خلافت وامارت کا نظام دنیا میں مسلمانوں کی ملی وحدت اور مرکزیت کی علامت ہے ۔ عہدِ نبوت میں رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارک کودنیائے اسلام میں مرکزی حثیت حاصل ہے تھی اور اس مبارک عہد میں امت کی قیادت وسیادت کامنصب آپ ہی کے پاس تھا۔ آپ ﷺ کے بعد لوگوں کی راہنمائی اور اسلامی مرکزیت کوبراقراررکھنے کے لیے خلفائے راشدین آپ ﷺ کے جانشین بنے۔ خلفائے راشدین کا دورِ حکومت تاریخ اسلام کاایک تابناک اورروشن باب ہے ا ن کےعہد زریں میں عظیم الشان فتوحات کی بدولت اسلامی سلطنت کی حدود اطراف عالم تک پہنچ گئیں ۔انہوں نے اس دور کی بڑی بڑی سلطنتوں کوشکست دے کر پرچم ِ اسلام کو مفتوحہ علاقوں میں بلند کیا اور باطل نظاموں کو ختم کر کے ایک مضبوط ، مستحکم اور عظیم الشان اسلامی کی بنیاد رکھی ۔عہد نبوت کےبعد خلفائے راشدین کا دورِ خلافت عدل وانصاف پر مبنی ایک مثالی دورِ حکومت ہے جو قیامت تک قائم ہونے والی اسلامی حکومتوں کےلیے رول ماڈل ہے۔خلفائے راشدین کے مبارک دور کا آغاز سیدنا ابو بکر صدیق کے دورِ خلافت سے ہوتا ہے ، ان کے بعد سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان کا دور آتا ہے ۔ سیدنا عثمان کے بعد سیدنا علی المرتضیٰ چوتھے خلیفہ راشدبنے ۔ان کے زمامِ خلافت سنبھالتے ہی فتنۂ تکفیر اور فتنۂ خوارج جیسے بڑے برے فتنوں نے سر اٹھا یا اور مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں اور اختلافات میں بڑی شدت آگئی او رنوبت صحابہ کرام کے درمیان جنگ تک پہنچ گئی اور واقعۂجمل اور جنگِ صفین جیسے خون ریز واقعات رونما ہوئے ۔سیدناعلی آنحضرت ﷺ کے چچا ابو طالب کے بیٹے تھے اور بچپن سے ہی حضورﷺ کے زیر سایہ تربیت پائی تھی بعثت کے بعد جب حضور ﷺ نے اپنے قبیلہ بنی ہاشم کے سامنے اسلام پیش کیا تو سیدناعلی نے سب سے پہلے لبیک کہی اور ایمان لے آئے۔اس وقت آپ کی عمر آٹھ برس کی تھی ہجرت کی رات نبی کریم ﷺ آپ کو ہی اپنے بستر پر لٹا کر مدینہ روانہ ہوئے تھے۔ ماسوائے تبوک کے تمام غزوات حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔لڑائی میں بے نظیر شجاعت اور کمال جو انمردی کا ثبوت دیا۔آحضرت ﷺ کی چہیتی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرا کی شادی آپ ہی کے ساتھ ہوئی تھی۔حضور ﷺ کی طرف سے خطوط اور عہد نامے بھی بالعموم آپ ہی لکھا کرتے تھے۔پہلے تین خلفاء کے زمانے میں آپ کو مشیر خاص کا درجہ حاصل رہا اور ہر اہم کام آپ کی رائے سے انجام پاتا تھا۔سیدنا علی بڑے بہادر انسان تھے۔ سخت سے سخت معر کوں میں بھی آپ ثابت قدم رہے ۔بڑے بڑے جنگو آپ کے سامنے آنے کی جر ات نہ کرتے تھے۔آپ کی تلوار کی کاٹ ضرب المثل ہوچکی ہے۔شجاعت کے علاوہ علم وفضل میں بھی کمال حاصل تھا۔ایک فقیہ کی حیثیت سے آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔آپ کے خطبات سے کمال کی خوش بیانی اور فصاحت ٹپکتی ہے۔خلیفۂ ثالث سید عثمان بن عفان کی شہادت کے بعد ذی الحجہ535میں آپ نے مسند خلافت کو سنبھالا۔آپ کا عہد خلافت سارے کاسارا خانہ جنگیوں میں گزرا۔اس لیے آپ کو نظام ِحکومت کی اصلاح کے لیے بہت کم وقت ملا۔تاہم آپ سے جہاں تک ممکن ہوا اسے بہتر بنانے کی پوری کوشش کی۔ فوجی چھاؤنیوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔صیغہ مال میں بہت سی اصلاحات کیں ۔جس سے بیت المال کی آمدنی بڑھ گئی۔عمال کے اخلاق کی نگرانی خود کرتے اور احتساب فرماتے۔خراج کی آمدنی کا نہایت سختی سے حساب لیتے۔ذمیوں کے حقوق کا خاص خیال رکھتے۔ عدل وانصاف کارنگ فاروق اعظم کے عہد سے کسی طرح کم نہ تھا۔محکمہ پولیس جس کی بنیاد سیدنا عمر نے رکھی تھی۔اس کی تکمیل بھی سیدناعلی کے زمانے میں ہوئی۔ نماز فجر کے وقت ایک خارجی نے سیدنا علی پر زہر آلود خنجر سے حملہ کیا جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے ۔اور حملہ کے تیسرے روز رحلت فرماگئے۔انتقال سے پہلے تاکید کی کہ میرے قصاص میں صرف قاتل ہی کو قتل کیا جائے کسی اور مسلمان کا خون نہ بھایا جائے۔خلفائے راشدین کی سیرت امت کےلیے ایک عظیم خزانہ ہے اس میں بڑے لوگو ں کےتجربات،مشاہدات ہیں خبریں ہیں امت کے عروج اور غلبے کی تاریخ ہے ۔ اس کےمطالعہ سے ہمیں دیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ کن کن مواقع پر اہل حق کوعروج وترقی ملی ۔خلفاء راشدین کی سیرت شخصیت ،خلافت وحکومت کےتذکرہ پر مشتمل متعد د کتب موجود ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سیرت علی ‘‘ تفسیر دعوۃ القرآن کے مصنف مولانا سیف اللہ خالد ﷾ کی تصنیف ہے جوکہ سیدنا علی کےحالات زندگی طرز حکومت اور کارناموں پر مشتمل ہے فاضل مصنف نے قرآن وحدیث اورمستند روایات کی روشنی میں ’’عہد خلافت علی ‘‘ میں رونما ہونے والے واقعات اور تاریخی حقائق کوپیش کیا اوران حقائق کا ذکر کرتے ہوئے اس دور کی حقیقی اورسچی تصویر پیش کی ہے۔جھوٹی اورمن گھڑت روایات ، قصوں اور کہانیوں کےنتیجے میں قارئین کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے اشکالات اور شکوک وشبہات کودور کیا ہے اور خیر القرون کی جماعت ِ صحابہ کے بارے میں کتاب وسنت پر مبنی صحیح موقف اور منہج سلف کی وضاحت کی ہے۔ اس کتاب میں مذکور احادیث ، روایات اور آثار واقوال کی تحقیق وتخریج ابوالحسن سید تنویر الحق شاہ ﷾ نے کی او ران کی اصل مآخذ کے ساتھ مراجعت اور تہذیب وتسہیل کا لائق تحسین کام ابو عمر محمد اشتیاق اصغر نے کیا ہے ۔یہ کتاب سیروتواریخ میں ایک منفرد اور شاندار اضافہ ہے ۔ جسے دارالاندلس نےحسنِ طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ مصنف موصوف اس سے پہلے سیرت ابو بکر صدیق ، سیرت عمرفاروق اور سیرت عثمان غنی قارئین کی نذر کر چکے ہیں ۔ ان کی قابل قدر تصنیفات اہل علم اور عام قارئین میں دادِ تحسین حاصل کرچکی ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے اور ان کی دینی خدمات کو قبول فرمائے ۔ اور اس کتاب کوقارئین کےلیے خلیفۂ رابع سیدنا علی المرتضیٰ کی سیرت وکردار کو اپنانے کا ذریعہ بنائے ( آمین) (م۔ا)
نکاح دراصل میاں بیوی کے درمیان وفاداری او رمحبت کے ساتھ زندگی گزرانے کا ایک عہدو پیمان ہوتا ہے ۔ نیز نسل نو کی تربیت کی ذمہ داری بھی نکاح کے ذریعہ میاں بیوی دونوں پر عائد ہوتی ہے لیکن اگر نکاح کے بعد میاں بیوی دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی یہ محسوس کریں کہ ان کی ازدواجی زندگی سکون وا طمینان کے ساتھ بسر نہیں ہوسکتی او رایک دوسرے سے جدائی کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو اسلام انہیں ایسی بے سکونی وبے ا طمینانی او رنفرت کی زندگی گزارنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ مرد کو طلاق او ر عورت کو خلع کاحق دے کرایک دوسرے سے جدائی اختیار کر لینے کی اجازت دیتا ہے ۔لیکن اس کے لیے بھی اسلام کی حدود قیود اور واضح تعلیمات موجود ہیں۔طلاق چونکہ ایک نہایت اہم اور نازک معاملہ ہے اس لیے ضروری ہے کہ پوری طرح غور وفکر کے بعد اس کا فیصلہ کیا جائے ۔ زیر تبصرہ کتابچہ’’طلاقیں کیوں ہوتی ہیں ‘‘محترم مولانا ابو الحسن عبدالمنان راسخ ﷾( مصنف کتب کثیرہ) کی تصنیف ہے۔اس میں انہوں نے بنیادی طور پر بیوی کی طرف سے ہونی والی کوتاہیوں کا تذکرہ کیا ہے ہرمسلمان عورت کو اس رسالے کی روشنی میں اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا کرنی چاہیے ۔رسالہ ہذا کے مصنف جامعہ اسلامیہ ،صادق آباد کے فیض یافتہ ہیں اور مولانا حافظ ثناء اللہ زاہدی﷾ کے مایۂ ناز قابل شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں ۔تبلیغی واصلاحی موضوعات کے علاوہ علمی وتحقیقی موضوعات کو بیان کرنے اور تحریر کی کامل دسترس رکھتے ہیں۔ موصوف جامعہ اسلامیہ،صادق آبادسے فراغت کےبعد شروع شروع میں مجلس التحقیق الاسلامی ، لاہور میں حافظ عبد الرحمن مدنی﷾ کی زیر نگرانی بھی علمی وتحقیقی خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ موصوف ایک اچھے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے اچھے خطیب اور واعظ بھی ہیں ۔ عرصہ دراز سے فیصل آباد میں خطابت کافریضہ انجام دینے کےساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا کام بھی کرتے ہیں ۔تقریبا دو درجن کتب کےمصنف ہے۔ جن میں سے چار کتابیں(خشبو ئے خطابت ،ترجمان الخطیب،منہاج الخطیب ، حصن الخطیب) خطابت کے موضوع پر ہیں ۔کتاب ہذا گھروں کو اجڑنے سےبچانے کے لیے حالات وواقعات اور مشاہدات کی روشنی میں مصنف کی ایک فکر انگیز تحریر ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے ا ور ہم سب کو اسلام کےمطابق ازدواجی زندگی خوشگوار بنانے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)(م۔ا)
حکومت ِسعودی عرب ہر سال لاکھوں کی تعداد میں باہر سے آنے والے حجاج اور لاکھوں داخلی حجاج کا اپنی مادی اور بشری قوتیں بروئے کار لاتے ہوئے استقبال کرتی ہے ۔اور اس سلسلے میں اپنی تمام ترمادی وبشری توانائیاں بروئے کار لاتی ہے کہ منظم انداز میں حجاج بیت اللہ کی خدمت کرسکے اور ان کی رہائش ونقل وحمل کو آسان بناسکے ،نیز دیگر سہولیات بھی ایک محدود وقت اور مخصوص جگہ میں مہیا کرسکے ۔اور اس مملکت سعودی عرب سے اللہ تعالیٰ کی مدد وتوفیق ہی کا نتیجہ ہے کہ یہ اتنے بڑے اجتماع کے معاملات چلاتی ہے جس کی مثال ساری دنیا میں ملنا مشکل ہے ۔ وزارت اسلامی امور واوقاف ودعوت وارشاد اس حکومتی ڈھانچہ کا حصہ ہے جو حج کےامور میں ہر سال شریک رہتاہے’’تربیت اسلامی برائے حج ‘‘ بھی اسی وزارت کی ذمہ دار ی ہے ۔اس لیے اس وزارت اوقاف کے تحت سیکڑوں مبلغین کو مکہ اور دیگر مقدس مقامات اور بری وبحری او رہوائی راستوں سے آنے والے حجاج کےکیمپوں میں متعین کیا جاتاہے۔ اور اسی طرح یہ وزارت ہی تمام میقاتوں کی جہاں پر حجاج احرام باندھتےہیں مسؤل ہے ۔اور یہی وزارت ان میقاتوں پر موجود مساجد کی ذمہ دار ہے۔ان جگہوں پر یہی مختلف طلبہ کو متعین کرتی ہے تاکہ وہ حجاج کرام کی دینی رہنمائی کرسکیں اور حجاج صحیح شرعی طریقے سے حج ادا کرسکیں اور حج کے احکام کے سلسلے میں ان سے مسائل بھی پوچھ سکیں ۔1418ھ میں وزارت نے حجاج کرام کےلیے ’’رہنما اصول‘‘ کےنام ایک کتابچہ شائع جس میں حجاج کرام کےلیے حج سے متعلق معلومات اوروزارت حج کے تفصیلی پروگرام اور اس کے دیگر وہ کام جو میقات اور منیٰ وعرفات میں وزارت سرانجام دیتی ہے۔انہیں اس کتاب میں درج کردیا ہے۔یہ کتاب دراصل عربی زبان میں ایک رسالہ ’’ الدلیل الارشادی للحاج ‘‘ کا ترجمہ ہے جسے حج کے دوران وزارت اسلامی امور اوقاف ودعوت وارشاد نے سال 1418ھ میں حج کے دوران مختلف زبانوں میں شائع کر واکر تقسیم کیا ۔اللہ تعالیٰ سعودی عرب کے حکام کو صراط مستقیم پر قائم رکھے او ر اشاعت دین کےلیے ان کی خدمات کو قبول فرمائے ۔ آمین( م۔ا)
انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔جماعت ِ صحابہ میں سےخاص طور پر وہ ہستیاں جنہوں نے آپ ﷺ کے بعد اس امت کی زمامِ اقتدار ، امارت ، قیادت اور سیادت کی ذمہ داری سنبھالی ، امور دنیا اور نظامِ حکومت چلانے کے لیے ان کےاجتہادات اور فیصلوں کو شریعت ِ اسلامی میں ایک قانونی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔ ان بابرکت شخصیات میں سے خلیفۂ اول سیدنا ابو بکر صدیق سب سے اعلیٰ مرتبے اور بلند منصب پر فائز تھے اور ایثار قربانی اور صبر واستقامت کا مثالی نمونہ تھے ۔ سیدنا ابوبکر صدیق قبیلہ قریش کی ایک مشہور شاخ تیم بن مرہ بن کعب کے فرد تھے۔ساتویں پشت میں مرہ پر ان کا نسب رسول اللہﷺ سے مل جاتا ہے ہے ۔ایک سچے مسلمان کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ انبیاء ورسل کے بعد اس کائنات میں سب سے اعلیٰ اور ارفع شخصیت سیدنا ابو بکر صدیق ہیں ۔ سیدنا ابو بکر صدیق ہی وہ خو ش نصیب ہیں جو رسول اللہﷺ کےبچپن کے دوست اور ساتھی تھے ۔آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت حاصل کی اور زندگی کی آخری سانس تک آپ ﷺ کی خدمت واطاعت کرتے رہے اور اسلامی احکام کے سامنے سرجھکاتے رہے ۔ رسول اللہ سے عقیدت ومحبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت کے لیے تن من دھن سب کچھ پیش کر دیا ۔نبی کریم ﷺ بھی ان سے بے حد محبت فرماتے تھے ۔آپ ﷺ نے ان کو یہ اعزاز بخشا کہ ہجرت کے موقع پر ان ہی کو اپنی رفاقت کے لیے منتخب فرمایا۔ بیماری کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے حکماً ان کو اپنے مصلیٰ پر مسلمانوں کی امامت کے لیے کھڑا کیا اورارشاد فرمایا کہ اللہ اورمؤمنین ابو بکر صدیق کے علاوہ کسی اور کی امامت پر راضی نہیں ہیں۔خلیفہ راشد اول سیدنا صدیق اکبر نے رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہر قدم پر آپ کا ساتھ دیا اور جب اللہ کے رسول اللہ وفات پا گئے سب صحابہ کرام کی نگاہیں سیدنا ابو بکر صدیق کی شخصیت پر لگی ہو ئی تھیں۔امت نے بلا تاخیر صدیق اکبر کو مسند خلافت پر بٹھا دیا ۔ تو صدیق اکبر ؓ نے مسلمانوں کی قیادت ایسے شاندار طریقے سے فرمائی کہ تمام طوفانوں کا رخ اپنی خدا داد بصیرت وصلاحیت سے کام لے کر موڑ دیا اور اسلام کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگا دیا۔ آپ نے اپنے مختصر عہدِ خلافت میں ایک مضبوط اور مستحکم اسلامی حکومت کی بنیادیں استوار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے بعد اس کی سرحدیں ایشیا میں ہندوستان اور چین تک جا پہنچیں افریقہ میں مصر، تیونس او رمراکش سے جاملیں او ریورپ میں اندلس اور فرانس تک پہنچ گئیں۔سیدنا ابو بکر صدیق کی زندگی کے شب وروز کے معمولات کو الفاظ کے نقوش میں محفوظ کرنے کی سعادت نامور شخصیات کو حاصل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’سیرت ابوبکر صدیق ‘‘ تفسیر دعوۃ القرآن کے مصنف مولانا سیف اللہ خالد ﷾ کی تصنیف ہے ۔انہوں نے اس کتاب کو مرتب کرنے میں صحیح اورمستند روایات کو بنیاد بنایا اور صحیح ترین مآخذ اور مراجع سےمعتبر روایات کاانتخاب کر کے ایام ِ خلافت ِ راشدہ کی حقیقی اور صحیح تصویر قارئین کے سامنے پیش کی ہے۔ مصنف نے اسے مرتب کرتے وقت ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی ﷾ کی تالیف’’ ابو بکر صدیق کی شخصیت ، حیات اور خلافت‘‘ سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ مکتبہ شاملہ کو بنیاد کر حدیث ، تاریخ اور سیرت کی سیکڑوں کتب سے مستند اور صحیح روایات کو جمع کرنے کی سعی کی ہے۔ سیرت سیدنا ابو بکر صدیق کے حوالے سےیہ کتاب بیش قیمت تحفہ ہے ۔تمام اہل اسلام کو صحابہ کرام کی طر ح زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین) (م۔ا)
ساتویں صدی ہجری کا دور ابتلاء وآزمائش کا دور تھا،اور اس کی سب سے بڑی وجہ اخلاق واعمال میں کتاب وسنت سے دامن بچانے کا مرض تھا۔امام ابن تیمیہ کے لئے یہ صورت حال بڑی تکلیف دی تھی،آپ اس صورتحال کو برداشت نہ کر سکے،قلم سنبھالا،تلوار اٹھائی،وعظ وتقاریر کا سلسلہ چھیڑا اور جب مخالفت شروع ہوئی تو بے خطر مخالفت کے عظیم سمندر میں کود پڑےاور چراغ حرم کے پروانوں کو میر کارواں کی طرح پکارنا شروع کر دیا،یہاں تک کہ مذہبی ابتری اور سیاسی انتشار میں اتحاد وجمعیت کی صورتیں نظر آنے لگیں۔عصر حاضر میں مسلمانوں کے سیاسی نظریات میں جو تزلزل پایا جاتا ہے وہ ساتویں صدی ہجری سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا ہے۔صرف پاکستان ہی میں نہیں تمام دنیا میں مسلمان سیاسی توازن قائم رکھنے میں بڑی حد تک ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔جس کی سب سے بڑی وجہ ان اصولوں سے دوری اور بے تعلقی ہے جن کو اسلام میں سیاست شرعیہ کہا گیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " سیاست شرعیہ " امام ابن تیمیہ کی ایک عظیم الشان اور تاریخی کتاب ہے،جس میں انہوں نے اسلامی سیاست کو کتاب وسنت کی روشنی میں پیش کیا ہے اور یہ بات مکمل طور پر واضح کر دی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے لئے خواہ وہ انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہوں یا اخلاق ومعاملات سے ،اسلام نے جو نظام پیش کیا ہے وہ نہ صرف آخری ولازمی ہے بلکہ اس پر کاربند ہوئے بغیر نہ معاشرے میں خوبصورتی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی حکومتوں کے ایوانوں میں استحکام آ سکتا ہے۔امام ابن تیمیہ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا ابو الکلام آزاد کے ایماء پر ان کے معتمد خاص جناب مولانا محمد اسمعیل گودھروی صاحب نے کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور مترجم دونوں کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
جہیز بنیادی طور پر ایک معاشرتی رسم ہے جو ہندوؤں کے ہاں پیدا ہوئی اور ان سے مسلمانوں میں آئی۔ خود ان کے ہاں اس کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔اسلام نے نہ تو جہیز کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے منع فرمایا کیونکہ عرب میں اس کا رواج نہ تھا۔ جب ہندوستان میں مسلمانوں کا سابقہ اس رسم سے پڑا تو اس کے معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء نے اس کے جواز یا عدم جواز کی بات کی۔ہمارے ہاں جہیز کا جو تصور موجود ہے، وہ واقعتاً ایک معاشرتی لعنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ پر ظلم ہوتا ہے۔اگر کوئی باپ، شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہے، تو یہ اس کی مرضی ہے اور یہ امر جائز ہے۔ تاہم لڑکے والوں کو مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔سیدہ فاطمہ ؓ کو جو جہیز دیا گیا، وہ اس وجہ سے تھا کہ سیدنا علی نبی کریم ﷺ کے زیر پرورش تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو کچھ سامان دیا تھا کیونکہ یہ دونوں ہی آپ کے زیر کفالت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دیگر دامادوں سیدنا ابو العاص اور عثمان ؓ کے ساتھ شادیاں کرتے وقت اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دیا تھا۔جہیز سے ہرگز وراثت کا حق ختم نہیں ہوتا ہے۔ وراثت کا قانون اللہ تعالی نے دیا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر شدید وعید سنائی ہے۔ جہیز اگر لڑکی کا والد اپنی مرضی سے دے تو اس کی حیثیت اس تحفے کی سی ہے جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔لیکن اس میں اسراف وتبذیر سےگریز کرنا چاہیے۔ زیرنظر کتاب ’’جہیز کی تباہ کاریاں‘‘ فاضل نوجوان مصنف کتب کثیرہ ڈاکٹر حافظ مبشرحسین لاہوری ﷾(ریسرچ سکالر ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد) کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب میں چند سچے واقعات پر مشتمل بعض ایسی تحریریں شامل ہیں جن سے مروجہ رسم جہیز کی معاشرتی تباہ کاریوں پر براہ راست روشنی پڑتی ہے ۔ اس کےبعد دوسرے باب میں جہیز کی شر عی حیثیت پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور اس کی حدود وقیود واضح کی گئی ہیں جب کہ تیسرے باب میں جہیز کے حوالے سے لوگوں میں پائے جانے والے مختلف شبہات کا ازالہ کیاگیا ہے ۔ بالخصوص ان لوگوں کے نظریات کی بھر پور تردید کی کی گئی ہے جو جہیز کو ’’سنت رسول ‘‘ قرار دینے پر بضد ہیں ۔ چو تھے باب میں جہیز کی شرعی حیثیت کے حوالے سے چند جید علماء کےفتاویٰ جات کوجمع کیاگیا ہے ۔مسئلہ جہیز کے حوالے سے اگرچہ یہ ایک چھوٹی سی کاوش ہے ۔ اگر اسے سنجیدگی سے پڑھا پڑھایا اور عوام میں پھیلایا جائے تو امید ہے کہ یہ لوگوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی کا باعث ہوگی۔ بالخصوص اس کتاب کو معاشرے کے ان افراد تک ضرور پہنچایا جانا چاہیے جوجہیز کی تبا کاریوں سےبےخبر ہیں۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو ہمارے معاشرے سے رسم جہیز کے خاتمے کا باعث بنائے اور ہمیں غیر اسلامی رسم ورواج سے اجتناب کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (م۔ا)
شریعتِ اسلامیہ میں نماز بہت بڑا اور اہم رکن ہے اور اس پر مواظبت لازم قرار دی گئی ہے بلکہ کفر وایمان کے درمیان نماز ایک امتیاز ہے۔عقیدہ توحید کے بعد کسی بھی عمل کی قبولیت کےلیے دو چیزوں کاہونا ضروری ہے۔ نیت اور طریقۂ رسول ﷺ ۔لہٰذا نماز کے بارے میں آپ کاﷺ واضح فرمان ہے ’’ نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘ (بخاری) رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑا ہوتے وقت ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا (یعنی رفع الیدین کرنا) نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس سنت پر عمل کیا ہے۔نماز میں رفع الیدین رسول اللہ ﷺ سے متواتر ثابت ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں کہ رفع الیدین کی حدیث کو صحابہ کرام کی اس قدر کثیر تعداد نے روایت کیا ہے کہ شاید اور کسی حدیث کواس سے زیادہ صحابہ نے روایت نہ کیا ہو۔ او رامام بخاری نے جزء رفع الیدین میں لکھا ہے ہے کہ رفع الیدین کی حدیث کوانیس صحابہ نے روایت کیا ہے ۔ لیکن صد افسوس اس مسئلہ کو مختلف فیہ بنا کر دیگر مسائل کی طرح تقلید اور مسلکی تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔اثبا ت رفع الیدین پر امام بخاری کی جزء رفع الیدین ،حافظ زبیر علی زئی کی نور العینین فی مسئلۃ رفع الیدین وغیرہ کتب قابل ذکر ہیں۔اثبات رفع الیدین پر کتا ب ہذا کے علاوہ تقریبا 10 کتابیں کتاب وسنت ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ قرۃ العینین فی اثبات رفع الیدین‘‘ مولانا نور حسین گھرجاکھی کی تصنیف ہے ۔انہوں نے احادیث نبویہ اور اقوال و عمل صحابہ ،تابعین وائمہ کرام کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ رفع الیدین فی موضع الثلاثہ سنت متواترہ ہے اوراس کاترک کسی بھی صحابی سے بسند صحیح ثاتب نہیں۔نیز قرون ِ ثلاثہ کے ائمہ کرام اس کےقائل وفائل تھے ۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانو ں حدیث مبارکہ ’’صلوکمارائیتومونی اصلی ‘‘ پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے (آمین )(م۔ا)
سیاہ کاری ،کاروکاری یا غیرت کےنام پر قتل کرنے کا دستور بہت قدیم ہے ۔مذکورہ نام ایک دوسرے کےمترادف ہیں جو مختلف علاقوں میں بولی جانےوالی زبانوں کے مطابق وضع کیے گئے ۔بلوچستان میں اسے سیاہ کاری کہا جاتاہے جس کا معنی بدکاری ،گنہگار۔ سندھ میں اسے کاروکاری کہا جاتا ہے کاروکامطلب سیاہ مرد اور کاری کا مطلب سیاہ عورت ہوتاہے۔ پنجاب میں کالا کالی اور سرحد میں طور طورہ کے نام سے مشہور ہیں ۔ کالے رنگ کے مفہوم کی حامل یہ اصطلاحات زناکاری اوراس کےمرتکب ٹہرائے گئے افراد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔سیاہ اس شخص کو کہتے ہیں جس پر نکا ح کےبغیر جنسی تعلق رکھنے کا الزام لگایا گیا ہو ۔ یا اپنے نکاح والے شوہر کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلق رکھنے والی عورت کو سیاہ یا سیاہ کار کہتےہیں۔اور ایسےمجرم کو قتل کرنے کے عمل کو قتلِ غیرت کہتے ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ سیاہ کاری کی رسم اور اسلامی تعلیمات ‘‘ پروفیسر سید باچا آغا صاحبزادہ کا مقالہ ہے جسے انہوں نے جامعہ بلوچستان میں ایم فل کے لیے پیش کیا ۔ بعد ازاں چند ترامیم کے ساتھ اسے کتابی صورت میں شائع کیا ہے ۔مصنف نے اس میں حقوق نسواں پر مختلف مذاہب کےتعلیمات کے تناظر میں بحث کی ہے اوراس ضمن میں یہ واضح کیا ہے مختلف مذاہب میں عورت کو کیا مقام اور حیثیت دی گئی ہے؟ لیکن ان مذاہب کی تعلیمات کے برعکس آج کل عورت کو ہیچ سمجھتے ہوئے بعض طبقات اس پر محض سیاہ کاری کا لیبل لگا کر کس طرح بے دردری سے قتل کردیتے ہیں۔اور اسی طرح اس کتاب میں ا نہوں نے سیاہ کاری اوراس کے مترادفات کاتعارف پیش کیا ہے اور ان کی وجوہ اوراسباب بیان کیے ہیں نیز مختلف علاقوں میں اس سے متعلق پائی جانے والی رسوم کا ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مروجہ رسوم ورواج کے متعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کےتاثرات کو بھی قلم بند کیا ہے ۔اس کے بعد اس کے متعلق اسلامی تعلیمات اوراحکامات کوذکر کیا ہے ۔ مصنف نے یہ کتاب ہدیۃ ً لائبریری کےلیے پیش کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ مصنف موصوف کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ (آمین)(م۔ا )
جادو کرنا یعنی سفلی اور کالے علم کے ذریعہ سے لوگوں کے ذہنوں او رصلاحیتوں کو مفلوج کرنا او ران کو آلام ومصائب سے دوچار کرنے کی مذموم سعی کرنا ایک کافرانہ عمل ہے یعنی اس کا کرنے والا دائرہ اسلام سے نکل جاتا اورکافر ہوجاتا ہے یہ مکروہ عمل کرنے والے تھوڑے سے نفع کے لیے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے اور ان کے امن وسکون کوبرباد کرتے ہیں جولوگ ان مذموم کاروائیوں کا شکار ہوتے ہیں وہ عام طور پر اللہ کی یاد سے غافل ہوتے ہیں اس لیے ان موقعوں پربھی وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے انہی عاملوں اورنجومیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جناتی وشیطانی چالوں اور جادوکے توڑ اور شرعی علاج کے حوالے سے بازار میں کئی کتب موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتا ب’’جنات اور جادو حقیقت اورعلاج‘‘مولانا ہدایت اللہ سلمانی کی تصنیف ہے۔ موصوف حکیم عبد اللہ آف جہانیاں کے دماد تھے ۔ اور ایک اچھے طبیب اور ماہر روحانی معالج تھے انہوں اس کتاب میں نبی کریم ﷺکے ارشادات اوران پرایمان ویقین والے اعمال کی برکات اور ان کے خلاف اعمال کے نتائج بد کے کچھ واقعات ومشاہدات پیش کیے ۔اور کچھ واقعات گمراہ کن عاملین کے پیش کیے جو ان کی عملی زندگی میں پیش آئے ۔اللہ تعالی ٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔ آمین (م۔ا)
اسلام اللہ کا قانون ہے اور یہی اس کی صداقت اور عدالت کی مستند دلیل ہے۔اللہ تعالی نے اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے انسانیت کی پاک باز اور معصوم شخصیات کا انتخاب کیا اور ان سے اسلام کے نفاذ کا عہد لیا۔چنانچہ ہر صاحب منصب نے اپنے اپنے عہد میں نظام اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے ساتھ ساتھ اسے نافذ بھی کیا۔ اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زوردیتاہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتاہے،اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے،اسلام کاجس طرح اپنانظامِ معیشت ہے اوراپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنانظامِ سیاست وحکومت ہے،اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے،لیکن اسلام میں سیاست شجرِ ممنوعہ نہیں ہے،یہ ایسا کامل ضابطہٴ حیات ہے جو نہ صرف انسان کو معیشت ومعاشرت کے اصول وآداب سے آگاہ کرتا ہے، بلکہ زمین کے کسی حصہ میں اگراس کے پیرو کاروں کواقتدار حاصل ہو جائے تووہ انہیں شفاف حکم رانی کے گربھی سکھاتاہے، عیسائیت کی طرح اسلام”کلیسا“ اور” ریاست“ کی تفریق کاکوئی تصورپیش نہیں کرتا۔ زیر تبصرہ کتاب" درماندہ وسرگرداں انسانیت کے دکھوں کا مداوا ،نظام مصطفی ﷺ "محترم جناب عبد الرشید حنیف صاحب کی تصنیف ہے۔مولف نے اپنی اس کتاب میں اسلامی نظام کی اہمیت وضرورت پر روشنی ڈالی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن مجید میں انبیاء کرام کے واقعات کے ضمن میں انبیاء کی دعاؤں او ران کے آداب کاتذکرہ ہوا ہے ۔ ان قرآنی دعاؤں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے سب سے برگزیدہ بندے کن الفاظ سے کیا کیا آداب بجا لاکر کیا کیا مانگا کرتے تھے ۔ انبیاء کی دعاؤں کو جس خوبصورت انداز سے قرآن مجید نے پیش کیا ہے یہ اسلوب کسی آسمانی کتاب کے حصے میں بھی نہیں آیا ۔ ان دعاؤں میں ندرت کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر قسم کی ضرورت کے بہترین عملی اور واقعاتی نمونے بھی ہماری راہنمائی کے لیے فراہم کردیئے گئے ہیں ۔اور شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو اایک خاص مقام حاصل ہے ۔ تمام شرائع ومذاہب میں بھی دعا کا تصور موجود رہا ہے مگر موجود ہ شریعت میں اسے مستقل عبادت کادرجہ حاصل ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے کہ جو تقدیر کو بدل سکتی ہے ۔دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالق اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اسے تب ہی فائدہ دیتی ہے جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کوبھی ملحوظ رکھے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ قرآنی اور مستند مسنون اذکار ودعائیں ‘‘ محترم جناب ڈاکٹر حافظ شہباز حسن ﷾ کی کاوش ہے اس کتا ب کے پہلے حصہ میں قرآنی دعائیں اور اذکار قرآنی ترتیب سے پیش کیے گئے ہیں ۔ جبکہ دوسرے حصے میں احادیث نبویہ سےثابت شدہ دعائیں اوراذکار نقل کیے گئے ہیں ۔ تالیف میں مسلمان کی عملی زندگی کی یومیہ ترتیب کو حتی الامکان ملحوظ ِ خاطر رکھا گیا ہے ۔ اس مجموعہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ادب واحترام کی غرض سے اللہ تعالیٰ کےلیے جمع کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ،تاکہ دعاؤں کاور اذکار کے ترجمے کے ذریعے خالقِ کائنات کی عظمت کابھر پور اظہار کیا جاسکے ۔ دعاؤں کا یہ مجموعہ پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمداسرائیل فاروقی صاحب کی فرمائش پر تیار کیا گیا ہے اور انہوں صدقہ جاریہ کی غرض اسے فی سبیل اللہ تقسیم کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف وناشر کی اس کاوش کوقبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
فوت ہونے والا شخص اپنےپیچھے جو اپنا مال ، زمین،زیور وغیرہ چھوڑ جاتاہے اسے ترکہ ،وراثت یا ورثہ کہتے ہیں ۔ کسی مرنے والے مرد یا عورت کی اشیاء اور وسائلِ آمدن وغیرہ کےبارے یہ بحث کہ کب ،کس حالت میں کس وارث کو کتنا ملتا ہے شرعی اصلاح میں اسے علم الفرائض کہتے ہیں ۔ علم الفرائض (اسلامی قانون وراثت) اسلام میں ایک نہایت اہم مقام رکھتا ہے ۔قرآن مجید نے فرائض کےجاری نہ کرنے پر سخت عذاب سے ڈرایا ہے ۔چونکہ احکام وراثت کاتعلق براہ راست روز مرہ کی عملی زندگی کے نہایت اہم پہلو سے ہے ۔ اس لیے نبی اکرمﷺ نےبھی صحابہ کواس علم کےطرف خصوصاً توجہ دلائی اور اسے دین کا نہایت ضروری جزء قرار دیا ۔صحابہ کرام میں سیدنا علی ابن ابی طالب، سیدنا عبد اللہ بن عباس،سیدنا عبد اللہ بن مسعود،سیدنا زیدبن ثابت کا علم الفراض کے ماہرین میں شمار ہوتا ہے ۔صحابہ کےبعد زمانےکی ضروریات نےدیگر علوم شرعیہ کی طرح اس علم کی تدوین پر بھی فقہاء کومتوجہ کیا۔ انہوں نے اسے فن کی حیثیت دی اس کے لیے خاص زبان اور اصلاحات وضع کیں اور اس کے ایک ایک شعبہ پر قرآن وسنت کی روشنی میں غوروفکر کر کے تفصیلی وجزئی قواعد مستخرج کیے۔اہل علم نے اس علم کے متعلق مستقل کتب تصنیف کیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’ تعلیم الفرائض‘‘محدث العصر مجتہد وفقیہ حافظ عبداللہ محدث روپڑی کے لائق ترین شاگرد اور روپڑی کے فتاوی ٰ جات کو تین مجلدات میں فتاویٰ اہل حدیث کے نام سے مرتب کرنے والے ابوالسلام مولانا محمد صدیق سرگودہوی کی مرتب شدہ ہے ۔ یہ کتاب در اصل محدث روپڑی کے ارشاد پر ’’وارثت اسلامیہ‘‘ کےنام سے مرتب کیے گئے نقشہ کی طبع دوم ہے مولانا صاحب نے جب اس نقشہ کومرتب کیا تو اکابر علماء وقت نے اسے بہت پسند کیا ۔تو پھر مرتب نے اس میں بعض مسائل کا اضافہ کیا اور اسے ’’تعلیم الفرائض ‘‘ کے نام سے شائع کیا ۔اسلامی وراثت کے موضوع پر یہ کتا ب مختصر ،جامع اور آسان تصنیف ہے ۔ اسی وجہ سے اکثر مدارس سلفیہ میں شامل نصاب ہے۔ (م۔ا)
شریعتِ اسلامیہ میں نماز بہت بڑا اور اہم رکن ہے اور اس پر مواظبت لازم قرار دی گئی ہے بلکہ کفر وایمان کے درمیان نماز ایک امتیاز ہے۔عقیدہ توحید کے بعد کسی بھی عمل کی قبولیت کےلیے دو چیزوں کاہونا ضروری ہے۔ نیت اور طریقۂ رسول ﷺ ۔لہٰذا نماز کے بارے میں آپ کاﷺ واضح فرمان ہے ’’ نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘ (بخاری) رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑا ہوتے وقت ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا (یعنی رفع الیدین کرنا) نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس سنت پر عمل کیا ہے۔نماز میں رفع الیدین رسول اللہ ﷺ سے متواتر ثابت ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں کہ رفع الیدین کی حدیث کو صحابہ کرام کی اس قدر کثیر تعداد نے روایت کیا ہے کہ شاید اور کسی حدیث کواس سے زیادہ صحابہ نے روایت نہ کیا ہو۔ او رامام بخاری نے جزء رفع الیدین میں لکھا ہے ہے کہ رفع الیدین کی حدیث کوانیس صحابہ نے روایت کیا ہے ۔ لیکن صد افسوس اس مسئلہ کو مختلف فیہ بنا کر دیگر مسائل کی طرح تقلید اور مسلکی تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔اثبا ت رفع الیدین پر امام بخاری کی جزء رفع الیدین ،حافظ زبیر علی زئی کی نور العینین فی مسئلۃ رفع الیدین وغیرہ کتب قابل ذکر ہیں۔اثبات رفع الیدین پر کتا ب ہذا کے علاوہ تقریبا 10 کتابیں کتاب وسنت ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’نماز میں رفع الیدین کرنے کی شرعی حیثیت ‘‘ ڈاکٹر محمد اسحاق رانا کا تصنیف شدہ ہے۔اس کتابچہ میں انہوں نےایسی 37 صحیح ترین احادیث جمع کردی ہیں جن سے رسول اللہ ﷺ کا نماز میں رفع الیدین کرنے کا پورا نقشہ ان کے ارشادات واعمال سے ثابت ہے ۔ اس کتاب کے مطالعہ سے اس سلسلہ میں جہلاء کے اعتراضات کے ٹھوس دلائل موجود ہیں جو معروف علمی طریقہ سے پیش کردیئے گئے تاکہ حقائق پوری دیانتداری سے واضح ہوسکیں۔اللہ تعالیٰ مصنف موصوف کی تمام مساعی جمیلہ کوشرف قبولیت سےنوازے (آمین)(م۔ا)
شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو اایک خاص مقام حاصل ہے او رتمام شرائع ومذاہب میں بھی دعا کا تصور موجود رہا ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے کہ جو تقدیر کو بدل سکتی ہے۔ دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالق اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہےقرآن مجید میں انبیاء کرام کے واقعات کے ضمن میں انبیاء کی دعاؤں او ران کے آداب کاتذکرہ ہوا ہے۔ ان قرآنی دعاؤں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے سب سے برگزیدہ بندے کن الفاظ سے کیا کیا آداب بجا لاکر کیا کیا مانگا کرتے تھے ۔ انبیاء کی دعاؤں کو جس خوبصورت انداز سے قرآن مید نے پیش کیا ہے یہ اسلوب کسی آسمانی کتاب کے حصے میں بھی نہیں آتا۔ ان دعاؤں میں ندرت کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر قسم کی ضرورت کے بہترین عملی اور واقعاتی نمونے بھی ہماری راہنمائی کے لیے فراہم کردیئے گئے ہیں ۔آپﷺ اور انبیاء کی دعائیں اس قدر جامع اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہیں کہ ان کےہوتےہوئے بزرگوں کے تجربات اورمن گھڑت فضائل کے حوالے سےمصنوعی وظائف کرنا قرآن وسنت کی دعاؤں اوراذکار پر عملاً بے اعتمادی اور شرکیہ وذظائف اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺ سےبغاوت کاثبوت ہے۔ رب کریم نےانبیاء کےمسائل اور مصائب کے حوالے سےہماری مشکلات کا جو حل تجویز فرمایا ہے اس کے حضور ان سے زیاہ کوئی دعا اوروظیفہ مستجاب نہیں ہو سکتاہے ۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اسے تب ہی فائدہ دیتی ہے جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کوبھی ملحوظ رکھے۔دعاؤں کے حوالے سے بہت سے کتابیں موجود ہیں جن میں علماء کرام نے مختلف انداز میں میں دعاؤں کو جمع کیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ انبیاء کا طریقہ دعا‘‘ محترم میاں محمد جمیل﷾ کی کا وش ہے ۔اس مختصر کتاب میں موصوف نے انبیاء اور آپﷺکی مختصر اور ضروری دعاؤں کو پیش کرنے کےعلاوہ دعا کےاحکام آاداب اور اہمیت وضرورت کو بھی آسان فہم انداز میں پیش کردیا ہے ۔ میاں صاحب اس کتاب کے علاوہ قرآن مجید کی تفسیرسمعیت دیگر کئی کتب کے مصنف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے ۔ آمین( م۔ا)
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے ہجرت کےبعد 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ مسجد اقصٰی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔نبی کریم ﷺسفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے‘‘ (سورہ الاسراء )۔ احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصٰی اور مسجد نبوی شامل ہیں۔سیدنا عمر فاروق کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو سیدنا عمر نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔صلاح الدین نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں ۔اسلام اور ملتِ اسلامیہ کے خلاف یہودیوں کی دشمنی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے ۔یہودِ مدینہ نے عہد رسالت مآب میں جو شورشیں اور سازشیں کیں ان سے تاریخِ اسلام کا ہر طالب علم آگاہ ہے ۔ گزشتہ چودہ صدیوں سے یہود نے مسلمانوں کےخلاف بالخصوص اور دیگر انسانیت کے خلاف بالعموم معادانہ رویہ اپنا رکھا ہے ۔بیسویں صدی کےحادثات وسانحات میں سب سے بڑا سانحہ مسئلہ فلسطین ہے ۔ یہود ونصاریٰ نےیہ مسئلہ پیدا کر کے گویا اسلام کےدل میں خنجر گھونپ رکھا ہے ۔1948ء میں اسرائیل کے قیام کےبعد یورپ سے آئے ہو غاصب یہودیوں نے ہزاروں سال سے فلسطین میں آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور جائدادوں سے بے دخل کر کے انہیں کمیپوں میں نہایت ابتر حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ ۔ دراصل یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا ۔گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران اسرائیلی یہودیوں کی جارحانہ کاروائیوں اور جنگوں میں ہزاروں لاکھوں فلسطینی مسلمان شہید ، زخمی یا بے گھر ہوچکے ہیں اورلاکھوں افراد مقبوضہ فلسطین کے اندر یا آس پاس کےملکوں میں کیمپوں کے اندر قابلِ رحمت حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔اوراقوام متحدہ اوراس کے کرتا دھرتا امریکہ اور پورپ کےممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’ مسجد اقصیٰ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا مسئلہ ‘‘ میں مسجد اقصیٰ کےمقدمہ کوہی پیش کیا گیا ہے۔ مسجد اقصیٰ کا یہ مقدمہ آج کےساس گلوبل ولیج کےہر مسلمان کامقدمہ ہے بلکہ دنیا کے ہر انصاف پسند کامقدمہ ہے۔اقصیٰ کے حق میں عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کو اپنی صد بلند کرکے اپنا حصہ ڈالنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور مسلمانوں کےقبلۂ اول کو آزاد اور دنیا بھر کےمظلوم مسلمانوں کی مددفرمائے (م۔ا)
اسلام شریعت میں قصاص سے مراد برابر بدلہ ہے۔ یعنی جان کے بدلے جان، مال کے بدلے مال، آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت۔ یعنی جیسا کوئی کسی پر جرم کرے اسے ویسی ہی سزا دی جائے۔اور اسلام نے انسانی جان کو جو احترام دیا ہے وہ سورۃ مائدۃ کی اس آیت کریمہ سے ہی واضح ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا(المائدۃ:32) اسلام کا عطا کردہ نظام ِقصاص ودیت دیگر قوانینِ عالم کے مقابلے میں نہایت سیدھا سادہ ہے۔مثلاً قصاص لینا امام یا حاکم کا فرض ہے بشرطیکہ اولیائے مقتول قصاص کے طالب ہوں۔قاتل کو بھی بلاعذر تسلیم نفس کردینا چاہیے کیونکہ یہ حق العبد ہے۔ اور تیسری بات یہ کہ مقدمے کافیصلہ کرتے وقت ازروئے قرآن حاکم پر یہ واجب ہے کہ وہ فریقین کےمابین کامل تسویہ برتے ۔اسلام سے قبل قصاص کے معاملے میں بہت زیادتی کی جاتی تھی یعنی بعض معاملات میں قصاص میں قتل کر کے او ربعض میں دیت لےکر چھوڑ دیا جاتا تھا اوراس کا کوئی ضابطہ نہ تھا۔ کبھی ایک آدمی کےعوض قبیلے کے سینکڑوں معصوم افراد کوموت کےگھاٹ اتاردیتے ایسا بھی ہوتا کہ اگر کسی بڑے نے کسی قبیلے کے ایک فرد کو قتل کردیا تو اس قاتل سےکہا جاتا کہ ہم تجھے اس وقت چھوڑسکتے ہیں جب تو اجازت دے کہ ہم تیرے سوغلاموں کو قتل کردیں۔ اگر وہ اجازت دے دیتا تو اس کے سو غلاموں کے بے دریغ تہہ تیغ کردیا جاتا ۔تو نبیﷺ نے انسانی جان کی قدروقیمت کے تحفظ کی خاطر قصاص ودیت کے رہنما اصول بیان کیے۔ علامہ ڈاکٹر احمد فتحی بہنسی برصغیر کے نامور عالم دین ہیں ۔علامہ کو اسلام کے قانون جنائی کے سلسلے میں مہارت تامہ حاصل تھی ۔انہوں نےاس موضوع پر متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ زیرنظر کتاب ’’ القصاص فی الفقہ الاسلامی‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کتاب کی سب بڑی خوبی یہ ہےکہ یہ جامع او ر مختصر ہے اور اپنے موضوع کو متعارف کرانے کے سلسلے میں یہ نہایت ہی مفید کوشش ہے۔ اردو دان طبقہ کے استفادہ کےلیے مولانا سید عبد الرحمنٰ بخاری ریسرچ آفیسر قائداعظم لائبریری نےاسے اردو میں منتقل کیا اور ابتداء میں مولانا نے ایک نہایت ہی فاضلانہ مقدمہ تحریر فرمایا ہے ا ورانگریزی داں طبقہ کی آسانی کےلیے کتاب کے آخر میں فرہنگ اصطلاحات فقہیہ کو شامل کیا ہے تاکہ غیر عربی داں حضرات بھی کتاب سے استفادہ کرسکیں۔اللہ تعالیٰ مصنف ،مترجم کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ آمین(م۔ا)
آج مہذب دنیا کے لوگوں کا تقاضا ہے کہ ہمیں ایسا مذہب بتاو جو نہ صرف اخروی وعدہ جنت ہم کو دے،بلکہ دنیا میں بھی کمال ترقی تک پہنچائے۔مسلمان ان کے اس تقاضا کو پورا کرنے کے مدعی ہیں،کہتے ہیں کہ آو ہم اسلام میں آپ کو یہ کوبی دکھاتے ہیں۔اسلام کی تاریخ زندہ ہے وہ بتاتی ہے کہ اسلام نے محض اخروی وعدوں پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ دنیوی عزت دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔نہ صرف وعدہ کیا بلکہ جو کہا وہ دلوا بھی دیا۔اسلام کی تاریخ میں اس کا بڑا واضح ثبوت موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ ابتداء میں تنہا تھے لیکن آخر عمر میں آ کر ایک باقاعدہ حکومت کے صاحب تاج وتخت ہو کر جلوہ نما ہوئے تھے۔اور ایسا ہونا کوئی اتفاقی امرنہ تھا بلکہ وعدہ خداوندی کی تکمیل تھا۔نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد خلافت کے مسئلہ پر شیعہ سنی میں عرصہ دراز سے تنازع چلا آرہا ہے،اور قدیم زمانے سے فریقین نے اس مسئلہ پر بڑی بڑی کتب لکھی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" خلافت رسالت " جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین ،امام المناطرین مولانا حافظ ثناء اللہ امرتسری کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے شیعہ سنی کے اس قدیم تنازعے کو ایک جدید انداز سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
حرمین شریفین (مکہ ومدینہ ) تمام مسلمانوں کےدینی وروحانی مرکزہیں اور حرم مکی مسلمانوں کا قبلہ امت کی وحدت کی علامت اوراتحاد واتفاق کا مظہر ہے۔ پوری دنیا کےمسلمان نمازوں کی ادائیگی کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں اوراس کے علاوہ دیگر اسلامی شعائر وعبادات حج او رعمرہ بھی یہاں ادا ہوتے ہیں ۔ دنیا کے تمام شہروں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سب سے افضل ہیں اور فضیلت کی وجہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کا ہونا جبکہ مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کا ہونا ہے۔ان دونوں کی حرمت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔سعودی حکومت کی حرمین شریفین کے تحفظ اور دنیا بھر میں دین اسلام کی نشر واشاعت ، تبلیغ کے لیے خدمات لائق تحسین ہیں ۔ لہذا سعودی عرب کا دفاع اور حرمین شریفین کا تحفظ عالمِ اسلام کے مسلمانوں کابھی دینی فریضہ ہے ۔ کیونکہ سعودی عرب میں حرمین شریفین امتِ مسلمہ کےروحانی مرکز ہیں ۔حالیہ ایام میں سعودی اور یمن کے مسئلہ ماشاء اللہ عالم اسلام کے مسلمانوں نے سعودی عرب کے دفاع اور حرمین کے تحفظ کے لیے مثالی کردار ادا کیا۔پاکستان میں بھی حرمین شریفین کےتحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تحریک شروع کی گئی اس تحریک میں بالعموم تمام دینی اور سیاسی جماعتوں نےبھر پور حصہ لیا اور جماعۃ الدعو ۃ پاکستان نےبالخصوص تحریک تحفظ حرمین شریفین میں ہراول دستے کے طور پر نمایاں کردادر ادا کیا ہے اوراس خالص دینی مسئلہ کو فرقہ وارانہ اورمتنازعہ بنانے کی سازش کوناکام بنایا ہے اور پاکستان کےتمام مسلمانوں کوایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے حرمین شریفین اور سعودی عرب کے دفاع کا عہد وپیمان کیا اور پورے ملک میں سیمینارز،جلسوں اور ریلیوں کی شکل میں مسلمانوں کوبیدار کیا اور ملکی سطح پر اس تحریک کو منظم اور فعال کرنے میں سب سےنمایاں اور قائدانہ کردار پروفیسر حافظ محمد سعید ﷾ امیر جماعۃ الدعوۃ پاکستان نے ادا کیا ۔ زیر نظر کتاب ’’ لبیک حرمین شریفین‘‘ پرو فیسر حافظ سعید صاحب کے دوران تحریک سعودیہ ، یمن حالات پر کی جانے والی دس تقاریر، مختلف 6 نیو چینل کودئیے گے انٹرویوز، اور خطبات کا مجموعہ ہے ایمان افروز اور جذبہ ایمانی سے سرشار یہ شاندار گلدستہ جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی رہنما محترم جنا ب قاری محمد یعقوب شیخ ﷾ نےبڑی دلچسپی سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو قارئین کےدلوں میں حرمین شریفین کےساتھ عقیدت ومحبت پیدا کرنے کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ ا)
امام محمد بن اسماعیل بخاری کی شخصیت اور ان کی صحیح بخاری محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ امیر االمؤمنین فی الحدیث امام المحدثین کے القاب سے ملقب تھے۔ ان کے علم و فضل ، تبحرعلمی اور جامع الکمالات ہونے کا محدثین عظام او رارباب ِسیر نے اعتراف کیا ہے امام بخاری ۱۳ شوال ۱۹۴ھ، بروز جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے۔ دس سال کی عمر ہوئی تو مکتب کا رخ کیا۔ بخارا کے کبار محدثین سے استفادہ کیا۔ جن میں امام محمد بن سلام بیکندی، امام عبداللہ بن محمد بن عبداللہ المسندی، امام محمد بن یوسف بیکندی زیادہ معروف ہیں۔اسی دوران انہوں نے امام عبداللہ بن مبارک امام وکیع بن جراح کی کتابوں کو ازبر کیا اور فقہ اہل الرائے پر پوری دسترس حاصل کر لی۔ طلبِ حدیث کی خاطر حجاز، بصرہ،بغداد شام، مصر، خراسان، مرو بلخ،ہرات،نیشا پور کا سفر کیا ۔ ان کے حفظ و ضبط اور معرفت حدیث کا چرچا ہونے لگا۔ ان کے علمی کارناموںم میں سب سے بڑا کارنامہ صحیح بخاری کی تالیف ہے جس کے بارے میں علمائے اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قرآن کریم کے بعد کتب ِحدیث میں صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے۔ فن ِحدیث میں اس کتاب کی نظیر نہیں پائی جاتی آپ نے سولہ سال کے طویل عرصہ میں 6 لاکھ احادیث سے اس کا انتخاب کیا اور اس کتاب کے ابواب کی ترتیب روضۃ من ریاض الجنۃ میں بیٹھ کر فرمائی اور اس میں صرف صحیح احادیث کو شامل کیا۔ امام بخاری کی صحیح بخاری کے علاوہ بھی متعد د تصانیف ہیں۔ اسلامی آاداب واطوار کے موضوع پر امام بخاری نے ایک مستقل کتاب مرتب فرمائی ہے۔ جو ’’الادب المفرد‘‘ کے نام سےمعروف ومشہور ہے۔ اس میں تفصیل کے ساتھ ان احادیث کو پیش فرمایا ہے جن سے ایک اسلامی شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔ ایک مسلمان کے شب وروز کیسے گزرتے ہیں وہ اپنے قریبی اعزہ وقارب کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے دوست واحباب اور پاس پڑوس کے تعلق سے اس کا کیا برتاؤ ہوتا ہے ۔ ذاتی اعتبار سےاسے کس مضبوط کردار اور اخلاق کا حامل ہوتا چاہیے۔ان جیسے بیسیوں موضوعات پر امام بخاری نے اس کتاب میں احادیث جمع فرمائی ہیں ۔ اس کتاب میں ابواب کی کل تعداد 644 اور مرفوع وموقوف روایات کی تعداد1322 ہے ۔اس کتاب پر محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی نے علمی وتحقیقی کام کر کے اس کی افادیت دوچند فرمادی ہے ۔اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر بعض اہل علم نے اس کی شروح وحواشی کا کام بھی کیا ہے۔اور اسی طرح اس کےمتعدد ترجمے بھی کیے گئےہیں ۔ سب سے پہلے نواب صدیق حسن خاں قنوجی نے’’ توفیق الباری ‘‘ اور مولانا عبدالغفار المہدانوی نے’’سلیقہ‘‘ اور مولانا عبد القدوس ہاشمی نے’’ کتاب زندگی ‘‘ کےنام سے اس کا ترجمہ کیا ۔ زیرتبصرہ ترجمہ ادب المفرد کا چوتھا محترم مولانا ارشد کمال﷾نے کیا ہے۔ مولاناموصوف ایک منجھے ہوئے صاحب علم نوجوان ہیں جن کے قلم سے کئی مفید کتابیں عالم ِ وجود میں آئی ہیں او راللہ تعالیٰ نے انہیں شرفِ قبولیت سے نوازا ہے ۔مولانا ارشد کمال ﷾ نے ’’الادب المفرد‘‘ کا ترجمہ ہی نہیں اس کی احادیث کی مختصر تخریج بھی کی ہے اور شیخ البانی نے احادیث پر جو حکم لگایا ہے اسے بھی ترجمہ کا حصہ بنایا ہے۔ یوں ترجمہ کی افادیت سہ چند ہوگئی ہے۔ اور شیخ الحدیث حافظ عبدالستار الحماد﷾کی نظرثانی سے اس ترجمہ کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔مکتبہ اسلامیہ کےمدیر جناب مولانا محمد سرور عاصم﷾ نے اسے طباعت کے اعلیٰ معیار پر شائع کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کتاب ہذا کے مصنف ،مترجم ، اورناشر کی خدمت حدیث کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔ آمین( م۔ا)
زراعت اور انسان کا رشتہ آفرینش انسانی سے شروع ہو جاتا ہے۔اگر غور کیا جائے تو لا تقربا من ھذہ الشجرۃ کا اشارہ اس طرف ہے کہ زراعت کی طرف رغبت انسانی فطرت میں شدت کے ساتھ موجود ہے اور مطلوب یہ ہے کہ زراعت کی یہ شدید رغبت دائرہ رضا الہی کے اندر محدود رہے۔یہ آیت انسانی تاریخ میں زراعت اور شجر کاری کا تعین بھی کرتی ہے۔یعنی انسان کے وجود میں آنے سے پہلے درخت موجود تھا۔گویا انسان نے جو سب سے پہلا مشاہدہ کیا وہ زمین کے روئیدگی کے عمل کا مشاہدہ تھا۔انسان کی جسمانی بقاء کا دارومدار بھی کلی طور پر زراعت پر ہے۔کیونکہ جسمانی بقاء کے لئے نباتات از بس ضروری ہیں۔انسان آج کے دور کا ہو یا قبل از تاریخ کا کسی نہ کسی طرح زراعت سے وابستہ ضرور رہتا ہے۔انبیاء کرام علیھم السلام کی تعلیمات میں زراعت کے بارے میں واضح تعلیمات موجود ہیں۔پاکستان بننے کے بعد زراعت میں بھی کچھ نئے مسائل پیدا ہوئے ،مثلا متحدہ ہندوستان میں مسلم ملکیت کی زمینوں کے بارے میں الجھن تھی کہ یہ خراجی ہیں یا عشری؟ زیر تبصرہ کتاب " اسلام کا قانون اراضی "محترم نصرت علی اثیر صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے عشر کے انہی مسائل کااسلامی حل بیان کیا ہے۔یہ کتاب مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری کے زیر اہتمام تیار کی گئی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
دنیا کے بہت سے الفاظ اور اصطلاحات کی طرح "آزادی " کا مفہوم بھی اسلامی لغت میں اس مفہوم سے بہت مختلف ہے جو دنیا کی دوسری قومیں اس لفظ سے سمجھتی ہیں۔مسلمانوں کے نزدیک آزادی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا ہر اطاعت اور بندگی سے آزاد ہو جائے۔یہاں تک کہ خود اپنے نفس،اپنی خواہشات اور اپنی قوم کی حاکمیت کا کوئی پھندا بھی اس کی گردن میں باقی نہ رہے۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلام میں آزادی کا تصور "دراصل مولانا ابو الکلام آزاد کے ان مقالات کا مجموعہ ہے جو "الہلال" میں دور اول میں شائع ہوتے رہے۔آپ نے اس کتاب میں اسلام کے تصور آزادی کے بارے میں بحث کی ہے۔آپ کے نزدیک قوم کے نظام اخلاق ونظام عمل کے لئے اس سے زیادہ کوئی خطرناک امر نہیں کہ موت کا خوف،شدائد کا ڈر،عزت کا پاس،تعلقات کے قیود اور سب سے آخر قوت کا جلال وجبروت ،افراد کے افکار وآراء کو مقید کر دے۔ان کا آئینہ ظاہر ،باطن کا عکس نہ ہو۔ان کا قول انکے اعتقاد قلب کا عنوان نہ ہو،اور ان کی زبان ان کے دل کی سفیر نہ ہو۔آپ کے نزدیک اخلاق کی جان حریت رائے،استقلال فکر اور آزادی قوم ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
جہاد دینِ اسلام کی چھوٹی ہے ۔جہاد اعلائے کلمۃ اللہ کا سب سے بڑا سبب او رمظلوموں ومقہوروں کو عد ل انصاف فراہم کرنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو دعوت و انذار کےبعد انتہائی حالات میں اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کی اجازت دی ہے او راللہ کے راستے میں لڑنےوالے مجاہد کے لئے انعام و اکرام اور جنت کا وعدہ کیا ہے اسی طرح اس لڑائی کو جہاد جیسے مقدس لفظ سے موسوم کیا ہے۔ جہادکی اہمیت وفضلیت کے حوالے سے کتب احادیث میں ائمہ محدثین نے باقاعدہ ابواب قائم کیے ہیں او رکئی اہل علم نے اس پر مستقبل عربی اردوزبان میں کتب تصنیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’الجہاد‘‘ڈاکٹر محمداسحاق رانا کی کاوش ہے ۔جسے انہوں نے مدینہ کےقیام کےدوران تحریر کیا تھا اس کتابچہ میں قرآن وسنت کی روشنی میں جہاد کے فضائل بیان کیے ہیں ۔موصوف 1974ء تا 1980ء تک مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے ۔ آپ اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹی بڑی کتب کے مصنف ہیں۔ (م۔ا)
اسلام ایک کامل دین اورمکمل دستور حیات ہے، جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے، اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زوردیتاہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتاہے،اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے،اسلام کاجس طرح اپنانظامِ معیشت ہے اوراپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنانظامِ سیاست وحکومت ہے،اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے،لیکن اسلام میں سیاست شجرِ ممنوعہ نہیں ہے،یہ ایسا کامل ضابطہٴ حیات ہے جو نہ صرف انسان کو معیشت ومعاشرت کے اصول وآداب سے آگاہ کرتا ہے، بلکہ زمین کے کسی حصہ میں اگراس کے پیرو کاروں کواقتدار حاصل ہو جائے تووہ انہیں شفاف حکم رانی کے گربھی سکھاتاہے، عیسائیت کی طرح اسلام”کلیسا“ اور” ریاست“ کی تفریق کاکوئی تصورپیش نہیں کرتا،بقول ڈاکٹرمحمود احمدغازی کے:”اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چناں چہ ماوردی نے یہ بات لکھی ہے کہ جب دین کم زورپڑتاہے تو حکومت بھی کم زورپڑجاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہو تی ہے تودین بھی کم زورپڑجاتاہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔“(محاضراتِ شریعت :ص287) زیر تبصرہ کتاب" اسلامی ریاست کے اساسی اصول وتصورات " جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین مولانا سید داود غزنوی کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے اسلامی حکومت کے بنیادی اصول وتصورات بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اسلام کا نظام ِ حکومت سیاسی دنیا کےلیے ناموسِ اکبر ہے حاکمیت کی جان ہے ۔ اسلامی نظام حکومت کا مآخذ اللہ کاآخری قانون ہے۔تمام برائیوں کا خاتمہ کرتاہے اور تمام بھلائیوں کاح کم دیتا ہے جو انسان ِ کامل کو اللہ تعالیٰ کا نائب بناتا ہے۔ اوراسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے، اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی حکومت کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضہ ہے ۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور حکومت کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’اسلام کا نظام حکومت‘‘مولانا حامد الانصاری غازی کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اسلام کی ریاستِ عامہ کا مکمل دستورِ اساسی اور ضابطۂ حکومت جس میں اسلام کےنظامِ حکومت کے تمام شعبوں ،اس کےنظریہ سیاست وسیادت کے تمام گوشوں ، ریاست ومملکت اور اس کےمتعلقات اور عام دستوری معلومات کو وقت کی نکھری ہوئی زبان اورجدید تقاضوں کی روشنی میں نہایت تفصیل سے واضح کیاگیا ہے۔( م۔ا)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اورانبیاء ورسل کےذریعے اپنےاحکامات ان تک پہنچائے۔اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کی پابندی کرنا عین عبادت ہے۔ منہیات سے بچنا اور حرام سے اجتناب کرنا ایک حدیث کی رو سے عبادت ہی ہے۔ حرام کےاختیار کرنے سے عبادات ضائع ہوجاتی ہیں اورایک شخص کو مومن ومتقی بننے کے لیے حرام کردہ چیزوں سےبچنا ضروری ہوتا ہےاور اسلام نےبہت سی اشیاء کوحرام قرار دیا ہے جن کی تفصیل قرآن وحدیث کے صفحات پربکھری پڑی ہے۔ بعض علما ء نےاس پر مستقل کتب تصنیف کی ہیں ۔ان میں سے علامہ یوسف قرضاوی کی زیرتبصرہ کتاب ’’اسلام میں حلال وحرام ‘‘ بڑی اہم ہے اس کتاب میں علامہ قرضاوی نےحلال وحرام پر مفصل بحث کی ہے۔ لیکن انہوں نے چند مقامات پر ٹھوکر کھائی ہےجس پر علامہ البانی اور دیگر علماء نے ان کاخوب محاکمہ کیاہے۔۔ البتہ مجموعی لحاظ سے کتاب بہت مفید ہے۔ محدث العصر علامہ محمد ناصر الدین البانی ﷾ نے اس کتاب کا بغور مطالعہ کیاا ور اس کی تمام احادیث کی فنی تخریج کی جس سے اس کتا ب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اور اسی طرح فاضل مترجم جناب شمس پیر زادہ نے ترجمہ کے ساتھ ساتھ بعض مفید حواشی اورتبصرے بھی کیے ہیں جس سے کتاب کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ اپنے موضوع پر یہ ایک نہایت جامع اور بے نظیر کتاب ہے اور مصنف کایہ دعویٰ بالکل صحیح ہے کہ حلال وحرام کے موضوع پر اسلامی لٹریچر میں یہ کتاب اولین اضافہ ہے۔کتاب ہذا کا زیر تبصرہ ایڈیشن کراچی سے شائع شد ہے ۔ اس کتاب کا جدید ایڈیشن دارالابلاغ کے مدیر جناب طاہر نقاش صاحب نے بڑی عمدگی کےساتھ شائع کیاہے ۔جس پر پاکستان کےنامور عالم دین مفتی مبشرربانی ﷾نے بعض مقامات پر تعلیق لگادی ہےاور محترم طاہر نقاش صاحب نے شیخ البانی اور شیخ صالح بن فوزان کی تعلیقات وتحقیقات کواردو قالب میں ڈھال کر اس کتاب(کا فٹ