قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے، او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہےکہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتب احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے ہیں ۔تاکہ خدمت قرآن کے عظیم الشان شرف سے مشر ف ہوں۔لیکن قرآن مجید کے مطالعہ سے پہلے اس کے اصول ومبادی کو دیکھنا ضروری ہے تاکہ انسان صحیح معنوں میں استفادہ کر سکے۔قرآن مجید کتاب ہدایت ہونے کے ساتھ ساتھ ادبیات کا ایک بہترین مرقع بھی ہے۔اس کی معنویت اور ادبیت روز اول سے مثالی ہے۔ترقی کی تمام منازل طے کر لینے کے باوجود انسانیت اس کی ہم سری کرنے سے قاصر ہے۔ زیرتبصرہ کتاب '' قرآنیات وادبیات '' ہندوستان کے معروف عالم دین محتر م پروفیسر ابو سفیان اصلاحی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے قرآن مجید کے ادبی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس عظیم خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ (آمین)(راسخ)
قرآنِ مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔قرآن مجید میں مرد وزن کے احکام ومسائل کو یکساں بیان کیا گیا ہے ۔بعض سورتیں تو زیاہ خواتین کے متعلقہ احکام ومسائل پر مشتمل ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر عصر حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے۔اور مختلف ائمہ نے عربی زبان میں مستقل بیسیوں تفاسیر لکھیں ہیں ۔جن میں سے کئی تفسیروں کے اردو زبان میں تراجم بھی ہوچکے ہیں ۔اور ماضی قریب میں برصغیرِ پاک وہند کے تمام مکتب فکر کےعلماء نے قرآن مجید کی اردو تفاسیر لکھنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔میرے علم کےمطابق کوئی ایسی تفسیر مرتب نہیں کی گئی کہ جس میں صرف خواتین یا صرف مردوں کے متعلق آیات کو یکجا کر کے اس کی تفسیر بیان کی گئی ہو ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ تفسیر النساء ‘‘ کے مصنف ابن نواب نےاس کمی کو پورا کر دیا ہے ۔انہوں نے اس تفسیر صرف ان آیات وسور کو ترتیب سے مرتب کیا اورپھر ان کی جامع تفسیر کرنے کے ساتھ ساتھ ا ن کا شان نزول اور ان کے احکام ومسائل اور واقعات کوبڑی سنجیدگی اورنفاست سے بیان کیا ہے کہ جوعورتوں کے احکام ومسائل کے متعلق ہیں۔ان میں نکاح، طلاق، رضاعت، معاشرت، صحت، تعلیم، حقوق فرائض اور خانگی زندگی کے مسائل کو بڑی وضاحت سےبیان کیا ہے کہ موجودہ دور کی اکثر خواتین ان سے بے خبر ہیں۔فاضل مصنف نےایک اچھوتے انداز میں عورتوں کو پیش آنے والے معاشرتی مسائل کی نشاندہی کرکے ان کا حل قرآن وحدیث ،ائمہ کرام کی تفاسیر اور عرب علماء کے فتاویٰ جات کی روشنی میں پیش کیا ہے ۔اس تفسیر کا آخری حصہ بطور خاص لائق تحسین ہے جس میں خواتین کے جدید فقہی مسائل پر عرب کے نامور علمائے کرام کے فتاویٰ جات کوجمع کیاگیا ہے۔ جس سے اس تفسیر کی افادیت اور جامعیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔اس تفسیر کے مطالعہ سے خواتین کے عقیدہ اوراعمال کی اصلاح ہوسکتی ہے اور یہ اپنی افادیت کےباعث اس لائق ہے کہ اسے خواتین کے مدارس میں شامل نصاب کیا جائے ۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے خواتین اسلام کے لیے نفع بخش بنائے ۔(آمین)(م۔ا)
مولانا ابو الکلام 11 نومبر 1888ء کو پیدا ہوئے اور 22 فروری 1958ء کو وفات پائی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔آپ کے والد بزرگوارمحمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا۔ سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں گزرا ۔ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہرمصر چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ مولانا ایک نادر روزگار شخصیت تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ذات میں ایسے اوصاف ومحاسن جمع کردیے تھےکہ انہوں نے زندگی کے ہر دائرہ میں بلند مقام حاصل کیا۔مولانا علم وفضل کے اعتبار سے ایک جامع اور ہمہ گیر شخصیت تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کو قدرت نے فکر ونظر کی بے شمار دولتوں ، علم وفضل کی بے مثال نعمتوں اور بہت سے اخلاقی کمالات سے نوازا تھا۔ بر صغیر پاک وہند میں موصوف ایک ایسی شخصیت ہیں جن پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم سیرت وشخصیت اور علمی وعملی کارنانے‘‘ ہند کے معروف علمی مجلہ برہان دہلی کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک ترتیب وتدوین کرنےوالی معروف شخصیت مولانا سعید احمد اکبر آبای کے مولانا ابو الکلام آزاد کی سیرت وسوانح ، خدمات کے متعلق تحریر کیے گئے مختلف مقالات مشتمل ہے۔ نیز ،مصنف موصوف کے مجلہ برہان میں نظرات کے عنوان سے تحریر کیے گئے فکر انگیز نمونے، تبصرے اور لاہور کے ایک سیمنار میں دیا گیا ایک خطبہ بھی شامل اشاعت ہے ۔اس کتاب کو مولانا ابو سلمان شاہجہانپوری نے مولانا ابو الکلام آزاد کی تقریب صد سالہ یوم پیدائش کے موقع پر مرتب کر کے شائع کیا۔ (م۔ا)
قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے، او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہےکہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتب احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے ہیں ۔تاکہ خدمت قرآن کے عظیم الشان شرف سے مشر ف ہوں۔ زیرتبصرہ کتاب '' قرآنی مطالعات، سماجی، معاشی وسیاسی مسائل کے حوالے سے '' ہندوستان کے معروف عالم دین محتر م ظفر الاسلام اصلاحی صاحب،پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل کے حوالے سے مطالعہ قرآن کے اصول ومبادی کو بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس عظیم خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ (آمین)(راسخ)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے ،جسے اللہ تعالی کا کلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس کو پڑھنا باعث اجر وثواب اور اس پر عمل کرنا باعث نجات ہے۔جو قوم اسے تھام لیتی ہے وہ رفعت وبلندی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہو جاتی ہے،اور جو اسے پس پشت ڈال دیتی ہے ،وہ ذلیل وخوار ہو کر رہ جاتی ہے۔یہ کتاب مبین انسانیت کے لئے دستور حیات اور ضابطہ زندگی کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ انسانیت کو راہ راست پر لانے والی ،بھٹکے ہووں کو صراط مستقیم پر چلانے والی ،قعر مذلت میں گرے ہووں کو اوج ثریا پر لے جانے والے ،اور شیطان کی بندگی کرنے والوں کو رحمن کی بندگی سکھلانے والی ہے۔اہل علم نے عامۃ الناس کے لئے قرآن فہمی کے الگ الگ ،متنوع اور منفرد قسم کے اسالیب اختیار کئے ہیں ،تاکہ مخلوق خدا اپنے معبود حقیقی کے کلام سے آگاہ ہو کر اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ زیر تبصرہ کتاب " قرآن کا راستہ " محترم خرم مراد صاحب کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے قرآن مجید کی عظمت وشان کو بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالی مولفین کو اس کاوش پر جزائے خیر عطا فرمائے،ہمیں قرآنی برکات سے استفادہ کرنے کی توفیق دے۔آمین(راسخ)
مولانا ابو الکلام11نومبر1888ء کو پیدا ہوئے اور 22 فروری1958ءکو وفات پائی۔مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔آپ کے والد بزرگوارمحمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا۔ سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہرمصر چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ مولانا ایک نادر روزگار شخصیت تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ذات میں ایسے اوصاف ومحاسن جمع کردیے تھےکہ انہوں نے زندگی کے ہر دائرہ میں بلند مقام حاصل کیا۔مولانا علم وفضل کے اعتبار سے ایک جامع اور ہمہ گیر شخصیت تھے ۔مولانا ابو الکلام آزاد کو قدرت نے فکر ونظر کی بے شمار دولتوں ، علم وفضل کی بے مثال نعمتوں اور بہت سے اخلاقی کمالات سے نوازا تھا۔ بر صغیر پاک وہند میں موصوف ایک ایسی شخصیت ہیں جن پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’مولانا ابو الکلام آزاد کی صحافت‘‘ کراچی میں رہائش پذیر معروف سوانح نگار مولانا ابو سلمان شاہجانپوری﷾ کی تصنیف ہے جو انہوں نے مولانا ابو الکلام آزاد کی تقریب صد سالہ یوم پیدائش کے موقع پر مرتب کر کے شائع کی۔ موصوف نے اس کتاب میں مولانا آزاد کی صحافت کے بارے میں تاریخی اور ضروری معلومات جمع کی ہیں او رمولانا کے کارنامۂ صحافت کے تاریخی سفر کے تعارف اور تبصرے کےساتھ ان کے بعض رسائل کے اشاریے بھی شامل کیے ہیں۔ (م۔ا)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے ،جسے اللہ تعالی کا کلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس کو پڑھنا باعث اجر وثواب اور اس پر عمل کرنا باعث نجات ہے۔جو قوم اسے تھام لیتی ہے وہ رفعت وبلندی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہو جاتی ہے،اور جو اسے پس پشت ڈال دیتی ہے ،وہ ذلیل وخوار ہو کر رہ جاتی ہے۔یہ کتاب مبین انسانیت کے لئے دستور حیات اور ضابطہ زندگی کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ انسانیت کو راہ راست پر لانے والی ،بھٹکے ہووں کو صراط مستقیم پر چلانے والی ،قعر مذلت میں گرے ہووں کو اوج ثریا پر لے جانے والے ،اور شیطان کی بندگی کرنے والوں کو رحمن کی بندگی سکھلانے والی ہے۔اہل علم نے عامۃ الناس کے لئے قرآن فہمی کے الگ الگ ،متنوع اور منفرد قسم کے اسالیب اختیار کئے ہیں ،تاکہ مخلوق خدا اپنے معبود حقیقی کے کلام سے آگاہ ہو کر اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ زیر تبصرہ کتاب " میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے " محترم محمد سرور خان صاحب کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے قرآن مجید کے مضامین کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو عمل کی ترغیب دی ہے۔آپ کی اس پہلے بھی ایک کتاب "کیا تم دیکھتے نہیں"سائٹ پر اپلوڈ کی جا چکی ہے ۔ اللہ تعالی مولفین کو اس کاوش پر جزائے خیر عطا فرمائے،ہمیں قرآنی برکات سے استفادہ کرنے کی توفیق دے۔آمین(راسخ)
قرآن مجید ایک مرتب ومنظم زندہ وجاوید صحیفہ ہے،جسے اللہ تعالی کا کلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس کو پڑھنا باعث اجر وثواب اور اس پر عمل کرنا باعث نجات ہے۔جو قوم اسے تھام لیتی ہے وہ رفعت وبلندی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہو جاتی ہے،اور جو اسے پس پشت ڈال دیتی ہے ،وہ ذلیل وخوار ہو کر رہ جاتی ہے۔یہ کتاب مبین انسانیت کے لئے دستور حیات اور ضابطہ زندگی کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ انسانیت کو راہ راست پر لانے والی ،بھٹکے ہووں کو صراط مستقیم پر چلانے والی ،قعر مذلت میں گرے ہووں کو اوج ثریا پر لے جانے والے ،اور شیطان کی بندگی کرنے والوں کو رحمن کی بندگی سکھلانے والی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے خدمت قرآن کو اپنی زندگیوں کا مرکز ومحور بنا کے رکھا ۔کسی نے اپنی توجہ کا مرکز احکام قرآنی اور مسائل فقہیہ کو بنایا ،کسی مفسر کا محور عام وخاص ،مجمل ومفصل اور محکم ومتشابہ رہا ،کسی نے نحو وصرف پر زور دیا اور مفردات کے اشتقاق اور جملوں کی ترکیب پر محنت کی تو کسی نے علم کلام کی بحوث کو پیش کیا۔ ان خدمات میں سے ایک خدمت تراجم قرآن کی ہے، جس کے تحت قرآن مجید کا دنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ان تراجم میں سے بعض انگریزی ترجمے ایسے ہیں جو مسلمانوں کی بجائے مستشرقین نے کئے ہیں اور ان میں بعض جگہوں پر اپنی مرضی کے معانی ومفاہیم بیان کئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" مستشرقین اور انگریزی تراجم قرآن "محترم پروفیسر عبد الرحیم قدوائی صاحب کے مضامین پر مشتمل ہے، جسے محترم پروفیسر اختر الواسع صاحب نے مرتب کیا ہے۔مولف موصوف نے ان مضامین میں مستشرقین کے انگریزی تراجم کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ا ن کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔(راسخ)
امت مسلمہ صرف ’کلمہ گو‘ جماعت نہیں بلکہ داعی الی الخیر بھی ہے۔ یہ اس کے دینی فرائض میں داخل ہے کہ بنی نوع انسان کی دنیا کی سرافرازی اور آخرت کی سرخروئی کے لیے جو بھی بھلے کام نظر آئیں، بنی آدم کو اس کا درس اور اس کی مخالف سمت چلنے سے ان کو روکے ۔اس فریضہ سے کوئی مسلمان بھی مستثنیٰ نہیں۔ مسلم معاشرے کے ہرفرد کا فرض ہے کہ کلمہ حق کہے ،نیکی اور بھلائی کی حمایت کرے اور معاشرے یا مملکت میں جہاں بھی غلط اور ناروا کام ہوتے نظر آئیں ان کو روکنے میں اپنی ممکن حد تک پوری کوشش صرف کردے۔ ایمان باللہ کے بعد دینی ذمہ داریوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیناسب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ امر بالمعروف کامطلب ہے نیکی کا حکم دینا اور نہی عن المنکر کا مطلب ہے برائی سے روکنا یہ بات تو ہر آدمی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی اور نیک لوگوں کو پسند فرماتےہیں۔ برائی اور برے لوگوں کو ناپسند فرماتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ نیک لوگ زیاد ہ ہوں او ر نیکی کا غلبہ رہے۔ برے لوگ کم ہوں اور برائی مغلوب رہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو محض خود نیک بن کر رہنے اور برائی سے بچنے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اسی عظیم مقصد کی خاطر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور انبیاء کرام کاسلسلہ ختم ہونے کے بعد امت محمدیہ کے حکمرانوں ،علماء وفضلاء کو خصوصا اورامت کے دیگر افراد کوعموماً اس کا مکلف ٹھہرایا ہے۔ قرآن وحدیث میں اس فریضہ کواس قد ر اہمیت دی گئی ہے کہ تمام مومن مردوں اورتمام مومن عورتوں پر اپنے اپنے دائرہ کار اور اپنی اپنی استطاعت کےمطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکرپر عمل کرنا واجب ہے۔ اوراللہ تعالیٰ نےقرآن کریم کی ایک ایت کریمہ میں حکمرانوں کوبھی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کامکلف ٹھہرایا ہے۔ نیز ان حکمرانوں سےمدد کا وعدہ فرمایا ہے جو حکومت کی قوت اور طاقت سے نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔لیکن عصر حاضر کے حکمران برائی کو روکنے اور نیکی کا حکم دینے کا فریضہ صحیح طرح سے ادا نہیں کرر ہے سوائے سعودی عرب کے اس لیے معاشرے کے ہرفر داور علماء کو اپنی استطاعت کےمطابق اپنے دورس و خطبات کے ذریعے اس اہم فریضہ کوجاری وساری رکھنا چاہیے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’دورس المساجد جلد اول‘‘ مولانا محمد عظیم حاصلپوری﷾ کے روزانہ جامع مسجد تاج عقب جامعہ محمد یہ جی ٹی، گوجرانوالہ میں نماز عصر کے بعد دئیے گئے دروس کا مجموعہ ہے۔ مولانا موصوف کا یہ درس جامعیت، سادگی، آسان الفاظ کے استعمال تحقیق و تخریج کے لحاظ سے اس قدر اثر پذیر اور دلنشیں ہوتا کہ ہر سننے والے کے دل میں اتر جاتا۔ سامعین کی خواہش اور اصرارپر مولانا نے ان دروس کو بڑی محنت سے تحریری صورت میں مرتب کیا اور مکتبہ اسلامیہ، لاہور نے اسے حسن طباعت سےآراستہ کیا ہے۔ واعظین، خطباء حضرات کے لیے یہ کتاب بیش قیمت نادر تحفہ ہے اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی تمام دعوتی، تحقیقی و تصنیفی اور تدریسی کاو شوں کو قبول فرمائے۔ (آمین) دروس المساجد کی یہ جلد اول ہے جلددوم اس سے قبل سائٹ پر پبلش ہوچکی ہے یہ جلد طہارت و صلاۃ، تین چیزیں، جنتی عمل، آداب، حقوق العباد حقوق زوجین، حقوق والدین، حقوق اولاد، رمضان المبارک آداب طعام جیسے اہم موضوعات پر مشتمل ہے۔ (م۔ا)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے ،جسے اللہ تعالی کا کلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس کو پڑھنا باعث اجر وثواب اور اس پر عمل کرنا باعث نجات ہے۔جو قوم اسے تھام لیتی ہے وہ رفعت وبلندی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہو جاتی ہے،اور جو اسے پس پشت ڈال دیتی ہے ،وہ ذلیل وخوار ہو کر رہ جاتی ہے۔یہ کتاب مبین انسانیت کے لئے دستور حیات اور ضابطہ زندگی کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ انسانیت کو راہ راست پر لانے والی ،بھٹکے ہووں کو صراط مستقیم پر چلانے والی ،قعر مذلت میں گرے ہووں کو اوج ثریا پر لے جانے والے ،اور شیطان کی بندگی کرنے والوں کو رحمن کی بندگی سکھلانے والی ہے۔اہل علم نے عامۃ الناس کے لئے قرآن فہمی کے الگ الگ ،متنوع اور منفرد قسم کے اسالیب اختیار کئے ہیں ،تاکہ مخلوق خدا اپنے معبود حقیقی کے کلام سے آگاہ ہو کر اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ زیر تبصرہ کتاب " کیا تم دیکھتے نہیں " محترم محمد سرور خان صاحب کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے قرآن مجید میں وارد الفاظ افلا تبصرون کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو عمل کی ترغیب دی ہے ۔ اللہ تعالی مولفین کو اس کاوش پر جزائے خیر عطا فرمائے،ہمیں قرآنی برکات سے استفادہ کرنے کی توفیق دے۔آمین(راسخ)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے ،جسے اللہ تعالی کا کلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس کو پڑھنا باعث اجر وثواب اور اس پر عمل کرنا باعث نجات ہے۔جو قوم اسے تھام لیتی ہے وہ رفعت وبلندی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہو جاتی ہے،اور جو اسے پس پشت ڈال دیتی ہے ،وہ ذلیل وخوار ہو کر رہ جاتی ہے۔یہ کتاب مبین انسانیت کے لئے دستور حیات اور ضابطہ زندگی کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ انسانیت کو راہ راست پر لانے والی ،بھٹکے ہووں کو صراط مستقیم پر چلانے والی ،قعر مذلت میں گرے ہووں کو اوج ثریا پر لے جانے والے ،اور شیطان کی بندگی کرنے والوں کو رحمن کی بندگی سکھلانے والی ہے۔اہل علم نے عامۃ الناس کے لئے قرآن فہمی کے الگ الگ ،متنوع اور منفرد قسم کے اسالیب اختیار کئے ہیں ،تاکہ مخلوق خدا اپنے معبود حقیقی کے کلام سے آگاہ ہو کر اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ زیر تبصرہ کتاب " مسائل ھمارے فیصلے اللہ تعالی کے " محترم پروفیسر ڈاکٹر محمدیوسف صاحب کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے قرآن مجید میں وارد احکام کو جمع فرما دیا ہے ۔ اللہ تعالی مولفین کو اس کاوش پر جزائے خیر عطا فرمائے،ہمیں قرآنی برکات سے استفادہ کرنے کی توفیق دے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالی ٰ کے با برکت نام او رصفات جن کی پہچان اصل توحید ہے ،کیونکہ ان صفات کی صحیح معرفت سے ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ عقیدۂ توحید کی معرفت اور اس پر تاحیات قائم ودائم رہنا ہی اصلِ دین ہے۔ اور اسی پیغامِ توحیدکو پہنچانے اور سمجھانے کی خاطر انبیاء و رسل کومبعوث کیا گیا او رکتابیں اتاری گئیں۔ اللہ تعالیٰ کےناموں او رصفات کے حوالے سے توحید کی اس مستقل قسم کوتوحید الاسماء والصفات کہاجاتاہے۔ قرآن واحادیث میں اسماء الحسنٰی کوپڑھنے یاد کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’ وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا‘‘اور اللہ تعالیٰ کے اچھے نام ہیں تو اس کوانہی ناموں سےپکارو۔اور اسی طرح ارشاد نبویﷺ ہے«إِنَّ لله تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ»یقیناً اللہ تعالیٰ کے نناوےنام ہیں یعنی ایک کم 100 جس نےان کو یاد (یعنی پڑھنا سمجھنا،یادکرنا) کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح بخاری )اسماء الحسنٰی کے سلسلے میں اہل علم نے عربی اردو زبان میں مستقل کتب تصنیف کی ہیں اور بعض نے ان اسماء کی شرح بھی کی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تیرے نام تیری پہچان‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب محترمہ ساجدہ ناہید اور محترمہ بشریٰ تسنیم کی مشترکہ کاوش ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں قرآن وسنت کے علاوہ مستند ائمہ محدثین اور علماء کی تشریحات کو بھی نقل کرتے ہوئے صفات الٰہی سے استفادے پر بہترین تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ یہ کتاب اپنے موضوع کی بہت سے عربی اور اردو کتب کا حسین مرقع ہے۔ مرتبین نے قرآنی اسلوب کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کتاب کااندازِ تحریر کبھی خطاب، کبھی متکلم او رکبھی انذار وتبشیر کا اختیار کیا ہے اور تاریخی واقعات اور مثالوں سے سبق حاصل کرنےکی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں خواتین کی اس اہم کو کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کے نفع بخش بنائے۔ (آمین) (آمین)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے اٹھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود آج تک اس کی میں کوئی تحریف وتصحیف سامنے نہیں آئی۔ اور اگر کسی نے یہ مذموم کوشش کی بھی تو اللہ تعالی نے اسے ذلیل وخوار کر کے رکھ دیا۔قرآن مجید عہد نبویﷺ سے ہی زبانی حفظ کے ساتھ ساتھ کتابی شکل میں بھی لکھا جاتا رہا ہے۔آپ ﷺ نے متعدد صحابہ کرام کو کاتب وحی کے طور پر مقرر کر رکھا تھا۔ کلمات قرآنیہ کی کتابت کا ایک بڑا حصہ تلفظ کے موافق یعنی قیاسی ہے،لیکن چند کلمات تلفظ کے خلاف لکھے جاتے ہیں اور رسم کے خلاف اس معروف کتاب کو رسم عثمانی یا رسم الخط کہا جاتا ہے۔تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کو رسم عثمانی کے مطابق لکھنا واجب اور ضروری ہے ،اور اس کے خلاف لکھنا ناجائز اور حرام ہے۔لہذا کسی دوسرے رسم الخط جیسے ہندی، گجراتی، مراٹھی، ملیالم، تمل، پنجابی، بنگالی، تلگو، سندھی، فرانسیسی، انگریزی ،حتی کہ معروف وقیاسی عربی رسم میں بھی لکھنا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ درحقیقت کتاب اللہ کے عموم و اطلاق، نبوی فرمودات، اور اجماع صحابہ و اجماعِ امت سے انحراف ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب " جمع وتدوین قرآن "محترم سید صدیق حسن صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے عقلی ونقلی دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید عہد بابرکت ہی میں مدون اور مکمل ہو گیا تھا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور اسے ان کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنائے۔آمین(راسخ)
1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانان ہند کے سیاسی اور معاشی زوال کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق ، ثقافت ، مذہب اور معاشرت پر بھی دوررس نتائج کے حامل برے اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ مسلمانوں کا ملی تشخص خطرے میں پڑ گیا تھا اگر ایک طرف سقوط دہلی کے بعد مدرسہ رحیمیہ کے دروازے بند کر دئیے گئے تھے تو دوسری طرف ان کو ان کے مذہب سے بیزار کرنے کے لیے مذموم کوششوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا تھا۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ مسلمانوں کو اسلامی احکامات سے باخبررکھا جائے اور ان میں جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت کی تجدید کا عمل بلا تاخیر شروع کیا جائے تاکہ سپین اور خلافت عثمانیہ کے مسلمانوں کی طرح ان کا شیرازہ ملت کہیں بکھر نہ جائے مذکورہ مقاصد کے حصول کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ کی تعلیمات اور تحریک سے متأثر کچھ علماء نے برطانوی ہند میں دینی مراکز قائم کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی۔ اسی ضرورت کے پیش نظر یو۔ پی کے ضلع سہارنپور کے ایک قصبے نانوتہ کے مولانا قاسم نانوتوی نے 30 مئی 1866ء بمطابق 15 محرم الحرام 1283ھ کو دیوبند کی ایک چھوٹی سی مسجد (مسجد چھتہ) میں مدرسۃ دیوبند کی بنیاد رکھی۔ بعد میں دار العلوم دیوبند کے نام سے اسے عالمگیر شہرت حاصل ہوئی اور جہاں سے بڑے بڑے نامور علماء کرام نے تعلیم حاصل کر کے سند فراغت حاصل کی۔ اسی مناسبت سے آج مسلک احناف میں سے ایک فرقہ دیوبندی کہلاتا ہے۔ علمائے دیوبند عملاً مسلک امام ابوحنیفہ کے پیروکار ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں انگریز کے دور استبداد میں حنفیہ کی مسند تدریس کو منور رکھنا علمائے دیوبند کا کارنامہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’کیا علماء دیوبند اہل سنت ہیں؟‘‘ سعودی عرب کے دعوت وتبلیغ کے میدان میں کام کرنے والے فعال ادارے ’’جالیات‘‘ کی طرف سے عربی زبان میں مرتب کردہ رسالہ ’’هل علماء الفرقة الديوبندية اهل السنة والجماعة ؟ کا اردو ترجمہ ہے۔ مشہور واعظ و مبلغ محترم جناب سید توصیف الرحمٰن راشد﷾ نے اسے عربی سے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ مرتب نے اس کتاب میں علماء دیوبند کی کتب کےحوالہ جات کی روشنی میں ان کے عقائد کو بیان کر کے ان کا ناقدانہ تجزیہ کیا ہے۔ (م۔ا)
قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے، او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہےکہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتب احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے ہیں ۔تاکہ خدمت قرآن کے عظیم الشان شرف سے مشر ف ہوں۔قرآن مجید اسی ہزار الفاظ پر مشتمل ہے۔مگر اصل الفاظ دو ہزار ہیں، جن کے بار بار آنے سے یہ اسی ہزار بن گئے ہیں۔ان میں سے 500 الفاظ اردو زبان میں کم وبیش استعمال ہوتے ہیں۔باقی 1500 الفاظ ہیں جنہیں اگر صحیح طرح سے یاد کر لیا جائے توقرآن مجید کو سمجھنا آسان ہو جاتاہے۔ زیرتبصرہ کتاب ''اساس القرآن '' محترمہ خولہ ضیغم صاحبہ کی کاوش ہے، جس میں انہوں نے انہی بنیادی 1734 الفاظ کے لغوی واصطلاحی معانی بیان کر دئیے ہیں تاکہ قرآن مجید کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولفہ موصوفہ کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن کریم اللہ کہ وہ مقدس کتاب ہے جس کی خدمت باعثِ خیر وبرکت اور ذریعۂ بخشش ونجات ہے ۔یہی وجہ ہےکہ قرونِ اولیٰ سے عصر حاضر تک علماء ومشائخ کے علاوہ مسلم معاشرہ کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اصحاب بصیرت نے حصول برکت کی خاطر اس کی کسی نہ کسی صورت خدمت کی کوشش کی ہے ۔اہل علم نے اگر اس کے الفاظ ومعانی ،مفاہیم ومطالب ،تفسیر وتاویل ،قراءات ولہجات اور علوم قرآن کی صورت میں کام کیا ہے تو دانشوروں نے اس کے مختلف زبانوں میں تراجم ،کاتبوں نے مختلف خطوط میں اس کی کتابت کی ،ادیبوں اور شاعروں نےاس کے محامد ومحاسن کواپنے الفاظ میں بیان کر کے اس کی خدمت کی اور واعظوں اور خطیبوں نے اپنے وعظوں اور خطبات سے اس کی تعریف اس شان سے بیان کی کہ ہر مسلمان کا دل ا س کی تلاوت ومطالعہ کی جانب مائل ہواا ور امت مسلمہ ہی نہیں غیر مسلم بھی اس کی جانب راغب ہوکر اس سے منسلک ہوگئے ۔ بعض اہل علم وقلم نے اس کے موضوعات ومضامین پر قلم اٹھایا ااور بعض نے اس کی انڈیکسنگ اور اشاریہ بندی کی جانب توجہ کی ۔ مختلف اہل علم نے اس حوالے سے كئی کتب تصنیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’ برصغیرمیں مطالعہ قرآن ‘‘ بھارت کی مائہ ناز عالمی شہرت کی حامل شخصیت محترم جناب محمد رضی الاسلام ندوی ﷾کے چندمقالات کا مجموعہ ہے۔ انہوں نےاس کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کرکے قرآن فہمی کے میدان میں ماضی قریب کے بعض علمائے ہند کی کاوشوں کا جائزہ ومطالعہ پیش کیا ہے۔باب اول میں سیر سید احمد خاں کی تفسیر القرآن اور مابعد تفاسیر پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے ۔ باب دوم میں بیسوی صدی میں عربی میں تفسیر وعلوم قرآنی کے میدان میں ہونے والے کام کاتعارف کرایا ہے۔اور بیسویں صدی میں لکھی جانے والی تفاسیر میں حروف مقطعات کے مباحث پر روشنی ڈالی ہے ۔ باب سوم میں چند مشہور علماء کرام کی خدمات تفسیر کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے ۔ چوتھے باب میں قرآنی موضوعات پر گزشتہ دودہائیوں میں شائع ہونے والی بعض اہم تصانیف کا جائزہ لیا ہے ۔(م۔ا)
سود کو عربی زبان میں ”ربا“کہتے ہیں، جس کا لغوی معنیٰ زیادہ ہونا، پروان چڑھنا، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ: ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے مختلف شعبوں میں جو بگاڑ پیدا کیا ہے اس کا سب سے بڑا سبب سود ہے۔ ہماری معاشی زندگی میں سود کچھ اس طرح رچا بسا دیاگیا ہے کہ لوگ اس کو معاشی نظام کا ایک لازمی عنصر سجھنے لگے ہیں اور اس کےبغیر کسی معاشی سرگرمی کو ناممکن سمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ اب وہ امت مسلمہ جس کو اللہ تعالیٰ نےاپنی کتاب میں سود مٹانے کے لیے مامور کیا تھا جس کو سودخوروں سےاعلان جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب اپنی ہر معاشی اسکیم میں سود کوبنیاد بناکر سودخوری کے بڑے بڑے ادارے قائم کررکھے ہیں اور سودی نظام کو استحکام بخشا جار ہا ہے ۔جس کے نتیجے میں امت مسلمہ کو معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑھ رہا ہے۔ سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری، حرص و طمع، خود غرضی، شقاوت و سنگدلی، مفاد پرستی، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دینِ اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ شریعت ِاسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ انسداد سود کامقدمہ اور وفاقی شرعی عدالت کے 14 سوال‘‘ فیڈرل شریعت کورٹ کے سود کیس کی سماعت کے لیے جاری کردہ چودہ سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ کے تفصیلی جوابات پر مشتمل ہے ان سوالات کا تفصیلی جواب تنظیم اسلامی پاکستان کے امیر جناب حافظ عاطف وحید (انچارج شبعہ تحقیق قرآن اکیڈمی، لاہور ) نے تیار کر کے کورٹ میں جمع کروایا۔ عامۃ الناس کے استفادے کے لیےانہوں نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کومرتب کرنے والے احباب اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہماری معیشت کو سود جیسی لعنت سے محفوظ فرمائے۔ (آمین) م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتابِ ہدایت ہےاور یہ کتاب اس قدر جامع اور مکمل ہے کہ یہ قیامت تک کے لیے آنے والی انسانی نسلوں کی رشد وہدایت کے لیے کافی ہے ۔ اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی کبھی علماء اس کے علوم سے سیر ہوں گے چنانچہ قرآن مجید کو آپ جس پہلو سے بھی دیکھیں یہ آپ کو عدیم النظیر ہی نظر آئے گا۔ مختلف ادوار میں مختلف فکری ،علمی اور تحقیقی صلاحیتوں کےحامل لوگوں نے اپنی اپنی کوششیں قرآن کریم کی شرح وتوضیح کے میدان میں صرف کی ہیں۔لیکن قریبا ہر ایک نے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ اس بحر ذخار سے چند موتی ہی نکال سکا ہے۔قرآن مجید کے معجزاتی پہلوؤں میں ایک پہلو یہ ہے کہ ہر دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق مختلف اسالیب اور پیرایوں میں اس کی تفاسیر،ترجمہ ،معانی ،تفہیم، وتسہیل کا اور تدریس وتعلیم کے لیے علوم آلیہ وغیرہ کی مدد سے اس پر نصاب سازی کا کام ہوتا رہاہے۔ اور یہ مبارک سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ خوش بخت اور عالی قدر ہیں وہ نفوس جنہیں اس خدمتِ عالیہ میں حظ اٹھانے کا موقع ملا۔ عصر حاضر میں قرآن مقدس کو عام فہم انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے خانوں میں ترجمے ،رنگوں اورعلامات کے ذریعے ترجمہ پیش کرنے نیز اس کےفہم میں مزید دل چسپی پیدا کرنے کےلیے عربی زبان اور اس کےقواعد پر مشتمل نصاب سازی کےاسالیب اپنائے جارہے ہیں ۔اس سلسلے میں کئی اہل علم نے تعلیم وتدریس اور تصنیف کےذریعے کو ششیں اور کاوشیں کیں۔فہم قرآن کے سلسلے میں الہدیٰ انٹرنیشنل،ڈاکٹر اسرار، قرآن انسٹی ٹیوٹ،اسلامک انسٹی ٹیوٹ،لاہور ،دارالفلاح ،لاہور، دار العلم ،اسلام آباد وغیرہ اور بالخصوص مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ زیر تبصرہ ’’ الفرقان‘‘ محترم جناب شیخ عمرفاروق کے ہفت روزہ ’’ ایشیا ‘‘ میں درس قرآن کے عنوان سے سلسلہ وار شائع ہونے والے درس کی کتابی صورت ہے ۔موصوف نے اس میں الفاظ کے مادے ، ان کے ماضی ومضارع اور صیغے بڑےاہتمام سے پیش کیے ہیں ۔ نیز پورے مضمون کے پیغام سمجھانے کےلیے انہو ں نے بہت سےقدیم وجدید تفاسیر کامطالعہ کر کے حسب ضرورت ان دروس میں مختلف مفسرین کے اقتباسات بھی دئیے ہیں ۔ ہفت روزہ ’’ ایشیا ‘‘ میں شائع ہونے والے ان دروس قرآن کو قارئین نے بہت پسند کیا ہے توشیخ عمر فاروق صاحب اپنے ان دروس قرآن کو کتابی صورت میں مرتب کیااور مرتب کرتے وقت اسے مفید بنانے کی ہر ممکن سعی اور جستجو کی ہے ، بنیادی عربی گرائمر کے علاوہ فہم قرآن کے سلسلہ میں مفید مضامین کااضافہ بھی کیا ہے ۔(م۔ا)
قرآن ِ مجید انسانوں کی راہنمائی کےلیے رب العالمین کی طرف سے نازل کی گئی آخری کتاب ہے ۔اور قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو تاقیامت انسانیت کے لیے رشد وہدایت کا سرچشمہ اور نوعِ انسانی کےلیے ایک کامل او رجامع ضابطۂ حیات ہے ۔ اسی پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں سربلند ی او ر آخرت میں نجات کا حصول ممکن ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کے معانی ومفاہیم کوسمجھا جائے ،اس کی تفہیم کے لیے درس وتدریس کا اہتمام کیا جائے او راس کی تعلیم کے مراکز قائم کئے جائیں۔ قرٖآن فہمی کے لیے ترجمہ قرآن اساس کی حیثیت رکھتا ہے ۔آج دنیاکی میں کم وبیش 103 زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم شائع ہوچکے ہیں۔جن میں سے ایک اہم زبان اردو بھی ہے ۔اردو زبان میں اولین ترجمہ کرنے والے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دو فرزند شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر ہیں ۔ اب تو اردو زبان میں سیکڑوں تراجم دستیاب ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری وساری ہے ۔ زیر تبصرہ ترجمہ قرآن مولانا فتح محمد جالندھری کا ہے ۔مولوی فتح محمد مترجم قرآن کی حیثیت سے عوام میں متعارف ضرور ہیں مگر نہ تو مورخین نے اور نہ ہی سوانح نگاروں نے آپ کا تعارف اپنی تالیفات میں کرایا جس سے معلوم ہوتا کہ آپ عالم دین ہیں اور دینی کتابوں کے مصنف بھی۔ البتہ ترجمہ قرآن ان کا ایک واحد قلمی کارنامہ ہے جو تاریخ میں محفوظ ہے۔ تاریخی شواہدکے مطابق آپ نے اس ترجمہ کو ڈپٹی نذیر احمد ترجمہ قرآن سے استفادہ کرکے مکمل کیا ہے اور یہ ترجمہ اولاً فتح الحمید کے نام سے شائع ہوا تھا۔ (م۔ا)
وحدت و اتحاد ایک ایسی ضرورت ہے جس کی طرف اسلام باربار دعوت دیتا ہے اور تاکید کرتاہے کہ جس امت کادین ایک، دینی شعائر ایک، شریعت و قانون ایک، منزل ایک اور خدا و رسول ایک ہو، اسے بہرحال خود بھی ایک ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے جہاں امت کو ایک ہوکر اللہ کی رسی کو پکڑنے کی تاکید کی ہے اور افتراق و انتشار سے روکا ہے، وہاں خطاب واحد کے بجائے جمع کے صیغوں سے کیاہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر فرد جزو امت ہے وہ کسی صورت میں امت سے جدا نہیں ہوسکتا ہے۔ وحدت امت کی فرضیت، اہمیت اور ضرورت کی اس سے بڑی دلیل اور کیاہوسکتی ہے کہ شریعت اسلام نے امت کو دن میں پانچ بار جمع ہوکر نماز قائم کرنے کاحکم دیا، پھر ہفتہ میں ایک بار اس سے بڑے اجتماع کے لئے جمعہ کو فرض قرار دیا اور پھر نماز عید کی شکل میں سالانہ اجتماع کا اہتمام کیا اور تاکید کی کہ یہ اجتماع آبادی سے نکل کر کھلے میدان میں منعقد ہو اور مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی اس میں شرکت کی ترغیب دی پھر اس سے بڑا اہتمام یہ کیاکہ فرضیت حج کے ذریعہ مشرق و مغرب، جنوب شمال اور دنیا کے اطراف و اکناف میں بسنے والی امت کو ایک مرکز پر جمع ہونے، ایک ہی جیسے لباس میں جمع ہونے، ایک ہی کلمہ ادا کرنے اور ایک ہی جیسے افعال ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ انفرادی عبادت کے مقابلہ میں اجتماعی عبادت کی جو اہمیت ہے اس میں من جملہ دوسری باتوں کے امت کے اتحاد کا نکتہ بھی شامل ہے۔ زیر نظر کتاب " وحدت امت " دیو بندی مکتب فکر کے معروف عالم دین محترم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی ایک گرانقدرتصنیف ہے، جس میں انہوں نے لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر تمام مسلمانوں کو اتفاق واتحاد کی دعوت دی ہے اور انہیں تفرقہ بازی اور انتشار سے بچنے کی ترغیب دی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین (راسخ)
بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے ہجرت کےبعد 16 سے 17 ماہ تک مسلمان بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ مسجد اقصٰی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔نبی کریم ﷺسفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور بیت المقدس میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے‘‘ (سورہ الاسراء )۔ احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصٰی اور مسجد نبوی شامل ہیں۔سیدنا عمر فاروق کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو سیدنا عمر نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔صلاح الدین نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں ۔اسلام اور ملتِ اسلامیہ کے خلاف یہودیوں کی دشمنی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے ۔یہودِ مدینہ نے عہد رسالت مآب میں جو شورشیں اور سازشیں کیں ان سے تاریخِ اسلام کا ہر طالب علم آگاہ ہے ۔ گزشتہ چودہ صدیوں سے یہود نے مسلمانوں کےخلاف بالخصوص اور دیگر انسانیت کے خلاف بالعموم معادانہ رویہ اپنا رکھا ہے ۔بیسویں صدی کےحادثات وسانحات میں سب سے بڑا سانحہ مسئلہ فلسطین ہے ۔ یہود ونصاریٰ نےیہ مسئلہ پیدا کر کے گویا اسلام کےدل میں خنجر گھونپ رکھا ہے ۔1948ء میں اسرائیل کے قیام کےبعد یورپ سے آئے ہو غاصب یہودیوں نے ہزاروں سال سے فلسطین میں آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور جائدادوں سے بے دخل کر کے انہیں کمیپوں میں نہایت ابتر حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ ۔ دراصل یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا ۔گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران اسرائیلی یہودیوں کی جارحانہ کاروائیوں اور جنگوں میں ہزاروں لاکھوں فلسطینی مسلمان شہید ، زخمی یا بے گھر ہوچکے ہیں اورلاکھوں افراد مقبوضہ فلسطین کے اندر یا آس پاس کےملکوں میں کیمپوں کے اندر قابلِ رحمت حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔اوراقوام متحدہ اوراس کے کرتا دھرتا امریکہ اور پورپ کےممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’قدس کویہودی شہر بنانےکی کو شش ‘‘ ڈاکٹر انور محمد زناتی کی تصنیف ہے ۔ یہ کتاب اسرائیل کے ارض فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے سلسلے میں ایک معتبر، مفصل، حقیقت پر مبنی اوراسرائیل سازش کودوپہر کی دھوپ کی طرح واضح کرنے دینے والی دستاویزی تالیف ہے ۔ جس میں سرکاری وثائق ، تصویروں اور نقشوں کے ذریعے اسرائیل کی تاریخی دہشت گردی کو واضح کیاگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عالمِ اسلام کی غیرت کو بیدار کرنے کاذریعہ بنائے اور بیت المقدس جلد اس کےحقداروں کے ہاتھ آجائے ۔ (آمین) (م۔ا)
خطابت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے، جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات کودوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں ،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اوراپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کرسکتا ہے۔خطابت صرف فن ہی نہیں ہے بلکہ اسلام میں خطابت اعلیٰ درجہ کی عبادت اورعظیم الشان سعادت ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کومیدانِ خطابت کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کادھارا بدل دیتے ہیں،ہواؤں کےرخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے ہیں ۔تاریخ کےہر دورمیں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اقوام وملل او رقبائل کے امراء وزعما کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امرتھا۔قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی ہمیں کئی معروف ِ زمانہ فصیح اللسان اور سحر بیان خطباء اس فن کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظرآتے ہیں۔دورِ اسلام میں فنِ خطابت اپنے اوج کمال تک پہنچ گیا تھا ۔نبی کریم ﷺ خود سحرآفرین اور دلنشیں اندازِ خطابت اور حسنِ خطابت کی تمام خوبیوں سے متصف تھے۔ زیرتبصرہ کتاب"صرف پانچ منٹ کا مدرسہ" مختلف علماء کرام کی مشترکہ کاوش ہے، جس میں انہوں نے خطباء اور واعظین کے لئے پورے عربی سال کے حساب سے تین سو ساٹھ دروس اکٹھے کر دئیے ہیں اور ان میں طریقہ کار یہ اختیار کیا ہے کہ ہر درس میں دس عنوانات بنائے ہیں،جنہیں آدمی پانچ منٹ میں مقتدیوں، طلبہ اور بچوں کے سامنے پڑھ سکتا ہے۔یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلی جلد محرم تا جمادی الثانی تک جبکہ دوسری جلد رجب سے ذی الحجہ تک مشتمل ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
خلفائے راشدین اور حضرت عمر بن عبد العزیز کے بعد جن مسلمان حکمرانوں کی عظمت کردار نے آسمان کی رفعتوں کو چھو لیا ان میں ملک العادل سلطان نورالدین محمود زنگی کا نام نامی امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی عظمت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ ہردور کے مورخ، دوست اور دوشمن سبھی نے اسکی شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں نمایاں جگہ دی ہے۔ بعض مورخین نےخلفائے راشدینؓ کےبعد تمام فرماں روایان اسلام میں اس کوسب سےبہتر قرار دیا ہے۔ نور الدین فروری 1118ء میں پیدا ہوا اور 1146ء سے 1174ء تک 28 سال حکومت کی۔ اس نے عیسائیوں سے بیت المقدس واپس لینے کے لیے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے گرد و نواح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔ مصر پر قبضہ کرنے کے بعد نورالدین نے بیت المقدس پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ بیت المقدس کی مسجد عمر میں رکھنے کے لیے اس نے اعلیٰ درجے کا منبر تیار کروایا۔ اس کی خواہش تھی کہ فتح بیت المقدس کے بعد وہ اس منبر کو اپنے ہاتھوں سے رکھے گا لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا۔ نورالدین ابھی حملے کی تیاریاں ہی کررہا تھا کہ زنگی کو حشیشین نے زہر دیا۔ جس سے ان کے گلے میں سوزش پیدا هو گئی جو کہ ان کی موت کا باعث بنی 15 مئی 1174ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت نورالدین کی عمر 58سال تھی۔ نور الدین زنگی کی وفات کے بعد جب ان کا کم سن بیٹا مفاد پرست امراء کے ہاتھ میں کھلونا بن گیا تو قدرت حق نے صلاح صلاح الدین ایوبی کو سلطان زنگی کے مشن کا وارث بنا کر کھڑا کردیا۔ عظمت اسلام کے مشن سے منحرف سلطان زنگی مرحوم کے بیٹے کے مقابلے میں خود اس کی ماں یعنی سلطان زنگی کی بیوہ نے جس طرح اندرونی محاذ پر مزاحمت کر کے دمشق کی سلطنت کے بگڑے ہوئے تشخص کو پھر سے بحال کردیا اسلامی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سلطان زنگی کی بیوہ‘‘ میں جناب ڈاکٹر اختر حسین عزمی نے ایک دلچسپ ناول کے انداز میں سلطان نور الدین زنگی کی وفات کےبعدان کی بیوہ کے مثالی تاریخی کردار کو پیش کیا ہے۔ (م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جو چیز بھی پیدا کی ہے خواہ وہ انسان ہو جاندار، بے جان ۔غرض ہر چیز کی پہچان اس کے نام سے ہوتی ہے ۔ اور نام انسان کی شناخت کاسب سے اہم ذریعہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو بھی سب سے پہلے ناموں کی تعلیم دی تھی جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ایک مرحلہ نام رکھنے کا ہوتاہے خاندان کا بڑا بزرگ یا خاندان کے افراد مل کر بچے کا پسندیدہ نام رکھتے ہیں۔ اور بعض لوگ اپنے بچوں کے نام رکھتے وقت الجھن میں پڑ جاتے ہیں اور اکثر سنے سنائے ایسے نام رکھ دیتے ہیں جو سراسر شر ک پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور نام رکھنےوالوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جو نام رکھا اس کامطب معانی کیا ہے اور یہ کس زبان سے ہے حالانکہ اولاد کے اچھے اچھے نام ر کھنے کی شریعت میں بہت تاکید کی گئی۔اچھے ناموں سے بچے کی شخصیت پر نہایت مثبت اور نیک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’پیارے نام ‘‘ معروف عالم دین فاروق اصغر صارم (سابق مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور ) کی تصنیف ہے ۔ انہوں نے قرآن مجید ، کتب احادیث سیروتواریخ کی کتب اور اسماء الرجال پر لکھی گئی عربی اردو کتب کے علاوہ ڈکشنریوں سے استفادہ کر کے یہ کتاب مرتب کی ہے ۔ یہ کتاب ضروری مسائل پر محیط ، قدیم وجدید ناموں کا مرقع ہے منتخب اور چیدہ چیدہ ناموں کا گلدستہ ہے ۔نیز انہوں نے اس میں کتاب بچوں کے حقوق ، نام کی اہمیت اور اس کے شرعی احکام وآداب کے ساتھ ساتھ نام رکھنے کے سلسلے میں کی جانی والی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے اور شرکیہ اور کفریہ ناموں کی نشاندہی کرنے کے علا وہ کتاب کے آخرمیں مکروہ ناموں کی فہرست پیش کردی ہے ۔ (م۔ا)
قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس کتاب ِ ہدایت میں انسان کو پیش آنے والے تمام مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشاد گرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔ مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اورسمجھا نہ جائے۔ اسے پڑھنے اور سمجھنے کا شعور اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک اس کی اہمیت کا احساس نہ ہو۔ اور قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود آج تک اس کی میں کوئی تحریف و تصحیف سامنے نہیں آئی۔ اور اگر کسی نے یہ مذموم کوشش کی بھی تو اللہ تعالیٰ نے اسے ذلیل وخوار کر کے رکھ دیا۔ قرآن مجید عہد نبویﷺ سے ہی زبانی حفظ کے ساتھ ساتھ کتابی شکل میں بھی لکھا جاتا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے متعدد صحابہ کرام کو کاتب وحی کے طور پر مقرر کر رکھا تھا۔ خلیفہ ثالث سید نا عثمان نے اپنے دور خلافت میں قرآن مجید کو مکمل کتابی صورت میں جمع کیا اور اس کے نسخے مختلف علاقوں کی طرف بھی روانہ کیے۔ لیکن قرآن مجید پر اعتراض کرنے والے مستشرقین نے قرآن کریم پر جہاں مختلف پہلوؤں سے اعتراضات کیے ہیں وہاں انہوں نے قرآن مجید کی تدوین اورجمع کرنے کے متعلق بھی اعتراضات کیے ہیں۔ جن کے علماء امت محمدیہ نے شافی کافی جوابات بھی تحریرکیے ہیں۔ زیر نظر مقالہ ’’جمع وتدوین قرآن‘‘ محترم جناب ڈاکٹر حافظ محمدعبد القیوم صاحب کے ایم فل کے لیے لکھے گے تحقیقی مقالہ کی کتابی صورت ہے۔ یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے۔ فاضلہ مقالہ نگار نے ابتداء میں اس کا جائزہ لیا ہے کہ قرآن کریم پر اعتراضات کی ابتدا کب ہوئی اور کس کے ہاتھوں میں ہوئی۔ معترضین کی کتابوں کے حوالہ سے انہوں نے اعتراضات کا احاطہ کیا اور پھر بڑی منطقی ترتیب سے علمی انداز میں ان کے جوابات تحریرکیے ہیں۔ یہ کتاب جمع وتدوینِ قرآن کی تاریخ پر مشتمل بڑی اہم کتاب ہے۔ (م۔ا)