انسانیت کےسب سے بڑےمحسن اورمعلم حضور اکرمﷺکےظہورقدسی کے وقت عرب میں پڑےلکھے لوگوں کی تعداد کس قدر محدود تھی!لیکن یہ فیضان ہے رسولﷺکی تعلیم وتربیت کا جنہوں نے ہرمسلمان مرد اور عورت کو تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی او ریوں انہوں نے نہ صرف یہ کہ علم وفن میں کمال پیداکیابلکہ صدیوں تک اس وقت کی دنیا کے معلم ہونےخوشگوار فریضہ بھی اداکرتےرہے۔ان میں جہاں بے شمار باکمال مردوں کےنام آتےہیں وہاں باکمال عوتوں کے کارنامےبھی ناقابل فراموش ہیں۔زیرنظر کتاب میں محتر م طالب ہاشمی صاحب نے ان چارسو باکمال خو تین کے احول لکھے ہیں جنہوں نے تاریخ اسلام میں کسی ناکسی لحاظ سے اہم ترین کردار اداکیاہے۔اور اس کامقصد یہ ہےکہ آج کے اس گئے گزر ے دور میں خوتین کے اندر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسرکرنےکا جذبہ پیداہو۔اللہ ان کے سعی کو قبول فرمائے۔اور سعادت درین کاذریعہ بنائے۔(ع۔ح)
انبیاءکےبعد اس دنیا میں سب افضل ہستی سیدناصدیق اکبر ؓہیں ۔انہوں نے آنحضرتﷺکے لیے اور اللہ کے دین کیلے اپناتن من دھن، الغرض پورے اخلاص کے ساتھ سب کچھ قربان کردیا۔وہ رسول ہاشمی کے خلیفۃء بلافصل ہیں ۔ وہ آپﷺکےانتہائی جانثار ساتھیوں میں سے تھے۔سیدناصدیق اکبر ؓکی حیات طیبہ پرمختلف زبانوں میں اب تک ایک سو زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور ان شاءاللہ آئندہ بھی لکھی جائیں گی۔اس کتاب میں ہاشمی صاحب نے ہتی الوسع کوشش کی ہے کہ وہ صدیق اکبر کی زندگی کےتمام پہلو وں کااحاطہ کریں۔اور شعیہ وسنی اختلافات کے تناظرمیں اپنے قلم کو معتدل رکھیں۔اسی طرح انہوں نےجہاں تفصیل او روضاحت کی ضرورت تھی وہاں اسی کےمطابق قلم چلایاہے۔اور جہاں اختصا راور ادب کی ضرورت تھی وہاں اختصارکو ملحوظ خاطر رکھاہے۔زبان کو انتہائی سادہ او رسلیس رکھاہے۔کتاب پڑتے وقت محسوس ہوتاہےکہ مصنف نے بڑی عرق ریزی سے کام لیاہے۔اللہ انہوں جزئےخیر سےنوازے۔آمین۔(ع۔ح)
صحابہ کرام ؓ وہ نفوس قدسی ہیں جن کو خاتم الانبیاﷺکےجمال جہاں آراسے اپنی آنکھیں روشن کرنے اور آپ کی مجلس نشینی کی سعادت نصیب ہوئی۔محسن انسانیت کے فیض صحبت نے ان کے شرف انسانیت کو جیتی جاگتی تصویر بنادیا۔ ان کاہر فرد خشیت الہی ،حق گوئی،ایثار،قربانی ،تقوی ،دیانت ،عدل اوراحسان کاپیکرجمیل تھا۔تمام علمائے حق کا اس بات پرکامل اتفاق ہےکہ صحبت رسول ﷺسے بڑھ کرکوئی شرف اور بزرگی نہیں۔اس صحبت سےمتمتع ہونےوالےپاک نفس ہستیوں کی عظمت اور حسن کردار پراللہ تعالی نے قرآن حکیم میں جابجامہر ثبت فرمائی ہے۔ان عظیم ہستیوں کی سیرت کا ایک بہترین مرقع تیار کرکے جناب طالب ہاشمی صاحب نے ہمارے ہاتھوں میں تھمادیاہے۔تاکہ ہم اس ان نقوش سے راہ ہدایت پاسکیں۔اور اپنی دنیا وآخرت کو بہتر بناسکیں۔اس سلسلے میں واضح رہے کہ صحابہ کرام ؓ کی سیرت کے حوالے سے ایک نہایت اہم باب مشاجرات صحابہ ہے جوکہ ایک انتہائی نازک باب ہے ہاشمی صاحب نےاس میں اہل سنت کےطریقےپرچلتےہوئے کف لسان کامؤقف اختیار کیا ہے۔(ع۔ح)
تاریخ اس امر پرشاہد عادل ہےکہ حضورﷺنےمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کی تشکیل وتاسیس فرمائی تو اللہ تعالی کے فضل عمیم سے حضور کی تبلیغی مساعی کےنتیجےمیں آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں صرف دس برس کے قلیل عرصےمیں سلطنت اسلامی کا حصہ دس لاکھ مربع میل اور ایک رائے کے مطابق بارہ لاکھ مربع میل وسیع ہوگیا ۔اتنی تھوڑی سی مدت میں اتنی عظیم کامیابی کاراز آپﷺکا وہ تبلیغی نظام تھاجو رب کائنات نےآپ کو سجھایا تھا۔اس وسیع تبلیغی نظام میں وفود کاکردار بھی بیحد اہمیت کاحامل ہے کیونکہ ان لوگوں نےاپنے قبائل میں تبلیغ کا فریضہ بڑی سرگرمی سے انجام دیا۔یہ کہانابجاہوگا کہ وفود کا تذکرہ سیرت طیبہ کاایک اہم باب ہے۔یہ وفود مختلف النوع مقاصد کی حاطر آنحضرت کی خدمت میں آیاکرتےتھے۔ان مقاصدمیں سے تلاش حق،تفقہ فی الدین،مفاخرت،خوابوں کی تعبیر،صلح وامن کا پیغام اوربعض آپ کو شہید کرنےکے ناپاک عزائم کیلے آئے تھے۔زیر نظرکتاب میں ،محترم جناب طالب ہاشمی صاحب نےسیرت طیبہ کے اسی باب کو بڑے احسن اندازمیں بیان کرنےکی کوشش فرمائی ہے۔(ع۔ح)
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓتاریخ اسلام کی نہایت اہم اور قدآور شخصیت ہیں۔اگرچہ سرور کائنات کی رحلت کےوقت ان کی عمر نودس برس سے زیادہ نہ تھی ،تاہم اپنےشرف خاندانی فضل وکمال ،زہدوتقوی ،حق گوئی ،شجاعت اور دوسری متعدد خصوصیات کی بناپران کاشمار اکابرصحابہ میں ہوتاہے۔اسلام کی تاریخ مرتب کرتےوقت کسی مؤرخ کیلےیہ ممکن نہیں کہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓکی شخصیت کو نظر انداز کرسکے۔تاریخ اسلام یا صحابہ میں سے عبداللہ کےنام کی چار شخصیات ملتی ہیں ،عبداللہ بن عمر ؓ،عبداللہ بن عباس ؓ،عبداللہ بن مسعود ؓاورعبداللہ بن زبیر ؓ۔ اگرچہ ان سب کے اپنے اپنے کارہائے نمایاں ہیں لیکن عبداللہ بن زبیر ؓکی اپنی شخصیت ہے۔یہ کتاب اسلام کےاسی فرزندجلیل کےحالات پر مشتمل ہے۔جناب طالب ہاشمی صاحب نےاسے مرتب کرتےوقت حتی المقدور کوشش کی ہےکہ اس رجل عظیم کی زندگی کا اہم واقعہ چھوٹنے نہ پائے۔اللہ انہیں جزائےخیر سے نوازے۔آمین۔(ع۔ح)
بچوں کے لیے عام طور پر ہمارے ہاں کہانیوں اور لطیفوں کی ایسی کتب مروج ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور زیادہ تر کہانیوں میں پیسے اور دولت کی محبت کا تاثر دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات اور کہانیاں بجائے بچوں کی تربیت کے ان کے اخلاقی بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ بچوں کےلیے ایسی کہانیاں مرتب کی جائیں جو ان کی دلچسپی کا بھی باعث ہوں اور ان کی بہتر تربیت بھی ہو سکے۔ ادارہ دار الابلاغ نے اس سلسلہ میں بہت اہم قدم اٹھایا ہے اور بچوں کےلیے بہت ساری کہانیاں مرتب کر کے شائع کی ہیں۔ ’ایمان کی روشنی‘ بھی اس سلسلہ میں آصف خورشید صاحب کی ایک دلکش کاوش ہے۔ جس میں صحابہ کرام کی زندگی کے واقعات کو قلمبند کیا گیا ہے۔ ان واقعات میں کھجوروں کی سرزمین، روشنی، سچا رب، امانت، انوکھی حکمت عملی، مدینے کا قیدی اور جھوٹا خدا شامل ہیں۔ یہ ایمان افرو زواقعات حقیقت میں ایمان کی تقویت کا باعث بنیں گے۔(ع۔م)
بڑے لوگوں کی بعض باتیں ان کے تجربے کی ترجمان اور ان کی زندگی کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’انمول موتی‘ میں ایسے لوگوں کی ان قیمتی باتوں کو جمع کیا گیا ہے جو ہماری زندگیوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ مشہور کہاوتیں، ضرب الامثال اور اقوال زریں کو بھی کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ جن لوگوں کے اقوال و ارشادات کو اس کتاب میں جگہ دی گئی ہے ان میں نبی کریمﷺ، صحابہ کرام، مسلم دانشور، سیاستدان اور بہت سارے مغربی مفکرین وغیرہ شامل ہیں۔ مغرب کی ایسی مثبت چیزیں جو اسلام سے متصادم نہیں ہیں ان کو لینے سے اسلام ہمیں منع نہیں کرتا۔ کیونکہ حکمت ایک مومن کی گمشدہ متاع ہے وہ جہاں سے بھی ملے اسے لے لینا چاہیے۔ محمد طاہر نقاش صاحب وقتاً فوقتاً بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کتب شائع کرتے رہتے ہیں یہ کتاب بھی ان کتب میں ایک اچھا اضافہ ہے جو بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کے لیے بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔(ع۔م)
نبی کریمﷺ اور آپ کی امت کے بہت زیادہ فضائل و خصائص ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو دوستوں اور دشمنوں کے درمیان فرق بتانے کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ اس لیے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ حضورﷺ پر اور جو کچھ وہ لائے ہیں اس پر ایمان نہ لائے اور ظاہر و باطن ان کا اتباع نہ کرے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت اور ولایت کا دعویٰ کرے اور حضور نبی کریمﷺ کی پیروی نہ کرے وہ اولیاء اللہ میں سے نہیں ہے۔ بلکہ جو ان سے مخالف ہو تو وہ اولیاء الشیطان میں سے ہےنہ کہ اولیاء الرحمٰن میں سے۔ اس موضوع پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے ’الفرقان‘ کے نام سے زیر نظر شاندار کتاب تالیف کی۔ جس میں اللہ کے دوستوں اور شیطان کے دوستوں کے مابین حقیقی فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگوں کو اولیاء اللہ کا درجہ دے دیا جاتا ہے جو دین کی مبادیات تک سے واقف نہیں ہوتے اور تو اور ایسے لوگ بھی ولی کے خطاب سے سرفراز ہوتے ہیں جنھیں زندگی میں کبھی نہانا بھی نصیب نہیں ہوا۔ ایسے میں شیخ الاسلام کی یہ کتاب ان جیسے خانہ زاد اولیاء کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ جس میں اولیاء اللہ کی پہچان کے ساتھ ساتھ بہت سارے اولیاء اللہ کا تعارف بھی کرایا گیا ہے۔ کتاب کا اردو ترجمہ مولانا غلام ربانی مرحوم نے کیا ہے۔(ع۔م)
صحابہ کرام ؓ اجمعین وہ نفوس قدسی ہیں جن کو خاتم الانبیاﷺکےجمال جہاں آراسے اپنی آنکھیں روشن کرنے اور آپ کی مجلس نشینی کی سعادت نصیب ہوئی۔محسن انسانیت کے فیض صحبت نے ان کے شرف انسانیت کو جیتی جاگتی تصویر بنادیا۔ ان کاہر فرد خشیت الہی ،حق گوئی،ایثار،قربانی ،تقوی ،دیانت ،عدل اوراحسان کاپیکرجمیل تھا۔تمام علمائے حق کا اس بات پرکامل اتفاق ہےکہ صحبت رسول ﷺسے بڑھ کرکوئی شرف اور بزرگی نہیں۔اس صحبت سےمتمتع ہونےوالےپاک نفس ہستیوں کی عظمت اور حسن کردار پراللہ تعالی نے قرآن حکیم میں جابجامہر ثبت فرمائی ہے۔ان عظیم ہستیوں کی سیرت کا ایک بہترین مرقع تیار کرکے جناب طالب ہاشمی صاحب نے ہمارے ہاتھوں میں تھمادیاہے۔تاکہ ہم اس ان نقوش سے راہ ہدایت پاسکیں۔اور اپنی دنیا وآخرت کو بہتر بناسکیں۔اس سلسلے میں واضح رہے کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین کی سیرت کے حوالے سے ایک نہایت اہم باب مشاجرات صحابہ ہے جوکہ ایک انتہائی نازک باب ہے ہاشمی صاحب نےاس میں اہل سنت کےطریقےپرچلتےہوئے کف لسان کامؤقف اختیار کیا ہے۔(ع۔ح)
اسلامی شریعت کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے اندرکسی بھی نقص واضافہ کی گنجائش قطعی طور پرنہیں ہے ،اللہ تعالی نے اپنے فرمان: ’’ آج کے دن میں نے تمہارےلئے تمہارےدین کومکمل کردیا ہےاورتمہارےاوپراپنی نعمت کاا تمام کردیاہے،اوراسلام کوبطوردین پسندکرلیا ہے‘‘ (المائدۃ :3) میں اس کی مکمل وضاحت فرمادی ہے ، اوراس کے عقائدواعمال کے اندرکسی بھی کمی وزیادتی کو سرےسے نکال دیاہے ، لیکن بدعت پرستوں اورشکم پرورعلماءنے مذکورہ آیت کریمہ کی دھجیاں اڑاتےہوئے دین میں بدعات وخرافات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا اوراسلامی عقائدوعبادات کواپنی بدعتی چیرہ دستیوں سے داغدار کرکےامت مسلمہ کے عام افرادکوگناہوں کے شکنجہ میں جکڑکرصحیح عقائدوافکار اوراعمال وافعال سے کوسوں دورکردیا ،جس کا نمونہ آپ ان بدعتی محافل ومجالس اور رسوم واعمال کے موقع سے ملاحظہ کرسکتےہیں ، جس میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے والے ان کے قیام اوردفاع میں جان کی بازی تک لگانے کو تیار ملیں گے، لیکن یہی جان فروش نمازپنجگانہ اورعقائدواعمال کی تصحیح کے لئےمنعقداجتماعات سے کوسوں دورنظرآئیں گے-الامان والحفیظ- بدعت پرستوں کی ایجادکردہ بدعتوں میں سے شعبان کی پندرہویں تاریخ کی رات میں کی جانے والی بدعتیں بھی ہیں جواسلام میں کئی صدیوں بعدایجاد کی گئیں، جن کاثبوت نہ اللہ کے کلام میں ہے، نہ رسول اللہ ﷺ کے اقوال وافعال میں اورنہ اتباع سنت کے خوگرصحابہ کرام ؓ کے عہدمیں ۔ زیرنظرکتابچہ کے اندر اسی موضوع پر " النصيحة لعامة المسلمين " کے جذبہ کے تحت خامہ فرسائی کی کوشش کی ہے تاکہ عام آدمی اسلامی معاشرےمیں پھیلے اس"مذہبی ناسور"کی حقیقت سےآشناہوکراپنے عقائدواعمال پرنظرثانی کرسکے اور انہیں کتاب وسنت کے موافق کرکے دنیا اورآخرت کی سرخروئی سے ہمکنارہوسکے۔ اللہ تعالی ہی صحیح راستے کی رہنمائی کرنے والاہے۔
اشرف المخلوقات حضرت انسان کا حقیقی معنوں میں کھویاہوامقام جنت ہے۔ابوالبشر سیدناآدم ؑ سے خطاسرزد ہونے کی بناپر،ہم اس حقیقی مقام سے نکال دیے گئے تھے تاہم پھر بھی اللہ تعالی کی یہ کرم ہےکہ اس نے بنی نوع انسان پر اپنی رحمت کے دروازے بندنہیں کیے۔اس نےہرامت کو احکامات کا ایک مجموعہ دیاتھا اور فرمادیاتھاکہ جو میرےان احکام پر چلے گاان پرعمل کرےگے وہ اپناکھویاہوامقام حاصل کرلےگا۔اورجس نےان احکام کی پابندی نہ کی اور نافرمانیاں کرتا رہاتو اسے اس عالی شان مقام سےمحروم کردیاجائےگا۔چناچہ اس کے حصول کیلے جدوجہد کرناہوگی۔محترم عظیم حاصل پوری صاحب نے اس مختصرسی کتاب میں ان گناہوں کی طرف اشارہ فرمایاہےجوعام طورپرہمارےروزمرہ معمول سے تعلق رکھتےہیں لیکن ہم ناچاہتےہوئے لاشعوری طور پرانکا ارتکاب کرجاتےہیں۔مزید برآں یہ ہےکہ وہ شرف انسانیت کے بھی خلاف ہیں۔ان کے اتکاب کی وجہ سے ایک انسان کے عزت ووقار پربھی حرف آتاہے۔اس لئے ان سے گریز اختیارکرناازبس ضروری ہے۔اللہ تعالی جناب عظیم صاحب کو اجر جزیل سے نوازے۔آمین۔(ع۔ح)
صحابہ کرام ؓ وہ نفوس قدسی ہیں جن کو خاتم الانبیاﷺکےجمال جہاں آراسے اپنی آنکھیں روشن کرنے اور آپ کی مجلس نشینی کی سعادت نصیب ہوئی۔محسن انسانیت کے فیض صحبت نے ان کے شرف انسانیت کو جیتی جاگتی تصویر بنادیا۔ ان کاہر فرد خشیت الہی ،حق گوئی،ایثار،قربانی ،تقوی ،دیانت ،عدل اوراحسان کاپیکرجمیل تھا۔تمام علمائے حق کا اس بات پرکامل اتفاق ہےکہ صحبت رسول ﷺسے بڑھ کرکوئی شرف اور بزرگی نہیں۔اس صحبت سےمتمتع ہونےوالےپاک نفس ہستیوں کی عظمت اور حسن کردار پراللہ تعالی نے قرآن حکیم میں جابجامہر ثبت فرمائی ہے۔ان عظیم ہستیوں کی سیرت کا ایک بہترین مرقع تیار کرکے جناب طالب ہاشمی صاحب نے ہمارے ہاتھوں میں تھمادیاہے۔تاکہ ہم اس ان نقوش سے راہ ہدایت پاسکیں۔اور اپنی دنیا وآخرت کو بہتر بناسکیں۔(ع۔ح)
جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ جب قبرص فتح ہوا،اوروہاں کےباشندوں میں افراتفری اور کہرام مچ گیاتو وہ ایک دوسرے کےآگے رونےدھونےاورواویلاکرنےلگے،اس اثنامیں ،میں نےدیکھاکہ ابودردا ؓاکیلے بیٹھےرورہےہیں،میں نے عرض کیاابودرداءکیاآج رونےکادن ہے؟جبکہ اللہ نےاسلام اورمسلمانوں کوجہاد کےذریعےعزت اوراکرام سےنوازا اوران پراپنافضل وکرم کیاہے۔ابودرداءنےجواب دیاجبیر!تمہارابراہو،تم نےنہیں دیکھاکہ کوئی مخلوق جب احکام الہی توڑ دیتی ہے،تواللہ تعالی کےسامنےاس کی کیاعزت رہ جاتی ہے،بھلاسوچوکہ کیاان لوگوں کو شان وشوکت حاصل نہیں تھی؟ کیاان کااپناکوئی بادشاہ نہیں تھا؟لیکن جب انہوں نےاحکام الہی کی نافرمانی کی اورانہیں ٹھکرادیا،تو ان کی کیادرگت بنی، تم یہ سب اپنی آنکھوں سےدیکھ رہےہو۔)حقیقت بھی یہی ہےکہ جب کو ئی قوم احکام الہی کو پس پشت ڈال دیتی ہےتو اس وقت اس کا عرج زوال میں بدل جاتاہے۔یہ کتابچہ اسی پہلوکی طرف ہماری توجہ مبذول کرواتاہے۔کہ وہ کو نسی وجوہات ہیں جن کی بناپرلوگ فرمودات ربانی کو ترک کردیتےہیں ۔تاکہ ان اسباب ووجوہات کا تدارک کیاجاسکے۔(ع۔ح)
صحابہ کرام ؓ وہ نفوس قدسی ہیں جن کو خاتم الانبیاﷺکےجمال جہاں آراسے اپنی آنکھیں روشن کرنے اور آپ کی مجلس نشینی کی سعادت نصیب ہوئی۔محسن انسانیت کے فیض صحبت نے ان کے شرف انسانیت کو جیتی جاگتی تصویر بنادیا۔ ان کاہر فرد خشیت الہی ،حق گوئی،ایثار،قربانی ،تقوی ،دیانت ،عدل اوراحسان کاپیکرجمیل تھا۔تمام علمائے حق کا اس بات پرکامل اتفاق ہےکہ صحبت رسول ﷺسے بڑھ کرکوئی شرف اور بزرگی نہیں۔اس صحبت سےمتمتع ہونےوالےپاک نفس ہستیوں کی عظمت اور حسن کردار پراللہ تعالی نے قرآن حکیم میں جابجامہر ثبت فرمائی ہے۔ان عظیم ہستیوں کی سیرت کا ایک بہترین مرقع تیار کرکے جناب طالب ہاشمی صاحب نے ہمارے ہاتھوں میں تھمادیاہے۔تاکہ ہم اس ان نقوش سے راہ ہدایت پاسکیں۔اور اپنی دنیا وآخرت کو بہتر بناسکیں۔(ع۔ح)
صحابہ کرام ؓ اجمعین وہ نفوس قدسی ہیں جن کو خاتم الانبیاﷺکےجمال جہاں آراسے اپنی آنکھیں روشن کرنے اور آپ کی مجلس نشینی کی سعادت نصیب ہوئی۔محسن انسانیت کے فیض صحبت نے ان کے شرف انسانیت کو جیتی جاگتی تصویر بنادیا۔ ان کاہر فرد خشیت الہی ،حق گوئی،ایثار،قربانی ،تقوی ،دیانت ،عدل اوراحسان کاپیکرجمیل تھا۔تمام علمائے حق کا اس بات پرکامل اتفاق ہےکہ صحبت رسول ﷺسے بڑھ کرکوئی شرف اور بزرگی نہیں۔اس صحبت سےمتمتع ہونےوالےپاک نفس ہستیوں کی عظمت اور حسن کردار پراللہ تعالی نے قرآن حکیم میں جابجامہر ثبت فرمائی ہے۔ان عظیم ہستیوں کی سیرت کا ایک بہترین مرقع تیار کرکے جناب طالب ہاشمی صاحب نے ہمارے ہاتھوں میں تھمادیاہے۔تاکہ ہم اس ان نقوش سے راہ ہدایت پاسکیں۔اور اپنی دنیا وآخرت کو بہتر بناسکیں۔اس سلسلے میں واضح رہے کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین کی سیرت کے حوالے سے ایک نہایت اہم باب مشاجرات صحابہ ہے جوکہ ایک انتہائی نازک باب ہے ہاشمی صاحب نےاس میں اہل سنت کےطریقےپرچلتےہوئے کف لسان کامؤقف اختیار کیا ہے۔(ع۔ح)
علوم اسلامیہ میں سےعلم حدیث کی قدرومنزلت اورعزت وشرف کسی بھی اہل علم سے پنہااورمخفی نہیں ہے۔روایات کی صحت وضعف کی پہچان ایک کھٹن مرحلہ ہےجس میں آدمی کو کمال بصیرت کی ضرورت ہے۔اللہ تعالی محدیثن کرام اجمعین پراپنی رحمت اور فضل کی انتہاکردےجنہوں نےدوردراز کےسفرکی صعوبتوں کو طےکیااوربڑی محنت اورجانفشانی سےاس کےاصول وضوابط مقرر فرمائےاورعلل وشذوذ کی گھتیوں کو سلجھایااورجمع مرویات کے رواۃ کی حالات زندگی مرتب کی ان کی تاریخ ولادت ووفات ، علمی رحلات ،اساتذہ ومشائخ اورتلامذہ کاتعین اورثقاہت وضعف،عدالت وضبط وغیرہ جیسے کئی امور منضبط کیےتاکہ طالب حدیث کیلے کسی قسم کی تشنگی باقی نہ رہے۔ان ائیمہ کےاصول وضوابط میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہےکہ جب ایک کمزور روایت کو تعدد طرق حاصل ہوجائےاورضعف شدید نہ ہوتووہ درجہ ءاحتجاج تک پہنچ جاتی ہے۔علامہ البانی نے اسی قاعدےکےتحت اپنےسلسلہء صحیحہ میں کچھ روایات جمع کی تھیں۔جب کہ یہ قاعدہ محدثین کے ہاں مختلف ہے۔متقدمین کی بجائے متاخرین نےاسے زیادہ اہمیت دی ہے۔زیرنظرکتاب میں کچھ ایسی ہی ضعیف روایات کو جمع کیاگیاہے۔اللہ مولف کی کاوش کو ان کی کامیابی کاذریعہ بنائے۔(ع۔ح)
علوم کےمیدان میں تاریخ کاایک اپنامقام ہے۔بالخصوص دور جدید میں جب اجتماعی اور معاشرتی علوم نےایک خاص اہمیت اختیا ر کی ہےتو اس میں تاریخ کی اور زیادہ اہمیت بڑھ گئی ہے۔چناچہ اس سلسلے میں قدیم اور جدید تاریخ نگاروں میں جو خاص فرق آیا ہے وہ یہ ہےکہ پہلے دور میں تاریخ کو شخصیات کےحساب سےلکھاجاتاتھاجبکہ آج کے دور میں تاریخ علوم وفنون اور عام عوام کے حساب سےلکھاجانا پسند کیاجاتاہے۔زیرنظرکتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں راقم الحروف نے ہندستانی تاریخ کا خاص باب عہدمغلیہ کو لکھاہے اور علوم وفنون کےاعتبارسے لکھنےکی کوشش کی ہے۔یہ بہت زیاد ہ مشقت طلب کام ہے۔بلکہ بقول مولاناشبلی رحمۃ اللہ علیہ چیونٹیوں کےمنہ سےدانہ دانہ جمع کرکےخرمن تیارکرناپڑتاہے۔اور بقول مصنف کےقصہ نویسی اورخوش اعتقادی کی کہرتمام لٹریچر پرچھا ئی ہوئی ہے۔جس کےاندر نہ مختلف اولیا ئے کرام کےجداگانہ خدوخال نظرآتےہیں اور نہ ان کےعملی کارناموں سے صحیح واقفیت ہوتی ہے۔تاہم پھر بھی مصنف نے حتی الوسع اس پر بطریق احسن اور واضح انداز میں روشنی ڈالنےکی کو شش کی ہے۔اللہ انہیں جزائے خیر سےنوازے۔آمین۔(ع۔ح)
علامہ اقبالؒ ہماری قوم کے رہبر و رہنما تھے، انھوں نے بچوں کو بچوں سے شاہین بچے بنانے کے لیے باقاعدہ نظمیں لکھیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’اقبال کا شاہین‘ بھی ایسی ہی نظموں پر مشتمل ہے ان نظموں کو پروفیسر سعید انصاری صاحب نے مرتب کیا ہے۔یہ ایسی دلچسپ نظمیں ہیں کہ جن میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے بہت سے پہلو پوشیدہ ہیں۔ یہ نظمیں بچوں کو مجاہد و شاہین صفت اور باکردار مسلمان بننے کا سبق دیتی ہیں۔ ان نظموں میں ننھے منے بچوں کے لیے دلچسپ و سبق آموز کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔ یقیناً یہ دلچسپ نصیحت آموز و سبق آموز کہانیاں بچوں کے کردار کی تعمیر کر کے ان کو معاشرے میں مثالی افراد بنا کر امت مسلمہ کی قیادت و سیادت کا سبق دیں گی۔ ان دلچسپ نظموں کو زبانی یاد کر کے بچے بیہودہ لچر غزلوں گیتوں گانوں سے بچ سکیں گے اور سوچ و فکر اور عمل کے بہترین سانچے میں ڈھل کر اپنے والدین اور قوم و ملک کے لیے عزت و وقار اور نیک نامی کا باعث بنیں گے۔(ع۔م)
بچوں کے لیے عام طور پر ہمارے ہاں کہانیوں اور لطیفوں کی ایسی کتب مروج ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور زیادہ تر کہانیوں میں پیسے اور دولت کی محبت کا تاثر دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات اور کہانیاں بجائے بچوں کی تربیت کے ان کے اخلاقی بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ بچوں کےلیے ایسی کہانیاں مرتب کی جائیں جو ان کی دلچسپی کا بھی باعث ہوں اور ان کی بہتر تربیت بھی ہو سکے۔ ادارہ دار الابلاغ نے اس سلسلہ میں بہت اہم قدم اٹھایا ہے اور بچوں کےلیے بہت ساری کہانیاں مرتب کر کے شائع کی ہیں۔ اس حوالے سے محمد طاہر نقاش ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں جن کی شبانہ روز محنتوں سے یہ سلسلہ چلتا رہا ہے اور ہم امید کرتے ہیں اس کا تسلسل آگے بھی برقرار رہے گا۔ زیر نظر کتاب ’نیکی کی کلیاں‘ اسی سلسلہ میں ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی ایک تصنیف ہے موصوف بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ اس کتاب میں بھی بچوں کے لیے متعدد کہانیاں اور واقعات شامل کیے گئے ہیں یہ واقعات اور کہانیاں بچوں کو زندگی گزارنے کا سلیقہ و طریقہ بتاتے ہیں۔(ع۔م)
ہماری قومی زبان اردو اگرچہ ابھی تک ہمارے لسانی و گروہی تعصبات اور ارباب بست و کشاد کی کوتاہ نظری کے باعث صحیح معنوں میں سرکاری زبان کے درجے پر فائز نہیں ہو سکی لیکن یہ بات محققانہ طور پر ثابت ہے کہ ہند ایرانی تہذیب کی مظہر یہ زبان اس وقت دنیا کی دوسری بڑی بولی جانے والی زبان ہے۔ ہر بڑی زبان کی طرح اس زبان میں بے شمار کتب حوالہ تیار ہو چکی ہیں اور اس کے علمی، تخلیقی اور تنقیدی و تحقیقی سرمائے کا بڑا حصہ بڑے اعتماد کے ساتھ عالمی ادب کے دوش بدوش رکھا جا سکتا ہے۔ ایسی زبان اس امر کی متقاضی ہے کہ اسے صحیح طور پر لکھا بولا جا سکے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اردو بولنے یا لکھنے والے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد اپنی قومی زبان کی صحت کی طرف سے سخت غفلت برت رہی ہے۔ تلفظ اور املا کی غلطیاں، اہل قلم کیا اور دوسرے لوگ کیا سب سے بے تحاشا سرزد ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے یہ اصلاح زبان کے لیے کی گئی ایک کاوش ہے جس کے مصنف طالب الہاشمی ہیں کتاب کے شروع میں تلفظ کی غلطیوں پر ایک مضمون علامہ اسد ملتانی مرحوم اور املا کی غلطیاں کے عنوان سے جناب حامد علی خان مرحوم کا مضمون شامل کیا گیا ہے۔ بعض الفاظ کے اعراب میں چند بنیادی غلطیوں کو رقم کرنے کے بعد غلط تلفظ کی تین سو مثالیں بیان کی گئی ہیں اور اردو اِملا کے چند اہم اصول و قواعد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ وہ الفاظ جن کا اِملا عام طور پر غلط کیا جاتا ہے، دو سو ہم شکل الفاظ اور زبانِ خامہ کی 150 عام خامیوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں اردو کے سہ حرفی، چار حرفی، پانچ حرفی، چھ حرفی اور سات حرفی الفاظ کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔ وہ لوگ جو لکھنے لکھانے میں مصروف ہیں اور ایسے لوگ جو اس میدان میں نووارد ہیں اور اردو ادب کے ساتھ ہلکا سا بھی شغف رکھنے والوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔(ع۔م)
اسلام کاسیاسی نظام خلافت ہے اوراس نظام کی مثالی شکل خلافت راشدہ کے دور میں ہمیں نظرآتی ہے۔علمائے امت نے ہزاروں کتابیں لکھیں ہیں،جن سے اس کی توضیح کی گئی ہے۔ازاں جملہ ان کتابوں کے ایک کتاب شاہ ولی اللہ کی ہے۔اس کتاب میں بھی شاہ صاحب کا تبحر علمی اور قلمی روانی اپناایک اثردیکھاتی ہوئی نظرآتی ہے۔حضرت شاہ صاحب جہاں علوم نقلیہ وعقلیہ میں مہارت رکھتےتھےوہاں وہ ایک صوفی بھی تھے۔چناچہ اس کتاب میں حضرت شاہ صاحب نے تینوں طرح کا استدلا ل فرمایا ہے ۔اس میں مسلہ خلافت کی توضیح ،خلفائے راشدین کےفضائل ومناقب اور شیخین (ابوبکر وعمر ؓ)کی افضلیت وبرتری ثابت کرنےکی کو شش فرمائی ہے۔یہ کتاب دوحصوں میں منقسم ہےپہلے حصےکانام مقصداول ہےاور دوسرے حصےکانام مقصددوم ہے۔مقصداول میں قرآنی آیات ،احادیث نبویہ اوردلائل عقلیہ کے ساتھ خلفائے راشدین کی خلافت کو برحق ہوناثابت کیاگیاہے۔اورمقصددوم میں خلفائےراشدین کےکارناموں کابیان ہے۔مولاناعبد الشکور نےاسے بڑی دیانت داری کےساتھ اردوقالب میں ڈھالنےکی کوشش کی ہےاللہ ان کی محنت کو شرف قبول عطافرمائے۔(ع۔ح)
دنیا میں ایسے بہت سے عجوبے رونما ہو چکے ہیں، اور بہت سی ایسی عجیب و غریب حقیقتیں منکشف ہو چکی ہیں کہ جن کو انسانی عقل تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن آخر کار حضرت انسان کو ان حقائق کو تسلیم کیے بغیر چارہ کار نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ایسا ہو چکا ہوتا ہے اور اب بھی ہو رہا ہوتا ہے اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ان ناقابل یقین سچائیوں کو ماننا پڑتا ہے۔ زیر مطالعہ کتاب ’حیرت کی انتہا‘ میں ایسے بہت سے محیر العقول واقعات و حقائق بیان کیے گئے ہیں جو انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیں گے۔ ان معلومات کے مطالعے سے نوجوان ذہنوں کو مہمیز لگتی ہے، فکر کی دنیا پر ایک نئی کھڑکی کھلتی ہے اور اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات میں دلچسپی بڑھتی ہے۔ آپ کو ان صفحات پر دنیا کے دوسرے ملکوں اور معاشروں کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی نظر آئے گا۔ کتاب کے مرتبین طاہر نقاش اور نثار احمد میاں ہیں۔ کتاب میں موجود معلومات اور خبروں کے ماخذ کا کوئی اشارہ نہیں دیا اگر ان کا ماخذ بھی ساتھ ساتھ درج کر دیا جاتا تو کتاب کی افادیت میں اضافہ ہو جاتا۔ ویسے یہ معلومات اس قدر پرتکلف اور حیرت ناک ہیں کہ کتاب کو شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر بند کرنے کو جی نہیں چاہتا۔(ع۔م)
بچوں کے لیے عام طور پر ہمارے ہاں کہانیوں اور لطیفوں کی ایسی کتب مروج ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور زیادہ تر کہانیوں میں پیسے اور دولت کی محبت کا تاثر دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات اور کہانیاں بجائے بچوں کی تربیت کے ان کے اخلاقی بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ بچوں کےلیے ایسی کہانیاں مرتب کی جائیں جو ان کی دلچسپی کا بھی باعث ہوں اور ان کی بہتر تربیت بھی ہو سکے۔ اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے محترم طاہر نقاش نے تاریخ کے سچے واقعات کو کہانی کے انداز میں بیان کرنے کاسلسلہ شروع کیا ہے۔ ’اندلس کی شہزادی‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے اس کتاب میں اور بھی سچی تاریخی اسلامی تربیتی و منہجی کہانیاں ہیں جو بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کریں گے۔ (ع۔م)
بچوں کے لیے عام طور پر ہمارے ہاں کہانیوں اور لطیفوں کی ایسی کتب مروج ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور زیادہ تر کہانیوں میں پیسے اور دولت کی محبت کا تاثر دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات اور کہانیاں بجائے بچوں کی تربیت کے ان کے اخلاقی بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ بچوں کےلیے ایسی کہانیاں مرتب کی جائیں جو ان کی دلچسپی کا بھی باعث ہوں اور ان کی بہتر تربیت بھی ہو سکے۔ ادارہ دار الابلاغ نے اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے بچوں کے لیے کہانیوں کے انداز میں تاریخ کے سچے واقعات قلمبند کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’بغداد کا تاجر اور بچوں کی عدالت‘ کے مصنف محترم محمود احمد غضنفر ہیں جن کی درجنوں کتب صحابہ کی سیرت کے مختلف درخشاں پہلوؤں پر مقبول عام ہیں۔ بچوں کے لیے یہ ان کی پہلی کہانی ہے جسے انھوں نے عربی ادب سے اخذ کر کے لکھا ہے۔(ع۔م)
بچوں کے لیے عام طور پر ہمارے ہاں کہانیوں اور لطیفوں کی ایسی کتب مروج ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور زیادہ تر کہانیوں میں پیسے اور دولت کی محبت کا تاثر دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات اور کہانیاں بجائے بچوں کی تربیت کے ان کے اخلاقی بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ بچوں کےلیے ایسی کہانیاں مرتب کی جائیں جو ان کی دلچسپی کا بھی باعث ہوں اور ان کی بہتر تربیت بھی ہو سکے۔ اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے محترم طاہر نقاش نے تاریخ کے سچے واقعات کو کہانی کے انداز میں بیان کرنے کاسلسلہ شروع کیا ہے۔ ’جب فرشتہ بھیس بدل آ گیا‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں ایک فرشتہ اندھے کا روپ دھار کر زمین پر آ جاتا ہے اور پھر وہ اور بھی روپ بدلتا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد واقعات شامل کتاب کیے گئے ہیں۔ یہ مفید تربیتی کہانیاں ننھے مجاہد اور بعض دوسرے رسائل و جرائد سے اخذ کی گئی ہیں۔ (ع۔م)