ارض قرآن سے مراد وہ سرزمیں مبارکہ ہے جس میں سید الانبیاء امام الانبیاء سیدنا محمد ﷺ پیدا ہوئے اور جس سرزمین پر اللہ تعالیٰ نے آخری کتاب قرآن مجید نازل ہوا۔اور قرآن مجید نے جسے وادی غیر ذی زرع کا خطاب دیا ہے لیکن جس کی روحانی سیر حاصلی کی فروانی کا یہ عالم ہےکہ آج دنیا میں جہاں بھی روحانی کھیتی کاکوئی سرسبز قطعہ موجود ہے تو وہ اسی کشتِ زاد الٰہی کے آخری کسان کی تخم ریزی وآب سیری کا نتیجہ ہے۔ زیر نظر کتاب ’’تاریخ ارض القرآن ‘‘ برصغیر کے مشہور ومعروف مؤرخ وادیب ، سیر ت نگار مولانا سید سلیمان ندوی کی تصنیف ہے ۔ یہ کتاب دو جلدوں میں یکجا شائع ہوئی ہے ۔جلداول قرآن مجید کی تاریخی آیات کی تفسیر، سرزمیں قرآن (عرب) کاجغرافیہ، اور قرآن میں جن عرب اقوام وقبائل کا ذکر ہے ان کی تاریخی اور اثری تحقیق اور جلد دوم بنو ابراہم کی تاریخ اور عربوں کی قبل اسلام تجارت زبان اورمذہب پر حسب بیان قرآن مجید وتطبیق آثار وتوراۃ وتاریخ یونان وروم کی تحقیقات ومباحث پر مشتمل ہے ۔(م۔ا)
دینِ اسلام کا جمال وکمال یہ ہے کہ یہ ایسے ارکان واحکام پر مشتمل ہے جن کا تعلق ایک طرف خالق ِکائنات اور دوسری جانب مخلوق کےساتھ استوار کیا گیا ہے یعنی اسلام کےپانچ ارکان میں یہ ایک ایسا رکن اور فریضہ ہے جس کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد سے ہے ۔ دین فرد کی انفرادیت کا تحفظ کرتے ہوئے اجتماعی زندگی کوہر حال میں قائم رکھنے کاحکم دیتاہے۔اس کے بنیادی ارکان میں کوئی ایسا رکن نہیں جس میں انفرادیت کے ساتھ اجتماعی زندگی کو فراموش کیا گیا ہو ۔انہی بینادی ارکان ِخمسہ میں سے ایک اہم رکن زکوٰۃ ہے۔عربی زبان میں لفظ ’’زکاۃ‘‘ پاکیزگی ،بڑھوتری اور برکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔جبکہ شریعت میں زکاۃ ایک مخصوص مال کے مخصوص حصہ کو کہا جاتا ہے جو مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے ۔اور اسے زکاۃ اس لیے کہاجاتا ہے کہ اس سے دینے والے کا تزکیہ نفس ہوتا ہے اور اس کا مال پاک اور بابرکت ہوجاتا ہے۔ نماز کے بعد دین اسلام کا اہم ترین حکم ادائیگی زکاۃ ہے ۔اس کی ادائیگی فر ض ہے اور دینِ اسلام کے ان پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جن پر دین قائم ہے۔زکاۃ ادا کرنےکے بے شمار فوائد اور ادا نہ کرنے کے نقصانات ہیں ۔قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں تفصیل سے اس کے احکام ومسائل بیان ہوئے ۔جو شخص اس کی فرضیت سےانکار کرے وہ یقینا کافر اور واجب القتل ہے ۔یہی وجہ کہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق نے مانعین ِزکاۃ کے خلاف اعلان جنگ کیا۔اور جو شخص زکاۃ کی فرضیت کا تو قائل ہو لیکن اسے ادا نہ کرتا ہو اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔جس کی وضاحت سورہ توبہ کی ایت 34۔35 اور صحیح بخاری شریف کی حدیث نمبر1403 میں موجود ہے ۔ اردو عربی زبان میں زکوٰۃ کے احکام ومسائل کےحوالے سے کئی کتب کتب موجود ہیں۔زیر تبصرہ کتاب’’ کتاب الزکوٰۃ ‘‘ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری کی تصنیف ہے انہوں نے اس کتاب میں زکاۃ کے مسائل کو نہایت مدلل طریقے سے تحریر کیا ہے (م۔ا)
اس روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء ورسل کی مقدس اصطلاح سے یاد رکرتے ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور پیغمبرِاول ایک ہی شخصیت حضرت آدم کی صورت میں فریضۂ ہدایت کےلیے مبعوث ہوئے ۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کردیتاہے ۔درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانےاور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اورانسان کےلیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں ۔ آج انسانیت کےپاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نےاسوۂ حسنہ قراردیا اور اس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیے’’اسوۂحسنہ‘‘ ہیں ۔ حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پور سامان رکھتی ہے ۔ ۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ سیرت رسول ﷺ قرآن کے آئینے میں ‘‘ مرکزی جمعیت اہل پاکستان کے مرکزی رہنما محترم جناب پرو فیسر ڈاکٹر عبد الغفور راشد ﷾ کی سیرت کے موضوع پر ایک اچھوتی تصنیف ہے ۔اس کتاب میں سیرت کے تمام اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ کتاب کا آغاز بعثت رسول ﷺ سے قبل ادیان ومذہب کی صورت حال پر بہت مفید اور دلچسپ حقائق سے ہوتا ہے ۔ اس کے بعد کتب سماویہ میں رسول کریم ﷺ کے ظہور کی پیشن گوئیوں کوبیان کیاگیا ہے ۔جس سے آپ ﷺ کی صداقت کا ایک نیا اسلوب پیداہوتا ہے ۔امتیازات رسول ﷺ کے عنوان سے جو لوازمہ پیش کیا گیا ہے وہ ایمان افروز بھی ہے اور لائق مطالعہ بھی ۔تمام سیرت نگاروں کی طرح اس تصنیف لطیف میں بھی غزوات وسرایا کاباب موجود ہے ۔کتاب کےآخری ابواب میں یہود ونصاریٰ سے دوستی ،ازدواجی زندگی ، معجزات ،ہجرت مدینہ اور رسالت وبشریت کے حوالے سے بہت اہم گفتگو کی گئی ہے ۔ یہ کتاب سیرت نگاری کے پاکیزہ سفر میں ایک نقش محکم کا درجہ رکھتی ہے ۔اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنی زندگیوں کوسیرت کے قالب میں ڈھالنے کی توفیق عطافرمائے ۔ (آمین) (م۔ا)
سید البشرحضرت محمد رسول اللہ ﷺکی چا ربیٹیاں تھیں،سیدہ فاطمہ ؓ سب سے چھوٹی تھیں۔رسول اکرم ﷺ کو ان سے خاص محبت تھی۔اسی لیے فرمایا کہ فاطمہ خواتین جنت کی سردار ہونگی۔،فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔حضرت فاطمہ ؓ رسول اکرم ﷺ سے بہت مشابہت رکھتی تھیں،چال ڈھال اور نشست وبرخاست میں ہوبہو اپنے والد محمد مصطفیٰﷺکی تصویر تھیں۔ان کی زندگی میں خواتین اسلام کے لیے بڑا درس موجود ہے آٖج جبکہ امت کی بیٹیاں تہذیب کفر کی نقل میں اپنی ناموس وعزت سے بے خبر ہورہی ہیں انہیں سیرت فاطمہ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ ایک آئیڈیل خاتون اسلام کی زندگی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکیں۔ایک مسلمان خاتون کے لیے سیرت فاطمۃ الزہرا ؓ میں اس کی زندگی کے تمام مراحل بچپن، جوانی، شادی، شوہر، خادنہ داری، عبادت، پرورش اولاد، خدمت اور اعزا اقربا سے محبت غرض ہر مرحلہ حیات کے لیے قابل تقلید نمونہ موجود ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سیرت فاطمہ ؓ عنہا‘‘ مولانا عبدالمجید سوہدروی کی تصنیف ہے۔اس کتاب میں انہوں نے جگر گوشۂ رسول سیدہ بتول حضرت فاطمۃ الزاہراء کی سیرت کردار اوراخلاق وگفتار کو بڑے آسان فہم انداز میں واضح کردیا ہے۔موجودہ ایڈیشن سے قبل اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔اس ایڈیشن کو مسلم پبلی کیشنز ،لاہورکے مدیر جناب محمد نعمان فاروقی ﷾ نے نئےانداز میں تخریج کےساتھ شائع کیا ہےجس اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ (م۔ا)
نبی کریم ﷺاﷲ کے برگزیدہ نبی اور انسان تھے ۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو سلسلہ انسانیت سے پیدا کیا تھا اورجس طرح ہر انسان کا سایہ ہوتا ہے اسی طرح آپ کا بھی سایہ مبارک موجود تھا۔ بہت سی غلط باتوں کی طرح معاشرے میں ایک یہ بات بھی شہرت پاگئی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ کا سایہ نہیں تھا، بعض سادہ فطرت اور جذباتی اسلاف نے تو اس بے اصل خیال کا چرچا کیا ہی تھا لیکن ہندوستان میں اسے پھیلانے کی ذمہ داری قبرپرستوں پر عموماً اورمولانااحمد رضا خان صاحب پر خصوصاً ہے۔صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپﷺ کا سایہ موجود تھا۔ سیدنا انس بن مالک ؓ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور عین نماز کے دوران آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک اچانک آگے بڑھایا ، پھر جلد ہی پیچھے ہٹا لیا ۔ ہم نے آپ ﷺسے آپ کے اس خلاف معمول نماز میں جدید عمل کے اضافہ کی وجہ دریافت کی تو ہمارے اس سوال کے جواب میں آپ ﷺنے فرمایا کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت لائی گئی ۔ میں نے اس میں بڑے اچھے پھل دیکھے تو میں نے چاہا کہ اس میں سے کوئی گچھا توڑلوں ۔ مگر معاحکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔ میں پیچھے پلٹ گیا ۔ پھر اسی طرح جہنم بھی دکھائی گئی ۔ حتى رأيت ظلى وظلكم میں نے اس کی روشنی میں اپنا اور آپ لوگوں سایہ دیکھا ۔ دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔ (مستدرك الحاكم ج4ص 456) زیر تبصرہ کتاب "قول مقبول در اثبات ظل رسولﷺ" محقق اسلام مولانا عبد القادر صاحب عارف حصاروی کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے مستند دلائل کے ساتھ نبی کریمﷺ کا سایہ ثابت کیا ہے اور جو لوگ سائے کے منکر ہیں ان کا مسکت جواب دیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنطورفرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
سیرت نبوی ﷺ کامو ضوع ہر دور میں مسلم علماء ومفکرین کی فکر وتوجہ کا مرکز رہا ہے،اور ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وتوفیق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی بھی ہے۔قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے ،جو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلی اور اچھے وخوبصورت نمونہ وکردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،اور لکھی جا رہی ہیں،جو ان مولفین کی طرف سے آپ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " سیرت رسول ﷺ اور ہم "مولانا سید احمد عروج قادری صاحب کے سیرت نبوی پر مشتمل مقالات کا مجموعہ ہے، جنہیں محترم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحب نے مرتب کیا ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ہمیں آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی بھی توفیق دے۔آمین(راسخ)
دین اسلام مذہب اور سیاست کے درمیان علیحدگی کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔اسلام اللہ تعالی کی جانب سے انسانوں کے تمام مادی اورروحانی معاملات میں رہنمائی کے لئے آیا ہے۔ نبی کریم ﷺنے یہی کام اپنی مبارک زندگی میں عملی طور پر کر کے دکھایا ہے۔ اسلام میں یہ عقیدہ اور تصور باہر سے آیا ہے کہ دین کی روحانی اور معنوی تعلیمات پر ایک علیحدہ طبقہ عمل کرے گا اور سیاست، نظامِ حکومت اور معاشرے کے معاملات دوسرا طبقہ سنبھالے گا۔ اسی لیے تو آپﷺاور ان کے بعد خلفائے راشدین مسلمانوں کی حکومت اور نظام کے رہنما بھی تھے اور ان کے دینی رہنماء اور امام مسجد بھی۔ تاریخِ اسلام میں جب بھی معاشرے کو سیاسی اعتبار سے مسجد اور محراب سے قیادت اور رہنمائی ملی ہے،مسلمان قوت، سر بلندی اور فتوحات حاصل کرتے رہے۔ اس کے برعکس جب بھی مسلمانوں کی سیاسی قیادت قوم پرستوں نے کی تو مسلمان ذلت اور آپسی جنگوں کا شکار ہو کر حکومت اور نظام گنوا بیٹھے۔ زیر نظر کتاب’’ سیرت رسول کا سیاسی پہلو ‘‘مولانا محمد طاسین صاحب کی کاوش ہے یہ کتابچہ دراصل دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کےزیراہتمام کروائے جانےتربیتی کورس کے شرکاء کےلیے مرتب کیا گیا ہے ۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے سرورکائنات سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیات طیبہ کے سیاسی پہلو پر اختصار سے روشنی ڈالی ہے ابتدا میں لفظ سیاست کے معانی ومطالب سےمتعلق بھی مختصر بحث کی ہے ۔(م۔ا)
اس بات سے آج تک کوئی انکار نہیں کرسکا کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جسے زندگی ملی اسے موت بھی دوچار ہوناپڑا، جو آج زندہ ہے کل کو اسے مرنا ہے،موت ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس سے دو چار ہونا اوراس کا تلخ جام پینا ضروری ہے یہ یقین ہر قسم کے کھٹکے وشبہے سے بالا تر ہے کیونکہ جب سے دنیا قائم ہے کسی نفس وجان نے موت سے چھٹکارا نہیں پایا ہے۔ کسی بھی جاندار کے جسم سے روح نکلنے اور جداہونے کا نام موت ہے۔ ہر انسان خواہ کسی مذہب سے وابستہ ہو یا نہ ہو اللہ یا غیر اللہ کو معبود مانتا ہو یا نہ مانتا ہو اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرتا ہےکہ اس کی دنیا وی زندگی عارضی وفانی ہے ایک روز سب کو کچھ چھوڑ کر اس کو موت کا تلخ جام پینا ہے گویا موت زندگی کی ایسی ریٹائرمنٹ ہے جس کے لیے کسی عمر کی قید نہیں ہے اور اس کے لیے ماہ وسال کی جو مدت مقرر ہے وہ غیر معلوم ہے۔ہر فوت ہونے والے انسان خواہ وہ مومن ہے یا کافر کو موت کے بعد دنیا وی زندگی کی جزا وسزا کے مرحلے گزرنا پڑتا ہے۔ یعنی ہر فوت ہونے والے کے اس کی زندگی میں اچھے یا برے اعمال کے مطابق کی اس کی جزا وسزا کا معاملہ کیا جاتا ہے۔ موت کے وقت ایمان پر ثابت قدمی ہی ایک مومن بندے کی کامیابی ہے۔ لیکن اس وقت موحد ومومن بندہ کے خلاف انسان کا ازلی دشمن شیطان اسے راہ راست سے ہٹانے اسلام سے برگشتہ اور عقیدہ توحید سے اس کے دامن کو خالی کرنے کے لیے حملہ آور ہوتاہے اور مختلف فریبانہ انداز میں دھوکے دیتاہے۔ ایسے موقع پر صرف وہ انسان اسکے وار سےبچ سکتے ہیں اور موت کےبعد پیش آنے والے مراحل میں کامیاب ہو سکتے ہیں جنہوں نے اپنی آخرت کی بہتری کے لیے دینوی زندگی میں مناسب تیاری کی ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’قبر سے حشرتک‘‘ جامعہ سلفیہ بنارس کے مدرس مولانا محمد ابو القاسم سلفی﷾ کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے دنیا سے رخصت ہونے کی حالات، حیات برزخ، جنت اور جہنم اور حشر و نشر کے تما مناظر کو ترتیب وار بیان کیا ہے۔ موضوع سے متعلق قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کوی کجا کردیا ہے۔ احادیث کے انتخاب میں نہایت ہی احتیاط کے کام لیا اور غیر صحیح احادیث کے ذکر سے اجتناب کیا ہے۔ کتاب کا انداز بیان نہایت ہی عام فہم اور سلیس ہے کم پڑھے لکھے لوگ بھی اس سے پوری طرح مستفید ہو سکتے ہیں۔ (م۔ا)
اس روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء ورسل کی مقدس اصطلاح سے یاد رکرتے ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور پیغمبرِاول ایک ہی شخصیت حضرت آدم کی صورت میں فریضۂ ہدایت کےلیے مبعوث ہوئے ۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کردیتاہے ۔درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانےاور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اورانسان کےلیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں ۔ آج انسانیت کےپاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نےاسوۂ حسنہ قراردیا اور اس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے ۔حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پور سامان رکھتی ہے ۔ سیرت النبی ﷺ کی ابتدائی کتب عربی زبان میں لکھی گئیں پھر فارسی اور دیگرزبانوں میں یہ بابِ سعادت کھلا ۔ مگر اس ضمن میں جو ذخیرۂ سیرت اردوو زبان میں لکھا اور پیش کیا گیا اس کی مثال اور نظیر عربی کےعلاوہ کسی دوسری زبان میں دکھائی نہیں دیتی۔اردو زبان کی بعض امہات الکتب ایسی ہیں کہ جن کی نظیر خود عربی زبان کے ذخیرے میں مفقود ہے ۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالم اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی سالانہ قومی سیرت کانفرنس کاانعقاد کیا جاتا ہے جس میں اہل علم اورمضمون نگار خواتین وحضرات اپنے مقالات پیش کرتے ہیں ۔ جن کوبعد میں کتابی صورت میں شائع کیا جاتا ہے۔ اوراسی طرح بعض علماء کرام نے مکمل سیرت النبی کو خطبات کی صورت میں بیان کیا اور پھر اسے مرتب بھی کیا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب’’ سیرت کےدریچوں سے ‘‘ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی ﷾ کے سیرت نبوی کےمختلف پہلوؤں پر مختلف اوقات لکھے گئے مضامین ومقالات کا مجموعہ ہے ۔یہ مقالات پاک و ہند کےموقر علمی وتحقیقی مجلات میں شائع ہوئے تو اہل علم اور اصحاب ذوق کے حلقوں میں انہیں پسندید گی کی نظر سے دیکھا گیا۔ تو صاحب مقالات نے مختلف مجلات علمیہ میں مطبوعہ مضامین کا ایک انتخاب عوام الناس کےلیے کتابی صورت میں پیش کیا ہے۔(م۔ا)
سیرت نبوی ﷺ کامو ضوع ہر دور میں مسلم علماء ومفکرین کی فکر وتوجہ کا مرکز رہا ہے،اور ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وتوفیق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی بھی ہے۔قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے ،جو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔اللہ تعالی نے نبی کریمﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلی اور اچھے وخوبصورت نمونہ وکردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،اور لکھی جا رہی ہیں،جو ان مولفین کی طرف سے آپ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " سیرت نبوی ﷺ پر اعتراضات کا جائزہ "محترم ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے سیرت نبوی ﷺ پر کئے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا ہے اور ان کی علمی واستنادی حیثیت کو پرکھا ہے۔۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
فوت ہونے والا شخص اپنےپیچھے جو اپنا مال، زمین،زیور وغیرہ چھوڑ جاتاہے اسے ترکہ، وراثت یا ورثہ کہتے ہیں۔ کسی مرنے والے مرد یا عورت کی اشیاء اور وسائلِ آمدن وغیرہ کے بارے یہ بحث کہ کب ،کس حالت میں کس وارث کو کتنا ملتا ہے شرعی اصلاح میں اسے علم الفرائض کہتے ہیں۔ علم الفرائض (اسلامی قانون وراثت) اسلام میں ایک نہایت اہم مقام رکھتا ہے۔ قرآن مجید نے فرائض کےجاری نہ کرنے پر سخت عذاب سے ڈرایا ہے۔ چونکہ احکام وراثت کاتعلق براہ راست روز مرہ کی عملی زندگی کے نہایت اہم پہلو سے ہے۔ اس لیے نبی اکرمﷺ نے بھی صحابہ کواس علم کے طرف خصوصاً توجہ دلائی اور اسے دین کا نہایت ضروری جزء قرار دیا۔ صحابہ کرام میں سیدنا علی ابن ابی طالب، سیدنا عبد اللہ بن عباس، سیدنا عبد اللہ بن مسعود، سیدنا زیدبن ثابت کا علم الفراض کے ماہرین میں شمار ہوتا ہے ۔صحابہ کے بعد زمانےکی ضروریات نے دیگر علوم شرعیہ کی طرح اس علم کی تدوین پر بھی فقہاء کومتوجہ کیا۔ انہوں نے اسے فن کی حیثیت دی اس کے لیے خاص زبان اور اصلاحات وضع کیں اور اس کے ایک ایک شعبہ پر قرآن وسنت کی روشنی میں غور و فکر کر کے تفصیلی و جزئی قواعد مستخرج کیے۔ اہل علم نے اس علم کے متعلق مستقل کتب تصنیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’علم المیراث‘‘ مولانا صفی احمد مدنی﷾ کی مرتب شدہ ہے۔ جو علم میراث کے تمام ضروری مسائل پر مشتمل ہے جس سے ایک مبتدی طالب علم سےلے کر دین کا عام ادراک رکھنے والا بھی ضروری مسائل سے واقف ہوسکتا ہے۔ فاضل مصنف اس کتاب کے علاوہ بھی متعدد کتب کے مصنف ومترجم ہیں۔ (م۔ ا)
ساری امت اس بات پر متفق ہے کہ کائنات کی افضل اور بزرگ ترین ہستیاں انبیاء ہیں ۔جن کا مقام انسانوں میں سے بلند ہے ۔انبیاء اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ بندے ہیں جنہیں روئے زمین میں لوگوں کی راہنمائی کے لیےمنتخب کیاگیا انہوں نےاپنی اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے دن رات محنت کی ۔انہوں نے بھی تبلیغ دین اوراشاعتِ توحید کےلیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ اشاعت ِ حق کے لیے شب رروز انتھک محنت و کوشش کی اور عظیم قربانیاں پیش کر کے پرچمِ اسلام بلند کیا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جابجا ان پاکیزہ نفوس کا واقعاتی انداز میں ذکر فرمایا ہے ۔قرآن مجید میں ہر نبی کا تذکرہ مختلف مقامات پر حالات وواقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیاگیا ہے ۔ جس کا مقصد محمد ﷺ کو سابقہ انبیاء واقوام کے حالات سے باخبر کرنا، آپ کو تسلی دینا اور لوگوں کو عبرت ونصیحت پکڑنے کی دعوت دینا ہے بہت سی احادیث میں بھی انبیاء ﷺ کےقصص وواقعات بیان کیے گئے ہیں۔انبیاء کے واقعات وقصص پر مشتمل مستقل کتب بھی موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ صحیح سیرت انبیاء ‘‘ مفسر قرآن تفسیر دعوۃ القرآن کےمصنف جناب مولاناسیف اللہ خالد کی انبیاء کی سیرت کےمتعلق قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں مرتب قابل قدر اور معتبر روایات کامجموعہ ہے ۔یہ کتاب سیرت انبیاء کے متعلق ایک منتخب موضوع ہی نہیں بلکہ عقیدہ کےاہم مباحث اور اسلام کےبینادی اعتقادات کا شاندار گلدستہ بھی ہے اور پند ونصائح کا ایسا مجموعۂ نافعہ ہے کہ جو ملتِ اسلامیہ کرہنماؤں اور مقتدر طبقوں کوبالخصوص اور عامۃ الناس کے لیےبالعموم منبع رشد وہدایت ہے جس میں ان اولو العزم ہستیوں کے صبر واستقامت ،ثابت قدمی ، اللہ کی نصرت کےمناظر ،عبرت وبصیرت اور وعظ ونصیحت کابھی تذکرہ ہے اور داعیان راہِ حق کے لیے ایک روشن قندیل ہے اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنی زندگیوں کوسیرت کے قالب میں ڈھالنے کی توفیق عطافرمائے۔(م۔ا)
سیدنا معاویہ ان جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ہیں ،جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے لئے کتابتِ وحی جیسے عظیم الشان فرائض سر انجام دئیے۔سیدنا علی کی وفات کے بعد ان کا دور حکومت تاریخ اسلام کے درخشاں زمانوں میں سے ہے۔جس میں اندرونی طور پر امن اطمینان کا دور دورہ بھی تھا اور ملک سے باہر دشمنوں پر مسلمانوں کی دھاک بھی بیٹھی ہوئی تھی۔لیکن افسوس کہ بعض نادان مسلمان بھائیوں نے ان پر اعتراضات اور الزامات کا کچھ اس انداز سے انبار لگا رکھا ہے کہ تاریخ اسلام کا یہ تابناک زمانہ سبائی پروپیگنڈے کے گردوغبار میں روپوش ہو کر رہ گیاہے۔ کئی اہل علم اور نامور صاحب قلم حضرات نے سیدنا معاویہ ابی سفیان کے متعلق مستند کتب لکھ کر سیدنا معاویہ کے فضائل ومناقب،اسلا م کی خاطر ان کی عظیم قربانیوں کا ذکر کے ان کے خلاف کےجانے والےاعتراضات کی حقیقت کو خوب واضح کیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ سیدنا معاویہ بن ابو سفیان شخصیت اور کارنامے ‘‘ بھی اسے سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔یہ کتاب سعودی عرب کے ایک جید عالم دین اور نامور مؤرخ وسیرت نگا ر دکتورعلی محمد محمد الصلابی ﷾ کی تصنیف ہے انہوں نے اس کتاب میں حضرت معاویہ کا نام ونسب،کنیت ،خاندان، عہد رسول ﷺ اور عہد خلافت راشدہ میں بنی امیہ کاکردار، امیر المومنین عمر بن خطاب کےدورمیں دمشق ،بعلبک اور بلقان پر گورنری اورسیدنا عمر سے سیدنامعاویہ کے تعلق کے علاوہ دیگر کئی ابحاث کو اس کتاب میں تاریخ کی مستند کتابوں سے استفادہ کر کے بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ۔فاضل مصنف نے اسی نوعیت کی تحقیقی اور معیاری کتب سیرت النبی ﷺ ،سیدناابو بکر ،سیدنا ابو بکر صدیق ، سیدنا عمرفاروق ، سید عثمان غنی ، سید نا علی المرتضیٰ ، سیدنا حسن وحسین کے متعلق تصنیف کی ہیں جن کے اردو تراجم ہوکر شائع ہوکر اردو داں طبقہ سے داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اور کتاب وسنت سائٹ بھی پر موجود ہیں ۔(م۔ا)
نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اور سلام کا دوسرا رکن ِ عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ نماز دین کاستون ہے جس نے اسے قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے اسے ترک کردیا ہے اس نے دین کی عمارت کوڈھادیا۔ نماز مسلمان کے افضل اعمال میں سے ہے۔نماز ایک ایسا صاف ستھرا سرچشمہ ہے جس کےشفاف پانی سے نمازی اپنے گناہوں اور خطاؤں کودھوتا ہے ۔کلمہ توحید کے اقرار کےبعد سب سے پہلے جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہی ہے۔ اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے۔ بے نماز کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ قیامت کےدن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا۔ فرد ومعاشرہ کی اصلاح کے لیے نماز ازحد ضروری ہے ۔ نماز فواحش و منکرات سے انسان کو روکتی ہے۔ بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سے نماز کا پابند بنایا جائے۔ قرآن وحدیث میں نماز کو بر وقت اور باجماعت اداکرنے کی بہت زیاد ہ تلقین کی گئی ہے۔ اور نمازکی عدم ادائیگی پر وعید کی گئی ہے ۔نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قد ر اہم ہے کہ سفر وحضر اور میدان ِجنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ نماز کی اہمیت وفضیلت کے متعلق بے شمار احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں او ر بیسیوں اہل علم نے مختلف انداز میں اس موضوع پر کتب تالیف کی ہیں۔ نماز کی ادائیگی کا طریقہ جاننا ہر مسلمان مرد وزن کےلیے ازحد ضروری ہے کیونکہ اللہ عزوجل کے ہاں وہی نماز قابل قبول ہوگی جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی ۔او ر ہمارے لیے نبی اکرمﷺ کی ذات گرامی ہی اسوۂ حسنہ ہے۔ انہیں کے طریقے کےمطابق نماز ادا کی جائے گئی تو اللہ کے ہاں مقبول ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا صلو كما رأيتموني اصلي لہذا ہر مسلمان کےلیے رسول للہ ﷺ کے طریقۂ نماز کو جاننا بہت ضروری ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’صلاۃ محمدی‘‘ علامہ محمد بن ابراہیم جونا گڑھی کی مرتب شدہ ہے۔ اس مختصر کتاب میں انہوں نے وضو، تیمم، نماز پنجگانہ، نماز جمعہ، نماز جنازہ، نماز عیدین، بیمار اور مسافر کی نماز، نماز تراویح، تہجد، چاند اور سورج گرہن، کی نماز، نماز استسقاء وغیرہ کے طریقے، مسنون دعائیں مع ترجمہ حوالوں سمیت آسان اور سلیس انداز میں پیش کیے ہیں۔ (م۔ا)
اسلام انسانیت کے عمومی مفاد کے لئے معاشرے کو اکٹھا رکھنے پر زور دیتا ہے۔ یہ والدین اور بچوں میں ایک مضبوط رشتہ قائم کرتا ہے۔ اسلام رشتوں کو حتیٰ کہ ان دودھ پلانے والی عورتوں تک بھی پھیلا دیتا ہے کہ جو شیر خوار بچوں کی خدمت کرتی ہیں۔ اگر حقیقی ماں کے علاوہ کوئی اور عورت کسی بچے کی پرورش کرے اور اسے دودھ پلائے تو وہ ایک اضافی ماں کا سا درجہ حاصل کر لیتی ہے جسے اُم رِداہ یا رضائی ماں یا دودھ پلانے والی ماں کہتے ہیں۔اس عورت کے شوہر کو بھی بچے کے باپ کے برابر سمجھا جاتا ہے۔جبکہ اس کے بچوں کو بھی اس بچے کے حقیقی بہن بھائیوں کی طرح سمجھا جاتا ہے اور اس کی ان میں سے کسی سے شادی نہیں ہو سکتی۔اس طرح، ایک عورت جس نے کسی بچے کے دو برس کے ہونے سے پہلے اسے کم از کم پانچ بار دودھ پلایا ہو، اسلامی قانون کے دئیے ہوئے خصوصی حقوق کے تحت، وہ اپنے دودھ کے رشتے سے اس بچے کی ماں بن جاتی ہے۔ دودھ پینے والا بچہ رضائی ماں کے دوسرے بچوں کا مکمل طور پر بہن یا بھائی سمجھا جاتا ہے، یعنی کہ ایسا لڑکا اپنی رضائی بہن اور ایسی لڑکی اپنے رضائی بھائی کی محرم ہوتی ہے۔ کوئی دوسرا مذہب کسی دودھ پلانے والی ماں کو ایسا رُتبہ نہیں دیتا۔جب آپ ﷺ ابھی شیر خوار تھے توعلاقے کی روایت کے مطابق، کھلے صحرائی ماحول میں نومولود بچوں کو لے جانے کے لئے خواتین کا ایک گروہ مکہ آیا۔قبیلہ بنو سعد کی حضرت حلیمہ سعدیہ، وہ خوش نصیب خاتون تھیں جنہوں نے رضائی ماں کے طور پر حضرت محمد ﷺوسلم کو گود لیا۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر صرف آٹھ روز تھی۔حضرت حلیمہ سعدیہ کےعلاوہ حضرت ثوبیہ نےآپ ﷺ کودودھ پلا یا جنہیں آپ ﷺ کی رضائی مائیں کہا جاتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ رسول اللہ کی رضائی مائیں‘‘ ڈاکٹر پروفیسریٰسین مظہر صدیقی صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ کو آپ ﷺ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ کے علاوہ آپ ﷺ کو دودھ پلانے والی خوش نصیب خواتین حضرت ثوبیہ، حضرت حلیمہ سعدیہ کا بڑی دلنشیں انداز میں تفصیلی تذکرہ کیا ہے اور ان کے مقام ومرتبہ کو بیان کیا ہے ۔(م۔ا)
نبی اکرم کی حیات مبارکہ قیامت تک انسانیت کے لئے پیشوائی و رہنمائی کا نمونہ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ ”تحقیق تمہارے لئے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے“ زندگی کے جملہ پہلوؤں کی طرح معلم کی حیثیت سے بھی نبی اکرم کی ذاتِ اقدس ایک منفرد اور بے مثل مقام رکھتی ہے۔ نبوت اور تعلیم و تربیت آپس میں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی لئے آپ نے اپنے منصب سے متعلق ارشاد فرمایا:۔’’بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں“ یہ وہ معلم تھے جن کی تعلیم و تدریس نے صحرا کے بدوؤں کو پورے عالم کی قیادت کے لئے ایسے شاندار اوصاف اور اعلیٰ اخلاق سے مزین کیا جس کی مثال تاریخ انسانیت میں کہیں نہیں ملتی۔تمام بھلائیاں بھی اس میں پوشیدہ ہیں آپ ایک مثالی معلم تھے۔ نبی کریم ﷺ بعض اوقات صحابہ کرام کو دین کی تعلیم سوالات کی صورت میں دیا کرتے تھے ۔آپ ﷺ صحابہ سے سوال کرتے اگر ان کو ان کےمتعلق معلوم ہوتا تو وہ جواب دے دیتے اور جواب نہ دینے کی صورت میں نبی کریم ﷺ اس سوال کا جواب دیتے ۔نبی کریم ﷺکے صحابہ کرام سےکیے گئےیہ سوالات حدیث کی مختلف میں موجودد ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ رسول اللہ ﷺ کےسوالات اور صحابہ کے جوابات‘‘ شیخ سلمان نصیف الدحدوح کی عربی کتاب ’’ الرسول یسال والصحابی یجیب‘‘ کا اردود ترجمہ ہے فاضل مصنف نے اس کتاب کو مختلف موضات کےتحت 20 ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔جس میں انہوں نے نے نبی اکرم کے صحابہ کرام سے کیے گئے سوالات اور ان کے جوابات کو کتب احادیث سے تلاش کر کے ایک جگہ جمع کردیا ۔ اس کتاب کو عربی اردو قالب میں محترم جناب احسان اللہ فاروقی ﷾ نے ڈھالا ہے اور ترجمہ کے ساتھ تخریج کا اہم کام بھی انجام دیاہے ۔اور مولانا محمد اختر صدیق (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ لاہور و فاضل مدینہ یونیورسٹی) نے کتاب کی نظرثانی کے امور انجام دیئے ہیں ۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسلام کی ابتداء غربت اور اجنبیت کی حالت میں ہوئی، اور عنقریب اسلام اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جائے گا۔پس خوشخبری ہے غریب اور اجنبی لوگوں کے لئے۔ توحید اسلام کا بنیادی اور اہم ترین عقیدہ ہے یعنی اللہ تعالی اپنی ذات وصفات اور احکامات میں ہر طرح کی شراکت سے مبرا ہے۔ آج اسلام کے دعویداروں کی اکثریت توحید باری تعالی کو چھوڑ کر شرک وکفر میں مبتلاء ہو چکی ہے۔ شرک وکفر کے پھیلنے کی متعدد وجوہات میں سے ایک اہم وجہ محی الدین ابن عربی کا فلسفہ وحدۃ الوجود بھی ہے۔اس کی وجہ سے اسلام میں الحاد کے دروازے کھلے، کشف وکرامات کے بے سند واقعات نے اسلام کی بنیادوں پر حملہ کیا۔ قرآن وسنت کے علم کو "علم ظاہری" کہہ کر علم اور علماء کا مذاق اڑایا گیا۔طریقت کے نام پر شریعت کے مقابلے میں ایک نیا دین گھڑ لیا گیا۔شریعت کی تحقیر اور طریقت سے کمتر سمجھنے کا رجحان عام ہوا اور من گھڑت وموضوع روایات نے نظریہ توحید میں شک پیدا کر دیا۔ امام ابن تیمیہ اوران کے ہونہار شاگرد امام ابن قیم نےنہ صرف عقیدہ وحدۃ الوجود کا رد کیا بالکہ ابن عربی کو بھی گمراہ ثابت کیا۔ زیر تبصرہ کتاب" شریعت اور طریقت " ہندوستان کے معروف عالم دین مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری صاحب کی کاوش ہے، جس میں انہوں نے شریعت اور طریقت کے دائرہ کا کی وضاحت فرمائی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
سیرت نبوی ﷺ کامو ضوع ہر دور میں مسلم علماء ومفکرین کی فکر وتوجہ کا مرکز رہا ہے،اور ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وتوفیق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی بھی ہے۔قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے ،جو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔اللہ تعالی نے نبی کریمﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلی اور اچھے وخوبصورت نمونہ وکردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔آپﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،اور لکھی جا رہی ہیں،جو ان مولفین کی طرف سے آپ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " پیغمبر انقلاب، سیرت پاک کا علمی اور تاریخی مطالعہ "محترم مولانا وحید الدین خاں صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے سیرت نبویﷺ کا علمی وتاریخی مطالعہ پیش فرمایا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی بھی توفیق دے۔آمین(راسخ)
ساری امت اس بات پر متفق ہے کہ کائنات کی افضل اور بزرگ ترین ہستیاں انبیاء ہیں ۔جن کا مقام عام انسانوں سے بلند ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دین کی تبلیغ کے لیے منتخب فرمایا لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کےلیے انہیں مختلف علاقوں اورقوموں کی طرف مبعوث فرمایا۔اور انہوں نے بھی تبلیغ دین اوراشاعتِ توحید کےلیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ اشاعت ِ حق کے لیے شب رروز انتھک محنت و کوشش کی اور عظیم قربانیاں پیش کر کے پرچمِ اسلام بلند کیا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جابجا ان پاکیزہ نفوس کا واقعاتی انداز میں ذکر فرمایا ہے ۔ جس کا مقصد محمد ﷺ کو سابقہ انبیاء واقوام کے حالات سے باخبر کرنا، آپ کو تسلی دینا اور لوگوں کو عبرت ونصیحت پکڑنے کی دعوت دینا ہے بہت سی احادیث میں بھی انبیاء ﷺ کےقصص وواقعات بیان کیے گئے ہیں۔انبیاء کے واقعات وقصص پر مشتمل مستقل کتب بھی موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ قصص الانبیاء ‘‘ مصر کے معروف عالم دین علامہ عبدالوہاب النجار المصری کی انبیاء کے واقعات وقصص پر مشتمل عربی تصنیف کا اردوترجمہ ہے ۔اس کتاب میں انبیاء کرام کےحالات کے لیے سب سے قرآنی آیات کو سامنے رکھا ہے اور کس نبی کا نام کہاں کہاں مذکور ہے اس حوالے سے ہر پیغمبر کے حالات کے شروع میں ایک جدول دیا گیا ہے ۔آیات قرآنیہ کے بعد احادیث صحیحہ سے استفادہ کیا گیا ہےاور اسرائیلی روایات سے مکمل اجنتاب کیا گیا ہے ۔ نیز اسرائیلی روایات کا خرافات اورمن گھڑت ہونا جابجا بیا کیاگیا ہے ۔ہر پیغمبر کےاحوال واقعات سے عبرت وموعظت کے جو پہلو نکلتے ہیں انہیں بطور خاص جگہ دی گئی ہے ۔ (م۔ا)
نماز دین کا ستون ہے۔ نماز جنت کی کنجی ہے۔ نماز مومن کی معراج ہے۔ نمازمومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ نماز قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز اﷲ تعالیٰ کی رضا کاباعث ہے۔ نماز پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔ نماز مومن اور کافر میں فرق ہے۔ ہر انسان جب کلمہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے ایمان کی شہادت دیتا ہے اور جنت کے بدلے اپنی جان ومال کا سودا کرتا ہے، اس وقت سے وہ اللہ تعالیٰ کا غلام ہے اور اس کی جان ومال اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اب اس پر زندگی کے آخری سانس تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد رسول اللہﷺ کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔ اس معاہدہ کے بعد جو سب سے پہلا حکم اللہ تعالیٰ کا اس پر عائد ہوتا ہے، وہ پانچ وقت کی نماز قائم کرنا ہے۔قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب وکتاب لیا جائے گا، اگر کوئی شخص اس میں کامیاب ہو گیا تو وہ تمام سوالوں میں کامیاب ہے اور اگر کوئی اس میں ناکام ہو گیا تو وہ تمام سوالوں میں ناکام ہے۔ اور اللہ تعالی کے ہاں وہ نماز قابل قبول ہے جو نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ کے مطابق ادا کی گئی ہو۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج بہت سارے مسلمان نماز نبوی ﷺ پڑھنے کی بجائے مختلف مسالک اور اپنے علماء کی بتلائی ہوئی نماز پڑھتے ہیں۔نماز کے انہی اختلافی مسائل میں سے ایک زیر ناف ہاتھ باندھنے کا بھی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" زیر ناف ہاتھ باندھنے کا تحقیقی جائزہ "محترم مولانا رضاء اللہ عبد الکریم المدنی، خادم الحدیث والافتاء جامعہ سید نذیر حسین محدث دہلوی انڈیاکی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے،اور تمام مسلمانوں کو سنت نبوی کے مطابق نماز پڑھنے کا پابند بنائے۔ آمین(راسخ)
سیرت نبوی ﷺ کامو ضوع ایک عظیم اور بابرکت موضوع ہے، جو ہر دور میں مسلم علماء ومفکرین کی فکر وتوجہ کا مرکز رہا ہے،اور ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وتوفیق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی بھی ہے۔قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے ،جو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلی اور اچھے وخوبصورت نمونہ وکردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،اور لکھی جا رہی ہیں،جو ان مولفین کی طرف سے آپ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے۔سیرت نبوی ﷺ کے متعدد پہلو ہیں جن میں ایک پہلو آپ ﷺ کے سائے اور بشر ہونے کا بھی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " نبی رحمتﷺ کا پیام رحمت "محترم مولانا محمد عبد اللہ طارق صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے سیرت نبوی ﷺ کے خوبصورت پھول جمع فرما دئیے ہیں۔اللہ تعالی مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ہمیں آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی بھی توفیق دے۔آمین(راسخ)
" تحریک پاکستان اصل میں مسلمانوں کے قومی تشخص اور مذہبی ثقافت کے تحفظ کی وہ تاریخی جدو جہد تھی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بحیثیت قوم ان کی شناخت کو منوانا تھا ۔ جس کے لیے علیحدہ مملکت کا قیام از حد ضروری تھا ۔یوں تو تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ 1940 کے جلسے کو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس کی اصل شروعات تاریخ کے اس موڑ سے ہوتی ہے جب مسلمانان ہند نے ہندو نواز تنظیم کانگریس سے اپنی راہیں جدا کر لی تھی ۔ 1930 میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسیوں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغبر میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر دیا ۔ چودھری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933 میں پاکستان کا نام دیا ۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938 میں اپنے سالانہ اجلاس میں بر صغیر کی تقسیم کے حق میں قرار داد پاس کر لی ۔ علاوہ ازیں قائد اعظم بھی 1930 میں علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کی جدو جہد کا فیصلہ کر چکے تھے ۔1940 تک قائد اعظم نے رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر تیار کر لیا ۔23مارچ 1940 کے لاہور میں منٹو پارک میں مسلمانان ہند کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا جس میں تمام ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں نے قافلے کی صورت سفر کرکے شرکت کی اور ایک قرار داد منظور کی جس کے مطابق مسلمانان ہند انگریزوں سے آزادی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں سے بھی علیحدہ ریاست چاہتے تھے ۔ زیر تبصرہ کتاب" پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے "محترم میجر سید حیدر حسن(ریٹائرڈ) کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے پاکستان کی بقاء کے لئے موجودضروری امور کی طرف اشارہ کیا ہے۔(راسخ)
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ ، تفسیر قرآن کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیا ۔علمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺاور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔پنجاب میں تدریسی خدمت کے سلسلہ میں مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث و زیر آبادی (م1334ھ) کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔مولانا حافط عبدالمنان صاحب حضرت شیخ الکل کے ارشاد تلامذہ میں سے تھے اور فن حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ صحاح ستہ پڑھائی۔ آپ کے تلامذہ میں ملک کے ممتاز علمائے کرام کا نام آتاہے اورجن کی اپنی خدمات بھی اپنے اپنے وقت میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:’’علمائے اہلحدیث کی تدریسی و تصنیفی خدمات قدر کے قابل ہے۔ پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خاں (م1307ھ) کے قلم او رمولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (م1320ھ) کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا۔ بھوپال ایک زمانہ تک علمائے اہلحدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان اوراعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کررہے تھے۔ شیخ حسین عرب یمنی (م327ھ) ان سب کے سرخیل تھے اوردہلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے ہاں سند درس بچھی تھی اور جوق در جوق طالبین حدیث مشرق و مغرب سے ان کی درس گاہ کا رخ کررہے تھے۔ ان کی درس گاہ سے جو نامور اُٹھے ان میں ایک مولانا محمد ابراہیم صاحب آروی (م1320ھ) تھے۔ جنہوں نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیادڈالی ۔اس درس گاہ کے دوسرے نامور مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی عظیم ابادی (م1329ھ) صاحب عون المعبود فی شرح ابی داؤد ہیں جنہوں نے کتب حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کامقصد قرار دیا اوراس میں وہ کامیاب ہوئے۔تصنیفی لحاظ سے بھی علمائے اہلحدیث کاشمار برصغیر پاک و ہند میں اعلیٰ اقدار کا حامل ہے۔ علمائے اہلحدیث نے عربی ، فارسی اور اردو میں ہر فن یعنی تفسیر، حدیث، فقہ،اصول فقہ، ادب تاریخ او رسوانح پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ الغرض برصغیر پاک وہندمیں علمائےاہل حدیث نےاشاعت اسلام ، کتاب وسنت کی ترقی وترویج، ادیان باطلہ اور باطل افکار ونظریات کی تردید اور مسلک حق کی تائید اور شرک وبدعات ومحدثات کےاستیصال اور قرآن مجید کی تفسیر اور علوم االقرآن پر جو گراں قدر نمایاں خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ اہل حدیث کاایک زریں باب ہے ۔مختلف قلمکاران اور مؤرخین نے علمائے اہل حدیث کےالگ الگ تذکرے تحریر کیے ہیں اور بعض نے کسی خاص علاقہ کے علماء کا تذکرہ وسوانح حیات لکھے ہیں۔ جیسے تذکرہ علماء مبارکپور ، تذکرہ علماء خانپور وغیرہ ۔ علما ئے عظام کے حالات وتراجم کو جمع کرنے میں مؤرخ اہل حدیث جناب مولانامحمد اسحاق بھٹی کی خدمات سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تراجم علمائے اہل حدیث بنارس‘‘ مولانا محمد یونس مدنی﷾ (مدرس جامعہ سلفیہ، بنارس) کی کاوش ہے۔ فاضل مصنف نے سب سے پہلے 1994ء میں مولانا عبد المتین کا تذکرہ تحریرکیا جو محدث بنارس اگست 1994ء میں شائع ہوا۔ جسے اس وقت محدث بنارس کے مدیر مولانا عبد الوہاب حجازی﷾ نے پسند کیا اور اس فاضل مصنف کی حوصلہ افزائی کی تو موصوف نے پھر اس سلسلے کو جاری رکھا اور 60 علمائے اہل حدیث بنارس کا تذکرہ مختلف اوقات میں تحریر کرڈالا جو قسط وار محدث بنارس میں شائع ہوتا رہا بعد ازاں انہوں نے بعد میں الف بائی ترتیب سے مرتب کیا یوں یہ 421 صفحات کی یہ کتاب تیار ہوگئی۔ کتاب میں محمد ابو القاسم فاروقی ﷾ کا ’’ شہر بنارس کا تاریخی ، ثقافتی اور مذہبی تعارف ‘‘ کے عنوان سے مقدمہ بھی بڑا اہم اور لائق مطالعہ ہے ۔یہ کتاب بنارس کی تاریخ اور اہم علمی دستاویز ہے جوکہ شخصیات پر کام کرنے والوں کےلیےایک گراں قدر تحفہ ہے ۔(م۔ا)
قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت وہی ہے جو کہ ایک فرد کی زندگی میں اس کی یادداشت کی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد واحد کی سوچ، شخصیت، کردار اور نظریات پر سب سے بڑا اثر اس کی یادداشت کا ہوتا ہے اسی طرح ایک قوم کے مجموعی طرزعمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز اس کی تاریخ ہوتی ہے ۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک اپنی اصلاح نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے اسلاف کی تاریخ اور ان کی خدمات کو محفوظ نہ رکھے۔اسلامی تاریخ مسلمانوں کی روشن اور تابندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان اپنی اس تاریخ سے کٹ چکا ہے۔اپنی بد اعمالیوں اور شریعت سے دوری کے سبب مسلمان آج پوری دنیا میں ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں۔اور ہر میدان میں انہیں شکست وہزیمت کا سامنا ہے ۔آج 57 آزاد ممالک کی شکل میں قوت ،عددی اکثریت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ذلت ،عاجزی اور درماندگی میں اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں سوسال پہلے کھڑی تھی۔اس کا سب سے برا سبب مسلمانوں کا دین سے دور ہونا اور غیروں کے قریب ہونا ہے۔کافر ہمیں اس لئے مارتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور ہم اس لئے مار کھا رہے ہیں کہ ہم صحیح معنوں میں مسلمان نہیں ہیں۔تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات، اسلام کے انسانیت نواز پیغام اور اپنی روشن تہذیبی اَقدار کو پوری قوت اور خود اعتماد ی کے ساتھ دنیا پر آشکارا کریں،اور خود بھی اسی کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ زیر تبصرہ کتاب " مختصر تاریخ خلافت اسلامیہ "محترم مولانا عبد القدوس ہاشمی کی کاوش ہے، جو سیدناابوبکرصدیق خلافت سے لیکر سلطان عبد المجید خان ثانی کی معزولی 1924ء تک کی اختصار کے ساتھ اسلامی تاریخ پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
سیرت نبوی ﷺ کامو ضوع ہر دور میں مسلم علماء ومفکرین کی فکر وتوجہ کا مرکز رہا ہے،اور ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وتوفیق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی بھی ہے۔قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے ،جو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلی اور اچھے وخوبصورت نمونہ وکردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،اور لکھی جا رہی ہیں،جو ان مولفین کی طرف سے آپ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے۔سیرت نبوی ﷺ کے متعدد پہلو ہیں جن میں ایک پہلو آپ ﷺ کے سائے اور بشر ہونے کا بھی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " نبی اکرمﷺکے شب وروز "محترم خالد بن محمد عطیہ کی عربی تصنیف کا اردو ترجمہ ہے۔اردو ترجمہ محترم عبد اللہ یوسف صاحب نے کیا ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ہمیں آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی بھی توفیق دے۔آمین(راسخ)