مولانا محمدعلی جوہر (1878ء ۔1931ء)نے ریاست اترپردیش کے ضلع رامپور میں مولانا عبدالعلی کے گھر میں اپنی آنکھیں کھولیں۔مولانا محمدعلی جوہر کے والد محترم مولانا عبدالعلی بھی ایک عظیم مجاہد آزادی تھے۔ اور انگریزوں کے خلاف ہمیشہ سربکف رہے۔مولانا محمد علی جوہرنے اپنی تحریروں اور تقریروں سے ہندوستانیوں کے رگوں میں حریت کا جذبہ اس قدر سرایت کر دیا تھا کہ ہر آن کی تحریروں سے ہر کوئی باشعور ومحب وطن ہندوستانی انگریزوں کے خلاف لازماً سر بکف نظر آتا تھا۔مولانا نے کبھی بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ آزادیٔ ہند کے لئے کوشاں رہے آپ تحریک خلافت کے روح رواں اور عظیم مجاہدِ آزادی ۔مولانا محمد علی جوہر کا بچپن نہایت کسمپرسی میں گزرا۔بچپن میں ہی ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔والدین کا سایہ سر پرنہ ہونے کے باوجودآپ نے دینی ودنیوی تعلیم حاصل کی ۔آپ نے الہٰ آباد یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا اس کے بعد1898ءمیں آکسفورڈیونیورسٹی کے ایک کالج میں ماڈرن تعلیم کی غرض سے داخلہ لیا اور وہاں پر اپنے مذہبی تشخص کو من وعن برقرار رکھتے ہوئے دنیاوی تعلیم حاص...
شیخ الحدیث مولانا ابوانس محمد یحییٰ گوندلوی ؒ علیہ جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین ، بلندپایہ محقق، منجھے ہوئے مدرس ، حاضر جواب مناظر ، لائق مصنف و مترجم اور شارح اور سلجھے ہوئے خطیب تھے ۔ انہوں نے درس و تدریس ، تصنیف و تالیف ، وعظ و تقریر اور مناظروں اور مباحثوں سے دین اسلام کی صحیح تعلیم کو اجاگر کیا اور بے پناہ خدمات سرانجام دیں ۔ وہ سادی وضع کے عظیم المرتبت عالم دین تھے ۔ حدیث رسولﷺ کو پڑھنا پڑھانا زندگی بھر ان کا مقصد حیات رہا۔ زیرنظر کتا ب ان کی حیات و خدمات پر مشتمل ہے ۔ جسے جماعت اہل حدیث کے معروف قلم کار عبدالرشید عراقی نے رقم کیا ہے اور اسے چھ (6) ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ پہلے باب میں ان کے حالات زندگی ، تعلیم ، تدریس اور ان کے اخلاق و عادات پر روشنی ڈالی گئی ہے ، دوسرے باب میں مولانا گوندلوی کے اساتذہ کا تذکرہ ہے ۔ تیسرے باب میں ان بیس تصانیف کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے چوتھا باب ان کے فتاوی کے متعلق ہے پانچویں باب میں مولانا گوندلوی نے دوسرے مصنفین کی تصانیف پر جو مقدمات و تقریضات اور تعارف لکھا ان کا ذکر ہے ۔ آخر باب میں مولانا گوندلوی کاعلم مناظرہ میں جو...
مولانا مسعود عالم ندوی 11 فروری 1910ء کو صوبہ بہار کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔آپ کاخاندان پورے علاقے میں زہد وتقویٰ اور دینداری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔آپ کے خاندان کے اکثر بزرگوں کاشمار اپنے زمانے کےبڑے جید علماء دین میں ہوتا تھا۔آپ کےوالد گرامی مولانا سید عبدالفتح صوبہ بہار کے چند بلند پایہ اور جید علماء میں ایک معروف شخصیت تھے ۔ مولانا مسعود عالم نےابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی کی زیر نگرانی میں حاصل کی میٹر ک کرنے کےبعد مدرسہ غزنویہ میں داخل ہوگے جہاں آپ کی تمام توجہ دینی علوم وفنون کی جانب مرکوز ہوگئی ہے۔ اس مدرسے میں آپ نےبڑی محنت اور لگن سے تعلیم حاصل کی ۔اسی زمانہ میں آپ کو عربی زبان و ادب سے لگاؤ پیدا ہوا۔دوران تعلیم ہی آپ عربی رسائل وجرائد کی تلاش میں رہنے لگے اور ان کو بڑے شوق سے پڑھتے اوران کو سمجھنے کی کوشش کرتے ۔مولانا مسعود عالم ندوی اپنے وقت میں عربی کےنامور ادیب تھے۔مولانا کی ادبی خدمات کے اعتراف میں سعودی عرب میں ایک سڑک کانام &rsqu...
مولانا وحید الدین خان یکم جنوری 1925ءکو پید ا ہوئے۔ اُنہوں نے اِبتدائی تعلیم مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ میں حاصل کی ۔شروع شروع میں مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر 1949ء میں جماعت اسلامی ہند میں شامل ہوگئے، لیکن 15 سال بعد جماعت اسلامی کوخیر باد کہہ دیا اورتبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی ۔ 1975ء میں اسے بھی مکمل طور پر چھوڑ دیا ۔مولانا وحید الدین خان تقریبا دو صد کتب کے مصنف ہیں جو اُردو ،عربی، اورانگریزی زبان میں ہیں۔ اُن کی تحریروں میں مکالمہ بین المذاہب ،اَمن کابہت زیادہ ذکر ملتاہے اوراس میں وعظ وتذکیر کاپہلو بھی نمایاں طور پر موجود ہوتاہے ۔لیکن مولانا صاحب کے افکار ونظریات میں تجدد پسندی کی طرف میلانات اور رجحانات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ اُنہوں نے دین کے بنیادی تصورات کی از سر نو ایسی تعبیر وتشریح پیش کی ہے، جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کی۔وہ نہ صرف اس بات کو تسلیم کرتے ہیں، بلکہ اپنے لیے اس میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں ۔زیر تبصر...
شیخ الکل فی الکل شمس العلما، استاذالاساتذہ سید میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی حسینی حسنی بہاروی ہندی(۱) برصغیر پاک وہند کی عظیم المرتبت شخصیت ہی نہیں بلکہ اپنے دور میں شیخ العرب و العجم، نابغہ روز گار فردِ وحید تھے۔ آپ کی حیات و خدمات کا احاطہ ایک مضمون میں ناممکن ہے۔ بلاشک و شبہ اب تک عظیم اہل قلم نے اپنی تحریروں میں حضرت محدث دہلوی کی حیات وصفات کے کئی پنہاں گوشے نمایاں کئے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں بھی خدماتِ حدیث کی تاریخ میں جھانکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاریخ کے دامن میں کتنی جلیل القدر شخصیات ہیں جو اپنی ذات میں انجمن تھیں، انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں گرانقدر خدمات انجام دیں جو ہماری تاریخ کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ بالخصوص خدمت ِحدیث کے حوالہ سے برصغیر پاک و ہند کے عظیم مجتہد، امام وفقیہ، مفسر ومحدث سید میاں محمد نذیر حسین حسنی حسینی ہندی بہاروی دہلوی جن کا سلسلہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’میاں نذیر حسین محدث دہلوی چند الزامات کا تحقیقی جائزہ‘‘مولانا رفیع احمد مدنی کی ہے۔جس میں میاں صاحب سے متعلق چند گھن...
اس کتاب کے مصنف جمیل زینو شام کے شہر حلب میں پیداہوئے اور وہیں پلے بڑھے آپ کا تعلق صوفیت کے متعدد طریقوں کے ساتھ رہا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو توحید کی سیدھی راہ نصیب فرمائی۔ زیر نظر کتاب میں محترم جمیل زینو نے اپنے ہدایت کی جانب سفر کو کسی لگی لپٹی کے بغیر بیان کردیا ہے۔ مصنف کے بقول یہ داستان رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شاید پڑھنے والے کو اس میں نصیحت اور سبق مل جائے کہ جو اس کے لیے باطل سے حق کی پہچان کرنےمیں ممدو معاون ثابت ہو۔ شیخ صاحب نے اپنی داستان کو قرآن و سنت کے مضبوط اور قوی دلائل کے ساتھ بھی آراستہ کیاہے تاکہ پڑھنے والے کی ہرمسئلہ میں مکمل تشفی ہوتی چلی جائے۔ محترم ابن لعل دین نے مصنف کے مؤقف کو وضاحت سے بیان کرنے کے لیے فٹ
سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ محض غلط فہمی ہے۔دونوں کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے ،مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے،سائنس کے دائرہ کار میں یہ باتیں نہیں ہیں،نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان انسان کامل کہلانے کا مستحق ہے۔اسی لئے مذہب اور سائنس کا تصادم محض خیالی ہے۔مذہب کی بنیاد عقل وخرد،منطق وفلسفہ اور شہود پر نہیں ہوتی بلکہ ایمان بالغیب پر زیادہ ہوتی ہے۔اسلام نے علم کو کسی خاص گوشے میں محدود نہیں رکھا بلکہ تمام علوم کو سمیٹ کر یک قالب کر دیا ہےاور قرآن مجید میں قیامت تک منصہ شہود پر آنے والے تمام علوم کی بنیاد ڈالی ہے۔چنانچہ مسلمانوں نے تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل وتدبر سے کام لیا اور متعددسائنسی اکتشافات سامنے لائے ۔تاریخ میں ایسے بے شمار مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں،جنہوں نے بے شمار نئی نئی چیزیں ایجاد کیں اور دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کا نام روشن کیا۔ زیر تبصرہ کتاب" نامور مسلم سائنس دان " محترم حمید عسکری صاحب کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نے نامور مسلم سائنس دانوں کی...
شاید ہی دنیا کا کوئی علم ایسا ہو جسے مسلمانوں نے حاصل نہ کیا ہو۔ اسی طرح سائنس کے میدان میں بھی مسلمانوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جو رہتی دنیا تک قائم رہیں گے۔ گوکہ آج اہل یورپ کا دعویٰ ہے کہ سائنس کی تمام تر ترقی میں صرف ان کا حصہ ہے مگر اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تجرباتی سائنس کی بنیاد مسلمانوں نے ہی رکھی ہے اور اس کا اعتراف آج کی ترقی یافتہ دنیا نے بھی کیاہے۔ اس ضمن میں ایک انگریز مصنف اپنی کتاب ’’میکنگ آف ہیومینٹی‘‘ میں لکھتا ہے:’’مسلمان عربوں نے سائنس کے شعبہ میں جو کردار داا کیا وہ حیرت انگیز دریافتوں یا انقلابی نظریات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی ترقی یافتہ سائنس ان کی مرہون منت ہے‘‘۔علم ہیئت و فلکیات کے میدانوں میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علم الہیئت کو صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔اور مغرب کے دور جدید کی مشاہداتی فلکیات (Observational Astronomy) میں استعمال ہونے والا لفظ Almanac بھی عربی...
شاید ہی دنیا کا کوئی علم ایسا ہو جسے مسلمانوں نے حاصل نہ کیا ہو۔ اسی طرح سائنس کے میدان میں بھی مسلمانوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جو رہتی دنیا تک قائم رہیں گے۔ گوکہ آج اہل یورپ کا دعویٰ ہے کہ سائنس کی تمام تر ترقی میں صرف ان کا حصہ ہے مگر اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تجرباتی سائنس کی بنیاد مسلمانوں نے ہی رکھی ہے اور اس کا اعتراف آج کی ترقی یافتہ دنیا نے بھی کیاہے۔ اس ضمن میں ایک انگریز مصنف اپنی کتاب ’’میکنگ آف ہیومینٹی‘‘ میں لکھتا ہے:’’مسلمان عربوں نے سائنس کے شعبہ میں جو کردار داا کیا وہ حیرت انگیز دریافتوں یا انقلابی نظریات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی ترقی یافتہ سائنس ان کی مرہون منت ہے‘‘۔علم ہیئت و فلکیات کے میدانوں میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علم الہیئت کو صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔اور مغرب کے دور جدید کی مشاہداتی فلکیات (Observational Astronomy) میں استعمال ہونے والا لفظ Almanac بھی عربی...
پروفیسر حمید احمد خاں پاکستان کی ایک جامع الحیثیت شخصیت تھے۔ ان کے انتقال کے چند ہی ہفتے بعد ’مجلس یادگارِ حمید احمد خاں‘ کا قیام عمل میں آیا۔اس مجلس میں یہ طے پایا کہ پروفیسر حمید احمد خاں کے کارناموں اور ان کے ذوق وشوق کے معیارکو زندہ رکھنے کے لیے ایک ایسی کتاب ترتیب دی جائےجس میں مرحوم کے مرغوب اور پسندیدہ موضوعات پر معروف اہلِ علم اور اہلِ ادب کے مقالات شامل ہوں۔ پروفیسر صاحب کو جن موضوعات سے بطور خاص دلچسپی رہی وہ تھے اسلام، پاکستان، علامہ اقبال، مرزا غالب اور اردو ادب۔ پھر اس ضمن میں عطاء الحق قاسمی نے نہایت جانفشانی کے ساتھ اٹھارہ مقالات جمع کر لیے جو پشاور سے کراچی تک کے صائب الرائے اربابِ دانش نے تحریر فرمائے تھے۔ فہرست مندرجات پر ایک نظر ڈالنے ہی سے اس حقیقت کا اندازہ ہو جائے گا کہ یہ مقالات بیشتر ان شخصیات کی کاوشِ فکر کا نتیجہ ہیں جو پاکستان میں علم و ادب کی پہچان کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان مقالات میں قرآن مجید کے صوری اور معنوی محاسن، قتل مرتد اور پاکستان، سلطان محمود بکھری کی زندگی کا ایک پہلووغیرہ اور بعض انگریزی مقالات بھی شامل کتاب ہیں۔اس کتاب کو اسلام، پاکست...
ٹیپوسلطان برصغیرِ کا وہ اولین مجاہد آزادی اور شہید آزادی ہے جس نے آزادی کی پہلی شمع جلائی اور حریت ِفکر، آزادی وطن اور دینِ اسلام کی فوقیت و فضیلت کے لیے اپنی جان نچھاور کردی تھی، ٹیپوسلطان نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز قائم کیا اور پرچم آزادی کو ہمیشہ کے لیے بلند کیا تھا۔ ٹیپوسلطان 1750 میں بنگلور کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوا ۔ٹیپوسلطان کا نام جنوبی ہندوستان کے ایک مشہور بزرگ حضرت ٹیپو مستان کے نام پر رکھا گیا تھا، ٹیپوسلطان کے آباؤ اجداد کا تعلق مکہ معظمہ کے ایک معزز قبیلے قریش سے تھا جو کہ ٹیپوسلطان کی پیدائش سے اندازاً ایک صدی قبل ہجرت کرکے ہندوستان میں براستہ پنجاب، دہلی آکر آباد ہوگیا تھا۔ٹیپوسلطان کے والد نواب حیدر علی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے حامل شخص تھے جو ذاتی لیاقت کے بے مثال جواں مردی اور ماہرانہ حکمت عملی کے سبب ایک ادنیٰ افسر ’’نائیک‘‘ سے ترقی کرتے ہوئے ڈنڈیگل کے گورنر بنے اور بعد ازاں میسور کی سلطنت کے سلطان بن کر متعدد جنگی معرکوں کے بعد خود مختار بنے اور یوں 1762 میں باقاعدہ ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ (موجود...
مولانا ثناء اللہ امرتسری ہندوستان کے مشاہیر علماء میں سے تھے۔آپ خوش بیاں مقرر، متعدد تصانیف کے مصنف اور بے باک مناظر تھے۔مذہبا اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نے اپنی تعلیم ہندوستان کی دو عظیم درسگا ہوں دیوبند اور مدرسہ فیض عام سے حاصل کی۔آپ نے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلے قادیانیوں کے خلاف صف آرائی کی ۔ اللہ کے فضل سے طویل محنت سے اس میں کامیاب اور سرخرو ہوئے۔ مزید برآں آپ نے آریوں ، عیسائیوں کے خلاف بھی کا م کیا۔ ساتھ ساتھ آپ میدان سیاست میں بھی ایک حدتک قدم رنجہ ہوتے رہے۔ مولانا جماعت اہل حدیث کا غازہ ہیں۔ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صفات الٰہی میں آپ تاویل کے منہج کو اپنا بیٹھے تھے۔اللہ آپ کو جوار رحمت میں جگہ نصیب فرمائے۔زیرنظر کتاب مولانا کے سیرت و سوانح ان گونا گوں پہلوؤں کو واضح کرتی ہے۔(ع۔ح)
مولانا ابو الکلام11نومبر1888ء کو پیدا ہوئے اور 22 فروری1958ءکو وفات پائی۔مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔آپ کے والد بزرگوارمحمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا ۔سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا ۔ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہرمصر چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔آپ ایک سنی المسلک انس...
یہ کتاب عظیم مفکر اسلام مولانا ابو الحسن ندوی ؒ کی تصنیف ’روائع اقبال‘کا اردو قالب ہے ۔اس میں مولانا موصوف نے علامہ اقبال کی اہم نظمون اور متفرق اشعار سے اسلام کی بنیادی تعلیمات ،ان کی روح اور ملت اسلامیہ کی تجدید واصلاح،مغربی تہذیب اور اس کے علوم وغیرہ کے متعلق اقبال کے افکار وخیالات کا خلاصہ اور لب لباب پیش کر دیا ہے۔جس سے اس کے اہم رخ سامنے آجاتے ہیں ۔کتاب کے بعض مندرجات سے اختلاف ممکن ہے لیکن بحثیت مجموعی یہ انتہائی مفید کتاب ہے ۔مختصر ہونے کے باوصف یہ کتاب اقبال کے مقصد،پیام اور افکار وتصورات کو سمجھنے کے لیے بالکل کافی ہے ۔اقبال کو خاص طور پر ان کے دینی رجحان اور دعوتی میلان کی روشنی میں دیکھنے کو کوشش اب تک بہت کم ہوئی ہے ۔زیر نظر کتاب میں اقبال کے قلب وروح تک پہنچنے اور اس کی چند جھلکیاں دکھانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔(ط۔ا)
مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواسے رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں چند عظیم شخصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جس میں مصنف نے اپنے مسلک کی شخصیات کا تعارف کروانے کے ساتھ ساتھ اصحاب احناف کا بھی تذکرہ کیا ہے اور جن شخصیات کے بارے میں لکھا گیا ہے ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں مثلاً عادات واطوار‘ کردارو گفتار کو منقح کیا گیا ہے۔ اور اس میں شخصیات کا تعارف اور ان کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ۔ اس کتاب کے مطالعے سے عوام کم وقت میں زیادہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں ۔ اور حا...
برصغیر میں علومِ اسلامیہ،خدمت ِقرآن اور عقیدہ سلف کی نصرت واشاعت کےسلسلے میں نواب صدیق حسن خاں (1832۔1890ء) صدیق حسن خان قنوجی ؒ کی ذات والا صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ علامہ مفتی صدر الدین ، شیخ عبد الحق محدث بنارسی ، شیخ قاضی حسین بن محسن انصاری خزرجی ۔ شیخ یحیی بن محمد الحازمی ، قاضی عدن ، علامہ سید خیر الدین آلوسی زادہ جیسے اعلام اور اعیان سے کسب ِفیض کیا۔آپ کی مساعی جمیلہ روزِروشن کی طرح عیاں ہیں ۔ عربی ، فارسی ، اردو تینوں زبانوں میں دو سو سے زائد کتابیں تصنیف کیں او ردوسرے علماء کو بھی تصنیف وتالیف کی طرف متوجہ کیا،ان کے لیے خصوصی وظائف کا بندوبست کیا او راسلامی علوم وفنون کے اصل مصادر ومآخذ کی از سرنو طباعت واشاعت کاوسیع اہتمام کیا۔نواب محمدصدیق حسن خان نے علوم ِاسلامیہ کے تقریبا تمام گوشوں سے متعلق مستقل تالیفات رقم کی ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا دینی وعلمی موضوع ہو جس پر نواب صاحب نے کوئی مستقبل رسالہ یا کتاب نہ لکھی ہو۔حدیث پاک کی ترویج کا ایک انوکھا طریقہ یہ اختیار فرمایا کہ کتب ِاحادیث کے حفظ کا اعلان کیا۔ اوراس پرمعقول انعام مقرر کیا۔ چ...
شخصیت کی تعمیروترقی کا انحصارصحیح تعلیم و تربیت پر ہے، صحیح تعلیم و تربیت ایسا عنصر ہے جوشخصیت کے بناؤ اور تعمیر میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ یہ کام بچپن سے ہی ہو تو زیادہ موثر اور دیر پاہوتا ہے۔ بچوں کی تعلیم وتربیت اور شخصیت کی تعمیر میں صحیح رول ماں ہی ادا کرسکتی۔ اسی لیے کہا گیا کہ ’’ماں کی گودبچہ کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے۔‘‘ بچوں کی تعمیر و ترقی کا سر چشمہ ماں کی گود ہی ہے، یہیں سے ان کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ اس پہلی درسگاہ میں جو کچھ وہ سیکھتے ہیں اس کی حیثیت پتھر پر لکیر سی ہوتی ہے۔ یہ علم ایسا مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے جو زندگی بھر تازہ رہتاہے۔ اور ابتدائے زندگی کے نقوش خواہ مسرت کے ہوں یا ملا ل کے ہمیشہ گہرے ہوتے ہیں،یہی ابتدئی نقوش مسلسل ترقی کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اگر ماں ابتدا سے اپنے بچوں کو کلمہ توحید کی لوری دےتویقینا وہی کلمہ ان کے دل و دماغ میں اتر جائے اور مستقبل میں تناور درخت کی شکل اختیار کرے گا، اس کے بر خلاف اگر مائیں بچپن ہی سے اپنے بچوں کو غیر اسلامی باتیں سکھائیں یابچوں کا اٹھنا بیٹھنا غلط قسم کے لوگوں کے سات...
خطیبِ پاکستا ن مولانا محمد حسین شیخوپوری 1918ء ميں اس دنيا ميں تشريف لايا اور تقريباً پینسٹھ سال تك مختلف گلستانوں ميں چہچہاتا رہا اور وما جعلنا لبشر من قبلك الخُلد كے ازلى قانون كے تحت 6؍اگست 2005ء ميں ہميشہ كے لئے خاموش ہوگيا۔ آپ كو اللہ تبارك و تعالىٰ نے لحنِ داوٴدى عطا فرمايا تها اور جب آپ اپنى رسیلى اور سُريلى آواز سے قرآن كى آيات اور حضرت رسالت مآب كى مدح ميں اشعار پڑهتے تو لاكهوں سامعين وجد ميں آكر جهومنے لگتے۔ آپ نے كراچى تا خيبر چاروں صوبوں ميں لاتعداد جلسوں سے خطاب كيا، آپ كى زبان ميں الله تبارك و تعالىٰ نے بلا كى تاثير ركهى تهى۔جس جلسہ ميں آپ كا خطاب ہوتا اسے سننے كے لئے ديہاتوں كے گنوار اور شہروں كے متمدن لوگ يكساں طور پر كشاں كشاں چلے آتے۔ عموماً آپ كا وعظ رات ڈيڑھ دو بجے شروع ہوتا اور اذانِ فجر تك جارى رہتا۔ سامعين آپ كے وعظ كو يوں خاموش ہوكر سنتے جيسے ان كے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور اُنہيں يوں معلوم ہوتا تها كہ وحى الٰہى اب ہى نازل ہورہى ہے۔ بڑے سے بڑے مذہبى مخالف اپنے نرم و گرم بستروں كو چهوڑ كر آپ كى مجلسِ وعظ ميں آبیٹھتے تهے۔آپ ن...
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی۔جس کی بنیادظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔مغلیہ سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام تھا۔ تاہم اکبراعظم کے دور میں کچھ عرصے تک اکبر کا ایجاد کردہ مذہب (دین الٰہی) رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن اس کا عوام پر کوئی اثر نہ پڑا اور وہ بہت جلد ہی ختم ہوگیا۔ باقی تمام شہنشاہوں کے دور میں اسلام ہی سرکاری مذہب تھا اور مغل شہنشاہان اسلام کے بہت پابند ہوا کرتے تھے۔ان میں اورنگزیب عالمگیر زیادہ شہرت رکھتے تھے۔ باقی شہنشاہ بھی اسلام کی پیروی کے لحاظ سے جانے جاتے ہے۔انہوں نے نہ صرف اسلامی قوانین رائج کیے اور اسلامی حکومت کو برصغیر کے کونے کونے میں پھیلانے کی بھرپور کوشش کی۔مغلوں میں جانشینی کا کوئی قانون نہیں تھا ایک بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں اور رش...
ٹیپوسلطان برصغیرِ کا وہ اولین مجاہد آزادی اور شہید آزادی ہے جس نے آزادی کی پہلی شمع جلائی اور حریت ِفکر، آزادی وطن اور دینِ اسلام کی فوقیت و فضیلت کے لیے اپنی جان نچھاور کردی تھی، ٹیپوسلطان نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز قائم کیا اور پرچم آزادی کو ہمیشہ کے لیے بلند کیا تھا۔ ٹیپوسلطان 1750 میں بنگلور کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوا ۔ٹیپوسلطان کا نام جنوبی ہندوستان کے ایک مشہور بزرگ حضرت ٹیپو مستان کے نام پر رکھا گیا تھا، ٹیپوسلطان کے آباؤ اجداد کا تعلق مکہ معظمہ کے ایک معزز قبیلے قریش سے تھا جو کہ ٹیپوسلطان کی پیدائش سے اندازاً ایک صدی قبل ہجرت کرکے ہندوستان میں براستہ پنجاب، دہلی آکر آباد ہوگیا تھا۔ٹیپوسلطان کے والد نواب حیدر علی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے حامل شخص تھے جو ذاتی لیاقت کے بے مثال جواں مردی اور ماہرانہ حکمت عملی کے سبب ایک ادنیٰ افسر ’’نائیک‘‘ سے ترقی کرتے ہوئے ڈنڈیگل کے گورنر بنے اور بعد ازاں میسور کی سلطنت کے سلطان بن کر متعدد جنگی معرکوں کے بعد خود مختار بنے اور یوں 1762 میں باقاعدہ ’’سلطنت خداداد...
دور جدید میں نئی نسل کی تاریخ اسلام میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے وہ اسلام کے تاریخی واقعات پر مبنی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے بوریت محسوس کرتے ہیں حالانکہ ہر دور میں نئی نسل کے لیے بہادری کی ان داستانوں کا پڑھنا نہایت ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ ان عظیم لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں اور آنے والے دنوں کے لیے تاریخ میں اپنا اور اپنے ملک کا نام رقم کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ایسے بے شمار سپہ سالاروں سے نوازا جنھوں نے مختلف مواقع پر مسلمانوں کی بہت بڑی بڑی فتوحات سے ہمکنار کیا۔ زیر تبصرہ کتاب میں عبدالصمد مظفر نے ان میں سے 5 سپہ سالاروں کا انتخاب کیا ہے۔ جن میں خالد بن ولید ؓ، محمد بن قاسم، طارق بن یزید، یوسف بن تاشفین اور امیر تیمور کے نام شامل ہیں۔ اسلامی لشکر کے یہ جانباز سپہ سالار میدانِ جنگ میں دشمن کے لیے موت اور اپنوں کے لیےامن و راحت کے پیامبر تھے۔ اسلام کے ان عظیم سپہ سالاروں نے اپنی منزل کا تعین کرتے ہوئے جب بھی قدم بڑھائے تو رفعت و عظمت کے پھول ان کے استقبال کے لیے بکھرتے چلے گئے۔ ان عظیم سپہ سالاروں کی زندگی کے حالات و واقعات کے مطالعے سے قارئ...
برصغیر کے مسلمانوں نے حصول پاکستان کی جد و جہد میں جس ضبط و نظم، خلوص، ایثار اور قربانی کا عملی مظاہرہ کیاہے وہ یقینا ہماری تاریخ کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو ےنے والی نسلوں کے لئے مشعلے راہ کا کام دیتا رہے گا۔ یہ تریخی ورثہ ایک ایسا نادر سرمایہ ہےجس کی تانباکی ہر زمانے میں روشنی کے مینار کا کام دے گی۔ اس سرمائے کا تحفظ ہمارا قومی فریضہ ہے۔اگرچہ تحریک پاکستان پر مختلف زاویہ ہائے نظر سے کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن ان نامور خواتین کے حالات ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہو سکے جنہوں نے تحریک آزادی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاریخی حقائق اس امر کے متقاضی تھے کہ قوم کی اُن مایہ ناز خواتین کی جدو جہد آزادی اور سماجی وملّی خدمات کو ایک جامع اور مبسوط کتاب کی شکل میں محفوظ کر کے تاریخی ذمہ داریوں کو پورا کیا جائے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ پاکستان کی نامور خواتین‘‘ عزیز جاوید کی ہے جس میں کہ قوم کی اُن مایہ ناز خواتین کی جدو جہد آزادی اور سماجی وملّی خدمات کو ایک جامع اور مبسوط کتاب کی شکل میں محفوظ کر کے تاریخی ذمہ داریوں کو پورا کیا گیا...
آغا شورش کاشمیری پاکستان کےمشہور و معروف شاعر،صحافی، سیاستدان اوربلند پایہ خطیب تھے۔آغا شورش کاشمیری 14 اگست 1917ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام عبدالکریم تھا، لیکن آغا شورش کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ آپکی سیاسی علمی ادبی تربیت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ گھر میں ’’زمیندار‘‘ اخبار آتا اور مسجد شہید گنج کی تحریک نصف نہار پر تھی عبدالکریم اسکول سے فارغ ہوئے تو تحریک شہید گنج کا رخ کیا اور مولانا ظفر علی خان سے قربت میسر آ گئی۔ عبدالکریم پہلے ہی جوش و جذبہ کا سیل رواں تھے، بغاوت و آزادی کا ہدی خواں تھے، شمشیر برہاں تھے، آپ تخلص الفت کرتے اور زمانے میں شورش برپا کر رکھی تھی لہٰذا حسب مزاج الفت کو شورش کا نام دینا مناسب جانا بس مولانا ظفر علی خان تھے۔ تحریک شہید گنج تھی اور شورش کا جذبہ تھا کچھ کر گزرنے کا جنوں تھا۔ مولانا ظفر علی خان کی سیاست، صحافت، خ...
مولانا محمد ادریس ہاشمی جماعت غرباء اہل حدیث کا عظیم سرمایہ تھے انہوں نے تمام عمر جماعت کے ساتھ بے لوث وابستگی قائم رکھی اور تن من دھن سے جماعت کا کام کر کے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔اوائل عمرمیں ہی انہوں نے جماعت کے لیے کام کا آغاز کیا ۔سکول کی سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دوردراز علاقوں اور شہر وں میں دعوت وتبلیغ کا کاجاری رکھا اور مساجد ومدارس کی تعمیر وترقی میں رات دن مصروف ر ہے ۔زیر نظرکتاب میں مولانا محمد رمضان سلفی ﷾ نے ہاشمی صاحب مرحوم کی زندگی اور جماعتی خدمات کے گوشوں کو بڑی عمدگی سے اجاگر کردیا ہے اللہ مولانا ہاشمی مرحوم کے درجات بلند فرمائے او ر مولانا محمد رمضان یوسف سلفی کو صحت وسلامتی والی لمبی عمر عطاء فرمائے اور ان کا رواں قلم اسلاف کےحالات وواقعات پر سلامت روی سے چلتا رہے (آمین) (م۔ا)
مولانا محمد رمصان یوسف سلفی ﷾ علمی ،دینی اور تعلیمی حلقوں میں مختاج تعارف نہیں ہیں جماعت اہل حدیث پاکستان کےمعروف مقالہ نگار اور مصنف ہیں۔ان کی تصانیف پر ان کوایوارڈ دیئے جاتے ہیں اورعلمی ادبی حلقوں میں ان کو بہت پذیرائی حاصل ہے ۔ ان کے مضامین ومقالات مختلف موضوعات پر ملک کے مؤقر رسائل وجرائد میں شائع ہوتے ہیں رہتے ہیں سلفی صاحب کتاب ہذا کے علاوہ تقریبا 8 کتب کے مصنف ہیں ۔اللہ تعالی ان کے زورِ قلم میں مزید اضافہ فرمائے اور ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے(آمین) ۔ زیر نظر کتاب اللہ کے چار ولی ''مولانا سلفی کی تصنیف ہے جوکہ جماعت غرباء اہل حدیث کے بانی او رامام اول مولانا عبد الوہاب صدری دہلوی ،امام ثانی مولانا عبد الستار دہلوی ،امام ثالث مولانا عبد الغفار سلفی اور مولانا عبد الجلیل خان جھنگوی کے حالات پر مشتمل ہے (م۔ا)