موجودہ مادی دور میں جہاں اور بہت سے مسائل باعث پریشانی ہیں وہاں ایک انتہائی پریشان کن مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کیونکر کی جائے معاشرے میں عمومی طورپر الحادولادینیت کا دور دورہ ہے درس گاہوں کی حالت بھی ابتر ہے اس کےلیے یقیناً بہت احیتاط کی ضرورت ہے لہذا ہمہ وقت بارگاہ ایزدی میں دست بدعا رہنا چاہئے کہ وہ نونہالان وطن کی صحیح تعلیم وتربیت کے لیے ذرائع وسائل مہیا فرمائے بچوں کی تربیت کاایک اہم طریقہ حکایات اور کہانیاں بھی ہیں بچوں میں طبعی طور پر کہانیوں سے ایک لگاؤ ہوتا ہے لیکن عموماً جنوں اور پریوں با بادشاہوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن میں کوئی اخلاقی سبق نہیں ہوتا بلکہ الٹا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں زیرنظر کتاب میں بچوں کےلیے اسلامی نقطہ نظر سے بہت ہی عمدہ کہانیاں تحریر کی گئی ہیں جن سے بچوں میں اسلامی عقائد وآداب مستحکم ہوں گے البتہ اس کایہ پہلو کھٹکتا ہے کہ یہ فرضی کہانیاں ہیں بہتر ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین عظام اور تاریخ کے سچے واقعات کو کہانی کے انداز میں بیان کیاجاتا۔
اسلام دینِ فطرت اور ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس طرح اس میں دیگر شعبہ ہائے حیات کی راہنمائی اور سعادت کے لیے واضح احکامات او رروشن تعلیمات موجود ہیں اسی طرح ازدواجی زندگی اور مرد وعورت کے باہمی تعلقات کےمتعلق بھی اس میں نہایت صریح اورمنصفانہ ہدایات بیان کی گئی ہیں۔ جن پر عمل پیرا ہوکر ایک شادی شدہ جوڑا خوش کن اورپُر لطف زندگی کا آغاز کر سکتاہے۔ کیونکہ یہ تعلیمات کسی انسانی فکر وارتقاء اورجدوجہد کانتیجہ نہیں بلکہ خالق کائنات کی طرف سےنازل کردہ ہیں۔ جس نے مرد وعورت کے پیدا کیا اور ان کی فلاح وکامرانی کے لیے یہ ہدایات بیان فرمائیں۔خاوند اور بیوی کی ایک دوسرے سے باہمی محبت تبھی فروغ پائے گی جب ان میں سے ہر کوئی دوسرے کے حقوق اور اپنی ذمہ داری کا خیال رکھے گا۔ اسلام نے ان ذمہ داریوں اور حقوق کی واضح تقسیم کر کے جہاں خاوند کے ذمہ بہت سارے فرائض سے عہدہ برآ ہونا مقرر کیا ہے وہیں اسے مطمئن رکھنے اور خاندان کے نظام کو بہترین اور اعلیٰ اقدار پر استورا کرنے کے لیے گھر کا نگران، افسر اور حاکم بنایا ہے۔اب اس حکومت میں خاوند اگر بادشاہ ہے تو بیوی اس کی وزیر ہے ۔ خاوند اگر...
خطابت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے، جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات کودوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں ،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اوراپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کرسکتا ہے۔خطابت صرف فن ہی نہیں ہے بلکہ اسلام میں خطابت اعلیٰ درجہ کی عبادت اورعظیم الشان سعادت ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کومیدانِ خطابت کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کادھارا بدل دیتے ہیں،ہواؤں کےرخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے ہیں ۔تاریخ کےہر دورمیں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اقوام وملل او رقبائل کے امراء وزعما کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امرتھا۔قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی ہمیں کئی معروف ِ زمانہ فصیح اللسان اور سحر بیان خطباء اس فن کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظرآتے ہیں۔دورِ...