علامہ محمد اقبالؒ ہماری قوم کے رہبر و رہنما تھے،آپ کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مشرق کے جذبات و احساسات کی جس طرح ترجمانی کا حق اقبال مرحوم نے ادا کیا ہے اس طرح کسی دوسرے نے نہیں کیا ہے ۔شاعری کسی فکرونظریہ کودوسروں تک پہنچانے کاموثرترین طریقہ ہے ۔شعرونظم سے عموماً عقل کی نسبت جذبات زیادہ متاثرہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وحی الہیٰ کے لیے شعرکواختیارنہیں کیاگیا۔تاہم اگرجذبات کی پرواز درست سمت میں ہوتوانہیں ابھارنا بجائے خودمقصودہے ۔۔ ان کی شاعری عروج رفتہ کی صدا ہے ۔ ان کے افکار و نظریات عظمت مسلم کے لئے ایک بہترین توجیہ اور جواز فراہم کرتے ہیں،اوراسلام کی انقلابی ،روحانی اوراخلاقی قدروں کاپراثرپیغام ہے ۔ان کی شاعری میں نری جذباتیت نہیں بلکہ وہ حرکت وعمل کاایک مثبت درس ہے ۔اس سے انسان میں خودی کے جذبے پروان چڑھتے ہیں اورملت کاتصورنکھرتاہے ۔بنابریں یہ کہاجاسکتاہے کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کونظم میں بیان کیاہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں‘‘ اختر راہی کی تصنیف ہے۔ جس میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی...
علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف،قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی ،بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء (بمطابق 3 ذیقعد 1294ھ) کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے۔اقبال کے آبا ؤ ا...
علامہ محمد اقبالؒ ہماری قوم کے رہبر و رہنما تھے،آپ کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مشرق کے جذبات و احساسات کی جس طرح ترجمانی کا حق اقبال مرحوم نے ادا کیا ہے اس طرح کسی دوسرے نے نہیں کیا ہے ۔شاعری کسی فکرونظریہ کودوسروں تک پہنچانے کاموثرترین طریقہ ہے ۔شعرونظم سے عموماً عقل کی نسبت جذبات زیادہ متاثرہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وحی الہیٰ کے لیے شعرکواختیارنہیں کیاگیا۔تاہم اگرجذبات کی پرواز درست سمت میں ہوتوانہیں ابھارنا بجائے خودمقصودہے ۔۔ ان کی شاعری عروج رفتہ کی صدا ہے ۔ ان کے افکار و نظریات عظمت مسلم کے لئے ایک بہترین توجیہ اور جواز فراہم کرتے ہیں،اوراسلام کی انقلابی ،روحانی اوراخلاقی قدروں کاپراثرپیغام ہے ۔ان کی شاعری میں نری جذباتیت نہیں بلکہ وہ حرکت وعمل کاایک مثبت درس ہے ۔اس سے انسان میں خودی کے جذبے پروان چڑھتے ہیں اورملت کاتصورنکھرتاہے ۔بنابریں یہ کہاجاسکتاہے کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کونظم میں بیان کیاہے۔تاہم یہ بات بھی ملحوظ خاطررکھناضروری ہے کہ علامہ عالم دین نہ تھے ہمارے ملی شاعرتھے اوربس ۔ زیر تبصرہ کتاب" اقبال کامل...
علامہ محمد اقبالؒ ہماری قوم کے رہبر و رہنما تھے،آپ کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مشرق کے جذبات و احساسات کی جس طرح ترجمانی کا حق اقبال مرحوم نے ادا کیا ہے اس طرح کسی دوسرے نے نہیں کیا ہے ۔شاعری کسی فکرونظریہ کودوسروں تک پہنچانے کاموثرترین طریقہ ہے ۔شعرونظم سے عموماً عقل کی نسبت جذبات زیادہ متاثرہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وحی الہیٰ کے لیے شعرکواختیارنہیں کیاگیا۔تاہم اگرجذبات کی پرواز درست سمت میں ہوتوانہیں ابھارنا بجائے خودمقصودہے ۔۔ ان کی شاعری عروج رفتہ کی صدا ہے ۔ ان کے افکار و نظریات عظمت مسلم کے لئے ایک بہترین توجیہ اور جواز فراہم کرتے ہیں،اوراسلام کی انقلابی ،روحانی اوراخلاقی قدروں کاپراثرپیغام ہے ۔ان کی شاعری میں نری جذباتیت نہیں بلکہ وہ حرکت وعمل کاایک مثبت درس ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ اقبال کی ابتدائی زندگی‘‘ ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین کی تصنیف ہے۔ جس میں ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کے خاندان کا تعارف اور ان کی ساری زندگی کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مصنف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور...
فالشيخ أبو الحسن علي ميان الندوي رحمه الله من أبرز علماء القرن الحاضر الذين أسهموا في إحياء الأمة الإسلامية بكتاباتهم النافعة و مقالاتهم الفاضلة، و اعترف له بذلك العالَم الإسلامي كله، و كتابه " ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين " خير شاهدعلى علو ذوقه العلمي و قوة رأيه الفكري، و الحديث عن جهوده العلمية و الفكريه طويل، كتبت فيه مقالات علمية و رسائل جامعية، و الذي يعنينا هنا هو التنويه إلى جانب مهم من حياته ألا و هو تأثره بالتصوف و ميله عن منهج السلف في هذا الباب، فالشيخ على جلالته و علو منزلته كان غارقا في التصوف و شغوفا بالصوفياء، و روج هذا المسلك المنحرف في أرجاء كتاباته و دافع عنه في ثنايا مقالاته، و كان من الجدير أن ينبه على أخطائه و زلاته في هذا الجانب نصيحة لله و لكتابه و لرسوله و لعموم المسلمين. فتولى هذا المهمة الشيخ الفاضل المحقق صلاح الدين مقبول– حفظه الله- من علماء الهند السلفيين، خريج الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة، فجمع كلام الشيخ الندوي من غصون كتبه و أثبت بما لديه من الميل والانحراف عن المنهج الصحيح في هذا الباب وغيره، و كل...
مولانا محمد عطاء اللہ حنیف ؒ کی ذات متنوع صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ان کی علمی و تحقیقی، ملی، سیاسی اور مسلکی خدمات خود ان کا تعارف ہیں۔ ہفت روزہ الاعتصام نے مولانا کی انھی خدمات کے باوصف ایک خاص ضخیم نمبر بیاد ’مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی‘ نکالا ہے۔ جس کے صفحات 1200 سے زائد ہیں۔ رسالے کو مختلف عناوین میں تقسیم کیا گیا ہے سب سے پہلے آپ کی سوانح کے ذیل میں متعدد مضامین یکجا کی گئے ہیں جس میں علیم ناصری اور مولانا اسحاق بھٹی جیسے مصنفین کے مضامین شامل ہیں۔ پھر ’شخصیت‘ کے نام سےعنوان قائم کیا گیا ہے جس میں حافظ ثناء اللہ مدنی، حافظ صلاح الدین یوسف اور حافظ محمد اسحاق صاحب جیسے متعدد علمائے کرام نے آپ کی شخصیت سے متعلق بہت سے گوشوں کا احوال بیان کیا ہے۔ اس کےبعد آپ کی علمی و تحقیقی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا محمد عزیر شمس، عبدالغفار حسن، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، حافظ صلاح الدین یوسف اور دیگر نے اظہار خیال کیا ہے۔ مولانا کو تدریس کا خاص شغف تھا آپ نے اپنی زندگی میں تیس، پینتیس برس تدریس کا فریضہ انجام دیااسی کے پیش نظر تدریسی کے عنوان سے آپ کی...
علامہ شمس الحق عظیم آبادی( 1273ھ ؍ 1857ء -1911ء ؍ 1329ھ) عالم اسلام کے مشہور عالم، مجتہد و محدث تھے۔ وہ عظیم آباد پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا شمار سید نذیر حسین محدث دہلوی اور شیخ حسین بن محسن یمانی کے خاص تلامذہ میں ہوتا ہے۔ وہ اہل حدیث مسلک کے اکابر علما میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔ ان کی تصانیف حدیث سے پورے عالم اسلام نے استفادہ کیا اور حدیث کا کوئی طالب علم ان کی خدمات سے مستغنی نہیں رہ سکتا۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ پٹنہ کے اطراف میں واقع ایک بستی ڈیانواں میں گزرا اسی لیے انہیں ’’ محدث ڈیانوی ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور وہ ڈیانوی کی صفت نسبتی سے بھی معروف ہیں ۔ موصوف کی مشہور تصانیف میں ’’ غایۃ المقصود شرح سنن ابی دادو ‘‘، ’’ عون المعبود علی سنن ابی داود ‘‘، ’’ التعلیق المغنی شرح سنن الدارقطنی ‘‘، ’’ رفع الالتباس عن بعض الناس ‘‘، ’’ اعلام اھل العصر باحکام رکعتی الفجر ‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔ ان کا انتقال مار...
ہندوستان میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بعد تیرہویں صدی ہجری کے آخرمیں دو بزرگ ہستیاں ایسی ہوئی ہیں، جنھیں احیائے سنت اور طریقہ سلف کی خدمت میں بلند ترین مقام حاصل ہے۔ جن میں سے ایک نواب صدیق حسن خاں صاحب جبکہ دوسری شخصیت سید نذیر حسین محدث دہلوی کی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ثانی الذکر ہستی کے سوانح حیات پر مشتمل ہے۔ کتاب کو سات ابواب اور دو ضمیمہ جات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں سید نذیر حسین دہلوی کے سن ولادت سے لے کر دہلی تک پہنچنے تک کا بیان ہےجس میں تقریباً تیئیس برس کے حالات زندگی آ گئے ہیں۔ باب دوم میں تحصیل علوم، شادی سے لے کر طالب علمی کے احباب تک کا تذکرہ ہے۔ تیسرے باب میں چھیالیس برس تک کے حالات زندگی رقم کیے گئے ہیں جس میں مسند درس پر متمکن ہونا، مطالعہ اور وسعت نظر، اہلیہ کی وفات، سفر حج اور مولانا سید شریف حسین صاحب کی وفات وغیرہ کا تذکرہ موجود ہے۔ چوتھا باب مجددیت، تصوف اور بیعت سے متعلق ہے۔ باب پنجم آپ کے اخلاق و عادات اور زندگی کے مختلف واقعات سے مزین ہے۔ چھٹے باب میں پابندی اوقات، شکل و شمائل، وفات اور تاریخ واقعات سے متعلق ہے۔ باب ہفتم اہل علم کے شعرا کے قصائد، معا...
صادق پور انڈیا پٹنہ کاایک معروف قصبہ ہے اس قبصے کے علماء ومجاہدین کی سید ین شہیدین کی تحریک جہاد کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ مولانا ولایت علی ، مولانا عنایت علی ، مولانا عبد اللہ ، مولانا عبد الکریم وغیرہم جماعت مجاہدین کے امیر بنے۔انگریز دشمنی میں یہ خاندان خصوصی شہرت رکھتا تھا۔ سیّد احمد شہید کے شہادت کے بعد اسی خاندان کے معزز اراکین نے تحریک جہاد کی باگ دوڑ سنبھالی۔ اندرونِ ہند بھی اسی خاندان کے دیگر اراکین نے تحریک کی قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ مولانا یحیٰ علی ، مولانا احمد اللہ ، مولانا عبد الرحیم عظیم آبادی کو اسی پاداش میں کالا پانی کی سزا ہوئی۔ انگریزوں نے ان پر سازش کے مقدمات قائم کیے۔معروف مقدمہ انبالہ بھی مجاہدین کے ساتھ تعاون کرنے پر مولانا عبد الرحیم عظیم آبادی کے خلاف کیا گیا۔ جائیدادوں کی ضبطی ہوئی۔ حتیٰ کہ خاندانی قبرستان تک کو مسمار کر دیا گیا۔ ان کی مجاہدانہ ترکتازیوں کا اعتراف ہر طبقہ فکر نے کیا۔مولانا عبدالرحیم عظیم آبادی مسلک اہل حدیث کے عظیم سرخیل قائد جید عالم دین اور عظیم مجاہد تھے۔آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہےآپ نےہندوستا...
برصغیر پاک و ہند میں بلاشبہ یہ فخر صرف سندھ کو حاصل ہے کہ اسلام کا روشن سورج جب ملک عرب کے خطہ غیرذی ذرع اور ریتلی سرزمین سے طلوع ہوا تو ان کی روشن و شفاف کرنیں سب سے پہلے دیبل (سندھ) کی سرزمین پر جاپڑیں۔ اور اسلام کی روشنی اسی راستہ سے اس ملک میں پھیلی، یہی وہ مقدس سرزمین ہے ۔ جس کو صحابہ کرام ؓ تابعین عظام اور تبع تابعین کے قدم بوسی کا شرف حاصل ہے۔ اور ان کے اجسام اطہر اس سرزمین میں مدفون ہیں۔یہاں لشکر اسلام کے مبارک قدموں کے انمٹ نقوش اب تک قدیم کھنڈرات کی صورت میں دعوت فکر دے رہے ہیں۔ مجاہد اسلام محمد بن قاسم ثقفی ؒ کا پہلا جہادی معرکہ سندھ کی سرزمین میں وقوع پذیر ہوا۔جس کی مناسبت سے سندھ کو باب الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔اسلام کی دعوت و تبلیغ میں سندھی علماء کرام و مشائخ عظام اور محدثین کی بڑی خدمات ہیں۔شخصی یا خاندانی لحاظ سے سندھ کے علماء و محدثین کی ایک طویل فہرست موجود ہے ۔ اسی فہرست میں ‘‘راشدی خاندن’’ کو بہت بڑا مقام و اہمیت حاصل ہے۔اسی خاندان کے معروف چشم و چراغ مولانابدیع الدین راشدی ہیں۔ دنیائے اسلام میں...
امام محمد ابو حامد الغزالی اسلام کے مشہور مفکر اور متکلم تھے۔ 450ھ میں طوس میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں حاصل کی ۔نیشا پور سے وزیر سلاجقہ نظام الملک طوسی کے دربار میں پہنچے اور 484ھ میں مدرسہ بغداد میں مدرس کی حیثیت سے مامور ہوئے۔ جب نظام الملک اور ملک شاہ کو باطنی فدائیوں نے قتل کردیا تو انہوں نے باطنیہ، اسماعیلیہ اور امامیہ مذاہب کے خلاف متعدد کتابیں لکھیں ۔ اس وقت وہ زیادہ تر فلسفہ کے مطالعہ میں مصروف رہے جس کی وجہ سے عقائد مذہبی سے بالکل منحرف ہو چکے تھے۔ ان کا یہ دور کئی سال تک قائم رہا۔ لیکن آخر کار جب علوم ظاہری سے ان کی تشفی نہ ہوئی تو تصوف کی طرف مائل ہوئے اور پھر خدا ،رسول ، حشر و نشر تمام باتوں کے قائل ہوگئے۔488ھ میں بغداد چھوڑ کر تلاش حق میں نکل پڑے اور مختلف ممالک کا دورہ کیے۔ یہاں تک کہ ان میں ایک کیفیت سکونی پیدا ہوگئی اور اشعری نے جس فلسفہ مذہب کی ابتدا کی تھی۔ انہوں نے اسے انجام تک پہنچا دیا۔ ان کی کتاب’’ المنقذ من الضلال‘‘ ان کے تجربات کی آئینہ دار ہے۔ اسی زمانہ میں سیاسی انقلابات نے ان کے ذہن...
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے انبیاء کرام و رسل عظام کی ایک برزگزیدہ جماعت کو مبعوث فرمایا۔ اس مقدس و مطہر جماعت کو کچھ ایسے حواری اور اصحاب بھی عنائت کیے جو انبیاء کرام کی تصدیق و حمایت کرتے۔ اللہ رب العزت نے سید الاوّلین و الآخرین حضرت محمد ﷺ کو صحابہ کرام کی ایک ایسی جماعت عطا فرمائی جن کے بارے میں اللہ کی یہ مشیت ہوئی کہ وہ خاتم النبیین سے براہ راست فیض حاصل کریں اور رسول اللہ ﷺ خود ان کا تزکیہ نفس کرتے ہوئے کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔ اور یہ وہ مقدس نفوس تھے جن کا ذکر قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتب میں بھی اللہ رب العزت نے فرمایا اورنبی کریم ﷺ نے" خیر امتی قرنی" کے مقدس کلمات سے نوازہ۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایک مسلمان کامیابی اور فتح و نصرت کے لیے کبھی ظاہری وسائل پر اعتماد نہیں کرتا بلکہ اسباب کی بجائے اسباب کے رب پر اعتماد کرتے ہوئے آتش نمرود میں کود کر تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن جاتا ہے۔ زیر نظرکتاب" اللہ کے سپاہی" جو کہ فاضل مصنف ابو علی عبدالوکیل نے ایسی ہی بہادر شخصیات کا تذکرہ دلپذیر قلمبند کیا ہے جنہوں...
ساتویں صدی ہجری ( تیرہویں صدی عیسوی) کے عین وسط میں ،جب بغداد کی عباسی خلافت کا انحطاط انتہاء کو پہنچ چکا تھا،قاہرہ کی فاطمی خلافت دم توڑ چکی تھی،سلجوقی،زنگی اور ایوبی حکمران اپنی طاقت باہمی چپقلشوں میں ختم کر چکے تھے ،یوسف صدیق اور فراعنہ کی سر زمین مصر میں چشم فلک نے ایک عجیب نظارہ دیکھا ،تاتار گردی میں غلام بنا کر اہل مصر کے ہاتھ فروخت کئے گئے کوہ قاف کے سفید باشندے مصر کے تاج وتخت کے مالک بن گئے۔اور پھر پونے تین سو سال تک بحر وبر پر اس شان سے حکمرانی کی کہ مشہور مستشرق پروفیسر فلپ کے بیان کے مطابق مشرق ومغرب کا کوئی حکمران ان کی برابری کا دم نہیں بھر سکتا تھا۔الملک الظاہر سلطان رکن الدین بیبرس انہی غریب الدیار غلاموں کی جماعت کا ایک فرد تھا،جو دمشق کی منڈی میں ایک حقیر رقم پر فروخت ہوااور پھر اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور بخت کی یاوری کی بدولت مصر کے تاج وتخت اور خزانوں کا مالک بن گیا۔سلطان بیبرس کہنے کو تو اپنے سلسلہ ممالیک بحری کا چوتھا حکمران تھا ،لیکن حقیقت میں وہ پہلا مملوک فرمان روا تھا جس نے مملوک سلطنت کی بنیادیں استوار کیں اور اس کو ایک ایسی عا...
بلا شبہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کلام الٰہی ہر قسم کی غلطی سے مبّرا و منزّا ہے۔ قرآن مجید اپنی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے کامل و اکمل ترین کتاب ہے۔ یہ واحد آسمانی کتاب ہے جو اپنی اصل صورت میں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئی ہے۔ ہر دور میں مفسرین و محدثین نے مختلف انداز سے اس کی تفاسیر و شروحات کو قلمبند کیا اور بنی نوع آدم کی علمی تشنگی کی آبیاری کرتے رہے۔ اسی طرح مسلمانوں کا قدیم علمی ورثہ ایک ایسا بحرِ زخّار ہے جس میں ایک سے ایک بڑھ کر سچے موتی موجود ہیں لیکن جوں جوں ہم قدیم سے جدید زمانے کی طرف بڑھتے ہیں یہ موتی نایاب ہوتے جاتے ہیں لیکن ان جواہرات میں سے ایک جوہر ایسا بھی مل جاتا ہے جو یکبارگی ساری محرومیوں کا ازالہ کردیتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ سماحۃ الشیخ امام ابن باز کا منھج ِفتویٰ‘‘ امام حرم ڈاکٹر عبد الرحمن بن عبد العزیز السدیس﷾کی تالیف ہے، جس کا اردو ترجمہ مولانا عنایت اللہ سنابلی مدنی صاحب نے کیا ہے۔اس کتاب میں اولا علامہ ابن باز کی مختصرحالات زندگی کو بیان کیا گیا ہے۔مزید اس کتاب...
مسلمانوں کا قدیم علمی ورثہ ایک ایسا بحرِ زخّار ہے جس میں ایک سے ایک بڑھ کر سچے موتی موجود ہیں لیکن جوں جوں ہم قدیم سے جدید زمانے کی طرف بڑھتے ہیں یہ موتی نایاب ہوتے جاتے ہیں لیکن ان جواہرات میں سے ایک جوہر ایسا بھی مل جاتا ہے جو یکبارگی ساری محرومیوں کا ازالہ کردیتا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کی جامع الصفات شخصیت بلا شبہ ملت اسلامیہ کے لیے سرمایہ صد افتخار ہے۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اسلامی تعلیمات کو خالص کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی بنیاد پر پیش کیا اور اس ضمن میں وہ تمام آلودگیاں جو یونانی افکار و خیالات کے زیر اثر اسلامی تعلیمات میں راہ پا رہی تھیں یا عجمی مذہبیت کی حامل وہ صوفیانہ تعبیرات جو نیکی اور تقدس کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھیں امامؒ نے ان سب کی تردید کی۔ ان کی حقیقت کو بے نقاب کیا اور ان کے برے اثرات سے عالم اسلام کو بچانے کے لیے عمر بھر سیف و قلم سے جہاد کرتے رہے۔ امام ابن تیمیہؒ پانچ سو(500) کے مصنف، مجتہد اور تاریخ اسلام کی انقلاب آفرین شخصیت تھے۔ زیر نظر کتاب"امام ابن تیمیہؒ" جو کہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی تصنیف ہے۔...
شیخ الاسلام و المسلمین امام ابن تیمیہ(661۔728ھ) کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے، آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی، آپ نے جس طر ح اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا۔ او رباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعد رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب و تاب سے موجود ہیں۔ آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت، کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت کی تردید وتوضیح میں بسرکی۔ امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔ آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر و قیمت کا صحیح تعین کیا۔ آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔ آپ کا فتاوی 37 ضخیم جلد وں میں مشتمل ہے۔ امام ابن تیمیہ کی حیات و خدمات کےحوالے سے عربی زبان میں کئی کتب اور یونیورسٹیوں میں ایم فل، پی ایچ ڈی کے مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں۔ اردو زبان میں امام صاحب کے حوالے سے کئی کتب اور...
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت ،کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت کی تردید وتوضیح میں بسر کردی ۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیا۔مختلف گوشوں میں آپ کی تجدیدی واصلاحی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں ۔امام ابن تیمیہ صرف صاحب قلم عالم ہی نہ تھے ،صاحب سیف مجاہدبھی تھے ،آپ نے میدان جہاد میں بھی جرأت وشجاعت کے جو ہر دکھائے ۔آپ کی طرح آپ کے تلامذہ بھی اپنے عہد کے عظیم عالم تھے ۔جناب عبدالرشید عراقی صاحب نے زیر نظر کتاب میں امام ابن تیمیہ اور ان کے چار جلیل القدر تلامذہ امام ابن کثیر،حافظ ابن قیم،حافظ عبدالہادی اور امام ذہبی کے حالات زندگی اور ان کے علمی کارناموں کا احوال بیان کیا ہے ،جو لائق مطالعہ ہے ۔(ط۔ا)
مسلمانوں کا قدیم علمی ورثہ ایک ایسا بحرِ زخّار ہے جس میں ایک سے ایک بڑھ کر سچے موتی موجود ہیں لیکن جوں جوں ہم قدیم سے جدید زمانے کی طرف بڑھتے ہیں یہ موتی نایاب ہوتے جاتے ہیں لیکن ان جواہرات میں سے ایک جوہر ایسا بھی مل جاتا ہے جو یکبارگی ساری محرومیوں کا ازالہ کردیتا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کی جامع الصفات شخصیت بلا شبہ ملت اسلامیہ کے لیے سرمایہ صد افتخار ہے۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اسلامی تعلیمات کو خالص کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی بنیاد پر پیش کیا اور اس ضمن میں وہ تمام آلودگیاں جو یونانی افکار و خیالات کے زیر اثر اسلامی تعلیمات میں راہ پا رہی تھیں یا عجمی مذہبیت کی حامل وہ صوفیانہ تعبیرات جو نیکی اور تقدس کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھیں امامؒ نے ان سب کی تردید کی۔ ان کی حقیقت کو بے نقاب کیا اور ان کے برے اثرات سے عالم اسلام کو بچانے کے لیے عمر بھر سیف و قلم سے جہاد کرتے رہے۔ امام ابن تیمیہؒ پانچ سو (500) کے مصنف، مجتہد اور تاریخ اسلام کی انقلاب آفرین شخصیت تھے۔ زیر نظر کتاب"امام ابن تیمیہؒ" جو کہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی تصنیف ہے...
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ(661۔728ھ) کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے جس طر ح اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ اورباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعد رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیااورمتکلمین، فلاسفہ اور منطقیین کا خوب ردّ کیا ۔امام ابن تیمیہ کی حیات وخدمات سے متعلق جس طرح عربی زبان میں کئی کتب اور یونیورسٹیوں میں ایم فل ، پی ایچ ڈی کے مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں اسی طرح اردو زبان میں امام صاحب کے متعلق کئی کتب اور رسائل وجرائد میں سیکڑوں مضامین ومقالات شائع ہوچکے ہیں ۔مو...
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ(661۔728ھ) کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے جس طر ح اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ اورباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعد رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت ،کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت کی تردید وتوضیح میں بسرکی ۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیا۔آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔ آپ کا فتاوی ٰ 37 ضخیم جلد وں میں مشتمل ہے۔امام ابن تیمیہ کی حیات وخدمات کےحوالے سے عربی زبان میں کئی کتب اور یونیورسٹیوں میں ایم فل ، پی ایچ ڈی کے مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں ۔ اردو زبان میں امام صاحب کے حوالے سے کئی کتب اور رسائ...
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ(661۔728ھ) کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے جس طر ح اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ اورباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعد رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت ،کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت کی تردید وتوضیح میں بسرکی ۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیا۔آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔ آپ کا فتاوی ٰ 37 ضخیم جلد وں میں مشتمل ہے۔امام ابن تیمیہ کی حیات وخدمات کےحوالے سے عربی زبان میں کئی کتب اور یونیورسٹیوں میں ایم فل ، پی ایچ ڈی کے مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں ۔ اردو زبان میں امام صاحب کے حوالے سے کئی کتب اور رسائ...
امام محمد بن مسلم بن عبيد الله بن عبد الله بن شهاب زہری (50۔124ھ) زبردست ثقہ امام، حافظ، اور فقیہ تھے۔ زہری نے کئی صحابہ کرام اور کئی کبار تابعین سے روایات لی ہیں آپ کی روایات تمام کتبِ صحاح، سنن، مسانید، معاجم، مستدرکات، مستخرجات، جوامع، تواریخ اور ہر قسم کی کتب حدیث میں شامل ہیں آپ کی جلالت اور اتقان پر امت کا اتفاق ہےامام زہری کا شمار ان جلیل القدر آئمہ حدیث میں ہوتا ہے جو علمِ حدیث میں ’’جبل العلم‘‘ کامقام رکھتے ہیں ۔اسی لیے آپ علم حدیث میں ایک فردکی حیثیت سے نہیں بلکہ علم حدیث کا دائرۃ المعارف کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔علمائے جرح وتعدیل اسماء الرجال اور فنون حدیث میں نابغہ روز گار شخصیات آپ کی امامت وجلالت ،ثقاہت وعدالت پر متفق ہیں۔ حقیقت یہ کہ آپ ہی کی محنت شاقہ کی بدولت آج ہم احادیث نبویہ سے اپنے قلوب کوگرمائے ہوئے ہیں وگرنہ بقول اما م لیث بن سعد اگر ابن شہاب زہری نہ ہوتے تو بہت سی احادیثِ نبویہ ضائع ہو جاتیں ۔لیکن بعض جاہل منکرین حدیث نے اما...
امام محمد بن مسلم بن عبيد الله بن عبد الله بن شهاب زہری (50۔124ھ) زبردست ثقہ امام، حافظ، اور فقیہ تھے۔ زہری نے کئی صحابہ کرام اور کئی کبار تابعین سے روایات لی ہیں آپ کی روایات تمام کتبِ صحاح، سنن، مسانید، معاجم، مستدرکات، مستخرجات، جوامع، تواریخ اور ہر قسم کی کتب حدیث میں شامل ہیں آپ کی جلالت اور اتقان پر امت کا اتفاق ہےامام زہری کا شمار ان جلیل القدر آئمہ حدیث میں ہوتا ہے جو علمِ حدیث میں ’’جبل العلم‘‘ کامقام رکھتے ہیں ۔اسی لیے آپ علم حدیث میں ایک فردکی حیثیت سے نہیں بلکہ علم حدیث کا دائرۃ المعارف کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔علمائے جرح وتعدیل اسماء الرجال اور فنون حدیث میں نابغہ روز گار شخصیات آپ کی امامت وجلالت ،ثقاہت وعدالت پر متفق ہیں۔ حقیقت یہ کہ آپ ہی کی محنت شاقہ کی بدولت آج ہم احادیث نبویہ سے اپنے قلوب کوگرمائے ہوئے ہیں وگرنہ بقول اما م لیث بن سعد اگر ابن شہاب زہری نہ ہوتے تو بہت سی احادیثِ نبویہ ضائع ہو جاتیں ۔لیکن بعض جاہل منکرین حدیث نے اما...
امام احمد بن حنبل( 164ھ -241) بغداد میں پیدا ہوئے ۔ آپ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 179ھ میں علم حدیث کے حصول میں مشغول ہوئے جبکہ اُن کی عمر محض 15 سال تھی۔ 183ھ میں کوفہ کا سفر اختیار کیا اور اپنے استاد ہثیم کی وفات تک وہاں مقیم رہے، اِس کے بعد دیگر شہروں اور ملکوں میں علم حدیث کے حصول کی خاطر سفر کرتے رہے۔ امام احمد جس درجہ کے محدث تھے اسی درجہ کے فقیہ اورمجتہد بھی تھے۔ حنبلی مسلک کی نسبت امام صاحب ہی کی جانب ہے۔ اس مسلک کا اصل دار و مدار نقل و روایت اور احادیث و آثار پر ہے۔ آپ امام شافعی کے شاگرد ہیں۔ اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیث میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ مسئلہ خلق قرآن میں خلیفہ معتصم کی رائے سے اختلاف کی پاداش میں آپ نے کوڑے کھائے لیکن غلط بات کی طرف رجوع نہ کیا۔ آپ کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتے لیکن غلط بات کی تصدیق سے انکار کر دیتے۔ انہوں نے حق کی پاداش میں جس طرح صعوبتیں اٹھائیں اُس کی بنا پر اتنی ہردلعزیزی پائی کہ وہ لوگوں کے دلوں کے حکمران بن گئے۔ آپ کی عمر کا ایک طویل حصہ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں بسر ہوا۔ پاؤں میں بیڑیاں پڑی رہتیں،...
مولانا ابو الکلام11نومبر 1888ء کو پیدا ہوئے اور 22 فروری 1958ء کو وفات پائی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔آپ کے والد بزرگوارمحمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا۔ سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں گزرا ۔ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہرمصر چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ۔ مولانا ایک نادر روزگار شخصیت تھے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ذات میں ایسے اوصاف ومحاسن جمع کردیے تھےکہ انہوں نے زندگی کے ہر...