شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو اایک خاص مقام حاصل ہے ۔او رتمام شرائع ومذاہب میں بھی دعا کا تصور موجود رہا ہے مگر موجود ہ شریعت میں اسے مستقل عبادت کادرجہ حاصل ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے کہ جو تقدیر کو بدل سکتی ہے ۔دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالق اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اسے تب ہی فائدہ دیتی ہے جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کوبھی ملحوظ رکھے۔ بہت سارے اہل علم نے قرآن وحدیث سے مسنون ادعیہ پر مشتمل بڑی وچھوٹی کئی کتب تالیف کی ہیں تاکہ قارئین ان سے اٹھاتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے تعلق مضبوط کرسکیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’خیارا الدعوات ‘‘ مولانا حافظ محمد عبد الرحمٰن بقا کا مرتب کردہ مسنون دعاؤں کا مجموعہ ہے ۔مرتب موصوف نے ان احادیث مبارکہ کو اس مجموعہ میں بمع ترجمہ درج کیا ہے جو دعوت وافکار کے باب میں کتب معتبرہ احادیث میں وارد ہیں ۔نیز احادیث کی مکمل تخریج کرتے ہوئے احادیث کی صحت وضعف کی حیثیت سے حدیثوں کی اسنادی کیفیتیں بھی لکھ دیں ہیں ۔(م۔ا)
جنت وہ باغ جس کے متعلق انبیاء کی تعلیمات پرایمان لا کر نیک اور اچھے کام کرنے والوں کو خوشخبری دی گئی ہے۔ یہ ایسا حسین اور خوبصورت باغ ہے جس کی مثال کوئی نہیں ۔یہ مقام مرنے کے بعد قیامت کے دن ان لوگوں کو ملے گا جنہوں نے دنیا میں ایمان لا کر نیک اور اچھے کام کیے ہیں۔ قرآن مجید نے جنت کی یہ تعریف کی ہے کہ اس میں نہریں بہتی ہوں گی، عالیشان عمارتیں ہوں گی،خدمت کے لیے حور و غلمان ملیں گے، انسان کی تمام جائز خواہشیں پوری ہوں گی، اور لوگ امن اور چین سے ابدی زندگی بسر کریں گے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ:’’جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں جنھیں کسی آنکھ نے دیکھا نہیں نہ کسی کان نے ان کی تعریف سنی ہے نہ ہی ان کا تصور کسی آدمی کے دل میں پیدا ہوا ہے۔‘‘(صحیح مسلم: 2825) اور ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ ابدی جنتوں میں جتنی لوگ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباؤاجداد، ان کی بیویوں اور اولادوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے، جنت کے ہر دروازے سے فرشتے اہل جنت کے پاس آئیں گے اور کہیں گے تم پر سلامتی ہو تم یہ جنت تمھارے صبر کا نتیجہ ہے آخرت کا گھر تمھیں مبارک ہو‘‘۔(سورۂ الرعدآیت نمبر: 23،24) حصول جنت کےلیے انسان کو کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے تو اسے ادا کرکے اس کامالک ضرور بنے۔ اور جہنم بہت ہی بری قیام گاہ،بہت ہی برا مقام اور بہت ہی برا ٹھکانہ ہےجسے اللہ تعالی نے کافروں،منافقوں،مشرکوں اور فاسقوں وفاجروں کے لئے تیار کر رکھا ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جنت اور جہنم دونوں کا بار بار تذکرہ فرمایا ہے۔اور جہنم کا تذکرہ نسبتا زیادہ کیا ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ انسانوں کی اکثریت ترغیب سے زیادہ ترہیب کو قبول کرتی ہے۔جہنم وہ ہولناک اور المناک عقوبت خانہ ہے جس کی ہولناکی کا اندازہ لگانا دنیوی زندگی میں محال ہے۔انسان كو اپنی اس عارضی اور دنیاوی زندگی میں جہنم سے آزادی کا سامان کرنا چاہیے اور جہنم کی طرف لے جانے والے راستوں سے اجنتاب کرنا چاہیے ۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ قرآن وسنت پر عمل پیرا ہوکر جنت کا ویزہ پائیے ‘‘ سجاد حمید خان کی مرتب شدہ ہے موصوف نے اس میں جنت کا تعارف ، جنت کی نعمتیں اور انعامات اور دوزخ کا تعارف اور اس کے ہولناک عذابوں کا بڑی دلنشیں انداز میں تعارف کرایا ہے اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انسان كو اپنی اس عارضی اور دنیاوی زندگی میں جہنم سے آزادی کا سامان کرنا چاہیے اور جہنم کی طرف لے جانے والے راستوں سے اجنتاب کرنا چاہیے ۔اور حصول جنت کے لیے اعمال صالحہ کو اختیار کرنا چاہیے ۔(م۔ا)
سورۃ الحجرات قرآن مجید کی 49 ویں سورت جو حضرت محمد ﷺ کی مدنی زندگی میں نازل ہوئی۔ اس سورت میں 2 رکوع اور 18 آیات ہیں۔سورۃ الحجرات کےمضامین اورتفاسیر بالماثور کےمطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ سورۃ الحجرات ایک ہی دفعہ نازل نہیں کی گئی بلکہ حسب ضرورت اس کانزول کئی حصوں او رمختلف اوقات میں ہوا اس سورت کااجمالی موضوع اہل ایمان اورمسلمانوں کے ان امور کی اصلاح ہے جن کا تعلق ان کے باہمی معاملات او رمجمتع اسلامی سے ہوتاہے۔ ابتدائی پانچ آیتوں میں ان کو وہ ادب سکھایا گیا ہے جو انہیں اللہ اور اس کے رسول کے معاملے میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ پھر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہر خبر پر یقین کر لینا اور اس پر کوئی کارروائی کر گزرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی اطلاع ملے تو غور سے دیکھنا چاہیے کہ خبر ملنے کا ذریعہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ قابل اعتماد نہ ہو تو اس پر کارروائی کرنے سے پہلے تحقیق کر لینا چاہیے کہ خبرصحیح ہے یا نہیں۔ اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ اگر کسی وقت مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ پھر مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، ایک دوسرے پر طعن کرنا، ایک دوسرے کے برے برے نام رکھنا، بد گمانیاں کرنا، دوسرے کے حالات کی کھوج کرید کرنا، لوگوں کو پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرنا، یہ وہ افعال ہیں جو بجائے خود بھی گناہ ہیں اور معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا کرتےہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نام بنام ان کا ذکر فرما کر انہیں حرام قرار دے دیا ہے۔ اس کے بعد قومی اور نسلی امتیازات پر ضرب لگائی گئی ہے جو دنیا میں عالمگیر فسادات کے موجب ہوتے ہیں۔ قوموں اور قبیلوں اور خاندانوں کا اپنے شرف پر فخر و غرور، اور دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا، اور اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے دوسروں کو گرانا، ان اہم اسباب میں سے ہے جن کی بدولت دنیا ظلم سے بھر گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سی آیت فرما کر اس برائی کی جڑ کاٹ دی ہے کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے پیدا ہوئے ہیں اور قوموں اور قبیلوں میں ان کا تقسیم ہونا تعارف کے لیے ہے نہ کہ تفاخر کے لیے، اور ایک انسان پر دوسرے انسان کی فوقیت کے لیے اخلاقی فضیلت کے سوا اور کوئی جائز بنیاد نہیں ہے۔ آخر میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اصل چیز ایمان کا زبانی دعویٰ نہیں ہے بلکہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول کو ماننا، عملاً فرمانبردار بن کر رہنا، اور خلوص کے ساتھ اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کھپا دینا ہے۔ حقیقی مومن وہی ہیں جو یہ روش اختیار کرتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو دل کی تصدیق کے بغیر محض زبان سے اسلام کا اقرار کرتے ہیں اور پھر ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ گویا اسلام قبول کر کے انہوں نے کوئی احسان کیا ہے، تو دنیامیں ان کا شمار مسلمانوں میں ہو سکتا ہے، معاشرے میں ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اللہ کے ہاں وہ مومن قرار نہیں پا سکتے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ اسلام کے معاشرتی آداب ‘‘ عالم اسلام کے عظیم اسلامی اسکالر مفسر قرآن سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تصیف ہے جسے انہوں نے سورۃ الحجرات کی روشنی میں انتہائی عام فہم انداز میں عامۃ الناس کے لیے مرتب کیا تھا۔یہ کتاب دراصل ان کی تفسیر ’’ تفہیم القرآن ‘‘ سے اخذ شدہ جسے عامۃ الناس کے استفادے کے لیے اسلامک سروسز سوسائٹی نے الگ سے شائع کیا گیا ہے ۔ (راسخ)
جنت اللہ کےمحبوب بندوں کا آخری مقام ہے اور اطاعت گزروں کےلیے اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے ۔ یہ ایسا حسین اور خوبصورت باغ ہے جس کی مثال کوئی نہیں ۔یہ مقام مرنے کے بعد قیامت کے دن ان لوگوں کو ملے گا جنہوں نے دنیا میں ایمان لا کر نیک اور اچھے کام کیے ہیں۔ قرآن مجید نے جنت کی یہ تعریف کی ہے کہ اس میں نہریں بہتی ہوں گی، عالیشان عمارتیں ہوں گی،خدمت کے لیے حور و غلمان ملیں گے، انسان کی تمام جائز خواہشیں پوری ہوں گی، اور لوگ امن اور چین سے ابدی زندگی بسر کریں گے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ:’’جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں جنھیں کسی آنکھ نے دیکھا نہیں نہ کسی کان نے ان کی تعریف سنی ہے نہ ہی ان کا تصور کسی آدمی کے دل میں پیدا ہوا ہے۔‘‘(صحیح مسلم: 2825) اور ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ ابدی جنتوں میں جتنی لوگ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباؤاجداد، ان کی بیویوں اور اولادوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے، جنت کے ہر دروازے سے فرشتے اہل جنت کے پاس آئیں گے اور کہیں گے تم پر سلامتی ہو یہ جنت تمھارے صبر کا نتیجہ ہے آخرت کا گھر تمھیں مبارک ہو‘‘۔(سورۂ الرعدآیت نمبر: 23،24) حصول جنت کےلیے انسان کو کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے تو اسے ادا کرکے اس کامالک ضرور بنے۔جنت کاحصول بہت آسان ہے یہ ہر اس شخص کومل سکتی ہے جو صدق نیت سے اس کےحصول کے لیے کوشش کرے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے بندوں کے لیے ہی بنایا ہے اور یقیناً اس نے اپنے بندوں کوہی عطا کرنی ہے ۔لیکن ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہمیں کماحقہ اس کا بندہ بننا پڑےگا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’جنت برائے فروخت ‘‘ محترم جناب محمد سرور خان کی کاوش ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں بڑے سہل اور دلچسپ انداز میں اس بات کوواضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جنت خریدنے کے لیے مسلمانوں کے اعمال صالحہ ہی کرنسی
جہنم بہت ہی بری قیام گاہ،بہت ہی برا مقام اور بہت ہی برا ٹھکانہ ہےجسے اللہ تعالی نے کافروں،منافقوں،مشرکوں اور فاسقوں وفاجروں کے لئے تیار کر رکھا ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جنت اور جہنم دونوں کا بار بار تذکرہ فرمایا ہے۔اور جہنم کا تذکرہ نسبتا زیادہ کیا ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ انسانوں کی اکثریت ترغیب سے زیادہ ترہیب کو قبول کرتی ہے۔جہنم وہ ہولناک اور المناک عقوبت خانہ ہے جس کی ہولناکی کا اندازہ لگانا دنیوی زندگی میں محال ہے۔انسان كو اپنی اس عارضی اور دنیاوی زندگی میں جہنم سے آزادی کا سامان کرنا چاہیے اور جہنم کی طرف لے جانے والے راستوں سے اجنتاب کرنا چاہیے ۔ زیر نظر کتاب ’’جہنم کے مسافر ‘‘ محترم جناب پروفیسر نور محمد چودہری کی مختصر سی تالیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے سفرجہنم کے ہولناک نتائج سے بچانے کے لیے بلکہ مسافرروں کو صراط مستقیم پر لاکر ان کی عاقبت سنوارنے کے لیے کتاب اللہ اوراحادیث مبارکہ میں جو انتباہ کیے گیے ہیں ان کا اس کتاب میں اختصار سے احاطہ کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کواہل اسلام کےلیے نفع بخش بنائے اور ہر مومن موحدکو جہنم سے آزادی اور جنت میں داخلہ نصیب فرمائے (آمین) (م۔ا)
اسلام کی فلک بوس عمارت عقیدہ کی اسا س پر قائم ہے ۔ اگر اس بنیاد میں ضعف یا کجی پیدا ہو جائے تو دین کی عظیم عمارت کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے اسی لیے نبی کریم ﷺ نے مکہ معظمہ میں تیرا سال کا طویل عرصہ صرف اصلاح ِعقائدکی جد وجہد میں صرف کیا ۔ دین اسلام اللہ تعالیٰ کادیا ہوا خوبصورت طریقہ زندگی ہے جو عقائد او ر اعمال پر مشتمل ہے ۔ جہاں عقائد دین میں بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں وہاں اعمال اس کا عملی مظہر ہیں۔جس طر ح عقیدہ کی خرابی سے تمام عبادات اور معاملات براہ راست متاثرہوتے ہیں اسی طرح آخرت میں نجات کا دارومدار بھی عقیدہ ہی کی درستگی پر ہے ۔آخرت میں اعمال کے حساب وکتاب کےوقت عبادات اور اخلاقیات وغیرہ کی کوتاہی سے درگزر ممکن ہے لیکن وہا ں عقیدے کا فساد قابل معافی نہ ہوگا۔عقیدہ ہی کی بنا پر ایک شخص مومن ومنافق،کافر ومشرک قرار پاتا ہے لہٰذا اصلاح عقائد ہر مسلمان فرد کی بنیادی ضرورت ہے کیونکہ اسی پر اس کےدین کی درستگی کا انحصار ہے ۔عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ او رآپ کے صحابہ کرا م نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا وہاں علماء اسلام نےبھی دن رات اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا ۔ عقائد کے باب میں اب تک بہت سی کتب ہر زبان میں شائع ہو چکی ہیں اردو زبان میں بھی اس موضوع پر قابل قدر تصانیف اور تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’اسلامی عقائد‘‘محترمہ زبیدہ عزیز صاحبہ کی مرتب شدہ ہے جسے انہوں نے ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کی نگرانی وراہنمائی میں ’’الہدیٰ انٹر نیشنل کے ڈپلومہ کورس کے نصاب کےلیے تیار کیا ہے۔جس میں عقائد کے متعلق تمام معلومات جامع،مختصر اور آسان فہم انداز میں یکجا کردی گئی ہیں تاکہ ایک طالب علم اپنا محاسبہ کرسکے اور لا علمی اور بےخبری میں فسادِ عقیدہ کا شکار نہ ہو جائے ۔یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے جس میں ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے عقیدہ دیے گئے لیکچرز کا مفید موادبھی شامل کردیاگیا ہے جس سے کتاب کی افادیت میں مزیداضافہ ہوگیا ہے۔ اس ایڈیشن میں تقریباً ساٹھ صفحات کا اضافہ کیا گیا ہے اس لیے اسے بھی سائٹ پر پبلش کردیا گیا ہے ۔یہ کتاب فہم قرآن کلاسز اور شارٹ کورسز کے نصاب میں شامل کرنے کے لائق ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنفہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور عوام الناس کے عقائد کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
دین کی سہولت اور نبی کریم ﷺکےآسانی کرنے کے مظاہر دین کے ہرگوشے میں ہیں ۔جن کا انکار معصیت کا مرتکب ہونے کے مترادف ہے ۔کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جوتھوڑے تقویٰ کےاظہار کے لیے اللہ کی دی ہوئی رخصتوں کا انکار کردیتے ہیں حالانکہ نبی ﷺ کا معمول تھا کہ اگر آپ ﷺ کودوکاموں میں سے ایک کے چناؤ کا اختیار دیا جاتا تو آپﷺ اس کو اختیار کرتے جو آسان ہوتا کیوں کہ جب رخصت ملے تو اس کا استعمال اللہ کو اچھا لگتا ہے ۔جن احکام ومسائل اورامور میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو رخصتیں اور آسانیاں دی ہیں وہ کتب وحدیث وفقہ میں موجود ہیں ۔جس عام شخص مستفید نہیں ہوسکتا ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اسلام اور آسانیاں‘‘ محترم جناب مولانا محمد عظیم حاصلپوری ﷾ (مصنف کتب کثیرہ) کی کاوش ہے اس کتاب میں انہوں نے امت مسلمہ کےلیے تمام معاملات وعبادات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایت کردہ سہولتوں ، رخصتوں اور آسانیوں کوقرآن وسنت اور مختلف ائمہ محدثین کی کتب سےآسانیوں کاانتخاب کر کےانہیں یکجا کردیا ہے کیونکہ ان رخصتوں اور سہولتوں کو عوام الناس تک پہنچانا بھی دعوت وتبلیغ کا حصہ ہے ۔کتاب وسنت کی روشنی میں احکام اسلام اور شریعت کے دیگر امور میں پائی جانے والی آسانیوں پر مشتمل یہ کتاب ایک گرانقدر مجموعہ اور بیش قیمت تحفہ ہے ۔اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی تمام دعوتی ،تبلیغی ، تحقیقی وتصنیفی اور تدریسی خدمات کو قبول فرمائے۔ (آمین) (م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتابِ ہدایت ہےاور یہ کتاب اس قدر جامع اور مکمل ہے کہ یہ قیامت تک کے لیے آنے والی انسانی نسلوں کی رشد وہدایت کے لیے کافی ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس قرآن کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی کبھی علماء اس کے علوم سے سیر ہوں گے چنانچہ قرآن مجید کو آپ جس پہلو سے بھی دیکھیں یہ آپ کو عدیم النظیر ہی نظر آئے گا۔ مختلف ادوار میں مختلف فکری ،علمی اور تحقیقی صلاحیتوں کےحامل لوگوں نے اپنی اپنی کوششیں قرآن کریم کی شرح وتوضیح کے میدان میں صرف کی ہیں۔لیکن قریبا ہر ایک نے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ اس بحر ذخار سے چند موتی ہی نکال سکا ہے۔قرآن مجید کے معجزاتی پہلوؤں میں ایک پہلو یہ ہے کہ ہر دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق مختلف اسالیب اور پیرایوں میں اس کی تفاسیر،ترجمہ ،معانی ،تفہیم، وتسہیل کا اور تدریس وتعلیم کے لیے علوم آلیہ وغیرہ کی مدد سے اس پر نصاب سازی کا کام ہوتا رہاہے۔ اور یہ مبارک سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ خوش بخت اور عالی قدر ہیں وہ نفوس جنہیں اس خدمتِ عالیہ میں حظ اٹھانے کا موقع ملا۔ عصر حاضر میں قرآن مقدس کو عام فہم انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے خانوں میں ترجمے ،رنگوں اورعلامات کے ذریعے ترجمہ پیش کرنے نیز اس کےفہم میں مزید دل چسپی پیدا کرنے کےلیے عربی زبان اور اس کےقواعد پر مشتمل نصاب سازی کےاسالیب اپنائے جارہے ہیں ۔اس سلسلے میں کئی اہل علم نے تعلیم وتدریس اور تصنیف کےذریعے کو ششیں اور کاوشیں کیں۔فہم قرآن کے سلسلے میں الہدیٰ انٹرنیشنل،ڈاکٹر اسرار، قرآن انسٹی ٹیوٹ،اسلامک انسٹی ٹیوٹ،لاہور ،دارالفلاح ،لاہور وغیرہ اور بالخصوص مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’فہم قرآن کورس ‘‘ مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور) کے شاگرد رشید محترم جنا ب قاری عبدالحفیظ الرحمٰن ثاقب ﷾(مدیر فہم دین انسٹی ٹیوٹ،لاہور ) کی کاوش ہے انہوں نےاس کتاب کو دوپارٹس میں تقسیم کیا ہے پارٹ اول میں 10 یونٹ اور پارٹ دو م میں بھی 11 سے 20 تک 10 یونٹ ہیں او ردو نوں پارٹس میں فہم قرآن ، عربی زبان کے قوائد وضوابط ، گرائمر پر مشتمل ٹوٹل 50 لیکچر پیش کیے ہیں ۔موصوف نے ان لیکچرز میں فہم قرآن کے طلبہ وطالبات کے لیے عربی زبان کے قواعد کو نہایت آسان اور دلچسپ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں تمام مثالیں قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے ہی پیش کی ہیں ۔مشقوں کی صورت میں قرآن وحدیث کا وہ بنیادی مواد پیش کیا ہے جس سے عبادات ،معاملات او ر اخلاقیات کی اصلاح ہوسکے ۔(م۔ا)
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے پور ی انسانیت کے لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل راہنمائی فراہم کرتاہے انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام معاملات ، عقائد وعبادات ، اخلاق وعادات کے لیے نبی ﷺ کی ذات مبارکہ اسوۂ حسنہ کی صورت میں موجود ہے ۔ اگرمسلمانانِ عالم اپنےمعاملات کو نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سرانجام دیں تو یقیناً ان کی زندگیاں امن وسکون کاگہوارہ بن سکتی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ گھریلوزندگی ‘‘مولانا فاروق رفیع ﷾ (مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ) کی تصنیف ہے موصوف تصنیف وتالیف ،تخریج وتحقیق کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں اس کتاب کے علاوہ تقریبا نصف درجن کتب کے مصنف ، اچھے مدرس اور واعظ ہیں۔ اللہ تعالی ٰان کےعلم وعمل او ر زور ِقلم میں اضافہ فرمائے (آمین) اس کتاب میں مصنف نے رشتہ نکاح کی اہمیت ،انتخاب نکاح میں شرعی نصیحتوں کا بیان ، شادی کے بعد میاں بیوی کےمشترک ومنفرد حقوق ،زوجین کی حقوق میں کوتاہی کےانجام کار اور رشتہ نکاح کی بحالی کی ہرممکن کوشش کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔شادی شدہ جوڑے کےاستحکام کے لیے کتاب وسنت میں جو مفید چیزیں اوردلائل میسر تھے وہ اس کتاب میں جمع کردیے ہیں ،جو عادات اوطوار شادہ شدہ جوڑے کے لیےنقصان کا باعث ہیں ان نقصانات او رنتائج سےآگاہ کردیا ہے ۔ میکے اور سسرال والوں کے مثبت ومنفی کردار کھول کر بیان کیے ہیں تاکہ نکاح کے رشتہ سےمتعلق بھی لوگ اپنا مثبت کردار ادا کر کے اس رشتہ کو مضبوط سے مضبوط تر کریں اور سبھی لوگ خوشحال اور پرسکون زندگی بسر کریں۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں شامل ہر موضوع کو کتاب وسنت کے دلائل سے آراستہ کیا ہے او راس میں درج شدہ احادیث کی بڑی عرق ریزی سے تحقیق وتخریج کی ہے ۔ یہ کتاب گھرکے افراد کی اصلاح و تربیت کا مرقع او رگھرکو پرامن وپرسکون بنانے او راہل خانہ کی شرعی تعلیمات سےآراستہ کرنےکا خوبصورت گلدستہ ہے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو عوام الناس کے لیے نفع بخش او ر مصنف کے والدین ،اساتذہ ، او ر ہل خانہ کےلیے ذریعہ نجات بنائے (آمین) (م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتابِ ہدایت ہےاور یہ کتاب اس قدر جامع اور مکمل ہے کہ یہ قیامت تک کے لیے آنے والی انسانی نسلوں کی رشد وہدایت کے لیے کافی ہے ۔ اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی کبھی علماء اس کے علوم سے سیر ہوں گے چنانچہ قرآن مجید کو آپ جس پہلو سے بھی دیکھیں یہ آپ کو عدیم النظیر ہی نظر آئے گا۔ مختلف ادوار میں مختلف فکری ،علمی اور تحقیقی صلاحیتوں کےحامل لوگوں نے اپنی اپنی کوششیں قرآن کریم کی شرح وتوضیح کے میدان میں صرف کی ہیں۔لیکن قریبا ہر ایک نے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ اس بحر ذخار سے چند موتی ہی نکال سکا ہے۔قرآن مجید کے معجزاتی پہلوؤں میں ایک پہلو یہ ہے کہ ہر دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق مختلف اسالیب اور پیرایوں میں اس کی تفاسیر،ترجمہ ،معانی ،تفہیم، وتسہیل کا اور تدریس وتعلیم کے لیے علوم آلیہ وغیرہ کی مدد سے اس پر نصاب سازی کا کام ہوتا رہاہے۔ اور یہ مبارک سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ خوش بخت اور عالی قدر ہیں وہ نفوس جنہیں اس خدمتِ عالیہ میں حظ اٹھانے کا موقع ملا۔ عصر حاضر میں قرآن مقدس کو عام فہم انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے خانوں میں ترجمے ،رنگوں اورعلامات کے ذریعے ترجمہ پیش کرنے نیز اس کےفہم میں مزید دل چسپی پیدا کرنے کےلیے عربی زبان اور اس کےقواعد پر مشتمل نصاب سازی کےاسالیب اپنائے جارہے ہیں ۔اس سلسلے میں کئی اہل علم نے تعلیم وتدریس اور تصنیف کےذریعے کو ششیں اور کاوشیں کیں۔فہم قرآن کے سلسلے میں الہدیٰ انٹرنیشنل،ڈاکٹر اسرار، قرآن انسٹی ٹیوٹ،اسلامک انسٹی ٹیوٹ،لاہور ،دارالفلاح ،لاہور، دار العلم ،اسلام آباد وغیرہ اور بالخصوص مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور )کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ زیرتبصرہ کتاب ’’ الفرقان سورۃ آل عمران و سورۃ الحجرات ‘‘ محترم جناب شیخ عمرفاروق صاحب کی کاوش ہے جوکہ قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ آل عمران ، سورۃ الحجرات کے بامحاورہ ترجمہ ، عربی گرائمر ،اورتفسیری نکات پر مشتمل ہے ۔نیز مرتب نےآخر میں آؤ عربی سیکھیں کےعنوان کےتحت15عربی اسباق بھی شامل کیے ہیں۔محترم شیخ عمر فاروق صاحب نے کوشش کی ہےکہ عربی نہ جاننے والے قاری حضرات کے ذہنوں میں قرآن کےالفاظ کی بناوٹ اوراس کی لفظی معانی کی سمجھ پیدا ہو اور قرآن کامفہوم اور پیغام بھی ذہن نشین ہوجائے ۔ اس کےلیے انہوں نے الفاظ کےمادے ،اور صیغے بڑے اہتمام سے دیے ہیں اور پورے مضمون کا پیغام سمجھانے کے لیے انہوں پہلے خود بہت سے قدیم اور جدید تفاسیر کامطالعہ کیا ہے اور پھر حسب ضرورت اپنے دروس میں مختلف تفسیروں کےاقتباسات درج کیے ہیں ۔بالخصوص تفہیم القرآن ، تدبر قرآن ،فی ظلال القرآن، سے استفادہ کر کے ان کے تفسیری نکات کو اس میں جمع کردیا ہے ۔فہم قرآن کےطلبہ وطالبات کے لیے یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔(م۔ا)
بدعت کا مطلب بغیر کسی مثال کے کسی چیز کووجود میں لانا ہے ۔ لیکن شریعت کی اصطلاع میں ہر وہ کام جسے ثواب یا برکت کاباعث یا نیکی سمجھ کر کیا جائے لیکن شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہ ہو۔ یعنی نہ تویہ کام خود رسول اللہﷺ نے کیا ہواور نہ ہی کسی کو کرنےکا حکم دیا ،نہ ہی اسے کرنے کی کسی کواجازت دی ۔اس کے برعکس جوکام رسول اللہ ﷺ نے ایک بشرکی حیثیت سے بشری ضروریات پوری کرنے کے لیے کیے ،آپ ﷺ نے جو وسائل یا ضروریاتِ زندگی استعمال کیں ،دنیاوی امور میں آپ ﷺ نے جو تدبیریں اختیار کیں ان میں قیامت تک نئے وسائل ،نئی چیزیں اورنئے تجربوں سےفائدہ اٹھانا بدعت نہیں۔بدعت کورواج دینا صریحا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور بدعات وخرافات کرنے والے کل قیامت کو حوض کوثر سے محروم کردیئےجائیں گے ۔ جس کی وضاحت فرمان ِنبوی میں موجو د ہے ۔ زیرتبصرہ رسالہ ’’ بدعت کیا ہے؟ ‘‘ سعودی عرب کے نامور عالم دین ومفتی شیخ محمد بن صالح العثیمین کے بدعت کے متعلق تحریر شدہ عربی کتابچہ کا اردو ترجمہ ہے ۔شیخ نے اس مختصر کتابچہ میں بدعت کی پہچان ، نقصان اور اس سے اپنےایمان کو کیسے بچانا ہے ؟ کےمتعلق راہنمائی فرمائی ہے ۔استاذ الاساتذہ مولانا عمرفاروق سعیدی ﷾ نے اسے اپنی تعلیقات وحواشی کے ساتھ اردو داں طبقے کے لیے اردوقالب میں ڈھالا ہے تاکہ لوگوں کو حق وباطل میں پہچان کرنےمیں آسانی ہوسکے ۔اللہ تعالیٰ اس مختصر کتابچہ کو عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتابِ ہدایت ہےاور یہ کتاب اس قدر جامع اور مکمل ہے کہ یہ قیامت تک کے لیے آنے والی انسانی نسلوں کی رشد وہدایت کے لیے کافی ہے ۔ اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی کبھی علماء اس کے علوم سے سیر ہوں گے چنانچہ قرآن مجید کو آپ جس پہلو سے بھی دیکھیں یہ آپ کو عدیم النظیر ہی نظر آئے گا۔ مختلف ادوار میں مختلف فکری ،علمی اور تحقیقی صلاحیتوں کےحامل لوگوں نے اپنی اپنی کوششیں قرآن کریم کی شرح وتوضیح کے میدان میں صرف کی ہیں۔لیکن قریبا ہر ایک نے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ اس بحر ذخار سے چند موتی ہی نکال سکا ہے۔قرآن مجید کے معجزاتی پہلوؤں میں ایک پہلو یہ ہے کہ ہر دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق مختلف اسالیب اور پیرایوں میں اس کی تفاسیر،ترجمہ ،معانی ،تفہیم، وتسہیل کا اور تدریس وتعلیم کے لیے علوم آلیہ وغیرہ کی مدد سے اس پر نصاب سازی کا کام ہوتا رہاہے۔ اور یہ مبارک سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ خوش بخت اور عالی قدر ہیں وہ نفوس جنہیں اس خدمتِ عالیہ میں حظ اٹھانے کا موقع ملا۔ عصر حاضر میں قرآن مقدس کو عام فہم انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے خانوں میں ترجمے ،رنگوں اورعلامات کے ذریعے ترجمہ پیش کرنے نیز اس کےفہم میں مزید دل چسپی پیدا کرنے کےلیے عربی زبان اور اس کےقواعد پر مشتمل نصاب سازی کےاسالیب اپنائے جارہے ہیں ۔اس سلسلے میں کئی اہل علم نے تعلیم وتدریس اور تصنیف کےذریعے کو ششیں اور کاوشیں کیں۔فہم قرآن کے سلسلے میں الہدیٰ انٹرنیشنل،ڈاکٹر اسرار، قرآن انسٹی ٹیوٹ،اسلامک انسٹی ٹیوٹ،لاہور ،دارالفلاح ،لاہور، دار العلم ،اسلام آباد وغیرہ اور بالخصوص مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ زیر تبصرہ ’’ الفرقان سورۃ البقرہ‘‘ محترم جناب شیخ عمرفاروق کے ہفت روزہ ’’ ایشیا ‘‘ میں درس قرآن کے عنوان سے سلسلہ وار شائع ہونے والے درس کی کتابی صورت ہے ۔موصوف نے اس میں الفاظ کے مادے ، ان کے ماضی ومضارع اور صیغے بڑےاہتمام سے پیش کیے ہیں ۔ نیز پورے مضمون کے پیغام سمجھانے کےلیے انہو ں نے بہت سےقدیم وجدید تفاسیر کامطالعہ کر کے حسب ضرورت ان دروس میں مختلف مفسرین کے اقتباسات بھی دئیے ہیں ۔بالخصوص تفہیم القرآن ، تدبر قرآن ،فی ظلال القرآن، سے استفادہ کر کے ان کے تفسیری نکات کو اس میں جمع کردیا ہے ۔فہم قرآن کےطلبہ وطالبات کے لیے یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔(م۔ا)
عقیدہ عذاب قبر قرآن مجید،احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔جس طرح دنیا میں آنے کے لئے ماں کا پیٹ پہلی منزل ہے،اور اس کی کیفیات دنیا کی زندگی سے مختلف ہیں،بعینہ اس دنیا سے اخروی زندگی کی طرف منتقل ہونے کے اعتبار سے قبر کا مقام اور درجہ ہے،اوراس کی کیفیات کو ہم دنیا کی زندگی پر قیاس نہیں کر سکتے ہیں۔عذاب قبر سے مراد وہ عذاب اور سزا ہے جو موت سے لے کر حساب وکتاب کے لیے دوبارہ اٹھائے جانے یعنی قیامت سےپہلے تک اللہ تعالیٰ کےنافرمانوں کودی جاتی ہے ۔ اہل وسنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر بر حق ہے اور اس پر کتاب وسنت کی بہت سی براہین واضح دلالت کرتی ہیں ۔جبکہ بعض کوتاہ بین ایسے بھی ہیں جنہوں نےاس کا انکار کیا جیسا کہ عصر حاضر میں منکرین حدیث ہیں جواس کا کلی انکار کرتے ہیں او راسی طرح برزخیوں کا ٹولہ ہے جو کہتے ہیں کہ اس قبر میں میت کو عذاب نہیں ہوتا۔ زیر تبصرہ کتاب’’ عذاب قبر قرآن مجید کی روشنی میں ‘‘ فاضل نوجوان محقق ومترجم محترم جناب مولانا ارشد کمال ﷾ کی علمی وتحقیقی کاوش ہے ۔موصوف نے اس مختصر کتاب میں عقیدہ عذاب قبر کو قرآن مجید سے ثابت کرتے ہوئے منکرین حدیث ومنکرین عذاب قبر کے اعتراضات کا بودا پن بھی ظاہر کیا ہے ۔موصوف اسی موضوع پر ایک تفصیلی کتاب ’’ المسند فی عذاب القبر ‘‘کے نام میں بھی تصنیف کرچکے ہیں جوکہ کتاب وسنت سائٹ پر موجود ہے ۔(م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتابِ ہدایت ہےاور یہ کتاب اس قدر جامع اور مکمل ہے کہ یہ قیامت تک کے لیے آنے والی انسانی نسلوں کی رشد وہدایت کے لیے کافی ہے ۔ اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی کبھی علماء اس کے علوم سے سیر ہوں گے چنانچہ قرآن مجید کو آپ جس پہلو سے بھی دیکھیں یہ آپ کو عدیم النظیر ہی نظر آئے گا۔ مختلف ادوار میں مختلف فکری ،علمی اور تحقیقی صلاحیتوں کےحامل لوگوں نے اپنی اپنی کوششیں قرآن کریم کی شرح وتوضیح کے میدان میں صرف کی ہیں۔لیکن قریبا ہر ایک نے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ اس بحر ذخار سے چند موتی ہی نکال سکا ہے۔قرآن مجید کے معجزاتی پہلوؤں میں ایک پہلو یہ ہے کہ ہر دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق مختلف اسالیب اور پیرایوں میں اس کی تفاسیر،ترجمہ ،معانی ،تفہیم، وتسہیل کا اور تدریس وتعلیم کے لیے علوم آلیہ وغیرہ کی مدد سے اس پر نصاب سازی کا کام ہوتا رہاہے۔ اور یہ مبارک سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ خوش بخت اور عالی قدر ہیں وہ نفوس جنہیں اس خدمتِ عالیہ میں حظ اٹھانے کا موقع ملا۔ عصر حاضر میں قرآن مقدس کو عام فہم انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے خانوں میں ترجمے ،رنگوں اورعلامات کے ذریعے ترجمہ پیش کرنے نیز اس کےفہم میں مزید دل چسپی پیدا کرنے کےلیے عربی زبان اور اس کےقواعد پر مشتمل نصاب سازی کےاسالیب اپنائے جارہے ہیں ۔اس سلسلے میں کئی اہل علم نے تعلیم وتدریس اور تصنیف کےذریعے کو ششیں اور کاوشیں کیں۔فہم قرآن کے سلسلے میں الہدیٰ انٹرنیشنل،ڈاکٹر اسرار، قرآن انسٹی ٹیوٹ،اسلامک انسٹی ٹیوٹ،لاہور ،دارالفلاح ،لاہور، دار العلم ،اسلام آباد وغیرہ اور بالخصوص مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور )کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ زیرتبصرہ کتاب ’’ الفرقان پارہ عم30‘‘ محترم جناب شیخ عمرفاروق صاحب کی کاوش ہے جوکہ قرآن مجید فرقان حمید کے آخری پارے کےبامحاورہ ترجمہ ، عربی گرائمر ،اورتفسیری نکات پر مشتمل ہے ۔مرتب موصوف نے تیسویں پارے کی سورتوں میں بھی تفسیر وتوضیح کاوہی انداز برقرار رکھا ہے جو سورۂ البقرہ میں اختیار کیاتھا۔ تفاسیر کے جس ذخیرے سےسورۃ البقرہ کی توضیح وتفسیر میں استفاد ہ کیا تھا اس پارے کی تشریح میں بھی انہیں تفاسیر کو پیش نظر رکھا ہے۔بالخصوص تفہیم القرآن ، تدبر قرآن ،فی ظلال القرآن، سے استفادہ کر کے ان کے تفسیری نکات کو اس میں جمع کردیا ہے ۔فہم قرآن کے لیےطلبہ وطالبات کےیہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔(م۔ا)
اللہ کی پسند وناپسند ہر مسلمان کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اسی معیار پر اس کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ہے ۔اگر بندے اللہ تعالی کےپسندیدہ کام کریں گے تو وہ ان سے راضی اور خوش ہوگا او ران کو مزید نعمتوں اور بھلائیوں سے نوازے گا ۔لیکن اگر وہ اللہ کےناپسندیدہ کام کریں گے تو وہ ان سے ناراض ہوگا اور انہیں سزا دےگا۔پہلی صورت میں بندوں کےلیے کامیابی اور فلاح ہے اور دوسری صورت میں ان کے لیے ناکامی اور خسارا ہے ۔لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم دنیا اور آخرت میں اپنی کامیابی اور فلاح کےلیے صرف وہی کام کریں جو اللہ تعالیٰ کوپسند ہیں اور جن کے کرنے کا اس نے ہمیں حکم دیا ہے خواہ وہ حکم ہمیں قرآن مجید کے ذریعے سےدیا گیا ہے یا سنت کےذریعے سے ۔اسی طرح ہمیں دنیا اور آخرت میں ناکامی اور خسارے سےبچنے کے لیے ایسے کاموں سےباز رہنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور جن سے اس نے ہمیں منع فرمایا ہے خواہ وہ ممانعت قرآن میں کی گئی ہو یا سنت میں ۔اور ایمان کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ایسے کام کیے جائیں جن سے اللہ اور اس کا رسول ﷺ راضی ہو جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِين (سورۃ توبہ :62)’’اللہ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ حق دار ہیں کہ انہیں راضی کریں اگر وہ مومن ہیں ‘‘۔اس کے علاوہ ہرمسلمان اللہ تعالی کے اطاعت اور اس کےرسولﷺ کی اطاعت کاپابند ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’اللہ کی پسند اور ناپسند‘‘ شیخ عدنان الطرشہ کی عربی کتاب ماذا يحب الله وماذا یبغض..؟ کا سلیس ترجمہ ہے ۔بنیادی طور پراس کتاب کا موضوع تزکیۂ نفس اوراخلاق ہے ۔ لیکن فاضل مصنف نے اس کتاب میں زندگی کے تقریباً تمام شعبوں کا احاطہ کیا ہے ۔چنانچہ بعض مقامات پر توحید وشرک کی گفتگو ہے تو بعض جگہوں پر اسلامی معاشرت، اجتماعی فرائض ، دعوت وجہاد آداب وعاداتِ اسلامی پر بحث کی ہے ۔اسی طرح فضائل اعمال ، رقاق ،زہد ، اعمال قلبی پر بڑی نفیس ونازک ابحاث اس کتاب میں شامل ہیں ۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ اس ضمن میں کوئی ضعیف اور منکر ،موضوع روایت کتاب ہذا میں شامل نہ ہونے پائے ۔انہو ں نے ان احادیث کی وضاحت کرنے اور ہر ہر موضوع کو باسلوب احسن واضح کرنے کےلیے انداز نہایت آسان اور دلکش اختیار کیا ہے۔محترم جنا ب خاور رشید بٹ ﷾ نے اس اہم کتاب کو اردو دان طبقہ کےلیے اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مصنف ،مترجم وناشرین کی اس عمدہ کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃالناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔آمین) (م۔ا)
ماضی قریب اور عصر حاضرعلمی انقلاب کا دور کہلاتا ہے جس میں علوم و فنون کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی استفادہ کو آسان سے آسان تر بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں اور کی جارہی ہیں جس کے لیے مختلف اسلوب اختیار کیے گئے ہیں۔ اولاً سیکڑوں کتب سے استفادہ کر کے حروف تہجی کے اعتبار سے انسائیکلو پیڈیاز، موسوعات، معاجم، فہارس، انڈیکس، اشاریہ جات وغیرہ تیار کیے گئے ہیں کہ جس کی مدد سے ایک سکالر آسانی سے اپنا مطلوبہ مواد تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ جیسے اردو زبان میں تقریبا 26 مجلدات پر مشتمل دانش گاہ پنجاب یعنی پنجاب یونیورسٹی، لاہور کے زیر اہتمام تیار کیاگیا ’’اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ ہے یہ ایک معروف انسائیکلو پیڈیا ہے جس سے کسی بھی موضوع، معروف شخصیات اور شہروں کے حالات وغیرہ بآسانی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں کئی اور بھی موسوعات ہیں جیسے ’’اسلامی انسائیکلو پیڈیا‘‘ از سید قاسم محمود، انگریزی زبان میں انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا بھی بڑا اہم اورمفید ہے۔ اسی طرح عربی زبان میں بڑے اہم موسوعات و فہارس تیار کی گئی ہیں، موسوعۃ نظریۃ النعیم جسے سعودی عرب کے علماء کی ایک کمیٹی نے 12 جلدوں میں میں تیار کیا ہے۔ موسوعہ الفقہ الاسلامی جسے مصر کے علماء نے تیار کیا ہے۔ موسوعہ فقہیہ کویتیہ جسے وزارت اوقاف، کویت نے فقہ کی مہارت رکھنے والے جید اہل علم سے تقریبا 30 سال میں 45 جلدوں میں تیار کروایا ہے جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے۔ احادیث تلاش کرنے کے لیے موسوعہ اطراف الحدیث، معجم مفہرس لالفاظ الحدیث اور قرآنی آیات کی تلاش کرنے کے لیے معجم المفہرس لاالفاظ القرآن بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اب تو انٹرنیٹ اور کئی کمپیوٹر سافٹ وئیرز نے باحثین و سکالرز کے لیے تحقیق و تخریج کے امور اور سیکڑوں کتب سے استفادہ کو بہت آسان بنادیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ جامعہ پنجاب کی طرف سے تیارکردہ ہے۔ 1940ء میں یونیورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر مولوی محمد شفیع نے یہ تجویز پیش کی کہ پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام ایک دائرہ معارف اسلامیہ اردو میں ترتیب کی جائے جو اسلامی تہذیب و ثقافت کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہو لیکن اس وقت یونیورسٹی کے ارباب اقتدار کو اس پر آمادہ نہ کیا جاسکا۔ قیام پاکستان کے بعد جب ملکی حالات ساز گار ہوئے اور جامعہ پنجاب حقیقی معنوں میں مسلمانان پنجاب کے تعلیمی اور فکری جذبوں کی عکاس بنی تو دوبارہ اس امر کے لیے کوشش کی گئی۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے پنجاب یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے اجلاس منعقدہ 1948ء میں اردودائرہ معارف اسلامیہ کومرتب کرنے کی تجویز پیش کی تو یہ تجویز اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر حیات ملک کی ذاتی دلچسپی سے منظور ہوگئی۔ بالآخر 1950ء سے عملی طور پر اس موضوع پر ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کی صدارت میں کام کا آغاز ہوا جوکہ بعد میں تقریباً 44 سال میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ 1964ء میں اس کی پہلی جلد طبع ہوئی اور آخری جلد 1989ء میں شائع ہوئی اور پھر ان تمام جلدوں کا اشاریہ جلد 24 کی صورت میں 1993ء میں شائع ہوا۔ بعد ازاں پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف کی نگرانی میں اردو دائرہ معارف اسلامیہ کا اختصار کیا گیا۔ جسے قیام پاکستان کے پچاس سال پورے ہونے پر 1997ء میں ایک جلد میں ’’مختصر اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ پھر پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف کی ادارت میں مزید کام کیا گیا جسے تکملہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے نام سے جلد اول مارچ 2002ء اور جلد دوم جون 2008ء میں دانش گاہ پنجاب نے شائع کی۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ علمی، تاریخی، ادبی تحقیقی اور ثفافتی اعتبار سے ایک قابل قدر اور لائق ستائش کارنامہ ہے جو کہ ہر بڑی لائبریری کی ضرو رت ہے۔ (م۔ا)
رہبرانسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیے’’اسوۂحسنہ‘‘ ہیں ۔ حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پور سامان رکھتی ہے۔اسلامی آداب واخلاقیات حسنِ معاشرت کی بنیاد ہیں،ان کے نہ پائے جانے سے انسانی زندگی اپنا حسن کھو دیتی ہے ۔ حسنِ اخلاق کی اہمیت اسی سے دوچند ہوجاتی ہے کہ ہمیں احادیث مبارکہ سے متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن میں عبادت وریاضت میں کمال رکھنے والوں کےاعمال کوصرف ان کی اخلاقی استواری نہ ہونے کی بنا پر رائیگاں قرار دے دیاگیا۔حسن ِاخلاق سے مراد گفتگو اور رہن سہن سے متعلقہ امور کوبہتر بنانا ہی نہیں ہے بلکہ اسلامی تہذیب کے تمام تر پہلوؤں کواپنانا اخلاق کی کامل ترین صورت ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ آپ ﷺ کے لیل ونہار ‘‘مولانا مشتاق احمد شاکر اور مولانا امان اللہ فیصل کی مشترکہ کاوش ہے ۔جوکہ رسول اکرم ﷺ کی زندگی کے شب وروز کے معمولات مجموعہ پر مشتمل ہے ۔مرتبین نے اس کتاب میں آپ ﷺ کے 23 سالہ دور نبوت میں گزرنے والے اہم لمحموں کو بڑے قرینہ سے حروف تہجی کی ترتیب سے قلمبند کرنےکی کوشش کی ہے ۔زیادہ تر احادیث کا مفہوم پیش کیا ہے کہیں کہیں حدیث کی شرح اور وضاحت بھی کردی ہے۔پیدائش سے موت پیش آنے والےمعاملات کے متعلق اسلامی زندگی گزارنے کےلیے یہ ایک بہترین تربیتی کتاب ہے شیخ الحدیث مولانا محمود احمد حسن ،شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد یوسف قصوری حفظہما اللہ کی نظر ثانی سے کتاب کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔۔(م۔ا)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے، جو پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت اخلاق آداب ہے، ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے، چنانچہ آپﷺ کی راز دار زندگی اور آپﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ عنہا فرماتی ہیں، ”آپﷺ کے اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہے“۔ آپﷺ نے اپنے ہر قول وفعل سے ثابت کیا کہ آپﷺ دنیا میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے تشریف لائے، چنانچہ ارشاد ہے: ”بعثت لاتتم مکارم الاخلاق“ یعنی ”میں (رسول اللہ ﷺ) اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیا ہوں“۔ پس جس نے جس قدر آپﷺ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاکر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا اسی قدر آپﷺ کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا، صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے، ”ان خیارکم احسن منکم اخلاقا“ یعنی ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ حضورﷺ کی ساری زندگی اخلاقِ حسنہ سے عبارت تھی، قرآن کریم نے خود گواہی دی ”انک لعلی خلق عظیم“ یعنی ”بلاشبہ آپﷺ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں“۔ آپ ﷺ لوگوں کوبھی ہمیشہ اچھے اخلاق کی تلقین کرتے آپ کے اس اندازِ تربیت کےبارے میں حضرت انس کہتے ہیں۔ رایتہ یامر بمکارم الاخلاق(صحیح مسلم :6362) میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ لوگوں کو عمدہ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’آداب واخلاق سے متعلقہ صحیح احادیث ‘‘شارح بخاری امام ابن حجر عسقلانی کی حسنِ اخلاق اوراداب کے متعلق منتخب احادیث کا رواں اردو ترجمہ ہے ۔ عامۃ الناس کےاستفادے کے محترم جناب ڈاکٹر حافظ عمران ایوب لاہوری ﷾ نے ان احادیث کو اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔اللہ تعالیٰ موصوف کے علم وعمل میں برکت ڈالے اور ان کی تحقیقی وتصنیفی خدمات کو قبول فرمائے ۔(آمین(م۔)
ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری نجات اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے نامہ اعمال میں نیکیاں گناہوں کے مقابلے میں زیادہ ہوں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیکی کس عمل یا عقیدے کا نام ہے؟ کیا نیکی کا تصور محض نماز روزہ حج زکوٰۃ اور دیگر ظاہری عبادات تک محدود ہے یا اس کا دائرہ کار زندگی کے ہر معاملے تک پہنچتا ہے؟ کیا اس کی کوئی فہرست قرآن و سنت میں موجود ہے یا اسے عقل و فطرت سے بھی متعین کیا جاسکتا ہے؟کیا ہر نیکی کا وزن اس کی گنتی کے لحاظ سے ہے یا اس کی کمیت یعنی کوالٹی کے اعتبار سے متعین ہوتا ہے؟ کیا نیکی صرف ظاہری عمل کا نام ہے باطنی نیت بھی نیکی میں شامل ہو سکتی ہے؟ قرآن وسنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ نیکی سے مراد ہر وہ عمل ہے جو خدا کی بیان کردہ حلا ل و حرام کی حدود قیود میں رہتے ہوئے خلوص نیت اور خوش اسلوبی کے ساتھ کیا جائے اور جس کا مقصد کسی بھی مخلوق کو جائز طور پر فائدہ پہنچانا ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’نیکی کی راہ ترجمہ خطوت إلى السعادة‘‘ مسجد نبوی کے امام وخطیب ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم کی عربی کتاب ’’خطوت إلى السعادة‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ شیخ موصوف نے اس کتاب میں مختلف موضوعات سے متعلق کتاب وسنت اور اقوال سلف کے ایسے قیمتی موتیوں کو اکٹھا کیا ہے جو انسان کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً سعادت و کامرانی کے کنارے تک پہنچاتے ہیں اور جو بھی انسان ان موتیوں کو چن کر اپنے لیے حرزِجان بنائے گا وہ فوز وفلاح سے ہمکنار ہوگا۔ نیز اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور اس کی جنت کا حقدار بنے گا۔کتاب کی افادیت کے پیش نظر فاضل نوجوان محمد عمران سلفی (فاضل جامعہ سلفیہ، بنارس) نے اردوداں طبقے کے لیے اس کتاب کو اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ اللہ تعالیٰ کتاب کے ہذا مصنف ،مترجم اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے۔ (آمین) (م۔ا)
14 اگست 1947ء وہ تاریخ ساز دن ہے جب برصغیر کے مسلمانوں کا ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا خواب حقیقت سے شناسا ہوا ور دنیا کے نقشے پر اپنے وقت کی سب سے بڑی مملکت معرض وجود میں آئی۔انسانی تاریخ میں ہجرت مدینہ کے بعد ہجرت پاکستان غالبا سب سے بڑی ہجرت تھی، جس میں مسلمانوں نے ایک نظریہ اور مقصد کی خاطر بننے والی مملکت کے لئے اپنے آبائی گھر چھوڑے اور جان ومال اور عزتوں کی لازوال قربانیاں دیں۔پاکستان کی آئندہ تمام نسلیں اپنے ان اسلاف کی احسان مند اور مقروض رہیں گی جن کی مساعی اور بے پناہ قربانیوں کے نتیجہ میں پاکستان وجود میں آیا۔مسلمان ایک الگ مسلم قومیت کے حامل تھے۔اسی مسلم قومیت کے تصور نے ایک اسلامی مملکت پاکستان کی خواہش پیدا کی۔جب برصغیر کے مسلمان حصول پاکستان کے لئے جدوجہد کر رہے تھے تو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ان کے اغراض ومقاصد واضح اور اہداف متعین تھے۔قائدین وبانیان پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال،نواب بہادر یار جنگ، علامہ شبیر احمد عثمانی، نواب زادہ لیاقت علی خان اور چوہدری رحمت علی وغیرہ نے متعدد مواقع پر پاکستان کے اسلامی تشخص کا برملاء اظہار فرمایا۔ زیر تبصرہ کتاب" تصور پاکستان بانیان پاکستان کی نظر میں"شریعہ اکیڈمی انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی شائع کردہ ہے۔جس میں بانیان پاکستان کی نظر میں پاکستان کے تصور کو اجاگر کیا گیا ہے، تاکہ پاکستان کی نئی نسل کو مقاصد پاکستان سے روشناس کروایا جا سکے۔(راسخ)
توحید کا معنی ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ حق باری تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور جُملہ اوصاف و کمال میں یکتا و بے مثال ہے۔ اس کا کوئی ساتھی یا شریک نہیں۔ کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔ صرف وہی با اختیار ہے۔ اس کے کاموں میں نہ کوئی دخل دے سکتا ہے، نہ اسے کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نہ اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہواہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ ڏ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌکہو کہ وہ (ذات پاک ہے جس کا نام) اللہ (ہے) ایک ہے۔ معبود برحق جو بےنیاز ہے۔ نہ کسی کا باپ ہے۔ اور نہ کسی کا بیٹا۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔ (سورۃالاخلاص)علامہ جرجانی ؒ توحید کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں :توحید تین چیزوں کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی پہچان اس کی وحدانیت کا اقرار اور اس سے تمام شریکوں کی نفی کرنا۔ (التعریفات 73)توحید کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق صرف اللہ تعالیٰ ہی کیلئے خاص رکھے جائیں۔ زیر تبصرہ رسالہ" نور توحید " جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین، امام المناطرین مولانا حافظ ثناء اللہ امرتسری کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے توحید کو بیان فرماتے ہوئے شرک وبدعات کی جڑیں کاٹ دی ہیں۔ یہ رسالہ انہوں نے شمع توحید کے جواب میں فرقہ غالیہ کی طرف سے لکھے گئے ایک چھوٹے سے پمفلٹ موسومہ پروانہ تنقید کے جواب میں لکھا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے،اور تمام مسلمانوں کو عقیدہ توحید اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین(راسخ)
برصغیر بالخصوص پنجاب میں دین اسلام کی نشرو اشاعت، دعوت وتبلیغ، سماجی ورفاہی خدمات لکھوی خاندان کا طرۂامتیاز رہا ہے۔ بے شمار لوگ ان کے بزرگوں کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں توحید وسنت کی روشنی سے فیض یاب ہوئے۔عوامی خدمت کے اسی جذبے کے تحت یہ نصف صدی سے زائد عرصے سے سیاست میں بھی ہیں۔اگرچہ اس خاندان سے علمی وروحانی وابستگان کا دائرہ پورے ملک میں پھیلا ہو ا ہے، تاہم ضلع قصور کاحلقہ این اے 140 ان کی انتخابی سیاست کا مرکز ہے، جہاں سے مولانا معین الدین لکھویؒ تین بار قومی اسمبلی کے رکن رہے ۔ ۔1951ءمیں پنجاب میں ہونے والے پہلے انتخاب میں مولانا معین الدین کے بڑے بھائی اور معروف اسلامی سکالر پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی ﷾ کے والد گرامی مولانا محی الدین لکھوی تحصیل چونیاں سے ایم این اے منتخب ہوئے ۔ لکھوی خاندان بالخصوص مولانا معین الدین لکھوی اور مولانا محی الدین لکھوی کے متعلق کئی رسائل وجرائد میں متعدد مضامین شائع ہوئے ہیں جو مختلف جگہ پر منتشر ہیں مؤرخ اہل حدیث مولانا اسحاق بھی نے اس کتاب’’ تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی ‘‘ میں تفصیل سے مولانا محی الدین لکھوی کی حیات ، خدمات کے ضمن میں لکھوی خاندان کا تفصیلی تعارف کو یکجا کردیا ہے ۔ اس کتاب میں شامل پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی ﷾ کے تفصیلی مقدمہ سے اس کتاب کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے ۔یہ کتاب مولانا محی الدین لکھوی اور لکھوی خاندان کے تعارف وخدمات کے سلسلے میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔ (م۔ا)
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ ، تفسیر قرآن کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیا ۔علمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺاور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔پنجاب میں تدریسی خدمت کے سلسلہ میں مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث و زیر آبادی (م1334ھ) کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔مولانا حافط عبدالمنان صاحب حضرت شیخ الکل کے ارشاد تلامذہ میں سے تھے اور فن حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ صحاح ستہ پڑھائی۔ آپ کے تلامذہ میں ملک کے ممتاز علمائے کرام کا نام آتاہے اورجن کی اپنی خدمات بھی اپنے اپنے وقت میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:’’علمائے اہلحدیث کی تدریسی و تصنیفی خدمات قدر کے قابل ہے۔ پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خاں (م1307ھ) کے قلم او رمولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (م1320ھ) کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا۔ بھوپال ایک زمانہ تک علمائے اہلحدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان اوراعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کررہے تھے۔ شیخ حسین عرب یمنی (م327ھ) ان سب کے سرخیل تھے اوردہلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے ہاں سند درس بچھی تھی اور جوق در جوق طالبین حدیث مشرق و مغرب سے ان کی درس گاہ کا رخ کررہے تھے۔ ان کی درس گاہ سے جو نامور اُٹھے ان میں ایک مولانا محمد ابراہیم صاحب آروی (م1320ھ) تھے۔ جنہوں نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیادڈالی ۔اس درس گاہ کے دوسرے نامور مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی عظیم ابادی (م1329ھ) صاحب عون المعبود فی شرح ابی داؤد ہیں جنہوں نے کتب حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کامقصد قرار دیا اوراس میں وہ کامیاب ہوئے۔تصنیفی لحاظ سے بھی علمائے اہلحدیث کاشمار برصغیر پاک و ہند میں اعلیٰ اقدار کا حامل ہے۔ علمائے اہلحدیث نے عربی ، فارسی اور اردو میں ہر فن یعنی تفسیر، حدیث، فقہ،اصول فقہ، ادب تاریخ او رسوانح پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ الغرض برصغیر پاک وہندمیں علمائےاہل حدیث نےاشاعت اسلام ، کتاب وسنت کی ترقی وترویج، ادیان باطلہ اور باطل افکار ونظریات کی تردید اور مسلک حق کی تائید اور شرک وبدعات ومحدثات کےاستیصال اور قرآن مجید کی تفسیر اور علوم االقرآن پر جو گراں قدر نمایاں خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ اہل حدیث کاایک زریں باب ہے ۔مختلف قلمکاران اور مؤرخین نے علمائے اہل حدیث کےالگ الگ تذکرے تحریر کیے ہیں اور بعض نے کسی خاص علاقہ کے علماء کا تذکرہ وسوانح حیات لکھے ہیں۔ جیسے تذکرہ علماء مبارکپور ، تذکرہ علماء خانپور وغیرہ ۔ علما ئے عظام کے حالات وتراجم کو جمع کرنے میں مؤرخ اہل حدیث جناب مولانامحمد اسحاق بھٹی کی خدمات سب سے زیادہ نمایاں ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ تذکرہ علماء اہل حدیث پاکستان ‘‘ پروفیسر میاں محمد یوسف سجاد کی تصنیف ہے جو انہوں نے شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز کے ارشاد پر ساڑھے تین سال کی محنت شاقہ سے مرتب کی ہے ۔اس کتاب کی تین جلدیں ہیں لیکن ہمیں پہلی جلد نہیں مل سکی اس لیے جلد دوم اور سوم ویب سائٹ پر پبلش کی جارہی ہے ۔محترم پروفیسر یوسف سجاد صاحب نے جلددوم میں 141 اور جلد سوم میں 147 علمائے کرام کے تراجم پیش کیے ہیں ۔اس کتاب کومرتب کروانےکےاصل محرک شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید تھے ۔8 فروری 1983ء کوعلامہ احسان الٰہی ظہیر شہید نے جید علماء اہل حدیث کی ایک نمائندہ میٹنگ منعقد کی اور اس میں علماء کو جماعت اہل حدیث کی طرف سے تصنیف وتالیف کے کام کوتیز کرنے کی طرف توجہ دلائی بالخصوص علمائے اہل حدیث کے حالات لکھنے کی ضرورت پر بہت زور دیاگیا اور یہ کا م شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز کے سپرد کیا گیا موصوف اپنی تدریسی ودیگر مصروفیات کےباعث اس کام کو خود تونہ کرسکے انہوں اپنے شاگرد رشید پروفیسر میاں یوسف سجاد سے اس کام کوشروع کروا کر پائہ تکمیل تک پہنچایا۔اللہ تعالیٰ تمام کی کاوشوں کو قبول فرمائے ۔(آمین)
ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر عمل میں احکامات الٰہی کو مد نظر رکھے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تقلیدی رجحانات کی وجہ سے بعض ایسی چیزیں در آئی ہیں جن کا قرآن وسنت سے ثبوت نہیں ملتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق رکھے ہیں جن کو ادا کرنا اخلاقی اور شرعی فرض بنتا ہے اور انہیں حقوق العباد کا درجہ حاصل ہے۔ ان پانچ حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان بھائی فوت ہو جائے تو اس کی نمازہ جنازہ ادا کی جائے اور یہ نمازہ جنازہ حقیقت میں اس جانے والے کے لیے دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اگلی منزل کو آسان فرمائےاس لیے کثرت سے دعائیں کرنی چاہیں۔لیکن بدقسمتی یہ ہے عوام الناس میں اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو جنازے کے مسائل تو دور کی بات جنازہ میں پڑھی جانے والی دعائیں بھی یاد نہیں ہوتیں جس وجہ سے وہ اپنے جانے والے عزیز کے لیے دعا بھی نہیں کر سکتے۔جبکہ اس کے مقابلے میں بعد میں مختلف بدعات کو اختیار کر کے مرنے والے کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ ظاہر کرنا چاہتے ہوتے ہیں جو کہ درست نہیں اورشریعت کےخلاف ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ’’نماز جنازہ اور اس کے مسائل‘‘ جامعہ سلفیہ، بنارس کے استاد مولانا محمد رئیس ندوی﷾ کی تصنیف ہے۔ انہوں نے اپنی بصیرت وسعت معلومات، قوت استدلال، کتاب و سنت کے مشتملات پر گہری نظر اور رواۃ واسانید پر مفصل بحث کی ہے اور جنازے کے متعلقہ مسائل کو پوری طرح واضح کردیا ہے نیز انہوں نے اس کتاب میں اس بات کی مفصل ومدلل تحقیق وتنقیح پیش کی ہے کہ نصوص شرعیہ کےمطابق غائبانہ نماز جنازہ مشروع ومسنون ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے قارئین کی ان شاء اللہ تمام ذہنی الجھنیں دور جائیں گی۔ (م۔ا)
اسلام کی قدیم تاریخ ہمارے سامنے مسلمان عورت کابہترین اور اصلی نمونہ پیش کرتی ہے اور آج جب کہ زمانہ بدل رہا ہے مغربی تہذیب و تمدن او رطرزِ معاشرت ہمارے گھروں میں سرایت کررہا ہے دور حاضر میں مغربی تہذیب وثقافت سے متاثر مسلمان خواتین او رلڑکیاں اسلام کی ممتاز اور برگزید خواتین کوچھوڑ کر راہِ راست سے ہٹی ہوئی خواتین کواپنے لیے آئیڈل سمجھ رہی ہیں اسلام کے ہردور میں اگرچہ عورتوں نےمختلف حیثیتوں سے امتیاز حاصل کیا ہے لیکن ازواجِ مطہرات طیباتؓ اور اکابر صحابیاتؓ ان تمام حیثیات کی جامع ہیں اور ہمار ی عورتوں کے لیے انہی کے دینی ،اخلاقی معاشرتی اور علمی کارنامے اسوۂ حسنہ بن سکتے ہیں اور موجودہ دور کےتمام معاشرتی او رتمدنی خطرات سے ان کو محفوظ رکھ سکتےہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ’’سیر الصحابیات مع اسوۂ صحابیات ‘‘ صحابیات کے حوالے سے تین مختلف کتابوں کا مجموعہ ہے ۔ اسوۂ صحابیات مولانا سعید انصاری ، سیر الصحابیات مولانا عبدالسلام ندوی اور مسلمان عورتوں کی بہادری علامہ سید سلیمان ندوی کی مشترکہ تصنیف ہے انہوں نے اس کتاب میںدور حاضر کی خواتین اور لڑکیوں کے لیے ازواج مطہرا ت طیباتؓ ، اکابر صحابیات ؓاو ر نامور مسلمان بہادرخواتین کے مستند اور مؤثر واقعات کا ایک مجموعہ مرتب کردیا ہے تاکہ دور حاضرین کی خواتین اورلڑکیاں صحابیا ت ؓ کی اخلاقی،معاشرتی اوربہادری کے واقعات کو اپنے لیے نموہ بنا سکیں۔(م۔ا )