نام: علامہ عبدالقدوس ہاشمی۔
ولدیت: ان کےوالدگرامی کانام سیداوسط حسین ہےجوکہ میاں نذیرحسین دہلوی کےشاگردرشیداورانکےدورکےرشتہ داربھی تھے۔
ولادت: مولاناکی پیدائش 26جون 1911ءمیں صوبہ بہارکےشہرگیاکےشمال میں سادات کےایک مشہور بستی مخذوم پورمیں ہوئی۔
تعلیم و تربیت:
مولانانےابتدائی تعلیم وتربیت گھر میں اپنی خالہ اوروالدمحترم سےحاصل کی اس کےبعدمندرجہ ذیل مدارس سےاپنی علمی پیاس بجھائی۔
1۔ان کےگاؤں کےقریب ایک بستی ہتھیانواں میں ایک ہندوپاٹ شالہ یہاں یہاں مولانانےہندی زبان اور حساب کی تعلیم حاصل کی۔
2۔مدرسہ انوارالعلوم ’’گیاشہر،، 3۔مدرسہ عالیہ موضع اعظم گڑھ۔
4۔ دارالعلوم ندوۃالعلماء۔
مولانا نےدوران تعلیم علوم وفنون پرمشتمل ہزاروں کتابوں کامطالعہ کیا انگریزی، سنسکرت،عربی اورترکی زبانیں سیکھیں۔
اساتذہ:
مولاناعبدالقدوس ہاشمی نےمندرجہ ذیل اساتذہ کرام سےعلم حاصل کیا۔
1۔اوسط حسین (والد) 2۔ملک منورحسین 3۔مرحومہ بی بی قریشیہ (خالہ) 4۔مولاناسید محمدسجاد 5۔مولاناابوالنعمان عبدالرحمن۔
6۔ مولاناحیدر حسن خان محدث ٹونکی 7۔ شمس العلماء مولانامحمدحفیظ اللہ ان کےعلاوہ بھی مولانانےبہت سےاساتذہ کرام سےتحصیل علم کیا۔
تصانیف:
مولانانےبہت سی کتابوں کےتراجم کیے ہیں اوربہت سےمضامین لکھےہیں۔
1۔صحیح’’الادب المفرد للامام البخاری مترجم عبدالقدوس ہاشمی ۔
2۔کتاب زندگی ترجمہ الا ادب المفرد از امام بخاری۔
حوالہ: علماء دیوبندکی علمی اورمطالعاتی زندگی از مولانا عبدالقیوم حقانی۔
کتاب وسنت ڈاٹ کام۔
قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت وہی ہے جو کہ ایک فرد کی زندگی میں اس کی یادداشت کی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد واحد کی سوچ، شخصیت، کردار اور نظریات پر سب سے بڑا اثر اس کی یادداشت کا ہوتا ہے اسی طرح ایک قوم کے مجموعی طرزعمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز اس کی تاریخ ہوتی ہے ۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک اپنی اصلاح نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے اسلاف کی تاریخ اور ان کی خدمات کو محفوظ نہ رکھے۔اسلامی تاریخ مسلمانوں کی روشن اور تابندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان اپنی اس تاریخ سے کٹ چکا ہے۔اپنی بد اعمالیوں اور شریعت سے دوری کے سبب مسلمان آج پوری دنیا میں ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں۔اور ہر میدان میں انہیں شکست وہزیمت کا سامنا ہے ۔آج 57 آزاد ممالک کی شکل میں قوت ،عددی اکثریت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ذلت ،عاجزی اور درماندگی میں اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں سوسال پہلے کھڑی تھی۔اس کا سب سے برا سبب مسلمانوں کا دین سے دور ہونا اور غیروں کے قریب ہونا ہے۔کافر ہمیں اس لئے مارتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور ہم اس لئے مار کھا ر...
دنیا میں وہ کون آدمی ہے، جو اپنی ا ولاد کو اچھے اخلاق اور ستودہ صفات سے مزین نہ دیکھنا چاہتا ہو،ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد باادب بامراد ہو۔لیکن ہماری ان تمناؤں کا کس طرح خون ہو رہا ہے؟ ذرا اپنے گرد وپیش پرنظر اٹھا کر دیکھیئے ، اپنے گھر ، کنبے اور خاندان ہی کو دیکھ لیجیے۔کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ ہماری وہ اولاد جو ہمارے ہی خون سے پیدا ہوئی ہے، اور جسے ہم بہتر سے بہتر دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اس کے نزدیک ہماری حیثیت بہتر وبرتر کی بجائے خبطی اور بدتر کی ہے۔آخر اس کا سبب کیاہے۔ ان تمام خامیوں کا حل آب کو اس کتاب ’’ الادب المفرد ‘‘ میں ملے گا۔ جو ان احادیث نبویہﷺ وآثار صحابہ پر مشتمل ہے، جو اخلاقیات، باہمی تعلقات، حقوق وفرائض، اورمعاشرتی مسائل سے متعلق ہیں۔ یہ کتاب ایک مسلمان کی اخلاقی زندگی کےلیے وہ چشمہ ہدایت ہے،جسے دنیائے اسلام کے سب سے بڑے محدث حضرت امام بخاری ؒ نے جمع کرکے امتِ اسلامیہ تک پہنچایا ہے۔ اس کتاب سے&nb...
امام محمد بن اسماعیل بخاری کی شخصیت اور ان کی صحیح بخاری محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ امیر االمؤمنین فی الحدیث امام المحدثین کے القاب سے ملقب تھے۔ ان کے علم و فضل ، تبحرعلمی اور جامع الکمالات ہونے کا محدثین عظام او رارباب ِسیر نے اعتراف کیا ہے امام بخاری ۱۳ شوال ۱۹۴ھ، بروز جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے۔ دس سال کی عمر ہوئی تو مکتب کا رخ کیا۔ بخارا کے کبار محدثین سے استفادہ کیا۔ جن میں امام محمد بن سلام بیکندی، امام عبداللہ بن محمد بن عبداللہ المسندی، امام محمد بن یوسف بیکندی زیادہ معروف ہیں۔ اسی دوران انہوں نے امام عبداللہ بن مبارک امام وکیع بن جراح کی کتابوں کو ازبر کیا اور فقہ اہل الرائے پر پوری دسترس حاصل کر لی۔ طلبِ حدیث کی خاطر حجاز، بصرہ،بغداد شام، مصر، خراسان، مرو بلخ،ہرات،نیشا پور کا سفر کیا ۔ ان کے حفظ و ضبط اور معرفت حدیث کا چرچا ہونے لگا۔ ان کے علمی کارناموںم میں سب سے بڑا کارنامہ صحیح بخاری کی تالیف ہے جس کے بارے میں علمائے اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قرآن کریم کے بعد کتب ِحدیث میں صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے۔ فن ِحدیث میں اس کتاب کی نظیر نہیں پائی جاتی...
محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک ﷾ہندوستان کے ایک معروف مبلغ اور داعی ہیں۔آپ اپنے خطبات اور لیکچرز میں اسلام اور سائنس کے حوالے سے بہت زیادہ گفتگو کرتے ہیں ،اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو کچھ بتا دیا تھا ،آج کی جدید سائنس اس کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔اور یہ کام وہ زیادہ تر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت کرتے ہیں ،تاکہ ان کی عقل اسلام کی حقانیت اور عالمگیریت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔اسلام اگرچہ سائنس کی تائید کا محتاج نہیں ہے ،اور اس کا پیغام امن وسلامتی اتنا معروف اور عالمگیر ہے کہ اسے مسلم ہو یا غیر مسلم دنیا کا ہر آدمی تسلیم کرتا ہے۔لیکن میرے خیال میں سائنس سے اسلام کی تائید میں غیر مسلموں کو کوئی عقلی دلیل پیش کرنے میں کوئی برائی والی بات بھی نہیں ہے۔ ۔ زیر تبصرہ کتاب " قرآن اور جدید سائنس، موافق یا ناموافق " بھی محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب﷾ کی کاوش ہے جو اسی ضمن میں لکھی گئی ہےجو انگریزی زبان میں ہے اور اس کا اردو ترجمہ محترم ڈاکٹر عبد...