مختلف مذاہب میں اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں اسی طرح دین اسلام میں اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے نیک اعمال اور صدقہ جاریہ جیسے امور کو مقرر کیا گیا ہے-عقیدے کی خرابی کی وجہ سے کچھ لوگوں میں غلط ذرائع کو اختیار کر کے دین میں داخل کر کے ان کے ذریعے تقرب حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ سیدھا سا اصول ہے کہ ایک اچھے کام کے لیے غیر شرعی کام کا سہارا لینا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا-مصنف نے اپنی کتاب میں اسی چیز کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں کہ جن کے ساتھ اللہ تعالی کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے اور وہ کون سے ناجائز امور ہیں جن کو اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا-اسی طرح وسیلہ کی لغوی تعریف،شرعی اور غیر شرعی وسیلہ کی پہچان کا طریقہ،کون سا وسیلہ اللہ کے ہاں قابل قبول ہے،شرعی وسیلہ کی اقسام کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور اسی طرح مخلوق کو وسیلہ بنانے کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا گیا ہے-اور اس چیز کو ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے لیے کسی مخلوق کو وسیلہ کے طور پر پیش نہیں...
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور انبیاء و رسل کے ذریعے اپنے احکامات ان تک پہنچائے۔اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی پابندی کرنا عین عبادت ہے ۔ منہیات سے بچنا اور حرام سے اجتناب کرنا ایک حدیث کی رو سے عبادت ہی ہے۔ حرام کے اختیار کرنے سے عبادات ضائع ہو جاتی ہیں اور ایک شخص کو مومن و متقی بننے کے لیے حرام کردہ چیزوں سے بچنا ضروری ہوتا ہے اور اسلام نے بہت سی اشیاء کو حرام قرار دیا ہے جن کی تفصیل قرآن و حدیث کے صفحات پر بکھری پڑی ہے۔ بعض علماء نے اس پر مستقل کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’حلال و حرام چند اہم مباحث ‘‘ مفتی شعیب کی تصنیف ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں حلال و حرام کے حوالے سے ریاست کی ذمہ داری ،موضوع سے متعلق حلال تصدیقی اداروں کے کام اور چند ذیلی جزئیات کو موضوع بحث بنایا ہے۔( م۔ا)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اورانبیاء ورسل کےذریعے اپنےاحکامات ان تک پہنچائے۔اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کی پابندی کرنا عین عبادت ہے ۔ منہیات سے بچنا اور حرام سے اجتناب کرنا ایک حدیث کی رو سے عبادت ہی ہے۔ حرام کےاختیار کرنے سے عبادات ضائع ہوجاتی ہیں اورایک شخص کو مومن ومتقی بننے کے لیے حرام کردہ چیزوں سےبچنا ضروری ہوتا ہےاور اسلام نےبہت سی اشیاء کوحرام قرار دیا ہے جن کی تفصیل قرآن وحدیث کے صفحات پربکھری پڑی ہے۔ بعض علما ء نےاس پر مستقل کتب تصنیف کی ہیں ۔ زيرتبصره كتاب ’’حلال وحرام کاروبار شریعت کی نظر میں ‘‘ جامعۃ الدعو ۃ الاسلامیہ مریدکے شیخ الحدیث مفسر قرآن محترم جناب حافظ عبد السلام بن محمد ﷾ کی حلال وحرام کےموضوع پر مختصر اور جامع تحریر ہے جس میں انہوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں انسان کی بنیادی ضروریات اشیائے خوردونوش کے حصول اور ان کےاستعمال کےسلسلہ میں حلال وحرام کےاحکامات کو آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عامۃ الناس کی اصلاح کاذریعہ بنائے۔(آمین)(م۔ا)
قرآنِ مجید وہ عظیم کتاب ہے ،جسے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رُشد و ہدایت کیلئے نازل فرمایا ہے۔ نبی کریم ﷺ ، صحابہ کرام ؓ ، تابعین عظام اور تبع تابعین سے لے کر آج تک ہر دور میں اہل علم مفسّرین اس کی مشکلات کو حل کرتے اور اس کی گتھیوں کوسلجھاتے چلے آئے ہیں۔ہر دَور میں مفسرین کرام نے خصوصی ذوق اور ماحول کے مطابق اس کی خدمت کی اور تفسیر کے مخصوص مناہج اور اصول اپنے سامنے رکھے۔ پیش نظر"حمید الدین فراہی اور جمہور کے اصول تفسیر" حافظ انس نضر مدنی کا پی ایچ ڈی کے لیے لکھا جانے والا مقالہ ہے۔ محترم حافظ صاحب امتیازی حیثیت میں فاضل مدینہ یونیورسٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ’مجلس التحقیق الاسلامی‘اور ’کتاب ونت ڈاٹ کام‘ کے انچارج ہیں۔ موصوف جہاں طلباء جامعہ لاہور الاسلامیہ کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں وہیں متنوع علمی و تحقیقی کاموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ آپ کی خداد صلاحیت...
دہلی ہندوستان کا دل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شہر اپنی تہذیبی روح‘ ثقافتی رنگارنگی اور تاریخی کردار کے اعتبار سے ایک چھوٹا سا ہندوستان ہے۔ دہلی کلچر کے فروغ میں اردو نے ایک تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے‘ اور آج بھی یہ زبان اس کی ادبی وتہذیبی شناخت کا اہم وسیلہ ہے۔ اردو کی کلچرل اہمیت اور دہلی کی ثقافتی زندگی سے اس کے گہرے رشتے پیشِ نظر آنجہانی محترمہ اندرا گاندھی سابق وزیر اعظم مرکزی حکومت ہند کے ایماء پر 1981ء میں اردو اکادمی کا قیام عمل میں آیا اور یہ ادارہ ادبی روشنی کو عام کرنے اور علمی خوشبوؤں کو پھیلانے میں پیش پیش ہے۔ ادبی شخصیات میں مولانا ابو الکالام آزاد بیسویں صدی کی مسلم دنیا کی عظیم ہستیوں میں سے ہیں۔ وہ عالم‘ مذہبی رہنما‘ مفسر قرآن‘ ادیب‘ نقاد‘ مکتوب نگار اور صحافی تھے۔ سب سے بڑھ کر وہ جس میدان میں بھی رہے صف اول کے لوگوں میں رہے۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص ابوالکلام کے حواشی پر مشتمل ہے۔ ان کے حواشی کو مصنف نے جمع کیا ہے اور جو ترتیب دی ہے قابل تعریف ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کے مختلف کتب جیسا کہ عربی&l...
مصلح الدين شیخ سعدی آج سے تقريبا 800 برس پہلے ايران كے شہر شیراز ميں پيدا ہوئے آپ ايك بہت بڑے معلم مانےجاتے ہيں-آپ كى دو كتابيں گلستان اور بوستان بہت مشہور ہيں-پہلى كتاب گلستان نثر ميں ہے جبكه دوسرى كتاب بوستان نظم ميں ہے- آپ نےسو برس كى عمر ميں شيراز ايران ميں انتقال فرمايا۔ آپ 1210ء میں ایران کے شہر شیراز میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کی وفات آپ کے بچپن میں ہی ہو گئی تھی۔ اپنی جوانی میں، سعدی نے غربت اور سخت مشکلات کا سامنا کیا اور بہتر تعلیم کے لیے آپ نے اپنے آبائی شہر کو خیرباد کہا اور بغداد تشریف لے آئے۔ آپ نے المدرسة النظاميہ میں داخلہ لیا، جہاں آپ نے اسلامی سائنس، قانون، حکومت، تاریخ، عربی ادب اور اسلامی الٰہیات کی تعلیم حاصل کی سعدی شیرازی نے جامع نظامیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد متعدد ملکوں کی سیاحت کی۔ وہ شام ، مصر، عراق، انتولیا بھی گئے ، جہاں بڑے شہروں کی زیارت کی ، گاہکوں سے بھرے پررونق بازار دیکھے، اعلیٰ درجہ کے فنون لطیفہ کے نمونوں سے محفوظ ہوئے اور وہاں کے علماء اور فن کاروں سے ملاقاتیں کی۔ انہوں نے بہت سی تصانیف لکھیں جو کہ زیادہ تر فارسی زب...
قانون اسلامی ، اختصاصی مطالعہ کورس ۔چوبیس درسی اکائیوں پر مشتمل اس کورس کو مختلف سکالرز نے مرتب کیا اور شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد نے تقریبا بیس سال قبل اسے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔یہ کورس بنیادی طور پر علم اصول فقہ کے اختصاصی مطالعے کےلیے تیار کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد علم اصول فقہ کے جملہ مباحث کو عام فہم انداز میں طلبہ کے ذہن نشین کرانا ہے۔ پانچوں مکاتبِ فقہ کےبنیادی اصولوں کا تقابلی مطالعہ بھی اس میں شامل ہے۔ اسی طرح مناہج اجتہاد، قواعد فقہیہ اور تقنین (فقہی احکام کی ضابطہ بندی) کے موضوعات بھی کورس کا حصہ ہیں۔ چوبیس درسی اکائیوں پر مشتمل اس کورس میں کوشش کی گئی ہیں کہ اصول فقہ کے مباحث کی ضروری تفصیلات مثالوں کے ساتھ پیش کر دی جائیں۔ رسرچ سکالرز کے افادہ اور نیٹ پر محفوظ کرنے کی غرض سے اسے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے۔اس کورس کے کل 24 اجزاء ہیں۔ جزءاول (علم اصول فقہ: ایک تعارف (حصہ اول ) اور بیسواں جزء (فقہ حنفی وفقہ مالکی ) دستیاب نہیں ہوسکے ۔(م۔ا)...
مسلمانوں میں جو حکماء وفلاسفہ پیدا ہوئے ان میں کچھ تو ملحد وبے دین اور اکثر ضعیف العقیدہ تھے۔ یا کم ازکم ان کی مذہبی حالت بہتر نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں بھی ان کے سوانح وحالات کی طرف بہت کم مؤرخین نے توجہ دی۔اس لیے عوام الناس ان کے حالات سے بالکل ناآشنا رہے ۔قدیم زمانے میں اگرچہ بعض آزاد خیال لوگوں نے ان کے حالات پر چند کتابیں لکھیں لیکن اولاً تو یہ کتابیں خاص طور ان کے زمانے کے حکماء کے حالات تک محدود ہیں ۔ثانیاً ان کتابوں میں حکمائے اسلام کے ساتھ ساتھ زیادہ تر حکمائے یونان ، عیسائی فلاسفہ او راطباء کے نام مذکور ہیں۔ خالص حکمائے اسلام کے حالات میں کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔لہذا اس ضرورت کے پیش نظر مولانا عبد السلام ندوی نے زیر نظر کتاب ’’ حکمائے اسلام ‘‘ تحریر کی یہ کتاب دو حصوں میں ہے ۔ مصنف نے اس کتا ب میں حکمائے اسلام کی ہر قسم کی مذہبی اخلاقی اور فلسفیانہ خدمات کو نمایاں کیا ہے حصہ اول میں پانچویں صدی تک&nbs...
علامہ حمید الدین الفراہی برصغیر پاک و ہند کے ممتاز قرآنی مفسر اور دین اسلام کی تعبیر جدید کے بانی تصور کئے جاتے ہیں۔ مولانا فراہی بھارت کے صوبہ یوپی (موجودہ اترپردیش) ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں پھریہا میں 18 نومبر 1863ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مولانا شبلی نعمانی کی شاگردی اختیار کی۔ مولانا فراہی کی تعلیم کے دو دور ہیں اور ان میں ہر دور اپنی جگہ نمایاں اور مکمل ہے تعلیم کے پہلے دور میں انہوں نے دینی تعلیم کے علاوہ عربی اور مشرقی علوم سیکھے جس کی تکمیل نجی تعلیمی درسگاہوں میں ہوئی دوسرے دور میں انہوں نے انگریزی اور مغربی علوم کی تحصیل کی جس کے لیے انہوں نے سرکاری تعلیم گاہوں میں داخلہ لیا۔ امام حمید الدین فراہی ایک متبحر عالم اور مجتہد فی المذہب تھے آپ گہری علمیت اور بے مثال وسعت نظری کا عجیب وغریب مرقع تھے، زعمائے ملت کی نظر میں مولانا ایک بلند مقام ومرتبہ رکھتے تھے زمانہ طالب علمی ہی میں مولانا کا علمی پایہ مسلم تھا، عربی وفارسی ہی میں وقت کے بڑے بڑے اساتذہ اور ادیب جن سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ فراہی صاحب اپنے دور کے نامور مصنف بھی...
رعایا کے حکمرانوں پر حقوق یہ ہیں کہ وہ اس امانت کو قائم رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذمے رکھی ہے۔وہ رعیت کی خیرخواہی کے کام سر انجام دینا لازم سمجھیں اور ایسی متوازن راہ پر چلیں جو دُنوی اور اُخروی مصلحتوں کی کفیل ہو۔اورحکمرانوں کے رعایا پر حقوق یہ ہیں کہ وہ حکمرانوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے سے صحیح مشورے دیں۔انہیں نصیحت کرتے رہیں تاکہ وہ راہ راست پر قائم رہیں ۔اگر وہ راہ حق سے ہٹنے لگیں تو انہیں راہ راست کی طرف بلائیں ،ان کے حکم بجا لانے میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو تی ہو تو اسے بجا لائیں کیونکہ اسی صورت میں سلطنت کا کام اور انتظام درست رہ سکتا ہے اور اور اگر حکمرانوں کی مخالفت اور نافرمانی کی جائے تو انارکی پھیل جائے گی اور سب کام بگڑ جائیں گے،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ،اپنے رسول اور حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ شیخ ابو عمر عبد العزیز النوستانی حفظہ اللہ نےزیر نظر کتاب ’’حکمران اور رعایا کے شرعی تعلقات‘‘ حکمرانوں اور رعایا کے
نبی اکرمؐ کے وصال پر ملال کے بعد آپ ﷺ کے رفقائے عالی مقام کا دور آتا ہے جنہیں صحابہ کرام کے پر عظمت لقب سے پکارا جاتا ہے۔ تاریخ انتہائی فخر اور احترام کے ساتھ اس گروہ کا ذکر کرتی ہے اور فیصلہ دیتی ہے کہ انبیاء و رسلؑ کے بعد اس سطح ارض پر اور آسمان کی نیلی چھت کے نیچے آج تک کوئی ایسی جماعت پیدا نہیں ہوئی جو صحابہ کرامؓ کی ہم سری کا دعویٰ کر سکے اور نہ آئندہ قیامت تک پیدا ہو گی۔ صحابہ کرامؓ کی مقدس و مبارک جماعت بے شمار خصوصیات کی حامل تھی اور ان میں سے بعض حضرات میں بعض خصوصیات خاص طور پر بے حد نمایاں تھیں جن میں ایک خصوصیت ’’طرزِ حکمرانی‘‘ تھی۔ جن حضرات بلند مرتبت میں یہ خصوصیت پائی جاتی تھی انہیں خود نبی کریم ﷺ نے بھی بعض مقامات پر والی اور حاکم مقرر فرمایا اور آپ کے بعد خلفاء راشدین کے عہد بابرکت میں بھی ان کی اس خصوصیت و صلاحیت سے فائدہ اُٹھایا گیا۔ زیر نظر کتاب میں مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے صحابہ کرام کی اسی خصوصیت کو دادِ تحسین سے نوازا ہے۔ اسلامی ریاست و حکومت کے موضوع پر یہ نہایت اہم کتاب ہے کہ جس میں ان صحابہ کرام کو جمع کر دیا گیا ہے جنہو...
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین عطا کیا ہے، یہ محض رسوم عبادت یا چند اخلاقی نصائح کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس دین کو ماننے والوں کے لئے صرف یہی ضروری نہیں کہ وہ اس دین کو نظریاتی طور پر مان لیں بلکہ ا س کا عملی زندگی میں اطلاق بھی ان کی ذمہ داری ہے۔دین کا عملی زندگی میں اطلاق صرف یہی تقاضانہیں کرتا کہ اس پر خود عمل کیا جائے بلکہ یہ بات بھی دین کے تقاضے میں شامل ہے کہ اس دین کو دوسروں تک پہنچایا بھی جائے اور ایک دوسرے کی اصلاح کی جائے۔ جہاں کہیں بھی کوئی شرعی یا اخلاقی خرابی نظر آئے، ا س کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔دنیا کا کوئی بھی کام احسن انداز میں کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کام میں پہلے اچھی طرح مہارت حاصل کی جائے اور پھر اس کی مناسب منصوبہ بندی کرکے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ جو لوگ اللہ کے دین کی دعوت کا کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہتے ہوں ، ان کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ خود میں وہ صلاحیتیں پیدا کریں جو دعوت دین کے لئے ضروری ہیں اور پھر اس کام کو مناسب حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے انجام دیں۔ زیر تبصرہ کتاب"...
تحریک انصا ف کی حکومت نے اپنے دور حکومت میں یکساں نصاب تعلیم کا اعلان کیا ہے۔ اس کتاب کے مرتب ڈاکٹر محمد امین کے مطابق یہ نصاب اسلام او رنظریہ پاکستان کے بجائے ملحدانہ مغربی فکر و تہذیب کے بنیادی نظریے ہیومنزم پر مبنی ہےجو کفر و شرک ہے اور کوئی مسلمان اس کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ اور اس کے خلاف بات کرنا اور لوگوں کو آگاہی فراہم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ کتاب ان مضامین کا مجوعہ ہے جو پروفیسر ملک محمد حسین صاحب، ڈاکٹر محمد امین، مولانا زاہد الراشدی اور دوسرے بہت سے احباب نے پچھلے چند ماہ میں حکومت کے مجوزہ یکساں نصاب کے خلاف لکھے۔ اگر حکومت یکساں نصاب کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو اس ضمن میں یہ پہلو پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس کی بنیاد اسلام اور نظریہ پاکستان پر ہو۔(ع۔ا)
اللہ تعالیٰ نے کائنات میں لاکھوں، کروڑوں مختلف النوع مخلوقات پیدا کی ہیں۔ دنیا میں پائے جانے والے بہت سے خونخوار اور معصوم جانوروں کی تخلیق کی حکمت سے خدا تعالیٰ ہی واقف ہیں البتہ اب اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ حیوانات کے گوشت کےمخصوص حصے، انسانوں کے کے اعضا کے لیے بھرپور اثر رکھتے ہیں۔ ان کی صحبتیں اور ان کی مجلسیں بھی تاثیر سے خالی نہیں۔ حیوانات کے بارے میں جاننا، پڑھنا ایک دلچسپ مرحلہ ہے جو انسان کو ایک نئے دیس میں لے جاتا ہے۔ صدیوں پہلے علامہ دمیری نے ’حیات الحیوان‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں انھوں نے سیکڑوں جانوروں کا تفصیلی تعارف کرایا۔ اس کتاب کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کے بہت سی زبانوں میں تراجم ہوئے۔ اس کتاب کا اردو قالب اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ اس کتاب میں صرف حیوانات پر ہی بحث نہیں ہے اس میں قرآنی آیات اور احادیث پر بھی گفتگو موجود ہے۔ تاریخی واقعات بھی درج ہیں ۔ حلال و حرام کے قصے بھی چھیڑے گئے ہیں اور ضرب الامثال بھی زیر بحث آئی ہیں۔ اس کتاب کو حیوانات کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ (ع۔م)
شیخ الکل فی الکل شمس العلما، استاذالاساتذہ سید میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی (1805۔1902ء) برصغیر پاک وہند کی عظیم المرتبت شخصیت ہی نہیں بلکہ اپنے دور میں شیخ العرب و العجم، نابغہ روز گار فردِ وحید تھےسید نذیر حسین بن سید جواد علی بن سید عظمت اللہ حسنی، حسینی بہاری، جو کہ میاں صاحب کے نام سے مشہور تھے، کا سلسلہ نسب حضرت علی اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔آپ نے سولہ برس کی عمر میں قرآن مجید سورج گڑھا کے فضلا سے پڑھا، پھر الہ آباد چلے گئے جہاں مختلف علما سے مراح الارواح، زنجانی، نقود الصرف، جزومی، شرح مائۃ عامل، مصباح ہزیری اور ہدایۃ النحو جیسی کتب پڑھیں۔پھر آپ نے ۱۲۴۲ھ میں دہلی کا رخ کیا۔ وہاں مسجد اورنگ آبادی محلہ پنجابی کٹرہ میں قیام کیا۔ اسی قیام کے دوران دہلی شہر کے فاضل اور مشہور علما سے کسب ِفیض کیاجن میں مولانا عبدالخالق دہلوی، مولانا شیرمحمد قندھاروی، مولانا جلال الدین ہروی اور مولانا کرامت علی صاحب ِسیرتِ احمدیہ قابل ذکر ہیں۔ یہاں آپ کا قیام پانچ سال رہا۔ آخری سال ۱۲۴۶ھ کو استادِ گرامی مولانا شاہ عبدالخالق دہلوی نے اپن...
عورت اور مرد فطری طور پر ایک دوسرے کے بہترین محل ہیں،اور ان کے درمیان قربت یا ملاپ کی خواہش فطری عمل ہے۔جسے شرعی نکاح کی حدود میں لا کر مرد وزن کو محصن اور محصنہ کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔نکاح ایک شرعی اور انتظامی سلیقہ ہے،لیکن زوجیت کا اصل مقصد باہمی سکون کا حصول ہے۔اور اگر زوجین کے درمیان سکون حاصل کرنے یا سکون فراہم کرنے کی تگ ودو نہیں کی جاتی تو اللہ تعالی کو ایسی زوجیت ہر گز پسند نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" حیات النساء،عورت کی زندگی " محترم میاں مسعود احمد بھٹہ ایڈوکیٹ کی تصنیف ہےجو تیرہ ابواب پر مشتمل ہے اور زوجیت ومناکحات کے اسلامی نظریات واہلیت زوجیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ اہم موضوعات پر محیط ہے۔ان ابواب میں زوجیت کے مقاصد،اہلیت زوجیت،نکاح کی انتظامی حیثیت،اسلامی نکاح کے تقاضے اور طریقہ کار،متعہ کی حرمت ،تعدد ازواج،حق مہر کی شرعی حیثیت ،نان ونفقہ کا مرد پر لزوم،نکاح حلالہ کی لعنت اور عدت کے مسائل وغیرہ تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
امام ابن حزم کا پورا نام علی بن احمد بن سعید کنیت ابو محمّد ہے اور ابن حزم کے نام سے شہرت پائی. آپ اندلس کے شہر قرطبہ میں پیدا ہونے اور 72 سال کی عمر میں 452 ہجری میں فوت ہوئے۔ فقہ ظاہری سے متعلق ائمہ کرام کے تذکروں میں جب تک امام ابن حزم کا نام نہ آئے تو تعارف ادھورا رہ جاتا ہےامام ابن حزم بیسیوں کتب کے مصنف ہیں آپ کی وہ کتابیں جنہوں نے فقہ ظاہری کی اشاعت میں شہرت پائی وہ المحلی اور" الاحکام" فی اصول الاحکام ہیں۔ المحلی فقہ ظاہری اور دیگر فقہ میں تقابل کا ایک موسوعہ ہے۔موخرالذکر کتاب کا مو ضو ع اصول فقہ ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر یہ دونوں کتابیں نہ ہوتیں تو اس مسلک کا جاننے والا کوئی نہ ہوتا۔ ظاہری مسلک کے متبعین نہ ہونے کے با وجود یہ مسلک ہم تک جس زریعہ سے پہنچا ہے وہ زریعہ یہ دونوں کتابیں ہی ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب’’حیات امام ابن حزم ‘‘مصری کے مشہور مصنف کتب کثیرہ اور سوانح نگار شیخ محمد ابوزہرہ مصری کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے امام ابن حزم کی سیرت وسوانح ، عصر وعہد، گردوپیش، طلب علم ، شیوخ وتلامذہ ،سیاسی کوائف واحوا...
امام احمد بن حنبل( 164ھ -241) بغداد میں پیدا ہوئے ۔ آپ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 179ھ میں علم حدیث کے حصول میں مشغول ہوئے جبکہ اُن کی عمر محض 15 سال تھی۔ 183ھ میں کوفہ کا سفر اختیار کیا اور اپنے استاد ہثیم کی وفات تک وہاں مقیم رہے، اِس کے بعد دیگر شہروں اور ملکوں میں علم حدیث کے حصول کی خاطر سفر کرتے رہے۔امام احمد جس درجہ کے محدث تھے اسی درجہ کے فقیہ اورمجتہد بھی تھے۔ حنبلی مسلک کی نسبت امام صاحب ہی کی جانب ہے۔ اس مسلک کا اصل دار و مدار نقل و روایت اور احادیث و آثار پر ہے۔ آپ امام شافعیکے شاگرد ہیں۔ اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیثمیں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ مسئلہ خلق قرآن میں خلیفہ معتصم کی رائے سے اختلاف کی پاداش میں آپ نے کوڑے کھائے لیکن غلط بات کی طرف رجوع نہ کیا۔ آپ کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتے لیکن غلط بات کی تصدیق سے انکار کر دیتے۔ انہوں نے حق کی پاداش میں جس طرح صعوبتیں اٹھائیں ا...
اللہ تعالیٰ نے حدیث او رحاملین حدیث کو بڑی عزت فضیلت اور شرف سے نوازا ہے او رحدیث رسول ﷺ کی خدمت او رحفاظت کےلیے اپنے انہی بندوں کا انتخاب فرمایا جو اس کے چنیدہ وبرگزیدہ تھے ان عظیم المرتبت شخصیات میں بلند تر نام امام شافعی کا ہے ۔امام شافعی 150ھ کو غزہ میں پیدا ہوئے۔اور204ھ کو مصرمیں فوت ہوئے ۔حضرت امام کی حدیث وفقہ پر خدمات اہل علم سے مخفی نہیں۔ امام شافعی اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ عربی زبان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ اور اعلیٰ درجہ کے انشاپرداز تھے۔ آپ کی دو کتب کتاب الام اور الرسالہ کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔آپ کی تالیفات میں سے ایک کتاب مسند الشافعی بھی ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ حیات امام شافعی ‘‘ کامران اعظم سوہدروی کی تصنیف ہے ۔انہوں نے اس کتاب کو 11 ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔اوران ابواب میں فاضل مصنف نے امام شافعی کے حالات واقعات ، ذات وصفات،تعلیمات، اجتہادات، تصنیفات، فقہی اصطلاحات اور امام شافعی کی محدثانہ خدمات کو بڑے احسن پیرائے میں پیش کیا ہے ۔(م۔ا)
ساری امت اس بات پر متفق ہے کہ کائنات کی افضل اور بزرگ ترین ہستیاں انبیاء ہیں ۔جن کا مقام انسانوں میں سے بلند ہے ۔انبیاء اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ بندے ہیں جنہیں روئے زمین میں لوگوں کی راہنمائی کے لیےمنتخب کیاگیا انہوں نےاپنی اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے دن رات محنت کی ۔انہوں نے بھی تبلیغ دین اوراشاعتِ توحید کےلیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ اشاعت ِ حق کے لیے شب رروز انتھک محنت و کوشش کی اور عظیم قربانیاں پیش کر کے پرچمِ اسلام بلند کیا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جابجا ان پاکیزہ نفوس کا واقعاتی انداز میں ذکر فرمایا ہے ۔قرآن مجید میں ہر نبی کا تذکرہ مختلف مقامات پر حالات وواقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیاگیا ہے ۔ جس کا مقصد محمد ﷺ کو سابقہ انبیاء واقوام کے حالات سے باخبر کرنا، آپ کو تسلی دینا اور لوگوں کو عبرت ونصیحت پکڑنے کی دعوت دینا ہے بہت سی احادیث میں بھی انبیاء ﷺ کےقصص وواقعات بیان کیے گئے ہیں۔انبیاء کے واقعات وقصص پر مشتمل مستقل کتب بھی موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’حیات انبیاء‘‘ وطن عزیزکے نامور مترجم ومصنف مولانامح...
مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواسے رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص ان کی شخصیت وسوانح پر پہلی کتاب ہے جو شاہ جی کی زندگی میں شائع کی۔ مصنف کی اس کتاب کی تحریر میں کہیں اجنبیت اور کہیں اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ قدیم وجدید اسلوبِ نگارش کا حسین امتزاج اور بے تکلفی بھی ہے۔اس کتاب میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی ہنگامہ خیز زندگی کو ضبط تحریر میں لانا بہت بڑا کام کیا گیا ہے‘ یہ مختصر تو کیا ضخیم کتاب بھی کافی نہیں ہو سکتی...
پیش نظر کتاب میں ان پاکباز ہستیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو صحابہ کرام ؓ اور تبع تابعین رحمہم اللہ کی درمیانی کڑی ہیں۔ جنھوں نے صحابہ کرام ؓ کی علمی اور روحانی برکتوں کو پورے عالم میں پھیلایا۔ جنھیں امت کے بہترین افراد ہونے میں دوسرا درجہ حاصل ہے۔ اس سے قبل دکتور عبدالرحمٰن الباشا کی کتاب ’حیات صحابہ ؓ کے درخشاں پہلو‘ منظر عام پر آ چکی ہے۔ جسے علمی و عوامی حلقوں میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کتاب میں ’حیات تابعین رحمہم اللہ کے درخشاں پہلو‘ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ جس میں جلیل القدر تابعین رحمہم اللہ کی قابل رشک زندکی کے حیرت انگیز واقعات کی دلنشیں جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ ہر تابعی کے تذکرے کے بعد ان مستند کتابوں کے حوالہ جات بھی نقل کر دئیے گئے ہیں جن سے یہ واقعات اخذ کیے گئے ہیں۔(ع۔م)
علامہ ابن قیم كا پورا نام محمد بن ابوبكر بن ايوب بن سعد حريز الزرعی الدمشقی شمس الدين المعروف بابن قيم الجوزيہ ہے۔ جوزيہ ايك مدرسہ كا نام تھا ، جو امام جوزى كا قائم كردہ تھا اس ميں آپ كے والد ماجد قيم نگران اور ناظم تھے اور علامہ ابن القيم بھی اس سے ايك عرصہ منسلك رہے۔علامہ ابن القيم 691 ھ میں پيدا ہوئے اور علم وفضل اور ادب واخلاق كے گہوارے ميں پرورش پائى ، آپ نے مذكورہ مدرسہ ميں علوم وفنون كى تعليم وتربيت حاصل كى ، نيز دوسرے علماء سے استفادہ كيا جن ميں شيخ الاسلام ابن تیمیہ كا نام گرامى سب سے اہم اورقابل ذكر ہے۔متاخرين ميں شيخ الاسلام ابن تیمیہ كے بعد ابن قیم كے پائے كا كوئى محقق نہیں گزرا، آپ فن تفسير ميں اپنا جواب آپ تھے اورحديث وفقہ ميں نہايت گہرى نظر ركھتے تھے، استنباط واستخراج مسائل ميں يكتائے روزگار تھےاور آپ ايك ماہر طبيب بھی تھے۔علمائے طب كا بيان ہے كہ علامہ موصوف نے اپنی كتاب "طب نبوى" ميں جو طبى فوائد، نادر تجربات اور بيش بہا نسخے پیش كيے ہیں ، وہ طبى دنيا ميں ان كى طرف سے ايك ايسا اضافہ ہیں کہ طب كى تاريخ ميں ہمیشہ ياد ركھے جائيں گ...
امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی بغیر کسی اختلاف کے معروف ائمہ اربعہ میں شمار کئے جاتے ہیں، تمام اہل علم کا آپکی جلالتِ قدر، اور امامت پر اتفاق ہے۔ علی بن عاصم کہتے ہیں: "اگر ابو حنیفہ کے علم کا انکے زمانے کے لوگوں کے علم سےوزن کیا جائے تو ان پر بھاری ہو جائے گا" آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسلاً عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80ہجری بمطابق 699ء میں ہوئی سن وفات 150ہجری ہے۔ اما م موصوف کو صحابہ کرام سے شرف ملاقات اور کبار تابعین سے استفادہ کا اعزار حاصل ہے آپ اپنے دور میں تقویٰ وپرہیزگاری اور دیانتداری میں بہت معروف تھے اور خلافت عباسیہ میں متعدد عہدوں پر فائز رہے ۔ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا، لٰہذا تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس سال کی عمر میں اعلٰی علوم کی تحصیل کی...
قرآن کی سورۃ کہف میں ہے کہ حضرت موسی اپنے خادم ’’جسے مفسرین نے یوشع لکھا ہے‘‘ کے ساتھ مجمع البحرین جارہے تھے کہ راستے میں آپ کی ملاقات اللہ کے بندے سے ہوئی۔ حضرت موسی نے اس سے کہا کہ آپ اپنےعلم میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیں تو بندے نے کہا کہ آپ جو واقعات دیکھیں گے ان پر صبر نہ کر سکیں گے اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو مجھ سے کسی چیز کی بابت سوال نہ کرنا اس قول و قرار کے بعد دونوں سفر پر روانہ ہوگئے۔ راستے میں اللہ کے بندے نے چند عجیب و غریب باتیں کیں۔ کشتی میں سوراخ ، ایک لڑکے کا قتل اور بغیر معاوضہ ایک گرتی ہوئی دیوار کو سیدھا کرنا، جس پر حضرت موسی سے صبر نہ ہو سکا اور آپ ان باتوں کا سبب پوچھ بیٹھے۔ اللہ کے بندے نے سبب تو بتا دیا ۔ لیکن حضرت موسی کا ساتھ چھوڑ دیا۔احادیث مبارکہ میں اس خاص بندےکا نام’’ خضر ‘‘آیا ہے اور مفسرین کی اکثریت کے نزدیک اس سے مرادحضرت خضر ہیں۔مفسرین نے حضرت خضر کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔انہوں نے واقعات وروایات کی چھان بین...