انسان سے غلطی اور گناہ کا سرزد ہو جانا کوئی اچنبھےکی بات نہیں ہے لیکن گناہ ہو جانے کے بعد اس پر اترانا اور فخریہ انداز میں اس کو جتلانا نہایت خطرناک بات اور باعث ننگ و عار ہے۔ شیطان سے غلطی ہوئی کہ اس نے حکم خداوندی ماننے سے انکار کر دیا اسی طرح حضرت آدم و حوا ؑ سے بھی غلطی ہوئی لیکن فریقین کی غلطیوں میں فرق یہ تھا کہ ثانی الذکر نے اعتراف جرم کر لیا اور اپنی غلطی کی معافی کے خواستگار ہوئے تو اللہ نے ان کے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دئیے جبکہ اول الذکر نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تکبر و غرور کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا و آخرت میں لعنت کا مستحق بنا دیا۔ ایسے ہی خوش بخت انسان وہ ہے کہ جس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ فوراً اللہ کے سامنے دست دعا دراز کرے اور اللہ سے اپنے گناہ کی معافی طلب کرے یقیناً اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحمت سے مرحوم نہیں فرمائے گا۔ پیش نظر کتاب میں قرآن کریم اور ذخیرہ احادیث سے ان احادیث کا چناؤ کیا گیا ہے جن میں اللہ اور اس کے رسولﷺ نے خوشخبری سنائی ہے کہ اگر تم یہ اعمال کرو گے تو اللہ تمھارے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ کتاب کےمصنف محمد عامر اعوان نےاس سلسلہ میں تقریباً 65 اعمال کا تذکرہ کیا ہے ۔ احادیث کی مکمل تخریج کی گئی ہے اور ساتھ علامہ البانی ؒ کی تحقیق بھی درج کی گئی ہے ۔(ع۔م)
جہری نمازوں میں امام و مقتدی کا اونچی آواز میں آمین کہنا نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ بہت سی احادیث اس بات کی شاہد ہیں کہ آمین کہنا ایک مسنون عمل ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایک بڑا فقہی مسلک اونچی آواز میں آمین کہنے کا قائل نہیں ہے۔ اس موضوع پر فریقین کی جانب سے بہت لے دے ہو چکی ہے اور ہوتی رہتی ہے۔ بہرحال اس مسئلہ کو علمی انداز میں سمجھنے اور سلجھانے کی ضرورت ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’نماز میں اونچی آواز سے آمین کہنا‘ بھی، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اسی موضوع پر لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب دراصل اس عربی مقالے کا اردو ترجمہ ہے جو محترم محمد مظفر الشیرازی نے مدینہ یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے آخری سال میں ’القول الامین فی الجھر بالتامین‘ کے نام سے جمع کرایا۔ اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے حافظ عبدالرزاق اظہر نے اس کو اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ مؤلف نے الجہر بالتامین سے متعلقہ جتنی روایات بھی میسر آ سکیں ان کی مکمل طور پر تخریج کی ہے اور ہر حدیث پر صحت و سقم کے حوالے سے حکم لگایا ہے، حدیث کی جتنی بھی سندیں ہیں ان کا جدول بھی پیش کیا ہے، ہر ایک راوی کا حکم ضم کرنے کے ساتھ ساتھ اسی ترتیب سے آثار صحابہ کو بھی نقل کر دیا ہے اور ساتھ ساتھ مخالفین کے دلائل کا مناقشہ بھی کیا ہے۔ (ع۔م)
مسلم معاشروں کو اخلاقی بگاڑ کا شکار کرنے کے لیے مغرب نے ایسے درجنوں تہوار مستعار دے دئیے ہیں جن کا اسلامی تہذیب و ثقافت کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن ہمارے نام نہاد مسلمان شد ومد کے ساتھ ان مغربی تہواروں کو منانے میں مصروف ہیں۔ دینِ اسلام تفریح اور کھیلوں کا مخالف نہیں ہے لیکن تفریح کے نام پر اباحیت پسندی کسی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ زیر مطالعہ کتاب میں مولانا اختر صدیق نے انھی مغربی تہواروں کا اپنے مخصوص انداز میں تذکرہ کیاہے جو مسلم معاشروں میں بھی رواج پاچکے ہیں۔ اس سلسلہ میں انھوں نےبسنت، ویلنٹائن ڈے، خواتین کاعالمی دن اور اپریل فول وغیرہ جیسے تہواروں کو موضوع بحث بنایا ہے۔ مصنف نے تہواروں کی تاریخی اور شرعی حیثیت کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ چند اہل قلم اور فکر مند دانشوروں کے آرٹیکل بھی شامل کتا ب ہیں۔ تمام دلائل باحوالہ نقل کیے گئے ہیں۔ (ع۔م)
رمضان المبارک میں عام طور پر یہ مسئلہ پیش آتا ہے کہ تراویح کی جماعت کےساتھ فرض نماز ادا کی جائے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں احادیث مبارکہ اور سلف صالحین کا نقطہ نظر ملاحظہ کیا جائے تو اس کے جواز کے واضح ثبوت ملتے ہیں۔ یہ کتاب بھی، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اسی مسئلہ پر تصنیف کی گئی ہے۔ کتاب کے مؤلف نذیر احمد رحمانی نے دونوں طرف کے نقطہ ہائے نظر پر بہت واضح اندازمیں روشنی ڈالی ہے اور نوافل کی جماعت کےساتھ فرض نماز کے عدم قائلین کے دلائل کا شدو مد کے ساتھ محاکمہ کیاہے۔ دراصل آج سے نصف صدی قبل شیخ الحدیث حضرت مولانا نذیر احمد رحمانی سے اسی مسئلہ بارے سوال پوچھا گیاتھا جس کا آپ نے قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیا۔جس پر ایک دیوبندی عالم دین مولانا عامر عثمانی نے ماہنامہ ’تجلی‘ کے دو شماروں میں رد و قدح کیا۔ مولانا رحمانی مرحوم نے اس کا جواب الجواب ’ترجمان دہلی‘ میں چار مبسوط قسطوں میں دیاجس میں مولانا نے اس موضوع پر اس عالمانہ انداز میں گفتگو فرمائی کہ کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے دیا۔ افادہ عوام الناس کے لیے آپ کا جواب الجواب یکجا کتابی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ فاضل مدینہ یونیورسٹی مولانا طارق محمود ثاقب نے احادیث کی تخریج و تحقیق کر دی ہے علاوہ بریں حضرت مولانا عبدالحی انصاری نے پچاس کے قریب صفحات پر مشتمل مولانا رحمانی کا تعارف بھی شامل کتاب کر دیا ہے۔(ع۔م)
علامہ جاوید احمد غامدی صاحب اپنے تجدد پسندانہ نظریات کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ میڈیا کی کرم فرمائی کی وجہ سے علامہ صاحب کو روشن خیال طبقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ علامہ صاحب کےگمراہ کن اور منہج سلف سے ہٹے ہوئے نظریات پر بہت سے لوگوں نے مختلف انداز میں تنقید کی ہے۔ ڈاکٹر حافظ زبیر صاحب کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے غامدی صاحب کے خوشنما افکار کی قلعی کھولنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ نے نہایت سنجیدہ اور علمی انداز میں ہر فورم پر غامدی صاحب کے نظریات کو ہدف تنقید بنایا۔ زیر تبصرہ کتاب غامدی صاحب اور اہل سنت کے اصول استنباط اور قواعد تحقیق کے ایک تقابلی مطالعہ پر مشتمل ہے۔ یعنی اس کتاب میں غامدی صاحب کے اختیار کردہ اصولوں پر نقد کیا گیا ہے فروعات کو موضوع بحث نہیں بنایا گیا ہے۔ غامدی صاحب کے افکار پر نقد دو اعتبارات سے کیا گیا ہے۔ ایک کتاب و سنت کی روشنی میں اور دوسرا خود غامدی صاحب کے اصولوں کی روشنی میں۔ حافظ صاحب خاصیت ہےکہ شخصیات پر تنقید سے گریز کرتے اور ممکن حد تک نرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں اور صرف نظریات کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی خوبی ان کی زیر نظر تصنیف میں بھی واضح طور پر عیاں ہے۔ یہ کتاب ان مضامین پر مشتمل ہے جو کہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہوئے۔ بعد میں تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع 2006ء کے موقع پر انہی مضامین کو یکجا کرکے کچھ اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ ایک کتاب کی شکل دے کر شائع کردیا گیا۔ یہ اس کتاب کا پہلا پمفلٹ ایڈیشن تھا جس کو ایک طرف تو علمی وفکری حلقوں میں کافی پذیرائی ملی جبکہ دوسری طرف عوام الناس کی طرف سے اسے آسان فہم بنانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا۔ لہذا جس حد تک ممکن ہو سکتا تھا مصنف نے اپنی طرف سے اس کتاب کو آسان سے آسان تر بنانے کی کوشش کی ، اور اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ کچھ ہی عرصہ بعد کچھ مزید اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ اس کتاب کا تیسرا نظرثانی شدہ ایڈیشن شائع کیا گیا۔ اب اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن شائع کیا جارہا ہے ۔چونکہ پہلے ایڈیشن کو باقاعدہ ایڈیشن شمار نہیں کیا گیا ہے لہذا اس ایڈیشن کو باقاعدہ طور پر تیسرے ایڈیشن کا نام دیا گیا ہے ۔ اس دوران مصنف کی غامدی صاحب سے براہ راست تین ، چار نشستیں بھی ہوئیں جن میں مصنف کو ان کے فکر کو مزید گہرائی میں سمجھنے کا موقع ملا۔ اس ایڈیشن میں کافی اضافے اور تہذیب وتنقیح بھی کی گئی ہے۔ (ع۔ ر)
کچھ عرصہ قبل حنفی علما کو محسوس ہوا کہ محدثین نے اپنی کتب میں جو احادیث جمع کی ہیں ان میں ہمارے مذہب کے دلائل بہت شاذ ہیں اور ان کی کتابوں میں ان کے فقہی رجحانات کا بہت اثر ہے۔ لہذا حنفی علما نے ایسی کتابیں لکھنے کا بیڑہ اٹھایا جن میں حنفی مذہب کے دلائل پر مشتمل احادیث جمع ہوں اس پر سب سے پہلے علامہ نیموی نے ’آثار السنن‘ کے نام سے کتاب لکھی اس کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی نے مولانا احمد حسن سنبھلی کے ساتھ مل کر حنفی مذہب کی مؤید احادیث اور شرح و بسط سے ان پر روایتاً و درایتاً بحث کرنے کی کوشش کی۔ یہ کام کتاب الحج پر پہنچا اور اس کی ایک جلد شائع ہوئی تو مولانا تھانوی نے اس کا جائزہ لینے کے بعد احمد حسن سنبھلی کو آڑے ہاتھوں لیا کہ انہوں نے اپنی طرف سے بہت کچھ بدل ڈالا تھا حتیٰ کہ مولانا تھانوی کی بہت سی تصحیحات کو بھی بدل دیا اور بقول ان کے کتاب کا اصل منہج ہی باقی نہ رہا۔ اس کے بعد مولانا عثمانی نے ا س کام کا بیڑا اٹھایا اور اس کو از سر نو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اس کا نام ’اعلاء السنن‘ رکھا گیا جو کراچی سے سولہ جلدوں میں شائع ہوا۔ زیر مطالعہ کتاب میں اسی کتاب ’اعلاء السنن‘ کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مولانا ارشاد الحق اثری معروف عالم دین اور تبحر علمی میں بے نظیر ہیں۔ آپ نے اس کتاب میں ’اعلاء السنن‘ کی فقہی مباحث سے تعرض نہیں کیا بلکہ ان قواعد اور اصولوں کو ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے جن کو مولانا عثمانی نے حدیث کی تصحیح و تضعیف میں اختیار کیا ہے۔ احناف کو آئینہ دکھانے والی یہ ایک نہایت سنجیدہ اور علمی کاوش ہے جس میں اہل علم کے لیے بہت سا سامان موجود ہے۔(ع۔م)
صحیح بخاری و صحیح مسلم سے متعلق امت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قرآن کے بعد یہ صحیح ترین کتابیں ہیں۔ ان کتابوں کے بارے علمائے امت کا یہ حکم بلاوجہ نہیں ہے احادیث کا اکثر و بیشتر ذخیرہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کے دور میں مشہور تھا اسی ذخیرہ سے انہوں نے صحیح احادیث پر مشتمل مجموعہ مرتب کیا۔ ایک ایک حدیث اور ہر ایک کی سند کی خوب چھان پھٹک کی، خوب تحقیق و تدقیق کے بعد صحت کا یقین ہوا تو اپنی کتب میں درج کیا۔ اس کے بعد سیکڑوں محدثین کی نظریں ان پر مرتکز رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کتابوں کو امت مسلمہ سے تلقی بالقبول حاصل ہوا۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگوں نے درایت و عقل کے حوالے سے صحیح احادیث کے رد کرنے کا شاخسانہ کھڑا کیا تو کسی نے صحیح بخاری و مسلم پر بلا جواز عمل جراحی کا شوق پورا فرمایا۔ اس بہتی گنگا میں مولانا حبیب الرحمٰن کاندھلوی نے بھی ہاتھ دھونا اپنا فرض سمجھا انہوں نے ’مذہبی داستانیں‘ نام سے کتاب لکھی جس میں انہوں نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث پر شدید نکتہ چینی کی بلکہ انہوں نے صحیح بخاری کو نامکمل کتاب قرار دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ امت مسلمہ کا اسے حدیث کا صحیح ترین مجموعہ قرار دینا بھی محض ایک مذہبی داستان ہے۔ اس کےعلاوہ بہت صحابہ کرام کے حوالہ سے بھی اوٹ پٹانگ باتیں لکھیں۔ زیر مطالعہ کتاب موصوف کی اسی کتاب کے جواب میں وجود میں آئی ہے۔ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ایک صاحب علم شخصیت اور حدیث و اصول حدیث کا خاص ذوق رکھتے ہیں انہوں نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ان احادیث کا بھرپور طریقے سے دفاع کیا ہے جن پر ’مذہبی داستانیں‘ میں تنقید کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں مقدمہ الکتاب میں کاندھلوی صاحب کی کتاب کا ایک طائرانہ جائزہ بھی پیش کر دیا گیا ہے جس سے مصنف کاندھلوی صاحب کی ’قیمتی‘ نگارشات کے خدوخال نمایاں ہو جاتے ہیں۔(ع۔م)
اللہ تعالیٰ نے جہاں رسول اللہﷺ کے ذریعے سے تجوید و قراء ات کے بہترین تلامذہ صحابہ کرام کی صورت میں پیدا فرمائے وہیں پر حضرات صحابہ رسم قرآن کے بھی ماہر کے طور پر سامنے آئے۔ صحابہ کرام نے قرآن کے رسم میں جن امور کو ملحوظ رکھا وہ قابل داد اور حیرت انگیز ہیں۔ رسم قرآنی پر علما و ائمہ نے بہت سی کتب تحریر فرمائیں جن میں علامہ دانی، علامہ شاطبی اور علامہ الخراز وغیرہم کے نام شامل ہیں۔ اردو زبان میں اس موضوع پر بہت قلیل کام ہوا ہے۔ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے شیخ القرا قاری ادریس العاصم نے پیش نظر کتاب ترتیب دی ہے۔ کتاب کا پہلا حصہ تاریخ رسم سے متعلق ہے، دوسرے حصے میں مصاحف عثمانیہ کی تصاویر اور دیگر مختلف ادوار کے مصاحف اور آنحضرتﷺ کے دو نامہ مبارکہ کی تصاویر ہیں جو اس لیے شامل کتاب کی گئی ہیں تاکہ مختلف ادوار میں طرز تحریر سے آگاہی حاصل ہو۔ تیسرے حصے میں رسم قرآن کے اصول بتائے گئے ہیں، چوتھے حصے میں ان اصولوں کے مطابق پورے قرآن کے غیر قیاسی کلمات قرآنی کو بیان کیا گیا ہے۔ پانچواں اور آخری حصہ علم الضبط پر مشتمل ہے۔(ع۔م)
علامہ جاوید احمد غامدی صاحب اپنے تجدد پسندانہ نظریات کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ میڈیا کی کرم فرمائی کی وجہ سے علامہ صاحب کو روشن خیال طبقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ علامہ صاحب کےگمراہ کن اور منہج سلف سے ہٹے ہوئے نظریات پر بہت سے لوگوں نے مختلف انداز میں تنقید کی ہے۔ ڈاکٹر حافظ زبیر صاحب کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے غامدی صاحب کے خوشنما افکار کی قلعی کھولنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ نے نہایت سنجیدہ اور علمی انداز میں ہر فورم پر غامدی صاحب کے نظریات کو ہدف تنقید بنایا۔ زیر تبصرہ کتاب غامدی صاحب اور اہل سنت کے اصول استنباط اور قواعد تحقیق کے ایک تقابلی مطالعہ پر مشتمل ہے۔ یعنی اس کتاب میں غامدی صاحب کے اختیار کردہ اصولوں پر نقد کیا گیا ہے فروعات کو موضوع بحث نہیں بنایا گیا ہے۔ غامدی صاحب کے افکار پر نقد دو اعتبارات سے کیا گیا ہے۔ ایک کتاب و سنت کی روشنی میں اور دوسرا خود غامدی صاحب کے اصولوں کی روشنی میں۔ حافظ صاحب خاصیت ہےکہ شخصیات پر تنقید سے گریز کرتے اور ممکن حد تک نرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں اور صرف نظریات کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی خوبی ان کی زیر نظر تصنیف میں بھی واضح طور پر عیاں ہے۔ یہ کتاب دراصل ان مضامین کا مجموعہ ہے جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں شائع ہوتے رہے۔ ان مضامین کو اس سے قبل بھی یکجا صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ اب کے بار اس کتاب میں کافی سارے اضافوں کے ساتھ افادہ قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ جو یقیناً علمی حلقوں کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ (ع۔ م)
ہر انسان کو زندگی میں متعدد مقامات پر ایسے سانحات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ا س کے لیے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے وہ غمگین اور پریشان ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور ایسے افعال کے مرتکب ہو جاتے ہیں جن سے شریعت نے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ دین اسلام نے اس سلسلہ میں بہت جامع احکامات دئیے ہیں جن میں انسانی نفسیات کا پاس وو لحاظ کیا گیا ہے اور جو فطرت کےعین مطابق ہیں۔ غموں اور تکلیفوں کے سلسلہ میں اگر شرعی احکامات کو سامنے رکھا جائے تو یقین مانیے بہت سے عرصہ دراز سے لا ینحل مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک سنجیدہ کاوش ہے جس میں محترم اختر صدیق صاحب نے پریشانیوں اور غموں سے نبرد آزما ہونے اور ان سے چھٹکارا پانے کےستائیس کے قریب علاج رقم کیے ہیں۔ دراصل شیخ صالح المنجد نے اسی موضوع پر ’علاج الہموم‘ کے نام سے ایک مختصر کتابچہ تالیف کیا تھا جس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے مولانا نے اس میں بہت سارے اضافہ جات اور مناسب ترمیم کے بعد اردو دان طبقہ کے لیے پیش کیا ہے۔کتاب کا اسلوب اور زبان کا استعمال سادہ اور عام فہم ہے۔ مولانا نے کتاب کے شروع میں کتاب کی چند قسمیں بیان کرنے کے بعد براہ راست کتاب و سنت سے اخذ کرتے ہوئے غموں سے نجات کے طریقے بتلائے ہیں۔ کتاب کے آخر میں غموں کو ختم کرنے کے لیے ابن قیم کے بیان کردہ پندرہ نکات کا خلاصہ بھی درج کیا گیا ہے ۔ غموں اور پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے اور اس سلسلہ میں شرعی رہنمائی سے آگاہی کے لیے80 صفحات پر مشتمل اس کتابچے کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ (ع۔م)
کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ نبی کریمﷺ کو پوری مخلوق سے زیادہ محبت نہ کرے۔ آج امت کی بہت بڑی تعداد زبانی طور پر نبی کریمﷺسے محبت کا دم تو بھرتی ہے لیکن آنحضرتﷺ سےمحبت کی حقیقت، اس کےتقاضوں اور علامتوں سے غافل ہے۔ نبی کریمﷺ سے محبت کے ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی نے پنےمخصوص انداز میں زیر نظر کتاب مرتب کی ہے۔ جس میں ان سوالات کےجوابات دینےکی کوشش کی گئی ہے: نبی کریمﷺ سے محبت کا حکم کیا ہے؟ نبی کریمﷺ سے محبت کے دنیا و آخرت میں کیا فوائد ہیں؟ نبی کریمﷺ سے محبت کی کیا علامات ہیں؟ صحابہ کرام آپﷺ سے محبت کی علامتوں کے اعتبار سے کیسےتھے؟ اور ہم آپﷺ سے محبت کی علامتوں کے اعتبار سے کیسے ہیں؟ اس موضوع سے متعلق گفتگو کو تین مباحث میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مبحث اول نبی کریمﷺ کے ساتھ ساری مخلوق سے زیادہ محبت کرنے کی فرضیت، دوسری مبحث نبی کریمﷺ سے محبت کے فوائد و ثمرات اور تیسری اور آخری مبحث نبی کریمﷺ سے محبت کی علامتوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ کتاب کے آخر میں مصنف نے تین صفحات پر مشتمل مسلمانان عالم کو ایک تنبیہ کی ہے جس میں انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ ﷺ سے محبت میں کسی بھی طور اعتدال کا دامن ہاتھ نہیں چھوٹنا چاہیے۔(ع۔م)
قربانی ابراہیم ؑ کی عظیم سنت اور رسول مکرم ﷺ کا دائمی عمل ہے۔ پھر اہل اسلام کو اس اہم عمل کی خاصی تاکید کی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مسائل قربانی پر ایک ایسی جامع کتاب مرتب کی جائے جو قربانی کے تمام مسائل کو محیط ہو اور اس حوالہ سے کسی مسئلہ کا حل تشنہ نہ رہے۔ پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی کی زیر نظر کتاب اس سلسلہ کی ایک اہم کوشش و کاوش ہے۔ جس میں قربانی سے متعلقہ بہت سارے مسائل کو بالبداہت بیان کر دیا گیا ہے۔ جس میں قربانی کرنے والے کےلیے ناخن و بال کاٹنے کا حکم، میت کو قربانی میں شریک کرنا، قربانی کے جانور کی عمر، قربانی کے دن، قربانی نماز عید کے بعد کرنا، اونٹ اور گائے میں ایک سے زیادہ افراد کی شرکت اور قربانی کے گوشت کی تقسیم وغیرہ جیسے مسائل پر کتاب و سنت کی درست رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کے آخر میں ماہ ذوالحجہ کے آخری دس دنوں کی فضیلت و اہمیت بھی بیان کر دی گئی ہے۔ اہل حدیث علما کے مابین ایک اختلافی مسئلہ میت کی طرف سے قربانی کے جواز یا عدم جواز کا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب نے میت کی طرف سے قربانی کے جواز کی جانب رجحان ظاہر کیا ہے۔ جبکہ مولانا عبدالمنان نورپوری ؒ اور دیگر بہت سے اہل حدیث علما کا موقف اس سے مختلف ہے۔ بہر حال قربانی کے عمومی مسائل سے واقفیت کے حوالہ سے یہ کتاب لائق مطالعہ ہے۔(ع۔م)
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایک معجزہ اور نہایت بابرکت کتاب ہے۔ جس کی تلاوت کرنا اور اپنے عمل کا حصہ بنانا لازم و ملزوم ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانان اسلام کی قرآن کے ساتھ جذباتی وابستگی تو ضرور ہے لیکن قرآنی احکامات سے انحراف بھی مسلمانوں کی زندگی کا جزو لازم بن گیا ہے۔ اسی وجہ سے ہرگزرتے دن کے ساتھ غیر مسلم شدت پسند طبقہ کی جانب سے اہانت قرآن کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کیا جائے اور اس کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معانی کو سمجھا جائے اور عمل کا حصہ بنایا جائے۔ قرآن کریم کی اہمیت و فضیلت سے یقیناً تمام لوگ واقف ہیں۔ اس کے مقام و مرتبے کا کسی حد تک اندازہ اس سے ہی ہو سکتا ہے کہ یہ انسانوں کے رب کی اپنے بندوں سے کیا جانے والا کلام ہے۔اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت لکھا جا رہا ہے۔ زیر مطالعہ کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک اہم کاوش ہے جس میں قرآن مجید میں غوطہ زن ہو کر ا س کے خصائص و محاسن تلاش کیے گئے ہیں۔ کتاب کی تالیف کرنے والے دو حضرات میاں انوار اللہ اور ڈاکٹر حافظ محمد شہباز حسن ہیں۔ جنھوں نے نہایت عرق ریز ی کے ساتھ جہاں مقام قرآن کے حوالے سے اہم نگارشات پیش کی ہیں وہیں قرآن سے متعلقہ دیگر بہت سے مسائل پر علمی انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ (ع۔م)
نماز میں رفع الیدین کرنا نبی کریمﷺ کی سنت ثابتہ ہے لیکن بہت سے لوگ مختلف دلائل کے باوصف رفع الیدین کے بغیر نماز ادا کرتے ہیں۔ کبھی اس کو منسوخ قرار دیا جاتا ہے تو کبھی سنت متواترہ کے خلاف ہونے کا نعرہ مستانہ بلند کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اشتہارات یا رسائل میں ایسے مضامین شائع کیے جاتے ہیں جن میں رفع الیدین کے منسوخ ہونے کا فتویٰ دیا جاتا ہے۔ چند سال قبل فیصل آباد سے اسی قسم کا ایک اشتہار شائع ہوا جس میں ترک رفع الیدین کے دلائل جمع کیے گئے تھے حافظ محمد ادریس کیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس اشتہار کا مدلل تجزیہ کیا اور عدم رفع الیدین کے تمام دلائل کا نہایت شرح و بسط کے ساتھ جواب دیا۔ جو ماہنامہ ’حرمین‘ جہلم میں دو اقساط میں شائع ہوا۔ یہ مضمون زیر نظر کتابچہ کی صورت میں پیش کیے جارہے ہیں۔ (ع۔م)
عام زندگی میں ہر انسان کو خوابوں سے واسطہ رہتا ہے جہاں انسان اچھا خواب دیکھ کر خوش ہوتا ہے وہیں برا خواب دیکھ کر پریشان بھی ہو جاتا ہے۔ خوابوں سے متعلق مناسب شرعی رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے لوگ فقط نیند میں نظر آنے والے واقعات پر کچھ غیر شرعی افعال سرانجام دینے لگتے ہیں۔ بہر حال شریعت مطہرہ نے اس سلسلہ میں بھی انسان کی کامل رہنمائی فرمائی ہے۔ پچاس کے قریب صفحات پر مشتمل زیر نظر کتابچہ میں مولانا اختر صدیق نے اسی شرعی رہنمائی کو اختصار کے ساتھ قلمبند کر دیا ہے۔ مولانا موصوف فاضل مدینہ یونیورسٹی اور جامعہ لاہور الاسلامیہ کے سابق استاد ہیں۔ کتابچہ کی دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے پہلے حصہ میں خواب کے آداب، اقسام اور خواب سے متعلقہ شرعی رہنمائی کا تذکرہ ہے جبکہ دوسرے حصہ میں اچھے اور بہترین خواب کے اسباب، کیا اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا جا سکتا ہے؟ نبی کریمﷺ کو خواب میں دیکھنا کیسا ہے؟ جیسے مباحث پیش کیے گئے ہیں۔ خوابوں سے متعلقہ شریعت کی عام تعلیمات سے واقفیت کے لیے اس کتابچہ کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔(ع۔م)
اللہ تعالیٰ نے خواتین کے لیے بہترین مقام ان کا گھر قرار دیا ہے۔ لیکن شریعت نے ضروری کاموں کے سلسلہ میں انھیں گھر سے باہر نکلنے کی بھی اجازت دی ہے۔ انہی ضروری کاموں میں ایک بازار جانا اور خریداری کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں ہماری بہت سی بہنوں کا انداز ہر گزرتے دن کے ساتھ بہت بے باکانہ ہوتا چلا جا رہا ہے، چھوٹی چھوٹی ضرورت کے لیے بازار جانا معمول بن گیا ہے، حالانکہ ایک ہی وقت میں بازار جا کر ضروری چیزیں خریدی جا سکتی ہیں۔ اور تو اور ہماری بہت سی بہنیں اپنی کلائیاں غیر محرم مردوں کے ہاتھوں میں دے کر چوڑیاں چڑھانے میں مصروف نظر آتی ہیں اس کے علاوہ ایک ناشائستہ حرکت خاص طور پر عید کے دنوں میں یہ دیکھنے میں آتی ہےکہ مہندی لگوانے کے لیے بھی مرد حضرات کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ بہر حال اس سلسلہ میں خواتین کو دینی تعلیمات کو یکسر فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ زیر مطالعہ کتابچہ بھی مولانا اختر صدیق نے اسی مقصد کے تحت تالیف کیا ہے کہ خاتون اسلام کو شاپنگ سے متعلقہ دینی احکامات سے آگاہی دی جائے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بہت سے اہم امور کی طرف اشارہ کیا ہے جن کا اگر خواتین اہتمام کریں تو بہت ساری خرابیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ خواتین کے لیے اس کتابچہ کامطالعہ خاصا مفید ہے۔(ع۔م)
قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایا۔ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایک معجزہ ہے اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ عرب لوگ باوجود فصیح و بلیغ ہونے کے قرآن کریم جیسی ایک آیت لانے سے بھی قاصر رہے۔ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے فلہٰذا ضروری ہے کہ قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح پڑھنے کا حق ہے ۔ اور یہ حق اسی طور پر ادا ہو سکتا ہے جب قرآن کو صحیح تلفظ اور قواعد تجوید کے مطابق پڑھا جائے۔ شیخ القرا قاری ادریس عاصم صاحب کو فن تجوید و قراءات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کی خدمات اظہر من الشمس ہیں زیر نظر رسالہ بھی اسی فن کے حوالہ سے آپ کا عوام و خواص کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔ جس میں عام فہم انداز میں تجوید کے قواعد اسی غرض سے جمع کیے گئے ہیں کہ حفاظ و طلبا اس کو آسانی سے یاد کر سکیں۔ اور ان قواعد کی روشنی میں قرآن کریم صحیح پڑھنے کی مشق کریں۔ کتاب میں ایک جگہ پر قاری صاحب نے مخارج کا نقشہ بھی پیش کیا ہے۔ علاوہ بریں بعض عیوب تلاوت اور علامات وقوف پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کے اخیر میں حافظ صاحب نے اپنی مکمل روایت حفص کی سند بھی لکھی ہے۔(ع۔م)
قاری ابراہیم میر محمدی علمی دنیا کی جانی مانی شخصیت ہیں خاص طور پر انہوں نے خدمت قرآن اور قراءات کے حوالے سے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں۔ عوام الناس کے قرآن کے تلفظ کی درستی کے لیے اور تجوید سے آگاہی کے لیے آپ نے کافی سارے کتابچے اور کتب لکھیں۔ زیر نظر رسالہ میں بھی موصوف قاری صاحب نے فن تجوید کے مسائل کو اختصار اور احسن انداز سے بیان کیا ہے، اور متشابہ الصوت حروف کی پہلے مفردات میں پھر مرکبات میں اور ساتھ ہی حرکات ثلاثہ کی آسان انداز سے مشق کرائی ہے۔ جس سے تلفظ کی درستی کے ساتھ ساتھ حرکات کو مجہول کی بجائے معروف پڑھنا بھی آ جائے گا۔ قاری صاحب نے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ ملتی جلتی آوازوں والے حروف اور دوسرا حصہ تجوید کے چند ضروری احکام پر مشتمل ہے۔ کتابچہ کے اخیر میں واضح الفاظ میں اس فن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ 66 صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ فن تجوید سے شد بد کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ (ع۔م)
جب اسلام کی دعوت جزیرۃ العرب سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلی اور کثیر آبادی اسلام کے سایہ امن و عاطفت میں آئی تو قرآن مجید کا سمجھنا، حدیث سے واقف ہونا، نت نئے مسائل کا استنباط کرنا اور بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کی ترجمانی اور مسلمانوں کی رہنمائی کا فرض انجام دینا علمائے کرام کے لیے فرض لازم ٹھیرا۔ اس کے لیے نہ ترجمہ کافی تھا، نہ عربی زبان کی سرسری واقفیت کام دے سکتی تھی بلکہ اس سے ایسی گہری فنی واقفیت ضروری تھی جس کی بدولت غلطی کا امکان کم سے کم اور کتاب وسنت کے علم و فہم اور صحیح ترجمانی کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت پیدا ہو، اس مقصد کے تحت عربی کے قواعد و ضوابط پر کامل عبور شرط لازم کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب صرف و نحو کی تدوین اور اس سلسلے میں کتابوں کی تصنیف کی ضرورت پیش آئی۔ اس سلسلہ میں جہاں عربی علما نے بہت سی قیمتی تصنیف فرمائی وہیں عجمی علما بھی ان سے کسی طور پیچھے نہیں رہے اور صرف و نحو کے قواعد پر مشتمل بیش بہا کتب تحریر فرمائیں۔ یاد رہے کہ فن صرف علم نحو ہی کی ایک شاخ ہے، شروع میں اس کے مسائل نحو ہی کے تحت بیان کیے جاتے تھے۔ مولانا مشتاق احمد چرتھاولی نے علم نحو پر کتاب تالیف فرمائی تو اس کو مدارس نے ہاتھوں ہاتھ لیا اس کے بعد انھوں نے ’علم الصرف‘ کے نام سےایک مختصر کتاب تصنیف فرمائی۔ پیش نظر کتاب ’علم الصرف اخیرین‘ اسی کتاب کا دوسرا حصہ ہے۔(ع۔م)
جب اسلام کی دعوت جزیرۃ العرب سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلی اور کثیر آبادی اسلام کے سایہ امن و عاطفت میں آئی تو قرآن مجید کا سمجھنا، حدیث سے واقف ہونا، نت نئے مسائل کا استنباط کرنا اور بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کی ترجمانی اور مسلمانوں کی رہنمائی کا فرض انجام دینا علمائے کرام کے لیے فرض لازم ٹھیرا۔ اس کے لیے نہ ترجمہ کافی تھا، نہ عربی زبان کی سرسری واقفیت کام دے سکتی تھی بلکہ اس سے ایسی گہری فنی واقفیت ضروری تھی جس کی بدولت غلطی کا امکان کم سے کم اور کتاب وسنت کے علم و فہم اور صحیح ترجمانی کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت پیدا ہو، اس مقصد کے تحت عربی کے قواعد و ضوابط پر کامل عبور شرط لازم کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب صرف و نحو کی تدوین اور اس سلسلے میں کتابوں کی تصنیف کی ضرورت پیش آئی۔ اس سلسلہ میں جہاں عربی علما نے بہت سی قیمتی تصنیف فرمائی وہیں عجمی علما بھی ان سے کسی طور پیچھے نہیں رہے اور صرف و نحو کے قواعد پر مشتمل بیش بہا کتب تحریر فرمائیں۔ یاد رہے کہ فن صرف علم نحو ہی کی ایک شاخ ہے، شروع میں اس کے مسائل نحو ہی کے تحت بیان کیے جاتے تھے۔ مولانا مشتاق احمد چرتھاولی نے علم نحو پر کتاب تالیف فرمائی تو اس کو مدارس نے ہاتھوں ہاتھ لیا اس کے بعد انھوں نے ’علم الصرف‘ کے نام سے زیر نظر کتاب تصنیف فرمائی۔یہ قواعد صرف پر مشتمل ایک اہم تصنیف ہے جس میں صرف کے قواعد کی تفہیم کے لیے نہایت آسان انداز اختیار کیا گیا ہے تاکہ مدارس کے ابتدائی جماعتوں کے طلبا اس سے کسی مشکل میں پڑے بغیر استفادہ کر سکیں۔ (ع۔م)
جب اسلام کی دعوت جزیرۃ العرب سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلی اور کثیر آبادی اسلام کے سایہ امن و عاطفت میں آئی تو قرآن مجید کا سمجھنا، حدیث سے واقف ہونا، نت نئے مسائل کا استنباط کرنا اور بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کی ترجمانی اور مسلمانوں کی رہنمائی کا فرض انجام دینا علمائے کرام کے لیے فرض لازم ٹھیرا۔ اس کے لیے نہ ترجمہ کافی تھا، نہ عربی زبان کی سرسری واقفیت کام دے سکتی تھی بلکہ اس سے ایسی گہری فنی واقفیت ضروری تھی جس کی بدولت غلطی کا امکان کم سے کم اور کتاب وسنت کے علم و فہم اور صحیح ترجمانی کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت پیدا ہو، اس مقصد کے تحت عربی کے قواعد و ضوابط پر کامل عبور شرط لازم کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب صرف و نحو کی تدوین اور اس سلسلے میں کتابوں کی تصنیف کی ضرورت پیش آئی۔ اس سلسلہ میں جہاں عربی علما نے بہت سی قیمتی تصنیف فرمائی وہیں عجمی علما بھی ان سے کسی طور پیچھے نہیں رہے اور صرف و نحو کے قواعد پر مشتمل بیش بہا کتب تحریر فرمائیں۔ زیر نظر کتاب ’علم النحو‘ بھی اس سلسلہ کی ایک اہم کتاب ہے جو مدارس کی ابتدائی کلاسوں کے طلبہ کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ اور اکثر پاکستانی مدارس میں طلبہ کو یہی کتاب سبقاً پڑھائی جاتی ہے۔ کتاب کے مصنف مولانا مشتاق احمد چرتھاولی ہیں جنھوں نے نہایت آسان انداز میں قواعد نحو کو ترتیب دیا ہے۔ یہ کتاب بہت سالوں قبل لکھی گئی اس لیے اس کا اسلوب بھی خاصا پرانا ہوچکا ہے۔ دور جدید کے علما نے علم نحو و صرف پر جدید انداز میں کتب تالیف فرمائی ہیں جن کی اہمیت و افادیت اس کتاب سے بھی بڑھ کر ہے۔(ع۔م)
زیر مطالعہ کتاب کلمات قرآنیہ کے ضبط پرمشتمل ایک رہنما کتاب ہے، جس کا مقصد طالبان علم کو علم الضبط کے فنی مبحاحث سے روشناس کرانا ہے۔ کتاب کے مؤلف جامعہ لاہور الاسلامیہ کے سابق استاد اور مجلس التحقیق الاسلامی کے سابق رکن قاری محمد مصطفیٰ راسخ ہیں۔ صاحب علم شخصیت اور فن قراء ات میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔انہوں نے کتاب میں اس امر کی پوری کوشش کی ہے کہ عبارت انتہائی آسان، سلیس، عام فہم اور رواں ہو۔ بے جا طوالت سے اجتناب کرتےہوئے حتی المقدور مختصر اور جامع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب بارہ فصلوں پر مشتمل ہے۔ ہر فصل کے آخر میں تمرینات دی گئی ہیں تاکہ اصول کے حفظ کے ساتھ ساتھ عملی مشق بھی ہوتی جائے۔ کتاب کی افادیت میں یہ بات مزید اضافہ کر دیتی ہے کہ شیخ القرا قاری محمد ابراہیم میر محمدی نے اپنے قلم ثمین سے اس کی نظر ثانی کے ساتھ ساتھ متعدد مقامات پر اصلاح بھی فرمائی ہے۔ (ع۔م)
فقہا کی اختلافی آرا اور ان کے دلائل کاتنقیدی مطالعہ ایک دلچسپ موضوع ہے۔ تیسری اور چوتھی صدی کے فقہا نے اس موضوع کی طرف توجہ کی اور اختلاف فقہا پر مستقل کتابیں لکھیں۔ محمدبن نصر المروزی، محمد بن جریر طبری اور ابو جعفراحمد بن محمد الطحاوی نے اس موضوع پر بسیط کتب تحریر فرمائیں۔ برصغیر کے معروف فقیہ شاہ ولی اللہ نے اس موضوع پر دو رسالے تحریر فرمائے۔ ایک رسالہ تو اجتہاد و تقلید پر اصولی بحث ہے لیکن اس کتاب کا ایک باب اختلاف فقہا اور اس کے اسباب و علل پر ہے۔ شاہ صاحب کا دوسرا رسالہ ’رسالہ الانصاف فی بیان سبب الاختلاف‘ ہے۔ اس رسالہ میں ائمہ فقہا کے اسباب و علل پر بھی گفتگو کی ہے اور بعض اہم فقہی فقہی مسالک میں تطبیق کی سعی بھی کی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں بھی پروفیسر مصطفیٰ سعید الخن نے اس موضوع پر اسلاف کے ذخیرہ علم کو پیش نظر رکھ کر قواعد اصولیہ کا علمی جائزہ لیا ہے اور قواعد اصولیہ میں اختلاف کی وجہ سے جو اثرات اختلاف الفقہا پر مرتب ہوئے ہیں ان کو بالتفصیل بیان کیا ہے۔ اس کتاب کی علمی حیثیت اور موجودہ دور میں اس کی افادیت کے پیش نظر شریعہ اکیڈمی نے اس کا اردو ترجمہ کرایا ہے۔ شریعہ اکیڈمی کے فاضل نوجوان مولانا حبیب الرحمٰن نے اس کتا ب کو اردو میں ترجمہ کرنے کا کام سرانجام دیا ہے۔ اصول فقہ اور قواعد اصولیہ کے فنی مباحث کو بڑی محنت سے انھوں نے رواں اردو میں منتقل کیا ہے۔ (ع۔م)
قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایا۔ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایک معجزہ ہے اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ عرب لوگ باوجود فصیح و بلیغ ہونے کے قرآن کریم جیسی ایک آیت لانے سے بھی قاصر رہے۔ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے فلہٰذا ضروری ہے کہ قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح پڑھنے کا حق ہے۔ فن تجوید پر اب تک اردو میں بہت سارے رسائل و کتب لکھی جا چکی ہیں۔ جن سے استفادہ کرنا نہایت سہل اور آسان ہے۔ اس سلسلہ کی بہت سی کتب کتاب و سنت ڈاٹ کام پر پہلے سے موجود ہیں۔ پیش نظر کتاب بھی انہی کتب میں ایک اضافہ ہے۔ جو کہ قاری ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کے چھوٹے بھائی قاری سلمان احمد میر محمدی کی کاوش ہے۔ قاری صاحب اپنی کتاب میں تجوید کے تقریباً تمام اساسی قواعد لے آئے ہیں اور نہایت سہل انداز میں لائے ہیں۔ مبادیات تجوید، مخارج، صفات سے لے کر ادغام اور سکتہ تک کے تمام تر قواعد کتاب کا حصہ ہیں۔کتاب کے آخر میں تجوید سے متعلقہ بعض ضروری مسائل بھی بیان کر دئیے گئے ہیں۔(ع۔م)
امام عبداللہ ابو محمد بن ابی زید القیروانی کا شمار چوتھی صدی ہجری کے محدثین و فقہا میں ہوتا ہے، آپ نے ’الرسالہ‘ کے نام سےایک مبسوط کتاب تالیف فرمائی۔ اور اس کتاب پر ایک جامع مقدمہ تحریر فرمایا۔ جو اگرچہ بہت مختصر ہے لیکن اس میں علوم و معارف اورمعانی و مطالب کا ایک بحر زخار موجزن ہے۔ بہ بات مبنی برحقیقت ہے کہ امام صاحب نے اصول و فروع کے حوالے سے ان چند سطور کے کوزے میں دریا بند کردیا ہے۔ اس مختصر مقدمہ کو وقت کے عظیم محدث، سابق وائس چانسلر مدینہ یونیورسٹی فضیلۃالشیخ عبدالمحسن بن حمد العباد نےایک نہایت نفیس اور لطیف شرح کے ساتھ مزین فرمایا ہے۔ آپ عصر حاضر میں منہج سلف صالحین کےامین و محافظ تصور کیے جاتے ہیں۔ تحریر و تقریر میں بہت نمایاں اور منفرد مقام کے حامل ہیں۔ اس کتاب میں شیخ موصوف نے ہر مسئلہ پر قرآن و حدیث کا انبار لگا دیاہے، نیز جا بجا ائمہ سلف کے ذکر سے کتاب کی اہمیت و افادیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ یہ کتاب اصول وفروع کا ایک حسین امتزاج ہونے کے ساتھ ساتھ، تمام مسائل عقیدہ کو کتاب وسنت، اقوال سلف صالحین کی روشنی میں پیش کرنے کا گرانقدر مجموعہ ہے۔(ع۔م)