نبی کریم ﷺکے قول ،عمل اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔یہ وہ الہامی ذخیرہ ہے جو بذریعہ وحی نطق رسالت نے پیش فرمایا۔یہ وہ دین ہے جس کے بغیر قرآن فہمی ناممکن ،فقہی استدلال فضول اورر راست دینی نظریات عنقا ہو جاتے ہیں۔یہ اس شخصیت کے کلمات خیر ہیں،جنہیں مان کر ایک عام آدمی صحابی رسول بنا اور اللہ تعالی نے اسے اپنی رضا مندی کے سرٹیفکیٹ سے نوازا۔یہ وہ منزل من اللہ وحی ہے ،جسے نظر انداز کر کے کوئی شخص اپنے ایمان کو نہیں بچا سکتا ہے۔لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ حدیث رسول آج ایک مظلوم علم بن گیا ہے۔اس پر غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں نے بھی کرم فرمائی کی ہے۔کہا جاتا ہے کہ حدیث کی حفاظت کا اہتمام نہ تو خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے اور نہ اس کا حکم دیا ہے،حفاظت حدیث کیا ضروری تھی؟حفاظت نہ کی جاتی تو کونسا پہاڑ ٹوٹ پڑتا؟کسی نے کہا کہ بہت ساری احادیث ہماری عقل کے مخالف ہیں۔یہ اور اس جیسے استخفاف حدیث پر مبنی کلمات ہمارے بعض مدبرین اور واعظین کی تحریروں میں نظر آتے ہیں۔ ایسے اعتراضات کو مستعار لینے اور دین پر جڑنے کی بجائے اگر یہ لوگ اس علم کو ذرا انہماک سے پڑھ لیتے تو شاید توقع سے زیادہ...
قرآن مجید وہ واحد کتاب ہےجو مرتب ومنظم زندہ وجاوید صحیفہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔جس کی حفاظت کی ذمہ داری اﷲ تعالیٰ نے اپنے اوپر لی ہے۔ اسی طرح صرف قرآن حکیم کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک محفوظ کتاب ہے ۔ نہ صرف اس کا ایک ایک حرف اور حرکت محفوظ ہے بلکہ اس کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے بھی تسلسل اور تواتر سے پوری صحت کے ساتھ ہم تک پہنچے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری کے باوجود مسلمانوں نے اس کی حفاظت کی ضرورت سے آنکھیں بند نہیں کیں۔قرآن کے نزول کے ساتھ ہی اس کی کتابت کا اہتمام کیا گیا ۔ اس کی ترتیب بھی وہی ہے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی۔ لیکن مستشرقین نے قرآن کو اپنی کتابوں کے برابر لانے کے لئے قرآن کے متن کے غیر معتبر ہونے کے نقطہ نگاہ کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا ہے۔جہاں مستشرقین نے اپنے خاص اہداف اوراغراض ومقاصد کو مد نظر رکھ کر قرآن ،حدیث اورسیرت النبی ﷺ کے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایاتو مستشرقین کی غلط فہمیوں ،بدگمانیوں اور انکے شکوک وشبہات کے ردّ میں علماء اسلام نے بھی ناق...
ماہ اگست میں جمعیۃ علماء ہند کا ایک نیر تاباں یعنی مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی ؒ نے وفات پائی۔ آپ ۱۹۰۰ء میں سیو ہارہ ضلع بجنور کے ایک تعلیم یافتہ معزز خاندان میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم مدرسہ فیض عام سیوہارہ میں حاصل کی اور دورۂ حدیث کے لئے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے ۔ ۱۹۲۲ء میں سندِ فراغت حاصل کی پھر دار العلوم دیوبند، ڈابھیل اورکلکتہ وغیرہ کے مدرسوں میں تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔نو عمری ہی سے آپ کے اندرخدمت خلق کا جذبہ موجزن تھا ،چنانچہ جلد ہی سیاست کی خاردار وادی میں کود پڑے ۔۱۹۳۰ء میں گاندھی جی کی نمک سازی کی تحریک میں عملی طور پر حصہ لیا، جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس امروہہ میں جنگ آزادی میں کانگریس کے ساتھ اشتراک کا ریزیولیوشن پیش کیا جس کو منظور کیا گیا ۔ آپ تا عمر بیک وقت جمعیۃ علماء ہند کے ایک سر گرم کارکن اور کانگریس کے ممبر رہے۔بارہا جیل گئے مگر اپنی مذہبی شناخت کو ہمیشہ بر قرار رکھا ،مدتوں دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے اہم ترین رکن رہے ۔تقریر و خطابت کا خدا داد ملکہ تھا ۔نیز تصنیف و تالیف کے بھی عظیم شہ سوار تھے ۔ ۱۹۳۸ء میں &rsqu...
جو شخص قرآن مجید کو حفظ کرنے کے بعداس پر عمل کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے اجر عظیم سے نوازتے ہیں ۔اور اسے اتنی عزت وشرف سے نوازا جاتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کو جتنا پڑھتا ہے اس حساب سے اسے جنت کے درجات ملتے ہیں ۔سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ صاحب قرآن کوکہا جائے گا کہ جس طرح تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے تھے آج بھی پڑھتے جاؤ جہاں تم آخری آیت پڑھوگے وہی تمہاری منزل ہوگی ۔‘‘( جامع ترمذی: 2914 )’’ صاحب قرآن ‘‘سے مراد حافظِ قرآن ہے اس لیے کہ نبی ﷺکا فرمان ہے یؤم القوم اقرؤهم لکتاب الله ’’یعنی لوگوں کی امامت وہ کرائےجو کتاب اللہ کا سب سے زيادہ حافظ ہو ۔‘‘تو جنت کے اندردرجات میں کمی وزیادتی دنیا میں حفظ کے اعتبار سے ہوگی نا کہ جس طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس دن جتنا وہ پڑھے گا اسے درجات ملیں گے ، لہذا اس میں قرآن مجید کے حفظ کی فضيلت ظاہر ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے اللہ تعالی کی رضا کے لیے حفظ کیا گیا ہو۔ زیر نظر مختصر کت...
اللہ تعالیٰ نے یوں تو انسان کو بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں لیکن قوتِ حافظہ ان میں اہم ترین نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس خاص نعمت سے انسان مشاہدات و تجربات اور حالات و واقعات کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھتا ہے اور ضرورت کے وقت انہیں مستحضر کرکے کام میں لاتا ہے-اہل عرب قبل از بعثت ِنبویﷺ ہزاروں برس سے اپنا کام تحریر و کتابت کے بجائے حافظہ سے چلانے کے خوگر تھے-عرب بے پناہ قوت حافظہ کے مالک تھے۔ ان کے شعرا، خطبا اور اُدبا ہزاروں اشعار، ضرب الامثال اور واقعات کے حافظ تھے۔ شجر ہائے نسب کومحفوظ رکھنا ان کا معمول تھا بلکہ وہ تو گھوڑوں کے نسب نامے بھی یاد رکھتے تھے۔ موجودہ دور میں بھی مختلف اقوام میں ایسے بے شمار افراد پائے جاتے ہیں جن کے حافظوں کو بطورِ نظیر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ خود ہندوستان میں سیدانور شاہ کشمیری، سید نذیر حسین محدث دہلوی، حافظ عبدالمنان وزیرآبادی اور حافظ محمد محدث گوندلوی بے نظیر حافظے کے مالک تھے-عربوں کا تعلق جب کلامِ الٰہی سے ہوا تو ان کو رسولِ کریمﷺاور قرآنِ مجید سے بے پناہ عقیدت ومحبت ہوئی۔ انہوں نے قرآن و حدیث کو حفظ کرنا شروع کیا۔ حضرت انس بن...
حیا ایمان کاشعبہ ہے اور ایمان سب سے زیادہ مقدم ومحبوب نعمت ہے لہذا ایمان کی نگہداشت اور حیا کےلیے ضروری ہے کہ حیا کی بارش سےاسے مسلسل سینچنے کا عمل جاری رکھا جائے۔ جب کسی انسان کےاندر حیا کا آبِ حیات کم ہوجائے تو یہ خطرےکی علامت ہے کہ اس کا ایمان کم ہوگیا ہےرسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الْحَيَاءُ وَالْإِيمَانُ قُرِنَا جَمِيعًا، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُهُمَا رُفِعَ الْآخَرُ(مستدرکحاکم)’’حیا اور ایمان باہم جڑے ہوئے ہیں جب ان میں سے ایک اٹھتا ہے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے‘‘موجودہ معاشرے میں یہ خیال پایا جاتاہے کہ نکاح کےبعد حیا کی ضرورت نہیں رہتی جو جی چاہے کرو جیسا چاہو پہنو، جیسی چاہو باتیں کرو یہ خیال سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ نکاح تو حیا اور عفت کوبرقرار رکھنے کا محفوظ ترین قلعہ ہے اور حیا توکنوار پنے اور ازدواجی زندگی دونوں حالتوں میں عمر بھر کی عادت کےطور پر اپنائے رکھنا ضروری ہے۔رسول اللہ ﷺ کےبارے میں صحابہ کرام بیان کرتے ہیں کہ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَشَدَّ حَيَا...
حیا ایک ایسی صفت ہے جو کسی شخص میں جتنی زیادہ ہوگی اس کو وہ اتنا ہی فحش ومنکر سے درو رکھے گی ۔ارشاد نبوی ہے :’’جب تم میں حیا نہ رہے تو جوجی چاہے کر‘‘ کچھ کیفیاتِ قلبی ایسی ہیں جو اسلام میں پسندیدہ ہیں ان میں جتنا زیادہ مبالغہ کیا جائے اتنا ہی زیادہ ایمان اور اسلام میں نکھار آتاہے حیاان میں سے ایک اہم صفت ہے نبی اکرمﷺ کے حیا کےبارے میں ایک صحابی کہتے ہیں :’’رسول اللہ ﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے ‘‘اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؓ واقعہ کےضمن میں شیخ کبیر کی لڑکی کے حیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاء ’’ان دولڑکیوں میں سے ایک شرماتی ہوئی ان کے پاس آئی‘‘اس سے معلوم ہوا کہ حیا خواتین کی سیرت کا لازمی حصہ ہے ۔اس لیے اگر مرد اور عورت میں حیا کی کثرت ہے تویہ اس کےلیےخیر وبرکت کا باعث ہے ۔لیکن آج دور ِحاضر م...
اللہ تعالیٰ نے انسان کواشرف المخلوقات بناکر فطری خوبیوں سے مالامال کیا ہے۔ان خوبیوں میں سے ایک اہم ترین خوبی شرم وحیا ہے۔شرعی نقطہٴ نظرسے شرم وحیا اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتاہے۔ دین اسلام نے حیاء کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے تاکہ مومن باحیاء بن کر معاشرے میں امن وسکون پھیلانے کا ذریعہ بنے۔نبی کریم ﷺ نے ایک صحابی کو دیکھا جو اپنے بھائی کوسمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم نہ کیا کرو آپ ﷺ نے سنا تو ارشاد فرمایا:اس کو چھوڑدو کیونکہ حیاء ایمان کا جز ء ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا :حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا ءدوزخ میں جانے کا سبب ہے ۔حیاء کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے لہٰذا باحیاء انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگار عالم کے ہاں بھی مقبول ہوتا ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کا ثبوت ملتاہے۔سیدنا شعیب ؑ کی بیٹی جب سیدنا موسیٰ ؑ کو بلانے کے لئے آئیں تو ان کی چال وڈھال میں بڑی شائستگی اور میانہ روی تھی۔ اللہ رب العزت کو یہ ش...
انسان کے دل میں ہر وقت مختلف قسم کے خیالات و جذبات ابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں۔یہی جذبات وخیالات جب کسی کام کا تانا بانا بنتے ہیں تو وہ نیت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں،اور جب نیت اپنے اعضاء وجوارح کو عملی جامہ پہنانے پر پوری طرح چوکس کر دیتی ہے تو یہ عزم کہلاتا ہے۔اگر انسان کے دل میں خیالات وجذبات ،ایمان اور عمل صالح کے تحت اپنا تانا بانا بنتے اور باہر نکل کر کچھ کرنے کے لئے مچلتے ہیں تو انسان کی زبان سے خیر بھرے الفاظ کا اخراج ہوتا ہے لیکن جب انسان کی دل میں فحش قبیح اور گناہ آلود جذبات وخیالات ابھر رہے ہوتے ہیں تو زبان سے بھی گندے اور گناہ پر مبنی الفاظ نکلتے ہیں۔اسلام نے ہمیں سچی اور اچھی بات کہنے،اور فحش گوئی و بے ہودہ گفتگو کرنے سے منع کیا ہے۔حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ حفظ حیا ،گفتگو اور تحریر‘‘ معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے اپنی گفتگو اور تحریر میں حیاء کی حفاظت اور اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور بے حیائی وفحش گوئی کی مذمت کی ہے۔الل...
جو شخص قرآن مجید کو حفظ کرنے کے بعداس پر عمل کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے اجر عظیم سے نوازتے ہیں ۔اور اسے اتنی عزت وشرف سے نوازا جاتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کو جتنا پڑھتا ہے اس حساب سے اسے جنت کے درجات ملتے ہیں ۔سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ صاحب قرآن کوکہا جائے گا کہ جس طرح تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے تھے آج بھی پڑھتے جاؤ جہاں تم آخری آیت پڑھوگے وہی تمہاری منزل ہوگی ۔‘‘( جامع ترمذی: 2914 )’’ صاحب قرآن ‘‘سے مراد حافظِ قرآن ہے اس لیے کہ نبی ﷺکا فرمان ہے یؤم القوم اقرؤهم لکتاب الله ’’یعنی لوگوں کی امامت وہ کرائےجو کتاب اللہ کا سب سے زيادہ حافظ ہو ۔‘‘تو جنت کے اندردرجات میں کمی وزیادتی دنیا میں حفظ کے اعتبار سے ہوگی نا کہ جس طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس دن جتنا وہ پڑھے گا اسے درجات ملیں گے ، لہذا اس میں قرآن مجید کے حفظ کی فضيلت ظاہر ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے اللہ تعالی کی رضا کے لیے حفظ کیا گیا ہو۔ مزید مطالعہ۔۔۔
جو شخص قرآن مجید کو حفظ کرنے کے بعداس پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اجر عظیم سے نوازتے ہیں ۔اور اسے اتنی عزت وشرف سے نوازا جاتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کو جتنا پڑھتا ہے اس حساب سے اسے جنت کے درجات ملتے ہیں ۔سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ صاحب قرآن کوکہا جائے گا کہ جس طرح تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے تھے آج بھی پڑھتے جاؤ جہاں تم آخری آیت پڑھوگے وہی تمہاری منزل ہوگی ۔‘‘( جامع ترمذی: 2914 )’’ صاحب قرآن ‘‘سے مراد حافظِ قرآن ہے اس لیے کہ نبی ﷺکا فرمان ہے یؤم القوم اقرؤهم لکتاب الله ’’یعنی لوگوں کی امامت وہ کرائےجو کتاب اللہ کا سب سے زيادہ حافظ ہو ۔‘‘تو جنت کے اندردرجات میں کمی وزیادتی دنیا میں حفظ کے اعتبار سے ہوگی نا کہ جس طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس دن جتنا وہ پڑھے گا اسے درجات ملیں گے ، لہذا اس میں قرآن مجید کے حفظ کی فضيلت ظاہر ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے حفظ کیا گیا ہو۔ مزید مطالعہ۔۔۔
نبی کریم ﷺ نے جس طرح حدیث کو حاصل کر کی ترغیب دی اور اس کےحاملین کے لیے دعا فرمائی اسی طرح حدیث وضع کرنے یا حدیث کے نام پر کوئی غلط بات آپﷺ کی طرف منسوب کرنے سے سختی سے منع فرمایا اور اایسےلوگوکو نارجہنم کی وعید سنائی ہے اور اسی طرح علماء اور محدثین نے بھی اس کے متعلق سخت موقف اختیار کیا ان کے نزدیک حدیث کووضع کرنے والا اسی سلوک کا مستحق جو سلوک مرتد اور مفسد کےساتھ کیا جاتاہے ۔وضع حدیث کی ابتدا ہجرت نبوی ﷺ کے چالیس سال بعد ہوئی حدیث وضع کرنے میں سرفہرست روافض تھے خوفِ خدا اور خوف آخرت سے بے نیازی نے اس معاملہ میں ان کو اتنا جری بنا دیا کہ وہ ہر چیز کو حدیث بنادیتے تھے ۔علمائے اسلام نے واضعین کے مقابلہ میں قابل قدر خدمات انجام د ی انہوں نے ایسے اصول وقواعد مرتب کیے او ر موضوع حدیث کی ایسی علامتیں بتائیں جس سے موضوع احادیث کےپہچاننے میں بڑی آسانی ہوتی ہےاو ر موضوع احادیث پر مشتمل کتب لکھیں تاکہ لوگ ایسی ا حادیث سےباخبر ہوجائیں جن کی کوئی اصل نہیں۔ائمہ محدثین نے صرف احادیث کوجمع کردینے کو ہی کافی نہیں سمجھا بلکہ سنت کی حفاظت کے لیے علل حدیث، جرح وتعدیل، اور...
رب کائنات نے ہر دور میں فرعون کے لئے موسی کو پیدا فرمایا ہے۔جہاں بڑے بڑے ظالم ،جابر اور غاصب آئے جو اسلام کے پودے کو کاٹنا بلکہ جڑ سے اکھاڑنا چاہتے تھے،وہاں اسلام پر اپنی جان ،مال ،وطن ، اولاد اور سب کچھ قربان کر کے اسلام کی شمع کو روشن کرنے والے بھی سر پر کفن باندھے میدان کار زار میں موجود تھے۔ایسے معززین ،مکرمین اور خادمین اسلام میں سے ایک روشن نام شیخ العرب والعجم ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی کا بھی ہے۔آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ متعدد کتب کے مصنف اور مولف ہیں،جو عربی ،اردو اور سندھی میں لکھی گئی ہیں۔اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ شاہ صاحب کی پیش کردہ تحقیق کو آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔زیر نظر کتاب (حق وباطل عوام کی نظر میں)بھی آپ کے بے شمار شہ پاروں میں سے ایک جوہر نایاب ہے،جو آپ کے ایک خطبے کا خلاصہ ہے۔اس میں شاہ صاحب نے دلائل وبراہین سے یہ ثابت کیا ہے کہ جماعت حقہ صرف وہی جماعت ہے جو قرآن وسنت کی بنیاد پر قائم ہے۔وہی اصل اور عہد رسالت سے چلی آرہی ہے۔دیگر تمام تمام جماعتیں اور مسالک جو اپنے آپ کو دیگر اماموں کی طرف منسوب ک...
اسلامی تصور حیات میں توحید کے بعد سب سے بڑی اہمیت عقیدہ ختم نبوت کو حاصل ہے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی وہ اصل بنیاد ہے جس کی وجہ سے اسلام دوسرے الہامی مذاہب سے ممتاز ہے اللہ تعالیٰ نے کسی گزشتہ دین کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ اس کی تکمیل ہو چکی ہے اور اس کی حفاظت کا میں ذمہ دار ہو ں اور نہ ہی سابقہ آسمانی کتب وصحائف کے متعلق یہ فرمایاکہ یہ خدا کا آخر ی پیغام ہے اور نہ ہی یہ فرمایااس کو پیش کرنے والا آخری نبی ہے کہ جس کا ہر قول و فعل قیامت تک لوگوں کے لیے نجات کا ذریعہ ہو مگر محمد رسول اللہ1کا پیغام آخری پیغام ہے اور اپنے بعد کسی اور کے نہ آنے کا پیغام دیتاہے اللہ تعالیٰ نے جس طرح دین محمدی کے متعلق (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا) (المائدہ :٣) ارشاد فرمایا اسی طرح رسول اللہ 1 کے متعلق بھی کہا کہ 'مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَا(الاحزاب :٤٠) حضور 1 نے بھی اس مضمون کو مختلف الفاظ سے بیان ف...
انیسویں صدی میں ہندوؤں میں دو بڑی اصلاحی تحریکوں نے جنم لیا ۔ یہ برہمو سماج اور آریہ سماج تھیں۔ برہمو سماج تنظیم میں مذہبی کٹر پن نہیں تھا۔ قوم پرست اور مذہبی طور پر سخت متعصب تحریک آریہ سماج تھی، جسے پنڈت دیانند سرسوتی (1883-1824) نے 7 ؍اپریل 1875ء کو بمبئی میں قائم کیا تھا۔ اس نے 1875ء میں ستھیارتھ پرکاش (سچائی کی روشنی) کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ اس کتاب میں اسلام ، عیسائیت ، سکھ ازم ، بدھ مت وغیرہ تمام مذاہب پر دل آزار حملے کئے گئے تھے ۔ ستھیارتھ پرکاش کے مصنف سوامی دیانند سرسوتی نے اپنی اس کتاب میں قرآن مجید پر 159 اعتراضات کیے ۔ستھیارتھ پرکاش کے جواب میں مسلم علماء نے کئی کتابیں لکھیں ان میں فاتح قادیان شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری کی زیر نظر کتاب ’’حق پرکاش بجواب ستھیارتھ پرکاش‘‘ہے ۔ اس کتاب کا شمار مولانا ثناءاللہ امرتسری کی شاہکار کتابوں میں ہوتا ہے مولانا نے اس کتاب میں سوامی دیانند سرسوتی کے تمام اعتراض...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ عقائد، معاملات، عبادات، نکاح و طلاق، فوجداری قوانین، عدالتی احکام، خارجی اور داخلی تعلقات جیسے جملہ مسائل کا جواب اُصولاً یا تفصیلاًاس میں موجود ہے۔ ان مسائل کے بارے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لئے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خود انصاف پسند غیر مسلموں نے بھی اسلامی شریعت کے اس امتیاز کو تسلیم کیا ہے۔اسلام ہی نے انسانیت کی فلاح کے لئے رفاہِ عامہ اور خیرو بھلائی کے اُمورمیں کافر ومسلم کا فرق روا رکھے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی تعلیم دی۔اور اسلام نے بلا تفریق ہر انسان کے سر پرعزت و شرف کا تاج رکھا۔اور یہ اسلام کا ایسا واضح امتیاز ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب بھی اس سلسلہ میں اسلام کا سہیم اورہم پلہ نہیں ہے۔اسلام دین برحق ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ پوری دنیا پر پھیلے گا اگرچہ اس کے نہ ماننے والے جتنی مرضی سازشیں کرلیں۔ہر دور میں اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے اور اس کی تعلیمات سے لوگوں کو دور رکھنے کے لیے سازشیں ہوتی رہی ہیں۔اسلام کے محافظوں نے الحمد للہ ہر دو ر میں اسلام پر کیے اعتراضات کے &...
شریعتِ اسلامیہ میں نماز بہت بڑا اور اہم رکن ہے اور اس پر مواظبت لازم قرار دی گئی ہے بلکہ کفر وایمان کے درمیان نماز ایک امتیاز ہے۔عقیدہ توحید کے بعد کسی بھی عمل کی قبولیت کےلیے دو چیزوں کاہونا ضروری ہے۔ نیت اور طریقۂ رسول ﷺ ۔لہٰذا نماز کے بارے میں آپ کاﷺ واضح فرمان ہے ’’ نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘ (بخاری) رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑا ہوتے وقت ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا (یعنی رفع الیدین کرنا) نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس سنت پر عمل کیا ہے۔نماز میں رفع الیدین رسول اللہ ﷺ سے متواتر ثابت ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں کہ رفع الیدین کی حدیث کو صحابہ کرام کی اس قدر کثیر تعداد نے روایت کیا ہے کہ شاید اور کسی حدیث کواس سے زیادہ صحابہ نے روایت نہ کیا ہو۔ او رامام بخاری نے جزء رفع الیدین میں لکھا ہے ہے ک...
آج ہر شخص پریشان ہے کسی کوسکون میسر نہیں ۔ اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اہم اپنے مسائل حل کرنے کے لیے دین قیم سے رہنمائی کی روشنی نہیں لیتے بلکہ ان مادہ پرست لوگوں کے ٹمٹماتے چراغوں کے گردیدہ ہیں جو اسلام کے دشمن اور مسلمانوں کے قاتل ہیں۔ اگر ہمیں اپنے موجودہ مصائب ومکروہات سے نجات پانی ہے اور ترقی کی شاہراہ پر آگے برھنا ہے تو ہمیں صرف قرآن وسنت ہی کے دار الشفاء سے وابستہ ہونا پڑے گا۔ اسلام نے فرد اور معاشرے کی اصلاح ، استحکام، فلاح وبہبود اورامن وسکون کےلیے ہر شخص کے حقوق وفرائض مقرر کردیے ہیں۔اسلام کے بیان کردہ حقوق وفرائض میں سے ایک مسئلہ حقوق الزوجین کا ہے ۔ اسلام کی رو سے شادی چونکہ ایک ذمہ داری کانام ہےاس لیے شادی کےبعد خاوند پر بیوی اور بیوی پر خاوند کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا دونوں پر فرض ہے ۔ زوجین اگر دینی تعلیمات کے مطابق ایک دوسرے کےحقوق خوش دلی سے پور ے کرنے لگیں تونہ صرف بہت سےمفسدات اور خرابیوں کا خاتمہ...
اسلام نے فرد اور معاشرے کی اصلاح ، استحکام، فلاح وبہبود اورامن وسکون کےلیے ہر شخص کے حقوق وفرائض مقرر کردیے ہیں۔اسلام کے بیان کردہ حقوق وفرائض میں سے ایک مسئلہ حقوق الزوجین کا ہے ۔ اسلام کی رو سے شادی چونکہ ایک ذمہ داری کانام ہےاس لیے شادی کےبعد خاوند پر بیوی اور بیوی پر خاوند کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا دونوں پر فرض ہے ۔ میاں بیوی ایک دوسرے کالباس ہیں ایک دوسرے کی عزت ہیں ایک کی عزت میں کمی دونوں کےلیے نقصان کا باعث ہے ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے۔زوجین اگر دینی تعلیمات کے مطابق ایک دوسرے کےحقوق خوش دلی سے پور ے کرنے لگیں تونہ صرف بہت سےمفسدات اور خرابیوں کا خاتمہ ہوجائے گا بلکہ ہمارا معاشرہ سکون وطمانیت کی پیاسی مادہ پرست دنیا کے لیےبھی امید اورآرام کی سبق آموز بشارت بن جائے ۔حقوق الزوجین کےسلسلے میں قرآن وسنت میں واضح احکام موجود ہیں اور اس موضوع پر کئی اہل علم نے مستقل کتب بھی تصنیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ حقوق الزوجین (میاں بیوی کے حقوق و فرائض)‘‘ عادل سہیل ظفر صاحب کی کاوش ہے۔ایک شوہر ہونے کےناطے بیوی پر اس کے...
اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے نبوت کا سلسلہ قائم کیا جس کی آخری کڑی جناب محمد رسول اللہﷺ تھے۔ انہوں نے امت کی ہر شعبۂ زندگی میں مکمل رہنمائی فرمائی۔ اور حقوق وفرائض سے متعلقہ تفصیل سے تعلیمات دیں کہ کچھ حقوق اللہ ہوتے ہیں اور کچھ حقوق العباد ہوتے ہیں اور حقوق اللہ تو اللہ رب العزت چاہیں تو معاف فرما دیں مگر حقوق العباد میں اللہ رب العزت نے متعلقہ بندے سے معافی مانگنے کو معلق کر رکھا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب بھی خاص اسی موضوع پر ہے جس میں حقوق العباد‘‘ پر بڑی جامع‘مفید اور مؤثر ابحاث درج کی گئی ہیں کہ افراد واجتماع میں اختلاف کیوں ہوتا ؟ اس کے اسباب نقل کیے گئے ہیں جن میں سے مؤلف نے بڑی وجہ یہی بیان کی ہے کہ ہم حقوق العباد کا پاس نہیں کرتے جس کے نتیجے میں ہم میں اختلاف ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنے دروس اور خطبات کو اس میں جمع فرما دیا ہے۔اس کتاب میں چونکہ انداز تقریر کا ہے اور اس کا بھی لفظ بہ لفظ نقل کیا گیا ہے اس لیے اس میں سلاست کی کمی اور پڑھنے میں کچھ دقت بھی ہے۔ اور اتحاد واتفاق کی اہمیت وفضیلت اور اس کے ثمرات کو بیان کیا گی...
دین اسلام نے دو قسم کے حقوق بیان کیئے ہیں۔ ایک ’’حقوق اللہ‘‘ جس کا تعلق براہِ راست اﷲ تبارک و تعالیٰ سے ہے جن میں توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج شامل ہیں جبکہ دوسرا ’’حقوق العباد‘‘ ہے جس کا تعلق براہِ راست خلق خدا سے ہے۔ حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب، ہر ذات و نسل، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق شامل ہیں یہاں یہ بات غورطلب ہے کہ حقوق العباد میں صرف مسلمان کا مسلمان پر نہیں ہے، بلکہ یہ غیر مسلموں پر بھی اتنا ہی لاگو ہوتا ہے جتناکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر۔ زیر نظر کتابچہ’’ حقوق العباد‘‘ شیخ العرب والعجم علامہ سید بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ مرتب شدہ ہے انہوں نے اس کتابچہ میں آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں حقوق لعباد کی مکمل تشریح بیان کی ہے۔(م۔ا)
اسلام ایک امن و عافیت اور اخوت کا دین ہے۔ اسلام کی تاریخ اخوت و مودّت کے سنہری ابواب سے لبریز ہے۔ اس کی ایک نمایاں جھلک ہجرت مدینہ کے بعد آپﷺ کا انصار و مہاجرین کو آپس میں بھائی بھائی کے رشتے میں پرو دینا اور پھر انصار و مہاجرین کا آپس میں ایسی محبت کا نمونہ پیش کرنا دنیا کا کوئی دین ایسی مثال پیش کرنے سے عاجز و قاصر ہے۔ یہی وہ آفاقی دین ہے جس کی تعلیمات قیامت تک زندہ و جاوید رہیں گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے۔ اسی طرح دین اسلام کی مقدس تعلیمات روات کی مستند کڑیوں کے ساتھ امت مسلمہ تک پہنچی اور علمائے اسلام ہی کو آپ ﷺ کی زبان اطہر سے دین کے وارث قرار ہونے کے لقب سے نوازہ گیا"العلماء ورثۃ الانبیاء"۔ جہاں دین اسلام نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اتباع رسول اللہ ﷺ کا حکم دیا ہے وہاں دین اسلام بندوں کےحقوق کی پاسداری کا درس بھی دیتا ہے۔ دین اسلام میں حقوق العباد پر بہت زور دیا گیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"حقوق العباد کی یاد دہانی بندہ مسکین کی زبانی" فاضل مصنف عبدا لرشید انصاری کی مرتب شدہ تصنیف ہے۔ جس...
قوموں کے عروج و زوال کی داستان اس حقیقت پر شاہد ہے کہ قومی دفاع اور ملکی سلامتی سے غفلت برتنے والی اقوام با لآخر اپنی آزادی اور استقلال کو کھو دیتی ہیں اور اغیار کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لی جاتی ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ برصغیر کے جذبہ ایمانی سے سرشار مسلمانوں کی ایک بھرپور تحریک اور لازوال شہادتوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں ہم جس عظیم ملک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، پچھلے تقریباً پچاس(50) سالوں کے دوران اس کی بقاء اور سلامتی کے تقاضوں کو کما حقہ سمجھنے، ان کے حصول کے لیے مناسب پالیسیوں کی تشکیل اور پھر ہم ان پر خلوص نیت سے عمل پیرا ہونے میں مسلسل ناکام چلے آ رہے ہی، بدلتے ہوئے عالمی حالات میں پاکستان کی سلامتی کو گوناگوں خطرات کاسامنا ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کسی ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدیں بھی ہوتی ہیں۔ دور حاضر میں کچھ ادارے اغیار کے اشاروں پر پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ ان کی سر گرمیاں شریعت اور قرآن مجید کو(نعوذ با للہ) نا قابل عمل قرار دلوانے، ارتداد کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں سے...
انسانی حقو ق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام و قار اور مساوات پر مبنی ہے ۔قرآن حکیم کی روسے اللہ رب العزت نے نوع انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔قرآن کریم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کیاگیاہے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سیدنا آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوق پر فضلیت عطاکی گئی ۔مغرب نے حقوقِ انسانی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ انتہائی ناقص اور فرسودہ ہے، اس کے اندر اتنی وسعت نہیں کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں کا احاطہ کرسکے اس کے باوجود مغرب حقوق انسانی کی رٹ لگائے تھکتا نہیں، لیکن محمد عربی ﷺنے جو مربوط نظام، انسانی حقوق کا پیش کیا وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، جن میں احترام انسانیت، بشری نفسیات ورجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اورمعاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیاگیا ہے اور حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اس کو ادا کرنا پڑے گا ورنہ...
اللہ تعالیٰ نے عورت کو معظم بنایا لیکن قدیم جاہلیت نے عورت کو جس پستی کے گھڑے میں پھینک دیا اور جدید جاہلیت نے اسے آزادی کا لالچ دے کر جس ذلت سے دو چار کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ایک طرف قدیم جاہلیت نے اسے زندگی کے حق سے محروم کیا تو جدید جاہلیت نے اسے زندگی کے ہر میدان میں دوش بدوش چلنے کی ترغیب دی اور اسے گھر کی چار دیواری سے نکال کر شمع محفل بنادیا۔ جاہل انسانوں نےاسے لہب ولعب کاکھلونا بنا دیا اس کی بدترین توہین کی اور اس پر ظلم وستم کی انتہا کردی تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتاہے کہ ہر عہد میں عورت کیسے کیسے مصائب و مکروہات جھیلتی رہی اور کتنی بے دردی سے کیسی کیسی پستیوں میں پھینک دی گئی اور عورت اپنی عزت ووقار کھو بیٹھی آزادی کے نام پر غلامی کا شکار ہوگئی۔ ۔ لیکن جب اسلام کا ابرِ رحمت برسا توعورت کی حیثیت یکدم بدل گئی ۔محسن انسانیت جناب رسول اللہ ﷺ نے انسانی سماج پر احسان ِعظیم فرمایا عورتوں کو ظلم، بے حیائی ، رسوائی اور تباہی کے گڑھے سے نکالا انہیں تحفظ بخشا ان کے حقوق اجاگر کیے ماں،بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سےان کےفرائض بتلائے اورانہیں...