پروفیسر حمید احمد خاں پاکستان کی ایک جامع الحیثیت شخصیت تھے۔ ان کے انتقال کے چند ہی ہفتے بعد ’مجلس یادگارِ حمید احمد خاں‘ کا قیام عمل میں آیا۔اس مجلس میں یہ طے پایا کہ پروفیسر حمید احمد خاں کے کارناموں اور ان کے ذوق وشوق کے معیارکو زندہ رکھنے کے لیے ایک ایسی کتاب ترتیب دی جائےجس میں مرحوم کے مرغوب اور پسندیدہ موضوعات پر معروف اہلِ علم اور اہلِ ادب کے مقالات شامل ہوں۔ پروفیسر صاحب کو جن موضوعات سے بطور خاص دلچسپی رہی وہ تھے اسلام، پاکستان، علامہ اقبال، مرزا غالب اور اردو ادب۔ پھر اس ضمن میں عطاء الحق قاسمی نے نہایت جانفشانی کے ساتھ اٹھارہ مقالات جمع کر لیے جو پشاور سے کراچی تک کے صائب الرائے اربابِ دانش نے تحریر فرمائے تھے۔ فہرست مندرجات پر ایک نظر ڈالنے ہی سے اس حقیقت کا اندازہ ہو جائے گا کہ یہ مقالات بیشتر ان شخصیات کی کاوشِ فکر کا نتیجہ ہیں جو پاکستان میں علم و ادب کی پہچان کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان مقالات میں قرآن مجید کے صوری اور معنوی محاسن، قتل مرتد اور پاکستان، سلطان محمود بکھری کی زندگی کا ایک پہلووغیرہ اور بعض انگریزی مقالات بھی شامل کتاب ہیں۔اس کتاب کو اسلام، پاکست...
ٹیپوسلطان برصغیرِ کا وہ اولین مجاہد آزادی اور شہید آزادی ہے جس نے آزادی کی پہلی شمع جلائی اور حریت ِفکر، آزادی وطن اور دینِ اسلام کی فوقیت و فضیلت کے لیے اپنی جان نچھاور کردی تھی، ٹیپوسلطان نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز قائم کیا اور پرچم آزادی کو ہمیشہ کے لیے بلند کیا تھا۔ ٹیپوسلطان 1750 میں بنگلور کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوا ۔ٹیپوسلطان کا نام جنوبی ہندوستان کے ایک مشہور بزرگ حضرت ٹیپو مستان کے نام پر رکھا گیا تھا، ٹیپوسلطان کے آباؤ اجداد کا تعلق مکہ معظمہ کے ایک معزز قبیلے قریش سے تھا جو کہ ٹیپوسلطان کی پیدائش سے اندازاً ایک صدی قبل ہجرت کرکے ہندوستان میں براستہ پنجاب، دہلی آکر آباد ہوگیا تھا۔ٹیپوسلطان کے والد نواب حیدر علی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے حامل شخص تھے جو ذاتی لیاقت کے بے مثال جواں مردی اور ماہرانہ حکمت عملی کے سبب ایک ادنیٰ افسر ’’نائیک‘‘ سے ترقی کرتے ہوئے ڈنڈیگل کے گورنر بنے اور بعد ازاں میسور کی سلطنت کے سلطان بن کر متعدد جنگی معرکوں کے بعد خود مختار بنے اور یوں 1762 میں باقاعدہ ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ (موجود...
مولانا ثناء اللہ امرتسری ہندوستان کے مشاہیر علماء میں سے تھے۔آپ خوش بیاں مقرر، متعدد تصانیف کے مصنف اور بے باک مناظر تھے۔مذہبا اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نے اپنی تعلیم ہندوستان کی دو عظیم درسگا ہوں دیوبند اور مدرسہ فیض عام سے حاصل کی۔آپ نے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلے قادیانیوں کے خلاف صف آرائی کی ۔ اللہ کے فضل سے طویل محنت سے اس میں کامیاب اور سرخرو ہوئے۔ مزید برآں آپ نے آریوں ، عیسائیوں کے خلاف بھی کا م کیا۔ ساتھ ساتھ آپ میدان سیاست میں بھی ایک حدتک قدم رنجہ ہوتے رہے۔ مولانا جماعت اہل حدیث کا غازہ ہیں۔ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صفات الٰہی میں آپ تاویل کے منہج کو اپنا بیٹھے تھے۔اللہ آپ کو جوار رحمت میں جگہ نصیب فرمائے۔زیرنظر کتاب مولانا کے سیرت و سوانح ان گونا گوں پہلوؤں کو واضح کرتی ہے۔(ع۔ح)
مولانا ابو الکلام11نومبر1888ء کو پیدا ہوئے اور 22 فروری1958ءکو وفات پائی۔مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔آپ کے والد بزرگوارمحمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا ۔سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا ۔ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہرمصر چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔آپ ایک سنی المسلک انس...
یہ کتاب عظیم مفکر اسلام مولانا ابو الحسن ندوی ؒ کی تصنیف ’روائع اقبال‘کا اردو قالب ہے ۔اس میں مولانا موصوف نے علامہ اقبال کی اہم نظمون اور متفرق اشعار سے اسلام کی بنیادی تعلیمات ،ان کی روح اور ملت اسلامیہ کی تجدید واصلاح،مغربی تہذیب اور اس کے علوم وغیرہ کے متعلق اقبال کے افکار وخیالات کا خلاصہ اور لب لباب پیش کر دیا ہے۔جس سے اس کے اہم رخ سامنے آجاتے ہیں ۔کتاب کے بعض مندرجات سے اختلاف ممکن ہے لیکن بحثیت مجموعی یہ انتہائی مفید کتاب ہے ۔مختصر ہونے کے باوصف یہ کتاب اقبال کے مقصد،پیام اور افکار وتصورات کو سمجھنے کے لیے بالکل کافی ہے ۔اقبال کو خاص طور پر ان کے دینی رجحان اور دعوتی میلان کی روشنی میں دیکھنے کو کوشش اب تک بہت کم ہوئی ہے ۔زیر نظر کتاب میں اقبال کے قلب وروح تک پہنچنے اور اس کی چند جھلکیاں دکھانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔(ط۔ا)
مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواسے رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں چند عظیم شخصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جس میں مصنف نے اپنے مسلک کی شخصیات کا تعارف کروانے کے ساتھ ساتھ اصحاب احناف کا بھی تذکرہ کیا ہے اور جن شخصیات کے بارے میں لکھا گیا ہے ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں مثلاً عادات واطوار‘ کردارو گفتار کو منقح کیا گیا ہے۔ اور اس میں شخصیات کا تعارف اور ان کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ۔ اس کتاب کے مطالعے سے عوام کم وقت میں زیادہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں ۔ اور حا...
برصغیر میں علومِ اسلامیہ،خدمت ِقرآن اور عقیدہ سلف کی نصرت واشاعت کےسلسلے میں نواب صدیق حسن خاں (1832۔1890ء) صدیق حسن خان قنوجی ؒ کی ذات والا صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ علامہ مفتی صدر الدین ، شیخ عبد الحق محدث بنارسی ، شیخ قاضی حسین بن محسن انصاری خزرجی ۔ شیخ یحیی بن محمد الحازمی ، قاضی عدن ، علامہ سید خیر الدین آلوسی زادہ جیسے اعلام اور اعیان سے کسب ِفیض کیا۔آپ کی مساعی جمیلہ روزِروشن کی طرح عیاں ہیں ۔ عربی ، فارسی ، اردو تینوں زبانوں میں دو سو سے زائد کتابیں تصنیف کیں او ردوسرے علماء کو بھی تصنیف وتالیف کی طرف متوجہ کیا،ان کے لیے خصوصی وظائف کا بندوبست کیا او راسلامی علوم وفنون کے اصل مصادر ومآخذ کی از سرنو طباعت واشاعت کاوسیع اہتمام کیا۔نواب محمدصدیق حسن خان نے علوم ِاسلامیہ کے تقریبا تمام گوشوں سے متعلق مستقل تالیفات رقم کی ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا دینی وعلمی موضوع ہو جس پر نواب صاحب نے کوئی مستقبل رسالہ یا کتاب نہ لکھی ہو۔حدیث پاک کی ترویج کا ایک انوکھا طریقہ یہ اختیار فرمایا کہ کتب ِاحادیث کے حفظ کا اعلان کیا۔ اوراس پرمعقول انعام مقرر کیا۔ چ...
خطیبِ پاکستا ن مولانا محمد حسین شیخوپوری 1918ء ميں اس دنيا ميں تشريف لايا اور تقريباً پینسٹھ سال تك مختلف گلستانوں ميں چہچہاتا رہا اور وما جعلنا لبشر من قبلك الخُلد كے ازلى قانون كے تحت 6؍اگست 2005ء ميں ہميشہ كے لئے خاموش ہوگيا۔ آپ كو اللہ تبارك و تعالىٰ نے لحنِ داوٴدى عطا فرمايا تها اور جب آپ اپنى رسیلى اور سُريلى آواز سے قرآن كى آيات اور حضرت رسالت مآب كى مدح ميں اشعار پڑهتے تو لاكهوں سامعين وجد ميں آكر جهومنے لگتے۔ آپ نے كراچى تا خيبر چاروں صوبوں ميں لاتعداد جلسوں سے خطاب كيا، آپ كى زبان ميں الله تبارك و تعالىٰ نے بلا كى تاثير ركهى تهى۔جس جلسہ ميں آپ كا خطاب ہوتا اسے سننے كے لئے ديہاتوں كے گنوار اور شہروں كے متمدن لوگ يكساں طور پر كشاں كشاں چلے آتے۔ عموماً آپ كا وعظ رات ڈيڑھ دو بجے شروع ہوتا اور اذانِ فجر تك جارى رہتا۔ سامعين آپ كے وعظ كو يوں خاموش ہوكر سنتے جيسے ان كے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور اُنہيں يوں معلوم ہوتا تها كہ وحى الٰہى اب ہى نازل ہورہى ہے۔ بڑے سے بڑے مذہبى مخالف اپنے نرم و گرم بستروں كو چهوڑ كر آپ كى مجلسِ وعظ ميں آبیٹھتے تهے۔آپ ن...
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی۔جس کی بنیادظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔مغلیہ سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام تھا۔ تاہم اکبراعظم کے دور میں کچھ عرصے تک اکبر کا ایجاد کردہ مذہب (دین الٰہی) رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن اس کا عوام پر کوئی اثر نہ پڑا اور وہ بہت جلد ہی ختم ہوگیا۔ باقی تمام شہنشاہوں کے دور میں اسلام ہی سرکاری مذہب تھا اور مغل شہنشاہان اسلام کے بہت پابند ہوا کرتے تھے۔ان میں اورنگزیب عالمگیر زیادہ شہرت رکھتے تھے۔ باقی شہنشاہ بھی اسلام کی پیروی کے لحاظ سے جانے جاتے ہے۔انہوں نے نہ صرف اسلامی قوانین رائج کیے اور اسلامی حکومت کو برصغیر کے کونے کونے میں پھیلانے کی بھرپور کوشش کی۔مغلوں میں جانشینی کا کوئی قانون نہیں تھا ایک بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں اور رش...
ٹیپوسلطان برصغیرِ کا وہ اولین مجاہد آزادی اور شہید آزادی ہے جس نے آزادی کی پہلی شمع جلائی اور حریت ِفکر، آزادی وطن اور دینِ اسلام کی فوقیت و فضیلت کے لیے اپنی جان نچھاور کردی تھی، ٹیپوسلطان نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز قائم کیا اور پرچم آزادی کو ہمیشہ کے لیے بلند کیا تھا۔ ٹیپوسلطان 1750 میں بنگلور کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوا ۔ٹیپوسلطان کا نام جنوبی ہندوستان کے ایک مشہور بزرگ حضرت ٹیپو مستان کے نام پر رکھا گیا تھا، ٹیپوسلطان کے آباؤ اجداد کا تعلق مکہ معظمہ کے ایک معزز قبیلے قریش سے تھا جو کہ ٹیپوسلطان کی پیدائش سے اندازاً ایک صدی قبل ہجرت کرکے ہندوستان میں براستہ پنجاب، دہلی آکر آباد ہوگیا تھا۔ٹیپوسلطان کے والد نواب حیدر علی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے حامل شخص تھے جو ذاتی لیاقت کے بے مثال جواں مردی اور ماہرانہ حکمت عملی کے سبب ایک ادنیٰ افسر ’’نائیک‘‘ سے ترقی کرتے ہوئے ڈنڈیگل کے گورنر بنے اور بعد ازاں میسور کی سلطنت کے سلطان بن کر متعدد جنگی معرکوں کے بعد خود مختار بنے اور یوں 1762 میں باقاعدہ ’’سلطنت خداداد...
دور جدید میں نئی نسل کی تاریخ اسلام میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے وہ اسلام کے تاریخی واقعات پر مبنی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے بوریت محسوس کرتے ہیں حالانکہ ہر دور میں نئی نسل کے لیے بہادری کی ان داستانوں کا پڑھنا نہایت ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ ان عظیم لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں اور آنے والے دنوں کے لیے تاریخ میں اپنا اور اپنے ملک کا نام رقم کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ایسے بے شمار سپہ سالاروں سے نوازا جنھوں نے مختلف مواقع پر مسلمانوں کی بہت بڑی بڑی فتوحات سے ہمکنار کیا۔ زیر تبصرہ کتاب میں عبدالصمد مظفر نے ان میں سے 5 سپہ سالاروں کا انتخاب کیا ہے۔ جن میں خالد بن ولید ؓ، محمد بن قاسم، طارق بن یزید، یوسف بن تاشفین اور امیر تیمور کے نام شامل ہیں۔ اسلامی لشکر کے یہ جانباز سپہ سالار میدانِ جنگ میں دشمن کے لیے موت اور اپنوں کے لیےامن و راحت کے پیامبر تھے۔ اسلام کے ان عظیم سپہ سالاروں نے اپنی منزل کا تعین کرتے ہوئے جب بھی قدم بڑھائے تو رفعت و عظمت کے پھول ان کے استقبال کے لیے بکھرتے چلے گئے۔ ان عظیم سپہ سالاروں کی زندگی کے حالات و واقعات کے مطالعے سے قارئ...
آغا شورش کاشمیری پاکستان کےمشہور و معروف شاعر،صحافی، سیاستدان اوربلند پایہ خطیب تھے۔آغا شورش کاشمیری 14 اگست 1917ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام عبدالکریم تھا، لیکن آغا شورش کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ آپکی سیاسی علمی ادبی تربیت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ گھر میں ’’زمیندار‘‘ اخبار آتا اور مسجد شہید گنج کی تحریک نصف نہار پر تھی عبدالکریم اسکول سے فارغ ہوئے تو تحریک شہید گنج کا رخ کیا اور مولانا ظفر علی خان سے قربت میسر آ گئی۔ عبدالکریم پہلے ہی جوش و جذبہ کا سیل رواں تھے، بغاوت و آزادی کا ہدی خواں تھے، شمشیر برہاں تھے، آپ تخلص الفت کرتے اور زمانے میں شورش برپا کر رکھی تھی لہٰذا حسب مزاج الفت کو شورش کا نام دینا مناسب جانا بس مولانا ظفر علی خان تھے۔ تحریک شہید گنج تھی اور شورش کا جذبہ تھا کچھ کر گزرنے کا جنوں تھا۔ مولانا ظفر علی خان کی سیاست، صحافت، خ...
مولانا محمد ادریس ہاشمی جماعت غرباء اہل حدیث کا عظیم سرمایہ تھے انہوں نے تمام عمر جماعت کے ساتھ بے لوث وابستگی قائم رکھی اور تن من دھن سے جماعت کا کام کر کے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔اوائل عمرمیں ہی انہوں نے جماعت کے لیے کام کا آغاز کیا ۔سکول کی سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دوردراز علاقوں اور شہر وں میں دعوت وتبلیغ کا کاجاری رکھا اور مساجد ومدارس کی تعمیر وترقی میں رات دن مصروف ر ہے ۔زیر نظرکتاب میں مولانا محمد رمضان سلفی ﷾ نے ہاشمی صاحب مرحوم کی زندگی اور جماعتی خدمات کے گوشوں کو بڑی عمدگی سے اجاگر کردیا ہے اللہ مولانا ہاشمی مرحوم کے درجات بلند فرمائے او ر مولانا محمد رمضان یوسف سلفی کو صحت وسلامتی والی لمبی عمر عطاء فرمائے اور ان کا رواں قلم اسلاف کےحالات وواقعات پر سلامت روی سے چلتا رہے (آمین) (م۔ا)
مولانا محمد رمصان یوسف سلفی ﷾ علمی ،دینی اور تعلیمی حلقوں میں مختاج تعارف نہیں ہیں جماعت اہل حدیث پاکستان کےمعروف مقالہ نگار اور مصنف ہیں۔ان کی تصانیف پر ان کوایوارڈ دیئے جاتے ہیں اورعلمی ادبی حلقوں میں ان کو بہت پذیرائی حاصل ہے ۔ ان کے مضامین ومقالات مختلف موضوعات پر ملک کے مؤقر رسائل وجرائد میں شائع ہوتے ہیں رہتے ہیں سلفی صاحب کتاب ہذا کے علاوہ تقریبا 8 کتب کے مصنف ہیں ۔اللہ تعالی ان کے زورِ قلم میں مزید اضافہ فرمائے اور ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے(آمین) ۔ زیر نظر کتاب اللہ کے چار ولی ''مولانا سلفی کی تصنیف ہے جوکہ جماعت غرباء اہل حدیث کے بانی او رامام اول مولانا عبد الوہاب صدری دہلوی ،امام ثانی مولانا عبد الستار دہلوی ،امام ثالث مولانا عبد الغفار سلفی اور مولانا عبد الجلیل خان جھنگوی کے حالات پر مشتمل ہے (م۔ا)
انسان کی طبیعت اور اس کا مزاج ہے کہ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے،اور اس کا یہ طرز عمل زندگی کے تمام معاملات میں ہوتا ہے۔اسی طرح اس کے دین کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملے میں بھی خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہےاور پھر دین اسلام سے بھلا اور کونسا دین خوب تر ہوگا۔ تو بہر کیف کسی مسلمان کا مقلد بب جانا ایک ایسی سائیکل پر سوار ہونے کے مترادف ہے کہ جس کے پہیے تو گھومتے ہیں مگر وہ ایک جگہ پر ہی کھڑی رہتی ہے،جس سے ورزش کاکام تو لیا جا سکتا ہے مگر سفر طے نہیں کیا جاسکتا ہے۔لہذا تقلید کو اختیار کرنا انسان کے فطری مزاج اور طبیعت کے خلاف ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں غیر مسلم ملت اسلامیہ سے ہر میدان میں پیش پیش نظر آ رہے ہیں۔کاش کی ہم بھی دل کی آنکھیں کھول لیتے اور کتاب وسنت سے حقیقی راہنمائی حاصل کر کے ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتے۔ زیر تبصرہ کتاب"چار امام اور عقیدہ امام ابو حنیفہ"محترم مولانا سید معراج ربانی صاحب کی تقریر کی روشنی میں تیار کردہ ایک کتابچہ ہے، جسے سمیع اللہ انعامی فیضی صاحب نے مرتب کیاہے۔ اس کتاب میں انہوں نے دلائل سے یہ ثابت...
برصغیر پاک وہند میں اہل حدیث علما کی خدمات حدیث تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔حدیث وسنت کی نشرواشاعت کے علاوہ دعوت وتبلیغ اور تصنیف وتالیف کے میدانوں میں بھی کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں حدیث کی تدریس ،نشرواشاعت اور حدیث ومحدثین کے دفاع کا جو کام بھی ہو رہا ہے اس کا آغاز علمائے اہل حدیث ہی نے کیا تھا۔زیر نظر کتاب جناب عبدالرشید عراقی کی ہے،جنہوں نے چالیس اہل حدیث علما کی حیات وخدمات حدیث کو اجاگر کیا ہے۔یہ تمام علما اصحاب تدریس بھی تھے اور اس کے ساتھ صاحب تصنیف بھی،ہر صاحب تذکرہ کی تمام کتابوں کی فہرست بھی شامل کتاب ہے۔ان میں سے چند اہم کتابوں کا تعارف بھی کرا دیا گیاہے۔یہ کتاب علمائے اہل حدیث کی جہود ومساعی کو بہت خوبصورتی سے نمایاں کرتی ہے۔اس کے مطالعہ سے علما کی قدرومنزلت سے آگاہی ہوگی اور ان کی سیرتوں کو اپنانے کا جذبہ بیدار ہو گا۔(ط۔ا)
مولانا محمد اسحاق بھٹی ﷾ کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں آپ برصغیر پا ک وہند کے اہل علم طبقہ میں او رخصوصا جماعت اہل میں ایک معروف شخصیت ہیں آپ صحافی ،مقرر، دانش ور وادیب ،یاسات حاضرہ سے پوری طرح باخبر اور وسیع المطالعہ شخصیت ہیں عہد حاضر کے ممتاز اہل قلم میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔ تاریخ وسیر و سوانح ان کا پسندیدہ موضوع ہے او ر ان کا یہ بڑا کارنامہ ہے کے انہوں نے برصغیر کے جلیل القدر علمائے اہل حدیث کے حالاتِ زندگی او ر ان کےعلمی وادبی کارناموں کو کتابوں میں محفوظ کردیا ہے مولانا محمداسحاق بھٹی ﷾ تاریخ وسیر کے ساتھ ساتھ مسائل فقہ میں بھی نظر رکھتے ہیں مولانا صاحب نے تقریبا 30 سے زائدکتب تصنیف کیں ہیں جن میں سے 26 کتابیں سیر واسوانح سے تعلق رکھتی ہیں مولانا تصنیف وتالیف کےساتھ ساتھ 15 سال ہفت روزہ الاعصتام کے ایڈیٹر بھی رہے الاعتصام میں ان کےاداریے،شذرات،مضامین ومقالات ان کے انداز ِفکر او روسیع معلومات کے آئینہ دار ہیں الاعتصام نے علمی وادبی دنیا میں جو مقام حاصل کیا ہے اس کی ایک وجہ محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی ﷾ کی انتھک مساعی اور کوششیں ہیں ۔برصغیر پاک وہند ک...
تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے ۔ اس کےلیے امانت ودیانت او رصداقت کاہونا از بس ضروری ہے۔مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ تعصب ،حسد بغض، سے کوسوں دور ہو ۔تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہو ۔ذہین وفطین ہو اپنے حافظےپر کامل اعتماد رکھتا ہو۔حالات وواقعات کوحوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو ۔اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتاہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگار ی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔انسان انسان سے سیکھتا ہےاور اپنی زندگی کےلیے پیش رو کی زندگیوں سے فیض حاصل کرتا ہےاس لیے ہمیں اپنے اسلاف کے طور طریق کوجاننا چاہیے اور ان میں جو ہماری زندگی سنوارنے اور بنانے کے لیے مفید ہوں اس کواپنی زندگی کےلیے رہنما بناناچاہیے ۔بے شمارمسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کےعلمی عملی،تصنیفی،تبلیغی اورسائنسی کارناموں کوبڑی ع...
مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواسے رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص ڈاکٹر عبد القدیر خان کے حوالے سے ہی تصنیف کی گئی ہے کیونکہ وہ ملت اسلامیہ کی آنکھ کا تارا اور ہر مسلم کو اپنی جان سے پیارا ہے۔ پاکستانی قوم کی عظمت وغیرت جیتی جاگتی تصویر اور شاعر مشرق کے خواب کی تعبیر ہے۔ دشمنوں کے لیے سیل تند وتیز اور اپنوں کے لیے ایک جوئے نغمہ ریز ہے۔اس کتاب میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کے عظیم کارناموں اور ان کی سوانح حیات کا تذکرہ ہے اور عوام کو یہ سبق یاد...
ڈاکٹر حمید اللہ )9فروری 1908ء- 17 دسمبر 2002ء) ایک بلند پایا عالم دین ، مایہ ناز محقق، دانشور اور مصنف تھے جن کے قلم سے علوم قرآنیہ ، سیرت نبویہ اور فقہ اسلام پر 195 وقیع کتابیں اور 937 کے قریب مقالات نکلے ۔ڈاکٹر صاحب قانون دان اور اسلامی دانشور تھے اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ تاریخ ،حدیث پر اعلٰی تحقیق، فرانسیسی میں ترجمہ قرآن اور مغرب کے قلب میں ترویج اسلام کا اہم فریضہ نبھانے پر آپ کو عالمگیر شہرت ملی۔ آپ جامعہ عثمانیہ سے ایم۔اے، ایل ایل۔بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے یورپ پہنچے۔ بون یونیورسٹی (جرمنی) سے ڈی فل اور سوربون یونیورسٹی (پیرس)سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ ڈاکٹر صاحب کچھ عرصے تک جامعہ عثمانیہ حیدر آباد میں پروفیسررہے۔ یورپ جانے کے بعد جرمنی اور فرانس کی یونیورسٹیوں میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ فرانس کے نیشنل سنٹر آف سائینٹیفک ریسرچ سے تقریباً بیس سال تک وابستہ رہے۔ علاوہ ازیں یورپ اور...
ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ مرحوم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ایک معروف عالم، مبلغ اور مفسر قرآن کی حیثیت سےشہرت رکھتے تھے۔ موصوف مدینہ یونیورسٹی،مدینہ منورہ کے فاضل اور وہیں مدرس کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیتے رہے ۔علاوہ ازیں انہوں نے ایک عرصہ تک لاہور میں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور ریڈیو ، ٹی وی سمیت مختلف فورموں پر اسلامی تعلیمات کے روشنی میں خطبات اور تقاریر کے ذریعے دلوں کو سیراب کرتے رہے ہیں۔فہم قرآن کےسلسلے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔تقریباً 18 ؍سال قبل 7؍مئی 2002ء کو علامہ اقبال،ٹاؤن،لاہور میں انہیں شہید کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے ۔ڈاکٹر مرحوم کی حیات وخدمات کے متعلق کئی رسائل وجرائد اور اخبارات میں مختلف قلم کاروں کے مضامین شائع ہوئے اور مستقل کتابیں بھی لکھی گئیں۔جن میں سے ایک کتاب ڈاکٹر محمد اسلم خا ن نے ’’ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ۔۔۔ احوال و آثار‘‘ کے عنوان سے لکھی اس کتاب میں ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک کی ز...
احادیث کی جانچ پڑتال اور ترتیب دینے والے عالم کو محدث کہا جاتا ہے۔ محدثین کی تعداد تو بلا مبالغہ لاکھوں میں ہے لیکن ان میں سے بعض حضرات ایسے ہیں جنہوں نے اس فن میں اہم ترین کارنامے سر انجام دیے ہیں۔لاکھوں محدثین عظام کے سوانح ؍تذکرے اسماء الرجال کی کتب میں موجود ہیں جو کہ زیادہ عربی زبان میں ہیں ۔بعض اہل قلم نے اسماء الرجال کی امہات الکتب سے استفادہ کے منتخب محدثین کے سوانح کو اردو زبان میں قلمبند کیا ہے۔ معروف مؤرخ وسوانح نگار مولانا عبد الرشید عراقی حفظہ اللہ کی زیر نظر کتاب’’ کاروان حدیث ‘‘بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مولانا عراقی صاحب نےاس کتاب میں بیالیس (42) نامور محدثین عظام کے حالات او ران کی علمی خدمات کا تذکرہ پیش کیا ہے ۔شروع میں ایک جامع علمی مقدمہ بھی لکھا ہے جس میں حجیت حدیث، تدوین حدیث، اور کتابت حدیث پر مختصر روشنی ڈالی ہے ۔نیز ستاون(57) جامعین حدیث کی فہرست دی ہےجنہوں نے احادیث کےمجموعے مرتب فرمائے ہیں ۔اللہ تعالیٰ عراقی صاحب کو ایمان وسلامتی اور صحت وتندرستی والی زندگی دے اور ان کی تحقیقی وتصنیفی جہود ک...
ڈاکٹر لقمان سلفی ﷾ 1943ءکو بھارت میں پیدا ہوئے او ردار العلوم احمد سلفیہ دربھگنہ ،بہار میں دینی تعلیم حاصل کی اس دوران ہی آپ کا داخلہ مدینہ یونیورسٹی میں ہوگیا تو باقی تعلیم آپ نے مدینہ یونیورسٹی میں حاصل کی۔ مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرکے آپ مفتی دیار سعودیہ فضیلۃ الشیخ ابن باز کے سیکرٹری کے طور پر کام کرتے رہے ۔بلکہ ان کے معتمد خاص بنے۔ علماء کرام عموماً ان کی وساطت سے شیخ مرحوم سے رابطہ کیاکرتے تھے۔ شیخ بن باز کی خصوصی سفارش بلکہ حکم پر انہیں سعودی شہریت دی گئی اب ماشاء اللہ ان کے بیٹے بھی ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں ۔ماشاء اللہ بڑی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں ۔ شیخ لقمان صاحب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ منہج اسلاف اہل الحدیث کے بہت بڑے وکیل ہیں۔موصوف نے عربی اردو زبان میں کئی کتب تصنیف کیں ۔تفسیر ’’تیسیر الرحمن لبیان القرآن ‘‘آپ ہی کی تصنیف ہے۔اور آپ سرزمینِ ہند کے عظیم ادارہ جامعہ امام ابن تیمیہ، مدینۃالسلام، بہار کے مؤسس و رئیس بھی ہیں۔31؍ جنور...
سیدابو الحسن علی حسنی ندوی 24 مشہور بہ علی میاں ؍نومبر 1914ء کو رائے بریلی،بھارت میں ایک علمی خاندان میں پیدہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن تکیہ، رائے بریلی میں حاصل کی۔ علی میاں نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لکھنؤ میں واقع اسلامی درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا۔اور وہاں سے علوم اسلامی میں سند فضیلت حاصل کی ۔ علی میاں نے عربی اور اردو میں پچاس سے زائد متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ یہ تصانیف تاریخ، الہیات، سوانح موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سمیناوروں میں پیش کردہ ہزاروں مضامین مقالات اورتقاریر بھی موجود ہیں۔علی میاں کی ایک انتہائی مشہور عربی تصنیف’’ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين ‘‘ہے جس کے متعدد زبانوں میں تراجم ہوئے، اردو میں ا س کا ترجمہ’’ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔آپ کی تصانیف میں ایک ضخیم تصنیف ’’ تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ ہے جو کہ آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ موصوف بھر پورعلمی زندگی گزار کر 31؍1999ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے...
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ ، تفسیر قرآن کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیا ۔علمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺاور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔پنجاب میں تدریسی خدمت کے سلسلہ میں استاد پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان محدث و زیر آبادی (م1334ھ) کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔مولانا حافط عبدالمنان حضرت شیخ الکل کے نامورتلامذہ میں سے تھے اور فنّ حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ صحاح ستہ پڑھائی۔ آپ کے تلامذہ میں ملک کے ممتاز علمائے کرام کا نام آتاہے اورجن کی اپنی خدمات بھی اپنے اپنے وقت میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:’’علمائے...