استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث حافظ ثناءاللہ مدنی﷾ فروری 1940 کو ضلع لاہور کے ایک گاوں کلن میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرہالی کلاں ضلع قصورمیں حاصل کی۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے جامع مسجد قدس چوک دالگراں کا رخ کیا۔ جہاں اپنے وقت کے ممتاز محدث اورمفتی مولانا حافظ عبداللہ روپڑی مسند تدریس پر جلوہ افروز تھے۔ آپ نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ اور اپنےاستاذ حافظ عبداللہ روپڑری کی خصوصی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔آپ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کےشاگردوں میں نمایاں مقام کے حامل ہیں ۔ آپ کے رفقاءمیں مولانا عبدالسلام کیلانی ، ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی ﷾(مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور ) بھی شامل ہیں۔ آ پ اعلٰی تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ جہاں آپ نے الشریعہ میں اعلی ڈگری حاصل کی۔ خصوصاً الشیخ ابن باز سے بھر پور استفادہ کیا۔ آپ کے اساتذہ کرام میں مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی ، حضرت مولاناحافظ محمد گوندلوی ، مولانا محمدعبدہ الفلاح ، مولانا عبدالغفار حسن ، الشیخ ابن باز ، علامہ ناصر الدین البانی، الشیخ محمد امین شقیطی ، الشیخ شبیہ الحمد ، الشیخ عبدالمحسن العباد، الشیخ حماد انصاری خصوصی طور پر شامل ہیں۔مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد آپ نے مختلف تعلیمی اداروں میں تدریسی فرائض سر انجام دیئے۔ لیکن بہترین تدریسی وقت جامعہ سلفیہ فیصل آباد اور جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہورمیں گزارہ۔1978 میں حافظ صاحب ﷾ جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد کے مدیر تعلیم مقرر ہوئے۔ آپ نے جامعہ سلفیہ کےنظم ونسق میں توازن پیدا کیا۔ آپ کے عہد میں سب سے زیادہ طلبہ مدینہ یونیورسٹی قبول ہوئے۔ آپ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پرتوجہ دیتے۔ اور قانون شکنی پر شدید مواخذہ کرتے تھے۔ آپ کی شخصیت بہت باوقار اور بارعب تھی۔ جس کے باعث طلبہ آپ کابہت احترام کرتے اور قواعد وضوابط کی پابندی کرتے۔ 1981میں حافظ صاحب جامعہ رحمانیہ ،لاہور تشریف لے آئے ۔ آپ ان جامعات میں ابوداود ، بدایۃ المجتہد،علم الفرائض جسے اہم اسباق پڑھاتے رہے۔ اور شیخ الحدیث کے منصب بھی فائز رہے ۔ آپ کا اسلوب تدریس بہت منفرداور متاثر کن تھا۔آپ کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جن میں بعض ممتاز مناصب پر تعلیمی انتظامی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر حافظ عبد الرشید اظہر ، حافظ مسعود عالم ،مولانا حافظ محمد شریف ، مولانا محمد یونس بٹ ، پروفیسر یٰسین ظفر ، مولانا عبدالعلیم یزدانی ، مولانا محمد شفیق مدنی ، مولاناقاری عبد الحلیم بلال، ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد ، قاری محمد ابراہیم میر محمدی ، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ، قاری صہیب احمدمیرمحمدی ، مولانا محمد اجمل بھٹی حفظہم اللہ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔آپ تقریباً 45مرتبہ بخاری شریف پڑھا چکے ہیں۔ آپ تدریس کےساتھ فتاوی نویسی کا کام بھی کرتے رہے آپ کےعلمی وتحقیقی فتاوی جات ماہنامہ محدث اور ہفت روزہ الاعتصام میں مسلسل شائع ہوتے رہے ۔یہ فتاوی جات دوجلدوں میں کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں ۔موصوف نے اس کے علاوہ جامع الترمذی کی شرح جائزہ الاحوذی کےنام سے عربی زبان میں تحریر کی جو دو جلدوں میں شائع ہوچکی ہے ۔نیز الو صائل فی شرح شمائل بھی آپ ہی کی تصنیف ہے ۔آپ سعودی عرب ، کویت اور امارات میں مسند احمد کےعلاوہ متعد د کتبِ حدیث درساً پڑھا چکے ہیں ۔اس لیے آپ کے شاگردوں میں سیکڑوں عرب حضرات بھی شامل ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ فتاوی حافظ ثناء اللہ مدنی ‘‘ ہفت روزہ الاعتصام ،اور ماہنامہ محدث ، لاہور میں مطبوعہ فتاوی جات کی کتابی صورت ہے ۔حافظ صاحب کےفتاوی جات کی یہ دوسری جلد ہے جوکہ کتاب الطہارۃ ،کتاب المساجداورکتاب الصلاۃ پر مشتمل ہے ۔اس جلد کو حافظ صاحب نے اپنے شاگرد حافظ عبد لرؤف خان اور عبدالقدوس سلفی کی معاونت سے بڑے عمدہ انداز میں مرتب کر کے تخریج کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ یہ جلد تقریباً نوصد(900)صفحات پر مشتمل ہے ان فتاویٰ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں براہ راست کتاب و سنت سے استدلال کیا گیا ہے نیز فتوی دیتے ہوئے فقہ الواقع اور مقاصد شریعت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے ،جس سے ان میں اعتدال و توازن کی جھلک واضح نظر آتی ہے ۔ اس کی پہلی جلد حافظ صاحب کے تلمیذ حافظ عبدالشکور (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) نے مرتب کر کے پندرہ سال قبل فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ کے نام سے شائع کی تھی۔اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کی تدریسی وتصنیفی اور دعوتی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کو صحت وعافیت سےنوازے ۔(آمین) (م۔ا)
وجود باری تعالی فلسفہ، سائنس اور مذہب تینوں کا موضوع رہا ہے۔ عام طور اصطلاح میں اُس علم کو الہیات (Theology) کا نام دیا جاتا ہےکہ جس میں خدا کے بارے بحث کی گئی ہو۔ اس کتاب میں ہم نے فلسفہ ومنطق، سائنس وکلام اور مذہب وروایت کی روشنی میں وجود باری تعالی کے بارے میں بحث کی ہے۔ وجود باری تعالی کے بارے بڑے نظریات (mega theories) چار ہیں۔ نظریہ فیض، نظریہ عرفان،نظریہ ارتقاء اور نظریہ تخلیق۔ یہ واضح رہے کہ چوتھے نقطہ نظر کو ہم محض اس کی تھیورائزیشن کے عمل کی وجہ سے تھیوری کہہ رہے ہیں کہ اب اس عنوان سے نیچرل اور سوشل سائنسز میں بہت سا علمی اور تحقیقی کام منظم اور مربوط نظریے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے جبکہ حقیقت کے اعتبار سے یہ محض تھیوری نہیں بلکہ امر واقعی ہے۔ پہلا اور دوسرا نقطہ نظر فلاسفہ کا ہے کہ جو افلاطونی، نوافلاطونی، مشائین، اشراقین، عرفانیہ اور حکمت متعالیہ میں منقسم ہیں۔ افلاطونی اور مشائین کے علاوہ بقیہ کے ساتھ صوفی ہونے کا ٹیگ بھی لگا ہوا ہے دراں حالانکہ یہ صوفی کی بجائے دراصل افلاطونی، مشائی اور نوافلاطونی ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی گروہ وجود باری تعالی کے مسئلے میں متقدمین اور محققین صوفیاء پر اعتماد نہیں کر رہا بلکہ صحیح معنوں میں افلاطون (348-424 ق م)، ارسطو (348-424 ق م)اور فلاطینوس (205-270ء) کے رستے پر ہیں۔ تیسرا نقطہ نظر دہریوں اور منکرین خدا (Atheists) کا ہے کہ نیچرل سائنسز کے رستے ماہرین حیاتیات (Biologists) اور ماہرین طبیعیات (Physicists) کی ایک جماعت نے اس نظریے کو اختیار کیا ہے۔ وجود کے بارے یہ موقف نظریاتی فزکس اور نظریاتی بائیالوجی کے ماہرین کے ہاں معروف ہے۔ چوتھا نقطہ نظر صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ، محدثین عظام، متقدمین صوفیاء اور متکلمین رحمہم اللہ کا ہے۔ دوسرے نقطہ نظر نے صرف خالق کے وجود کو حقیقت جبکہ تیسرے نے صرف مخلوق کو حقیقت جانا۔ اور پہلے اور چوتھے نقطہ نظر میں خالق اور مخلوق دونوں کا وجود الگ الگ حقیقت ہیں۔ اس کتاب میں تین ابواب میں تینوں مکاتب فکر کےچاروں نقطہ ہائے نظر کا عقلی ونقلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کودنیابھر کے انسانوں کی رشد و ہدایت اور فلاح و نجات کے لیے مبعوث فرمایا اوران کے ذریعے دنیا میں علم وعمل اور جدو جہد کا ایک ایسا سلسلہ شروع فرمایا جو تا قیامت اسی طرح جاری وساری رہے گا۔ سب سے آخری نبی حضرت محمدﷺ کو اللہ تعالیٰ کاجو ازلی اور ابدی کلام عطاہوا۔ یہ کلام لائق اور قابل اتباع ہے اور اس میں جن باتوں کاحکم دیاگیا ہے ان تمام باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے تاہم اس کی وہ آیات خصوصاً قابل توجہ ہیں جن میں اہل ایمان کوخصوصی طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ آیات اپنے اندر بڑی گہرائی اور بصیرت رکھتی ہیں۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كے خطاب سے شروع ہونے والی آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی تعلیم دی ہےجو ان کے لیے دنیا اورآخرت میں فلاح وکامرانی کی ضامن اور ان کو ہر قسم کے نقصان وخسران سے بچانے والی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’اے ایمان والو‘‘ ماہنامہ محدث کے معروف مضمون نگار اور کئی کتب کے مصنف ومترجم محترم مولانا محمد رفیق چودھری﷾ کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ان تمام آیات کو جو ’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا‘‘کے خطاب سے شروع ہوتی ہیں جمع کر کے ان کا آسان اردو ترجمہ اور ساتھ ہی ان کی مختصر تشریح وتفسیر کردی ہے جس کی وجہ سے یہ ایک درس قرآن کی کتاب بن گئی ہے۔ قرآن مجید میں ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا‘‘ کے خطاب سے شروع ہونے والی آیات کی تعداد 89 ہے۔ فاضل مصنف کی زندگی کا طویل حصہ قرآن مجید سمجھنے سمجھانے اور اس کی نحوی وتفسیری مشکلات حل کرنے میں گزرا ہے۔کتاب ہذا کے علاوہ آپ کئی دینی کتب کے مصنف ومترجم ہیں جن میں قرآن کریم کا اردو وانگلش ترجمہ اور تفسیر البلاغ بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی تدریسی وتعلیمی اور تحقیقی وتصنیفی خدمات کو قبول فر مائے۔ آمین (م۔ ا)
ایمانیات میں سے ایک اہم عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کےفرشتوں کو تسلیم کیا جائے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ایک وہ لطیف اور نورانی مخلوق ہیں اور عام انسان انہیں نہیں دیکھ سکتے۔۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے مقبول بندوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ لیکن بعض کم فہم لوگ فرشتوں کے خارجی وجود کا انکار کرتے ہیں اور ان قرآنی آیات کی تلاوت جن میں فرشتوں کا ذکر ہے مجرد قوتوں کے طور پر کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایسے تصورات گمراہی پر مبنی ہیں۔ ملائکہ احکامِ الٰہی کی تعمیل کرنے والی معزز مخلوق ہے۔ ان کے وجود اور ان سے متعلقہ تفصیلات کو ماننا ایمان بالملائکہ کہلاتا ہے۔ فرشتوں کی کوئی خاص صورت نہیں، صورت اور بدن ان کے حق میں ایسا ہے کہ جیسے انسانوں کیلئے ان کا لباس، اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں اختیار کر لیں۔ ہاں قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے بازو ہیں، اس پر ہمیں ایمان رکھنا چاہیےکیونکہ فرشتوں پر ایمان رکھنا ایمان کا حصہ ہے یعنی ارکان ایمان میں سے ہے ۔اور ایمان بالغیب کے قبیل میں سے ہے ۔ اس لیے کوئی مسلمان بھی اس عقیدہ کا انکار نہیں کرسکتا۔ملائکہ کا انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’فرشتوں کا تعارف اور ان کی ذمہ داریاں ‘‘ دیار عرب کے مشہور عالم دین شیخ عمر سلیمان الاشقر ﷾ کی فرشتوں کے متعلق تحریر شدہ عربی کتاب ’’ عالم الملائکہ الابرار‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔فاضل مصنف نے قرآن وحدیث کےگلشن میں غوطہ زن ہوکر ملائکہ کےبارے میں بکھرے ہوئے موتیوں کویکجا کردیا ہے ۔مترجم کتاب محترم جناب محمد حسن ظاہر ی ﷾نےاردوداں طبقہ کے لیے عربی متن کی جاندار تسہیل اور ترجمانی کرتےہوئے مبہم ومشکل تعبیرات سے اجتناب کرتے ہوئے عبارات کو بہترین اسلوب میں ڈھال دیا ہے ۔ مفتی جماعت استاذ الاساتذہ مولاناابو الحسن مبشر احمدربانی ﷾ نے اس کتاب کی نظر ثانی کی ہے اور اس میں چند ایک مقامات پر مفید اضافہ جات کیے ہیں جس سے کتاب کی افادیت مزید دوچند ہوگئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے مؤلف ، مترجم ،اور کتاب کی اشاعت میں شامل تمام احباب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں فرشتوں کی دعاؤں کاحق دار بنائے اور ان کی لعنت سے محفوظ فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)
پیش آمدہ واقعات کے بارے میں دریافت کرنے والے کو دلیل شرعی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بارے میں خبر دینے کو فتویٰ کہتے ہیں۔ فتویٰ ایک اہم ذمہ داری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مفتی دینی معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں فتویٰ نویسی کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے؛ چونکہ ایک مسلمان کو دینی اوردنیاوی معاملات میں جدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛ اس لیے مسلم معاشرہ میں اس کی موجودگی ضروری ہوجاتی ہے ۔نبی کریم کے دور سے لے کر اب تک علماء نے اس اہم ذمہ داری کو نبھایا اور ا س کے اصول ،شرائط اور آداب پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ فتاویٰ دراصل مسلم معاشرہ کے اقتصادی ،معاشی ،سیاسی اور سماجی مسائل کے عکاس ہوتے ہیں۔ ان سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایک مخصوص معاشرہ کے لوگ ایک مخصوص وقت اور حالات میں کن مسائل کا شکار تھے؟ معاشرتی تغیرات اور علمی وفکری اختلافات کی نوعیت کیا تھی؟ ان مسائل کے حل کے لیے اس دور کے اہلِ علم نے کس نہج پر سوچ وبچار کی اور کن اصولوں کو پیش نظر رکھا ؟ نیز ان فتاویٰ نے مسلم معاشرہ پر کتنے گہرے اثرات مرتب کیے؛چنانچہ امام مالک ،امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل،امام مالک،ابن تیمیہ اور برصغیر میں شاہ عبدالعزیز دہلوی کے فتاویٰ نے مسلم معاشرہ پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔بہت سے علماء کے فتاویٰ انقلابی اور فکری تحریکات کا باعث بنے۔تاہم بعض فتاویٰ مسلم معاشرہ میں فکری انتشار کا باعث بھی بنے اور یہ عمل برصغیر میں مسلمانوں کے زوال کے بعد شروع ہوا۔یہی وجہ ہے کہ بارہ سو سال میں اتنے فتاویٰ نہیں دیے گئے جتنے برصغیر کے دوسوسالہ غلامی کے زمانے میں جاری کیے گئے۔ اس دور میں ہمیں فتاویٰ میں شدت پسندی نیز مسلکی وسیاسی تکفیر کا عنصر بڑا واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب" فتاوی یوسف القرضاوی"علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے عربی فتاوی پر مشتمل ہے، جس میں انہوں نے عصر حاضر میں پیش آنے والے مسائل کا حل پیش کیا ہے۔ اردو ترجمہ محترم سید زاہد اصغر فلاحی نے کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔۔آمین(راسخ)
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی (1703-1762) برصغیر پاک و ہند کے ان عظیم ترین علماء ربانیین میں سے ہیں جو غیر متنازع شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ہر مسلک کے مسلمانوں کے ہاں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں ان کی شہرت صرف ہندوستان گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر ہے۔ وہ بلاشبہ اٹھارہویں صدی کے مجدد تھے اور تاریخ کے ایک ایسے دورا ہے پر پیدا ہوئے جب زمانہ ایک نئی کروٹ لے رہا تھا، مسلم اقتدار کی سیاسی بساط لپیٹی جا رہی تھی، عقلیت پرستی اور استدلالیت کا غلبہ ہو رہا تھا۔ آپ نے حجۃ اﷲ البالغہ جیسی شہرہ آفاق کتاب اور موطا امام مالک کی شرح لکھی اورقرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ دوران ترجمہ شاہ صاحب کے سامنے بہت سے علوم و معارف اور مسائل و مشکلات واشگاف ہوئے۔ شاہ صاحب نے ان کو حل کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے متعدد کتابیں اور رسالے لکھے۔ ترجمہ کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے "مقدمہ در قوانین ترجمہ" کی تصنیف فرمائی۔ لیکن شاہ ولی اﷲ کا ایک بے مثال کارنامہ ’’الفوز الکبیر فی اصول التفسیر ‘‘ہے۔ شاہ صاحب کی علوم القرآن پر اتنی گرفت ہے کہ ان کی تصنیف لطیف ’’الفوز الکبیر‘‘ سند کا درجہ رکھتی ہےچونکہ اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب تھی اسی لئے اناً فاناً سارے عالمِ اسلام میں اس کی شہرت پھیل گئی۔منیر الدین دمشقی اور مولانا سلمان ندوی نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ مفتی محمد سعید پالن پوری نے بھی اس کا عربی میں ترجمہ کیا، اور اردو و عربی میں شرح بھی لکھی۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہل علم نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا۔ زیر نظر کتاب ’’الفوز العظیم شرح اردو الفوز الکبیر‘‘ مولانا خورشید انور قاسمی فیض آبادی کی تصنیف ہے جو کہ پچاس سے زائد اہم کتابوں کے منتخب علوم اور محقق اساتذۂ کرام کے فیوض وافادات سے مزین الفوز الکبیر کی نہایت جامع اردو شرح ہے۔ فوز الکبیر کی یہ شرح طالبانِ علوم نبوت اور مدارس کے اساتذہ و طلباء کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے کیونکہ یہ کتاب اکثر مدارس اسلامیہ میں شامل نصاب ہے۔ (م۔ا)
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ ، حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کا نام زینب تھا۔ ان کا نام عائشہ لقب صدیقہ اور کنیت ام عبد اللہ تھی۔ حضور ﷺ نے سن 11 نبوی میں سیدہ عائشہ ؓ سے نکاح کیا اور 1 ہجری میں ان کی رخصتی ہوئی۔ آپ حضور ﷺ کی سب سے کم عمر زوجہ مطہرہ تھیں۔ انہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ نو برس گذارے۔ام الموٴمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ عنہاوہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضور کی زوجہ محترمہ اور ”ام الموٴمنین“ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ عنہاسے شادی سے قبل حضور نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہے… پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی بیوی ہے، آپ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت عائشہ ہیں۔صحیح بخاری میں حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا " مردوں میں سے تو بہت تکمیل کے درجے کو پہنچے مگر عورتوں میں صرف مریم دختر عمران، آسیہ زوجہ فرعون ہی تکمیل پر پہنچی اور عائشہ کو تمام عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر ۔آپ ﷺکو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ عنہا سے بہت محبت تھی، ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن عاص نے حضور سے دریافت کیا کہ… آپ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہ ؓ عنہا کو، عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! مردوں کی نسبت سوال ہے! فرمایا کہ عائشہ کے والدابوبکر صدیق کو۔ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ عنہا کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک واسطہ سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا۔حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کو کبھی ایسی مشکل پیش نہ آئی جس کے بارے میں ہم نے حضرت عائشہ ؓ عنہا سے پوچھا اور ان سے اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ نے حضور ﷺ کے وصال 48 سال بعد 66 برس کی عمر میں 17 رمضان المبارک 58 ہجری میں وصال فرمایا۔سید عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی زندگی خواتین اسلام کے لیے بہترین نمونہ ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ عفیفۂ کائنات سید عائشہ صدیقہ ؓ عنہا ‘‘ مولاناحکیم محمد ادریس فاروقی کی تصنیف ہے ۔انہوں نے اپنی ا س کتاب میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ عنہا کی تابناک سیرت کے درخشاں پہلو ، اخلاق وعادات اور ان کی دینی وعلمی خدمات کا شاندار تذکرہ کیا ہے ۔یہ کتاب معلومات افراء ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ اور سبق آموزبھی ہے ۔کتاب ایک دفعہ پڑھنا شروع کردیں تو ختم کیے بغیر چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو خواتین اسلام کےلیے نفع بخش بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
عقیدے کی بنیاد توحید باری تعالیٰ ہے اور اسی دعوت توحید کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انبیاء کو مبعوث کیا حتی کہ ختم المرسلین محمدﷺ کی بعثت ہوئی ۔عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ او رآپ کے صحابہ کرا م نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا وہاں علماء اسلام نےبھی دن رات اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا ۔ کیونکہ کسی بھی طریقۂ زندگی میں عقیدہ کی اہمیت بالکل ویسی ہی ہے جیسی انسانی جسم میں دل کی ۔عقیدہ انسانی زندگی کااصل محرک ہوتا ہےاسلامی زندگی کا رخ بھی اسلامی عقیدہ ہی متعین کرتا ہے ۔گزشتہ صدیوں میں عقیدۂ توحید کو واضح کرنے کے لیے بہت سی جید کتب ورسائل تحریر کیے گئے ہیں۔ زیرتبصرہ کتابچہ ’’عقیدہ کے مختصر ابواب ‘‘احمد بن محمد العتیق کا مرتب شدہ ہے ۔ فاضل مرتب نےاسے مبتدی طلباء کے ضرورت کے پیش نظر عربی زبان میں مرتب کیا ہے ۔تاکہ اس متن کو اپنے علمی سفر کی ابتدا ء میں ہر حرزجان بنالیں۔ اس کتابچہ کی افادیت کے پیش نظر محترم جناب محمد زکریا زکی صاحب نے اس مختصر کتابچہ کو اردو قارئین کےلیے اردوقالب میں ڈھالا ہے۔ اور فضیلۃالشیخ مولانا محمد اجمل بھٹی ﷾ (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کی زیر پرستی قائم ہونے والے ایک نئے ادارے ’’اویرنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ‘‘ نے اسے حسن طباعت سے آراستہ کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب میں شامل تمام احباب کی کاوشوں کو قبول فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔ اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات، تجارت ہو یا سیاست، عدالت ہو یا قیادت، اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔ اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان، سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔ اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے، جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام نے تمام انسانوں کے فرائض بیان کرتے ہوئے ان کے حقوق بھی بیان کر دئیے ہیں، حتی کہ اگر کوئی بچہ ابھی دنیا میں نہیں آیا، بلکہ شکم مادر میں پرورش پا رہا ہے تو اس کے حقوق واحکام کو بھی بیان فرما دیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "شکم مادر میں پرورش پانے والا بچہ جنین تخلیقی مراحل، حقوق واحکام"محترم مفتی محمد سراج الدین قاسمی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے شکم مادر میں پرورش پانے والے بچے کے تخلیقی مراحل اور اس کے حقوق واحکام کے مسائل کو بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
حقوق العباد میں سے سب سے مقدم حق والدین کا ہے ۔ اور یہ اتنا اہم حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق ِعبادت کے بعد جس حق ذکر کیا ہے وہ والدین کا حق ہے ۔والدین کا حق یہ کہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے ان کا مکمل ادب واحترم کیا جائے ،نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ان کی اطاعت وفرنبرداری کی جائے اور ہمیشہ ان کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے ۔ قرآن وحدیث سے یہ بات بہت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ والدین سے حسنِ سلوک سے رزق میں فراوانی اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے ۔ جب کہ والدین کی نافرمانی کرنے والا او ران کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہ آنے والا اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے اور بالآخر جہنم کا ایندھن بن جاتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت کے ساتھ ،والدین سے حسن سلوک نہ کرنے والے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور یہ ناراضگی اس کی دنیا اور آخرت دونوں برباد کردیتی ہے ۔ اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم والدین کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھیں ۔اس معاملے میں قرآن وسنت سے ہمیں جو رہنمائی ملتی ہے اس کی روشنی میں اپنے رویوں کودرست اور کردار کی تعمیر کریں۔ زیرتبصرہ کتاب ’’اولاد اوروالدین کےحقوق ‘‘برصغیر پاک وہند کی عظیم شخصیت نواب صدیق حسن خاں کی تصنیف ہے ۔نواب صاحب نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اس کتاب میں حقوق العباد میں سے والدین اور اولاد کے حقوق کو قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کیا ہے ۔ یہ کتاب نوجوانوں کو والدین کی اطاعت اور دینی احکامات سےمتعارف کرانےکے لیے بڑی قیمتی اوراہم ہے ۔ یہ کتاب پہلے اسعاد العباد بحقوق الوالدین والاولاد کے نام شائع ہوئی تھی او ر کتاب وسنت سائٹ پر موجود ہے ۔زیرتبصرہ کتاب اسی کتاب کا جدید کمپوزشدہ ایڈیشن ہے ۔جسے اسلامک سروسز سوسائٹی نے بڑے خوبصورت انداز میں حسن طباعت سے آراستہ کیا ہے ۔اللہ تعالی ٰ اسے عوام الناس کےلیےنفع بخش بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
سیرت نبوی ﷺ کامو ضوع ہر دور میں مسلم علماء ومفکرین کی فکر وتوجہ کا مرکز رہا ہے،اور ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وتوفیق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی بھی ہے۔قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔ اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے ،جو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلی اور اچھے وخوبصورت نمونہ وکردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،اور لکھی جا رہی ہیں،جو ان مولفین کی طرف سے آپ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "سیرت پاک۔مسائل ومباحث، باختصاص عربی ادبیات "انڈیا کے پروفیسر ابو سفیان اصلاحی کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے عربی، اردو، نظم اور نثر میں سیرت نبوی ﷺ پرلکھی گئی چند کتب کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ہمیں آپﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی بھی توفیق دے۔ آمین(راسخ)
بلاشبہ دنیا کی تاریخ میں عہد نبویﷺ سیاسی ،دینی اور اقتصادی اعتبار سے ممتاز ہے نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کےمختلف گوشوں پر سیرت نگاروں نے کاوشیں کیں۔ کتب احادیث بھی آپ ﷺہی کے کردار کا مرقع ہیں ۔عبادات ومعاملات ،عقائدوغزوات اور محامد وفضائل ،کو نسا باب اور فصل آپ کےتذکرے سے مزین نہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی حیات پاکیزہ سے متعلق صدہا مصنفینِ اسلام نےقابل قدر تصانیف لکھی ہیں اور اس کثرت سے لکھی ہیں کہ آج تک کسی علمی یا ادبی موضوع پر اس قدر سیر حاصل کتابیں تصنیف نہیں کی گئیں۔ سیرت مقدسہ کی ا ن کتابوں میں مصنفین نے جہاں رسول اکرم ﷺ کی پاک زندگی کے مختلف گوشوں پر پوری شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔اسی کے ذیل میں انہوں نے آپ کے ان فرامین مکاتیب عالیہ کابھی ذکر کیا ہے جو مختلف حالات کے زیر اثر دنیا کےمختلف حصوں میں ارسال کئے گئے۔ سیرت مقدسہ کی کوئی تصنیف مکاتیب النبیﷺ سے خالی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ مکتوبات نبوی اردو ‘‘مولاناسید محبوب رضوی کی کاوش ہے اس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ کے وہ مکاتیب گرامی جوآپ نے دعوت اسلام کے سلسلے میں مختلف قبیلوں ، بادشاہوں، سرداران قبائل اور دوسرے لوگوں کو ارسال فرمائے تھے اور جو معاہدات مختلف قبیلوں سے وقتاً فوقتاً کیے تھے ان سب کو اردو کے لباس میں یک جا کردیا ہے زبان سلیس اور عام فہم ہے ہرمکتوب گرامی یا معاہدہ سے پہلے مکتوب الیہ اور اس کے مقامی وجغرافیائی حالات بھی لکھ دیئے ہیں ۔ یہ کتاب نبی ﷺ کےتبلیغی خطوط، بین الاقوامی سیاسی معاہدات، تشریعی فرامین اور آبادکاری کےاحکام کا عظیم الشان ذخیرہ ہے۔ (م۔ا)
قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے، او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہےکہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دی ہیں ۔ اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم، نبی ﷺ کے فیض تربیت، قرآن مجید کی زبان اور زمانۂ نزول کے حالات سے واقفیت کی بنا پر، قرآن مجید کی تشریح، انتہائی فطری اصولوں پر کرتے تھے۔ چونکہ اس زمانے میں کوئی باقاعدہ تفسیر نہیں لکھی گئی، لہٰذا ان کے کام کا بڑا حصہ ہمارے سامنے نہیں آ سکا اور جو کچھ موجود ہے، وہ بھی آثار او رتفسیری اقوال کی صورت میں، حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں بکھرا ہوا ہے۔قرآن مجید کی خدمت کو ہر مسلمان اپنے لئے سعادت سمجھتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" تفسیر فضل القرآن " محترم مولانا فضل الرحمن بن محمد الازھری صاحب کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے متعدد دیگر تفاسیر سے استفادہ کیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔۔آمین(راسخ)
ماضی قریب اور عصر حاضرعلمی انقلاب کا دور کہلاتا ہے جس میں علوم و فنون کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی استفادہ کو آسان سے آسان تر بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں اور کی جارہی ہیں جس کے لیے مختلف اسلوب اختیار کیے گئے ہیں۔ اولاً سیکڑوں کتب سے استفادہ کر کے حروف تہجی کے اعتبار سے انسائیکلو پیڈیاز، موسوعات، معاجم، فہارس، انڈیکس، اشاریہ جات وغیرہ تیار کیے گئے ہیں کہ جس کی مدد سے ایک سکالر آسانی سے اپنا مطلوبہ مواد تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ جیسے اردو زبان میں تقریبا 26 مجلدات پر مشتمل دانش گاہ پنجاب یعنی پنجاب یونیورسٹی، لاہور کے زیر اہتمام تیار کیاگیا ’’اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ ہے یہ ایک معروف انسائیکلو پیڈیا ہے جس سے کسی بھی موضوع، معروف شخصیات اور شہروں کے حالات وغیرہ بآسانی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں کئی اور بھی موسوعات ہیں جیسے ’’اسلامی انسائیکلو پیڈیا‘‘ از سید قاسم محمود، انگریزی زبان میں انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا بھی بڑا اہم اورمفید ہے۔ اسی طرح عربی زبان میں بڑے اہم موسوعات و فہارس تیار کی گئی ہیں، موسوعۃ نظریۃ النعیم جسے سعودی عرب کے علماء کی ایک کمیٹی نے 12 جلدوں میں میں تیار کیا ہے۔ موسوعہ الفقہ الاسلامی جسے مصر کے علماء نے تیار کیا ہے۔ موسوعہ فقہیہ کویتیہ جسے وزارت اوقاف، کویت نے فقہ کی مہارت رکھنے والے جید اہل علم سے تقریبا 30 سال میں 45 جلدوں میں تیار کروایا ہے جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے۔ احادیث تلاش کرنے کے لیے موسوعہ اطراف الحدیث، معجم مفہرس لالفاظ الحدیث اور قرآنی آیات کی تلاش کرنے کے لیے معجم المفہرس لاالفاظ القرآن بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اب تو انٹرنیٹ اور کئی کمپیوٹر سافٹ وئیرز نے باحثین و سکالرز کے لیے تحقیق و تخریج کے امور اور سیکڑوں کتب سے استفادہ کو بہت آسان بنادیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ جامعہ پنجاب کی طرف سے تیارکردہ ہے۔ 1940ء میں یونیورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر مولوی محمد شفیع نے یہ تجویز پیش کی کہ پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام ایک دائرہ معارف اسلامیہ اردو میں ترتیب کی جائے جو اسلامی تہذیب و ثقافت کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہو لیکن اس وقت یونیورسٹی کے ارباب اقتدار کو اس پر آمادہ نہ کیا جاسکا۔ قیام پاکستان کے بعد جب ملکی حالات ساز گار ہوئے اور جامعہ پنجاب حقیقی معنوں میں مسلمانان پنجاب کے تعلیمی اور فکری جذبوں کی عکاس بنی تو دوبارہ اس امر کے لیے کوشش کی گئی۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے پنجاب یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے اجلاس منعقدہ 1948ء میں اردودائرہ معارف اسلامیہ کومرتب کرنے کی تجویز پیش کی تو یہ تجویز اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر حیات ملک کی ذاتی دلچسپی سے منظور ہوگئی۔ بالآخر 1950ء سے عملی طور پر اس موضوع پر ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کی صدارت میں کام کا آغاز ہوا جوکہ بعد میں تقریباً 44 سال میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ 1964ء میں اس کی پہلی جلد طبع ہوئی اور آخری جلد 1989ء میں شائع ہوئی اور پھر ان تمام جلدوں کا اشاریہ جلد 24 کی صورت میں 1993ء میں شائع ہوا۔ بعد ازاں پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف کی نگرانی میں اردو دائرہ معارف اسلامیہ کا اختصار کیا گیا۔ جسے قیام پاکستان کے پچاس سال پورے ہونے پر 1997ء میں ایک جلد میں ’’مختصر اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ پھر پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف کی ادارت میں مزید کام کیا گیا جسے تکملہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے نام سے جلد اول مارچ 2002ء اور جلد دوم جون 2008ء میں دانش گاہ پنجاب نے شائع کی۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ علمی، تاریخی، ادبی تحقیقی اور ثفافتی اعتبار سے ایک قابل قدر اور لائق ستائش کارنامہ ہے جو کہ ہر بڑی لائبریری کی ضرو رت ہے۔ (م۔ا)
سود کو عربی زبان میں ”ربا“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنیٰ زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے مختلف شعبوں میں جو بگاڑ پیدا کیا ہے اس کا سب سے بڑا سبب سود ہے ۔ ہماری معاشی زندگی میں سود کچھ اس طرح رچا بسا دیاگیا ہے کہ لوگ اس کو معاشی نظام کا ایک لازمی عنصر سجھنے لگے ہیں اور اس کےبغیر کسی معاشی سرگرمی کو ناممکن سمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ اب وہ امت مسلمہ جس کو اللہ تعالیٰ نےاپنی کتاب میں سود مٹانے کے لیے مامور کیا تھا جس کو سودخوروں سےاعلان جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب اپنی ہر معاشی اسکیم میں سود کوبنیاد بناکر سودخوری کےبڑے بڑے ادارے قائم کررکھے ہیں اور سودی نظام کو استحکام بخشا جار ہا ہے ۔جس کے نتیجے میں امت مسلمہ کو معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑھ رہا ہے ۔ سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دینِ اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ شریعت ِاسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے ۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’ سود حرمت، خباثتیں، اشکلات ‘‘تنظیم اسلامی پاکستان کے مرکزی شعبہ تعلیم وتربیت کے ناظم حافظ انجینیر نوید احمد کی کاوش ہے ۔اس کتابچہ میں فاضل مرتب نے وطن عزیز پاکستان میں انسداد سود کےمعاملہ میں کی جانے والی کوششو ں کی روداد مرتب کی ہے ۔ نیر اس کتابچہ میں حافظ عاکف سعید صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’’ تنظیم اسلامی کی انسداد سود کی جدو جہد کی روداد ‘‘ بھی شامل اشاعت ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کومرتب کرنے والے احباب اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہماری معیشت کو سود جیسی لعنت سے محفوظ فرمائے (آمین) (م۔ا)
یہ حقیقت ہےکہ شرک ظلمِ عظیم ہےشرک اکبر الکبائر ہے ،شرک رب کی بغاوت ہے شرک ناقابلِ معانی جرم ہے ، شرک ایمان کےلیے زہر قاتل ہے ، شرک اعمالِ صالحہ کے لیے چنگاری ہے ۔اور شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کوجہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے قرآن کریم میں شرک کوبہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے اور شرک ایسا گناہ کہ اللہ تعالیٰ انسان کے تمام گناہوں کو معاف کردیں گے لیکن شرک جیسے گناہ کو معاف نہیں کریں گے ۔شرک اس طرح انسانی عقل کوماؤف کردیتا ہےکہ انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے ۔پہلی قوموں کی تباہی وبربادی کاسبب شرک ہی تھا بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ جو شرک کے مفہوم کونہیں سمجھتےشرک کرنے کےباوجود وہ کہتے ہیں کہ وہ شرک نہیں کر رہے ان کے نزدیک شرک صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جیساکوئی اور رب بنالیا جائے او راس کی عبادت کی جائے اصل میں وہ شرک کی حقیقت سےناواقف ہیں اسی لیے تو وہ کہتے ہیں انہوں نے کونسا کو ئی اور رب بنایا ہے۔شرک جیسی مہلک بیماری سے بچنے اور تو حید کواختیار کرنے کا انسانیت تک پہنچانےکے لیے اللہ تعالیٰ نےانبیاء کرام کو مبعوث کیا اور قرآن مجید نےسب سے زیادہ زور توحید کےاثبات اورشرک کی تردید پر صرف کیا ہے ۔سید البشر حضرت محمد ﷺ نے بھی زندگی بھر لوگوں کو اسی بات کی دعوت دی اورزندگی کے آخری ایام میں بھی اپنی امت کو شرک سے بچنے کی تلقین کرتے رہے ۔بعد میں صحابہ کرام ، تابعین ، ائمہ محدثین اور علمائے عظام نے دعوت وتبلیغ ، تحریر وتقریر کے ذریعے لوگوں کو شرک تباہ کاریوں سے اگاہ کیا ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’شرک کے متعلق احکامات قرآنی ‘‘ ڈاکٹر توصیف عبدالرزاق کا مرتب شد ہ ہے ۔ مرتب موصوف نے اس مختصر کتابچہ کے شروع اور آخر میں اسماء حسنیٰ کو بمع ترجمہ درج کیا ہے او راندورنی صفحات میں اثبات توحید اورتردیدشرک کی آیات کو ترجمہ کے ساتھ پیش کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ مرتب کی اس کاوش کوقبول فرمائے ،اسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائےاور امت مسلمہ کو شرک سے محفوظ فرمائے ۔ (آمین) (م۔ا)
سیدنا حضرت ابراہیم اللہ تعالی کے جلیل القدر پیغمبر تھے ۔قرآن مجید میں وضاحت سے حضرت ابراہیم کا تذکرہ موجود ہے ۔قرآن مجید کی 25 سورتوں میں 69 دفعہ حضرت ابراہیم کا اسم گرامی آیا ہے ۔اور ایک سورۃ کا نام بھی ابراہیم ہے ۔حضرت ابراہیم نے یک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جو شرک خرافات میں غرق اور جس گھر میں جنم لیا وہ بھی شرک وخرافات کا مرکز تھا بلکہ ان ساری خرافات کو حکومتِ وقت اورآپ کے والد کی معاونت اور سرپرستی حاصل تھی ۔جب حضرت ابراہیم پربتوں کا باطل ہونا اور اللہ کی واحدانیت آشکار ہوگی تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے والد آزر کو اسلام کی تلقین کی اس کے بعد عوام کے سامنے اس دعوت کو عام کیا اور پھر بادشاہ وقت نمرود سےمناظرہ کیا اور وہ لاجواب ہوگیا ۔ اس کے باجود قوم قبولِ حق سے منحرف رہی حتیٰ کہ بادشاہ نے انہیں آگ میں جلانے کا حکم صادر کیا مگر اللہ نے آگ کوابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بنا دیا اور دشمن اپنے ناپاک اردادوں کے ساتھ ذلیل ورسوار ہوئے اور اللہ نے حضرت ابراہیم کو کامیاب کیا۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں انبیائے کرامکے واقعات بیان کرنے کامقصد خودان الفاظ میں واضح اور نمایا ں فرمایا ’’اے نبیﷺ جونبیوں کے واقعات ہم آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں ان سے ہمارا مقصد آپ کے دل کو ڈھارس دینا ہے اور آپ کے پاس حق پہنچ چکا ہے اس میں مومنوں کے لیے بھی نصیحت وعبرت ہے ۔‘‘ زیر تبصرہ کتاب ’’ سیرت ابراہیم اور اس کے تقاضے ‘‘ محترم جناب ابو سعد آصف عباس حماد﷾ کی جد الانبیاءسیدنا ابراہیم کی سیرت پر ایک محققانہ کاوش ہے ۔کتاب میں مذکورہ تمام احادیث محدثین کےاصول وضوابط کے مطابق ’’ حسن ‘‘ یا ’’صحیح‘‘ کے درجہ کی ہیں ۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کو ایک اچھوتے او ر نرالا اسلوب میں مرتب کیا ہے ۔ یہ کتاب سیرت ابراہیم کے ساتھ ساتھ توحید باری تعالیٰ کے حوالے سےایک جاندار کتاب ہے ۔فضیلۃ الشیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی تحقیق وتخریج سے اس کتاب کی افادیت مزید دوچند ہوگئی ہے ۔(م۔ا)
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب " تدریس لغۃ القرآن "محترم ابو مسعود حسن علوی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے عربی زبان کے اصول وقواعد کو بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآنِ کریم اور فن محدثین کے معیار کے مطابق مستند روایاتِ حدیث میں صادق ومصدوق حضرت محمد ﷺ کی قیامت سےقبل پیش آ نے والے واقعات کے بارے میں وارد شدہ خبروں کو پیش گوئیاں کہا جاتاہے۔جن کا تعلق مسائل عقیدہ سے ہے ۔عقیدۂ آخرت اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے جس سے انکار وانحراف در اصل ا سلام سےانکار ہی کے مترادف ہے ۔عقیدہ آخرت میں وقوع ِقیامت او راس کی علامات ،احوال بعد الممات ،حساب وکتاب،جزاء وسزا او رجنت وجہنم وغیرہ شامل ہیں۔اس مادی وظاہر ی دنیا میں مذکورہ اشیا کاہر دم نظروں سےاوجھل ہونا ایک حد تک ایمان بالآخرت کو کمزور کرتا رہتا ہے لیکن اس کے مداوا کے لیے نبی ﷺ نے قیامت سے پہلے کچھ ایسی علامات وآیات کے ظہور کی پیشن گوئیاں فرمائی ہیں جن کا وقوع جہاں لامحالہ قطعی ولازمی ہے وہاں اس کے اثرات مسلمانوں کےایمان کومضبوط بنانے اور نبی ﷺ کی نبوت صادقہ کے اعتراف واثبات پر بھی معاونت کرتے ہیں۔ اور غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی غیب دان ہے اس کےعلاوہ غیب کی باتوں کو کوئی نہیں جانتا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’قرآن وحدیث کی پیش گوئیاں اورمسئلہ علم الغیب‘‘شیخ ابو یاسر﷾ کی علمی اور تحقیقی تصنیف ہے ۔ انہوں نےاس کتاب میں قرآن وحدیث میں 39 مقامات پر جو پیش گوئیاں بیان ہوئی ہیں انہیں اس میں جمع کیا ہے ۔ اور نبی کریم ﷺ کے دور میں ثابت ہونے والی پیش گوئیاں اور دور صحابہ کے بعد کی پیش گوئیوں کی نشاندہی کی ہے ۔ نیز مسئلہ علم غیب کو قرآن اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ صحابہ کرام اور مسئلہ علم غیب،شرح وبسط کےساتھ تحریر کیا ہے ۔یہ کتاب قرآن و احادیث کی روشنی میں اپنے موضوع پر بہترین کتاب ہے ۔(م۔ا)
عقیدے کی بنیاد توحید باری تعالیٰ ہے اور اسی دعوت توحید کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انبیاء کو مبعوث کیا حتی کہ ختم المرسلین محمدﷺ کی بعثت ہوئی ۔عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ او رآپ کے صحابہ کرا م نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا وہاں علماء اسلام نےبھی دن رات اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا ۔ کیونکہ کسی بھی طریقۂ زندگی میں عقیدہ کی اہمیت بالکل ویسی ہی ہے جیسی انسانی جسم میں دل کی ۔عقیدہ انسانی زندگی کااصل محرک ہوتا ہےاسلامی زندگی کا رخ بھی اسلامی عقیدہ ہی متعین کرتا ہے ۔گزشتہ صدیوں میں عقیدۂ توحید کو واضح کرنے کے لیے بہت سی جید کتب ورسائل تحریر کیے گئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’ مجمل اصول عقیدہ اہل سنت والجماعت ‘‘ عالم عرب کے ممتاز عالم دین شیخ ناصر العقل کا عقیدہ کے موضوع پر نہایت مختصر اور جامع ترین عربی رسالہ کا ترجمہ ہے شیخ موصو ف نےاس کتابچہ کہ بڑے احسن انداز سے عام فہم طریقے کے مطابق مرتب کیا جسے عرب وعجم میں بڑی پذیرائی ہوئی اس کے کئی احباب نے اردو تراجم بھی کیے ۔یہ ترجمہ محترم جناب محمد زکریا خان نے کیا ہے اور اسلامک سنٹر ،ملتان نے اسے حسن طباعت سے آراستہ کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس مختصر کتابچہ کو لوگوں کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔ (آمین) (م۔ا)
اس روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء ورسل کی مقدس اصطلاح سے یاد رکرتے ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور پیغمبرِاول ایک ہی شخصیت حضرت آدم کی صورت میں فریضۂ ہدایت کےلیے مبعوث ہوئے ۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کردیتاہے ۔درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانےاور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اورانسان کےلیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں ۔ آج انسانیت کےپاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نےاسوۂ حسنہ قراردیا اور اس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیے’’اسوۂحسنہ‘‘ ہیں ۔ حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پور سامان رکھتی ہے ۔ ۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔ زیرتبصرہ کتاب ’’ پیغمبر صحرا ﷺ ‘‘ کے ایل گابا کی سیرت النبی ﷺ پر انگریزی تصنیف کا اردوترجمہ ہے اس کتاب میں مصنف نے نبی کریم ﷺ کے تمام اہم حالات وخصائص اس انداز سے بیان کیے ہیں کہ قاری ہزاروں سال پہلے کےعربستان میں اس لق ودق صحرا اور اس کی بدویانہ زندگی میں محمدﷺ کو چلتا پھرتا، جیتا جاگتا، اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہدکرتے ہوئے خود محسوس کرے ۔(م۔ا)
تمام انبیاء کرام ایک ہی پیغام اورایک ہی دعوت لےکر آئےکہ لوگو! صرف اللہ کی عبادت کرو او راس کےسوا تمام معبودوں سےبچو۔تمام انبیاء کرام سالہاسال تک مسلسل اس فریضہ کو سرانجام دیتے رہے انھوں نے اس پیغام کو پہنچانےکےلیے اس قدر تکالیف برداشت کیں کہ جسکا کوئی انسان تصور بھی نہیں کرسکتاہے ۔ حضرت نوح نے ساڑے نوسوسال کلمۂ توحید کی طرف لوگوں کودعوت دی ۔ اور اللہ کے آخری رسول سید الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نےبھی عقید ۂ توحید کی دعوت کے لیے کس قدر محنت کی اور اس فریضہ کو سر انجام دیا کہ جس کے بدلے آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف ومصائب سے دوچار ہوناپڑا۔ عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ او رآپ کے صحابہ کرا م نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا وہاں علمائے اسلام نےبھی دن رات اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا ۔ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ کتاب التوحید مترجم ‘‘ امام محمد بن سلیمان التمیمی کی عقیدہ توحید پر تصنیف شدہ کتاب التوحید کااردو ترجمہ ہےاردو ترجمہ کی سعاد ابو عبداللہ محمد سورتی نے حاصل کی ۔کتاب وسنت سائٹ پرشیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کی عقیدہ توحید پر مشہور کتاب کتاب التوحیداور اس موضوع پر دیگر کئی کتب موجود ہیں لیکن کتاب ہذا موجود نہ تھی لہذا فادۂ عام او راسے محفوظ کرنے کی خاطر اسے بھی سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے۔(م۔ا)
علم تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے ۔تلاوت ِقرآن کا بھر پور اجروثواب اس امر پرموقوف ہے کہ تلاوت پورے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ کی جائے قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ جاننا او رسیکھنا علم تجوید کہلاتا ہے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرےاس علم کی تدوین کا آغاز دوسری صدی کے نصف سے ہوا۔ائمۂ حدیث وفقہ کی طرح تجوید وقراءات کے ائمہ کی بھی ایک طویل لسٹ ہے اور تجوید وقراءات کے موضوع پرماہرین تجوید وقراءات کی بے شمار کتب موجود ہیں ۔ عرب قراء کی طرح برصغیر پاک وہند کے علماء کرام اور قراءعظام نے بھی علم تجوید قراءات کی اشاعت وترویج کےلیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔پاکستان میں دیوبندی قراء کرام کےعلاوہ سلفی قراء عظام جناب قاری یحییٰ رسولنگری، قاری محمداریس العاصم ،قای محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہم اللہ اور ان کےشاگردوں کی تجوید قراءات کی نشرواشاعت میں خدمات قابل تحسین ہیں ۔مذکورہ قراء کی تجوید وقراءات کی کتب کے علاوہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے کلیۃ القرآن ومجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کے زیر نگرانی شائع ہونے والے علمی مجلہ رشد کےعلم ِتجویدو قراءات کے موضوع پر تین ضخیم جلدوں پر مشتمل قراءات نمبر اپنے موضوع میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جس میں مشہور قراء کرام کے تحریر شدہ مضامین ، علمی مقالات اور حجیت قراءات پر پاک وہند کے کئی جیدمفتیان کرام کے فتاوی ٰ جات بھی شامل ہیں اور اس میں قراءات کو عجمی فتنہ قرار دینے والوں کی بھی خوب خبر لیتے ہوئے ان کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں۔تلاوت ِقرآن کا بھر پور اجروثواب اس امر پرموقوف ہے کہ تلاوت پورے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ کی جائے قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ جاننا اورسیکھنا علم تجوید کہلاتا ہے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے ۔ کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم الشان کتاب ہے کہ ہر مسلمان پراس کتاب کو صحیح پڑھنا لازمی اور ضروری ہے جس کاحکم ورتل القرآن ترتیلا سے واضح ہوتا ہے۔ اس قرآنی حکم کی تکمیل اور تجویدکوطالب تجوید کےلیے آسان اورعام فہم بناکر پیش کرناایک استاد کے منصب کا اہم فریضہ ہے ۔ایک اچھا استاد جہاں اداء الحروف کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ وہیں وہ اپنے طالب علم کو کتاب کےذریعے بھی مسائل تجوید ازبر کراتا ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ کتاب اللہ پڑہنے کے قواعد‘‘ محترم جناب قاضی بشیر احمد صاحب کی مرتب شدہ ہےانہوں نےاس کتاب میں علم تجوید کو عام فہم انداز میں اور نئے اسلوب میں بیان کرنےکی کوشش کی ہے ۔ فاضل مصنف نےیہ کتاب ان حفاظ کرام اور تعلیم یافتہ بالغ حضرات کی رہنمائی کے اور قواعد کویاد کرنے کی آسانی کےلیے تحریرکی ہے اور اس میں علم تجوید کے متعلق چالیس اسباق پیش کرنے کے بعد تجویدی نقشہ جات بھی پیش کیے ہیں۔(م۔ا)
جنت وہ باغ جس کے متعلق انبیاء کی تعلیمات پرایمان لا کر نیک اور اچھے کام کرنے والوں کو خوشخبری دی گئی ہے۔ یہ ایسا حسین اور خوبصورت باغ ہے جس کی مثال کوئی نہیں ۔یہ مقام مرنے کے بعد قیامت کے دن ان لوگوں کو ملے گا جنہوں نے دنیا میں ایمان لا کر نیک اور اچھے کام کیے ہیں۔ قرآن مجید نے جنت کی یہ تعریف کی ہے کہ اس میں نہریں بہتی ہوں گی، عالیشان عمارتیں ہوں گی،خدمت کے لیے حور و غلمان ملیں گے، انسان کی تمام جائز خواہشیں پوری ہوں گی، اور لوگ امن اور چین سے ابدی زندگی بسر کریں گے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ:’’جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں جنھیں کسی آنکھ نے دیکھا نہیں نہ کسی کان نے ان کی تعریف سنی ہے نہ ہی ان کا تصور کسی آدمی کے دل میں پیدا ہوا ہے۔‘‘(صحیح مسلم: 2825) اور ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ ابدی جنتوں میں جتنی لوگ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباؤاجداد، ان کی بیویوں اور اولادوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے، جنت کے ہر دروازے سے فرشتے اہل جنت کے پاس آئیں گے اور کہیں گے تم پر سلامتی ہو تم یہ جنت تمھارے صبر کا نتیجہ ہے آخرت کا گھر تمھیں مبارک ہو‘‘۔(سورۂ الرعدآیت نمبر: 23،24) حصول جنت کےلیے انسان کو کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے تو اسے ادا کرکے اس کامالک ضرور بنے۔اہل ایمان اور صالحین کو تو جنت کی خوشبو تو چالیس کی مسافت سے آنا شروع ہوجائے گی لیکن گناہ گار لوگوں کو جنت کی خوشبو تک نہیں آئی گی۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ خوشبوئے جنت سے محروم لوگ ‘‘ محترم جناب حافظ حافظ عبد الرزاق اظہر ﷾ کی تالیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے قرآ ن وحدیث کے واضح اور مضبوط دلائل سے ان معاشرتی برائیوں اور کبیرہ گناہوں اوراخلاقی پستیوں کو بڑے عمدہ پیرائے میں یکجا کردیا ہے جو حقیقت میں بندوں کو جنت کی اس خوشبو جو چالیس برس کی مسافت سے آنا شروع جائے گی سے محرومی کا باعث ہیں۔(م۔ا)
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے ۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہےجسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس وتقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے ۔اس لیے خطبا حضرات کے لیےضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح ، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت،معاملات میں درستگی،آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ خطبات سیف اللہ منصور ‘‘ جماعوۃ باکستان کے سرگرم مرکزی رہنما مولانا سیف اللہ منصور کی منتخب تقاریر کا ایک شاندار مجموعہ ہے ۔محترم حافظ صاحب مرحوم نے جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد جب دعوت کےمیدان میں رکھا تو داعئ اسلام اور مبلغ جہاد بن کر اپنی انقلاب آفریں گفتگو اور سحر انگیز آواز کےساتھ نوجوان نسل کےخون کو گرماتے رہے اور نقیب جہاد بن کر منبر ومحراب سے جہاد بلند کرتے ر ہے ۔اللہ تعالیٰ حافظ سیف اللہ منصور مرحوم کی دعوت وتبلیغ اورجہاد کےمیدان میں کی جانے والی خدمات کو قبول فرمائے اورانہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام عطا فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)