اس روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء ورسل کی مقدس اصطلاح سے یاد رکرتے ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور پیغمبرِاول ایک ہی شخصیت حضرت آدم کی صورت میں فریضۂ ہدایت کےلیے مبعوث ہوئے ۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کردیتاہے ۔درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانےاور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اورانسان کےلیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں ۔ آج انسانیت کےپاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نےاسوۂ حسنہ قراردیا اوراس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیے’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہیں ۔ حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پور سامان رکھتی ہے ۔ ۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ خاندان نبوت کا تعارف ‘‘ مولانا محمد عظیم حاصلپوری ﷾(مصنف کتب کثیرہ) کی سیرت النبیﷺ پر ایک منفرد کاوش ہے۔انہوں نے کئی سیرت وتراجم کی کتب اور بالخصوص شیخ جمال الدین یوسف بن حسین کی کتاب’’ الشجرۃ النبویۃ فی نسب خیر البریۃ ‘‘ سے استفادہ کر کے اس کتاب میں رسول اللہ ﷺ کے خاندان نبوت کو موضوع بحث بنایا ہے اور بڑے خوبصورت اسلوب میں آپ کے والدین ، رضاعی والدین، رضاعی بہن بھائی ، آپ کے چچے ، پھوپیاں، چچا زاد بہنوں بھائیوں اور ازواج مطہرات ددھیال، ننھیال اور سسرال کا تذکرہ کیاہے ۔اسی طرح آپ کی اولاد ، لونڈیاں اور سسرالی رشتے داریاں بھی صفحات کی زینت بنی نظر آتی ہیں ۔او رآخر میں رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پیدائش سے وفات تک اور آپ کے غزوات وسرایا اور وفود کااجمال ذکر کیا ہے ۔اردو زبان میں اس موضوع پر یہ اتنی جامع او رمعلوماتی اولین کتاب ہے ۔(م۔ا)
دنیا میں ہمیشہ تغیرات اور تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ کبھی کوئی ایسا دور نہیں گزرا کہ اس عالم میں جمود طاری ہو گیا ہو۔انسان کی ساری تاریخ انقلاب اور تغیرات سے بھری پڑی ہے۔لیکن موجودہ صدی میں تغیرات اور تبدیلیوں کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ان تغیرات وتبدیلیوں نے امت مسلمہ کو ایک چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ایسا چیلنج جس کا تعلق براہ راست فقہ اسلامی کے احیاء اور تدوین نو سے ہے۔ اس چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لئے جہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ جدید تمدنی مسائل کا حل کتاب وسنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے تلاش کیا جائے وہیں جدید اسلوب کے مطابق فقہی کتب کی تدوین واشاعت کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے متعدد ادارے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کام کر رہے ہیں۔شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے اپنے آغاز سے ہی اس طرف توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ چنانچہ فقہ اسلامی کے اہم موضوعات پر تحقیقی کام کے علاوہ اساسی کتب کے تراجم اور جدید اسلوب میں شریعہ مونو گرافکس کی ترتیب واشاعت کاکام بھی جاری وسار ی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "بدلتے حالات کے تقاضے اور فقہ اسلامی" محترم ڈاکٹرمحمدعبد الغفار الشریف صاحب، جنرل سیکرٹری اوقاف پبلک فاؤنڈیشن کویت کی عربی تصنیف ہے جس میں انہوں نے بدلتے حالات میں اسلامی فقہ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ محترم ہشام الحق ندوی صاحب نے کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
روز جزاانسان کو اس کے اعمال کے مطابق جزا وسزا ضرور ملے گی۔اللہ تعالی ہمیشہ انصاف کرتے ہیں اور قیامت کے دن بھی انصاف کریں گے۔اللہ کسی پرظلم نہیں کرتے ۔یہ کبھی نہیں ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کو تو جہنم میں پھینک دیں اور نافرمانوں اور سرکشوں کو جنت دے دیں،بلکہ ہر شخص سے اس کے اعمال کے مطابق ہی معاملہ کیا جائے گا۔یہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء ہے،وہاں ہر انسان کو اس کے دنیا میں کئے گئے اعمال کے مطابق جزا وسزا ملے گی۔جبکہ ایک محدود حد تک اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ انسان کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا صلہ دے دیتے ہیں۔کارخانہ قدرت کا نظام عدل و انصاف پر مبنی ہے۔متعدد احادیث کی روہ سے اللہ کی ذات کا اعلان بھی یہی ہے کہ تم کسی پر آسانی کرو میں تم پر کروں گا۔ تم کسی مسلمان کا عیب چھپاؤ گے تو تم بھی کبھی رسوانہ ہوگئے ، تم دوسروں پر رحم کروگے تو تم پر رحم کیا جائے گا۔اگرکسی مسلمان کی مدد کروگے تو میں تمہاری مدد کروں گا ۔ تم کسی پر خرچ کروگے تم میں تمہیں عطا کروں گا ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ جیسا کرو گے ویسا بھروگے ‘‘ جامعہ اسلامیہ سلفیہ ،گوجرانوالہ کے فاضل نوجوان جناب قاری محمد اعظم کی کاوش ہے انہوں نےاس کتاب میں اللہ تعالیٰ کےاس قانون کو واضح کرنےکوشش کی ہے کہ اللہ کے ساتھ جو بندہ سلوک کرتا ہے اللہ بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتا ہے ۔ مثلاً جو اللہ کو یاد کرتا ہے اللہ اسے یاد کرتا ہے جو اسے بھول جاتاہے اللہ اسے بھول جاتا ہے۔اور جوشخص اللہ کےبندوں کے ساتھ جو رویہ اپنائے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کےساتھ ویساہی سلوک فرمائیں گے ۔مثلاً جو شخص اللہ کے بندوں پر رحم کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی بارش برسائیں گے ۔ جو اللہ کے بندوں کی مشکل کے وقت مددکرے گا اللہ تعالیٰ مشکل کے وقت اس کی نصرت فرمائیں گے۔ فاضل مرتب نے اس کتاب میں قرآن وسنت کی روشنی میں چند ایسی چیزیں پیش کی ہیں جن کےبارے میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت رہی ہے کہ ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ‘‘اس کتاب پر مولانا محمد عظیم حاصپلوری ﷾(مصنف کتب کثیرہ) کی نظر ثانی اور تخریج وتحقیق کرنے سے کتاب کی اہمیت وافادیت دوچند ہوگئی ہے ۔(م۔ا)
جنت اللہ کےمحبوب بندوں کا آخری مقام ہے اور اطاعت گزروں کےلیے اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے ۔ یہ ایسا حسین اور خوبصورت باغ ہے جس کی مثال کوئی نہیں ۔یہ مقام مرنے کے بعد قیامت کے دن ان لوگوں کو ملے گا جنہوں نے دنیا میں ایمان لا کر نیک اور اچھے کام کیے ہیں۔ قرآن مجید نے جنت کی یہ تعریف کی ہے کہ اس میں نہریں بہتی ہوں گی، عالیشان عمارتیں ہوں گی،خدمت کے لیے حور و غلمان ملیں گے، انسان کی تمام جائز خواہشیں پوری ہوں گی، اور لوگ امن اور چین سے ابدی زندگی بسر کریں گے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ:’’جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں جنھیں کسی آنکھ نے دیکھا نہیں نہ کسی کان نے ان کی تعریف سنی ہے نہ ہی ان کا تصور کسی آدمی کے دل میں پیدا ہوا ہے۔‘‘(صحیح مسلم: 2825) اور ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ ابدی جنتوں میں جتنی لوگ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباؤاجداد، ان کی بیویوں اور اولادوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے، جنت کے ہر دروازے سے فرشتے اہل جنت کے پاس آئیں گے اور کہیں گے تم پر سلامتی ہو یہ جنت تمھارے صبر کا نتیجہ ہے آخرت کا گھر تمھیں مبارک ہو‘‘۔(سورۂ الرعدآیت نمبر: 23،24) حصول جنت کےلیے انسان کو کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے تو اسے ادا کرکے اس کامالک ضرور بنے۔جنت کاحصول بہت آسان ہے یہ ہر اس شخص کومل سکتی ہے جو صدق نیت سے اس کےحصول کے لیے کوشش کرے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے بندوں کے لیے ہی بنایا ہے اور یقیناً اس نے اپنے بندوں کوہی عطا کرنی ہے ۔لیکن ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہمیں کماحقہ اس کا بندہ بننا پڑےگا۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’جنت کی تلاش ‘‘ خواتین کی تعلیم وتعلم کے لیے کام کرنے والے معروف ادارے النور انٹرنیشنل کی سرابراہ محترمہ استاذہ نگہت ہاشمی صاحبہ کے جنت کے موضوع پر دئیے گیے لیکچر کی کتابی صورت ہے ۔محترمہ نےاس میں دنیا کی عیش وعشرت اور سہولیات اور قیامت کے دن اہل ایمان ، صالحین کو ملنے والی جنت کی نعمتوں کا تقابل کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا ہے کہ دنیا وی حسن اور دنیا کی چمک دھمک اوردنیاوی سہولتوں کی حقیقی جنت کےمقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔نیز قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں جنت کے درجات ، نعمتیں ، اور باغات اورجنتیوں کو ملنے والے انعامات کا اس مختصر کتاب میں آسان فہم انداز میں تذکرہ کیا ہے ۔ (م۔ا)
اسلام نے بڑے صاف اور واضح انداز میں حلال اور حرام کے مشکل ترین مسائل کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے اس کے لیے کچھ قواعد و ضوابط بھی مقرر فرمائے ہیں جو راہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں ایک مومن مسلما ن کے لیے ضروری ہے کہ تاحیات پیش آمدہ حوائج و ضروریات کو اسی اصول پر پر کھے تاکہ اس کا معیار زندگی اللہ اور اس کے رسول کریم ﷺ کی منشا کے مطابق بن کر دائمی بشارتوں سے بہر ہ ور ہو سکے۔ سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ جو مال اس کے ہاتھ آیا ہے وہ حلا ل ہے یا حرام (بخاری:2059) دور حاضر میں مال حرام کمانے کی بہت سی ناجائز شکلیں عام ہو چکی ہیں اور لوگ ان کے حرام یا حلال ہونے کے متعلق جانے بغیر انہیں جائز سمجھ کر اختیار کرتے جا رہے ہیں۔جن میں انعامی سکیمیں، لاٹری، انشورنس، اور مکان گروی رکھنے کی مروجہ صورت وغیرہ ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب"انشورنس ایک شرعی مطالعہ"محترم ڈاکٹر مصطفی احمد الزرقاء کلیۃ الشریعۃ، اردن یونیورسٹی کی عربی تصنیف کا اردو ترجمہ ہے۔ اردو ترجمہ محترم الیاس نعمانی صاحب نے کیا ہے۔ مولف موصوف نے اس کتاب میں شریعت اسلامیہ کی روشنی میں انشورنس پر گفتگو کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
اولاد کی تربیت صالح ہوتو ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے ۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے ، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کےحقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’اسلام میں بچوں کی تعلیم و تربیت والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریاں ‘‘سعودی عرب کے معروف عالم دین شیخ محمد بن جمیل زینو ﷾ کی تربیت اولاد کے موضوع پر ایک عربی تصنیف کا ترجمہ ہے۔اس کتاب میں شیخ موصوف نے مستقبل کےمعمار امت کی امیدوں کےمرکز اور حسین خوابوں کی تعبیر ،نونہالان ملت کی تعلیم وتربیت کو موضوع بنایا ہے اور اس کی قدر واہمیت کو اجاگر کیا ہے ۔اور تقریباً ان تمام باتوں کا احاطہ کر نےکی کوشش کی ہے جن سے معلوم ہوسکے کہ مسلمان بچوں کی تربیت کےلیے کون سے امور ضروری ہیں اوران کی مکمل تہذیب کے لیے کن باتوں سے پرہیز لازم ہے۔مربی اورمعلم خواہ والدین ہوں یا اساتذہ ،وہ بچوں کی تربیت کیسے کریں؟ اوران میں اسلامی صفات کا شعور کیسے بیدار کریں؟ اس کتاب کا سب سے اہم حصہ ہے ۔یہ کتاب اپنےبچوں کے مستقبل کوسنوارنے او راسلامی منہج پر صحیح تربیت کرنےکے لیےبہترین کتاب ہے ۔طلبہ ، اساتذہ اور والدین سب کےلیے بہترین اور یکساں افادیت کی حامل ہے ۔ شیخ جمیل زینو ﷾اس کتاب کے علاوہ متعدد مفید علمی کتب کے مؤلف ہیں ان میں سے کئی کتب کے اردو تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ ۔ اللہ تعالیٰ اسے مؤلف،مترجم، ناشر اوراس کی طباعت میں معاونت کرنے والوں کے لیے ذریعہ نجات بنائے اور امت مسلمہ کے بچوں کو حسن اخلاق او رتعلیم اسلام کی دولت سے مالا مال کرے۔(آمین) (م۔ا)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی اصلاحی وتجدیدی زندگی کا واحد مشن یہ تھا کہ اسلام فکر وعمل کی جن بدعات کا شکار ہوگیا ہے اور اس کے صاف ستھرے عقائد وتصورات میں آلائش اور بگاڑ کی جو صورتیں ابھر آئی ہیں ان کو دور کیا جائے اور بتایا جائے کہ اصلی اور حقیقی اسلام کا ان مزخرفا سے دورکا بھی تعلق نہیں ہے۔آپ کی ساری عمر اسلام کے رخ زیبا کو سنوارنے اور جلا بخشنے میں بسر ہوئی ہے۔آپ کی تگ ودو، تحریر وتقریر اور غور وتعمق کا موضوع ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس سر چشمہ حیات کو کیوں کر اس انداز سے پیش کیا جائے کہ پیاسی اور تشنہ روحیں پھر سے تسلین حاصل کر سکیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ جس اخلاص، جس زور اور بلند آہنگی کے ساتھ امام ابن تیمیہ نے تجدیدواصلاح کے اس فریضے کو انجام دیا، اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" اتباع الرسول بصریح المعقول " میں بھی امام ابن تیمیہ نے اسلام کی روشن تعلیمات کو اجاگر کیا ہے۔کتاب کا اردو ترجمہ محترم مولانا عبد الرحمن عزیز صاحب نے کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور مترجم کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے،اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی بغیر کسی اختلاف کے معروف ائمہ اربعہ میں شمار کئے جاتے ہیں، تمام اہل علم کا آپکی جلالتِ قدر، اور امامت پر اتفاق ہے۔ علی بن عاصم کہتے ہیں: "اگر ابو حنیفہ کے علم کا انکے زمانے کے لوگوں کے علم سے وزن کیا جائے تو ان پر بھاری ہو جائے گا" آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسلاً عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80 ہجری بمطابق 699ء میں ہوئی سن وفات 150ہجری ہے۔ ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا، لٰہذا تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس سال کی عمر میں اعلٰی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔ آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ اس مقام و مرتبے کے باوجود محدثین کرام نے بیان حق کے لئے آپ پر جرح اور تعدیل بھی کی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "امام ابو حنیفہ کی تدوین قانون اسلامی" محترم ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے امام ابو حنیفہ کی قانون اسلامی کی تدوین کے حوالے سے سرانجام دی جانے والی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ (راسخ)
مردوں کی ٹھوڑی اور گالوں پر بالغ ہونے پر اگنے والے بال داڑھی اور بالعموم بلوغت کا نشان کہلاتے ہیں۔قدیم زمانے میں یورپ اور ایشیا میں اس کو تقدیس کا درجہ دیا جاتا تھا۔ اور یہودیوں اور رومن کتھولک عیسائیوں میں بھی اس کو عزت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل کو مصر میں غلامی کی زندگی کے دوران داڑھی منڈانے کی اجازت نہ تھی۔ اس لیے وہ اپنی ڈاڑھیوں کو لمبا چھوڑ دیا کرتے تھے اور اسی نشانی سے ان میں اور مصریوں میں تمیز ہوتی تھی ماضی قریب میں مسلم دنیا میں صرف طالبان کی حکومت ایسی گزری جس نے افغانستان میں داڑھی منڈوانا ایک جرم قرار دیا اور داڑھی نہ رکھنے والوں کو باقاعدہ سزا دی جاتی تھی۔اسلامی تعلیمات کے مطابق مردوں کے لئے داڑھی رکھنا واجب ہے،اور تمام انبیاء کرام کی متفقہ سنت اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے اسی سے مردانہ شکل وصورت کی تکمیل ہوتی ہے‘ آنحضرت ﷺ کا دائمی عمل ہے اور حضور ﷺنے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہذا اسلام میں داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا گناہ کبیرہ ہے۔ مرد وعورت میں ظاہری تمیز کرنے کے لئے مرد کو داڑھی جیسے خوبصورت زیور سے مزین کیا ہے۔داڑھی مرد کی زینت ہے ،جس سے اس کا حسن اور رعب دوبالا ہو جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے متعدد مواقع پر داڑھی بڑھانے اور اس کو معاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس اعتبار سے دین اسلام میں داڑھی کی عظمت و فضیلت بہت زیادہ ہے۔ مسلمانوں پر مغربی تسلط کے بعد سے مسلمانوں میں یہ سنت بہت تیزی کے ساتھ متروک ہوتی جا رہی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اسلامی صورت ‘‘ خطبات کی معروف کتاب ’’ اسلامی خطبات‘‘ کے مصنف مولاناعبدالسلام بستوی کی تصنیف ہے اس کتاب میں انہوں نے مسئلہ داڑھی کو قرآنی آیات ،احادیث مبارکہ ، آثارصحابہ کی روشنی میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے اور آخر میں داڑھی کو رنگنے کی شرعی حیثیت اور اسلامی لباس کے متعلق بھی تحریر کیا ہے ۔(م۔ا)
نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ نے ملتِ اسلامیہ کی زندگی کے ہر پہلو کے لئے راہنمائی فراہم کی ہے۔ ان میں سے ایک پہلو ثقافتی اور تہذیبی بھی ہے۔ دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کے مقابلے میں اسلام کی تہذیب و ثقافت بالکل منفرد اور امتیازی خصوصیات کی حامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ اُصول و ضوابط اور افکار و نظریات ہیں جو نبی اکرم ﷺ نے اپنے اُسوہ حسنہ کے ذریعے اُمتِ مسلمہ کو عطا فرمائے ہیں۔ ثقافت کی تمام ترجہات میں اُسوہ حسنہ سے ہمیں ایسی جامع راہنمائی میسر آتی ہے جس سے بیک وقت نظری، فکری اور عملی گوشوں کا احاطہ ہوتا ہے۔ ایسی جامعیت دنیا کی کسی دوسری تہذیب یا ثقافت میں موجود نہیں ہے۔ مغربی مفکرین اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود اسلام کی عظیم الشان تہذیب اور ثقافت کی نفی نہیں کر سکے۔ انہیں برملا اعتراف کرنا پڑا کہ مسلمانوں نے یورپ کو تہذیب کی شائستگی کی دولت ہی سے نہیں نوازا بلکہ شخصیت کی تعمیر و کردار کے لئے بنیادیں فراہم کیں، تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کو ثقافت کی روشنی سے ہمکنار کیا، جنگل کے قانون کی جگہ ابن آدم کو شرفِ انسانی کی توقر و احترام کا شعور عطا کیا اور یوں اس کرہ ارضی پر ان مہذب معاشروں کے قیام کی راہ ہموار کی جو آج بھی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " اسلامی تہذیب کے چند درخشاں پہلو " شام کے معروف عالم دین اور نامور ادیب محترم ڈاکٹر مصطفی سباعی کی عربی تصنیف کا اردو ترجمہ ہے۔ اردو ترجمہ سید معروف شاہ شیرازی نے کیا ہے۔مولف موصوف نے اس کےاب میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسلامی تہذیب پر روشنی ڈالی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین (راسخ)
سیدنا عثمان بن عفان کی شھادت کے بعد مسلمانوں میں مختلف فرقوں نے جنم لینا شروع کردیا۔ یہ فرقے اعتقادی، سیاسی اور مسلکی بنیادوں پر معرض وجود میں آنے لگے۔ اعتقادی اختلافات کی سب سے بڑی وجہ قرآن مجید کی متشابہ آیات اور ان سے اخذ و استنباط کے طریقوں میں فرق تھا۔ عقائد کے متعلق یہ اختلاف جوہری اور بنیادی نہیں تھا بلکہ اصل عقائد سے متعلق فروعات کی بنیادپر تھا۔ان اعتقادی فرقوں میں ایک قابل ذکر ’’فرقہ معتزلہ‘‘ بھی ہے۔ معتزلہ کا لفظ عزل کے مادہ سے ہے جس کے معنی جدا ہونا، علیحدہ ہونا کے ہیں۔ اس فرقے کا تاریخی پس منظر بھی اسی قدر مختلف اور متنازع ہے جس قدر اس میں مختلف دھڑے۔ معتزلی لوگ عقل پسند اور خوب سوچ و بچار کے عادی تھے، جس کی وجہ سے تقلید ان کی خمیر میں موجود نہیں تھا۔نتیجتًا یہ فرقہ بہت سے ذیلی فرقوں میں بٹ گیا۔معتزلہ کے اصول پنجگانہ کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے اسلام میں ارکانِ خمسہ۔علمائے معتزلہ کا اس بات پر اجماع منعقد ہو چکا ہے کہ ان پانچ اصولوں کے بغیر کوئی معتزلہ نہیں ہو سکتا۔اعتزال کے تمام احکامات اور اعمال کا مدار یہی پانچ اصول ہیں۔ (۱) توحید (۲) عدل (۳) وعد اور وعید (۴) المنزلۃ بین المنزلتین (۵) امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔عصر حاضر میں بعض نئے گروہ سامنے آرہے ہیں جن کے عقائد بھی معتزلہ کے عقائد جیسے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "المعتزلۃ ماضی اور حال کے آئینہ میں "محترم ڈاکٹر طارق عبد الحلیم اور ڈاکٹر محمد عبدہ صاحبان کی مشترکہ عربی تصنیف کا اردو ترجمہ ہے۔ اردو ترجمہ محترم عبد العظیم حسن زئی صاحب نے کیا ہے۔ مولف موصوف نے اس کتاب میں ماضی اور حال کے آئینے میں معتزلہ کا جائزہ لیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
عصر حاضر کے بے شمار فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ نظریہ وحدت ادیان ہے۔جس کے مطابق تمام مذاہب یکساں اور بر حق ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی پیروی سے کا ئنات کے خالق اللہ رب العالمین کی رضا اور خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے۔لہذا کسی ایک مذہب والے کا اس بات پر اصرار کرنا کہ اب تا قیا مت نجات کی سبیل صرف ہمارا دین و مذہب ہے یہ ایک بے جا سختی اور تشدد یا انتہا پسندی ہے، جس کا خاتمہ از حد ضروری ہے۔پھر اس’’نظریہ وحدت ادیان‘‘ کی تفصیل کچھ یوں بیا ن کی جاتی ہے کہ ’’ جب منزل ایک ہو تو راستوں کے جدا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے‘‘ یعنی ہر مذہب والا ایک بزرگ و بر تر ذات کی بات کرتا ہے جسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ، کبھی اللہ تو کبھی بھگوان اور کبھی God جبکہ حقیقتاٌ تمام مذاہب اللہ کی بندگی اور خوشنودی حاصل کرنے کے ذرائع ہیں ، اس لئے ہر مذہب میں حق و انصاف ، انسان دوستی اور انسانی بھائی چارے کی تعلیم دی گئی ہے لھذا تمام انسانوں کو تمام مذاہب کا برابر کا احترام کرنا چاہیے، کسی ایک مذہب یا دین کی پیروی پر اصرار تشدد اور بے جا سختی ہے ، وغیرہ وغیرہ۔صاحب علم و صاحب مطالعہ حضرات یقیناًاس بات سے اتفاق کرینگے کہ یہ ’’نظریہ وحدت ادیان ‘‘ ایک جدید اصطلاح ہے جسے اسلام دشمن عناصر نے یا احباب نما اغیار نے ایجاد کیا ہے۔اور یہ ایک انتہائی اور اسلام مخالف اصطلاح ہے ،جس کا اسلام نے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔چنانچہ متعدد اہل علم میدان میں آئے اور انہوں نے اس باطل نظرئیے کا مدلل اور مسکت جواب دیا۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلام اور وحدت ادیان" محترم مولانا حافظ محمد شعیب سیالکوٹی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے اس باطل نظریئے کی ابتداء ،اس کے علم بردار اور اسے فروغ دینے والوں کو منکشف کرتے ہوئے قرآن وحدیث سے اس کا رد کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
الحاد کا لفظ عموما لادینیت اور خدا پر عدم اعتماد کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ نام نہاد فکری سور ماؤں نے انسانی زندگی کو مسائل اور پیچیدگیوں سے پاک اور امن وسکون کا گہوارہ بنانے کی جتنی کوششیں کی ہیں۔ان میں انہیں شکست فاش کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔انہوں نے مسائل کو سلجھانے کی جتنی تدبیریں کیں، ان تدبیروں نے مسائل کو نہ صرف مزید الجھا دیا بلکہ ان میں کئی گنا اضافہ بھی کر دیاہے۔اس ناکامی کا بدیہی سبب یہ ہے کہ یہ حضرات بالعموم اپنی کوششوں کی بنیاد اسی الحاد اور مادہ پرستی پر رکھتے ہیں جو سارے بگار کی اصل جڑ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کو موجودہ فکری بحران، سماجی انتشار اور اخلاقی پستی سے نجات دلانا مقصود ہے تو پھر سب سے پہلے اس کفر والحاد پر کاری ضرب لگانی ہو گی جس کی بنیاد پر موجودہ تہذیب کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔اسلام ہی وہ حقیقی بنیاد ہے جس پر عمل کرنے انسانیت اپنے مسائل حل کر سکتی ہے، اور دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" الحاد جدید کے مغربی اور مسلم معاشروں پر اثرات " محترم مبشر نذیر صاحب کی عربی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے جدید الحاد کے مغربی اور مسلم معاشروں پر اثرات کے حوالے گفتگو کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے ،جس میں زندگی کے ہر ہر گوشے سے متعلق راہنمائی موجود ہے۔اس کی ایک اپنی ثقافت ،اپنی تہذیب اور اپنا کلچر ہے ،جو اسے دیگر مذاہب سے نمایاں اور ممتاز کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص اسلام لاتا ہے تواس میں متعدد تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔اس کی دوستی اور دشمنی کے معیارات بدل جاتے ہیں۔وہ دنیوی مفادات اور لالچ سے بالا تر ہو کر صرف اللہ کی رضا کے لئے دوستی رکھتا ہے اور اللہ کی رضا کے لئے ہی دشمنی کرتا ہے۔جس کے نتیجے میں کل تک جو اس کے دوست ہوتے ہیں ،وہ دشمن قرار پاتے ہیں اور جو دشمن ہوتے ہیں وہ دوست بن جاتے ہیں اور اس کی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔اسلام کی اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنےرہنے سہنے کے طور طریقے اور اپنے تہوار ہیں ،جو دیگر مذاہب سے یکسر مختلف ہیں۔تہوار یاجشن کسی بھی قوم کی پہچان ہوتے ہیں،اور ان کے مخصوص افعال کسی قوم کو دوسری اقوام سے جدا کرتے ہیں۔جو چیز کسی قوم کی خاص علامت یا پہچان ہو ،اسلامی اصطلاح میں اسے شعیرہ کہا جاتا ہے،جس کی جمع شعائر ہے۔اسلام میں شعائر مقرر کرنے کا حق صرف اللہ تعالی کو ہے۔اسی لئے شعائر کو اللہ تعالی نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔لہذا مسلمانوں کے لئے صرف وہی تہوار منانا جائز ہے جو اسلام نے مقرر کر دئیے ہیں،ان کے علاوہ دیگر اقوام کے تہوار میں حصہ لینا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " اسلام اور اجتماعیت"محترم صدر الدین اصلاحی صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اجتماعیت پر گفتگو کی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
دور جدید کا انسان جن سیاسی ،معاشرتی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے اس پر زمانے کا ہر نقش فریادی ہے۔آج انسان اس رہنمائی کا شدید حاجت مند ہے کہ اسے بتلایا جائے ۔اسلام زندگی کے ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا وہ نقطہ اعتدال کیا ہے؟جس کی بناء پر وہ سیاسی ،معاشی اور معاشرتی دائرے میں استحکام اور سکون واطمینان سے انسان کو بہرہ ور کرتا ہے ۔اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام اپنی مصنوعی اور غیر فطری بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ایک مغرب کا سرمایہ داری نظام ہے ،جس پر آج کل انحطاط واضطراب کا رعشہ طاری ہے۔دوسرا مشرق کا اشتراکی نظام ہے، جو تمام کی مشترکہ ملکیت کا علمبردار ہے۔ایک مادہ پرستی میں جنون کی حد تک تمام انسانی اور اخلاقی قدروں کو پھلانگ چکا ہے تو دوسرا معاشرہ پرستی اور اجتماعی ملکیت کا دلدادہ ہے۔لیکن رحم دلی،انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی روح ان دونوں میں ہی مفقود ہے۔دونوں کا ہدف دنیوی مفاد اور مادی ترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس کے برعکس اسلام ایک متوسط اور منصفانہ معاشی نظریہ پیش کرتا ہے،وہ سب سے پہلے دلوں میں خدا پرستی،انسان دوستی اور رحم دلی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " اسلام اور مسئلہ طلب ورسد " محترم مولانا عنایت اللہ طور صاحب کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں طلب ورسد کے مسائل کو پیش کیا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے،اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
جو انسان کسی چیز کو بناتا ہے وہی اس کے استعمال اور فوائد ونقصانات سے بھی اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔انسان بھی اپنے آپ پیدا نہیں ہوا ہے، نہ اس کی پیدائش میں اس کی مرضی کا کوئی دخل ہے اور نہ ہی وفات میں۔ انسان کو پید اکرنے والی ذات اللہ تعالی کی ذات ہے اس لئے ہمارے نفع ونقصان سے کے حوالے سے اللہ سے بڑھ کر کوئی ذات واقف نہیں ہو سکتی ہے۔ اور یقینا اس کی ہدایات پر عمل کر کے ہم کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔اللہ تعالی نے انسان کو جو ہدایت نامہ عطا فرمایا ہے اسی کو شریعت کہتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنا آخری پیغام قرآن مجید کی شکل میں نازل فرمایا ہے جو تاقیامت محفوظ رہے گا۔ زیر تبصرہ کتاب "اسلامی شریعت کا عمومی نظریہ" فاضل مفکر ڈاکٹر جمال الدین عطیہ کی عربی تصنیف "النظریۃ العامۃ للشریعۃ الاسلامیۃ"کا اردو ترجمہ ہے۔ اردو ترجمہ محترم مولانا عتیق احمد قاسمی نے کیا ہے۔ مولف موصوف نے اس کتاب میں شریعت کے عمومی نظریات کو جمع فرما دیا ہے، جسے ایفا پبلیکیشنز انڈیا نے شائع کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین (راسخ)
امیر المومنین سیدنا عمر بن عبد العزیز کوپانچواں خلیفہ راشد تسلیم کیا گیا ہے ۔ حضرت عمربن عبد العزیز عمرثانی کی حیثیت سےابھرکر سامنے آئے ۔جیسے سیدنا عمرفاروق اعظم نےاپنے 10 سالہ عہد خلافت میں ہزاروں مربع میل پر فتح حاصل کی۔حضرت عمر بن عبد العزیز نےگو اڑھائی سال خلافت کوسنبھالا مگر انہوں نے بھی متعدد علاقوں کو فتح کر کے اسلامی حدود میں شامل کیا۔ انہوں نے جہاد کے علاوہ دعوت الی اللہ پر بھی خاصہ زور دیا اور کفر کےدلوں کو اسلام کی برکات سےآراستہ کر کے ان کو دین اسلام میں داخل کیا ۔حدیث وسیراور تاریخ ورجال کی کتب میں ان کے عدل انصاف ،خشیت وللہیت،زہد وتقوٰی ،فہم وفراست اور قضا وسیاست کے بے شمار واقعات محفوظ ہیں اور آپ کی سیرت پر مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’حضرت عمر بن عبد العزیز ‘‘امیر المومنین خلفیہ راشد سیدنا عمرفاروق کے حقیقی جانشین عمرثانی کی سیرت وخدمات اور خلافت کے حالات واقعا ت پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب جناب کامران اعظم سوہدروی کی کاوش ہے ۔انہوں نے اس کتاب کو تیرا ابواب میں تقسیم کیا ہے۔دلچسپ پیرائیوں اور عنوانات باندھ کر حضرت عمربن عبدالعزیز کی پوری حیات کے ہر پہلو کو بحوالہ درج کیا ہے اور حضرت عمر بن عبد العزیز کی صحیح تصویر کشی کی ہے ۔ کہیں غلو یا تنقیص کا عنصر نہیں ہے ۔یہ کتاب مناسب معلومات پر مبنی ہے جو بے جاتطویل واختصارسے مبرّا ہے۔ فاضل مصنف نے پوری کتاب میں دلچسپی کو برقرار رکھا ہے ۔(م۔ا)
لبنان میں حزب اللہ شیعہ کی ایک انتہائی طاقتور سیاسی اور فوجی تنظیم خیال کی جاتی ہے۔ ایران کی پشت پناہی سے انیس سو اسی میں تشکیل پانے والی اس جماعت نے لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلاء کے لیے جدوجہد کی۔تنظیم کو مئی دوہزار میں اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس عمل کے پس منظر میں جماعت کی عسکری شاخ اسلامی مزاحمت یا اسلامک ریزسسٹینس کا ہاتھ تھا۔لبنان پر اسرائیلی قبضے کے بعد علماء کے ایک چھوٹے سے گروہ سے ابھرنے والی اس تنظیم کے اوائلی مقاصد میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور لبنان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء تھا۔اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لبنان کی کثیر المذہبی ریاست کی جگہ ایرانی طرز کی اسلامی ریاست بنائی جائے مگر بعد میں اسے یہ خیال ترک کرنا پڑا۔ زیر تبصرہ کتاب" حزب اللہ کون ہے؟" محترم علی الصادق صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے لبنان ، ایران اور خلیجی ممالک میں سر گرم تنظیم حزب اللہ کے بارے میں انکشافات فرمائے ہیں۔اور اس کے کام کے طریقہ کار کو بیان کیا ہے۔(راسخ)
یہود ونصاری پہلے دن ہی سے دین اسلام سے حسد کرتے چلے آرہے ہیں۔ دونوں قوموں کو شروع سے "اہلِ کتاب" ہونے کا زعم تھا۔ یہود بنی اسرائیل میں آخری نبی کی آرزو لیے بیٹھے تھے۔لیکن بنی اسماعیل میں آخری نبی کے ظہور نے انہیں اسلام کا بدترین دشمن بنادیا۔ مدینہ میں انہوں نے غزوہ خندق میں معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئےمسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی۔ نبی کریمﷺ نے انہیں مدینہ سے نکال دیا۔ سیدنا عمر ؓنے ان کی سازشوں کی وجہ سے انہیں آخر جزیرۃ العرب سےہی نکال باہرکیا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنے محبوب ﷺ کا جملہ اچھی طرح یاد ہے۔" یہود ونصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکال دو۔ (ابوداود: 2635)ان دونوں قوموں نے مسلسل اپنی سازشیں جاریں رکھیں اور مسلمانوں کو بڑا نقصان پہچانے کی کوششوں میں رہے اورمسلمانوں کو ان سے بعد میں بہت سی جنگیں لڑنی پڑیں۔ ان کے ان سب تخریبی کاموں کے باوجود مسلم اقوام میں کبھی تذبذب، اضطراب اور جذبہ شکستگی کا احساس تک نہ پیدا ہوا، بلکہ انہوں نے ہر میدان میں ثابت قدمی کا ثبوت پیش کیا،اور ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔ زیر تبصرہ کتاب" یہود ونصاری سے مخالفت، کیوں اور کیسے؟" جماعۃ الدعوہ کے مرکزی رہنمامحترم حافظ محمد ابراہیم سلفی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے یہود ونصاری کی مخالفت کرنے کی وجوہ اور اس کے طریقہ کار پر گفتگو کی ہے۔امت مسلمہ کا درد رکھنے والے اہم دل حضرات کے لئے یہ ایک شاندار اور مفید ترین کتابچہ ہے۔ بارگاہ الہی میں دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو تمام میدانوں میں قیادت وسیادت عطا فرمائے۔ آمین(راسخ)
سحر اور جادو کا مسئلہ امت مسلمہ کے مسلمہ نظریات میں سے ایک ہے۔ اس کا عارضی نبی کریمﷺ کو لاحق ہوا، پھر اللہ تعالی نے شفائے کاملہ عاجلہ نصیب فرمائی، اور اس مسئلے کا تذکرہ ان احادیث کی کتب میں موجود ہے جن کی صحت پر ائمہ جرح وتعدیل کا اتفاق واتحادہے۔لیکن طوائف مبتدعہ اور فرق ضالہ نے دسائس شیطانیہ اور وسائل طاغوتیہ کو بروئے کار لاتے ہوئے ان میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی اور عوام الناس کی گمراہی کا باعث ہو کر ضلوا واضلوا کا مصداق بن گئے۔عصر حاضر کے کئی ایک معتزلہ نے اہل سنت کے لبادے میں اپنی دسیسہ کاریوں کا تماشہ عوام الناس کے سامنے پیش کیا اور سحر علی النبی ﷺ کے مسئلہ کو اچھال کر کتب احادیث کو مخدوش ومکذوب بنانے کی مذموم کوششیں کیں۔لیکن اللہ تعالی نے ہر دور میں ایسے علماء کرام کو پیدا کیا جنہوں نے معترضین کا مسکت جواب دیا اور حق کو ثابت کر دیا۔ زیر تبصرہ کتاب" نبی کریمﷺ پر جادو کی حقیقت " قاری عصمت اللہ ثاقب ملتانی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے سحر علی النبیﷺ کے مسئلہ کو ثابت کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
قرآن مجید میں جہاں والدین کےحقوق کاتذکرہ آیا ہے وہیں اولاد کے حقوق کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے ۔جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے ، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کےحقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ۔ اور اس بات میں کوشک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے ۔اولاد کرہ ارض پر اللہ تعالیٰ کاسب سے خوبصورت تحفہ ہے اس کی تربیت والدین کی اولین ذمہ داری ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’بچوں سے گفتگو کیسے کریں ‘‘ محترمہ حفصہ صدیقی کی مرتب شدہ ہے انہوں نےاس کتاب کو کئی انگریزی ، اردو کتب اور دیگر ذرائع سےاستفادہ کر کے مرتب کیا ہے اور کوشش کی کہ یہ کتاب علمی سے زیادہ عملی طریقوں سے واقفیت دلائے ۔فاضل مرتبہ نے اس کتاب کو منظم انداز میں ترتیب دیا ہے ۔ ذہنی اور تحریری مشقوں اور اکثرباتوں کو واقعات کی مدد سے سمجھانےکی کوشش کی ہے ۔کتاب میں والدین اور بچوں کے لیےمکمل راہنمائی موجود ہے ۔ کتاب سے استفادہ تب مفید ہوسکتا ہے جب شروع سے آخر تک اس کا یکسوئی سے مطالعہ کیا جائے کیونکہ اس کا ہر باب دوسرے سے منسلک ہے ۔(م۔ا)
ہر زبان میں ادب میں وہی حیثیت ہوتی ہے جو انسانی جسم میں دل کی ہے۔کیونکہ کسی بھی زبان کی برائی یا اچھائی اس کے ادب سے پہچانی جاتی ہے۔عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب " بیان المختارات " محترم سید ابو الحسن علی ندوی کی عربی ادب پر لکھی گئی عربی تصنیف "مختارات من ادب العربی"کا ارود ترجمہ ہے،اردو ترجمہ محترم حافظ بلال اشرف صاحب نے کیا ہے۔ اللہ تعالی مولف ،مترجم اور ناشر سب کو اس عظیم الشان کتاب کی طباعت پر اجر عطا فرمائے۔آمین(راسخ)
دین کے اکثر مسائل مردوں اور عورتوں کے درمیان مشترکہ ہیں لیکن بعض مسائل ایسے ہیں جو صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں۔ جن کو جاننا خواتین کے لئے انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ ان پر عمل پیرا ہو کراسلام کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عورتیں نہ تو خود مطالعہ کرتی ہیں اور نہ ہی کسی مستند عالم دین سے مسئلہ دریافت کرنے کی تکلیف گوارہ کرتی ہیں۔ بعض باتیں بڑی شرم و حیا کی ہوتی ہیں جن کے دریافت کرنے میں حجاب محسوس ہوتا ہے لیکن ایسی باتیں جب دین اور شریعت سے متعلق ہوں تو ان کے دریافت کرنے میں شرم نہیں کرنی چاہئے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ شرع میں شرم نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "مسلمان عورتوں کے فقہی مسائل" محترم ابو حماد عبد الغفار مدنی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے مسلمان عورتوں کے فقہی مسائل کو بیان کیا ہے تاکہ مسلمان خواتین ان مخصوص مسائل کا مطالعہ کر کے ان پر عمل پیرا ہو سکیں اور انہیں کسی سے سوال کرنے کی بھی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول و منطور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
اللہ تعالی ٰ کے بابرکت نام او رصفات جن کی پہچان اصل توحید ہے ،کیونکہ ان صفات کی صحیح معرفت سے ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔عقیدۂ توحید کی معرفت اور اس پر تاحیات قائم ودائم رہنا ہی اصلِ دین ہے ۔اور اسی پیغامِ توحیدکو پہنچانے اور سمجھانے کی خاطر انبیاء و رسل کومبعوث کیا گیا او رکتابیں اتاری گئیں۔ اللہ تعالیٰ کےناموں او رصفات کے حوالے سے توحید کی اس مستقل قسم کوتوحید الاسماء والصفات کہاجاتاہے ۔ قرآن واحادیث میں اسماء الحسنٰی کوپڑھنے یاد کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’ وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا ‘‘اور اللہ تعالیٰ کے اچھے نام ہیں تو اس کوانہی ناموں سےپکارو۔اور اسی طرح ارشاد نبویﷺ ہے«إِنَّ لله تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ»یقیناً اللہ تعالیٰ کے نناوےنام ہیں یعنی ایک کم 100 جس نےان کو یاد( یعنی پڑھنا سمجھنا،یادکرنا) کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح بخاری )اسماء الحسنٰی کے سلسلے میں اہل علم نے عربی اردو زبان میں مستقل کتب تصنیف کی ہیں اور بعض نے ان اسماء کی شرح بھی کی ہے۔ زیرنظر کتاب ’’ اسماء اللہ الحسنیٰ ‘‘ محترم پیر زادہ شفیق الرحمٰن شاہ الدراوی ﷾کی تصنیف ہے ۔فاضل مصنف نے کوشش کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کےاسماء حسنیٰ کےعلم ذریعہ سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کروائی جائے اور ان اسماء کے تقاضے اور ثمرات بتائے جائیں تاکہ لوگ ان سے صحیح معنوں میں مستفید ہوسکیں ۔ اور ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی اور بزرگی کا نور روشن ہو۔فاضل مصنف نے اپنے ایک
نبی کریمﷺ اورآپ کی امت کے بہت زیادہ فضائل و خصائص ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو دوستوں اور دشمنوں کے درمیان فرق بتانے کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ اس لیے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ حضورﷺ پر اور جو کچھ وہ لائے ہیں اس پر ایمان نہ لائے اور ظاہر و باطن ان کی اتباع نہ کرے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت اور ولایت کا دعویٰ کرے اور حضور نبی کریمﷺ کی پیروی نہ کرے وہ اولیاء اللہ میں سے نہیں ہے۔ بلکہ جو ان سے مخالف ہو تو وہ اولیاء الشیطان میں سے ہےنہ کہ اولیاء الرحمٰن میں سے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےاپنی کتاب میں اوراپنے رسول ﷺ کی سنت میں بیان فرما دیا ہےکہ لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے دوست بھی ہیں اور شیطان کے بھی اور اولیاء رحمٰن اور اولیاء شیطان کے درمیان جو فرق ہے وہ بھی ظاہر کردیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ اولیاء اللہ واولیاء الشیطان ‘‘ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی تصنیف ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں اللہ کےبندوں کا ایمان افروز تذکرہ اور شیطان کے دوستوں کے خوفناک انجام کو بیان کیا ہے ۔ قرآن کی زبان صداقت سے اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطان کی تعریف ووضاحت اور تعین کی ہے ۔ ان کے حسن وبد انجام کی خبر دی ہے ۔اس موضوع پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے ’’الفرقان بین اولیاء الرحمٰن واولیاء الشیطان‘‘ کے نام سے شاندار کتاب تالیف کی۔ جس میں اللہ کے دوستوں اور شیطان کے دوستوں کے مابین حقیقی فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ (م۔ا)