر انہیں نکالنا کسی طرح بھی ممکن نہیں رہتا ہے۔نظام اسلام کا طریقہ ابتدائے اسلام میں ارتقائی ہی رہا اور یہ بہت مفید اور موثر ثابت ہوا۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ یہ شدید خواہش رکھتے تھے کہ تمام لوگ اسلام قبول کر لیں ، لیکن آپ ﷺ نے کسی پر جبر نہیں کیا اورقرآن مجید نے تو صریح الفاظ کے ساتھ یہ اعلان کر دیا کہ"دین کو قبول کرنے کے سلسلے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ "زیر تبصرہ کتاب " نفاذ شریعت میں تدریج "محترم حافظ سعد اللہ صاحب ریسرچ اسسٹنٹ مرکز تحقیق دیال سنگھ لائبریری ٹرسٹ کی کاوش ہے ، جس میں انہوں نےنفاذ اسلام کے حوالے سے اسلام کےاسی تدریجی طرز عمل پر اپنی تحقیق پیش کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ پاکستان میں نفاذ اسلام کی راہیں ہموار کرے اور ہمیں خلافت جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمائے۔آمین(راسخ)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
دیباچہ |
|
5 |